• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم قراء ا ت

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
باب:10
علم قراء ا ت

لغت میں:
قراء ۃکی جمع قراء ات ہے۔اور یہ قَرَأَ یَقْرَأُ سے مصدر ہے۔مزید مصادر قرآن وقُرء بھی ہیں۔ قُرء ٌعربی میں جمع کرنا اور اکٹھا کرنے کے معنی میں ہے۔ جیسے: قَرَأتُ الْمَاءَ فِی الْحَوْضِ۔ میں نے حوض میں پانی جمع کرلیا۔ قِراء ۃ نام اس لئے رکھا گیا ہے کہ قارِئ ایک حرف کو حرف کے ساتھ جمع کرتا ہے جو کلمہ بن جاتاہے اور کلمہ کلمہ کو اکٹھا کرکے جملہ بنادیتا ہے اور جملہ جملے کے ساتھ وہ پڑھتا ہے۔ اس طرح وہ سب کو جمع کرلیتا ہے۔ قِراء ۃ کا مطلب : پڑھنے کی کیفیت ہے۔

قراء ۃ اور علم القراء ات میں فرق:
قراء ۃ: قراء سبعہ وعشرہ میں جو بھی قرآن کریم کے نطق کے طریقے اور مسلک کا قائل ہوتا ہے اور دوسرے اس کے ساتھ متفق نہیں ہوتے ۔بشرطیکہ اس کی طرف منسوب تمام روایات متفقہ ہوں۔اسے قراء ۃ کہتے ہیں۔یہ اختلاف نطق حروف یا نطق ہیئت میں ہوسکتا ہے۔

اس کے مزید یہ نام بھی ہیں: روایت، طریق اور وجہ۔
روایت:
امام سے لینے والے کی طرف منسوب یہ قراء ۃ ہوتی ہے خواہ وہ اسے کسی واسطہ سے حاصل کرے۔
طریق:
جو راوی سے لینے والے کی طرف منسوب ہو خواہ اس کی سند نازل ہی کیوں نہو۔
وجہ:
جوقاری کے انتخاب کی طرف منسوب وہ قراء ۃ ہو جس پر وہ خود قائم ہو اور اس سے وہ قراء ۃ لی جاتی ہو۔
اصطلاح میں:
وہ علم ہے جو قرآن کے الفاظ کو ادا کرنے کی کیفیت اور اس میں اتفاقی و اختلافی صورت کو بیان کرے اور اس کے راوی کی طرف اسے منسوب کیا جائے۔ القِرا ء َۃُ عِلْمٌ بِکَیْفِیَّۃِ أَدَائِ کَلِمَاتِ الْقُرْآنِ وَاخْتِلاَفِہَا مَعْزُوًّ ا لِنَاقِلِہِ۔ اس تعریف سے دو باتیں سامنے آئیں۔

۱۔ الفاظ قرآن کی کیفیت ادائیگی، خواہ اس کیفیت ادائیگی میں ناقل یعنی قراء حضرات کا اختلاف ہو یا اتفاق۔

۲۔ ائمہ قراء سے اس کی نقل وروایت صحیح ہو جو متصل صحیح سند کے ساتھ رسول اکرم ﷺ سے لی گئی ہو۔

یہی وجہ ہے کہ قراء ۃ میں یہ اہم شرط ہے کہ اسے کتا بوں کی بجا ئے براہ راست اہل علم سے لی جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
موضوع:
علم القراء ت کا موضوع کلمات قرآنیہ ہیں۔ اس علم میں دو باتیں زیر بحث آتی ہے۔ ایک یہ کہ کن کلمات قرآنی کوکس طرح پڑھا گیا اور دوسرا یہ کہ آپ ﷺ نے ازروئے وحی کس فرق کی ا جازت دی۔

