• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنی معاویہ نام کیوں نہیں رکھتے ؟

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
جو احادیث غیررافضیت کی روایت سے ہوں اُن میں سے صحیح وہی ہیں جو آئمہ کے پاس ہوں اور مخالفین کی روایت کردہ کی طرف رجوع کرنا ممنوع ہے اور اس باب میں جھوٹی روایتیں کرنے والوں کا بھی ذکر ہے۔۔۔
ایسی طرح اگر آپ کے اس قول کو معکوس کرلیں تو اس طرح ہوجائے گا !
شیعہ امام ، الحافظ ، ثقہ ، صدوق روای اگر آل محمد کے مناقب بیان کرے تو اس سے نہیں لیا جائے گا اور وہ حدیث ضیف میں شمار کی جائے گی لیکن اس کے برعکس بنو امیہ کے حکمرانوں کے وظیفہ خور درباری ناصبی راوی بنو امیہ کے حکمرانوں کے مناقب بیان کرے تو انہیں سر آنکھوں پر رکھا جائے گا اور ان احادیث کو صحیح حسن کا درجہ دیا جائے گا ، إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ [/ARB
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کیا تھا اور ان کے بعد علی الترتیب گیارہ اماموں کو۔۔۔ لیکن اہل سنت کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ تھے، ان کے بعد عمر رضی اللہ عنہ، ان کے بعد عثمان اور ان کے بعد حضر علی راضی اللہ عنہ۔ ( منہاج السنۃ صفحہ ٣٠ جلد ١)
کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں مولا علی علیہ السلام کی شکایت کی محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مولا علی علیہ السلام کی شکایت نہ کرو کیونکہ
لا تقل هذا فهو أولى الناس بكم بعدي
"(علی )کے بارے میں ایسا مت کہو کیونکہ میرے بعد( علی ) اولیٰ ہے انسانوں میں"
مجمع الزوائد
یاد رہے مجمع الزوائد سنی کتاب ہے
بارہ خلیفہ یا امام

حدثني محمد بن المثنى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا غندر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا شعبة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عبد الملك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ سمعت جابر بن سمرة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ يكون اثنا عشر أميرا ـ فقال كلمة لم أسمعها فقال أبي إنه قال ـ كلهم من قريش ‏"‏‏.‏

ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا ‘ ان سے عبدالملک بن عمیر نے ، انہوں نے جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (میری امت میں) بارہ امیر ہوں گے ‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ایسی بات فرمائی جو میں نے نہیں سنی۔ بعد میں میرے والد نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ وہ سب کے سب قریش خاندان سے ہوں گے۔
صحیح بخاری ،کتاب الاحکام ،حدیث نمبر : 7222 - 7223

ان احادیث کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد مولا علی علیہ السلام کو تمام انسانوں سے اولیٰ ہونے کی سند عطاء کی اور اور جہان تک بات ہے بارہ اماموں کی تو یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ بارہ امام ہونگے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ علی علیہ السلام کو اولیت دینا اور بارہ اماموں کا عقیدہ رکھنا یہ مسلمانوں بشمول شیعہ و سنی کا مشترکہ عقیدہ ہے
اللہ اعلم و رسولہ اعلم
والسلام
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
حرب صاحب
ابن حزم کے اس قول کی تصدیق یا تردید چاہتا ہو امید ہے راہنمائی فرمائیں گے شکریہ
لعنۃ اللہ علی کلّ اجماع یخرج منہ علی بن أبی طالب

