حرب بن شداد
سینئر رکن
- شمولیت
- مئی 13، 2012
- پیغامات
- 2,149
- ری ایکشن اسکور
- 6,345
- پوائنٹ
- 437
بہرام بھائی نہ میں افسوس کرسکتاہوں۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ وہ سب کے سب قریش خاندان سے ہوں گے۔
اور نہ ہی ہمدردی۔۔۔
دُعابھی نہیں دے سکتا جیسا کے میں پہلے بیان کرچکا ہوں کے کہیں آپ اُس کو میری جانب سے اپنے حق میں بُدعا نہ سمجھ لیں۔۔۔
تو پھر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بشارت کیوں دی۔۔۔
کے میرا یہ بیٹاحسن رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے دوگروہوں میں صلاح کرائے گا۔۔۔
اور اس طرحضرت حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ امیر معاویہ کے حق میں خلافت سے دستبرار ہوگئے۔۔۔
اس حقیقت کو آپ کیوں نظر انداز کرجاتے ہیں؟؟؟۔۔۔
ملاحظہ کیجئے۔۔۔ بارہ خلیفوں والی حدیث۔۔۔کی حقیقت لیکن اس سے پہلے چھوٹی سی تمہید
بخاری مناقبب ابوبکر میں یہ روایت دیکھیں۔
محمد بن حنفیہ اپنے باپ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں میں سے افضل کون ہیں فرمایا۔۔۔ ابوبکر پھر پوچھا ان کے بعد فرمایا عمر اور میں ڈر کر کہ اس کے بعد حضرت عثمان کا نام نہ لے لیں میں نے کہا پھر تمہارا مرتبہ ہے فرمایا میں تو عام مسلمانوں میں سے ایک آدمی ہوں۔۔۔
مسند احمد میں خود حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ ایک وہ زمانہ تھا کہ میں رسول اللہ کے ساتھ بھوک کی شدت کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھتا تھا اور آج یہ حال ہے کہ میری چالیس ہزار درہم سالانہ زکات کی رقم ہوتی ہے بخلاف اس کے حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ جو مال دار ہونے کی وجہ سے لوگوں میں غنی مشہور تھے جب وفات کا وقت آیا تو صرف دو اونٹیاں ہیں اور کوئی مال نہیں رہا سب اللہ کی راہ میں خیرات کردیا۔۔۔۔
چنانچہ البدایہ والنہایہ کی جلد ٧ صفحہ ١٧١ میں ہے کہ جب باغی لوگوں نے اعتراض کیا کے اے عثمان تو نے چراگاہ اپنے مال کے لئے مخصوص کررکھی ہے تو انہوں نے فرمایا کہ میں جب خلیفہ منتخب ہوا تو مجھ سے زیادہ بکریوں اور اونٹوں والا اور کوئی نہ تھا اور آج میرے پاس صرف دو اونٹ ہیں جو صرف حج کی سواری کے لئے ایک اپنے لئے اور ایک غلام کے لئے رکھے ہیں اور میرے پاس کوئی جانور ہی نہیں مجھے چراگاہ کی ضرورت ہے؟؟؟۔۔۔ البتہ بیت المال کے اونٹ ضرور اس میں چرتے ہیں۔۔۔
حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو آنحضرت کی دامادی کا شرف حاصل ہے تو حضرت عثمان کو دو مرتبہ یہ شرف حاصل ہوا جس کی وجہ سے انہیں ذوالنورین کہا جانے لگا اور آپ کا یہ لقب آج تک مشہور ہے۔۔۔
اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اُمت میں خونریزی سے اجتناب کیا حتٰی کے آخر وقت میں صحابہ نے ملتجیانہ کہا کہ حضرت ہمیں تلوار اٹھانے کی اجازت فرمائیے تو آپ نے فرمایا میں تمہیں حکم دیتا ہوں کے اپنے گھروں کو پہلے جاؤ اور میرے تلوار مت اٹھاؤ چنانچہ حضرت علی نے از خود یہ انتظام فرمایا تھا کہ حسن و حسین رضی اللہ عنھم دینے کے لئے دروازے پر بھیجدیا دوسری طرف حضرت علی کا دور خلافت سراسر خونریزی سے بھرا پڑا ہے اور خونریزی بھی مسلمانوں کی۔۔۔