اس کا سیکھنا سکھانا فرض کفایہ ہے۔تاکہ قراء ۃقرآن میں نطق کی غلطیوں سے بچاجاسکے اور تحریف وتبدیلی سے بھی قرآن کریم کو بچایاجاسکے۔یہ بھی علم ہو کہ اسے قراء حضرات نے مختلف قراءتوں میں کیسے پڑھا اور روایت کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
آغاز واسباب:
قراء ۃ کا آغاز نزول قرآن کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔رسول اکرم ﷺ کو تعلیم قرآن کی تلقین کی گئی تھی۔ آپ ﷺ نے مکہ میں ہی اس تعلیم کا آغاز دار ارقم سے کردیا تھا۔ کیونکہ آپ ﷺ کو حکم تھا کہ جو کچھ آپ ﷺ پر اترا ہے اسے آگے پہنچائیے۔اور ٹھہر ٹھہر کر لوگوں پر پڑھئے۔جبریل امین آپ ﷺ کو لغت قریش میں جو کچھ سکھاتے آپ ﷺ اسے اپنے اصحاب کو نمازوں ، خطبوں اور مختلف مواقع پر سناتے اورسکھادیتے۔ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ آپ بعض صحابہ کو صبح پانچ آیات پڑھ کر سناتے اور شام کو بھی۔صحابہ رسول نے اس میں مشقت بھی محسوس کی ۔آپ ﷺ کی درخواست پر اس میں تخفیف کی گئی اور سات حروف پر قرآن پڑھنے کی اجازت بھی اللہ تعالی نے مرحمت فرمادی۔اس لئے کبھی صرف ایک حرف بھی سکھادیتے اوردوسرے کو دوسرے حرف میں سکھادیتے۔ پھر ہر صحابی جو آپ سے سیکھتے یا سنتے آپ ﷺ ہی کی تحریک پرقریہ قریہ اور بستی بستی جا کر سکھاتے ۔ بہت کم صحابہ کرام نے آپ ﷺ سے مکمل قرآن پاک سیکھا اوروہ بھی مختلف انداز سے سیکھا۔اس کے چند اسباب تھے:

۱۔ تعلیم کے بعد آپ ﷺ ان صحابہ کومختلف علاقوں میں تعلیم قرآن و احکام دین کے لئے روانہ فرماتے۔

۲۔ کچھ صحابہ عمال مقرر ہوتے جو حکمرانی کے ساتھ قرآن کریم کی تدریس وتعلیم بھی دیتے اور نگرانی کرتے۔

۳۔ رزق حلال کی طلب میں صحابہ رسول ادھر ادھر روانہ ہوتے اور کئی دن کے سفر کے بعد ان کی واپسی ہوتی۔

دیگر بھی کئی اسباب ہوسکتے ہیں جو نبی کریم ﷺ سے قرآن کریم کی تلاوت کو تسلسل سے سیکھنے میں مانع رہے ۔کچھ خوش قسمت صحابہ کرام ؓ پورا قرآن کریم آپ سے سیکھنے اورحاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جن میں اصحاب صفہ کے علاوہ خلفاء اربعہ، ابی بن کعب، عبد اللہ بن مسعود، ابو الدرداء، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم بالخصوص قابل ذکر ہیں۔جب بھی کوئی شخص مدینہ آکر مسلمان ہوتا تو آپ اسے انہی صحابہ کے حوالے کردیتے جو انہیں قرآن یاد بھی کراتے اور پڑھنا بھی سکھاتے۔یہیں سے ایک جماعت صحابہ تیار ہوئی جسے قراء کہا گیا۔اور متعدد صحابہ کرام نے پھر قرآن کریم کو جفظ کرلیا۔

