• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
36-إِذَا نذر ثُمَّ أَسْلَمَ قَبْلَ أَنْ يَفِيَ
۳۶- باب: آدمی نذر مانے اور اسے پوری کرنے سے پہلے اسلام قبول کر لے تو اس کی نذر کے حکم کا بیان​


3851- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ: عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ كَانَ عَلَيْهِ لَيْلَةٌ نذر فِي الْجَاهِلِيَّةِ يَعْتَكِفُهَا، فَسَأَلَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَأَمَرَهُ أَنْ يَعْتَكِفَ۔
* تخريج: خ/الاعتکاف ۵ (۲۰۳۲)، ۱۵ (۲۰۴۲)، ۱۶(۲۰۴۳)، الأیمان ۲۹ (۶۶۹۷)، م/الأیمان ۶ (۱۶۵۶)، د/الصوم ۸۰ (۲۴۷۴)، الأیمان۳۲(۳۳۲۵)، ت/الأیمان ۱۱ (۱۵۳۹)، ق/الصیام ۶۰ (۱۷۷۲)، الکفارات ۱۸ (۲۱۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۵۰)، حم (۱/۶۸۷)، حم (۱/۳۷ و۲/۲۰، ۸۲، ۱۵۳)، دي/النذور والأیمان ۱ (۲۳۷۸) (صحیح)
۳۸۵۱- عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے جاہلیت میں ایک رات کی نذر مانی تھی کہ وہ اس میں اعتکاف کریں گے، تو انہوں نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے انہیں اعتکاف کرنے کا حکم دیا ۱؎۔
وضاحت ۱؎: چوں کہ یہ نذر ایک جائز چیز میں تھی اس لیے آپ نے اسے پوری کرنے کا حکم دیا۔


3852- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كَانَ عَلَى عُمَرَ نذر فِي اعْتِكَافِ لَيْلَةٍ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، فَسَأَلَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ فَأَمَرَهُ أَنْ يَعْتَكِفَ۔
* تخريج: خ/الخمیس ۱۹ (۳۱۴۴)، المغازي ۵۴ (۴۳۲۰)، م/الأیمان ۶ (۱۶۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۷۵۲۱)، حم (۲/۱۰، ۳۵، ۱۵۳) (صحیح)
۳۸۵۲- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی الله عنہ کے ذمہ مسجد حرام میں ایک رات اعتکاف کرنے کی نذر تھی، انہوں نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا تو آپ صلی للہ علیہ وسلم نے انہیں اعتکاف کرنے کا حکم دیا۔


3853- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْحَكَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ عُبَيْدَاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ كَانَ جَعَلَ عَلَيْهِ يَوْمًا يَعْتَكِفُهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ؛ فَسَأَلَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ؟ فَأَمَرَهُ أَنْ يَعْتَكِفَهُ۔
* تخريج: م/الأیمان ۶ (۱۶۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۷۹۱۶)، حم (۲/۸۲) (صحیح)
۳۸۵۳- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ عمر رضی الله عنہ نے جاہلیت میں (مسجد حرام میں) ایک دن کا اعتکاف اپنے اوپر واجب کر لیا تھا، انہوں نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے انہیں اس میں اعتکاف کرنے کا حکم دیا۔


3854- حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ قَالَ لِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: حِينَ تِيبَ عَلَيْهِ يَا رسول اللَّهِ إِنِّي أَنْخَلِعُ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ وَ رسولهِ؛ فَقَالَ لَهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْسِكْ عَلَيْكَ بَعْضَ مَالِكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ.
٭قَالَ أَبُوعَبْدالرَّحْمَنِ: يُشْبِهُ أَنْ يَكُونَ الزُّهْرِيُّ سَمِعَ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ كَعْبٍ وَمِنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ عَنْهُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ الطَّوِيلِ تَوْبَةُ كَعْبٍ۔
* تخريج: د/الأیمان ۲۹ (۳۳۱۷، ۳۳۱۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۳۵) (صحیح)
۳۸۵۴- کعب بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب ان کی تو بہ قبول ہوئی تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اللہ اور اس کے رسول کے نام پر صدقہ کر کے اپنے مال سے علیحدہ ہو جاتا ہوں، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ''اپنا کچھ مال روک لو یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا ۱؎ ''۔
٭ابو عبدالرحمن نسائی کہتے ہیں: ہو سکتا ہے کہ زہری نے اس حدیث کو عبداللہ بن کعب اور عبدالرحمن دونوں سے سنا ہو اور انہوں نے ان (کعب رضی الله عنہ) سے روایت کی ہو ۲؎۔ اسی لمبی حدیث میں کعب رضی الله عنہ کی توبہ کا بھی ذکر ہے۔
وضاحت ۱؎: یہ حدیث اگلے باب سے متعلق ہے، نساخ کی غلطی سے یہاں درج ہو گئی ہے، واللہ اعلم۔
وضاحت ۲؎: زہری نے یہ حدیث: عبداللہ بن کعب، عبدالرحمن بن کعب، نیز عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب (عن أبیہ عبداللہ بن کعب) تینوں سے سنی ہے، دیکھئے احادیث رقم: ۳۴۵۱-۳۴۵۶
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
37-إِذَا أَهْدَى مَالَهُ عَلَى وَجْهِ النذر
۳۷- باب: جب کوئی اپنا مالنذر کے طور پر ہدیہ کر دے​


3855- أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، قَالَ: قَالَ ابْنُ شِهَابٍ فَأَخْبَرَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ كَعْبٍ قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُ حَدِيثَهُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ قَالَ: فَلَمَّا جَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ، قُلْتُ: يَا رسول اللَّهِ إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ، وَإِلَى رسولهِ قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمْسِكْ عَلَيْكَ بَعْضَ مَالِكَ؛ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ " فَقُلْتُ: فَإِنِّي أُمْسِكُ سَهْمِي الَّذِي بِخَيْبَرَ مُخْتَصَرٌ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۴۵۴ (صحیح)
۳۸۵۵- کعب بن مالک رضی الله عنہ اپنا وہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ غزوۂ تبوک میں رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے، وہ کہتے ہیں: جب میں آپ صلی للہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھا تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری توبہ میں سے یہ بھی ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول کو صدقہ کر کے اپنے مال سے الگ ہو جاؤں، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اپنا کچھ مال اپنے لیے روک لو یہ تمہارے لئے بہتر ہوگا''، میں نے عرض کیا: اچھا تو میں اپنا وہ حصہ روک لیتا ہوں جو خیبر میں ہے، یہ حدیث مختصر ہے۔


3856- أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُ حَدِيثَهُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ قُلْتُ: يَا رسول اللَّهِ إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ، وَإِلَى رسولهِ؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمْسِكْ عَلَيْكَ مَالَكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ " قُلْتُ: فَإِنِّي أُمْسِكُ عَلَيَّ سَهْمِي الَّذِي بِخَيْبَرَ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۸۵۴ (صحیح)
۳۸۵۶- کعب بن مالک رضی الله عنہ اپنا اس وقت کا واقعہ بیان کرتے ہیں جب وہ غزوۂ تبوک میں رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے۔ (کہتے ہیں:) میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری توبہ میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کو صدقہ کر کے اپنے مال سے الگ ہو جاؤں، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم اپنا (کچھ) مال اپنے لیے روک لو یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا''، میں نے عرض کیا: تو میں اپنے پاس اپنا وہ حصہ روک لیتا ہوں جو خیبر میں ہے۔


3857- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْدَانَ بْنِ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَعْيَنَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْقِلٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ عَمِّهِ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ كَعْبٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُ قَالَ: قُلْتُ: يَا رسول اللَّهِ! إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّمَا نَجَّانِي بِالصِّدْقِ، وَإِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ، وَإِلَى رسولهِ؛ فَقَالَ: " أَمْسِكْ عَلَيْكَ بَعْضَ مَالِكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ " قُلْتُ: فَإِنِّي أُمْسِكُ سَهْمِي الَّذِي بِخَيْبَرَ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۶۰) (صحیح)
۳۸۵۷- کعب بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے مجھے صرف سچ کی وجہ سے نجات دی تو میری توبہ میں سے یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کو صدقہ کر کے اپنے مال سے الگ ہو جاؤں۔ آپ نے فرمایا: '' اپنا کچھ مال اپنے پاس روک لو یہ تمہارے لئے بہتر ہوگا''، میں نے عرض کیا: تو میں اپنا وہ حصہ روک لیتا ہوں جو خیبر میں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
38-هَلْ تَدْخُلُ الأَرْضُونَ فِي الْمَالِ إِذَا نذر
۳۸- باب: مال کی نذر مانی جائے تو کیا زمین بھی اس میں شامل ہوگی؟​


