• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
34-بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الشَّرِيكَ شَفِيعٌ
۳۴-باب: ساجھی دار کو حق شفعہ حاصل ہے​


1371- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ السُّكَّرِيِّ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الشَّرِيكُ شَفِيعٌ، وَالشُّفْعَةُ فِي كُلِّ شَيْئٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لاَنَعْرِفُهُ مِثْلَ هَذَا، إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي حَمْزَةَ السُّكَّرِيِّ. وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ، مُرْسَلاً وَهَذَا أَصَحُّ.
1371/م1- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ، نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ. وَلَيْسَ فِيهِ "عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ" وَهَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، مِثْلَ هَذَا. لَيْسَ فِيهِ "عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ" وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي حَمْزَةَ. وَأَبُو حَمْزَةَ ثِقَةٌ. يُمْكِنُ أَنْ يَكُونَ الْخَطَأُ مِنْ غَيْرِ أَبِي حَمْزَةَ.
1371/م2- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، نَحْوَ حَدِيثِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ. و قَالَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِنَّمَا تَكُونُ الشُّفْعَةُ فِي الدُّورِ وَالأَرَضِينَ. وَلَمْ يَرَوْا الشُّفْعَةَ فِي كُلِّ شَيْئٍ. وَقَالَ: بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: الشُّفْعَةُ فِي كُلِّ شَيْئٍ، وَالْقَوْلُ أَصَحُّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۷۹۵) (منکر)
( اس روایت میں ابوحمزہ سکری سے وہم ہواہے ، دیگرتمام ثقات نے ''عن ابن أبي ملیکۃ، عن النبي ﷺ'' مرسلاً روایت کی ہے ، نیز یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی دوسری صحیح روایت کے خلاف بھی ہے ، دیکھئے: الضعیفۃ رقم ۱۰۰۹)
۱۳۷۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''ساجھی دار کو حق شفعہ حاصل ہے اور شفعہ ہر چیز میں ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ہم اس حدیث کو اس طرح (مرفوعاً) صرف ابوحمزہ سکری ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔ ۲- اس حدیث کوکئی لوگوں نے عبدالعزیز بن رفیع سے اورعبدالعزیزنے ابن ابی ملیکہ سے اورابن ابی ملیکہ نے نبی اکرمﷺ سے مرسلا ً روایت کیا ہے۔ اوریہی زیادہ صحیح ہے۔
۱۳۷۱/م ۱- اس سند میں ہناد نے ابوبکربن عیاش سے ابوبکربن عیاش نے عبدالعزیزبن رفیع سے اور عبدالعزیز نے ابن ابی ملیکہ سے اور ابن ابی ملیکہ نے نبی اکرمﷺ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے ، اس میں ابن عباس کا واسطہ نہیں ہے، ۳- اوراسی طرح کئی اورلوگوں نے عبدالعزیز بن رفیع سے اسی کے مثل حدیث روایت کی ہے اور اس میں بھی ابن عباس کا واسطہ نہیں ہے، ۴ - ابوحمزہ (یہ مرفوع) کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ ابوحمزہ ثقہ ہیں۔ممکن ہے یہ خطا ابوحمزہ کے علاوہ کسی اور سے ہوئی ہو۔
۱۳۷۱/۲- اس سند میں ھناد نے ابوالاحوص سے اورابوالاحوص نے عبدالعزیزبن رفیع سے اورعبدالعزیزنے ابن ابی ملیکہ سے اورابن ابی ملیکہ نے نبی اکرمﷺ سے ابوبکربن عیاش کی حدیث کی طرح روایت کی ہے، ۶ - اکثر اہل علم کہتے ہیں کہ حقِ شفعہ کا نفاذ صرف گھر اور زمین میں ہوگا۔ ان لوگوں کی رائے میں شفعہ ہرچیز میں نہیں،۷- اور بعض اہل علم کہتے ہیں:شعفہ ہرچیز میں ہے۔ لیکن پہلاقول زیادہ صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
35-بَاب مَا جَاءَ فِي اللُّقَطَةِ وَضَالَّةِ الإِبِلِ وَالْغَنَمِ
۳۵-باب: گری پڑی چیز اور گمشدہ اونٹ اور بکری کا بیان​


1372- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَانِ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ أَنَّ رَجُلاً سَأَلَ رَسُولَ اللهِ ﷺ عَنِ اللُّقَطَةِ؟ فَقَالَ: "عَرِّفْهَا سَنَةً، ثُمَّ اعْرِفْ وِكَائَهَا وَوِعَائَهَا وَعِفَاصَهَا، ثُمَّ اسْتَنْفِقْ بِهَا، فَإِنْ جَاءَ رَبُّهَا فَأَدِّهَا إِلَيْهِ". فَقَالَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللهِ! فَضَالَّةُ الْغَنَمِ؟ فَقَالَ: "خُذْهَا، فَإِنَّمَا هِيَ لَكَ أَوْ لأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ". فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! فَضَالَّةُ الإِبِلِ؟ قَالَ: فَغَضِبَ النَّبِيُّ ﷺ حَتَّى احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ، أَوْ احْمَرَّ وَجْهُهُ. فَقَالَ: "مَا لَكَ وَلَهَا؟ مَعَهَا حِذَاؤُهَا وَسِقَاؤُهَا حَتَّى تَلْقَى رَبَّهَا".
حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ. وَحَدِيثُ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ.
* تخريج: خ/العلم ۲۸ (۹۱)، والشرب والمساقاۃ ۱۲ (۲۳۷۲)، واللقطہ ۲ (۲۴۲۷)، م/اللقطۃ ۱ (۱۷۲۲)، د/اللقطۃ ۱ (۱۷۰۴-۱۷۰۸)، ق/اللقطۃ ۱ (۲۵۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۶۳)، وط/الأقضیۃ ۳۸ (۴۶)، وحم (۴/۱۱۵) (صحیح)
۱۳۷۲- زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے لقطہ(گری پڑی چیز) کے بارے میں پوچھا، توآپ نے فرمایا: ''سال بھر تک اس کی پہچان کراؤ، پھر اس کا سربند ، اس کا برتن اور اس کی تھیلی پہچان لو، پھراسے خرچ کرلو اور اگر اس کا مالک آجائے تو اُسے ادا کردو''، اس آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! گمشدہ بکری کاکیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا:'' اسے پکڑکرباندھ لو، کیونکہ وہ تمہارے لیے ہے، یا تمہارے بھائی کے لیے، یا بھیڑ یے کے لیے''۔ اس آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! گمشدہ اونٹ کا کیا حکم ہے؟ اس پر نبی اکرمﷺناراض ہوگئے یہاں تک کہ آپ کے گال لال پیلا ہوگئے۔ یا آپ کا چہرہ لال پیلا ہوگیا اور آپ نے فرمایا:'' تم کواس سے کیا سروکار؟ اس کے ساتھ اس کا جوتا اور اس کی مشک ہے ۱؎ ( وہ پانی پر جاسکتا ہے اور درخت سے کھاسکتا ہے) یہاں تک کہ اپنے مالک سے جاملے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- زید بن خالد کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ان سے اوربھی طرق سے یہ حدیث مروی ہے۔ منبعث کے مولیٰ یزید کی حدیث جسے انہوں نے زید بن خالد سے روایت کی ہے حسن صحیح ہے،۳- اور ان سے یہ اوربھی کئی سندوں سے مروی ہے۔
وضاحت ۱؎ : جوتے سے مراد اونٹ کا پاؤں ہے اورمشکیزہ سے اس کا پیٹ جس میں وہ کئی دن کی ضرورت کا پانی ایک ساتھ بھرلیتا ہے اور باربارپانی پینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، اسے بکری کی طرح بھیڑیے وغیرہ کاخوف نہیں وہ خوداپنا دفاع کرلیتاہے اس لیے اسے پکڑکرباندھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔


1373- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ، أَخْبَرَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنِي سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ سُئِلَ عَنِ اللُّقَطَةِ فَقَالَ: عَرِّفْهَا سَنَةً. فَإِنْ اعْتُرِفَتْ، فَأَدِّهَا. وَإِلاَّ فَاعْرِفْ وِعَائَهَا وَعِفَاصَهَا وَوِكَائَهَا، وَعَدَدَهَا ثُمَّ كُلْهَا فَإِذَا جَاءَ صَاحِبُهَا فَأَدِّهَا.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَالْجَارُودِ بْنِ الْمُعَلَّى، وَعِيَاضِ بْنِ حِمَارٍ، وَجَرِيرِ بْنِ عَبْدِاللهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: أَصَحُّ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ، هَذَا الْحَدِيثُ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. وَرَخَّصُوا فِي اللُّقَطَةِ إِذَا عَرَّفَهَا سَنَةً فَلَمْ يَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا، أَنْ يَنْتَفِعَ بِهَا. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ: يُعَرِّفُهَا سَنَةً، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلاَّ تَصَدَّقَ بِهَا، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْكُوفَةِ، لَمْ يَرَوْا لِصَاحِبِ اللُّقَطَةِ أَنْ يَنْتَفِعَ بِهَا إِذَا كَانَ غَنِيًّا. و قَالَ الشَّافِعِيُّ: يَنْتَفِعُ بِهَا وَإِنْ كَانَ غَنِيًّا، لأَنَّ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ أَصَابَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ ﷺ صُرَّةً فِيهَا مِائَةُ دِينَارٍ، فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللهِ ﷺ أَنْ يُعَرِّفَهَا ثُمَّ يَنْتَفِعَ بِهَا، وَكَانَ أُبَيٌّ كَثِيرَ الْمَالِ مِنْ مَيَاسِيرِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ ﷺ. فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ ﷺ أَنْ يُعَرِّفَهَا، فَلَمْ يَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ ﷺ أَنْ يَأْكُلَهَا. فَلَوْ كَانَتِ اللُّقَطَةُ لَمْ تَحِلَّ إِلاَّ لِمَنْ تَحِلُّ لَهُ الصَّدَقَةُ، لَمْ تَحِلَّ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، لأَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ أَصَابَ دِينَارًا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ ﷺ فَعَرَّفَهُ، فَلَمْ يَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهُ، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ ﷺ بِأَكْلِهِ، وَكَانَ لاَ يَحِلُّ لَهُ الصَّدَقَةُ. وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ، إِذَا كَانَتِ اللُّقَطَةُ يَسِيرَةً، أَنْ يَنْتَفِعَ بِهَا وَلاَ يُعَرِّفَهَا. و قَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا كَانَ دُونَ دِينَارٍ يُعَرِّفُهَا قَدْرَ جُمْعَةٍ، وَهُوَ قَوْلُ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۳۷۴۸) (صحیح)
۱۳۷۳- زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے لقطہ (گری پڑی چیز)کے بارے میں پوچھاگیاتو آپ نے فرمایا:'' سال بھراس کی پہچان کراؤ ۱؎ ، اگرکوئی پہچان بتادے تواسے دے دو، ورنہ اس کے ڈاٹ اورسربندکو پہچان لو، پھر اُسے کھاجاؤ۔ پھرجب اس کا مالک آئے تو اُسے ادا کردو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- زید بن خالد کی حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے، ۲- احمدبن حنبل کہتے ہیں: اس باب میں سب سے زیادہ صحیح یہی حدیث ہے، ۳- یہ ان سے اوربھی کئی سندوں سے مروی ہے، ۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔ یہ لوگ لقطہ سے فائدہ اٹھانے کوجائز سمجھتے ہیں،جب ایک سال تک اس کا اعلان ہوجائے اور کوئی پہچاننے والانہ ملے ۔ شافعی ، احمد اوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،۵- اورصحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ وہ ایک سال تک لقطہ کا اعلان کرے اگر اس کا مالک آجائے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ اسے صدقہ کردے۔سفیان ثوری اور عبداللہ بن مبارک کا یہی قول ہے۔اوریہی اہل کوفہ کابھی قول ہے،۶- لقطہ اٹھانے والا جب مالدار ہوتو یہ لوگ لقطہ سے فائدہ اٹھانے کو اس کے لیے جائز نہیں سمجھتے ہیں،۷- شافعی کہتے ہیں: وہ اس سے فائدہ اٹھائے اگرچہ وہ مال دار ہو، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ابی بن کعب کو ایک تھیلی ملی جس میں سو دینار تھے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اس کا اعلان کریں پھر اس سے فائدہ اٹھائیں، اور ابی بن کعب صحابہ میں خوشحال لوگوں میں تھے اوربہت مالدارتھے، پھربھی نبی اکرمﷺنے انہیں پہچان کرانے کا حکم دیا اور جب کوئی پہچاننے والا نہیں ملا تو آپﷺنے انہیں کھاجانے کا حکم دیا۔ ( دوسری بات یہ کہ) اگر لقطہ صرف انہیں لوگوں کے لیے جائز ہوتا جن کے لیے صدقہ جائز ہے توعلی کے لیے جائز نہ ہوتا، اس لیے کہ علی کو نبی اکرمﷺکے زمانہ میں ایک دینار ملا،انہوں نے(سال بھرتک)اُس کی پہچان کروائی لیکن کوئی نہیں ملا جواسے پہچانتا تو نبی اکرمﷺنے انہیں کھا جانے کا حکم دیا حالاں کہ ان کے لیے صدقہ جائز نہیں تھا،۸- بعض اہل علم نے رخصت دی ہے کہ جب لقطہ معمولی ہو تو لقطہ اٹھانے والا اس سے فائدہ اٹھاسکتا ہے اوراس کا پہچان کرواناضروری نہیں ۲؎ ،۹- بعض اہل علم کہتے ہیں: جب وہ ایک دینارسے کم ہوتووہ اس کی ایک ہفتہ تک پہچان کروائے۔ یہ اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کا قول ہے،۱۰- اس باب میں ابی بن کعب ، عبداللہ بن عمرو، جارود بن معلی، عیاض بن حمار اور جریر بن عبداللہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : باب کی ان دونوں روایتوں میں ایک سال پہچان کرانے کاذکرہے اورباب کی آخری حدیث میں تین سال کاذکرہے، یہ سامان اور حالات پر منحصر ہے، یا ایک سال بطور وجوب اورتین سال بطور استحباب وورع ہے ان روایتوں کا اختلاف تضاد کااختلاف نہیں کہ ایک کو ناسخ اور دوسرے کو منسوخ قراردیا جائے، پہچان کرانے کی صورت یہ ہوگی کہ بازار اوراجتماعات میں جہاں لوگوں کا ہجوم ہو اعلان کیاجائے کہ گم شدہ چیز کی نشانی بتاکر حاصل کی جاسکتی ہے، اگرکوئی اس کی نشانی بتادے تومزیدشناخت اورگواہوں کی ضرورت نہیں بلاتأمل وہ چیز اس کے حوالے کردی جائے ۔
وضاحت ۲؎ : اس کی دلیل ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا :''إني لأنقلب إلى أهلي فأجد التمرة ساقطة على فراشي فأرفعها لآكلها ثم أخشى أن تكون صدقة فألقيها ' '۔(یعنی: میں کبھی گھر میں جاتا ہوں تو کھجور کا کوئی دانہ ملتاہے، اس کو کھا لینا چاہتاہوں، پھر خیال آتا ہے کہ کہیں یہ صدقہ و زکاۃ کا نہ ہو، تو اسے پھینک دیتاہوں) اس سے ثابت ہوا کہ آپ نے اس کو پہچان کروانے کا کام کیے بغیر کھا لینے کا ارادہ کیا۔


