محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا۰ۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِيْ شِقَاقٍ۰ۚ فَسَيَكْفِيْكَہُمُ اللہُ۰ۚ وَھُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۱۳۷ۭ صِبْغَۃَ اللہِ۰ۚ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ صِبْغَۃً۰ۡوَّنَحْنُ لَہٗ عٰبِدُوْنَ۱۳۸
۲؎ ان آیات میں بتایا کہ ایمان وہی مثمرد سودمند ہے جو کامل ہو۔ یعنی پورے نظام اسلامی کو مانا جائے ورنہ راہِ راست سے بھٹک جانے کا خطرہ ہے اور وہ لوگ جو اسلام کے نظام وحدت پر عمل پیرا نہیں ہیں، ان کا شقاق واختلاف کے مرض میں مبتلا رہنا لازمی وناگزیر ہے ، اس لیے کہ اسلام کے سوا جتنی راہیں ہیں ان سب میں تعصب وجہالت کے کانٹے بچھے ہیں۔ سب غیر مستقیم ہیں۔ اسلام اور صرف اسلام ہی رواداری، مسالمت اور اطاعت حق کا سچا مبلغ ہے۔
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صَبَغَ فُلاَنٌ سے مراد کسی خاص عقیدہ کی تلقین کرنا ہے ۔یعنی صبغۃ اللہ سے مراد اللہ کا دین ہے ۔ دین کواللہ کے رنگ سے تشبیہ دینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ دل بمنزلہ سفید کپڑے کے ہے ۔اسی لیے وثیابک فطھر میں کپڑوں سے مراد دل ہے جس کو مختلف انواع کے رنگوں سے رنگ لیاجاتا ہے ۔ کوئی یہودی ہے اور کوئی عیسائی۔ کوئی مجوسی ہے اور کوئی آتش پرست ۔ قرآن حکیم کہتا ہے اللہ کا رنگ ان سب الوان سے جدا ہے اور بہتر ہے۔ اس میں یہودیت بھی ہے اور عیسائیت بھی۔ اس میں تعصب وجہالت کا کوئی رنگ نہیں۔ وَنَحْنُ لَہٗ عٰبِدُوْنَ۔کہہ کر یہ بتایا ہے کہ مسلمان جس رنگ میں ظاہر ہوتا ہے ، وہ عبودیت اور خاکساری ہے ۔ وہ ہروقت اللہ کی فرمانبرداری واطاعت میں مصروف نظرآئے گا۔ اس کی زندگی کا کوئی لمحہ ضائع نہیں ہوتا۔ اس کی پہچان خدا کی عبادت، اس کی محبت اور اپنی عبودیت کا اظہار ہے ۔ نیز اس کی طرف بھی اشارہ ہے کہ عیسائی جو اصطباغ کو بہت بڑی دینداری سمجھتے ہیں، وہ جان لیں کہ ظاہرداری کے رنگ چھڑک دینے سے کوئی نجات کا مستحق نہیں بن سکتا۔ رسم اصطباغ سے کپڑے تو رنگے جاسکتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ دل بھی خدا کے رنگ میں ڈو ب جائیں، اس لیے ان ظاہر پرستیوں کو چھوڑ کر روح وباطن کی طرف عود کرو اور رسوم ورواجات سے پلٹ کر حقائق ومعارف کی جانب بڑھو کہ خدا کو ظاہر داریاں پسند نہیں جن میں ذرہ بھر شائبہ خلوص نہ ہو۔ وہ تو دل کی گہرائیوں میں خلوص ومحبت کے خزانے دیکھنا چاہتا ہے ۔
(شقاق) اختلاف۔{صِبْغَۃٌ}۔ رنگ{احسن} اچھا۔ مادہ حسن۔{عٰبدون} جمع عابد بمعنی پرستار۔
۱؎ اسلام ہرقسم کی تنگ دلی سے بالا ہے ۔ وہ کسی خاص تعلیم پر ایمان لانے کی تاکید نہیں کرتابلکہ وہ کہتا ہے کہ تم ہرصداقت کو مانو۔ ابراہیم علیہ السلام کو بھی مانو اور اسمٰعیل علیہ السلام کو بھی۔ موسیٰ علیہ السلام کو بھی اور مسیح علیہ السلام کو بھی اور ہر اس چیز پر یقین رکھو جواللہ کے پیغمبروں کی وساطت سے ہم تک پہنچی ہے ۔ اس لیے کوئی تفصیل نہیں ۔ مسلمان مجبور ہے کہ وہ ہرسچائی کا احترام کرے اس لیے کہ اسے تو اللہ سے محبت ہے اور جب اس کی اطاعت وفرمانبرداری کا بوجھ اپنے کندھوں پر ڈال لیا توپھر ہرحکم جو اس کی طرف سے وصول ہوا ،شائستۂ اعتناء ہے ۔ وہ لوگ جو خدا کی محبت کا دعویٰ توکرتے ہیں لیکن محمد رسول اللہﷺ پر ایمان نہیں لاتے تو اپنے دعویٰ میں سچے نہیں، کیوں کہ آپ خدا کے سب سے بڑے دوست اور محب ہیں۔پس اگر وہ بھی ایمان لائیں جیسا کہ تم (صحابہ کرام) ایمان لائے ہو تو انھوں نے ہدایت پائی اور اگرمنہ موڑیں تو وہی ضد پر ہیں اور ان کی طرف سے تجھے اللہ کافی ہے اور وہ سنتا اور جانتا ہے۔۱؎(۱۳۷) ہم نے رنگ اللہ کا(لیا) ہے اور کس کا رنگ اللہ سے بہتر ہے اور ہم اسی کی بندگی کرتے ہیں۔۲؎(۱۳۸)
انکار کا نتیجہ
الٰہی رنگ
حل لغات