3858- قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ - قِرَائَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ - عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ مَوْلَى ابْنِ مُطِيعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ كُنَّا مَعَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ خَيْبَرَ؛ فَلَمْ نَغْنَمْ إِلا الأَمْوَالَ، وَالْمَتَاعَ، وَالثِّيَابَ؛ فَأَهْدَى رَجُلٌ مِنْ بَنِي الضُّبَيْبِ يُقَالُ لَهُ: رِفَاعَةُ بْنُ زَيْدٍ لِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُلامًا أَسْوَدَ يُقَالُ لَهُ: مِدْعَمٌ؛ فَوُجِّهَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى وَادِي الْقُرَى حَتَّى إِذَا كُنَّا بِوَادِي الْقُرَى بَيْنَا مِدْعَمٌ يَحُطُّ رَحْلَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَجَائَهُ سَهْمٌ؛ فَأَصَابَهُ، فَقَتَلَهُ؛ فَقَالَ النَّاسُ: هَنِيئًا لَكَ الْجَنَّةُ؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَلا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ الشَّمْلَةَ الَّتِي أَخَذَهَا يَوْمَ خَيْبَرَ مِنْ الْمَغَانِمِ لَتَشْتَعِلُ عَلَيْهِ نَارًا " فَلَمَّا سَمِعَ النَّاسُ بِذَلِكَ جَائَ رَجُلٌ بِشِرَاكٍ أَوْ بِشِرَاكَيْنِ إِلَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "شِرَاكٌ أَوْ شِرَاكَانِ مِنْ نَارٍ "۔
* تخريج: خ/المغازي ۳۸ (۴۲۳۴)، الأیمان ۳۳ (۶۷۰۷)، م/الإیمان ۴۸ (۱۱۵)، د/الجہاد ۱۴۳ (۲۷۱۱)، ط/الجہاد ۱۳ (۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۱۶) (صحیح)
۳۸۵۸- ابو ہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ خیبر کے سال ہم لوگ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ہمیں مال ۱؎، سامان اور کپڑوں کے علاوہ کوئی غنیمت نہ ملی تو بنو ضبیب کے رفاعہ بن زید نامی ایک شخص نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کو مدعم نامی ایک کالا غلام ہدیہ کیا، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے وادی قریٰ کا رخ کیا، یہاں تک کہ جب ہم وادی قریٰ میں پہنچے تو مدعم رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کا کجاوا اتار رہا تھا کہ اسی دوران اچانک ایک تیر آ کر اسے لگا اور اسے قتل کر ڈالا، لوگوں نے کہا کہ تمہیں جنت مبارک ہو، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''ہرگز نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ کملی جو اس نے غنیمت کے مال سے خیبر کے روز لے لی تھی(اور مال تقسیم نہ ہوا تھا) اس کے سر پر آگ بن کر دہک رہی ہے''۔ جب لوگوں نے یہ بات سنی تو ایک شخص چمڑے کا ایک یا دو تسمہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آیا تو آپ نے فرمایا: ''یہ ایک یا دو تسمے آگ کے ہیں ''۔
وضاحت ۱؎: اسی لفظ میں باب سے مطابقت ہے، کیوں کہ ابوہریرہ رضی الله عنہ نے اموال کے لفظ سے زمینیں (آراضی) مراد لی ہیں (خیبر میں زیادہ زمینیں مال غنیمت میں ہاتھ آئی تھیں) اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی صرف '' مال '' کی نذر مانے تو اس مال میں زمین بھی داخل گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
39-الاسْتِثْنَائُ
۳۹- باب: قسم کھانے والے کے استثنا یعنی ان شاء اللہ کہنے کے حکم کا بیان​


3859- أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ أَنَّ كَثِيرَ بْنَ فَرْقَدٍ حَدَّثَهُ أَنَّ نَافِعًا حَدَّثَهُمْ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ حَلَفَ فَقَالَ: إِنْ شَائَ اللَّهُ؛ فَقَدْ اسْتَثْنَى "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۸۲۶۵) (صحیح)
۳۸۵۹- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس نے قسم کھائی اور ان شاء اللہ کہا تو اس نے استثناء کر لیا '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی اگر اس نے قسم پوری نہیں کی تو بھی کوئی حرج نہیں۔


3860- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ حَلَفَ؛ فَقَالَ إِنْ شَائَ اللَّهُ؛ فَقَدْ اسْتَثْنَى "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۸۲۴ (صحیح)
۳۸۶۰- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس نے قسم کھائی اور '' ان شاء اللہ'' کہا تو اس نے استثناء کر لیا''۔


3861- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ؛ فَقَالَ إِنْ شَائَ اللَّهُ؛ فَهُوَ بِالْخِيَارِ إِنْ شَائَ أَمْضَى، وَإِنْ شَائَ تَرَكَ "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۸۲۴ (صحیح)
۳۸۶۱- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس نے کسی بات پر قسم کھائی اور ''ان شاء اللہ '' کہا تو اب اسے اختیار ہے چاہے تو قسم پوری کرے اور چاہے تو نہ کرے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
40-إِذَا حَلَفَ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ إِنْ شَائَ اللَّهُ هَلْ لَهُ اسْتِثْنَائٌ
۴۰- باب: ایک آدمی قسم کھائے اور دوسرا اس کے لئے ان شاء اللہ کہے توکیا استثناء کا اعتبار ہوگا؟​


3862-أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ بَكَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُوالزِّنَادِ مِمَّا حَدَّثَهُ عَبْدُالرَّحْمَنِ الأَعْرَجُ مِمَّا ذَكَرَ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ بِهِ عَنْ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " قَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ: لأَطُوفَنَّ اللَّيْلَةَ عَلَى تِسْعِينَ امْرَأَةً كُلُّهُنَّ يَأْتِي بِفَارِسٍ يُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ؛ فَقَالَ لَهُ: صَاحِبُهُ إِنْ شَائَ اللَّهُ؛ فَلَمْ يَقُلْ إِنْ شَائَ اللَّهُ؛ فَطَافَ عَلَيْهِنَّ جَمِيعًا؛ فَلَمْ تَحْمِلْ مِنْهُنَّ إِلا امْرَأَةٌ وَاحِدَةٌ جَائَتْ بِشِقِّ رَجُلٍ، وَأَيْمُ الَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ قَالَ: إِنْ شَائَ اللَّهُ لَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فُرْسَانًا أَجْمَعِينَ "۔
* تخريج: خ/الأیمان ۳ (۶۶۳۹)، تحفۃ الأشراف: ۱۳۷۳۱)، م/الأیمان ۵ (۱۶۵۴)، ت/الأیمان ۷ (۱۵۳۲- تعلیقاً)، حم (۲/۲۲۹، ۲۷۵، ۵۰۶) (صحیح)
۳۸۶۲- ابو ہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''سلیمان بن داود علیہ السلام نے (قسم کھا کر) کہا: آج رات میں نوے بیویوں کے پاس جاؤں گا، ان میں سے ہر کوئی ایک سوار کو جنم دے گی جو اللہ کے راستے میں جہاد کرے گا، تو ان کے ساتھی نے ان سے کہا: ''ان شاء اللہ'' (اگر اللہ نے چاہا) مگر خود انہوں نے نہیں کہا، پھر وہ ان تمام عورتوں کے پاس گئے لیکن ان میں سوائے ایک عورت کے کوئی بھی حاملہ نہ ہوئی اور اس نے بھی ایک ادھورے بچے کو جنم دیا، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! اگر انہوں نے '' ان شاء اللہ'' کہا ہوتا تو وہ تمام بیٹے اللہ کی راہ میں سوار ہو کر جہاد کرتے'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: معلوم ہوا کہ قسم کھانے والے نے اگر بذات خود '' ان شاء اللہ'' نہیں کہا ہے بلکہ کسی اور نے کہا ہے تو یہ استثناء قسم کھانے والے کے حق میں مفید نہ ہوگا۔ (یعنی: اگر قسم توڑی تو حانث ہو جائے گا)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
41-كَفَّارَةُ النذر
۴۱- باب: نذر کے کفارہ کا بیان​


3863- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ الْوَزِيرِ بْنِ سُلَيْمَانَ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ - قِرَائَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ - عَنْ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ شِمَاسَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "كَفَّارَةُ النذر كَفَّارَةُ الْيَمِينِ"۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۹۹۳۶)، وقد أخرجہ: م/النذر ۵ (۱۶۴۵)، د/النذر ۳۱ (۳۳۲۳)، ت/النذور ۴ (۱۵۲۴)، ق/الکفارات ۱۷ (۲۱۲۶)، حم (۴/۱۴۴، ۱۴۶، ۱۴۷) (صحیح)
۳۸۶۳- عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' نذر کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: قسم کے کفارے کا ذکر سورۂ مائدہ کی اس آیت میں ہے {لاَ يُؤَاخِذُكُمُ اللّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُواْ أَيْمَانَكُمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ} (سورة المائدة: 89)
(اللہ تعالیٰ تمہاری قسموں میں لغو قسم پر تم سے مواخذہ نہیں فرماتا، لیکن مواخذہ اس پر فرماتا ہے کہ تم جن قسموں کو مضبوط کر دو۔ اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا دینا ہے اوسط درجے کا جو اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو، یا ان کو کپڑا دینا یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا ہے اور جس کو مقدور نہ ہو تو تین دن کے روزے ہیں۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب کہ تم قسم کھالو اور اپنی قسموں کا خیال رکھو! اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے واسطے اپنے احکام بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر کرو)۔


3864- أَخْبَرَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ أَنَّهُ بَلَغَهُ عَنْ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لا نذر فِي مَعْصِيَةٍ"۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۶۷) (صحیح)
(سند میں زہری اور قاسم کے درمیان انقطاع ہے، مگر سند متصل ہے، ملاحظہ ہو اگلی حدیث)
۳۸۶۴- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''معصیت (گناہ کے کاموں) میں نذر نہیں ''۔


