• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیدسلیم شاہ کے مزعومہ تضادات کا جائزہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چلیے اگر جناب سید مصر ہیں تو مانے لیتے ہیں کہ پوری اُمت سبعہ اَحرف کا مفہوم متعین کرنے میں ناکام رہی ہے، تو کیا اس کی بنیاد پر ثابت شدہ متنوع قراء ات کا بھی اِنکار کردیں؟۔ توجناب ہم تو اپنے اَندر اس قدر جرأت و بے باکی نہیں پاتے کہ حدیث سبعہ اَحرف کے علاوہ ثبو ت قر اء ات کے ضمن میں پیش کی گئی احمد عیسیٰ المعصراوی اور ابو عمر حفص کی جمع کردہ ۳۳۲ اَحادیث کا بھی اِنکار کردیں ، جن کے ہوتے ہوئے متعدد قراء اتِ قرآنیہ کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
(٣) سید صاحب کی یہاں تک ’رشحات علم‘ ملاحظہ کرکے تو ہم اسی خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ موصوف کا علمی دنیا سے بہرحال کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہے لیکن سید صاحب کو ہماری یہ خوش فہمی زیادہ دیر تک راس نہیںآئی اور ’رُشد‘ کی چند مزید عبارتوں کا تضاد نقل کرکے ہماری ساری اُمیدوں پر پانی پھیر دیا۔ لکھتے ہیں:
٭ حافظ اَنس نضر مدنی کااِصرار ہے کہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے اور صحابہ کرام﷢ نے بالمشافہ آپﷺسے قرآن سیکھا ۔ صحابہ سے تابعین، تابعین سے تبع تابعین نے یہ حروف سیکھے اور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ معاملہ ان معروف و مشہور قراء ِسبعہ تک پہنچ گیا۔
٭ حمزہ مدنی اور فہداللہ مراد صاحب کابھی اِصرار ہے کہ سبعہ اَحرف کا مصداق موجودہ قراء ات سبعہ(بلکہ عشرہ) ہیں۔
٭ جبکہ قاری محمد صفدر صاحب کا خیال ہے کہ اَحرف سبعہ اور قراء اتِ سبعہ کوئی الگ الگ چیز نہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ جبکہ مولانا محمد تقی عثمانی کی رائے ہے کہ ’’بعض حضرات (مثلاً مدنی حضرات وقاری محمد صفدر وغیرہ)’سید صاحب اگر تھوڑی تکلیف کریں تو تقی عثمانی صاحب کو اِطلاع کر دیں کہ آپ(مثلاً مدنی حضرات وقاری محمد صفدر وغیرہ) لکھنا بھول گئے ہیں ‘ یہ سمجھتے ہیں کہ اس (یعنی سبعہ اَحرف) سے مراد سات مشہور قاریوں کی قراء تیں ہیں، لیکن یہ خیال تو بالکل ہی غلط اور باطل ہے۔‘‘
سید صاحب حافظ عبدالستار حماد صاحب پرتو کچھ زیادہ ہی ناراض نظر آتے ہیں جنہوں نے ایک جگہ پر کہا ہے کہ’’بہرحال قراء اتِ متواترہ جنہیں اَحادیث میں ’اَحرف سبعہ‘ سے تعبیر کیا گیا ہے وہ آج بھی موجود ہیں اور اس کے انکار کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔‘‘
جبکہ اگلے ہی صفحہ پر لکھتے ہیں:سبعہ اَحرف سے مراد ان سات اَئمہ کی قراء ات ہرگز نہیں۔
اس قدر لکھنے کے بعد شاہ صاحب یوں گویا ہوتے ہیں:
’’ہم اس پوزیشن میں نہیں کہ کسی شیخ الحدیث صاحب کے کسی بھی قول کو غلط قرار دیں۔ ان کا یہ قول یقینا درست ہوگا کہ ’سبعہ اَحرف‘ سے مراد ان سات اَئمہ کی قراء ات نہیں اور یہ بھی بلا وشک وشبہ درست ہوگا کہ سبعہ اَحرف سے مراد ہی قراء اتِ متواترہ ہیں جوآج کل موجود ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سید صاحب نے ان عبارات کو جس اَنداز سے پیش کیا ہے اور اس کے بعد جن ’خیالات عالیہ‘ کا اِظہار کیا ہے اس سے یہ اَندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ شاہ جی اس موضوع کی اَبجد سے بھی واقف نہیں ہیں اور ایک معقول بات کو انتہائی نامعقول اَنداز میں پیش کر رہے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے جب رات کو دن اور دن کو رات ثابت کرنے کا شوق چڑھا ہو تو معقولیت سے زیادہ اَلفاظ میں ہیر پھیر اور زبان کی تیزی کام آتی ہے۔
تمام اَہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ ’سبعۃ أحرف‘ سے مراد مشہور ’سات قراء ات‘ نہیں ہیں، بلکہ ان سات قراء ات کو سب سے پہلے تیسری صدی ہجری میں امام ابوبکر بن مجاہد نے جمع کیا، انہوں نے حرمین (مکہ ومدینہ) عراقیین(کوفہ وبصرہ) اور شام کے مشہور سات قرائِ کرام کو جمع کر دیا، کیونکہ اس زمانے میں یہی پانچوں شہر علوم وفنون کے مرکز تھے، اور فقہ واُصول فقہ، حدیث و اُصول حدیث اور علوم دینیہ کا گہوارہ تھے۔ چنانچہ انہوں نے ان پانچ شہروں کے سات مشہور قرائِ کرام کی قراء ات کو جمع کر دیاتاکہ سات کا عدد حدیث مبارکہ میں مذکور’سبعۃأحرف‘ کے موافق ہو جائے۔ ان کا یا ان کے علاوہ کسی بھی اہل علم کا یہ عقیدہ ہرگز نہیں تھا کہ مذکورہ قراء ات سبعہ ہی ’أحرف سبعۃ ‘ ہیں، یا ان کے ہاں سات قراء ات کے علاوہ کوئی اور قراء ت پڑھنا جائز نہیں ہے۔ (مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ:۱۳؍۳۸۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِس علم سے وابستہ حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ ذکرکردہ عبارتوں میں کوئی تضاد یا اِشکال نہیں ہے سبعہ اَحرف سے مراد سات اَئمہ کی قراء ات ہرگز نہیں ہیں، کیونکہ قرآن کریم کی متواتر قراء تیں ان سات قراء توں میں منحصر نہیں ہیں بلکہ اور بھی متعدد قراء ات تواتر کے ساتھ ثابت ہیں لیکن اگر ہمارے پاس سبعہ اَحرف سے متعلقہ کوئی چیزموجود ہے تو یہی عشرہ قراء ات ہیں۔ اس حوالے سے اَحرف سبعہ اور قراء اتِ عشرہ کوئی الگ الگ چیز نہیں ہیں۔
(٤) جناب سید موصوف کا یہ بھی کہنا ہے:
٭ قاری صہیب اَحمد صاحب ابن ساعانی کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ ’’قراء اتِ سبعہ متواترہ ہیں، ہاں قرآن کا بعض حصہ غیر متواتر ہے جیسا کہ مالک اور ملک وغیرہ‘‘
٭ لیکن اَگلے صفحہ پر امیر بادشاہ کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’قرآن سارے کا سارا متواتر ہے۔‘‘
اِس سلسلہ میں ہم وضاحت کرتے چلیں کہ قرآن مجید کے تواتر کے ذیل میں جو اَقوال بیان کیے گئے ہیں وہ تواتر کی مختلف تعریفات کی بناء پر ہیں اس میں شک کی گنجائش نہیں کہ قرآن کریم تواتر کے ساتھ منقول ہے، البتہ تواتر کے مفہوم کے بارے میں اَہل فن کا اختلاف ہے کہ تواتر کا اطلاق کس پر ہوگا؟ اس سلسلہ میں دو گروہ سامنے آئے ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) عام اصولی محدثین تواتر کا مفہوم اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’ہو الخبر الذي رواہ قوم لا یحصی عددہم ولا یتوہم تواطؤہم علی الکذب۔‘