1374- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ نُمَيْرٍ وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ زَيْدِ بْنِ صُوحَانَ وَسَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ. فَوَجَدْتُ سَوْطًا (قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ فِي حَدِيثِهِ: فَالْتَقَطْتُ سَوْطًا فَأَخَذْتُهُ). قَالاَ: دَعْهُ. فَقُلْتُ: لاَ أَدَعُهُ، تَأْكُلْهُ السِّبَاعُ، لآخُذَنَّهُ فَلأَسْتَمْتِعَنَّ بِهِ. فَقَدِمْتُ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، وَحَدَّثْتُهُ الْحَدِيثَ. فَقَالَ: أَحْسَنْتَ. وَجَدْتُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ ﷺ صُرَّةً فِيهَا مِائَةُ دِينَارٍ، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ بِهَا. فَقَالَ لِي: عَرِّفْهَا حَوْلاً. فَعَرَّفْتُهَا حَوْلاً فَمَا أَجِدُ مَنْ يَعْرِفُهَا، ثُمَّ أَتَيْتُهُ بِهَا، فَقَالَ: عَرِّفْهَا حَوْلاً آخَرَ. فَعَرَّفْتُهَا. ثُمَّ أَتَيْتُهُ بِهَا، فَقَالَ عَرِّفْهَا: حَوْلاً آخَرَ وَقَالَ: أَحْصِ عِدَّتَهَا وَوِعَائَهَا وَوِكَائَهَا، فَإِنْ جَاءَ طَالِبُهَا فَأَخْبَرَكَ بِعِدَّتِهَا وَوِعَائِهَا وَوِكَائِهَا فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ، وَإِلاَّ فَاسْتَمْتِعْ بِهَا.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/اللقطۃ ۱ (۲۴۲۶)، م/اللقطۃ ۱ (۱۷۲۳)، د/اللقطۃ ۱ (۱۷۰۱)، ق/اللقطۃ ۲ (۲۵۰۶)، وحم (۵/۱۲۶) (صحیح)
۱۳۷۴- سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ میں زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے ساتھ نکلاتومجھے (راستے میں) ایک کوڑا پڑاملا- ابن نمیرکی روایت میں ہے کہ میں نے پڑا ہوا ایک کوڑا پایا- تومیں نے اُسے اٹھا لیاتوان دونوں نے کہا: اسے رہنے دو ،(نہ اٹھاؤ) میں نے کہا :میں اسے نہیں چھوڑسکتاکہ اسے درندے کھاجائیں،میں اسے ضرور اٹھاؤں گا، اور اس سے فائدہ اٹھاؤں گا۔ پھر میں ابی بن کعب کے پاس آیا ،اور ان سے اس کے بارے میں پوچھا اور ان سے پوری بات بیان کی تو انہوں نے کہا: تم نے اچھا کیا، رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں، میں نے ایک تھیلی پائی جس میں سودینار تھے، اسے لے کرمیں آپ ﷺکے پاس آیا ، آپ نے مجھ سے فرمایا:'' ایک سال تک اس کی پہچان کراؤ''، میں نے ایک سال تک اس کی پہچان کرائی لیکن مجھے کوئی نہیں ملاجواسے پہچانتا،پھر میں اسے لے کر آپ کے پاس آیا۔ آپ نے فرمایا: ''ایک سال تک اور اس کی پہچان کراؤ''،میں نے اس کی پہچان کرائی،پھر اسے لے کر آپ کے پاس آیا ۔ توآپ نے فرمایا:'' ایک سال تک اوراس کی پہچان کراؤ ۱؎ ، اورفرمایا: اس کی گنتی کرلو، اس کی تھیلی اوراس کے سربندکوخوب اچھی طرح پہچان لو اگراسے تلاش کرنے والا آئے اور اس کی تعداد ،اس کی تھیلی اوراس کے سربند کے بارے میں بتائے تو اسے دے دو ورنہ تم اسے اپنے کام میں لاؤ''۔امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی تین سال تک پہچان کرانے کا حکم دیا، اس کی تاویل پچھلی حدیث کے حاشیہ میں دیکھیے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
36-بَاب فِي الْوَقْفِ
۳۶-باب: وقف کا بیان​