3865- أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لا نذر فِي مَعْصِيَةٍ، وَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ الْيَمِينِ "۔
* تخريج: د/الأیمان ۲۳ (۳۲۹۱)، ت/الأیمان۱(۱۵۲۴)، ق/الکفارات۱۶(۲۱۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۷۰)، حم (۶/۲۴۷)، ویأتی فیما یلي: ۳۸۶۶-۳۸۶۹ (صحیح)
۳۸۶۵- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''معصیت (گنا ہوں کے کاموں) میں نذر نہیں، اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی اگر کسی نے معصیت کی نذر مانی ہے تو وہ اسے پوری نہیں کرے گا البتہ اس کا کفارہ ضرور ادا کرے۔


3866- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ الْمُخَرِّمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لا نذر فِي مَعْصِيَةٍ، وَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ "۔
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۸۶۶- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''معصیت (گنا ہوں کے کاموں) میں نذر نہیں، اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے''۔


3867- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لا نذر فِي مَعْصِيَةٍ، وَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۸۶۵ (صحیح)
۳۸۶۷- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''معصیت (گنا ہوں کے کاموں) میں نذر نہیں، اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے''۔


3868- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو صَفْوَانَ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لا نذر فِي مَعْصِيَةٍ، وَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ الْيَمِينِ ". ٭قَالَ أَبُوعَبْدالرَّحْمَنِ: وَقَدْقِيلَ أَنَّ الزُّهْرِيَّ لَمْ يَسْمَعْ هَذَا مِنْ أَبِي سَلَمَةَ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۸۶۵ (صحیح)
۳۸۶۸- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''معصیت (گنا ہوں کے کاموں) میں نذر نہیں اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے''۔
٭ ابو عبدالرحمن نسائی کہتے ہیں: کہا گیا ہے کہ زہری نے اسے ابو سلمہ سے نہیں سنا ۱؎۔
وضاحت ۱؎: لیکن اگلی روایت میں زہری کے ابو سلمہ سے سننے کی صراحت موجود ہے۔


3869- أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ مُوسَى الْفَرَوِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو ضَمْرَةَ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لا نذر فِي مَعْصِيَةٍ، وَكَفَّارَتُهَا كَفَّارَةُ الْيَمِينِ "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۸۶۵ (صحیح)
۳۸۶۹- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''معصیت (گنا ہوں کے کاموں) میں نذر نہیں اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے''۔


3870- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ التِّرْمِذِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُوبَكْرِ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلالٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي عَتِيقٍ وَمُوسَى بْنِ عُقْبَةَ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ أَرْقَمَ أَنَّ يَحْيَى بْنَ أَبِي كَثِيرٍ الَّذِي كَانَ يَسْكُنُ الْيَمَامَةَ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاسَلَمَةَ يُخْبِرُ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لا نذر فِي مَعْصِيَةٍ، وَكَفَّارَتُهَا كَفَّارَةُ يَمِينٍ ".
٭قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ: سُلَيْمَانُ بْنُ أَرْقَمَ مَتْرُوكُ الْحَدِيثِ، - وَاللَّهُ أَعْلَمُ - خَالَفَهُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ۔
* تخريج: د/الأیمان ۲۳ (۳۲۹۲)، ت/الأیمان ۱ (۱۵۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۸۲) (صحیح)
(اس کے راوی '' سلیمان بن ارقم '' ضعیف ہیں، لیکن اس کی پچھلی سندیں صحیح ہیں)
۳۸۷۰- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''معصیت (گنا ہوں کے کاموں) میں نذر نہیں اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے''۔
٭ابو عبدالرحمن نسائی کہتے ہیں: ''سلیمان بن ارقم'' متروک الحدیث راوی ہے، واللہ اعلم، اس حدیث کے سلسلے میں یحییٰ بن أبی کثیر کے تلامذہ میں سے کئی ایک نے سلیمان بن ارقم کی مخالفت کی ہے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یحییٰ بن ابی کثیر کے تلامذہ میں سے سلیمان بن ارقم جو متروک الحدیث ہیں نے یحییٰ سے حدیث کی روایت میں ثقافت کی مخالفت کی ہے، لیکن اصل حدیث دوسرے رواۃ سے ثابت ہے، اور یہ مخالفت بعد کی سندوں میں ظاہر ہے۔


3871- أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ وَكِيعٍ، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ وَهُوَ عَلِيٌّ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الزُّبَيْرِ الْحَنْظَلِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لا نذر فِي مَعْصِيَةٍ، وَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۲۲)، حم (۴/۴۳۳، ۴۳۹، ۴۴۰، ۴۴۳)، ویأتي بأرقام: ۳۸۷۲-۳۸۷۵) (صحیح)
(اس کے راوی ''محمد بن زبیر'' ضعیف الحدیث ہیں، لیکن عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)
۳۸۷۱- عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''معصیت (گناہ کے کاموں) کی نذر نہیں، اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے''۔


3872- أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ عَنْ أَبِي عَمْرٍو - وَهُوَ الأَوْزَاعِيُّ - عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الزُّبَيْرِ الْحَنْظَلِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لا نذر فِي مَعْصِيَةٍ، وَكَفَّارَتُهَا كَفَّارَةُ يَمِينٍ "۔
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
(سابقہ روایت سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
۳۸۷۲- عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''معصیت (گناہ کے کام) میں نذر نہیں، اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے''۔


3873- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بِشْرٍ، عَنْ يَحْيَى ابْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ الْحَنْظَلِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لا نذر فِي غَضَبٍ، وَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ الْيَمِينِ " .
٭قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ: مُحَمَّدُ بْنُ الزُّبَيْرِ ضَعِيفٌ لا يَقُومُ بِمِثْلِهِ حُجَّةٌ، وَقَدْ اخْتُلِفَ عَلَيْهِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۸۷۱ (ضعیف)
(اس کے راوی '' محمد بن زبیر'' ضعیف الحدیث ہیں، اور اس حدیث کے مضمون کا کوئی شاہد موجود نہیں)
۳۸۷۳- عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''غضب کی نذر نہیں، اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے ''۔ ٭ابو عبدالرحمن کہتے ہیں: محمد بن زبیر ضعیف ہیں، ان جیسے سے حجت قائم نہیں ہوتی اور اس حدیث کے سلسلے میں ان کے متعلق اختلاف کیا گیا ہے۔


3874- أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عِمْرَانَ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لا نذر فِي غَضَبٍ، وَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ الْيَمِينِ "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۸۷۱ (ضعیف)
(دیکھئے پچھلی حدیث پر کلام)
۳۸۷۴- عمران رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''غضب کی نذر نہیں، اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے''۔


3875- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ أَنْبَأَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عِمْرَانَ؛ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لا نذر فِي غَضَبٍ، وَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ الْيَمِينِ ".
وَقِيلَ إِنَّ الزُّبَيْرَ لَمْ يَسْمَعْ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ .
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۸۷۱ (ضعیف)
۳۸۷۵- عمران رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''غضب کی نذر نہیں، اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے''۔ کہا گیا ہے کہ (محمد کے والد) زبیر نے اس حدیث کو عمران بن حصین سے نہیں سنا۔
وضاحت ۱؎: اس کی دلیل اگلی روایت ہے۔


3876- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ، قَالَ: صَحِبْتُ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ قَالَ: سَمِعْتُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " النذر نذر انِ فَمَا كَانَ مِنْ نذر فِي طَاعَةِ اللَّهِ؛ فَذَلِكَ لِلَّهِ، وَفِيهِ الْوَفَائُ، وَمَاكَانَ مِنْ نذر فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ؛ فَذَلِكَ لِلشَّيْطَانِ، وَلا وَفَائَ فِيهِ، وَيُكَفِّرُهُ مَا يُكَفِّرُ الْيَمِينَ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۹۱) (صحیح)
(شواہد سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں بھی محمد اور ان کے باپ زبیر ضعیف ہیں، نیز ایک راوی مبہم بھی ہے)
۳۸۷۶- عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: '' نذر کی دو قس میں ہیں: جو نذر اللہ کی اطاعت کی ہو تو وہ اللہ کے لئے ہے اور اسے پورا کرنا ہے اور جو نذر اللہ کی معصیت کی ہو تو وہ شیطان کی ہے اور اسے پورا نہیں کرنا ہے اور اس کا کفارہ وہی ہوگا جو قسم کا ہوتا ہے''۔


3877- أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الزُّبَيْرِ الْحَنْظَلِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي أَنَّ رَجُلا حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَأَلَ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ عَنْ رَجُلٍ نذر نذرا لايَشْهَدُ الصَّلاةَ فِي مَسْجِدِ قَوْمِهِ؛ فَقَالَ عِمْرَانُ: سَمِعْتُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لا نذر فِي غَضَبٍ، وَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ "۔
* تخريج: انظر ماقبلہ (ضعیف)
۳۸۷۷- زبیر حنظلی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ان سے بیان کیا کہ اس نے عمران بن حصین رضی الله عنہ سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا، جس نے یہ نذر مانی کہ وہ اپنے قبیلے کی مسجد میں صلاۃ میں حاضر نہیں ہوگا، تو عمران رضی الله عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ''غضب کی کوئی نذر نہیں ہوتی اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے''۔


