- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,773
- ری ایکشن اسکور
- 8,473
- پوائنٹ
- 964
صحیح مسلم پر امام ابوزرعہ رازی کے اعتراضات کا جائزہ
محمد خبیب احمد (ادارہ علوم اثریہ، فیصل آباد)
(یہ مضمون ہفتہ روزہ الاعتصام 1438ھ کے مختلف شماروں میں بالاقساط شائع ہوا )
اﷲ جل شانہ نے صحیح بخاری کے بعد جس رتبے سے صحیح مسلم کو نوازا ہے وہ اربابِ علم کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہے۔ اس قبولیت کی وجہ اس کے بلندپایہ مصنف، حجۃ الاسلام، امام مسلم بن حجاج قشیری (وفات: ۲۶۱ھ) کا اﷲ سبحانہ سے انتہائی گہرا تعلق تھاجس کی بہ دولت انھیں کتاب کی حسنِ تنسیق کا اعلیٰ ذوق مرحمت فرمایا گیا۔ اس بنا پر اسے کتب ستہ میں ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے۔
ذکرِ سند ہو یا حکایتِ متن، انھوں نے ہر دو صورتوں میں انفرادیت پیدا کی۔ اسانید کا بہ نظر عمیق مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ عموماً کسی صحابی کی قابلِ اعتبار سبھی اسانید جو اُن کے یہاں موجود ہوتی ہیں، کو یک جا پرو دیتے ہیں۔ راویوں کو دیکھا جائے تو وہ اہلِ اتقان و ضبط کی روایت کو دوسروں سے مقدم کرتے ہیں، مشہور روایت کو غیر مشہور سے قبل ذکر کرتے ہیں، علو اور نزول کا لحاظ رکھتے ہوئے عالی سند کو نازل سند پر ترجیح دیتے ہیں۔ ایک ہی شہر و قبیلے کے باشندگان کی حدیث کو پہلے ذکر کرتے ہیں۔ الفاظ اور صِیَغِ ادا کا اہتمام بہ طور خاص کرتے ہیں۔ انھیں اسی انداز سے بیان کرتے ہیں جیسے حدیث کے راوی ذکر کرتے ہیں۔ جگہ جگہ حدثنا، أخبرنااور سمعت کے مابین حد فاصل قائم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
متنِ حدیث کو دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ عموماً مکمل حدیث بیان کرتے ہیں۔ حدیث کی تقطیع شاذ و نادر ہی کرتے ہیں۔ روایت بالمعنیٰ سے بھی احتراز برتتے ہیں۔ الفاظ کی کمی و بیشی کا ذکر کرتے ہیں۔
اسی امتیاز کی بہ دولت اہلِ مغرب متنِ حدیث نقل کرنے میں دوسروں کی بہ نسبت صحیح مسلم پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں، جیسا کہ حافظ ابن حجر نے صراحت کی ہے۔ (النکت: ۲۸۳/۱(
اس محولہ بالا مقام پر حافظ ابن حجر کے مشار الیہ حافظ ابو محمد عبدالحق اشبیلی مغربی(وفات: ۵۸۱ھ یا ۵۸۲ھ) ہیں، انھوں نے بھی مقدمۂ کتاب میں صراحت کی ہے کہ
’’میں صحیح مسلم پر بھروسا کرتا ہوں اور اکثر و بیشتر اسی سے نقل کرتا ہوں۔‘‘ (مقدمۃ الأحکام الوسطی للإشبیلي: ۷۰/۱(
علامہ ابو مروان عبدالملک بن زیادۃ اﷲ طبنی القرطبی (وفات ۴۵۷ھ) کا بیان ہے کہ ہمارے بعض اساتذہ صحیح مسلم کو صحیح بخاری پر ترجیح دیتے ہیں۔ (مقدمۃ إکمال المعلم للقاضي عیاض، ص: ۹۹،۱۰۰(
حافظ ابن حزم صحیح مسلم کو صحیح بخاری پر فوقیت دیتے تھے۔ (برنامج التجیبي القاسم بن یوسف (وفات: ۷۳۰ھ)، ص: ۹۳، النکت لابن حجر: ۲۸۲/۱(
علامہ مسلمہ بن قاسم کا بیان ہے کہ کسی نے اس جیسی کتاب نہیں دیکھی۔ (تقیید المہمل للغساني: ۶۷/۱، مقدمۃ إکمال المعلم للقاضي عیاض، ص: ۱۰۰، الفہرسۃ لابن الخیر، ص: ۸۷(
