35-بَاب مَا جَاءَ فِي اللُّقَطَةِ وَضَالَّةِ الإِبِلِ وَالْغَنَمِ
۳۵-باب: گری پڑی چیز اور گمشدہ اونٹ اور بکری کا بیان
1372- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَانِ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ أَنَّ رَجُلاً سَأَلَ رَسُولَ اللهِ ﷺ عَنِ اللُّقَطَةِ؟ فَقَالَ: "عَرِّفْهَا سَنَةً، ثُمَّ اعْرِفْ وِكَائَهَا وَوِعَائَهَا وَعِفَاصَهَا، ثُمَّ اسْتَنْفِقْ بِهَا، فَإِنْ جَاءَ رَبُّهَا فَأَدِّهَا إِلَيْهِ". فَقَالَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللهِ! فَضَالَّةُ الْغَنَمِ؟ فَقَالَ: "خُذْهَا، فَإِنَّمَا هِيَ لَكَ أَوْ لأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ". فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! فَضَالَّةُ الإِبِلِ؟ قَالَ: فَغَضِبَ النَّبِيُّ ﷺ حَتَّى احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ، أَوْ احْمَرَّ وَجْهُهُ. فَقَالَ: "مَا لَكَ وَلَهَا؟ مَعَهَا حِذَاؤُهَا وَسِقَاؤُهَا حَتَّى تَلْقَى رَبَّهَا".
حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ. وَحَدِيثُ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ.
* تخريج: خ/العلم ۲۸ (۹۱)، والشرب والمساقاۃ ۱۲ (۲۳۷۲)، واللقطہ ۲ (۲۴۲۷)، م/اللقطۃ ۱ (۱۷۲۲)، د/اللقطۃ ۱ (۱۷۰۴-۱۷۰۸)، ق/اللقطۃ ۱ (۲۵۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۶۳)، وط/الأقضیۃ ۳۸ (۴۶)، وحم (۴/۱۱۵) (صحیح)
۱۳۷۲- زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے لقطہ(گری پڑی چیز) کے بارے میں پوچھا، توآپ نے فرمایا: ''سال بھر تک اس کی پہچان کراؤ، پھر اس کا سربند ، اس کا برتن اور اس کی تھیلی پہچان لو، پھراسے خرچ کرلو اور اگر اس کا مالک آجائے تو اُسے ادا کردو''، اس آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! گمشدہ بکری کاکیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا:'' اسے پکڑکرباندھ لو، کیونکہ وہ تمہارے لیے ہے، یا تمہارے بھائی کے لیے، یا بھیڑ یے کے لیے''۔ اس آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! گمشدہ اونٹ کا کیا حکم ہے؟ اس پر نبی اکرمﷺناراض ہوگئے یہاں تک کہ آپ کے گال لال پیلا ہوگئے۔ یا آپ کا چہرہ لال پیلا ہوگیا اور آپ نے فرمایا:'' تم کواس سے کیا سروکار؟ اس کے ساتھ اس کا جوتا اور اس کی مشک ہے ۱؎ ( وہ پانی پر جاسکتا ہے اور درخت سے کھاسکتا ہے) یہاں تک کہ اپنے مالک سے جاملے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- زید بن خالد کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ان سے اوربھی طرق سے یہ حدیث مروی ہے۔ منبعث کے مولیٰ یزید کی حدیث جسے انہوں نے زید بن خالد سے روایت کی ہے حسن صحیح ہے،۳- اور ان سے یہ اوربھی کئی سندوں سے مروی ہے۔
وضاحت ۱؎ : جوتے سے مراد اونٹ کا پاؤں ہے اورمشکیزہ سے اس کا پیٹ جس میں وہ کئی دن کی ضرورت کا پانی ایک ساتھ بھرلیتا ہے اور باربارپانی پینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، اسے بکری کی طرح بھیڑیے وغیرہ کاخوف نہیں وہ خوداپنا دفاع کرلیتاہے اس لیے اسے پکڑکرباندھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