3878- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ؛ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لا نذر فِي مَعْصِيَةٍ، وَلا غَضَبٍ، وَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۰۸)، حم (۴/۴۳۹، ۴۴۳) (ضعیف)
(لفظ '' غضب '' میں اس حدیث کا کوئی شاہد نہیں ہے)
۳۸۷۸- عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''معصیت کی کوئی نذر نہیں، اور نہ ہی غضب میں، اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے''۔


3879- أَخْبَرَنَا هِلالُ بْنُ الْعَلائِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو سُلَيْمٍ - وَهُوَ عُبَيْدُ بْنُ يَحْيَى - قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُوبَكْرٍ النَّهْشَلِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لا نذر فِي الْمَعْصِيَةِ، وَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ الْيَمِينِ ".
٭خَالَفَهُ مَنْصُورُ بْنُ زَاذَانَ فِي لَفْظِهِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (ضعیف)
۳۸۷۹- عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''معصیت میں نذر نہیں، اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے ''۔ ٭منصور بن زاذان کی روایت کے الفاظ اس سے مختلف ہیں۔ (ان کی روایت آگے آ رہی ہے)


3880- أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَنْصُورٌ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ؛ قَالَ: قَالَ: يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " لا نذر لابْنِ آدَمَ فِيمَا لايَمْلِكُ وَلا فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ".
٭خَالَفَهُ عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ فَرَوَاهُ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۱۱)، حم (۴/۴۲۹) (صحیح)
۳۸۸۰- عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''آدمی کی ایسی چیزوں میں نذر نہیں، جن کا اسے اختیار نہیں اور نہ ہی اللہ کی معصیت میں نذر ہے''۔
٭علی بن زید نے منصور کی مخالفت کی ہے اور اسے بسند حسن بصری عن عبدالرحمن بن سمرہ سے روایت کی ہے۔


3881- أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ تَمِيمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جَدْعَانَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لا نذر فِي مَعْصِيَةٍ، وَلا فِيمَا لا يَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ ".
٭قَالَ أَبُوعَبْدالرَّحْمَنِ: عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ ضَعِيفٌ، وَهَذَا الْحَدِيثُ خَطَأٌ، وَالصَّوَابُ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۹۷۰۰) (صحیح)
(اس کے راوی '' علی بن زید بن جدعان'' ضعیف ہیں، لیکن سابقہ سند سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
۳۸۸۱- عبدالرحمن بن سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''معصیت میں کوئی نذر نہیں اور نہ ہی کسی ایسی چیز میں کوئی نذر ہے جس کا آدمی کو اختیار نہیں ''۔
٭ابو عبدالرحمن نسائی کہتے ہیں: علی بن زید ضعیف ہیں اور اس حدیث میں غلطی ہوئی ہے اور صحیح عمران بن حصین رضی الله عنہ ہے اور دوسری سند سے یہ حدیث عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت کی گئی ہے۔


3882- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَيُّوبُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو قِلابَةَ، عَنْ عَمِّهِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لا نذر فِي مَعْصِيَةٍ، وَلا فِيمَا لا يَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۸۴۳ (صحیح)
۳۸۸۲- عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''معصیت میں کوئی نذر نہیں اور نہ ہی ایسی چیز میں کوئی نذر ہے جس کا آدمی کو اختیار نہیں ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
42-بَاب مَا الْوَاجِبُ عَلَى مَنْ أَوْجَبَ عَلَى نَفْسِهِ نذر افَعَجَزَ عَنْهُ
۴۲- باب: جو کوئی نذر مانے پھر اس کی ادائیگی سے عاجز رہے اس شخص پر کیا واجب ہے؟​


3883- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلا يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ؛ فَقَالَ مَا هَذَا، قَالُوا: نذر أَنْ يَمْشِيَ إِلَى بَيْتِ اللَّهِ، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنْ تَعْذِيبِ هَذَا نَفْسَهُ مُرْهُ؛ فَلْيَرْكَبْ "۔
* تخريج: خ/جزء الصید ۲۷ (۱۸۶۵)، الأیمان ۳۱ (۶۷۰۱)، م/النذور ۴ (۱۶۴۲)، د/الأیمان ۲۳ (۳۳۰۱)، ت/الأیمان ۹ (۱۵۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۳۹۲)، حم (۳/۱۰۶، ۱۱۴، ۱۸۳، ۱۸۳، ۲۳۵، ۲۷۱) (صحیح)
۳۸۸۳- انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ دو آدمیوں کے بیچ میں ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چل رہا ہے، آپ نے فرمایا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: اس نے نذر مانی ہے کہ وہ بیت اللہ تک پیدل چل کر جائے گا، آپ نے فرمایا: '' اس طرح اپنی جان کو تکلیف دینے کی اللہ کو ضرورت نہیں، اس سے کہو کہ سوار ہو کر جائے'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: معلوم ہوا کہ جاہل صوفیوں نے جو نئی نئی قسم کے پر مشقت افعال یہ سمجھ کر ایجاد کر رکھے ہیں کہ ان سے تزکیہ نفوس حاصل ہوتا ہے حالانکہ شریعت سے ان کا ذرہ برابر تعلق نہیں، یہ احکام شریعت سے ان کی جہالت و ناواقفیت کی دلیل ہے کیونکہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑی جسے صاف صاف طور پر بیان نہ کر دیا ہو۔


3884- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: مَرَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْخٍ يُهَادَى بَيْنَ اثْنَيْنِ فَقَالَ: مَا بَالُ هَذَا، قَالُوا: نذر أَنْ يَمْشِيَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنْ تَعْذِيبِ هَذَا نَفْسَهُ مُرْهُ؛ فَلْيَرْكَبْ؛ فَأَمَرَهُ أَنْ يَرْكَبَ۔
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۸۸۴- انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کا گزر ایک ایسے بوڑھے شخص کے پاس سے ہوا جو دو آدمیوں کے درمیان ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چل رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: اس کا کیا حال ہے؟ ان لوگوں نے عرض کیا: اس نے (کعبہ) پیدل جانے کی نذر مانی ہے، آپ نے فرمایا: اس کے اس طرح اپنی جان کو تکلیف پہنچانے کی اللہ کو ضرورت نہیں، اسے حکم دو کہ سوار ہو کر چلے، چنانچہ انہوں نے اسے سوار ہونے کا حکم دیا۔


3885- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: أَتَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَجُلٍ يُهَادَى بَيْنَ ابْنَيْهِ فَقَالَ: مَا شَأْنُ هَذَا؛ فَقِيلَ: نذر أَنْ يَمْشِيَ إِلَى الْكَعْبَةِ؛ فَقَالَ: " إِنَّ اللَّهَ لا يَصْنَعُ بِتَعْذِيبِ هَذَا نَفْسَهُ شَيْئًا؛ فَأَمَرَهُ أَنْ يَرْكَبَ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۷۹۹) (صحیح)
۳۸۸۵- انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کا ایک ایسے شخص کے پاس سے گزر ہوا جو اپنے دو بیٹوں کے درمیان ان کے کندھوں کا سہارا لئے چل رہا تھا، آپ نے فرمایا: اس کا کیا معاملہ ہے؟ عرض کیا گیا: اس نے کعبہ پیدل جانے کی نذر مانی ہے، آپ نے فرمایا: اس طرح اپنے آپ کو تکلیف دینے سے اللہ تعالیٰ اس کو کوئی ثواب نہیں دے گا، پھر آپ نے اسے سوار ہونے کا حکم دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
43-الاسْتِثْنَائُ
۴۳- باب: قسم میں استثنا یعنی ''ان شاء اللہ'' کہنے کا بیان​


3886- أَخْبَرَنَا نُوحُ بْنُ حَبِيبٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ؛ فَقَالَ: إِنْ شَائَ اللَّهُ؛ فَقَدْ اسْتَثْنَى "۔
* تخريج: ت/الأیمان ۷ (۱۵۳۲)، ق/الکفارات ۶ (۲۱۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۲۳)، حم (۲/۳۰۹) (صحیح)
۳۸۸۶- ابو ہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو شخص کسی بات کی قسم کھائے، پھر وہ ان شاء اللہ کہے تو اس نے استثناء کر لیا '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: (یعنی وہ قسم توڑنے والا نہیں ہوگا)۔


3887- أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِالْعَظِيمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَفَعَهُ، قَالَ سُلَيْمَانُ: لأَطُوفَنَّ اللَّيْلَةَ عَلَى تِسْعِينَ امْرَأَةً تَلِدُ كُلُّ امْرَأَةٍ مِنْهُنَّ غُلامًا يُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؛ فَقِيلَ لَهُ قُلْ إِنْ شَائَ اللَّهُ؛ فَلَمْ يَقُلْ؛ فَطَافَ بِهِنَّ؛ فَلَمْ تَلِدْ مِنْهُنَّ إِلا امْرَأَةٌ وَاحِدَةٌ نِصْفَ إِنْسَانٍ؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ قَالَ إِنْ شَائَ اللَّهُ لَمْ يَحْنَثْ، وَكَانَ دَرَكًا لِحَاجَتِهِ "۔
* تخريج: خ/النکاح ۱۹ (۵۲۴۲)، م/الأیمان ۵ (۱۶۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۱۸)، حم (۲/۲۷۵) (صحیح)
۳۸۸۷- ابو ہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' سلیمان علیہ السلام نے کہا: آج رات میں نوے (۹۰) عورتوں کے پاس جاؤں گا، ان میں سے ہر عورت ایک ایسا بچہ جنے گی جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے گا۔ ان سے کہا گیا: آپ ان شاء اللہ کہیں، لیکن انہوں نے نہیں کہا۔ سلیمان علیہ السلام اپنی عورتوں کے پاس گئے تو ان میں سے صرف ایک عورت نے آدھا بچہ جنا''، پھر رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اگر انہوں نے ''ان شاء اللہ'' کہا ہوتا تو وہ قسم توڑنے والے نہیں ہوتے اور اپنی حاجت پا لینے میں کامیاب بھی رہتے''۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207