1375- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: أَصَابَ عُمَرُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! أَصَبْتُ مَالاً بِخَيْبَرَ، لَمْ أُصِبْ مَالاً قَطُّ أَنْفَسَ عِنْدِي مِنْهُ. فَمَا تَأْمُرُنِي؟ قَالَ: "إِنْ شِئْتَ حَبَسْتَ أَصْلَهَا وَتَصَدَّقْتَ بِهَا". فَتَصَدَّقَ بِهَا عُمَرُ، أَنَّهَا لاَ يُبَاعُ أَصْلُهَا وَلاَ يُوهَبُ وَلاَ يُورَثُ. تَصَدَّقَ بِهَا فِي الْفُقَرَائِ وَالْقُرْبَى وَالرِّقَابِ وَفِي سَبِيلِ اللهِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَالضَّيْفِ. لاَجُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ، أَوْ يُطْعِمَ صَدِيقًا، غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيهِ.
قَالَ: فَذَكَرْتُهُ لِمُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ فَقَالَ: غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالاً. قَالَ ابْنُ عَوْنٍ: فَحَدَّثَنِي بِهِ رَجُلٌ آخَرُ أَنَّهُ قَرَأَهَا فِي قِطْعَةِ أَدِيمٍ أَحْمَرَ "غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالاَ". قَالَ إِسْمَاعِيلُ: وَأَنَا قَرَأْتُهَا عِنْدَ ابْنِ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، فَكَانَ فِيهِ "غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالاً". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. لاَ نَعْلَمُ بَيْنَ الْمُتَقَدِّمِينَ مِنْهُمْ فِي ذَلِكَ، اخْتِلاَفًا فِي إِجَازَةِ وَقْفِ الأَرَضِينَ. وَغَيْرِ ذَلِكَ.
* تخريج: خ/الشروط ۱۹ (۲۷۳۷)، والوصایا ۲۲ (۲۷۶۴)، و ۲۸ (۲۷۷۲)، و۲۹ (۲۷۷۳)، و۳۲ (۲۷۷۷)، م/الوصایا ۴ (۱۶۳۲)، د/الوصایا ۱۳ (۲۸۷۸)، ن/الإحباس ۲ (۳۶۲۷)، ق/الصدقات ۴ (۲۳۹۶)، (تحفۃ الأشراف: ۷۷۴۲)، وحم (۲/۵۵، ۱۲۵) (صحیح)
۱۳۷۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں (مال غنیمت سے ) کچھ زمین ملی ،تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! خیبر میں مجھے مال ملا ہے اس سے زیادہ عمدہ مال مجھے کبھی نہیں ملا ۔(اس کے بارے میں) آپ مجھے کیاحکم فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ''اگر چاہو تو اس کی اصل روک لو اوراُسے (پیداوار کو) صدقہ کردو،تو عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اس طرح سے صدقہ کیاکہ اصل زمین نہ بیچی جائے، نہ ہبہ کی جائے، اور نہ کسی کو وراثت میں دی جائے ۱؎ ، اور اسے فقیروں میں ، رشتہ داروں میں، غلام آزاد کرنے میں،اللہ کے راستے (جہاد ) میں، مسافروں میں اور مہمانوں میں خرچ کیاجائے۔ اورجو اس کا والی (نگراں) ہواس کے لیے اس میں سے معروف طریقے سے کھانے اور دوست کو کھلانے میں کوئی حرج نہیں ہے ، جبکہ وہ اس میں سے ذخیرہ اندوزی کرنے والانہ ہو۔
ابن عون کہتے ہیں: میں نے اسے محمد بن سیرین سے بیان کیا تو انہوں نے ''غير متمول فيه''کے بجائے '' غير متأثل مالا'' کہا۔ ابن عون کہتے ہیں: مجھ سے اسے ایک اورآدمی نے بیان کیا ہے کہ اس نے اس وقف نامے کو پڑھاتھا جو ایک لال چمڑے پر تحریر تھا اور اس میں بھی''غير متأثل مالا '' کے الفاظ تھے۔ اسماعیل کہتے ہیں: میں نے اس وقف نامے کو عبیداللہ بن عمر کے بیٹے کے پاس پڑھا، اس میں بھی ''غير متأثل مالا'' کے الفاظ تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ متقدمین میں سے ہم کسی کونہیں جانتے ہیں جس نے زمین وغیرہ کو وقف کرنے میں اختلاف کیا ہو۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ جو چیزوقف کردی گئی ہو وہ نہ بیچی جاسکتی ہے اورنہ اسے ہبہ اوروراثت میں دیاجاسکتا ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وقف کے فروخت کو جائزسمجھتے ہیں، ان کے شاگرد امام یوسف فرماتے ہیں کہ امام صاحب کو اگریہ حدیث مل گئی ہوتی تو وہ اپنی رائے سے رجوع فرمالیتے۔ (دیکھیے: فتح الباری کتاب الوصایا، باب ۲۹ (۲۷۷۳)۔


1376- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ الْعَلاَئِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَانِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَمَلُهُ إِلاَّ مِنْ ثَلاَثٍ: صَدَقَةٌ جَارِيَةٌ، وَعِلْمٌ يُنْتَفَعُ بِهِ، وَوَلَدٌ صَالِحٌ يَدْعُو لَهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الوصایا ۳ (۱۶۳۱)، د/الوصایا ۱۴ (۲۸۸۰)، ن/الوصایا ۸ (۳۶۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۹۷۵)، وحم (۲/۳۱۶، ۳۵۰، ۳۷۲)، ودي/المقدمۃ ۴۶ (۵۷۸) (صحیح)
۱۳۷۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب انسان مرجاتاہے تو اس کے عمل کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے سوائے تین چیزوں کے: ایک صدقہ جاریہ ۱؎ ہے، دوسرا ایسا علم ہے ۲؎ جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسرا نیک وصالح اولاد ہے ۳؎ جو اس کے لیے دعاکرے ''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : صدقہ جاریہ یعنی ایساصدقہ جس کو عوام کی بھلائی کے لیے وقف کردیاجائے، مثلاً سرائے کی تعمیر،کنواں کھدوانا،نل لگوانا، مساجدومدارس اوریتیم خانوں کی تعمیرکروانا،اسپتال کی تعمیر، پُل اورسڑک وغیرہ بنوانا، ان میں سے جو کام بھی وہ اپنی زندگی میں کرجائے یااس کے کرنے کا ارادہ رکھتاہووہ سب صدقہ جاریہ میں شمارہوں گے۔
وضاحت ۲؎ : علم میں لوگوں کو تعلیم دینا، طلباء کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنا، تصنیف وتالیف اور درس وتدریس دعوت وتبلیغ کا سلسلہ قائم کرنا،مدارس کی تعمیرکرنا، دینی کتب کی طباعت اور ان کی نشرواشاعت کا بندوبست کر نا وغیرہ امورسبھی داخل ہیں۔
وضاحت ۳؎ : نیک اولاد میں بیٹا،بیٹی پوتا، پوتی ، نواسانواسی وغیرہ کے علاوہ روحانی اولاد بھی شامل ہے جنہیں علم دین سکھایاہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
37-بَاب مَا جَاءَ فِي الْعَجْمَائُ جَرْحُهَا جُبَارٌ
۳۷-باب: چوپائے اگر کسی کو زخمی کردیں تو اس کے زخم کے لغوہونے کا بیان​