ملحوظ رہے کہ یہ فوقیت صحت کے اعتبار سے نہیں۔ صحت کے اعتبار سے صحیح بخاری صحیح مسلم پر فائق ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر نے بھی وضاحت کی ہے۔ (النکت: ۲۸۳/۱(
محدثین نے اپنی زمامِ توجہ اس جانب مبذول کی۔ اس کے مستخرجات درجن کے لگ بھگ لکھے گئے جو صرف اسی کتاب پر ہیں، صحیح بخاری اس میں شامل نہیں۔ اس کی شروحات اور مختصرات وجود میں آنے لگیں اور راویانِ صحیح مسلم کے تعارف کے لیے کتب مدوّن ہوئیں۔ اس سے اہل علم کے ہاں اس کی قدر معلوم ہوتی ہے۔
بعض محدثین نے اس کتاب کو ناقدانہ نگاہوں سے پرکھا، اس کی جزوی احادیث یا الفاظ کو ہدفِ تنقید ٹھہرایا اور اپنے نقطۂ نظر کے مطابق ان پر کلام کیا۔ اُن میں غالباً امام مسلم کی زندگی میں سب سے پہلے انھی کے استاد امام ابوزرعہ رازی ہیں۔
ان کا نام عبیداﷲ بن عبدالکریم مخزومی ہے جو امامِ فن، ناقد، حافظ، شیخ الاسلام، سنت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کے بحر بے کنار ایسے اوصاف سے متصف تھے۔ انھیں علل الحدیث میں جو مہارت تامہ حاصل تھی اس کی شہادت العلل لابن أبي حاتم، الجرح و التعدیل لابن أبي حاتم، أجوبتہ علی سؤالات البرذعي، کتاب الضعفاء لأبي زرعہ سے بھی ملتی ہے۔ خود اُن کا اپنا بیان ہے:
’’میں نے چھ لاکھ صحیح احادیث ازبر کی ہیں۔ تفسیر اور قراء ت کی بابت چودہ ہزار احادیث اور دس ہزار جعلی احادیث میرے قرطاسِ دماغ پر نقش ہیں۔ ان سے استفسار کیا گیا کہ من گھڑت احادیث حفظ کرنے کی کیا حکمت ہے؟ جواباً فرمایا: جب ان میں سے کوئی حدیث میرے سامنے آئے گی تو میں (بلا تردد) اسے شناخت کر لوں گا۔‘‘)شرح علل الترمذي: ۴۹۴/۱(
امام ابوزرعہ کی شخصیت کا تعارف چونکہ ہمارا موضوع نہیں، اس لیے شائقین اس کے لیے ملاحظہ فرمائیں: أبوزرعۃ رازي وجہودہ في السنۃ النبویۃ للدکتور سعدي ہاشمي: ۲۱۷-۲۱۰/۱․
امام مسلم نے صحیح مسلم میں ان سے صرف ایک روایت لی ہے۔(ملاحظہ ہو صحیح مسلم، حدیث: ۲۷۳۹) اور امام ابوزرعہ امام مسلم کے شاگرد بھی ہیں۔ (سؤالات البرذعي: ۵۲۵/۲، ۵۹۱)یا پھر یہ روایۃ الأقران کی صورت ہے۔
ذکرِ سند ہو یا حکایتِ متن، انھوں نے ہر دو صورتوں میں انفرادیت پیدا کی۔ اسانید کا بہ نظر عمیق مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ عموماً کسی صحابی کی قابلِ اعتبار سبھی اسانید جو اُن کے یہاں موجود ہوتی ہیں، کو یک جا پرو دیتے ہیں۔ راویوں کو دیکھا جائے تو وہ اہلِ اتقان و ضبط کی روایت کو دوسروں سے مقدم کرتے ہیں، مشہور روایت کو غیر مشہور سے قبل ذکر کرتے ہیں، علو اور نزول کا لحاظ رکھتے ہوئے عالی سند کو نازل سند پر ترجیح دیتے ہیں۔ ایک ہی شہر و قبیلے کے باشندگان کی حدیث کو پہلے ذکر کرتے ہیں۔ الفاظ اور صِیَغِ ادا کا اہتمام بہ طور خاص کرتے ہیں۔ انھیں اسی انداز سے بیان کرتے ہیں جیسے حدیث کے راوی ذکر کرتے ہیں۔ جگہ جگہ حدثنا، أخبرنااور سمعت کے مابین حد فاصل قائم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
متنِ حدیث کو دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ عموماً مکمل حدیث بیان کرتے ہیں۔ حدیث کی تقطیع شاذ و نادر ہی کرتے ہیں۔ روایت بالمعنیٰ سے بھی احتراز برتتے ہیں۔ الفاظ کی کمی و بیشی کا ذکر کرتے ہیں۔