36- كِتَابُ الْمُزَارَعَةِ
۳۶- کتاب: مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کے احکام و مسائل


44- الثَّالِثُ مِنْ الشُّرُوطِ فِيهِ الْمُزَارَعَةُ وَالْوَثَائِقُ
۴۴- باب: (سابقہ دو شرط قسم اور نذر کے ذکر کے بعد) تیسری شرط کا ذکر جس میں بٹائی پر زمین دینے اور اس سے متعلق عہد و میثاق کا تذکرہ ۱؎​
وضاحت ۱؎: اس سے پہلے کتاب الأیمان والنذور میں قسم اور نذر کو دو شرط مان کر اس باب میں تیسری شرط کا ذکر کیا، اس لیے کہ ان میں اکثر وبیشتر استثنا اور تعلیق کا تذکرہ ہوتا ہے، اسی لیے اس کو تیسری شرط کا عنوان دے کر یہ بتایا کہ اس میں مزارعت اور وثائق کا تذکرہ ہوگا (التعلیقات السلفیۃ)


3888- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حِبَّانُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُاللَّهِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: " إِذَا اسْتَأْجَرْتَ أَجِيرًا؛ فَأَعْلِمْهُ أَجْرَهُ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۳۹۵۸)، حم (۳/۵۹، ۶۸، ۷۱)، مرفوعاً (ضعیف)
(اس کے راوی ''اب رہیم نخعی'' کا ابو سعید خدری سے سماع نہیں ہے، یعنی سند میں انقطاع ہے لیکن اس اثر کا معنی صحیح ہے، آگے کے آثار دیکھیں)
۳۸۸۸- ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب تم کسی مزدور سے مزدوری کراؤ تو اسے اس کی اجرت بتا دو۔


3889- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حِبَّانُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُاللَّهِ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ الْحَسَنِ أَنَّهُ كَرِهَ أَنْ يَسْتَأْجِرَ الرَّجُلَ حَتَّى يُعْلِمَهُ أَجْرَهُ۔
* تخريج: تفردبہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۷۵) (صحیح)
۳۸۸۹-حسن بصری سے روایت ہے کہ وہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ کوئی آدمی کسی آدمی سے اس کی اجرت بتائے بغیر مزدوری کرائے۔


3890- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حِبَّانُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُاللَّهِ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، عَنْ حَمَّادٍ -هُوَ ابْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ- أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا عَلَى طَعَامِهِ قَالَ: لا حَتَّى تُعْلِمَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۹۲) (صحیح الإسناد)
۳۸۹۰- حماد بن ابی سلیمان سے روایت ہے کہ ان سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو کسی مزدور سے اس کے کھانے کے بدلے کام لے؟ تو انہوں نے کہا: نہیں (درست نہیں) یہاں تک کہ وہ اسے بتا دے۔


3891- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حِبَّانُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُاللَّهِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ حَمَّادٍ وَقَتَادَةَ فِي رَجُلٍ قَالَ لِرَجُلٍ أَسْتَكْرِي مِنْكَ إِلَى مَكَّةَ بِكَذَا وَكَذَا؛ فَإِنْ سِرْتُ شَهْرًا أَوْ كَذَا وَكَذَا شَيْئًا سَمَّاهُ فَلَكَ زِيَادَةُ كَذَا وَكَذَا، فَلَمْ يَرَيَا بِهِ بَأْسًا، وَكَرِهَا أَنْ يَقُولَ: أَسْتَكْرِي مِنْكَ بِكَذَا وَكَذَا؛ فَإِنْ سِرْتُ أَكْثَرَ مِنْ شَهْرٍ نَقَصْتُ مِنْ كِرَائِكَ كَذَا وَكَذَا۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۹۳) (صحیح الإسناد)
۳۸۹۱- حماد اور قتادہ سے روایت ہے کہ ان سے ایک ایسے شخص کے سلسلے میں پوچھا گیا، جس نے ایک آدمی سے کہا: میں تجھ سے مکے تک کے لئے اتنے اور اتنے میں کرایے پر(سواری) لیتا ہوں۔ اگر میں ایک مہینہ یا اس سے کچھ زیادہ- اور اس نے فاضل مسافت کی تعیین کر دی- چلا تو تیرے لئے اتنا اور اتنا زیادہ کرایہ ہوگا۔ تو اس(صورت) میں انہوں نے کوئی حرج نہیں سمجھا۔ لیکن اس (صورت) کو انہوں نے ناپسند کیا کہ وہ کہے کہ میں تم سے اتنے اور اتنے میں کرایے پر(سواری) لیتا ہوں، اب اگر مجھے ایک مہینہ سے زائد چلنا پڑا ۱؎، تو میں تمہارے کرایے میں سے اسی قدر اتنا اور اتنا کاٹ لوں گا ۲؎۔
وضاحت ۱؎: سواری کی سست رفتاری کے سبب ایسا کرنا پڑا تو ایسا کروں گا
وضاحت ۲؎: متعین مسافت (دوری) کو تیزی کی وجہ سے وقت سے پہلے طے کر لینے پر زیادہ اجرت بطور انعام واکرام ہے اس لیے دونوں نے اس کو جائز قرار دیا ہے، اور دھیرے دھیرے چلنے کی وجہ سے کرائے میں کمی کرنا ظلم اور دوسرے کے حق کو چھیننے کے مشابہ ہے، یہی وجہ کہ دونوں نے اس دوسری صورت کو مکروہ جانا ہے۔


3892- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حِبَّانُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُاللَّهِ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ - قِرَائَةً - قَالَ: قُلْتُ لِعَطَائٍ: عَبْدٌ أُؤَاجِرُهُ سَنَةً بِطَعَامِهِ، وَسَنَةً أُخْرَى بِكَذَا وَكَذَا قَالَ: لابَأْسَ بِهِ، وَيُجْزِئُهُ اشْتِرَاطُكَ حِينَ تُؤَاجِرُهُ أَيَّامًا أَوْ آجَرْتُهُ، وَقَدْ مَضَى بَعْضُ السَّنَةِ، قَالَ: إِنَّكَ لا تُحَاسِبُنِي لِمَا مَضَى۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۹۰۷۵) (صحیح الإسناد)
۳۸۹۲- ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطا سے کہا: اگر میں ایک غلام کو ایک سال کھانے کے بدلے اور ایک سال تک اتنے اور اتنے مال کے بدلے نوکر رکھوں (تو کیا حکم ہے)؟ انہوں نے کہا: کوئی حرج نہیں، اور جب تم اسے اجرت (مزدوری) پر رکھو تو اس کے لئے تمہارا اس وقت اتنا کہنا کافی ہے کہ اتنے دنوں تک اجرت (مزدوری) پر رکھوں گا۔ (ابن جریج نے کہا) یا اگر میں نے اجرت (مزدوری) پر رکھا اور سال کے کچھ دن گزر گئے ہوں؟ عطاء نے کہا: تم گذرے ہوئے دن کو شمار نہیں کرو گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
45-ذِكْرُ الأَحَادِيثِ الْمُخْتَلِفَةِ فِي النَّهْيِ عَنْ كِرَائِ الأَرْضِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَاخْتِلافُ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ لِلْخَبَرِ
۴۵- باب: زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر​


3893- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا خَالِدٌ - هُوَ ابْنُ الْحَارِثِ - قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِالْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ رَافِعِ بْنِ أُسَيْدِ بْنِ ظُهَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ أُسَيْدِ بْنِ ظُهَيْرٍ أَنَّهُ خَرَجَ إِلَى قَوْمِهِ إِلَى بَنِي حَارِثَةَ؛ فَقَالَ: يَا بَنِي حَارِثَةَ! لَقَدْ دَخَلَتْ عَلَيْكُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا: مَا هِيَ؟ قَالَ: نَهَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كِرَائِ الأَرْضِ، قُلْنَا: يَا رسول اللَّهِ! إِذًا نُكْرِيهَا بِشَيْئٍ مِنْ الْحَبِّ، قَالَ: لا، قَالَ: وَكُنَّا نُكْرِيهَا بِالتِّبْنِ؛ فَقَالَ: لا، وَكُنَّا نُكْرِيهَا بِمَا عَلَى الرَّبِيعِ السَّاقِي، قَالَ: لا، ازْرَعْهَا أَوْ امْنَحْهَا أَخَاكَ .
٭خَالَفَهُ مُجَاهِدٌ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷) (صحیح)
(اس کے راوی '' رافع بن اسید '' لین الحدیث ہیں، مگر متابعات وشواہد سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)
۳۸۹۳- اسید بن ظہیر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ اپنے قبیلہ یعنی بنی حارثہ کی طرف نکل کر گئے اور کہا: اے بنی حارثہ! تم پر مصیبت آ گئی ہے، لوگوں نے کہا: وہ مصیبت کیا ہے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے زمین کرایے پر دینے سے منع فرما دیا ہے۔ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! تو کیا ہم اسے کچھ اناج (غلہ) کے بدلے کرایے پر اٹھائیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، وہ کہتے ہیں: حالانکہ ہم اسے گھاس (چارہ) کے بدلے دیتے تھے۔ آپ نے فرمایا: نہیں۔ پھر کہا: ہم اسے اس پیداوار پر اٹھاتے تھے جو پانی کی کیا ریوں کے پاس سے پیدا ہوتی ہے، آپ نے فرمایا: نہیں، تم اس میں خود کھیتی کرو یا پھر اسے اپنے بھائی کو دے دو۔ ٭ مجاہد نے رافع بن اسید کی مخالفت کی ہے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: مخالفت یہ ہے کہ رافع بن اسید نے اس کو اسید بن ظہیر رضی الله عنہ کی حدیث سے روایت کیا ہے، جب کہ مجاہد نے اس کو اسید بن ظہیر سے اور اسید نے رافع بن خدیج رضی الله عنہما کی حدیث سے روایت کیا ہے، اور رافع بن اسید لین الحدیث راوی ہیں، جب کہ مجاہد ثقہ امام ہیں، بہر حال حدیث صحیح ہے۔