1377- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الْعَجْمَائُ جَرْحُهَا جُبَارٌ، وَالْبِئْرُ جُبَارٌ، وَالْمَعْدِنُ جُبَارٌ، وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ".
* تخريج: م/الزکاۃ ۶۶ (۱۴۹۹)، والمساقاۃ ۳ (۲۳۵۵)، والدیات ۲۸ (۶۹۱۲)، و ۲۹ (۶۹۱۳)، م/الحدود ۱۱ (القسامۃ ۲۲)، (۱۷۱۰)، د/الخراج ۴۰ (۳۰۸۵)، والدیات ۳۰ (۴۵۹۳)، ن/الزکاۃ ۲۸ (۲۴۹۷)، ق/الأحکام ۴ (۲۶۷۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۲۸)، و ط/الزکاۃ ۴ (۹)، والعقول ۱۸ (۲)، وحم (۲/۲۲۸، ۲۵۴، ۳۱۹، ۳۸۲، ۳۸۶، ۴۰۶، ۴۱۱، ۴۵۴، ۴۵۶، ۴۶۷، ۴۷۵، ۴۸۲، ۴۹۵، ۴۹۹، ۵۰۱، ۵۰۷)، ودي/الزکاۃ ۳۰ (۱۷۱۰) (صحیح)
1377/م- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ وَأَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ، وَعَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيِّ، وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۲۷ و ۱۳۲۳۶ و ۱۵۲۳) (صحیح)
1377/م- حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ عَنْ مَعْنٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ. وَتَفْسِيرُ حَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ (الْعَجْمَائُ جَرْحُهَا جُبَارٌ) يَقُولُ: هَدَرٌ لاَ دِيَةَ فِيهِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَمَعْنَى قَوْلِهِ "الْعَجْمَائُ جَرْحُهَا جُبَارٌ" فَسَّرَ ذَلِكَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالُوا: الْعَجْمَائُ الدَّابَّةُ الْمُنْفَلِتَةُ مِنْ صَاحِبِهَا. فَمَا أَصَابَتْ فِي انْفِلاَتِهَا فَلاَ غُرْمَ عَلَى صَاحِبِهَا. "وَالْمَعْدِنُ جُبَارٌ" يَقُولُ: إِذَا احْتَفَرَ الرَّجُلُ مَعْدِنًا فَوَقَعَ فِيهِ إِنْسَانٌ فَلاَ غُرْمَ عَلَيْهِ. وَكَذَلِكَ الْبِئْرُ إِذَا احْتَفَرَهَا الرَّجُلُ لِلسَّبِيلِ، فَوَقَعَ فِيهَا إِنْسَانٌ فَلاَ غُرْمَ عَلَى صَاحِبِهَا. "وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ" وَالرِّكَازُ: مَا وُجِدَ فِي دَفْنِ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ. فَمَنْ وَجَدَ رِكَازًا أَدَّى مِنْهُ الْخُمُسَ إِلَى السُّلْطَانِ. وَمَا بَقِيَ فَهُوَ لَهُ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۳۷۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''بے زبان (جانور)کازخم رائیگاں ہے، کنویں اور کان میں گرکر کوئی مرجائے تو وہ بھی رائیگاں ہے ۱ ؎ ، اورجاہلیت کے دفینے میں پانچواں حصہ ہے''۔
مؤلف نے اپنی سندسے بطریق ابن شہاب عن سعید بن المسیب وابی سلمہ عن ابی ہریرہ عن النبی ﷺ اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں جابر عمرو بن عوف مزنی اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- مالک بن انس کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺکی حدیث '' العجماء جرحها جبار'' کی تفسیر یہ ہے کہ چوپایوں سے لگے ہوئے زخم رائیگاں ہیں اس میں کوئی دیت نہیں ہے، ۴- '' العجماء جرحها جبار'' کی بعض علماء نے یہی تفسیرکی ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ بے زبان جانور وہ ہیں جو اپنے مالک کے پاس سے بدک کربھاگ جائیں، اگر ان کے بدک کر بھاگنے کی حالت میں کسی کو ان سے زخم لگے یا چوٹ آجائے تو جانور والے پرکوئی تاوان نہیں ہوگا۔ ۵-''والمعدن جبار'' کی تفسیر میں مالک کہتے ہیں: جب کوئی شخص کان کھد وائے اور اس میں کوئی گر جائے تو کان کھود وانے والے پر کوئی تاوان نہیں ہے، اسی طرح کنواں ہے جب کوئی مسافروں وغیرہ کے لیے کنواں کھُدوائے اور اس میں کوئی شخص گرجائے تو کھُدوانے والے پر کوئی تاوان نہیں ہے،۶- ''وفي الركاز الخمس'' کی تفسیر میں مالک کہتے ہیں: '' رکاز'' اہل جاہلیت کا دفینہ ہے اگر کسی کو جاہلیت کا دفینہ ملے تو وہ پانچواں حصہ سلطان کے پاس (سرکاری خزانہ میں) جمع کرے گا اورجو باقی بچے گاوہ اس کا ہوگا۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی ان کے مالکوں سے دیت نہیں لی جائے گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
38-بَاب مَا ذُكِرَ فِي إِحْيَائِ أَرْضِ الْمَوَاتِ
۳۸-باب: غیر آباد زمین آباد کرنے کا بیان​


1378- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ، عَنْ هِشَامِ ابْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ أَحْيَى أَرْضًا مَيِّتَةً فَهِيَ لَهُ. وَلَيْسَ لِعِرْقٍ ظَالِمٍ حَقٌّ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَقَدْ رَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، مُرْسَلاً. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. قَالُوا: لَهُ أَنْ يُحْيِيَ الأَرْضَ الْمَوَاتَ بِغَيْرِ إِذْنِ السُّلْطَانِ. وَقَدْ قَالَ بَعْضُهُمْ: لَيْسَ لَهُ أَنْ يُحْيِيَهَا إِلاَّ بِإِذْنِ السُّلْطَانِ. وَالْقَوْلُ الأَوَّلُ أَصَحُّ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ، وَعَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيِّ، جَدِّ كَثِيرٍ وَسَمُرَةَ. حَدَّثَنَا أَبُومُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيَّ (عَنْ قَوْلِهِ وَلَيْسَ لِعِرْقٍ ظَالِمٍ حَقٌّ) فَقَالَ: الْعِرْقُ الظَّالِمُ: الْغَاصِبُ الَّذِي يَأْخُذُ مَا لَيْسَ لَهُ. قُلْتُ: هُوَ الرَّجُلُ الَّذِي يَغْرِسُ فِي أَرْضِ غَيْرِهِ؟ قَالَ: هُوَ ذَاكَ.
* تخريج: د/الإمارۃ ۳۷ (۳۰۷۳)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۶۳)، وط/الأقضیۃ ۲۴ (۲۶) (صحیح)
۱۳۷۸- سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جس نے کوئی بنجر زمین (جو کسی کی ملکیت میں نہ ہو ) آبادکی تووہ اسی کی ہے کسی ظالم شخص کی رگ کاحق نہیں ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- بعض لوگوں نے اسے ہشام بن عروہ سے انہوں نے اپنے والد عروہ سے اورعروہ نے نبی اکرمﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی حدیث پرعمل ہے اور احمد اوراسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ حاکم کی اجازت کے بغیر غیر آباد زمین کو آباد کرنا جائز ہے،۴- بعض علماء کہتے ہیں: حاکم کی اجازت کے بغیر غیر آباد زمین کو آباد کرنا جائز نہیں ہے، لیکن پہلاقول زیادہ صحیح ہے،۵- اس باب میں جابر، کثیر کے دادا عمرو بن عوف مزنی اور سمرہ سے بھی احادیث آئی ہیں، ۶-ہم سے ابوموسیٰ محمد بن مثنی نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوولید طیالسی سے نبی اکرمﷺکے قول ''وليس لعرق ظالم حق'' کامطلب پوچھا ، انہوں نے کہا: ''العرق الظالم'' سے مراد وہ غاصب ہے جودوسروں کی چیززبردستی لے۔ میں نے کہا : اس سے مراد وہ شخص ہے جو دوسرے کی زمین میں د رخت لگائے؟ انہوں نے کہا: وہی شخص مراد ہے۔


1379- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ أَحْيَى أَرْضًا مَيِّتَةً فَهِيَ لَهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف وأخرجہ النسائي في الکبریٰ (تحفۃ الأشراف: ۳۱۲۹)، وحم (۳/۳۳۸، ۳۸۱) (صحیح)
۱۳۷۹- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جو شخص غیر آباد زمین (جو کسی کی ملکیت میں نہ ہو) آباد کرے تو وہ اسی کی ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
39-بَاب مَا جَاءَ فِي الْقَطَائِعِ
۳۹-باب: جاگیر دینے کا بیان​