چنانچہ عثمان کو کہا جاتا ہے کہ آپ شام چلے جائے وہاں آپ کی مخالفت کی جرآت کوئی نہیں کرسکتا لیکن آپ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوں بخلاف اس کے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے تسلط کے لئے مدینہ سے باہر نکلے اور ایسے نکلے کے پھر واپس آنا نصیب نہ ہوا اگر فتوحات کو دیکھتے ہیں تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کا دور بےشمار فتوحات کا دور ہے بکہ اسلامی فتوحات کا رقبہ دگنے سے زیادہ ہوگیا بخلاف اس کے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے دور میں ایک انچ زمین بھی فتح نہ کرسکے۔۔۔ نہ کفار سے جہاد کیا نہ کوئی علاقہ فتح کیا۔۔۔۔
ایک گذارش!۔
کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ میرا مقصد حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تنقیص کرنا ہے ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت کی وضاحت ہے کہ تمام اُمت میں جو مسلک اہلسنت نے اخیتار کیا ہے وہ ہی درست ہے باقی رہی تنقیص تو ہمارا اہلسنت والجماعت کا مسلک تو یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو کسی صحابی کے متعلق یہ انکشاف ہو کہ فلاں صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں فلاں غلطی تھی خواہ وہ اجہتادی ہو یا اختیاری تو اس کا تذکرہ اس طرح کرنا کہ اس صحابی کی توہین محسوس بھی ہو تو ایک کبیرہ گناہ ہے۔۔۔
قارئیں سے التماس ہے اب تھوڑی توجہ سے اس کو پڑھیں!۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بہتر کوئی سردار نہیں دیکھا کسی نے کہا ابوبکر وعمرر ضی اللہ عنھم سے بھی بہتر؟؟؟۔۔۔ فرمایا افضل ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہم ہیں لیکن سیاست وقیات میں امیر معاویہ اعلٰی ہیں۔۔۔
یہ ہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد شیخین نے بھی امویوں کو ان کی لیاقت کے مطابق عہدے دئے اور ان کی صلاحیتوں سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور شام پر امیر معاویہ اور اس کے خاندان کو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ہی مقرر فرمایا تھا۔۔۔
جس طرح بنواُمیہ میں قائدانہ صلاحتیں موجود تھیں اس جیسی بنو ہاشم میں نہ تھیں نیز اہلسنت کے نزدیک حضرت علی کی خلافت کی کوئی دلیل یا نص صریح بھی نہ تھی جس کا حضرت علی رضی اللہ تعالٰٰی عنہ کو بھی اعتراف تھا چنانچہ۔۔۔بخاری شریف میں بھی اور مسند احمد میں بھی بحوالہ ازالۃ الخفاء جلد ١ صفحہ ١٨٠ موجود ہے۔۔۔
کہ ایک دن حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے تشریف لائے جب کہ آنحضرت بیمار تھے لوگوں نے پوچھا کہ آنحضرت صلی اللہ وسلم کا کیا حال ہے انہوں نے کہا بحمداللہ اچھے ہیں حضرت عباس نے کہا تم کو معلوم نہیں میرا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی بیماری میں وفات فرمائیں گے کیونکہ میں عبدالمطلب کی اولاد کے چہرے دیکھ کر موت کے آثار معلوم کرلیتا ہوں لہذا آؤ ہم تم دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں کہ خلافت ہم میں ہونے ہو تو ارشاد فرمادیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر کہنے سے انکار کردیا فرمایا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خلافت اور لوگوں میں بیان کردی تو پھر لوگ ہمیں کبھی بھی خلافت نہیں دیں گے۔۔۔