3894- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى - وَهُوَ ابْنُ آدَمَ - قَالَ: حَدَّثَنَا مُفَضَّلٌ - وَهُوَ ابْنُ مُهَلْهَلٍ - عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أُسَيْدِ بْنِ ظُهَيْرٍ، قَالَ: جَائَنَا رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ؛ فَقَالَ: إِنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَاكُمْ عَنْ الْحَقْلِ، وَالْحَقْلُ: الثُّلُثُ، وَالرُّبُعُ، وَعَنْ الْمُزَابَنَةِ، وَالْمُزَابَنَةُ شِرَائُ مَا فِي رُؤسِ النَّخْلِ بِكَذَا وَكَذَا، وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ۔
* تخريج: د/البیوع ۳۲ (۳۳۹۸)، ق/الرہون۱۰(۲۴۶۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۴۹)، حم (۳/۴۶۴، ۴۶۵، ۴۶۶) ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۳۸۹۵-۳۸۹۷) (صحیح الإسناد)
۳۸۹۴- اسید بن ظہیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رافع بن خدیج رضی الله عنہ آئے تو کہا: رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے تمہیں تہائی یا چوتھائی پیداوار پر (کھیتوں کو) بٹائی پر دینے سے اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے، مزابنہ درختوں میں لگے کھجوروں کو اتنے اور اتنے میں (یعنی معین) وسق کھجور کے بدلے بیچنے کو کہتے ہیں۔


3895- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ سَمِعْتُ مُجَاهِدًا يُحَدِّثُ عَنْ أُسَيْدِ بْنِ ظُهَيْرٍ، قَالَ: أَتَانَا رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ؛ فَقَالَ: نَهَانَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَنَا نَافِعًا، وَطَاعَةُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرٌ لَكُمْ، نَهَاكُمْ عَنْ الْحَقْلِ، وَقَالَ: "مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ؛ فَلْيَمْنَحْهَا أَوْ لِيَدَعْهَا" وَنَهَى عَنْ الْمُزَابَنَةِ، وَالْمُزَابَنَةُ: الرَّجُلُ يَكُونُ لَهُ الْمَالُ الْعَظِيمُ مِنْ النَّخْلِ؛ فَيَجِيئُ الرَّجُلُ؛ فَيَأْخُذُهَا بِكَذَا وَكَذَا وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ۔
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۸۹۵- اسید بن ظہیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رافع بن خدیج رضی الله عنہ آئے تو کہا: ہمیں رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے ایک ایسے معاملے سے منع فرمایا ہے جو ہمارے لئے نفع بخش تھا، لیکن رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کی اطاعت تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے، آپ نے تمہیں محاقلہ سے منع فرمایا ہے، آپ نے فرمایا: ''جس کی کوئی زمین ہو تو چاہئے کہ وہ اسے کسی کو ہبہ کر دے یا اسے ایسی ہی چھوڑ دے''، نیز آپ نے مزابنہ سے روکا ہے، مزابنہ یہ ہے کہ کسی آدمی کے پاس درخت پر کھجوروں کے پھل کا بڑا حصہ ہو۔ پھر کوئی (دوسرا) آدمی اسے اتنی اتنی وسق ۱ ؎ ایسی ہی (گھر میں موجود) کھجور کے بدلے میں لے لے۔
وضاحت ۱ ؎: ایک وسق میں ساٹھ صاع ہوتے ہیں۔ اور صاع اڑھائی کلوگرام کا، یعنی وسق =۱۵۰ کلوگرام۔


3896- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أُسَيْدِ بْنِ ظُهَيْرٍ، قَالَ: أَتَى عَلَيْنَا رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ؛ فَقَالَ وَلَمْ أَفْهَمْ؛ فَقَالَ: إِنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَاكُمْ عَنْ أَمْرٍ كَانَ يَنْفَعُكُمْ، وَطَاعَةُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرٌ لَكُمْ مِمَّا يَنْفَعُكُمْ نَهَاكُمْ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْحَقْلِ، وَالْحَقْلُ: الْمُزَارَعَةُ بِالثُّلُثِ، وَالرُّبُعِ؛ فَمَنْ كَانَ لَهُ أَرْضٌ؛ فَاسْتَغْنَى عَنْهَا؛ فَلْيَمْنَحْهَا أَخَاهُ أَوْلِيَدَعْ، وَنَهَاكُمْ عَنْ الْمُزَابَنَةِ، وَالْمُزَابَنَةُ: الرَّجُلُ يَجِيئُ إِلَى النَّخْلِ الْكَثِيرِ بِالْمَالِ الْعَظِيمِ؛ فَيَقُولُ: خُذْهُ بِكَذَا وَكَذَا وَسْقًا مِنْ تَمْرِ ذَلِكَ الْعَامِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۸۹۴ (صحیح)
۳۸۹۶- اسید بن ظہیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رافع بن خدیج رضی الله عنہ آئے تو انہوں نے کہا، اور میں اس (ممانعت کے راز) کو سمجھ نہیں سکا، پھر انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے تمہیں ایک ایسی بات سے روک دیا ہے جو تمہارے لئے سود مند تھی، لیکن رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کی اطاعت تمہارے لئے بہتر ہے اس چیز سے جو تمہیں فائدہ دیتی ہے۔ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے تمہیں حقل سے روکا ہے۔ اور حقل کہتے ہیں: تہائی یا چوتھائی پیداوار کے بدلے زمین کو بٹائی پر دینا۔ لہٰذا جس کے پاس زمین ہو اور وہ اس سے بے نیاز ہو تو چاہئے کہ وہ اسے اپنے بھائی کو دے دے، یا اسے ایسی ہی چھوڑ دے، اور آپ نے تمہیں مزابنہ سے روکا ہے۔ مزابنہ یہ ہے کہ آدمی بہت سارا مال لے کر کھجور کے باغ میں جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس سال کی اس مال کو (یعنی پاس میں موجود کھجور کو) اس سال کی (درخت پر موجود) کھجور کے بدلے اتنے اتنے وسق کے حساب سے لے لو۔


3897- أَخْبَرَنِي إِسْحَاقُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ الْبَغْدَادِيُّ أَبُومُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَاحِدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أُسَيْدُ بْنُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ: قَالَ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ: نَهَاكُمْ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَنَا نَافِعًا، وَطَاعَةُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْفَعُ لَنَا، قَالَ: " مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ؛ فَلْيَزْرَعْهَا، فَإِنْ عَجَزَ عَنْهَا؛ فَلْيُزْرِعْهَا أَخَاهُ ".٭خَالَفَهُ عَبْدُالْكَرِيمِ بْنُ مَالِكٍ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۸۹۴ (صحیح)
(متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی '' اسید بن رافع '' لین الحدیث ہیں)
۳۸۹۷- رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے تمہیں ایک ایسی بات سے روک دیا جو ہمارے لئے مفید اور نفع بخش تھی لیکن رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کی اطاعت ہمارے لئے اس سے زیادہ مفید اور نفع بخش ہے۔ آپ نے فرمایا: ''جس کے پاس زمین ہو تو وہ اس میں کھیتی کرے اور اگر وہ اس سے عاجز ہو تو اپنے (کسی مسلمان) بھائی کو کھیتی کے لئے دے دے ''۔ ٭اس میں عبدالکریم بن مالک نے ان (سعید بن عبدالرحمن) کی مخالفت کی ہے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: عبدالکریم بن مالک کی روایت آگے آ رہی ہے، اور مخالفت ظاہر ہے۔