المحلی ،ابن حزم
والسلام
یار آپ بات بات پر لعنت کیوں کررہے ہو۔۔۔
نام نہاد اہل بیت حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو تعلیمات کو کیسےفراموش کربیٹھے ہیں؟؟؟۔۔۔
یا بوکھلاہٹ کا شکار ہیں؟؟؟۔۔۔
تصدیق کے لئے تحریر دوبارہ پڑھیں۔۔۔
اگر پھر بھی نہ سمجھ آئے تو پھر پڑھیں۔۔۔
اگر اس کے بعد بھی نہ سمجھ آئے تو قصو میرا نہیں آپ کی اپنی عقل کا۔۔۔بڑی معذرت کے ساتھ۔۔۔
اور آخر میں ایک درخواست۔۔۔
اختلاف کا مقصد یہ نہیں ہوتا ہے کےانسان اخلاقی پستیوں میں گرجائے۔۔۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
خلاصہ!۔
یہ کہ قرآن کلام الہٰی ہے مگر قرآن کریم کی کسی آیت کا قول خداوندی اور کلام الٰہی ہونا رافضیوں کے نزدیک امام معصوم کی تصدیق وتصویب پر موقوف ہے جہاں تک ارشادات نبویہ اور احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سوال ہے تو رافضیت کے نزدیک وہ بھی صرف اس صورت میں معتبر ہیں جبکہ وہ آئمہ معصومین کے ذریعے پہنچی ہوں یا اقوال آئمہ کے موافق ہوں ورنہ چونکہ ان کے نزدیک صحابہ کرام رضی اللہ عنہ عادل وثقہ نہیں لہذا ان کی ایسی روایات جو آئمہ معصومین کے ذریعے نہ پہنچی ہوں یا قول معصوم ان کی تائید نہ کرتا ہو، وہ رافضٰت کے نزدیک ساقط الاعتبار ہوں گی چنانچہ رافضیوں کے محدث اعظم علامہ باقر مجلسی بحار الانوار جزو دوم (طبع جدید) کتاب العلم میں بات (٢٨) کا عنوان ہے۔۔۔
قول ابن عباس
عن ابنِ عباسٍ قال : يقولُ أحدُهم أبي صحِبَ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم وكان مع رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم ولنعلُ خَلِقٌ خيرٌ من أبيه
مجمع الزوائد ومنبع الفوائد،علي بن أبي بكر الهيثمي
اس قول سے یہ معلوم ہو کہ کہ شیعہ و سنی کا یہ مشترکہ عقیدہ ہے کہ تمام صحابہ عدول نہیں
اللہ اعلم ورسولہ اعلم
والسلام
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
دیانتداری سے جواب دیں!۔
کیا ابوعبداللہ امام بخاری کا یہ عقیدہ ہے۔۔۔
تین صحابی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتے تھے۔۔۔ ابوھریرہ رضی اللہ عنہ، انس بن مالک رضی اللہ عنہ، اور ایک عورت (یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عھنا (نعوذ باللہ) بحار الانوار صفحہ ٢١٧ جلد ٣۔۔۔
آئیں دیکھے کہ یہ عقیدہ کہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتے تھے یہ صرف شیعہ کا عقیدہ ہے یا کوئی اور بھی ہے جو یہ بات کہتا ہے
كنتُ بالشَّامِ في حلقةٍ فيها مسلمُ بنُ يسارٍ ، فجاء أبو الأشعثِ الصَّنعانيُّ ، فأرسل له القومُ ، فقالوا : أبو الأشعثِ ، أبو الأشعثِ ، فقلتُ : يا أبا الأشعثِ ! حدِّثْ أخاك حديثَ عبادةَ بنِ الصَّامتِ ، فقال : كنَّا مع معاويةَ في غَزاةٍ فغنِمنا غنائمَ كثيرةً ، فكان فيها آنيةٌ من فضَّةٍ ، فأمر معاويةُ رجلًا ببيعِها من النَّاسِ في أُعطِياتِهم ، فبلغ ذلك عبادةَ ، فقام فقال : إنِّي سمِعتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم ينهَى عن بيعِ الذَّهبِ بالذَّهبِ ، والورِقِ بالورِقِ ، والبُرِّ بالبُرِّ ، والشَّعيرِ بالشَّعيرِ ، والتَّمرِ بالتَّمرِ ، والملحِ بالملحِ إلَّا سواءً بسواءٍ ، مثلًا بمثلٍ ، عينًا بعينٍ ، فمن زاد أو استزاد فقد أربَى ، فردَّ النَّاسُ ما كانوا أخذوا ، فذهب رجلٌ إلى معاويةَ وأخبره الخبرَ ، فقام خطيبًا فقال : ما بالُ أقوامٍ يُحدِّثون عن رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم أحاديثَ قد صحِبناهُ ورأيناه فما سمِعناه منه ؟ فقام عبادةُ بنُ الصَّامتِ فأعاد الحديثَ ، وقال : واللهِ لنُحدِّثنَّ بما سمِعنا من رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم وإن زعم معاويةُ – أو قال : وإن كرِه معاويةُ - ، واللهِ ما أُبالي أنِّي لا أصحبُه في حياتي ليلةً سوداءَ
حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، أحمد بن عبدالله بن أحمد، أبو نعيم الأصبهاني
اب جو یہ الزام لگایا جارہا ہے صحابی پر کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھ رہا ہے اس پر بھی وہی فتوہ کارگر ہے یا نہیں جو شیعہ پر لگایا جاتا ہے ؟؟؟؟ یقینا اب فتوہ بدل جائے گا کیونکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باقی آپ خود سمجھدار ہیں
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا ہم اہل بیت کو ہمیشہ ذلیل کیا جاتا رہا دور کیا جاتا رہا محروم کیا جاتا رہا، قتل کیا جاتا رہا اور دھتکارا جاتا رہا اور جھوٹوں نے اپنے جھوٹ کے لئے یہ موقع پایا کہ وہ اپنے دوستوں، قاضیوں اور حاکموں کا ہرشہر میں تقرب حاصل کریں اور وہ ہمارے دشموں اور اُن کے گزشتہ دوستوں کے پاس باطل اور جھوٹی احادیث بیان کرتے اور ہماری جانب سے ایسی احادیث روایت کرتے ہیں جو ہم نے ہیں کہیں جس سے ان کا مقصد ہماری توہین کرنا، ہم پر ھوٹ باندھنااور جھوٹ طوفان کا ذریعہ اپنے دوستوں اور قاضیوں کا تقرب حاصل کرنا ہے (بحار الانوار جلد ٢ صفحہ ٢١٨)۔۔۔
اس کے لیے میں دلیل دے چکا تاریخ طبری سے کہ جب نبوت اور خلافت پر حضرت عمر اور ابن عباس کا مکالمہ ہوا اس میں اس بات کا جواب ہے پھر بھی آپ کی خدمت میں اہل سنت کی حدیث کی کتاب سے ایک حوالہ مزید پیش کردیتا ہوں جس سے معلوم ہوگا کہ اہل قریش کا رویہ رسول اللہ کے قرابت داروں سے کیسا تھا رسول اللہ کی موجودگی میں
قلت : يا رسول الله إن قريشا إذا لقي بعضهم بعضا لقوهم ببشر حسن وإذا لقونا لقونا بوجوه لا نعرفها قال : فغضب النبي صلى الله عليه وسلم غضبا شديدا وقال : والذي نفسي بيده لا يدخل قلب رجل الإيمان حتى يحبكم لله ولرسوله
"حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ میں نے بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا : یا رسول اللہ! قریش جب آپس میں ملتے ہیں تو حسین مسکراتے چہروں سے ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو (جذبات سے عاری) ایسے چہروں کے ساتھ ملتے ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سن کر شدید جلال میں آگئے اور فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! کسی بھی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میری قرابت کی خاطر تم سے محبت نہ کرے۔‘‘
أحمد بن حنبل في المسند،
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہل قریش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرابت داروں سے بغض رکھتے تھے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شدید غضبناک ہوئے
نتیجہ :
اس سے یہ نتیجہ ظاہر ہوا کہ اگر شیعہ اس طرح کہتے ہیں تو اس کا ثبوت تو خود اہل سنت کی کتب احادیث میں بھی موجود ہے پھر آپ یہ الزام صرف شیعہ پر ہی کیوں دھر رہے ہیں انصاف سے کام لیجئے
والسلام
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
ویسے بہرام بھائی۔۔۔
یہ جملے آپ نے بہت زیادہ سخت بول دیئے۔۔۔ لیکن!
یہ جملہ آپ کے لئے نہیں بلکہ ناصبیت کے لئے تھا
اگر آپ کی دل آزاری ہوئی تو معذرت قبول کریں شکریہ
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
آج تک انسانیت اسلام کے فدائیوں سے اسلام کی سربلندی اور لوگوں کے مسلمان ہونے کے متعلق معجزات دیکھتی رہی ہے کہ کس کس طرح اُنہوں نے دنیا کے کونے کونے تک اللہ اکبر اور حی علی الفلاح کی صدائے دلنواز پہنچائی سندھ کے پہاڑوں میں یہ آواز گونجی، ہندوستان میں پھیلی، جزائر غرب کے ساحلوں سے جاٹکرائی، یورپ اور اس کی پہاڑیاں گونج اٹھیں اور دشمنان اسلام تک یہ اقرار کرنے پر مجبور ہوگئے کہ یہ ایک معجزہ تھا اور یہ سب کچھ بنی اُمیہ کے دورخلافت میں ہوا۔۔۔
یہ غلو کی بد ترین مثال ہے کہ جو افعال نبوت کا خاصا ہیں یعنی معجزہ اس کی نسبت ایسے حکمرانوں کی طرف کی جارہی ہے جن کے فسق و فجور پر اسلامی تاریخ شاہد ہے انا للہ و انا الیہ راجعون
جبکہ اس سے پہلے آپ نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ
اہلسنت والجماعت کے عقائد یا منہج سے واقفیت رکھنے والے مسلمان کبھی بھی اپنی طرف سے کسی بھی صحابی کے فضائل یا مناقب کو اپنی طرف سے بڑھا کر چڑھا کر قطعی طور پر پیش نہیں کرتے جس کی بنیادی وجہ صرف اس غُلو سے بچنا ہے جس بچنے کا اللہ تعالٰی نے حکم دیا۔۔۔
لیکن یہاں تو آپ جو صحابی بھی نہیں ان کے مناقب میں اس قدر غلو کررہیں ہیں غور کریں
ہمارا کام صرف حق کو بیان کردینا ہے ھدایت دینا اللہ کا کام ہے
دعا ہے اللہ ہم سب کو دین کی سمجھ عطاء فرمائے آمین
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
صحیح بخاری کتاب فضائل الصحابہ میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تنہ نے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پیغام بھیجا آپ نے اپنے والد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث کا مطالبہ کیا تھا اور یہ مطالبہ اس مال کے متعلق تھا جو اللہ تعالٰی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا تھا۔۔۔ ( یہ مال مدینہ اور فدک میں تھا اور خیبر کا خمس تھا) تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔۔۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم جو چھوڑ جائیں وہی صدقہ ہے آل محمد اس مال میں سے صرف کھا سکتے ہیں یعنی اللہ کے مال سے اور اُن کا یہ حق نہیں کے وہ اس سے زیادہ لیں اور اللہ کی قسم میں اس اللہ کے مال کے نظام میں کوئی تبدیلی نہیں کروں گا یہ اسی طرح رہے گا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا اور جو عمل اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے میں بھی بالکل وہی کروں گا۔۔۔
ایسی کے ساتھ صحیح بخاری میں آگے یہ بیان ہوا کہ
أبو بكر أن يدفع إلى فاطمة منها شيئا فوجدت فاطمة على أبي بكر في ذلك فهجرته،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلم تكلمه حتى توفيت،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وعاشت بعد النبي صلى الله عليه وسلم ستة أشهر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما توفيت،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ دفنها زوجها علي ليلا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولم يؤذن بها أبا بكر وصلى عليها،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وكان لعلي من الناس وجه حياة فاطمة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما توفيت استنكر علي وجوه الناس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فالتمس مصالحة أبي بكر ومبايعته،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولم يكن يبايع تلك الأشهر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأرسل إلى أبي بكر أن ائتنا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولا يأتنا أحد معك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ كراهية لمحضر عمر‏.‏ فقال عمر لا والله لا تدخل عليهم وحدك‏.‏ فقال أبو بكر وما عسيتهم أن يفعلوا بي،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ والله لآتينهم‏.‏

