• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
23- تَرْكُ قِرَائَةِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحمن الرَّحِيمِ فِي فَاتِحَةِ الْكِتَابِ
۲۳-باب: سورہ ٔ فاتحہ میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کی قراءت چھوڑ دینے کا بیان​


910- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ الْعَلائِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا السَّائِبِ مَوْلَى هِشَامِ ابْنِ زُهْرَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ صَلَّى صَلاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ، فَهِيَ خِدَاجٌ، هِيَ خِدَاجٌ، هِيَ خِدَاجٌ، غَيْرُ تَمَامٍ "، فَقُلْتُ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ: إِنِّي أَحْيَانًا أَكُونُ وَرَائَ الإِمَامِ؟ فَغَمَزَ ذِرَاعِي، وَقَالَ: اقْرَأْ بِهَا - يَافَارِسِيُّ - فِي نَفْسِكَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " يَقُولُ اللَّهُ - عَزَّ وَجَلَّ -: قَسَمْتُ الصَّلاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ، فَنِصْفُهَا لِي وَنِصْفُهَا لِعَبْدِي، وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، قَالَ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : - اقْرَئُوا -، يَقُولُ الْعَبْدُ: { الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ } يَقُولُ اللَّهُ - عَزَّ وَجَلَّ -: حَمِدَنِي عَبْدِي، يَقُولُ الْعَبْدُ: { الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ } يَقُولُ اللَّهُ - عَزَّ وَجَلَّ -: أَثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي، يَقُولُ الْعَبْدُ: { مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ } يَقُولُ اللَّهُ - عَزَّ وَجَلَّ -: مَجَّدَنِي عَبْدِي، يَقُولُ الْعَبْدُ: { إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ } فَهَذِهِ الآيَةُ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي، وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، يَقُولُ الْعَبْدُ: { اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ * صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ } فَهَؤُلائِ لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ "
* تخريج: م/ال صلاۃ ۱۱ (۳۹۵) ، د/ال صلاۃ ۱۳۵ (۸۲۱) ، ت/تفسیر الفاتحۃ ۵ (۲۹۵۳) ، ق/إقامۃ ۱۱ (۸۳۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۳۵) ، ط/ال صلاۃ ۹ (۳۹) ، حم۲/۲۴۱، ۲۵۰، ۲۸۵، ۲۸۶، ۲۹۰، ۴۵۷، ۴۶۰، ۴۷۸، ۴۸۷ (صحیح)
۹۱۰- ابو سائب مولی ہشام بن زہرہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس نے صلاۃ پڑھی اور اس میں سورہ ٔ فاتحہ نہیں پڑھی تو وہ صلاۃ ناقص ہے، ناقص ہے، ناقص ہے، پوری نہیں''، میں نے پوچھا: ابو ہریرہ! کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں تو (کیسے پڑھوں؟) تو انہوں نے میرا ہاتھ دبا یا، اور کہا: اے فارسی! اسے اپنے جی میں پڑھ لیا کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو کہتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: '' میں نے صلاۃ ۱؎ کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو حصوں میں بانٹ دیا ہے، تو آدھی میرے لیے ہے اور آدھی میرے بندے کے لیے، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے ، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' تم سورہ ٔ فاتحہ پڑھو، جب بندہ { الحمد للہ رب العالمین } کہتا ہے۲؎ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری حمد (تعریف) کی، اسی طرح جب بندہ {الرحمن الرحیم} کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری ثنا بیان کی، جب بندہ { مالک یوم الدین}کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری تعظیم وتمجید کی، اور جب بندہ { إیاک نعبد وایاک نستعین } کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے: یہ آیت میرے اور میرے بندے دونوں کے درمیان مشترک ہے، اور جب بندہ { اھدنا الصراط المستقیم * صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولا الضالین }کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یہ تینوں آیتیں میرے بندے کے لیے ہیں، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے''۔
وضاحت ۱؎: صلاۃ سے مراد سورہ فاتحہ ہے کل بول کر جزء مراد لیا گیا ہے۔
وضاحت ۲؎: اسی سے مؤلف نے سورہ فاتحہ میں ''بسم اللہ الرحمن الرحیم'' نہ پڑھنے پر استدلال کیا ہے، حالانکہ یہاں بات صرف یہ ہے کہ ''اصل سورہ فاتحہ'' تو '' الحمد للہ'' سے ہے، اور رہا پڑھنا ''بسم اللہ ' تو ہر سورہ کی شروع میں ہونے کی وجہ سے اس کو تو پڑھنا ہی ہوتا ہے، وہ ایک الگ مسئلہ ہے، اس لیے یہاں اس کو نہیں چھیڑا گیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
24-إِيجَابُ قِرَائَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ فِي الصَّلاةِ
۲۴-باب: صلاۃ میں سورہ ٔ فاتحہ پڑھنے کے وجوب وفرضیت کا بیان​


911- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ عُبَادَةَ ابْنِ الصَّامِتِ، عَنْ النَّبِيِّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لاَ صَلاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ "۔
* تخريج: خ/الأذان ۹۵ (۷۵۶) ، م/ال صلاۃ ۱۱ (۳۹۴) ، د/فیہ ۱۳۶ (۸۲۲) ، ت/فیہ ۶۹ (۲۴۷) ، ق/إقامۃ ۱۱ (۸۳۷) ، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۱۰) ، حم۵/۳۱۴، ۳۲۱، ۳۲۲، دي/ال صلاۃ ۳۶ (۱۲۷۸) (صحیح)
۹۱۱- عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''اس شخص کی صلاۃ نہیں جو سورہ ٔ فاتحہ نہ پڑھے'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر صلاۃ نہیں ہوتی ہے خواہ وہ فرض ہو یا نفل، اور خواہ پڑھنے والا اکیلے پڑھ رہا ہو یا جماعت سے، امام ہو یا مقتدی ، ہر شخص کے لیے ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے، اس کے بغیر صلاۃ نہیں ہوگی، کیونکہ لاء نفی جس پر آتا ہے اس سے ذات کی نفی مراد ہوتی ہے، اور یہی اس کا حقیقی معنی ہے، یہ صفات کی نفی کے لیے اس وقت آتا ہے جب ذات کی نفی مشکل اور دشوار ہو، اور اس حدیث میں ذات کی نفی کوئی مشکل نہیں کیونکہ از روئے شرع صلاۃ مخصوص اقوال وافعال کو مخصوص طریقے سے ادا کرنے کا نام ہے، لہذا جز یا کُل کی نفی سے ذات کی نفی ہو جائے گی، اور اگر بالفرض ذات کی نفی نہ ہو سکتی ہو تو وہ معنی مراد لیا جائے گا جو ذات سے قریب تر ہو، اور وہ صحت کی نفی ہے نہ کہ کمال کی، اس لیے کہ صحت اور کمال ان دونوں مجازوں میں سے صحت ذات سے اقرب (زیادہ قریب) اور کمال ذات سے ابعد (زیادہ دور) ہے، اس لیے یہاں صحت کی نفی مراد ہوگی جو ذات سے اقرب ہے نہ کہ کمال کی نفی کیونکہ وہ صحت کے مقابلے میں ذات سے ابعد (بعید تر) ہے۔


912- أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُاللَّهِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: قَالَ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لاَ صَلاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، فَصَاعِدًا "۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۹۱۱ (صحیح)
۹۱۲- عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' اس شخص کی صلاۃ نہیں جو سورہ ٔ فاتحہ اور اس کے ساتھ کچھ مزید ۱؎ نہ پڑھے ''۔
وضاحت ۱؎: یہ جملہ ایسے ہی ہے جیسے چوری کی سزا قطع ید (ہاتھ کاٹنے) کے سلسلے میں صحیح حدیث میں ہے'' لا تقطع الید إلا فی ربع دینار فصاعدا'' (چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ کی چوری پر ہی ہاتھ کاٹا جائے گا) یعنی چوتھائی دینار سے کم پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، لہذا حدیث میں وارد اس جملے کا مطلب یہ ہوا کہ'' اس شخص کی صلاۃ نہیں ہوگی جس نے سورہ فاتحہ سے کم پڑھا''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
25-فَضْلُ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ
۲۵-باب: سورہ ٔ فاتحہ کی فضیلت​


913- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ الْمُخَرِّمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ رُزَيْقٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: بَيْنَمَا رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ جِبْرِيلُ - عَلَيْهِ السَّلام - إِذْ سَمِعَ نَقِيضًا فَوْقَهُ، فَرَفَعَ جِبْرِيلُ - عَلَيْهِ السَّلام - بَصَرَهُ إِلَى السَّمَائِ، فَقَالَ: هَذَا بَابٌ قَدْ فُتِحَ مِنْ السَّمَائِ مَا فُتِحَ قَطُّ، قَالَ: فَنَزَلَ مِنْهُ مَلَكٌ، فَأَتَى النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَبْشِرْ بِنُورَيْنِ أُوتِيتَهُمَا، لَمْ يُؤْتَهُمَا نَبِيٌّ قَبْلَكَ، فَاتِحَةِ الْكِتَابِ، وَخَوَاتِيمِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، لَمْ تَقْرَأْ حَرْفًا مِنْهُمَا إِلا أُعْطِيتَهُ۔
* تخريج: م/المسافرین ۴۳ (۸۰۶) ، (تحفۃ الأشراف: ۵۵۴۱) (صحیح)
۹۱۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اور جبریل علیہ السلام ایک ساتھ ہی تھے کہ اچانک جبریل علیہ السلام نے آسمان کے اوپر دروازہ کھلنے کی آواز سنی، تو نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی اور کہا: یہ آسمان کا ایک دروازہ کھلا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں کھلا تھا، پھر اس سے ایک فرشتہ اترا، اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے کہا: مبارک ہو! آپ کو دو نور دیا گیا ہے جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیا گیا، سورہ ٔ فاتحہ اور سورہ ٔ بقرہ کی آخری آیتیں، ان دونوں میں سے ایک حرف بھی تم پڑھو گے تو (اس کا ثواب) تمہیں ضرور دیا جائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207

26-تَأْوِيلُ قَوْلِ اللَّهِ - عَزَّ وَجَلَّ -:​
{ وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنْ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ }​
۲۶-باب: تفسیر آیت کریمہ: ''یقینا ہم آپ کو سات آیتیں دے رکھی ہیں کہ دہرائی جاتی ہے اور عظیم قرآن بھی دے رکھا ہے ''​


914- أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، قَالَ: سَمِعْتُ حَفْصَ بْنَ عَاصِمٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّى أَنَّ النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِهِ وَهُوَ يُصَلِّي، فَدَعَاهُ، قَالَ: فَصَلَّيْتُ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ: " مَا مَنَعَكَ أَنْ تُجِيبَنِي؟ " قَالَ: كُنْتُ أُصَلِّي، قَالَ: " أَلَمْ يَقُلْ اللَّهُ - عَزَّ وَجَلَّ -: { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِل رَسُولَ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ }، أَلاَ أُعَلِّمُكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ مِنْ الْمَسْجِدِ؟ " قَالَ: فَذَهَبَ لِيَخْرُجَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَوْلَكَ؟ قَالَ: { الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ } هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي الَّذِي أُوتِيتُ، وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ "۔
* تخريج: خ/تفسیر الفاتحۃ ۱ (۴۴۷۴) ، تفسیر الأنفال ۳ (۴۶۴۷) ، تفسیر الحجر ۳ (۴۷۰۳) ، فضائل القرآن ۹ (۵۰۰۶) ، د/ال صلاۃ ۳۵۰ (۱۴۵۸) ، ق/الأدب ۵۲ (۳۷۸۵) ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۴۷) ، حم۳/۴۵۰، ۴ (۲۱۱) ، دي/ال صلاۃ ۱۷۲ (۱۵۳۳) ، فضائل القرآن ۱۲ (۳۴۱۴) ، ط/ ال صلاۃ ۸ (۳۷) من حدیث أبی بن کعب (صحیح)
۹۱۴- ابو سعید بن معلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ صلاۃ پڑھ رہے تھے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ان کے پاس سے گزرے، اور انہیں بلایا ، تو میں نے صلاۃ پڑھی، پھر آپ کے پاس آیا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا: ''ابوسعید تمہیں مجھے جواب دینے سے کس چیز نے روکا؟ '' کہا: میں صلاۃ پڑھ رہا تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا ہے!: { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِل رَسُولَ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ } (اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جب وہ تمہیں ایسی چیز کی طرف بلائیں جو تمہارے لیے حیات بخش ہو) (الحجر: ۸۷) کیا تم کو مسجد سے نکلنے سے پہلے میں ایک عظیم ترین سورت نہ سکھاؤں؟'' آپ مسجد سے نکلنے لگے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے جو کہا تھا بتا دیجئے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' وہ سورت { الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ }ہے ، اور یہی سبع مثانی ۱؎ ہے جو مجھے دی گئی ہے، یہی قرآن عظیم ہے ''۔
وضاحت ۱؎: سورہ فاتحہ کا نام سبع مثانی ہے، سبع اس لئے ہے کہ یہ سات آیتوں پر مشتمل ہے، اور مثانی اس لئے کہ یہ صلاۃ کی ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہے، اس کی اسی اہمیت وخصوصیت کے اعتبار سے اسے قرآن عظیم کہا کیا ہے، گرچہ قرآن کی ہر سورت قرآن عظیم ہے جس طرح کعبہ کو بیت اللہ کہا جاتا ہے گرچہ اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں، لیکن اس کی عظمت وخصوصیت کے اظہار کے لئے صرف کعبہ ہی کو بیت اللہ کہتے ہیں۔


915- أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَبْدِالْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ الْعَلائِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا أَنْزَلَ اللَّهُ - عَزَّ وَجَلَّ - فِي التَّوْرَاةِ، وَلا فِي الإِنْجِيلِ مِثْلَ أُمِّ الْقُرْآنِ، وَهِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي، وَهِيَ مَقْسُومَةٌ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي، وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ "۔
* تخريج: ت/تفسیر الحجر (۳۱۲۵) ، (تحفۃ الأشراف: ۷۷) ، حم۵/۱۱۴، دي/الفضائل ۱۲ (۳۴۱۵) (صحیح)
۹۱۵- اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' اللہ تعالیٰ نے سورہ فاتحہ جیسی کوئی سورت نہ تو رات میں اتاری ہے اور نہ انجیل میں، یہی ''سبع مثاني'' ہے ، یہ میرے اور میرے بندے کے بیچ بٹی ہوئی ہے، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے''۔


916- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أُوتِيَ النَّبِيُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعًا مِنْ الْمَثَانِي، السَّبْعَ الطُّوَلَ۔
* تخريج: د/ال صلاۃ ۳۵۱ (۱۴۵۹) ، (تحفۃ الأشراف: ۵۶۱۷) (صحیح)
۹۱۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو'' سبع مثانی '' یعنی سات لمبی سورتیں ۱؎ عطا کی گئی ہیں۔
وضاحت ۱؎: اور وہ یہ ہیں: ''بقرہ ، آل عمران ، نساء ، مائدہ ، اعراف، ہود اور یونس ، یہ ابن عباس رضی اللہ عنہم کا قول سند میں شریک ضعیف ہیں، نیز ابو اسحاق بیہقی مدلس ومختلط لیکن سابقہ سند سے تقویت پا کر یہ حسن ہے۔


917- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ - عَزَّ وَجَلَّ -: {سَبْعًا مِنْ الْمَثَانِي} قَالَ: السَّبْعُ الطُّوَلُ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۵۵۹۰) (حسن)
(سند میں شریک القاضی ضعیف اور ابو اسحاق سبیعی مدلس اور مختلط ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن لغیرہ ہے ، اور اصل حدیث صحیح ہے کماتقدم، نیز ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود: ۵/۲۰۰، رقم: ۱۳۱۲) اور مشہور حسن کے نسخے میں ضعیف لکھا ہے اور حوالہ صحیح ابی داود کا ہے تو یہ کہا جائے گا کہ اس کی سند میں ضعف ہے اور اصل حدیث صحیح ہے۔
۹۱۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے اللہ عزوجل کے قول: '' سبع من المثاني'' کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس سے مراد سات لمبی سورتیں ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
27- تَرْكُ الْقِرَائَةِ خَلْفَ الإِمَامِ فِيمَا لَمْ يَجْهَرْ فِيهِ
۲۷-باب: سری صلاتوں میں امام کے پیچھے قرأت نہ کرنے کا بیان​


918- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: صَلَّى النَّبِيُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ، فَقَرَأَ رَجُلٌ خَلْفَهُ: {سَبِّحْ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى}، فَلَمَّا صَلَّى قَالَ: " مَنْ قَرَأَ { سَبِّحْ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى }؟ " قَالَ رَجُلٌ: أَنَا، قَالَ: " قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ بَعْضَكُمْ قَدْ خَالَجَنِيهَا "۔
* تخريج: م/ال صلاۃ ۱۲ (۳۹۸) ، د/ال صلاۃ ۱۳۸ (۸۲۸) ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۲۵) ، حم۴/۴۲۶، ۴۳۱، ۴۳۳، ۴۴۱، ویأتی عند المؤلف برقم: ۱۷۴۵ (صحیح)
۹۱۸- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ظہر پڑھائی تو ایک آدمی نے آپ کے پیچھے سورہ { سَبِّحْ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى } پڑھی ، جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے صلاۃ پڑھ لی تو پوچھا: سورہ { سَبِّحْ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى }کس نے پڑھی؟'' تو اس آدمی نے عرض کیا: میں نے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' مجھے ایسا لگا کہ تم میں سے کسی نے مجھے خلجان میں ڈال دیا ہے''۔


919- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنَّ النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى صَلاةَ الظُّهْرِ أَوْ الْعَصْرِ، وَرَجُلٌ يَقْرَأُ خَلْفَهُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: " أَيُّكُمْ قَرَأَ: { بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى }؟ " فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ: أَنَا، وَلَمْ أُرِدْ بِهَا إِلاَّ الْخَيْرَ فَقَالَ النَّبِيُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " قَدْ عَرَفْتُ أَنَّ بَعْضَكُمْ قَدْ خَالَجَنِيهَا "۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۹۱۹- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ظہر یا عصر پڑھائی، اور ایک آدمی آپ کے پیچھے قرأت کر رہا تھا، تو جب آپ نے سلام پھیرا تو پوچھا: '' تم میں سے سورہ { سبح اسم ربك الأعلى}کس نے پڑھی ہے؟'' لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: میں نے، اور میری نیت صرف خیر کی تھی، تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' مجھے ایسا لگا کہ تم میں سے بعض نے مجھ سے سورہ پڑھنے میں خلجان میں دال دیا '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: خلجان مطلق سورہ فاتحہ پڑھنے کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ زور سے پڑھنے کی وجہ سے ہوا، یہی بات قرین قیاس ہے بلکہ حتمی ہے، اس لیے اس حدیث سے سورہ فاتحہ نہ پڑھنے پر استدلال واضح نہیں ہے، نیز عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث (رقم: ۹۲۱) سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ آپ نے باضابطہ سورہ فاتحہ پڑھنے کی صراحت فرما دی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
28-تَرْكُ الْقِرَائَةِ خَلْفَ الإِمَامِ فِيمَا جَهَرَ بِهِ
۲۸-باب: جہری صلاۃ میں امام کے پیچھے قرأت نہ کرنے کا بیان​


920- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ ابْنِ أُكَيْمَةَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ مِنْ صَلاةٍ جَهَرَ فِيهَا بِالْقِرَائَةِ، فَقَالَ: " هَلْ قَرَأَ مَعِي أَحَدٌ مِنْكُمْ آنِفًا؟ " قَالَ رَجُلٌ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: " إِنِّي أَقُولُ: مَا لِي أُنَازَعُ الْقُرْآنَ؟! " قَالَ: فَانْتَهَى النَّاسُ عَنْ الْقِرَائَةِ فِيمَا جَهَرَ فِيهِ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْقِرَائَةِ مِنْ الصَّلاةِ، حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ۔
* تخريج: د/ال صلاۃ ۱۳۷ (۸۲۶) ، ت/ال صلاۃ ۱۱۷ (۳۱۲) ، ق/إقامۃ ۱۳ (۸۴۸، ۸۴۹) ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۶۴) ، ط/ال صلاۃ ۱۰ (۴۴) ، حم۲/۲۴۰، ۲۸۴، ۲۸۵، ۳۰۱، ۳۰۲، ۴۸۷ (صحیح)
۹۲۰- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم صلاۃ سے جس میں آپ نے زور سے قرأت فرمائی تھی سلام پھیر کر پلٹے تو پوچھا: '' کیا تم میں سے کسی نے ابھی میرے ساتھ قرأت کی ہے؟ '' تو ایک شخص نے کہا: ہاں! اللہ کے رسول! آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' آج بھی میں کہہ رہا تھا کہ کیا بات ہے کہ مجھ سے قرآن چھینا جا رہا ہے''۔
زہری کہتے ہیں: جب لوگوں نے یہ بات سنی تو جن صلاتوں میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم زور سے قرأت فرماتے تھے ان میں قرأت سے رک گئے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یہ قول کہ '' جب لوگوں نے ...'' زہری کاہے، ائمہ حدیث نے اس کی تصریح کر دی ہے، اور زہری تابعی صغیر ہیں، وہ اس واقعہ کے وقت موجود نہیں تھے، ان کی یہ روایت مرسل ہے، اور مرسل ضعیف کی قسموں میں سے ہے، یا اس کا یہ معنی ہے کہ لوگ زور سے قراءت کرتے تھے، اسی سے آپ صلی الله علیہ وسلم کو خلجان ہوتا تھا، اور خلجان کا واقعہ جہری سری دونوں میں پیش آیا ہے (جیسا کہ حدیث رقم: ۹۱۸ میں گزرا) اس واقعہ کے بعد لوگ زور سے قراءت کرنے سے رک گئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
29- قِرَائَةُ أُمِّ الْقُرْآنِ خَلْفَ الإِمَامِ فِيمَا جَهَرَ بِهِ الإِمَامُ
۲۹-باب: جہری صلاتوں میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کا بیان​


921- أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، عَنْ صَدَقَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ حَرَامِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ نَافِعِ ابْنِ مَحْمُودِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْضَ الصَّلَوَاتِ الَّتِي يُجْهَرُ فِيهَا بِالْقِرَائَةِ فَقَالَ: " لاَ يَقْرَأَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِذَا جَهَرْتُ بِالْقِرَائَةِ إِلا بِأُمِّ الْقُرْآنِ "۔
* تخريج: د/ال صلاۃ ۱۳۶ (۸۲۴) مطولاً، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۱۶) ، حم۵/۳۱۳، ۳۱۶، ۳۲۲ (حسن صحیح)
(متابعات اور شواہد سے تقویت پاکر یہ روایت حسن صحیح ہے، بعض ائمہ نے محمود میں کچھ کلام کیا ہے، جب کہ بہت سوں نے ان کی توثیق کی ہے، نیز وہ اس روایت میں منفرد بھی نہیں ہیں)
۹۲۱- عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں کچھ صلاتیں پڑھائیں جن میں قراءت بلند آواز سے کی جاتی ہے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' جب میں بآواز بلند قرأت کروں تو تم میں سے کوئی بھی سورۃ فاتحہ کے علاوہ کچھ نہ پڑھے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207

30- تَأْوِيلُ قَوْلِهِ - عَزَّ وَجَلَّ -:​
{ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ }​
۳۰-باب: آیت کریمہ: ''اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو اور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو'' (الاعراف: ۲۰۴) کی تفسیر​


922-أَخْبَرَنَا الْجَارُودُ بْنُ مُعَاذٍ التِّرْمِذِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : "إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا، وَإِذَا قَالَ: "سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ "، فَقُولُوا: " اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ " .
* تخريج: د/ال صلاۃ ۶۹ (۶۰۴) ، ق/إقامۃ ۱۳ (۸۴۶) مطولاً، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۱۷) ، حم۲/۳۷۶، ۴۲۰، وأخرجہ: خ/الأذان ۷۴ (۷۲۲) ، ۸۲ (۷۳۴) ، م/ال صلاۃ ۱۹ (۴۱۴) ، دي/فیہ ۷۱ (۱۳۵۰) (حسن صحیح)
۹۲۲- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' امام توبنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو، اور جب قرأت کرے تو تم خاموش رہو ۱؎ ، اور جب ''سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ'' کہے تو تم ''اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ '' کہو ''۔
وضاحت ۱؎: اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے اقوال میں آپس میں ٹکراؤ ممکن ہی نہیں، نیز رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اپنے اقوال میں بھی ٹکراو محال ہے، یہ مسلّمہ عقیدہ ہے، اس لیے سورہ فاتحہ کے وجوب پر دیگر قطعی احادیث کے تناظر میں اس صحیح حدیث کا مطلب یہ ہے کہ سورہ فاتحہ کے علاوہ کی قراءت کے وقت امام کی قراءت سنو، اور چپ رہو، رہا سورہ فاتحہ پڑھنے کے مانعین کا آیت {و إِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا } سے استدلال ، تو ایک تو یہ آیت صلاۃ فرض ہونے سے پہلے کی ہے، تو اس کو صلاۃ پر کیسے فٹ کریں گے؟ دوسرے مکاتب میں ایک طالب علم کے پڑھنے کے وقت سارے بچوں کو خاموش رہ کر سننے کی بات کیوں نہیں کی جاتی؟ جب کہ یہ حکم وہاں زیادہ فٹ ہوتا ہے، اور صلاۃ کے لیے تو ''لا صلاة إلا بفاتحة الكتاب'' والی حدیث سے استثناء بھی آ گیا ہے۔


923- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعْدٍ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : "إِنَّمَا الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا"
٭قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ. كَانَ الْمُخَرِّمِيُّ يَقُولُ: هُوَ ثِقَةٌ، يَعْنِي لمُحَمَّدَ بْنَ سَعْدٍ الأَنْصَارِيَّ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (حسن صحیح)
۹۲۳- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' امام بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو، اور جب وہ قرأت کرے تو تم خاموش رہو''۔
٭ ابو عبدالرحمن (نسائی) کہتے ہیں: مخرمی کہتے تھے: وہ یعنی محمد بن سعد الانصاری ثقہ ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
31-اكْتِفَائُ الْمَأْمُومِ بِقِرَائَةِ الإِمَامِ
۳۱-باب: امام کی قرأت مقتدی کے لیے کافی ہے​


924- أَخْبَرَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الزَّاهِرِيَّةِ، قَالَ: حَدَّثَنِي كَثِيرُ بْنُ مُرَّةَ الْحَضْرَمِيُّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ سَمِعَهُ يَقُولُ: سُئِلَ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَفِي كُلِّ صَلاةٍ قِرَائَةٌ؟ قَالَ: " نَعَمْ "، قَالَ رَجُلٌ مِنْ الأَنْصَارِ: وَجَبَتْ هَذِهِ، فَالْتَفَتَ إِلَيَّ وَكُنْتُ أَقْرَبَ الْقَوْمِ مِنْهُ، فَقَالَ: مَا أَرَى الإِمَامَ إِذَا أَمَّ الْقَوْمَ إِلاَّ قَدْ كَفَاهُمْ . ٭قَالَ أَبُوعَبْدا لرَّحْمَنِ: هَذَا عَنْ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَأٌ، إِنَّمَا هُوَ قَوْلُ أَبِي الدَّرْدَائِ۔ وَلَمْ يَقْرَأْ هَذَا مَعَ الْكِتَابِ .
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۵۹) ، حم ۵/۱۹۷، ۶/۴۴۸ وأخرجہ: ق/إقامۃ ۱۱ (۸۴۲) ، (من طریق أبی ادریس الخولانی إلی قولہ: وجب ھذا) (حسن الإسناد)
۹۲۴- ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کیا ہر صلاۃ میں قرأت ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''ہاں! '' (اس پر) انصار کے ایک شخص نے کہا: یہ (قرأت) واجب ہو گئی، تو ابو الدرداء رضی اللہ عنہ میری طرف متوجہ ہوئے اور حال یہ تھا کہ میں ان سے سب سے زیادہ قریب تھا ، تو انہوں نے کہا: میں سمجھتا ہوں کہ امام جب لوگوں کی امامت کرے تو (امام کی قرأت) انہیں بھی کافی ہے۔
٭ابو عبدالرحمن (امام نسائی) کہتے ہیں: اسے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرنا غلط ہے، یہ تو صرف ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کا قول ہے ، اور اسے اس کتاب کے ساتھ انہوں نے نہیں پڑھا ہے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یہ مؤلف کے شاگرد ابو بکر ابن السنی کا قول ہے، یعنی ابن السنی نے مؤلف پر اس کتاب کو پڑھتے وقت یہ حدیث نہیں پڑھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
32-مَا يُجْزِئُ مِنْ الْقِرَائَةِ لِمَنْ لا يُحْسِنُ الْقُرْآنَ؟
۳۲-باب: جو قرآن اچھی طرح نہ پڑھ سکے تو اُسے کیا پڑھنا کافی ہوگا؟​


925- أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، عَنْ الْفَضْلِ بْنِ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ السَّكْسَكِيِّ، عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَى، قَالَ: جَائَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي لاَأَسْتَطِيعُ أَنْ آخُذَ شَيْئًا مِنْ الْقُرْآنِ، فَعَلِّمْنِي شَيْئًا يُجْزِئُنِي مِنْ الْقُرْآنِ، فَقَالَ: " قُلْ سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلاَحَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ "۔
* تخريج: د/ال صلاۃ ۱۳۹ (۸۳۲) مطولاً، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۵۰) ، حم۴/۳۵۳، ۳۵۶، ۳۸۲ (حسن)
۹۲۵- ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا: میں قرآن کچھ بھی نہیں پڑھ سکتا، تو مجھے کوئی ایسی چیز سکھا دیجئے جو میرے لیے قرآن کے بدلے کافی ہو، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ '' (اللہ پاک ہے اور اللہ ہی کے لیے حمد ہے، اور اللہ کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں، اور اللہ سب سے بڑا ہے، اور طاقت وقوت صرف اللہ ہی کی توفیق سے ہے) پڑھ لیا کرو''۔
 
Top