• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علمِ ناسخ ومنسوخ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۴۔ سنت کا نسخ سنت سے: اس کی چار اقسام ہیں:
٭ متواترکا نسخ متواتر سے ٭ آحاد کا نسخ آحاد سے ٭ آحاد کا نسخ متواتر سے ٭ متواتر کا نسخ آحاد سے پہلی تینوں اقسام علماء جمہور کے نزدیک جائز ہیں۔ آخری میں ویسا ہی اختلاف ذکر کیا جاتا ہے جیسا کہ نسخ قرآن از آحادمیں تھا اور جمہور علماء نے اس سے روکا ہے اور نہ ہی اجازت دی ہے۔ باقی اجماع یا قیاس میں نسخ یا دونوں میں نسخ ۔ اس بارے میں درست بات یہی ہے کہ یہ جائز نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آغاز بحث:
پہلی صدی ہجری کے آخر میں نسخ کا مسئلہ اس وقت زیر بحث آیا جب امام شافعی ؒ نے اس کا آغاز کیا۔

نسخ کے مختلف انداز:
قرآن مجید میں سابق حکم کی نسبت کبھی نسخ زیادہ آسان اور نرم حکم سے ہوا۔اور کبھی پہلے سے بھی زیادہ مشکل حکم میں اور کبھی مساوی نسخ ہوا اور کبھی کسی اور انداز سے۔

پہلے سے زیادہ مشکل میں نسخ کی مثال:
روزہ رکھنے یا کھانا کھلادینے کا اختیار پہلے پہل نازل ہوا:
{ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ} (البقرۃ:۱۸۴)
اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں (پھر نہ رکھیں) تو وہ فدیہ دیں۔ صحیح حدیث میں بھی ہے : سلمہ بن اکوع ؓ فرماتے ہیں: کہ ابتداء ًروزے کی فرضیت میں انسان کو روزہ رکھنے اور کھانا کھلادینے کا اختیار دیا گیا پھر یہ اختیار روزہ کی عین فرضیت کے حکم سے منسوخ کردیا گیا۔وہ حکم یہ تھا:
{فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ} (البقرہ: ۱۸۵)
تو جو بھی تم میں اس رمضان میں موجود ہو وہ اس کا روزہ ضرور رکھے۔
حکمت اس کی یہ ہے کہ جب اللہ سبحانہ وتعا لی کوئی ایسا حکم دینا چاہتے ہیں جس پر عمل کرنا مشکل محسوس ہوتو پہلے اس کی ابتداء ہلکے اور آسان حکم سے کرتے ہیں۔ جب لوگ اس پر عمل سے راحت محسوس کرتے ہیں تو پھر ان کے لئے دوسرا مشکل حکم نازل فرماتے ہیں گو وہ مشکل ہوتا ہے مگر فرمانبردار وں کے لئے اسے قبول کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نسخ کے بارے میں نکتہ ہائے نظر:

۱۔ علماء یہود نسخ کے منکر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نسخ سے اللہ تعالی پر بداء لازم آتا ہے۔بداء کا مطلب ہے کسی شے کا مخفی ہونے کے بعدظاہر ہونایا کسی جدید رائے کا سوجھنا جو پہلے نہ تھی۔اس لئے یہ نسخ اس علم کے تجدد کا نتیجہ ہے جو پہلے مجہول تھا۔اور یہ اللہ تعالی پر محال ہے۔

ان کا یہ استدلال فاسد ہے کیونکہ نسخ علم اللہ تعالی میں تجدد نہیں ہے بلکہ امت کی تجدیدی حالت کے لئے ہے۔حالات وضروریات کی تبدیلی متقاضی ہوتی ہے کہ نیا حکم ہو۔مکہ مکرمہ میں مسلمان انتہائی کمزور تھے اس لئے جو حکم ان کے احوال کے مناسب تھا وہ اللہ تعالی نے دیا مگر مدینہ میں قوی حالات ہوجانے کے بعد اب وہی حکم نامناسب ہے یہ بداء نہیں بلکہ بہتری اور ترقی کی طرف ایک قدم ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۲۔ رافضہ نے نسخ کے اثبات پر اپنا غالی نکتہ نظر پیش کیا ہے بلکہ بداء کو اللہ تعالی کے لئے جائز قرار دیا ہے۔اپنے مذہب کی تائید کے لئے انہوں نے بہت سی احادیث گھڑ کے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے طرف منسوب بھی کی ہیں۔جیسے:
لَوْ لاَ الْبَدَائُ لَحَدَّثْتُکُمْ بِمَا ہُوَ کَائِنٌ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔
اگر بداء نہ ہوتا تو میں تمہیں قیامت تک رونما ہونے والے حالات وواقعات کے بارے میں بتاتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۳۔ ابو مسلم الاصفہانی جو ائمہ معتزلہ میں سے ہیں اس رائے کے اولین قائل ہیں کہ عقلاً نسخ کا جواز ہے مگر شرعاً اس کا واقع ہونا ممتنع ہے۔ ان کی دلیل یہ آیت ہے:{لایأتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ تنزیل من حکیم حمید}۔یعنی قرآنی احکام کبھی غلط نہیں ہوسکتے۔رہی آیات نسخ تو وہ برائے تخصیص ہیں۔