قرآن کا کوئی حصہ نازل ہوتا، نبی اکرم ﷺ اس کی کتابت کے ساتھ ساتھ پڑھنے کا طریقہ بھی بتا دیتے مثلاً: {مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن}کو لکھوا کر لفظ مالک کو دو طریقوں سے مَلِکِ اور مٰلِکِ پڑھنا سکھادیا۔ یوں صحابہ ؓنے نبی اکرم ﷺ سے مختلف قراء ات سیکھیں اور آگے سکھائیں۔ اس تنوع کا سبب خط مصحف بھی ہوسکتا ہے جو خود آپ ﷺ نے تجویز فرمایا اور اسے ایسے ہی لکھنے کا حکم دیا۔نیزکتابت مشکول یا منقوط نہیں ہوتی تھی اس لئے کسی بھی حر ف کی دو صورتیں ہو سکتی تھیں جیسے ’’یا‘‘ اور ’’تاء ‘‘ میں فرق ہونے سے یا فتحہ وضمہ کے فرق سے۔جس میں ایک ہی خط دو معنوں کو بتا رہا ہو۔ اس ضمن میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراء ۃ بطور مثال پیش کی جا سکتی ہے نیز مصاحف قرآن کی کتابت کے بعد جن سات شہروں میں سیدنا عثمانؓ نے وہ نسخے بھیجے ساتھ ہی ان نسخوں کے پڑھانے کے لئے معلم اصحاب کو بھی بھیج دیا۔ اس طرح یہ سلسلہ آگے چلتا رہا اور ہر نئی نسل پہلوں سے قراء ۃ لیتی رہی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
یہی صحابہ ہر مفتوحہ علاقے میں جاکر آباد ہوگئے اوراسی تعلیم وتعلم کا سلسلہ شروع کردیا جو انہوں نے آپ ﷺ سے سیکھا تھا۔ قراء ۃ کے یہ مختلف انداز جب تابعین میں پھیلے تو قراءتیں بھی بکثرت منتشرہو گئیں۔اس طرح ایک نزاعی صورت یہ پیدا ہوگئی کہ ہر شیخ کے شاگرد اپنی قراء ت کو ترجیح دینے لگے۔ اس کی بڑی وجہ بعض صحابہ اور ان کے شاگردوں کی یہ لاعلمی بھی ہوسکتی ہے کہ آپ ﷺپر قرآن کریم سبعہ حروف میں نازل ہو۔ جس کی قراء ۃکی بھی مختلف صورتیں تھیں۔جسے آپ ہرسیکھنے والے کو سکھاتے گئے۔جب کہ ان میں کچھ جبریل امین کے ساتھ ہر سال دورہ قرآن کے دوران منسوخ ہوجاتی تھیں اور جس سال آپ ﷺ فوت ہوئے اس سال تو آپ ﷺ نے دو دفعہ دورہ قرآن فرمایا جس میں جبریل امین نے یہ بھی سکھایا اور بتادیا کہ سبعہ حروف میں کیا باقی ہے اور قراءت میں کیا منسوخ ہوگیا ہے۔(شرح السنۃ از امام بغوی ۳، ۵۷)

ان اسباب کی بنا پر بعض صحابہ کرام کو ایسے نسخ کا علم نہ ہوسکا۔ جب یہ اختلاف عام ہونے لگا تو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اس کا تدارک چاہا۔ اور مشورے سے ایسے مصحف کو لکھنے کا حکم دیا جس میں وہ متواترقراء ۃ اور حروف سما جائیں جو آخری بار جبریل امین کے ساتھ کئے گئے دورہ قرآن سے ثابت ہیں۔باقی ان تمام تحریروں کی قراء ۃ کو ترک کردیا جائے جن میں باوجود نسخ ثابت ہونے کے منسوخ آیات بھی موجود تھیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مصحف عثمانی، قریش کی زبان و حرف میں لکھا گیاتھا اس طرح عام و خاص کی قراء ت اس کے موافق ہو گئی۔ مگر بعض قراء ۃ کچھ صحابہ کرام ؓ کی طرف بعد تک منسوب رہیں اس کی وجہ یہ تھی کہ جس شہر میں بھی کوئی صحابی گئے تو وہاں ان کی قراء ۃ عام ہو گئی۔ جن میں سیدنا ابن مسعود ؓ کی قراء ت کو کافی شہرت حاصل ہو گئی۔ ابن مسعود ؓکوسیدنا فاروق اعظم ؓؓ نے کوفہ بھیجا تھا۔ اس طرح کوفہ میں ابن مسعود ؓ کی قراء ۃ کو یہ مقام ملا کہ اہل کوفہ اس قراء ۃ کے علاوہ کچھ اور جانتے ہی نہ تھے۔ ابو عبد الرحمن السلمی ؓ جو سیدنا عثمان ؓ سے حدیث خَیْرُکُمْ من تعلم۔۔ روایت کرتے ہیں کو ابنؓ مسعو د کی قراء ۃ۔۔ جس میں شذوذ بھی تھا۔۔کا اثر زائل کرنے کے لئے چالیس سال مسجد اعظم میں بیٹھ کر لوگوں کو مصحف عثمانی کے مطابق قراء ۃ پڑھائی تب جا کرلوگوں میں یہ شعور بھی آیا کہ متفقہ صحیح قراء ۃ کون سی ہے ؟ اس طرح لوگ دوسری قراءتوں سے مانوس ہوکر ابن مسعود ؓکی قراء ۃ کو بھول گئے۔