1373- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ، أَخْبَرَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنِي سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ سُئِلَ عَنِ اللُّقَطَةِ فَقَالَ: عَرِّفْهَا سَنَةً. فَإِنْ اعْتُرِفَتْ، فَأَدِّهَا. وَإِلاَّ فَاعْرِفْ وِعَائَهَا وَعِفَاصَهَا وَوِكَائَهَا، وَعَدَدَهَا ثُمَّ كُلْهَا فَإِذَا جَاءَ صَاحِبُهَا فَأَدِّهَا.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَالْجَارُودِ بْنِ الْمُعَلَّى، وَعِيَاضِ بْنِ حِمَارٍ، وَجَرِيرِ بْنِ عَبْدِاللهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: أَصَحُّ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ، هَذَا الْحَدِيثُ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. وَرَخَّصُوا فِي اللُّقَطَةِ إِذَا عَرَّفَهَا سَنَةً فَلَمْ يَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا، أَنْ يَنْتَفِعَ بِهَا. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ: يُعَرِّفُهَا سَنَةً، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلاَّ تَصَدَّقَ بِهَا، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْكُوفَةِ، لَمْ يَرَوْا لِصَاحِبِ اللُّقَطَةِ أَنْ يَنْتَفِعَ بِهَا إِذَا كَانَ غَنِيًّا. و قَالَ الشَّافِعِيُّ: يَنْتَفِعُ بِهَا وَإِنْ كَانَ غَنِيًّا، لأَنَّ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ أَصَابَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ ﷺ صُرَّةً فِيهَا مِائَةُ دِينَارٍ، فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللهِ ﷺ أَنْ يُعَرِّفَهَا ثُمَّ يَنْتَفِعَ بِهَا، وَكَانَ أُبَيٌّ كَثِيرَ الْمَالِ مِنْ مَيَاسِيرِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ ﷺ. فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ ﷺ أَنْ يُعَرِّفَهَا، فَلَمْ يَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ ﷺ أَنْ يَأْكُلَهَا. فَلَوْ كَانَتِ اللُّقَطَةُ لَمْ تَحِلَّ إِلاَّ لِمَنْ تَحِلُّ لَهُ الصَّدَقَةُ، لَمْ تَحِلَّ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، لأَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ أَصَابَ دِينَارًا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ ﷺ فَعَرَّفَهُ، فَلَمْ يَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهُ، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ ﷺ بِأَكْلِهِ، وَكَانَ لاَ يَحِلُّ لَهُ الصَّدَقَةُ. وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ، إِذَا كَانَتِ اللُّقَطَةُ يَسِيرَةً، أَنْ يَنْتَفِعَ بِهَا وَلاَ يُعَرِّفَهَا. و قَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا كَانَ دُونَ دِينَارٍ يُعَرِّفُهَا قَدْرَ جُمْعَةٍ، وَهُوَ قَوْلُ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۳۷۴۸) (صحیح)