اس کا جواب علماء نے یہ دیا ہے کہ آیت کا معنی یہ ہے کہ قرآن پاک میں کوئی خلل، نقص، تحریف یا تبدیلی نہیں آسکتی۔یا ان میں سے کوئی شے بھی اس کی طرف نہیںبڑھ سکتی۔نسخ ، باطل میں سے نہیں بلکہ وہ تو حق ہے ۔ ناسخ ومنسوخ دونوں اللہ تعالی کی طرف سے وحی شدہ ہیں اور ساری وحی حق ہوا کرتی ہے نہ کہ باطل ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۴۔ جمہور علماء کا نکتہ نظر نسخ کے بارے میں یہ ہے کہ نسخ عقلاًنہ صرف جائز ہے بلکہ شرعاً بھی یہ بکثرت نصوص شرعیہ سے ثابت ہے۔ جیسے اللہ تعالی کا یہ ارشاد:{ماننسخ من آیۃ أو ننسہا۔۔۔} یا {وإذا بدلنا آیۃ مکان آیۃ۔۔} وغیرہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نسخ اور بَدا میں فرق:
بداء کا مطلب چھپنے کے بعد ظاہر ہونا کے ہیں یعنی ایسی رائے کا پیدا ہونا جو پہلے موجود نہ تھی۔ کچھ لوگوں نے نسخ کا انکار کرتے ہوئے اسے بدا کا مترادف قرار دیا۔ یہ عقیدہ انتہائی غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نعوذ باللہ ایک ایسی رائے سوجھے جو اسے پہلے معلوم نہ تھی۔ یا کوئی چیز اس پر اچانک منکشف ہو۔ جبکہ اللہ تعالیٰ خود قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں:

{ہو الأول والآخر}وہی ہے سب سے پہلے اور سب سے آخر۔{ کُلٌّ فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ}(ہود:۶) سب کچھ کتاب مبین میں درج ہے۔ { لَاتَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ} (یونس:۶۴)اللہ کے کلمات تبدیل نہیں ہوسکتے۔ {ولن تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللَّہِ تَحْوِیْلًا} (فاطر:۴۳)اللہ کا طریقہ پھر نہیں سکتا۔ {یَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ} (الانعام:۵۹)وہ تو بحر وبر میں جو کچھ ہے سب کچھ جانتا ہے۔زرقانیؒ اس سلسلے میں کہتے ہیں:
جب اللہ تعالیٰ کوئی نیا حکم دے کر پرانا حکم منسوخ کرتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اسے کوئی نئی بات سوجھی جو پہلے معلوم نہ تھی۔ بخلاف ازیں اللہ تعالیٰ کو ازل ہی سے بلکہ اس حکم کو مشروع قرار دینے سے پہلے ناسخ و منسوخ کا علم تھا"(مناہل العرفان ۲؍۷۸)۔

ڈاکٹر صبحی صالح رحمہ اللہ اس رائے پر اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
مخلوقات اور ارض و سماء کو پیدا کرنے سے بھی پہلے اللہ تعالیٰ اس سے آشنا تھا۔‘‘(علوم القرآن: ۳۸۸)

٭٭٭٭٭​

قرآن کریم اور اس کے چند مباحث
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
۲۔ نسخ قرآن از سنت:
اس کی دواقسام ہیں:

٭ نسخ قرآن از سنت آحادیہ:
جمہور علماء اس کے عدم جواز کے قائل ہیں۔ کیونکہ قرآن متواتر اور یقین کا فائدہ دیتا ہے اور سنت آحادی(خبر واحد) ظنی ہوا کرتی ہے اس لئے اس سے حتمی یقین نہیں ہوتا۔مثلاً:
{ کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرًانِلْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِج حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنں}(البقرۃ۱۸۰)
علماء کا یہ کہنا ہے کہ یہ آیت اس حدیث سے منسوخ ہوگئی ہے:
إِنَّ اللّٰہَ قَدْ أَعْطٰی کُلَّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہُ، فَلاَ وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ۔(الترمذی:۲۱۲۱)۔
جب کہ صحیح بات یہی ہے کہ یہ آیت ، آیت مواریث سے منسوخ ہوئی ہے جیسا کہ اس حدیث کا ابتدائی حصہ بتارہا ہے۔

٭ نسخ قرآن از سنت متواترہ:
ائمہ فقہاء اربعہ میں امام شافعیؒ کے سوا باقی سب نے ایک روایت کے مطابق اس بات کو یہ کہتے ہوئے مان لیا ہے کہ سنت بھی وحی ہے جیسے سورۃ النجم میں ہے:
{وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی ں اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی} (النجم:۳،۴)
یا
{ وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْن َ} (النحل:۴۴)
اور نسخ بھی بیان کی ایک قسم ہے۔امام شافعیؒ اور ایک روایت کے مطابق امام احمد بن حنبل ؒنے اسے یہ کہتے ہوئے ناجائز کہا ہے۔
{ مَا نَنسَخْ مِنْ آیَۃٍ أَوْ نُنسِہَا نَأْتِ بِخَیْْرٍ مِّنْہَا أَوْ مِثْلِہَا}(البقرۃ:۱۰۶)
اور سنت قرآن کے مثل نہ خیر ہے اور نہ اس کی مانند۔ اس کا جواب بھی علماء نے یہ دیا ہے کہ اس خیر سے مراد فضل ہے نہ کہ وجوب اتباع اور احکام پر دلالت ہے۔ ورنہ سنت پر عمل تو اسی طرح واجب ہے جیسے قرآن پر ۔ اس کی مثال اللہ تعالی کا یہ ارشاد ہے:
{الزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ}(النور:۲)
محصن کو کوڑے مارنا تو رجم سے منسوخ ہوگیا جیسا کہ سنت متواترہ سے ثابت ہے یا بقول بعض یہ محصن کے لئے تخصیص ہے نسخ نہیں کیونکہ کوئی اور مثال اس کی ملتی نہیں۔نسخ کی یہ نوع عقلاً جائز ہے خواہ یہ قرآن میں بھی مذکور نہ ہو۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیوخ کرام @خضر حیات @اسحاق سلفی

نسخ قرآن از سنت / حدیث کے بارے میں تفصیلی رائے / حکم مطلوب ہے. جزاکم اللہ خیرا

میرا رب اللہ ہے.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیوخ کرام @خضر حیات @اسحاق سلفی
نسخ قرآن از سنت / حدیث کے بارے میں تفصیلی رائے / حکم مطلوب ہے. جزاکم اللہ خیرا
میرا رب اللہ ہے.
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
قرآن کا سنت سے ، سنت کا قرآن سے دونوں طرح نسخ ہونا جائز ہے ۔ تفصیل آپ اوپر ملاحظہ کرچکے ہیں ۔
دونوں وحی ہیں ، ایک وحی دوسری وحی کو منسوخ کرسکتی ہے ۔ اس اعتبار سے قرآن اور سنت دونوں کو الگ نہیں سمجھنا چاہیے ، اس سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ شاید خالق کی بات کو مخلوق میں سے کوئی منسوخ کر رہا ہے ۔ حالانکہ جب و ما ينطق عن الهوى إن هو إلا وحي يوحى موجود ہے تو پھر الجھنے کی ضرورت ہی کوئی نہیں ۔
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
قرآن کا سنت سے ، سنت کا قرآن سے دونوں طرح نسخ ہونا جائز ہے ۔ تفصیل آپ اوپر ملاحظہ کرچکے ہیں ۔
دونوں وحی ہیں ، ایک وحی دوسری وحی کو منسوخ کرسکتی ہے ۔ اس اعتبار سے قرآن اور سنت دونوں کو الگ نہیں سمجھنا چاہیے ، اس سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ شاید خالق کی بات کو مخلوق میں سے کوئی منسوخ کر رہا ہے ۔ حالانکہ جب و ما ينطق عن الهوى إن هو إلا وحي يوحى موجود ہے تو پھر الجھنے کی ضرورت ہی کوئی نہیں ۔
جزاک اللہ خیر کثیرا

میرا رب اللہ ہے.
 
Top