3898- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عُبَيْدُاللَّهِ - يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو- عَنْ عَبْدِالْكَرِيمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: أَخَذْتُ بِيَدِ طَاوُسٍ حَتَّى أَدْخَلْتُهُ عَلَى ابْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ؛ فَحَدَّثَهُ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ نَهَى عَنْ كِرَائِ الأَرْضِ، فَأَبَى طَاوُسٌ؛ فَقَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ لا يَرَى بِذَلِكَ بَأْسًا.
وَرَوَاهُ أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: قَالَ عَنْ رَافِعٍ مُرْسَلا۔
* تخريج: م/البیوع۲۱ (۱۵۵۰) (تحفۃ الأشراف: ۳۵۹۱) (صحیح)
۳۸۹۸- مجاہد کہتے ہیں کہ میں نے طاؤس کا ہاتھ پکڑا یہاں تک کہ میں انہیں لے کر رافع بن خدیج رضی الله عنہ کے بیٹے (اسید) کے یہاں گیا، تو انہوں نے ان سے بیان کیا کہ میرے والد رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی للہ علیہ وسلم نے زمین کرایے پر دینے سے منع فرمایا، تو طاؤس نے انکار کر دیا اور کہا: میں نے ابن عباس رضی الله عنہ سے سنا ہے کہ وہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔
اور اس حدیث کو ابو عوانہ نے ابو حصین سے، اور ابو حصین نے مجاہد سے، اور مجاہد نے رافع رضی الله عنہ سے مرسلاً (یعنی منقطعا) روایت کیا ہے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: سابقہ تمام سندوں میں مجاہد اور رافع کے درمیان یا تو اسید بن رافع بن خدیج یا اسید بن ظہیر کسی ایک کا واسطہ ہے اور اس سند میں یہ واسطہ ساقط ہے، اس لیے یہ سند منقطع ہے مگر متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے۔


3899- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُوعَوَانَةَ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: قَالَ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ: نَهَانَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَنَا نَافِعًا، وَأَمْرُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الرَّأْسِ وَالْعَيْنِ، نَهَانَا أَنْ نَتَقَبَّلَ الأَرْضَ بِبَعْضِ خَرْجِهَا. ٭تَابَعَهُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُهَاجِرٍ۔
* تخريج: ت/الأحکام۴۲(۱۳۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۷۸)، حم (۱/۲۸۶)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۲۹۰۰-۳۹۰۳) (صحیح)
۳۸۹۹- رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے ایک ایسی بات سے روک دیا جو ہمارے لئے نفع بخش اور مفید تھی، آپ کا حکم سر آنکھوں پر، آپ صلی للہ علیہ وسلم نے ہمیں زمین کو اس کی کچھ پیداوار کے بدلے کرایے پر دینے سے منع فرمایا۔
ابراہیم بن مہاجر نے ابو حصین کی متابعت کی ہے۔ (ان کی روایت آگے آ رہی ہے)


3900- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ؛ قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَرْضِ رَجُلٍ مِنْ الأَنْصَارِ، قَدْ عَرَفَ أَنَّهُ مُحْتَاجٌ؛ فَقَالَ: " لِمَنْ هَذِهِ الأَرْضُ " قَالَ لِفُلانٍ: أَعْطَانِيهَا بِالأَجْرِ، فَقَالَ: " لَوْ مَنَحَهَا أَخَاهُ " فَأَتَى رَافِعٌ الأَنْصَارَ؛ فَقَالَ: إِنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَاكُمْ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَكُمْ نَافِعًا، وَطَاعَةُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْفَعُ لَكُمْ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۸۹۹ (صحیح)
(سند میں راوی '' ابراہیم '' کا حافظہ کمزور تھا، اور سند میں انقطاع بھی ہے، لیکن متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے)
۳۹۰۰- رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم انصار کے ایک آدمی کی زمین کے پاس سے گزرے جسے آپ جانتے تھے کہ وہ ضرورت مند ہے، پھر فرمایا: ''یہ زمین کس کی ہے؟ ''اس نے کہا: فلاں کی ہے، اس نے مجھے کرایے پر دی ہے، آپ نے فرمایا: ''اگر اس نے اسے اپنے بھائی کو عطیہ کے طور پر دے دی ہوتی (تو اچھا ہوتا) ''، تب رافع بن خدیج رضی الله عنہ نے انصار کے پاس آ کر کہا بولے: رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے تمہیں ایک ایسی چیز سے روکا ہے جو تمہارے لئے نفع بخش تھی، لیکن رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کی اطاعت تمہارے لئے سب سے زیادہ مفید اور نفع بخش ہے۔


3901- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ: نَهَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحَقْلِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۸۹۹ (صحیح)
(سابقہ متابعات کی وجہ سے یہ صحیح ہے)
۳۹۰۱- رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے حقل ۱؎ سے منع فرمایا۔
وضاحت ۱؎: حقل کی تفصیل اوپر گذر چکی ہے مقصد تہائی اور چوتھائی کے بٹائی دینے کا معاملہ ہے۔


3902- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ خَالِدٍ - وَهُوَ ابْنُ الْحَارِثِ - قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: حَدَّثَ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ؛ قَالَ: خَرَجَ إِلَيْنَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَهَانَا عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَنَا نَافِعًا؛ فَقَالَ: "مَنْ كَانَ لَهُ أَرْضٌ؛ فَلْيَزْرَعْهَا أَوْ يَمْنَحْهَا أَوْ يَذَرْهَا"۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۸۹۴ (صحیح)
(سابقہ متابعات کی وجہ سے یہ بھی صحیح ہے)
۳۹۰۲- رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم ہماری طرف نکلے تو آپ نے ہمیں ایک ایسی چیز سے روک دیا جو ہمارے لئے نفع بخش تھی اور فرمایا: ''جس کے پاس کوئی زمین ہو تو چاہیئے کہ وہ اس میں کھیتی کرے یا وہ اسے کسی کو دے دے یا اسے (یونہی) چھوڑ دے''۔


3903- أَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ، عَنْ عَطَائٍ وَطَاوُسٍ وَمُجَاهِدٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ؛ قَالَ: خَرَجَ إِلَيْنَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَهَانَا عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَنَا نَافِعًا، وَأَمْرُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرٌ لَنَا، قَالَ: "مَنْ كَانَ لَهُ أَرْضٌ؛ فَلْيَزْرَعْهَا أَوْ لِيَذَرْهَا أَوْ لِيَمْنَحْهَا".
وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَى أَنَّ طَاوُسًا لَمْ يَسْمَعْ هَذَا الْحَدِيثَ۔ (مِنْ رَافِعٍ)
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۸۹۹(صحیح) (سابقہ متابعات کی وجہ سے یہ بھی صحیح ہے)
۳۹۰۳- رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہماری طرف رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نکل کر آئے تو ہمیں ایک ایسی چیز سے روک دیا جو ہمارے لئے نفع بخش اور مفید تھی-لیکن رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کا حکم ہمارے لئے زیادہ بہتر ہے، آپ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس کی کوئی زمین ہو تو وہ خود اس میں کھیتی کرے یا اسے چھوڑ دے یا اسے(کسی کو) دے دے''۔
اور اس بات کی دلیل کہ یہ حدیث طاؤس نے (رافع رضی الله عنہ سے خود) نہیں سنی ہے آنے والی حدیث ہے۔


3904- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: كَانَ طَاوُسٌ يَكْرَهُ أَنْ يُؤَاجِرَ أَرْضَهُ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، وَلا يَرَى بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ بَأْسًا، فَقَالَ لَهُ مُجَاهِدٌ: اذْهَبْ إِلَى ابْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ؛ فَاسْمَعْ مِنْهُ حَدِيثَهُ؛ فَقَالَ: إِنِّي وَاللَّهِ لَوْ أَعْلَمُ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهُ مَا فَعَلْتُهُ، وَلَكِنْ حَدَّثَنِي مَنْ هُوَ أَعْلَمُ مِنْهُ ابْنُ عَبَّاسٍ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا قَالَ: " لأَنْ يَمْنَحَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ أَرْضَهُ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَأْخُذَ عَلَيْهَا خَرَاجًا مَعْلُومًا ".
وَقَدْ اخْتُلِفَ عَلَى عَطَائٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ؛ فَقَالَ عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ مَيْسَرَةَ: عَنْ عَطَائٍ، عَنْ رَافِعٍ، وَقَدْ تَقَدَّمَ ذِكْرُنَا لَهُ، وَقَالَ عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ: عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرٍ۔
* تخريج: خ/الحرث ۱۰ (۲۳۳۰)، ۱۸ (۲۳۴۲)، الہبۃ ۳۵ (۲۶۳۴)، م/البیوع ۲۱(۱۵۵۰)، د/البیوع ۳۱ (۳۳۸۹)، ت/الأحکام ۴۲ (۱۳۸۵)، ق/الرہون ۹ (۲۴۵۶)، ۱۱(۲۴۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۳۵) حم (۱/۲۳۴، ۲۸۱، ۳۴۹) (صحیح)
۳۹۰۴- عمروبن دینار کہتے ہیں: طاؤس اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ آدمی اپنی زمین سونے، چاندی کے بدلے کرایے پر اٹھائے۔ البتہ (پیداوار کی) تہائی یا چوتھائی کے بدلے بٹائی پر دینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ تو ان سے مجاہد نے کہا: رافع بن خدیج کے لڑکے (اسید) کے پاس جاؤ اور ان سے ان کی حدیث سنو، انہوں نے کہا: اللہ کی قسم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اس سے روکا ہے تو میں ایسا نہ کرتا لیکن مجھ سے ایک ایسے شخص نے بیان کیا جو ان سے بڑا عالم ہے یعنی ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے تو بس اتنا فرمایا تھا: '' تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو اپنی زمین دے دے یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اس پر ایک متعین محصول (لگان) وصول کرے ''۔
اس حدیث میں عطاء کے سلسلہ میں اختلاف واقع ہے، عبدالملک بن میسرہ کہتے ہیں: 'عن عطاء، عن رافع(عطا سے روایت ہے وہ رافع سے روایت کرتے ہیں) (جیسا کہ حدیث رقم ۳۹۰۳ میں ہے) اور یہ بات اوپر کی روایت میں گزر چکی ہے اور عبدالملک بن ابی سلیمان (عن رافع کے بجائے) ''عن عطاء عن جابر'' کہتے ہیں۔ (ان کی روایت آگے آ رہی ہے)


