صحیح بخاری کتاب فضائل الصحابہ میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تنہ نے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پیغام بھیجا آپ نے اپنے والد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث کا مطالبہ کیا تھا اور یہ مطالبہ اس مال کے متعلق تھا جو اللہ تعالٰی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا تھا۔۔۔ ( یہ مال مدینہ اور فدک میں تھا اور خیبر کا خمس تھا) تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم جو چھوڑ جائیں وہی صدقہ ہے آل محمد اس مال میں سے صرف کھا سکتے ہیں یعنی اللہ کے مال سے اور اُن کا یہ حق نہیں کے وہ اس سے زیادہ لیں اور اللہ کی قسم میں اس اللہ کے مال کے نظام میں کوئی تبدیلی نہیں کروں گا یہ اسی طرح رہے گا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا اور جو عمل اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے میں بھی بالکل وہی کروں گا۔۔۔
ایسی کے ساتھ صحیح بخاری میں آگے یہ بیان ہوا کہ
أبو بكر أن يدفع إلى فاطمة منها شيئا فوجدت فاطمة على أبي بكر في ذلك فهجرته، فلم تكلمه حتى توفيت، وعاشت بعد النبي صلى الله عليه وسلم ستة أشهر، فلما توفيت، دفنها زوجها علي ليلا، ولم يؤذن بها أبا بكر وصلى عليها، وكان لعلي من الناس وجه حياة فاطمة، فلما توفيت استنكر علي وجوه الناس، فالتمس مصالحة أبي بكر ومبايعته، ولم يكن يبايع تلك الأشهر، فأرسل إلى أبي بكر أن ائتنا، ولا يأتنا أحد معك، كراهية لمحضر عمر. فقال عمر لا والله لا تدخل عليهم وحدك. فقال أبو بكر وما عسيتهم أن يفعلوا بي، والله لآتينهم.
غرض ابوبکرنے فاطمہ کو کچھ بھی دینامنظور نہ کیا۔
اس پر فاطمہ ابوبکر کی طرف سے خفا ہو گئیں اور ان سے ترک ملاقات کر لیا اور اس کے بعد وفات تک ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ فاطمہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ مہینے تک زندہ رہیں جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر علی نے انہیں رات میں دفن کر دیا اور ابوبکرکو اس کی خبر نہیں دی اور خود ان کی نماز جنازہ پڑھ لی۔ فاطمہ جب تک زندہ رہیں علی پر لوگ بہت توجہ رکھتے رہے لیکن ان کی وفات کے بعد انہوں نے دیکھا کہ اب لوگوں کے منہ ان کی طرف سے پھرے ہوئے ہیں۔ اس وقت انہوں نے ابوبکر سے صلح کر لینا اور ان سے بیعت کر لینا چاہا۔
اس سے پہلے چھ ماہ تک انہوں نے ابوبکرسے بیعت نہیں کی تھی پھر انہوں نے ابوبکر کو بلا بھیجا اور کہلا بھیجا کہ آپ صرف تنہا آئیں اور کسی کو اپنے ساتھ نہ لائیں
علی کو عمر کی موجودگی سے کراھیت آتی تھی
یہ ہے صحیح بخاری کی روایت جس کے کچھ حصے پر آپ ایمان لاتے ہیں اور کچھ کو چھوڑ دیتے ہیں آخر ایسا کیوں ہے اس روایت سے کئی سوال اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں
١۔ اس روایت کے عربی متن میں فاطمہ علیہ السلام لکھا ہے اور اس کا ترجمہ داؤد راز نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کیا ہے آخر کیوں ؟
٢۔ کیا خاتون جنت فاطمہ علیہ السلام حضرت ابو بکر سے تادم وصال ناراض رہیں ؟
٣۔ مولا علی نے فاطمہ علیہ السلام کی حیات میں ابو بکر کی بیعت کیوں نہیں کی ؟
٤ ۔ مولا علی علیہ السلام حضرت عمر کی موجوگی سے نفرت کیوں رکھتے تھے ؟
آئیں اب دیکھیں کے خاتون جنت فاطمہ علیہ السلام کی ناراضگی کا کیا نتیجہ ہوتا ہے ؟
ائیں ایک بار پھر صحیح بخاری کا مطالعہ کرتے ہیں
"ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے ان سے ابن ابی ملیکہ نے ان سے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ میرے جسم کا ٹکرا ہے، اس لیے جس نے اسے ناراض کیا، اس نے مجھے ناراض کیا۔"
صحیح بخاری ،حدیث نمبر: 3714
اور یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ناراض کیا اس نے اللہ تعالیٰ کو ناراض کیا اور اللہ کو ناراض کرنے کا نتیجہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تو اللہ ناراضگی سے پناہ مانگتا ہوں
والسلام