’’ایسی خبر کو کہتے ہیں جس کو اتنے اَفراد روایت کریں کہ جن کا شمار ناممکن ہو اور جس کا جھوٹ پر جمع ہونا محال ہو۔‘‘
اس مؤقف کے قائلین کے ہاں قرآن مجید کا بعض حصہ غیر متواتر ہوگا۔
(٢) جبکہ دوسرے گروہ کے نزدیک تواتر کامفہوم یہ ہے:
’’کل ما أفاد القطع فہو متواتر۔‘‘ (الفصول في مصطلح حدیث الرسول:۱۳)
’’ہر وہ(خبر) جو قطعیت کا فائدہ دے وہ متواتر ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جمہور کا بھی یہی نقطۂ نظر ہے۔
جن لوگوں نے تواتر سے مراد حصول علم قطعی یقینی لیا ہے اُن کے ہاں پورے کا پورا قرآن متواتر ہے۔ اس اِعتبار سے قرآن بعض اَوقات خبر واحد المحتف بالقرائن سے بھی ثابت ہو جاتا ہے، کیونکہ ایسی خبر واحد جو محتف بالقرائن ہو وہ اِستدلال میں تواتر سے کسی لحاظ سے بھی کم نہیں ہے اور تواتر کی اصطلاحی تعریف کے ضمن میں ذکر کردہ دوسرے گروہ نے اسی خبر واحد کو تواتر سے تعبیر کیا ہے۔ اس سلسلہ میں تفصیلی مطالعہ کے لیے ’رُشد قراء ات نمبر حصہ دوم‘ میں محترم آصف ہارون کے مضمون ’تواتر کا مفہوم اور ثبوتِ قرآن کا ضابطہ‘ اور ڈاکٹر حمزہ مدنی کے اِنٹرویو کے سوال نمبر ۱۶ تا ۲۲ کے جوابات کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔ اور اس کا فیصلہ قارئین پر ہی چھوڑتے ہیں کہ وہ سید صاحب کی علمیت پر کیا رائے قائم کرتے ہیں۔
(٥) شاہ صاحب کی زبان سے ’رُشد‘ میں موجود ایک اور بہت بڑا ’تناقض‘ ملاحظہ ہو، کہتے ہیں :
٭ حافظ اَنس نضرمدنی ایک جگہ اِرشاد فرماتے ہیں: وہ قراء ات جن کی سند متواتر یا مشہور نہ ہو انہیں قراء ات شاذہ کہا جاتا ہے، بطورِ قرآن ان کی تلاوت جائز نہیں۔
٭ لیکن فوراً ہی اگلے صفحے پر یہ تحقیق بھی قارئین کی نظر کرتے ہیں کہ تیسری قسم یعنی آحاد قراء ت جو اگرچہ شاذہ میںشامل ہے لیکن بعض علماء اُسے نماز میں پڑھنے کے جواز کے قائل ہیں۔‘‘
اِختلاف کا وقوع پذیر ہونا ایک قدرتی اَمر اور دیانتداری کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ممکن حد تک اِختلاف کو ذکر کرنے کے بعد راجح مؤقف کی نشاندہی ضروری ہے۔ یہاں بھی معاملہ اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔
پوری اُمت کا اس اَمر پر اِتفاق ہے کہ قراء اتِ شاذہ قرآن کا حصہ نہیں ہیںاور بطورِ قرآن ان کی تلاوت کرنا جائز نہیں ہے۔ لیکن چند علماء نے ایک غلط فہمی کی بناء پر قراء اتِ شاذہ کو بطور قرآن پڑھنے کی اِجازت دی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ فقہاء کے درمیان یہ مسئلہ اختلافی ہے کہ اگر کوئی شخص حرمت کا اِرتکاب کرتے ہوئے نماز میں قراء ۃ شاذۃ کی تلاوت کر لے تو اس کی نماز ہو جائے گی یا نہیں؟ توچونکہ کچھ فقہاء نے بعض صورتوں میں ایسے شخص کی نماز کو جائز قرار دیا ہے تو اس سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ شاید یہ فقہاء نماز میں قراء ۃِ شاذہ کی تلاوت کو جائز سمجھتے ہیں، اس غلط فہمی کی بناء پر بعض فقہاء کی طرف غلط طور پر قرا ء ت شاذہ کی تلاوت کے جواز کا قول منسوب ہوگیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ الدکتور محمد سالم محیسن نے لکھتے ہیں:
’’جو سخص اس مسئلہ کے بارے میں علماء وفقہاء کے اَقوال کی روشنی میں غور کرے گا، وہ یقینا یہی فیصلہ کرے گا کہ نماز یا اس کے علاوہ قراء ۃِ شاذہ کی تلاوت حرام ہے۔‘‘(رحاب القرآن:۴۳۸)
ایک نہایت موٹی عقل والے شخص کوبھی یہ بات سمجھ آسکتی ہے کہ انس صاحب نے اگر کہا ہے کہ بعض علماء قراء تِ شاذہ کی تلاوت کے جواز کے قائل ہیں جبکہ راجح مؤقف کے مطابق وہ خود کہہ رہے ہیں کہ بطورِ قرآن اس کی تلاوت نہیں ہو سکتی تو جناب اس پر اس قدر بگڑنے کی کیا تک بنتی ہے۔
(٦) سلیم صاحب کو یہ بھی اعتراض ہے :
٭ اِنکارِ قراء ات کے حکم کے تحت ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب صریحاً لکھتے ہیں کہ اِنکارِ قراء ات کے باعث کوئی کافر نہیں ہوگا
٭ جبکہ قاری صہیب اَحمد صاحب کا اِرشاد ہے کہ منکر قراء ات کافر ہے۔
منکرِ قراء ات کافر ہے یا نہیں، یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے جس میں ہر شخص کو رائے دینے کا اختیار حاصل ہے۔ ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب اگر اِنکار قراء ات پر تکفیر کے بجائے سخت گمراہی کا فتویٰ لگاتے ہیں تو وہ استحقاق رکھتے ہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ منکرینِ حدیث کے بارے میں انکا مؤقف دو ٹوک اور واضح ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک اور جگہ پر قراء اتِ قرآنیہ کے اِنکاری کے متعلق پوچھے گئے سوال پر فتویٰ دیا ہے اور اپنی اسی بات کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’رہے منکرین حدیث جیسے غلام اَحمد پرویز اور اس کے ہم فکر لوگ تو یہ سنت وحدیث کی تشریعی حیثیت بگاڑنے اور قرآن پاک میں تحریف معنوی کی وجہ سے کافر ہیں ان کا قراء اتِ متواترہ کا اِنکار کرنا بھی قرآن کی تحریف کی قبیل سے ہے کسی بھی علمی اشکال پر مبنی نہیں ہے۔‘‘ (رشد: ۲؍۲۸۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جناب سلیم صاحب آپ کے اِرشاد: ’’رِوایات کی روشنی میں قرآن کے حکم کو تبدیل کرنا ان حضرات کے لیے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔‘‘ سے بخوبی سمجھ آرہا ہے کہ آپ کا تعلق کس صنف سے ہے اور ڈاکٹر صاحب آپ کے متعلق کس قسم کے نقطہ نظر کے حامل ہیں۔
جہاں تک تعلق ہے منکر قراء ات کے کافر ہونے یا نہ ہونے کا تو اس سلسلے میں ’رُشد‘ کیا کہتا ہے ملاحظہ کیجئے:
’’مسلمانوں کے جمیع مکاتب فکر اس بات پر متفق ہیں کہ جو شخص ان قراء ات کا کھلم کھلا اِنکار کرتا ہے، وہ منکر قرآن ہونے کی وجہ سے صریحاً کافر ہے، البتہ جسے تاویل کی غلطی نے اس طرف مائل کیا ہے تو وہ بھی گمراہ، بلکہ اہل سنت والجماعت سے خارج ہے۔‘‘ (رشد: ۲؍۱۲۴)
حضرت عمرو بن العاصtسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’قرآن کریم سات حروف پر نازل کیاگیا ہے، جس حرف کے مطابق قرآن کی تلاوت کرو گے درست قراء ت کرو گے، اس کے متعلق جھگڑا نہ کیا کرو، کیونکہ قرآن کریم میں جھگڑنا کرنا کفر ہے۔‘‘ (مسند أحمد:۴؍۲۰۴ )
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حافظ عبدالستار حماد کے الفاظ میں ’رُشد‘ کے مؤقف کی وضاحت ملاحظہ ہو:
جب قرآن کریم کے کسی حرف کے متعلق جھگڑا، اختلاف کرنا کفر ہے تو اس سے اِنکار کرنا تو بالاولیٰ کفر ہوگا، لیکن ہم اِسے ذرا تفصیل سے بیان کرتے ہیں: ہمارے رجحان کے مطابق اس اِنکار کی تین وجوہات ممکن ہیں :
(١) جہالت کی وجہ سے اِنکار کرنا (٢) کسی تاویل کی بنیاد پرانکار کرنا (٣) تکبر و عناد کی بناء پر اِنکار کرنا
اگر کوئی شخص جہالت و لاعلمی کی وجہ سے قراء ت متواترہ کااِنکار کرتا ہے تو اسے کافر قرار دینے کے بجائے اس کی جہالت دور کی جائے جیسا کہ حضرت عمر﷜ نے ایک دفعہ دورانِ سفر اپنے باپ کی قسم اٹھائی تو رسول اللہﷺنے ان کی لاعلمی اور جہالت کے پیش نظر انہیں کافر قرار نہیں دیا اور نہ ہی اسے تجدید ایمان کے لیے کہا بلکہ ان کی جہالت دور کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے تمہیں باپ دادا کی قسم اٹھانے سے منع فرمایا ہے۔ ‘‘ (صحیح البخاري، الادب:۶۱۰۸)
لیکن اس جہالت کی کچھ حدود و قیود ہیں مطلق جہل کو کفر سے مانع نہیں قرار دیا جاسکتا بلکہ اس سے مراد وہ جہالت ہے جسے کسی وجہ سے اِنسان دورنہ کرسکتا ہو خواہ وہ خود مجبور و لاچار ہو یا مصادر علم تک اس کی رسائی ناممکن ہو، لیکن اگر کسی انسان میں جہالت کو دور کرنے کی ہمت ہے اور اسے اس قدر ذرائع و وسائل میسر ہیں کہ وہ اپنی جہالت دور کرسکتا ہے، اس کے باوجود وہ کوتاہی کاارتکاب کرتاہے تو ایسے انسان کی جہالت کو کفر سے مانع قرار نہیں دیا جاسکے گا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چنانچہ اِرشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور ہم اس وقت تک عذاب نہیں دیا کرتے جب تک اپنا رسول نہ بھیج لیں‘‘ (الاسراء :۱۵)
اس آیت کے تحت امام ابن تیمیہ﷫لکھتے ہیں کہ بندوں پر اِتمام حجت کے لیے دو چیزوں کو لانا ضروری ہے:
(١) اس کی طرف سے نازل شدہ تعلیمات کو حاصل کرنے کی ہمت رکھتا ہو۔
(٢) ان پرعمل کرنے کی قدرت رکھتا ہو۔ (مجموع فتاویٰ:۱۲؍۴۷۸)
اِس سے معلوم ہوا کہ جہالت و لا علمی کو اتمام حجت کے سلسلہ میں ایک رکاوٹ شمارکیا گیا ہے، اس لیے ہمیں چاہئے کہ اگر کوئی جہالت کی وجہ سے قراء اتِ متواترہ کا اِنکار کرتا ہے تو اس کی جہالت دور کی جائے۔
اگر قراء اتِ متواترہ کا اِنکار کسی معقول تاویل کی بناپرکرتا ہے تو اسے بھی معذور تصور کیاجائے گا، لیکن تاویل کے لیے ضروری ہے کہ الفاظ میں عربی قاعدہ کے مطابق اس تاویل کی کوئی گنجائش ہو اور علمی طور پر اس کی توجیہہ ممکن ہو۔ اگر کسی کو اس تاویل سے اتفاق نہ ہو تو اسے کافر کہنے کی بجائے تاویل کنندہ کی تاویل کا بودا پن واضح کردیا جائے،لیکن ہر تاویل، تکفیر کے لیے رکاوٹ نہیں بن سکتی، اگر تاویل کی بنیاد محض عقل و قیاس اور خواہشات نفس ہیں تو اس قسم کی تاویل کرنے والا معذور نہیں ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اِبلیس لعین سے سوال کیاتھا کہ تو نے آدم کو سجدہ کیوں نہیں کیا تو تاویل کا سہارا لیتے ہوئے کہا کہ میں اس سے بہتر ہوں کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے بنایا ہے۔ (الأعراف:۱۲)
 
Top