یعنی اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کہ تم خلیفہ نہیں تو اس کے بعد کبھی بھی ہمیں کوئی خلافت کا موقع نہیں دے گا اس لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جاکر نہیں پوچھا اس سے معلوم ہوا کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے کوئی بات خلافت کے بارے میں نہیں کہی ہوئی تھی یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ بنی ہاشم کو کوئی خلافت کے متعلق وصیت وغیرہ فرمائی تھی اور نہ ہی عملا انہیں کوئی گورنری کا عہدہ دے رہے تھے لیکن اس کے باوجود یہ نہ سمجھا جائے کہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کسی بھی لحاظ سے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے افضل ہیں بلکہ افضلیت حضرت علی رضی اللہ تعالٰی ہی کی تھی۔۔۔ کیونکہ اہلسنت کا متفقہ مسئلہ یہ ہے کہ اُمت میں سے سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمررضی اللہ عنہ، ہیں اُس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہیں اور اس کے بعد وہ لوگ جو جنگ بدر میں شریک ہوئے اس کے بعد وہ لوگ جو جنگ حدیبیہ میں شریک ہوئے اس کے بعد عام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین تو حضرت علی رضی اللہ عنہ بدری صحابی ہیں اولین سابقین صحابہ میں سے ہیں اور امیر معاویہ ٧ھ عمرۃ القضاء کے موقع پر مسلمان ہوئے یعنی حدیبیہ کے ایک سال بعد اسلام قبول کیا لیکن فتح مکہ تک اپنے اسلام کو چھپائے رکھا (البدایہ والنھایہ صفحہ ١١٨، الاصابہ جلد ٣ صفحہ ٤٣٣)۔۔۔اگرچہ رافضی حضرات خلافت علوی پر دلائل پیش کرتے ہیں مثلا۔
انت منی بمنزلۃ ھارون بموسٰی الا انہ لانبی بعدی
لیکن حقیقت یہ ہے کے یہ دلیل بھی روافض کے خلاف ہے نہ کے موافق کیونکہ اس میں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو آپ نے فرمایا تھا کے علی رضی اللہ عنہ تو خلافت کے جھجھٹ میں نہ پڑنا کیونکہ ہارون علیہ السلام نبی ہونے کے باوجود خلافت کو نہ بناہ سکے اور تم تو بنی بھی نہیں البتہ تیرا میرا رشتہ وہی ہے کہ تو میرا بھائی ہے اور تجھے یہ قرابت کافی ہے اور یہی دوسرے دلائل کا حل ہے (سیرت الاخوین)۔۔۔
سے یہ بات اظہر من شمس کی طرح واضح ہے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بہرحال افضل تھے اور اس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔۔۔
اب ایک توجہ طلب امر۔۔۔ خلافت خاصہ!۔ خلافت خاصہ، خلافت نبوی، خلافت علی منہاج النبوۃ تینوں ایک ہی خلافت کے نام ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نص صریح سے ارشارۃ جس خلافت نبوت کی خبر دی ہے وہ خلافت صرف خلفائے ثلاثہ کی خلافت ہے اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اس خلافت کو نبوت کا جز شمار کیا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اللہ تعالٰی نے جو وعدے فرمائے تھے لیطھرہ علی الدین کلہ۔۔۔ اللہ تعالٰی نے تمہیں یہ دین اسلام اس لئے دیا ہے کہ تمام دینوں پر اسے غالب کردے۔۔۔
بخاری شریف میں ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کے مجھے روئے زمین کے خزانے دیئے گئے ہیں اور اُن کی کنجیاں میرے ہاتھ پر رکھ دی گئیں ہیں (بحوالہ ازالہ الخفا جلد ١ صفحہ ١٨٧)۔۔۔