۱۳۷۳- زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے لقطہ (گری پڑی چیز)کے بارے میں پوچھاگیاتو آپ نے فرمایا:'' سال بھراس کی پہچان کراؤ ۱؎ ، اگرکوئی پہچان بتادے تواسے دے دو، ورنہ اس کے ڈاٹ اورسربندکو پہچان لو، پھر اُسے کھاجاؤ۔ پھرجب اس کا مالک آئے تو اُسے ادا کردو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- زید بن خالد کی حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے، ۲- احمدبن حنبل کہتے ہیں: اس باب میں سب سے زیادہ صحیح یہی حدیث ہے، ۳- یہ ان سے اوربھی کئی سندوں سے مروی ہے، ۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔ یہ لوگ لقطہ سے فائدہ اٹھانے کوجائز سمجھتے ہیں،جب ایک سال تک اس کا اعلان ہوجائے اور کوئی پہچاننے والانہ ملے ۔ شافعی ، احمد اوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،۵- اورصحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ وہ ایک سال تک لقطہ کا اعلان کرے اگر اس کا مالک آجائے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ اسے صدقہ کردے۔سفیان ثوری اور عبداللہ بن مبارک کا یہی قول ہے۔اوریہی اہل کوفہ کابھی قول ہے،۶- لقطہ اٹھانے والا جب مالدار ہوتو یہ لوگ لقطہ سے فائدہ اٹھانے کو اس کے لیے جائز نہیں سمجھتے ہیں،۷- شافعی کہتے ہیں: وہ اس سے فائدہ اٹھائے اگرچہ وہ مال دار ہو، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ابی بن کعب کو ایک تھیلی ملی جس میں سو دینار تھے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اس کا اعلان کریں پھر اس سے فائدہ اٹھائیں، اور ابی بن کعب صحابہ میں خوشحال لوگوں میں تھے اوربہت مالدارتھے، پھربھی نبی اکرمﷺنے انہیں پہچان کرانے کا حکم دیا اور جب کوئی پہچاننے والا نہیں ملا تو آپﷺنے انہیں کھاجانے کا حکم دیا۔ ( دوسری بات یہ کہ) اگر لقطہ صرف انہیں لوگوں کے لیے جائز ہوتا جن کے لیے صدقہ جائز ہے توعلی کے لیے جائز نہ ہوتا، اس لیے کہ علی کو نبی اکرمﷺکے زمانہ میں ایک دینار ملا،انہوں نے(سال بھرتک)اُس کی پہچان کروائی لیکن کوئی نہیں ملا جواسے پہچانتا تو نبی اکرمﷺنے انہیں کھا جانے کا حکم دیا حالاں کہ ان کے لیے صدقہ جائز نہیں تھا،۸- بعض اہل علم نے رخصت دی ہے کہ جب لقطہ معمولی ہو تو لقطہ اٹھانے والا اس سے فائدہ اٹھاسکتا ہے اوراس کا پہچان کرواناضروری نہیں ۲؎ ،۹- بعض اہل علم کہتے ہیں: جب وہ ایک دینارسے کم ہوتووہ اس کی ایک ہفتہ تک پہچان کروائے۔ یہ اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کا قول ہے،۱۰- اس باب میں ابی بن کعب ، عبداللہ بن عمرو، جارود بن معلی، عیاض بن حمار اور جریر بن عبداللہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : باب کی ان دونوں روایتوں میں ایک سال پہچان کرانے کاذکرہے اورباب کی آخری حدیث میں تین سال کاذکرہے، یہ سامان اور حالات پر منحصر ہے، یا ایک سال بطور وجوب اورتین سال بطور استحباب وورع ہے ان روایتوں کا اختلاف تضاد کااختلاف نہیں کہ ایک کو ناسخ اور دوسرے کو منسوخ قراردیا جائے، پہچان کرانے کی صورت یہ ہوگی کہ بازار اوراجتماعات میں جہاں لوگوں کا ہجوم ہو اعلان کیاجائے کہ گم شدہ چیز کی نشانی بتاکر حاصل کی جاسکتی ہے، اگرکوئی اس کی نشانی بتادے تومزیدشناخت اورگواہوں کی ضرورت نہیں بلاتأمل وہ چیز اس کے حوالے کردی جائے ۔
وضاحت ۲؎ : اس کی دلیل ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا :
''إني لأنقلب إلى أهلي فأجد التمرة ساقطة على فراشي فأرفعها لآكلها ثم أخشى أن تكون صدقة فألقيها ' '۔(یعنی: میں کبھی گھر میں جاتا ہوں تو کھجور کا کوئی دانہ ملتاہے، اس کو کھا لینا چاہتاہوں، پھر خیال آتا ہے کہ کہیں یہ صدقہ و زکاۃ کا نہ ہو، تو اسے پھینک دیتاہوں) اس سے ثابت ہوا کہ آپ نے اس کو پہچان کروانے کا کام کیے بغیر کھا لینے کا ارادہ کیا۔