1380- قَالَ: قُلْتُ لِقُتَيْبَةَ بْنِ سَعِيدٍ: حَدَّثَكُمْ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ قَيْسٍ الْمَأْرِبِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ شَرَاحِيلَ، عَنْ سُمَيِّ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ سُمَيْرٍ، عَنْ أَبْيَضَ بْنِ حَمَّالٍ أَنَّهُ وَفَدَ إِلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ، فَاسْتَقْطَعَهُ الْمِلْحَ، فَقَطَعَ لَهُ. فَلَمَّا أَنْ وَلَّى قَالَ رَجُلٌ مِنْ الْمَجْلِسِ: أَتَدْرِي مَا قَطَعْتَ لَهُ؟ إِنَّمَا قَطَعْتَ لَهُ الْمَائَ الْعِدَّ، قَالَ: فَانْتَزَعَهُ مِنْهُ. قَالَ: وَسَأَلَهُ عَمَّا يُحْمَى مِنْ الأَرَاكِ؟ قَالَ: مَا لَمْ تَنَلْهُ خِفَافُ الإِبِلِ. فَأَقَرَّ بِهِ قُتَيْبَةُ، وَقَالَ: نَعَمْ.
* تخريج: د/الخراج ۳۶ (۳۰۶۴)، ق/الرہون ۱۷ (۲۴۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱) (حسن)
(یہ سند مسلسل بالضعفاء ہے : ''ثمامہ'' لین الحدیث ، اور ''سمیر'' مجہول ہیں ، لیکن ابوداود کی دوسری روایت (رقم ۳۰۶۵) سے تقویت پاکر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے ، اس کی تصحیح ابن حبان اورتحسین البانی نے کی ہے (مالم تنلہ خفاف کے استثناء کے ساتھ ) دیکھئے : صحیح ابی داود رقم ۲۶۹۴)


1380/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ قَيْسٍ الْمَأْرِبِيُّ، بِهَذَا الإِسْنَادِ، نَحْوَهُ. الْمَأْرِبُ: نَاحِيَةٌ مِنَ الْيَمَنِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ وَائِلٍ وَأَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبْيَضَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ، فِي الْقَطَائِعِ. يَرَوْنَ جَائِزًا أَنْ يُقْطِعَ الإِمَامُ لِمَنْ رَأَى ذَلِكَ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (حسن)
(شاہد کی بناپر حسن لغیرہ ہے کماتقدم)
۱۳۸۰- ابیض بن حمال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے جاگیر میں نمک کی کان مانگی تو آپ نے انہیں دے دی،لیکن جب وہ پیٹھ پھیرکرواپس جانے لگے تو مجلس میں موجودایک آدمی نے عرض کیا: جانتے ہیں کہ آپ نے جاگیر میں اُسے کیا دیا ہے؟ آپ نے اُسے جاگیرمیں ایسا پانی دیا ہے جو کبھی بند نہیں ہوتا ہے۔(اس سے برابر نمک نکلتارہے گا) تو آپ نے اس سے اُسے واپس لے لیا، اس نے آپ سے پوچھا : پیلو کے درختوں کی کون سی جگہ(بطور رمنہ) گھیری جائے؟ آپ نے فرمایا:'' جس زمین تک اونٹوں کے پاؤں نہ پہنچے'' (جوآبادی اورچراگاہ سے کافی دور ہوں)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابیض کی حدیث غریب ہے، ۲- میں نے قتیبہ سے پوچھا کیا آپ سے محمد بن یحییٰ بن قیس مأربی نے یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے اقرار کیا اور کہا: ہاں،۳- ہم سے محمدبن یحییٰ ابن ابی عمرو نے بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ ہم سے محمد بن یحییٰ بن قیس مأربی نے اسی سند سے اسی جیسی حدیث بیان کی، ۴- مأرب یمن کاایک خطہ ہے اور اسی کی طرف محمد بن یحییٰ مأربی منسوب ہیں،۵- اس باب میں وائل اوراسماء بنت ابوبکر سے بھی روایت ہے، ۶- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کاجاگیر کے سلسلے میں اسی حدیث پرعمل ہے، یہ لوگ امام کے لیے جائزسمجھتے ہیں کہ وہ جس کے لیے مناسب سمجھے اسے جاگیر دے۔


1381- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكٍ قَال: سَمِعْتُ عَلْقَمَةَ بْنَ وَائِلٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَقْطَعَهُ أَرْضًا بِحَضْرَمَوْتَ. قَالَ مَحْمُودٌ: أَخْبَرَنَا النَّضْرُ عَنْ شُعْبَةَ، وَزَادَ فِيهِ "وَبَعَثَ لَهُ مُعَاوِيَةَ لِيُقْطِعَهَا إِيَّاهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: د/الخراج ۳۶ (۳۰۵۸، ۳۰۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۷۳)، وحم (۳۹۹۶)، و دي/البیوع ۶۶ (۲۶۵۱) (صحیح)
۱۳۸۱- وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے انہیں حضرموت میں ایک زمین بطور جاگیر دی۔ آپﷺ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کوبھیجا تاکہ وہ زمین انہیں بطورجاگیر دے دیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
40-بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْغَرْسِ
۴۰-باب: درخت لگانے کی فضیلت​


1382- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا، أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا، فَيَأْكُلُ مِنْهُ إِنْسَانٌ، أَوْ طَيْرٌ، أَوْ بَهِيمَةٌ، إِلاَّ كَانَتْ لَهُ صَدَقَةٌ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، وَجَابِرٍ، وَأُمِّ مُبَشِّرٍ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الحرث المزارعۃ ۱ (۲۳۲۰)، والأدب ۲۷ (۶۰۱۲)، م/المساقاۃ ۲ (البیوع ۲۳) (۱۵۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۱)، وحم (۳/۱۴۷، ۱۹۲، ۲۲۹، ۲۴۳) (صحیح)
۱۳۸۲- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جوبھی مسلمان کوئی درخت لگاتاہے یافصل بوتا ہے اور اس میں سے انسان یا پرند یا چرند کھاتاہے تووہ اس کے لیے صدقہ ہوتاہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- انس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوایوب ، جابر، ام مبشر اور زید بن خالد رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
41-بَاب مَا ذُكِرَ فِي الْمُزَارَعَةِ
۴۱-باب: مزارعت کا بیان​