اسی امتیاز کی بہ دولت اہلِ مغرب متنِ حدیث نقل کرنے میں دوسروں کی بہ نسبت صحیح مسلم پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں، جیسا کہ حافظ ابن حجر نے صراحت کی ہے۔ (النکت: ۲۸۳/۱(
اس محولہ بالا مقام پر حافظ ابن حجر کے مشار الیہ حافظ ابو محمد عبدالحق اشبیلی مغربی(وفات: ۵۸۱ھ یا ۵۸۲ھ) ہیں، انھوں نے بھی مقدمۂ کتاب میں صراحت کی ہے کہ
’’میں صحیح مسلم پر بھروسا کرتا ہوں اور اکثر و بیشتر اسی سے نقل کرتا ہوں۔‘‘ (مقدمۃ الأحکام الوسطی للإشبیلي: ۷۰/۱(
علامہ ابو مروان عبدالملک بن زیادۃ اﷲ طبنی القرطبی (وفات ۴۵۷ھ) کا بیان ہے کہ ہمارے بعض اساتذہ صحیح مسلم کو صحیح بخاری پر ترجیح دیتے ہیں۔ (مقدمۃ إکمال المعلم للقاضي عیاض، ص: ۹۹،۱۰۰(
حافظ ابن حزم صحیح مسلم کو صحیح بخاری پر فوقیت دیتے تھے۔ (برنامج التجیبي القاسم بن یوسف (وفات: ۷۳۰ھ)، ص: ۹۳، النکت لابن حجر: ۲۸۲/۱(
علامہ مسلمہ بن قاسم کا بیان ہے کہ کسی نے اس جیسی کتاب نہیں دیکھی۔ (تقیید المہمل للغساني: ۶۷/۱، مقدمۃ إکمال المعلم للقاضي عیاض، ص: ۱۰۰، الفہرسۃ لابن الخیر، ص: ۸۷(
ملحوظ رہے کہ یہ فوقیت صحت کے اعتبار سے نہیں۔ صحت کے اعتبار سے صحیح بخاری صحیح مسلم پر فائق ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر نے بھی وضاحت کی ہے۔ (النکت: ۲۸۳/۱(
محدثین نے اپنی زمامِ توجہ اس جانب مبذول کی۔ اس کے مستخرجات درجن کے لگ بھگ لکھے گئے جو صرف اسی کتاب پر ہیں، صحیح بخاری اس میں شامل نہیں۔ اس کی شروحات اور مختصرات وجود میں آنے لگیں اور راویانِ صحیح مسلم کے تعارف کے لیے کتب مدوّن ہوئیں۔ اس سے اہل علم کے ہاں اس کی قدر معلوم ہوتی ہے۔
بعض محدثین نے اس کتاب کو ناقدانہ نگاہوں سے پرکھا، اس کی جزوی احادیث یا الفاظ کو ہدفِ تنقید ٹھہرایا اور اپنے نقطۂ نظر کے مطابق ان پر کلام کیا۔ اُن میں غالباً امام مسلم کی زندگی میں سب سے پہلے انھی کے استاد امام ابوزرعہ رازی ہیں۔
ان کا نام عبیداﷲ بن عبدالکریم مخزومی ہے جو امامِ فن، ناقد، حافظ، شیخ الاسلام، سنت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کے بحر بے کنار ایسے اوصاف سے متصف تھے۔ انھیں علل الحدیث میں جو مہارت تامہ حاصل تھی اس کی شہادت العلل لابن أبي حاتم، الجرح و التعدیل لابن أبي حاتم، أجوبتہ علی سؤالات البرذعي، کتاب الضعفاء لأبي زرعہ سے بھی ملتی ہے۔ خود اُن کا اپنا بیان ہے:
’’میں نے چھ لاکھ صحیح احادیث ازبر کی ہیں۔ تفسیر اور قراء ت کی بابت چودہ ہزار احادیث اور دس ہزار جعلی احادیث میرے قرطاسِ دماغ پر نقش ہیں۔ ان سے استفسار کیا گیا کہ من گھڑت احادیث حفظ کرنے کی کیا حکمت ہے؟ جواباً فرمایا: جب ان میں سے کوئی حدیث میرے سامنے آئے گی تو میں (بلا تردد) اسے شناخت کر لوں گا۔‘‘)شرح علل الترمذي: ۴۹۴/۱(
امام ابوزرعہ کی شخصیت کا تعارف چونکہ ہمارا موضوع نہیں، اس لیے شائقین اس کے لیے ملاحظہ فرمائیں: أبوزرعۃ رازي وجہودہ في السنۃ النبویۃ للدکتور سعدي ہاشمي: ۲۱۷-۲۱۰/۱․
امام مسلم نے صحیح مسلم میں ان سے صرف ایک روایت لی ہے۔(ملاحظہ ہو صحیح مسلم، حدیث: ۲۷۳۹) اور امام ابوزرعہ امام مسلم کے شاگرد بھی ہیں۔ (سؤالات البرذعي: ۵۲۵/۲، ۵۹۱)یا پھر یہ روایۃ الأقران کی صورت ہے۔