1374- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ نُمَيْرٍ وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ زَيْدِ بْنِ صُوحَانَ وَسَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ. فَوَجَدْتُ سَوْطًا (قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ فِي حَدِيثِهِ: فَالْتَقَطْتُ سَوْطًا فَأَخَذْتُهُ). قَالاَ: دَعْهُ. فَقُلْتُ: لاَ أَدَعُهُ، تَأْكُلْهُ السِّبَاعُ، لآخُذَنَّهُ فَلأَسْتَمْتِعَنَّ بِهِ. فَقَدِمْتُ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، وَحَدَّثْتُهُ الْحَدِيثَ. فَقَالَ: أَحْسَنْتَ. وَجَدْتُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ ﷺ صُرَّةً فِيهَا مِائَةُ دِينَارٍ، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ بِهَا. فَقَالَ لِي: عَرِّفْهَا حَوْلاً. فَعَرَّفْتُهَا حَوْلاً فَمَا أَجِدُ مَنْ يَعْرِفُهَا، ثُمَّ أَتَيْتُهُ بِهَا، فَقَالَ: عَرِّفْهَا حَوْلاً آخَرَ. فَعَرَّفْتُهَا. ثُمَّ أَتَيْتُهُ بِهَا، فَقَالَ عَرِّفْهَا: حَوْلاً آخَرَ وَقَالَ: أَحْصِ عِدَّتَهَا وَوِعَائَهَا وَوِكَائَهَا، فَإِنْ جَاءَ طَالِبُهَا فَأَخْبَرَكَ بِعِدَّتِهَا وَوِعَائِهَا وَوِكَائِهَا فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ، وَإِلاَّ فَاسْتَمْتِعْ بِهَا.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/اللقطۃ ۱ (۲۴۲۶)، م/اللقطۃ ۱ (۱۷۲۳)، د/اللقطۃ ۱ (۱۷۰۱)، ق/اللقطۃ ۲ (۲۵۰۶)، وحم (۵/۱۲۶) (صحیح)
۱۳۷۴- سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ میں زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے ساتھ نکلاتومجھے (راستے میں) ایک کوڑا پڑاملا- ابن نمیرکی روایت میں ہے کہ میں نے پڑا ہوا ایک کوڑا پایا- تومیں نے اُسے اٹھا لیاتوان دونوں نے کہا: اسے رہنے دو ،(نہ اٹھاؤ) میں نے کہا :میں اسے نہیں چھوڑسکتاکہ اسے درندے کھاجائیں،میں اسے ضرور اٹھاؤں گا، اور اس سے فائدہ اٹھاؤں گا۔ پھر میں ابی بن کعب کے پاس آیا ،اور ان سے اس کے بارے میں پوچھا اور ان سے پوری بات بیان کی تو انہوں نے کہا: تم نے اچھا کیا، رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں، میں نے ایک تھیلی پائی جس میں سودینار تھے، اسے لے کرمیں آپ ﷺکے پاس آیا ، آپ نے مجھ سے فرمایا:'' ایک سال تک اس کی پہچان کراؤ''، میں نے ایک سال تک اس کی پہچان کرائی لیکن مجھے کوئی نہیں ملاجواسے پہچانتا،پھر میں اسے لے کر آپ کے پاس آیا۔ آپ نے فرمایا: ''ایک سال تک اور اس کی پہچان کراؤ''،میں نے اس کی پہچان کرائی،پھر اسے لے کر آپ کے پاس آیا ۔ توآپ نے فرمایا:'' ایک سال تک اوراس کی پہچان کراؤ ۱؎ ، اورفرمایا: اس کی گنتی کرلو، اس کی تھیلی اوراس کے سربندکوخوب اچھی طرح پہچان لو اگراسے تلاش کرنے والا آئے اور اس کی تعداد ،اس کی تھیلی اوراس کے سربند کے بارے میں بتائے تو اسے دے دو ورنہ تم اسے اپنے کام میں لاؤ''۔امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی تین سال تک پہچان کرانے کا حکم دیا، اس کی تاویل پچھلی حدیث کے حاشیہ میں دیکھیے۔