معتزلہ میں کسی نے {وکلم اللہ موسیٰ تکلیماً} میں لفظ جلالت کو منصوب پڑھا۔ اور کسی رافضی نے {وما کنت متخذ المضلین عضداً} میں مضلین کو بفتح اللام پڑھا۔ جس سے وہ حضرات شیخین مراد لیتا۔اس طرح جو اہل بدعت واہل اہواء کی طرف سے شاذ قراء ۃ کے اثرات باقی تھے اور رسم قرآنی میں جن کا احتمال بھی تھاوہ بتدریج زائل ہونا شروع ہوگئے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
علماء نے مصحف عثمانی کو متفقہ مصدر ومرجع قرار دے کر ہراختلاف کو اس کے ذریعے ختم کرنے پر اتفاق کرلیا۔ ہر علاقے میں مسلم قراء بالخصوص تابعین کرام نے قرآن پڑھنے اور پڑھانے کی ذمہ داری سنبھال لی۔چنانچہ مکہ مکرمہ میں مجاہد بن جبر، طاووس بن کیسان، عطاء بن ابی رباح، ابن ابی ملیکہ اور عکرمہ مولی ابن عباس رحمہم اللہ وغیرہ نے ، مدینہ منورہ میں سعید بن المسیب، عروہ بن زبیر، عمر بن عبد العزیز،سلیمان اور عطاء بنا یسار اور ابن شہاب زہری ، زید بن اسلم، سالم بن عبد اللہ اور معاذ بن الحارث القارئ،رحمہم اللہ نے، شام میں خلید بن سعید سیدنا ابو الدرداء کے شاگرد اور مغیرہ بن ابی شہاب مخزومی سیدنا عثمان ؓکے شاگرد، اور عطیہ بن قیس کلابی رحمہم اللہ نے اوربصرہ میں حسن بصری، محمد بن سیرین، قتادہ بن دعامہ سدوسی، ابوالعالیہ ریاحی، نصر بن ی عاصم، یحیی بن یعمر اور جابر بن زید اور ابورجاء عطاردی رحمہم اللہ نے اور کوفہ میں علقمہ بن قیس نخعی، عمرو بن میمون، سعید بن جبیر، مسروق بن الأجدع، اسود بن یزید، عمرو بن شرحبیل، ابوعبد الرحمن السلمی اور حارث بن قیس رحمہم اللہ وغیرہ نے مصحف عثمانی کی طرز پر تعلیم قرآن کو عام کیا ۔ جن سے ایک ایسی جماعت برآمد ہوئی جنہیں تاریخ میں ایک سند کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ انہوں نے اپنے مشایخ کی قراء ات کی روایت اور اس کی تدریس میں خاصی محنت کی اور ان قرا ء ات کو اسانید کے ساتھ روایت کرنے کی طرح ڈالی ۔ یہ حضرات بتدریج طلبہ قرا ء ات کے مرجع ومرکز بن گئے یہی وہ ائمہ عشرہ ہیں جن کی سات اور دس قراء ات مشہور ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
آپ ﷺکی قراء ۃ کیسی تھی؟ آپ ﷺ کی قراء ۃ ترتیل سے ہوا کرتی جس میں ہر حرف نمایا ں اور دوسرے سے جدا ہوتا اور کلمہ بالکل واضح ہوتا۔ ورتل القرآن ترتیلاً۔ اور قرآن کو ترتیل کے ساتھ پڑھئے۔ تاکہ ذہن کلام الٰہی کے مفہوم کو اچھی طرح سمجھ لے اور دوسرے کو متاثر کرکے سمجھا بھی دے۔قراء ۃ کے دوران آواز میں صوتی آہنگ Rythm ہوتا جو کلام الٰہی کے تاثر وتاثیر کو مزید نمایاں کردیتا۔آپ ﷺ کی آواز میں سوز بھی تھا اور ایک منذر والاجوش بھی اور عاجز انسان کی تواضع بھی۔ جہاں اللہ تعالی کی عظمت وبڑائی کی آیات آتیں تو آواز بلند ہوجاتی اور دل پر ہیبت طاری ہوجاتی آواز لڑکھڑا جاتی اور رکوع وسجدے میں آنسو بہاتے اور جہاں اس کی رحمت کا بیان ہوتا وہاں دلی جذبات تشکر سے لبریز ہوجاتے ، آواز میں مزید طلب کا اظہار ہوتا۔ کہیں اس کے غضب یا عذاب کا ذکر آتا تو دلی خوف طاری ہوجاتا۔ آپ مد کی آواز کو کھینچ کھینچ کر لمبا پڑھتے اور بالخصوص نماز میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے وقت ہر آیت پر رکتے۔ جہاں تسبیح کا ذکر آتا آپ ﷺ تسبیح بیان کرتے، جہاں دعا آتی آپ ﷺدعا فرماتے اور جہاں عذاب وسزا کی بات آتی آپ ﷺرب کی جناب میں اس سے پناہ مانگتے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
صحیح قراء ۃ کی شرائط:
علماء نے صحیح قراء ۃ کے لئے تین شرائط لگائی ہیں۔
سند کی صحت:
اس سے مراد یہ ہے کہ جس صحابی سے قراء ۃ لی جارہی ہے انہوں نے وہ خود نبی اکرم ﷺ سے سنی ہو اور آپ کے سامنے اسے پڑھا بھی ہو۔پھر اس صحابی سے تابعی نے اور اس سے تبع تابعی نے سنا ہو۔ اس طرح یہ سند اتصال کے ساتھ آگے بڑھے۔ صرف وہ قراء ۃ لی جائے گی جو متواتر او رمشہور ہو جبکہ غریب اور عزیز قراء ۃ پر اکتفاء نہیں کیا جائے گا۔ ابن الجزریؒ اور سبکیؒ کا کہنایہی ہے کہ قراء ۃ عشرہ متصل سند کے ساتھ ثابت ہیں اور مشہور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان اسانید کے اوائل میں ان صحابہ ؓ کے نام بکثرت آتے ہیں جنہوں نے حلال وحرام، اسباب نزول یا تفسیر آیات کے بارے میں احادیث روایت کی ہیں۔ قراء کی اسانید میں اسی ربط و تسلسل کے زیر اثر علماء نے خیال ظاہر کیا کہ یہ قراء تیں توقیفی یعنی حکم خداوندی کے مطابق ہیں۔