1383- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ عَامَلَ أَهْلَ خَيْبَرَ بِشَطْرِ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا مِنْ ثَمَرٍ أَوْ زَرْعٍ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. لَمْ يَرَوْا بِالْمُزَارَعَةِ بَأْسًا عَلَى النِّصْفِ وَالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ. وَاخْتَارَ بَعْضُهُمْ أَنْ يَكُونَ الْبَذْرُ مِنْ رَبِّ الأَرْضِ. وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَكَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الْمُزَارَعَةَ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ. وَلَمْ يَرَوْا بِمُسَاقَاةِ النَّخِيلِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ بَأْسًا. وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيِّ. وَلَمْ يَرَ بَعْضُهُمْ أَنْ يَصِحَّ شَيْئٌ مِنْ الْمُزَارَعَةِ، إِلاَّ أَنْ يَسْتَأْجِرَ الأَرْضَ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ.
* تخريج: خ/الحرث ۸ (۲۳۲۸)، ۹ (۲۳۲۹)، م/المساقاۃ ۱ (البیوع ۲۲)، (۱۵۵۱)، د/البیوع ۳۵ (۳۴۰۸)، ن/الأیمان والمزارعۃ ۴۶ (۳۹۶۱، ۳۹۶۲)، ق/الرہون ۱۴ (۳۴۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۸۱۳۸)، وحم (۲/۱۷، ۲۲، ۳۷) (صحیح)
۱۳۸۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں :نبی اکرمﷺنے خیبر والوں کے ساتھ خیبرکی زمین سے جو بھی پھل یا غلہ حاصل ہوگااس کے آدھے پر معاملہ کیا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں انس، ابن عباس ، زید بن ثابت اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔ یہ لوگ آدھے ، تہائی یاچوتھائی کی شرط پر مزارعت کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ،۴- اور بعض اہل علم نے یہ اختیار کیا ہے کہ بیج زمین والا دے گا، احمد اوراسحاق بن راہویہ کابھی یہی قول ہے، ۵- بعض اہل علم نے تہائی یا چوتھائی کی شرط پر مزارعت کو مکروہ سمجھا ہے، لیکن وہ تہائی یاچوتھائی کی شرط پر کھجورکے درختوں کی سینچائی کرانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں۔ مالک بن انس اور شافعی کایہی قول ہے،۶- بعض لوگ مطلقًا مزارعت کودرست نہیں سمجھتے البتہ سونے یا چاندی (نقدی) کے عوض کرایہ پر زمین لینے کودرست سمجھتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے مزارعت (بٹائی پرزمین دینے) کا جواز ثابت ہوتاہے، ائمہ ثلاثہ اوردیگرعلمائے سلف وخلف سوائے امام ابوحنیفہ کے جواز کے قائل ہیں، احناف نے خیبرکے معاملے کی تاویل یہ کی ہے کہ یہ لوگ آپ کے غلام تھے، لیکن یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ آپ کا ارشاد گرامی ہے ''نقركم ما أقركم الله '' ہم تمہیں اس وقت تک برقراررکھیں گے جب تک اللہ تمہیں برقراررکھے گا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپ کے غلام نہیں تھے، نیز احناف کا کہنا ہے کہ یہ معدوم یا مجہول پیداوار کے بدلے اجارہ ہے جو جائز نہیں، اس کا جواب جمہوریہ دیتے ہیں کہ اس کی مثال مضارب کی ہے کہ مضارب جس طرح نفع کی امید پر محنت کرتاہے اوروہ نفع مجہول ہے اس کے باوجود وہ جائز ہے، اسی طرح مزارعت میں بھی یہ جائز ہوگا ، رہیں وہ روایات جو مزارعت کے عدم جواز پر دلالت کرتی ہیں توجمہور نے ان روایات کی تاویل کی ہے کہ یہ روایات نہی تنزیہی پر دلالت کرتی ہیں، یا یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب صاحب زمین کسی مخصوص حصے کی پیداوار خود لینے کی شرط کر لے (واللہ اعلم) حاصل بحث یہ ہے کہ مزارعت کی جائز شکل یہ ہے کہ مالک اوربٹائی پر لینے والے کے مابین زمین سے حاصل ہو نے والے غلّہ کی مقدار اس طرح متعین ہو کہ دونوں کے مابین جھگڑے کی نوبت نہ آئے اور غلّہ سے متعلق نقصان اور فائدہ میں طے شدہ امرکے مطابق دونوں شریک ہوں یا روپے کے عوض زمین بٹائی پر دی جائے اورمزارعت کی وہ شکل جوشرعاً ناجائز ہے وہ حنظلہ بن قیس انصاری کی روایت میں ہے، وہ کہتے ہیں رافع بن خدیج کہتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں زمین کی بٹائی کا معاملہ اس شرط پر کرتے تھے کہ زمین کے اس مخصوص حصے کی پیداوارمیں لوں گااورباقی حصے کی تم لینا، تونبی اکرمﷺ نے اس سے منع فرمادیا کیونکہ اس صورت میں کبھی بٹائی پر لینے والے کا نقصان ہوتا کبھی دینے والے کا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
42-بَاب مِنَ الْمُزَارَعَةِ
۴۲-باب: مزارعت ہی سے متعلق ایک اور باب​


1384- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي حُصَيْنٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: نَهَانَا رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَنَا نَافِعًا. إِذَا كَانَتْ لأَحَدِنَا أَرْضٌ أَنْ يُعْطِيَهَا بِبَعْضِ خَرَاجِهَا أَوْ بِدَرَاهِمَ. وَقَالَ: "إِذَا كَانَتْ لأَحَدِكُمْ أَرْضٌ فَلْيَمْنَحْهَا أَخَاهُ أَوْ لِيَزْرَعْهَا".
* تخريج: ن/المزارعۃ ۲ (۳۸۹۹)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۷۸)، (وانظر أیضا: أحادیث النسائي من الأرقام : ۳۸۹۳- إلی -۳۹۰۳) (صحیح)
۱۳۸۴- رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک ایسے کام سے منع فرمادیا جو ہمارے لیے مفیدتھا، وہ یہ کہ جب ہم میں سے کسی کے پاس زمین ہوتی تووہ اس کو (زراعت کے لیے) کچھ پیداوار یا روپیوں کے عوض دے دیتا۔ آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کے پاس زمین ہوتو وہ اپنے بھائی کو(مفت) دے دے۔ یا خود زراعت کرے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : دیکھئے پچھلی حدیث اور اس کا حاشیہ۔


1385- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى السِّينَانِيُّ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ لَمْ يُحَرِّمْ الْمُزَارَعَةَ، وَلَكِنْ أَمَرَ أَنْ يَرْفُقَ بَعْضُهُمْ بِبَعْضٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَحَدِيثُ رَافِعٍ فِيهِ اضْطِرَابٌ. يُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، عَنْ عُمُومَتِهِ. وَيُرْوَى عَنْهُ عَنْ ظُهَيْرِ بْنِ رَافِعٍ، وَهُوَ أَحَدُ عُمُومَتِهِ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْهُ عَلَى رِوَايَاتٍ مُخْتَلِفَةٍ. وَفِي الْبَاب عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَجَابِرٍ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا.
* تخريج: خ/الحرث ۱۰ (۲۳۳۰)، و۱۸ (۲۳۴۲)، والہبۃ ۳۵ (۲۶۳۴)، م/البیوع ۲۱ (۱۵۴۷)، د/البیوع ۳ (۳۳۸۹)، ن/المزارعۃ ۴۵ (۳۹۴۰)، ق/الرہون ۱۱ (۲۴۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۳۵) (صحیح)
۱۳۸۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مزارعت کو حرام نہیں کیا، لیکن آپ نے ایک دوسرے کے ساتھ نرمی کرنے کاحکم دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- رافع کی حدیث میں (جو اوپر مذکور ہوئی) اضطراب ہے۔کبھی یہ حدیث بواسطہ ٔ رافع بن خدیج ان کے چچاؤں سے روایت کی جاتی ہے اورکبھی بواسطہ ٔ رافع بن خدیج ظہیر بن رافع سے روایت کی جاتی ہے، یہ بھی ان کے ایک چچا ہیں، ۳- اور ان سے یہ حدیث مختلف طریقے پر روایت کی گئی ہے، ۴- اس باب میں زید بن ثابت اور جابر رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

14- كِتَاب الدِّيَاتِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۱۴-کتاب: دیت وقصاص کے احکام ومسائل


1- بَاب مَا جَاءَ فِي الدِّيَةِ كَمْ هِيَ مِنَ الإِبِلِ
۱-باب: دیت میں دیے جانے والے اونٹوں کی تعداد کا بیان​