جنگ خندق کے واقعہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کے مجھے فارس، یمن اور شام کے خزانے دے دیئے گئے ہیں تو یہ تمام بشارتیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی تھیں ان کی تکمیل خلفائے ثلاثہ کے ہاتھ پر ہوئی اس لئے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے ازالہ الخفاء کے صفحہ ١٢٠ جلد ١ سے لیکر کئی صفحات میں یہ بیان واضح کیا ہے کہ خلفائے ثلاثہ کی خلافت خاصہ نبوت ہی کا حصہ ہے اس خلافت کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت واضح الفاظ میں بشارات دی تھیں جو کہ ازالہ الخافء کی جلد ١ صفحہ ٧٥ سے لیکر ٨٣ تک درج ہیں مثلا۔۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں ایک دن سورہا تھا کہ اپنے آپ کو ایک کنوئیں کے پاس دیکھا میں نے اس سے کچھ پانی کے ڈول نکالے پھر مجھ سے ابوقحافہ کے بیٹے (ابوبکرصدیق) نے لے لیا اور پھر اس نے ایک ڈول نکالے لیکن ان کے نکالنے میں کچھ کمزوری تھی اللہ اس کو معاف کرے پھر وہ ڈول بڑا چرسہ بن گیا اور اس کو ابن خطاب نے لے لیا میں نے کسی زورمند آدمی کو اس طرح ڈول نکالتے ہوئے نہیں دیکھا جس طرح عمر نکالتے تہے یہاں تککے لوگ خود بھی سیراب ہوئے اور اونٹوں کو بھی سیراب کرلیا (اس حدیث کو بخاری، مسلم اور اصحاب سنن نے بیان کیا ہے)۔۔۔نویں صدی کے مورخ علامہ تقی الدین المقریزی (٧٤٥-٧٦٦ھ)
اپنی تاریخ کی تیسری جلد جس کا نام انہوں نے الدررالضیہ فی تاریخ الدولۃ الاسلامیہ کو شروع ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت سے کیا اور خلافت اور عباسیہ کے خاتمہ تک کے حالات درج کئے ہیں گویا کہ ان کے نزدیک بھی خلافت خاصہ نبوت کا حصہ تھی اور وہ صرف خلفاء ثلاثہ کی خلافت پر ختم ہوگئی (تاریخ ابن خلدون)۔۔۔
ابن مردویہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔ مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطاء کی گئی ہیں اور میزان بھی اتارا گیا چنانچہ ایک پلے میں مجھے رکھا گیا اور دوسرے میں تمام اُمت رکھی گئی تو میرا پلہ وزنی نکلا، پھر میری جگہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اُمت کے ساتھ تولا گیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ بھاری تھے پھر اس کے بعد عمررضی اللہ عنہ کا تولا گیا تو ان کی جگہ امت سے تولا گیا تو وہ امت سے بھاری نکلے پھر ان کی جگہ عثمان رضی اللہ عنہ کو ساری امت سے تولا گیا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ وزنی نکلے پھر ترازو اٹھا لیا گیا۔۔۔
ابوداؤد میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کسی شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خواب بیان کی اور اوپر والا سارا واقعہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے مراد خلافت نبوت ہے۔۔۔
ابوداؤد میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک نیک مرد نے خواب دیکھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے لٹکائے گئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابوبکر رضٰی اللہ عنہ کے دامن سے لٹکائے گئے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دامن سے لٹکائے گئے جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں وہ نیک مرد خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے جنھوں نے یہ خواب دیکھا۔۔۔