غرض ابوبکرنے فاطمہ کو کچھ بھی دینامنظور نہ کیا۔ اس پر فاطمہ ابوبکر کی طرف سے خفا ہو گئیں اور ان سے ترک ملاقات کر لیا اور اس کے بعد وفات تک ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ فاطمہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ مہینے تک زندہ رہیں جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر علی نے انہیں رات میں دفن کر دیا اور ابوبکرکو اس کی خبر نہیں دی اور خود ان کی نماز جنازہ پڑھ لی۔ فاطمہ جب تک زندہ رہیں علی پر لوگ بہت توجہ رکھتے رہے لیکن ان کی وفات کے بعد انہوں نے دیکھا کہ اب لوگوں کے منہ ان کی طرف سے پھرے ہوئے ہیں۔ اس وقت انہوں نے ابوبکر سے صلح کر لینا اور ان سے بیعت کر لینا چاہا۔ اس سے پہلے چھ ماہ تک انہوں نے ابوبکرسے بیعت نہیں کی تھی پھر انہوں نے ابوبکر کو بلا بھیجا اور کہلا بھیجا کہ آپ صرف تنہا آئیں اور کسی کو اپنے ساتھ نہ لائیں علی کو عمر کی موجودگی سے کراھیت آتی تھی
یہ ہے صحیح بخاری کی روایت جس کے کچھ حصے پر آپ ایمان لاتے ہیں اور کچھ کو چھوڑ دیتے ہیں آخر ایسا کیوں ہے اس روایت سے کئی سوال اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں
١۔ اس روایت کے عربی متن میں فاطمہ علیہ السلام لکھا ہے اور اس کا ترجمہ داؤد راز نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کیا ہے آخر کیوں ؟
٢۔ کیا خاتون جنت فاطمہ علیہ السلام حضرت ابو بکر سے تادم وصال ناراض رہیں ؟