1386- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ الْكُوفِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ خَشْفِ بْنِ مَالِكٍ قَال: سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ قَالَ: قَضَى رَسُولُ اللهِ ﷺ فِي دِيَةِ الْخَطَإِ: عِشْرِينَ بِنْتَ مَخَاضٍ، وَعِشْرِينَ بَنِي مَخَاضٍ ذُكُورًا، وَعِشْرِينَ بِنْتَ لَبُونٍ، وَعِشْرِينَ جَذَعَةً، وَعِشْرِينَ حِقَّةً۔ قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو.
* تخريج: د/الدیات ۱۸ (۴۵۴۵)، ن/القسامۃ ۳۴ (۴۸۰۶)، ق/الدیات ۶ (۲۶۳۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۸)، وحم (۱/۴۵۰) (ضعیف) (سند میں حجاج بن ارطاۃمدلس اورکثیر الوہم ہیں اورروایت عنعنہ سے ہے ، نیز خشف بن مالک کی ثقاہت میں بھی بہت کلام ہے، ملاحظہ ہو: الضعیفۃ رقم : ۴۰۲۰)
1386/م- أَخْبَرَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ وَأَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ نَحْوَهُ۔
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ لاَ نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِاللهِ مَوْقُوفًا، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ، وَقَدْ أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ عَلَى أَنَّ الدِّيَةَ تُؤْخَذُ فِي ثَلاَثِ سِنِينَ فِي كُلِّ سَنَةٍ ثُلُثُ الدِّيَةِ وَرَأَوْا أَنَّ دِيَةَ الْخَطَإِ عَلَى الْعَاقِلَةِ، وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنَّ الْعَاقِلَةَ قَرَابَةُ الرَّجُلِ مِنْ قِبَلِ أَبِيهِ وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ. و قَالَ بَعْضُهُمْ : إِنَّمَا الدِّيَةُ عَلَى الرِّجَالِ دُونَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ مِنْ الْعَصَبَةِ يُحَمَّلُ كُلُّ رَجُلٍ مِنْهُمْ رُبُعَ دِينَارٍ. وَقَدْ قَالَ بَعْضُهُمْ إِلَى نِصْفِ دِينَارٍ، فَإِنْ تَمَّتْ الدِّيَةُ وَإِلاَّ نُظِرَ إِلَى أَقْرَبِ الْقَبَائِلِ مِنْهُمْ فَأُلْزِمُوا ذَلِكَ۔
* تخريج: (م) انظر ما قبلہ (ضعیف)
۱۳۸۶- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا: ''قتل خطا ۱ ؎ کی دیت ۲؎ بیس بنت مخاض۳؎، بیس ابن مخاض ،بیس بنت لبون۴ ؎ ، بیس جذعہ ۵؎ اوربیس حقہ ۶؎؎ ہے ''۔
۱۳۸۶/م- ہم کوابوہشام رفاعی نے ابن ابی زائد ہ اورابوخالد احمرسے اورانہوں نے حجاج بن ارطاۃسے اسی طرح کی حدیث بیان کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کوہم صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں اورعبد اللہ بن مسعود سے یہ حدیث موقوف طریقہ سے بھی آئی ہے،۲- اس باب میں عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے، ۳- بعض اہل علم کایہی مسلک ہے، احمداوراسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے ،۴- اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دیت تین سال میں لی جائے گی، ہرسال دیت کا تہائی حصہ لیاجائے گا،۵- اوران کاخیال ہے کہ دیتِ خطاعصبہ پر ہے،۶- بعض لوگوں کے نزدیک عصبہ وہ ہیں جو باپ کی جانب سے آدمی کے قرابت دار ہوں ، مالک اور شافعی کایہی قول ہے، ۷-بعض لوگوں کاکہناہے کہ عصبہ میں سے جومردہیں انہی پر دیت ہے ، عورتوں اوربچوں پرنہیں ، ان میں سے ہر آدمی کوچوتھائی دینا رکا مکلف بنایا جائے گا،۸- کچھ لوگ کہتے ہیں: آدھے دینار کا مکلف بنایاجائے گا ،۹- اگردیت مکمل ہوجائے گی تو ٹھیک ہے ورنہ سب سے قریبی قبیلہ کو دیکھا جائے گا اور ان کو اس کا مکلف بنایا جائے گا۔
وضاحت ۱؎ : قتل کی تین قسمیں ہیں:۱-قتل عمد : یعنی جان بوجھ کر ایسے ہتھیار کا استعمال کرنا جن سے عام طورسے قتل واقع ہوتا ہے ، اس میں قاتل سے قصاص لیا جاتا ہے، ۲-قتل خطا،: یعنی غلطی سے قتل کا ہوجانا ، اوپر کی حدیث میں اسی قتل کی دیت بیان ہوئی ہے۔ ۳-قتل شبہ عمد:یہ وہ قتل ہے جس میں ایسی چیزوں کا استعمال ہوتا ہے جن سے عام طورسے قتل واقع نہیں ہوتا جیسے لاٹھی اور کوڑا وغیرہ،اس میں دیتِ مغلظہ لی جاتی ہے اور یہ سو اونٹ ہے ان میں چالیس حاملہ اونٹنیاں ہوں گی۔
وضاحت ۲؎ : کسی نفس کے قتل یا جسم کے کسی عضو کے ضائع کرنے کے بدلے میں جو مال دیا جاتا ہے اسے دیت کہتے ہیں۔
وضاحت ۳؎ : وہ اونٹنی جو ایک سال کی ہو چکی ہو۴؎ ،وہ اونٹنی جو دوسال کی ہو چکی ہو۔ ۵؎؎ وہ اونٹ جو چار سال کی ہوچکا ہو ۶؎؎ ،وہ اونٹ جو تین سال کا ہو چکا ہو۔


1387-حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، أَخْبَرَنَا حَبَّانُ وَهُوَ ابْنُ هِلاَلٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا دُفِعَ إِلَى أَوْلِيَائِ الْمَقْتُولِ، فَإِنْ شَائُوا قَتَلُوا وَإِنْ شَائُوا أَخَذُوا الدِّيَةَ وَهِيَ: ثَلاَثُونَ حِقَّةً، وَثَلاَثُونَ جَذَعَةً، وَأَرْبَعُونَ خَلِفَةً، وَمَا صَالَحُوا عَلَيْهِ فَهُوَ لَهُمْ وَذَلِكَ لِتَشْدِيدِ الْعَقْلِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: د/الدیات ۴ (۴۵۰۶)، ق/الدیات ۲۱ (۲۶۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۰۸) (حسن)
۱۳۸۷- عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس نے کسی مومن کوجان بوجھ کرقتل کیا اسے مقتول کے وارثوں کے حوالے کیا جائے گا، اگروہ چاہیں تو اسے قتل کردیں اورچاہیں تو اس سے دیت لیں، دیت کی مقدارتیس حقہ،تیس جذعہ اورچالیس خلفہ ۱؎ ہے اورجس چیزپروارث مصالحت کرلیں وہ ان کے لیے ہے اور یہ دیت کے سلسلہ میں سختی کی وجہ سے ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: عبداللہ بن عمرو کی حدیث حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : حاملہ اونٹنی اس کی جمع خلفات وخلائف آتی ہے۔
 
Top