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آکر بیان کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے خواب دیکھا ہے کہ ایک ابر کے ٹکڑے سے شہد اور گھی ٹپک رہا ہے پھر آسمان سے ایک رسی لٹکی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پکڑ کر اوپر چڑھ گئے ہیں پھر دوسرے شخص نے رسی پکڑی اور وہ بھی زور سے چڑھ گیا، پھر تیسرا پھر چوتھے نے رسی پکڑی تو ٹوٹ گئی پھر جڑگئی اور وہ بھی چڑھ گئے اس کی تعبیر حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے خلافت سے کی یہ حدیث پوری تفصیل کے ساتھ بخاری، مسلم، اور اصحاب سنن نے بیان کی ہے۔۔۔
مسجد نبوی کی بنیاد رکھی گئی تو آنحضرت نے ایک پتھر رکھا پھر اس کے ساتھ حضرت ابوبکر رضی اللہ نے ایک پتھر رکھا اس کے ساتھ حضرت عمر نے ایک پتھر رکھا اس کے ساتھ ہی حضرت عثمان نے ایک پتھر رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسم نے فرمایا یہ لوگ میرے بعد خلیفہ ہیں (مستدرک حاکم عن سفینہ وعن عائشہ)۔۔۔
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی ایک روایت مروی ہے۔۔۔
بخاری مسلم میں ایک روایت جبیر بن مطعم سے ہے کہ ایک عورت آپ کے پاس آئی اور کہا کہ اگر میں دوبارہ آؤں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پاؤں (یعنی وفات فرماچکے ہوں) تو کس کے پاس جاؤں فرمایا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس۔۔۔
اس جیسی سینکڑوں روایات ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں خلیفوں کی خلافت کی بشارتیں دی ہیں صرف بطور مثال یہ روایات بیان کی ہیں تفصیل کے لئے کتب احادیث میں سے کتاب المناقب پڑھو جن میں مفصل روایات ہیں کیونکہ یہاں صرف مجمل طور پر بیان کی گئی ہیں۔۔۔
یعنی قریش کے بارہ خلفاء تک اسلام غالب رہے گا اور اگر اب ان کا شمار کیا جائے تو خلافت بنواُمیہ ساری اس میں آجاتی ہے۔۔۔اب آتے ہیں بہرام بھائی والی حدیث کی طرف بارہ خلیفہ۔۔۔
١۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ١١ھ۔
٢۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ١٣ھ۔
٣۔ عثمان رضی اللہ عنہ ٢٣ھ۔
٤۔ علی رضی اللہ عنہ ٥ھ۔
٥۔ معاویہ رضی اللہ عنہ ویزید بن معاویہ ٤١ھ۔
٦۔ مروان بن الحکم ٦٤ھ۔
٧۔ عبدالمالک بن مروان ٦٥ھ۔
٨۔ ولید بن عبدالمالک ٨٦ھ۔
٩۔ سلیمان بن عبدالمالک ٩٦ھ۔
١٠۔ عمر بن عبدالعزیز ٩٩ھ۔
١١۔ یزید بن عبدالمالک ١٠١ھ۔
١٢۔ ہشام بن عبدالمالک ١٠٥ھ
گویا کہ اس حدیث سے قریش کے بارہ خلیفوں کی پیشنگوئی ثابت ہے کہ ان کے دور تک اسلام کا غلبہ رہا۔۔۔
الخلافۃ بالمدینہ والملک بالشام
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے خلافت مدینہ میں ہوگی اور بادشاہت شام میں ہوگی (بیھقی بحوالہ مشکوۃ باب ذکر الیمن والشام)۔۔۔
یعنی وہ خلافت جو نبوت کا حصہ ہے یعنی خلافت خاصہ وہ مدینہ میں ہی ہوگی (اس حدیث سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بھی نکل جاتی ہے کیونکہ وہ کوفہ چلے گئے تھے جس کے متعلق آنحضرت نے فرمایا تھا کے وہ فتوں کی جگہ ہے) اور خلافت عامہ جس کے متعلق آپ نے حذیفہ کی روایت میں دور خیر کی بشارت فرمائی تھی وہ بادشاہت یعنی پروجاہت اور شان وشوکت والی خلافت شان میں ہوگی۔
واللہ اعلم۔
والسلام علیکم۔
نوٹ!۔
حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ کس طرح خلیفہ بننے؟؟؟۔۔۔ کیا کوفیوں کا اُن کے ہاتھ پر بیعت کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ خلیفہ ہیں؟؟؟۔۔۔ فتدبر!۔