3905- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ كَانَ لَهُ أَرْضٌ؛ فَلْيَزْرَعْهَا؛ فَإِنْ عَجَزَ أَنْ يَزْرَعَهَا؛ فَلْيَمْنَحْهَا أَخَاهُ الْمُسْلِمَ وَلا يُزْرِعْهَا إِيَّاهُ "۔
* تخريج: م/البیوع ۱۷(۱۵۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۳۹)، حم (۳/۳۰۲، ۳۰۴) (صحیح)
۳۹۰۵- جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس کی کوئی زمین ہو تو وہ خود اس میں کھیتی کرے اور اگر وہ اس سے عاجز ہو تو اپنے کسی مسلمان بھائی کو دے دے اور اس سے اس میں بٹائی پر کھیتی نہ کرائے''۔


3906- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرٍ؛ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ؛ فَلْيَزْرَعْهَا أَوْ لِيَمْنَحْهَا أَخَاهُ وَلايُكْرِيهَا ". تَابَعَهُ عبدالرحمن بْنُ عَمْرٍو الأَوْزَاعِيُّ۔
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۹۰۶- جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس کی کوئی زمین ہو تو وہ خود اس میں کھیتی کرے یا اسے اپنے بھائی کو دے دے اور اسے بٹائی پر نہ دے''۔
عبدالرحمن بن عمرو اوزاعی نے عبدالملک بن ابی سلیمان کی متابعت کی ہے۔ (یہ متابعت آگے آ رہی ہے)۔


3907- أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرٍ؛ قَالَ: كَانَ لأُنَاسٍ فُضُولُ أَرَضِينَ يُكْرُونَهَا بِالنِّصْفِ وَالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ؛ فَلْيَزْرَعْهَا أَوْ يُزْرِعْهَا أَوْ يُمْسِكْهَا ".
٭وَافَقَهُ مَطَرُ بْنُ طَهْمَانَ۔
* تخريج: خ/الحرث ۱۸ (۲۳۴۰)، الہبۃ ۳۵ (۲۶۳۲)، م/البیوع ۱۷ (۱۵۳۶)، ق/الرہون ۷ (۲۴۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۲۴)، حم (۳/۳۵۵) (صحیح)
۳۹۰۷- جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ بعض لوگوں کے پاس ضرورت سے زائد زمینیں تھیں جنہیں وہ آدھا، تہائی اور چوتھائی پر اٹھاتے تھے، تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس کی کوئی زمین ہو تو اس میں کھیتی کرے یا اس میں (بلا کرایہ لیے) کھیتی کرائے یا بلا کھیتی کرائے روکے رکھے''۔ ٭ مطر بن طہمان نے اوزاعی کی موافقت (متابعت) کی ہے۔


3908- أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ مُحَمَّدٍ - وَهُوَ أَبُو عُمَيْرِ بْنُ النَّحَّاسِ وَعِيسَى بْنُ يُونُسَ هُوَ الْفَاخُورِيُّ - قَالا: حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ، عَنِ ابْنِ شَوْذَبٍ، عَنْ مَطَرٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: خَطَبَنَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ؛ فَلْيَزْرَعْهَا أَوْ لِيُزْرِعْهَا وَلا يُؤَاجِرْهَا "۔
* تخريج: م/البیوع ۱۷ (۱۵۳۶)، ق/الرہون ۷ (۲۴۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۸۶)، حم (۳/۳۶۹) (صحیح)
۳۹۰۸- جابر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے خطاب فرمایا اور کہا: ''جس کی کوئی زمین ہو تو اس میں کھیتی کرے یا کسی سے اس میں (بلا کرایہ لیے) کھیتی کرائے اور اسے کرایے پر نہ دے''۔


3909- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مَطَرٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرٍ رَفَعَهُ نَهَى عَنْ كِرَائِ الأَرْضِ.
٭وَافَقَهُ عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ جُرَيْجٍ عَلَى النَّهْيِ عَنْ كِرَائِ الأَرْضِ۔
* تخريج: م/البیوع ۱۶ (۱۵۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۸۷)، حم (۳/۳۹۵) (صحیح)
۳۹۰۹- جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے زمین کو کرایے پر اٹھانے سے منع فرمایا۔
٭زمین کو کرائے پر نہ دینے کے سلسلہ میں (روایت کرنے میں) عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج نے مطر کی موافقت کی ہے۔


3910- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَائٍ وَأَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الْمُخَابَرَةِ، وَالْمُزَابَنَةِ، وَالْمُحَاقَلَةِ، وَبَيْعِ الثَّمَرِ حَتَّى يُطْعَمَ إِلا الْعَرَايَا. تَابَعَهُ يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ۔
* تخريج: خ/البیوع ۸۳ (۲۱۸۹)، المساقاۃ ۱۷ (۲۳۸۰)، م/البیوع ۱۶ (۱۵۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۵۲، ۲۸۰۱)، حم (۳/۳۶۰، ۳۸۱، ۳۹۱، ۳۹۲)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۴۵۲۷، ۴۵۲۸، ۴۵۵۴) (صحیح)
۳۹۱۰- جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے بیع مخابرہ اور مزا بنہ، محاقلہ سے اور ان پھلوں کو بیچنے سے منع فرمایا ہے جو ابھی کھانے کے قابل نہ ہوئے ہوں، سوائے بیع عرایا کے ۱؎۔ یونس بن عبید نے اس کی متابعت کی ہے۔
وضاحت ۱؎: مخابرہ: زمین کو آدھی یا تہائی یا چوتھائی پیداوار پر بٹائی پر دینا، کہتے ہیں: مخابرہ ''خیبر'' سے ماخوذ ہے، یعنی خیبر کی زمینوں کے ساتھ جو معاملہ کیا گیا اس کو '' مخابرہ'' کہتے ہیں۔ حالانکہ خیبر میں جو معاملہ کیا گیا وہ جائز ہے، اسی لیے تو وہ معاملہ کیا گیا، مؤلف نے حدیث نمبر ۳۹۱۴ میں مخابرہ کی تعریف یہ کی ہے کہ '' انگور جو ابھی بیلوں میں ہو کو اس انگور کے بدلے بیچنا جس کو توڑ لیا گیا ہو، یہی سب سے مناسب تعریف ہے جو '' مزابنہ'' اور ''محاقلہ'' سے مناسبت رکھتی ہے۔
مزابنہ: درخت پر لگے ہوئے پھل کو توڑے ہوئے پھل کے بدلے معینہ مقدار سے بیچنے کو مزابنہ کہتے ہیں۔
محاقلہ: کھیت میں لگی ہوئی فصل کا اندازہ کر کے اسے غلّہ سے بیچنا۔
عرایا: عرایا یہ ہے کہ مالک کا باغ ایک یا دو درخت کے پھل کسی مسکین و غریب کو کھا نے کے لیے مفت دے دے، اور اس کے آنے جانے سے تکلیف ہو تو مالک اس درخت کے پھلوں کا اندازہ کر کے مسکین و فقیر سے خرید لے اور اس کے بدلے تر یا خشک پھل اس کے حوالے کر دے۔


3911- أَخْبَرَنِي زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الْمُحَاقَلَةِ، وَالْمُزَابَنَةِ، وَالْمُخَابَرَةِ، وَعَنْ الثُّنْيَا إِلا أَنْ تُعْلَمَ.
وَفِي رِوَايَةِ هَمَّامِ بْنِ يَحْيَى كَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ عَطَائً لَمْ يَسْمَعْ مِنْ جَابِرٍ حَدِيثَهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ لَهُ أَرْضٌ؛ فَلْيَزْرَعْهَا۔
* تخريج: د/البیوع ۳۴ (۳۴۰۵)، ت/البیوع ۵۵ (۱۲۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۹۵)، ویأتي عند المؤلف ۴۶۳۷ (صحیح)
۳۹۱۱- جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے محاقلہ ومزابنہ اور مخابرہ نامی بیع سے اور غیر متعین اور غیر معلوم مقدار کے استثناء ۱؎ سے منع فرمایا ہے۔
(آگے آنے والی) ہمام بن یحییٰ کی روایت میں گویا یہ دلیل ہے کہ عطاء نے جابر رضی الله عنہ سے ان کی یہ حدیث نہیں سنی ہے ۲؎ جو انہوں نے نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ جس کے پاس زمین ہو تو وہ اس میں کھیتی کرے۔
وضاحت ۱؎: بیچی ہوئی چیز میں سے بلا تعیین و تحدید کچھ لینے کی شرط رکھنا یا سارے باغ یا کھیت کو بیچ دینا اور اس میں سے غیر معلوم مقدار نکال لینا۔
وضاحت ۲؎: جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے عطاء کی یہ روایت صحیح بخاری میں موجود ہے (دیکھئے حدیث نمبر ۳۹۰۵ تخریج) سندھی فرماتے ہیں: مؤلف نے '' کالدلیل '' کہا ہے ('' الدلیل '' نہیں کہا ہے) جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ بات مؤکد نہیں ہے۔ نیز یہ ممکن ہے کہ عطاء نے سلیمان سے سننے کے بعد پھر جابر رضی الله عنہ سے جا کر یہ حدیث سنی ہو۔ ایسا بہت ہوتا ہے۔
 
Top