٣۔ مولا علی نے فاطمہ علیہ السلام کی حیات میں ابو بکر کی بیعت کیوں نہیں کی ؟

٤ ۔ مولا علی علیہ السلام حضرت عمر کی موجوگی سے نفرت کیوں رکھتے تھے ؟

آئیں اب دیکھیں کے خاتون جنت فاطمہ علیہ السلام کی ناراضگی کا کیا نتیجہ ہوتا ہے ؟
ائیں ایک بار پھر صحیح بخاری کا مطالعہ کرتے ہیں

"ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے ان سے ابن ابی ملیکہ نے ان سے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ میرے جسم کا ٹکرا ہے، اس لیے جس نے اسے ناراض کیا، اس نے مجھے ناراض کیا۔"
صحیح بخاری ،حدیث نمبر: 3714
اور یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ناراض کیا اس نے اللہ تعالیٰ کو ناراض کیا اور اللہ کو ناراض کرنے کا نتیجہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تو اللہ ناراضگی سے پناہ مانگتا ہوں
والسلام
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
یار آپ بات بات پر لعنت کیوں کررہے ہو۔۔۔
نام نہاد اہل بیت حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو تعلیمات کو کیسےفراموش کربیٹھے ہیں؟؟؟۔۔۔
یا بوکھلاہٹ کا شکار ہیں؟؟؟۔۔۔
تصدیق کے لئے تحریر دوبارہ پڑھیں۔۔۔
اگر پھر بھی نہ سمجھ آئے تو پھر پڑھیں۔۔۔
اگر اس کے بعد بھی نہ سمجھ آئے تو قصو میرا نہیں آپ کی اپنی عقل کا۔۔۔بڑی معذرت کے ساتھ۔۔۔
اور آخر میں ایک درخواست۔۔۔
اختلاف کا مقصد یہ نہیں ہوتا ہے کےانسان اخلاقی پستیوں میں گرجائے۔۔۔
ویسے اگر میرے کسی قول سے آپ کی دل آزاری ہوئی تو اس کے لئے معذرت قبول کیجئے شکریہ
لیکن میں یہی جانا چاہ رہا تھا کہ یہ قول ابن حزم ہی کا قول ہے ؟
 
Top