اس کے علاوہ قراء ۃ کے صحیح ہونے کے لئے ضروری ہے کہ قراء ۃ کی سند کے ہر طبقے میں موجود راویوں نے اپنے اساتذہ سے بالمشافہہ ملاقات کر کے قراء ۃ سیکھی ہو اور کی ہو۔ کتب پر اعتماد کر کے قراء ۃ نہیں لی جا سکتی۔ جو قراء ۃ بلاسند اور مبنی برقیاس ہوعلماء نے اس کے پڑھنے اور روایت کرنے کی اجازت نہیں دی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مصحف عثمانی کے مطابق:
قرآن مجید کی جمع و تدوین کے سلسلے میں مصحف عثمانی پر اعتماد کیا گیا۔اسی لئے جب صحیح قراء ۃ کی شرائط مرتب کی گئیں تو یہ بات بھی مدنظر رکھی گئی کہ کی جانے والی قراء ۃ مصحف عثمانی سے مطابقت رکھتی ہو۔ مثلاً:{ملک یوم الدین} مصحف میں اسے بغیر الف کے لکھا گیا ہے۔لہذا جو محذوف ہے اس کے ہونے کا احتمال ہوسکتا ہے اور الف جو مقدر ہے اس کے پڑھنے کا حتمال ہوسکتا ہے۔اس لئے ہر وہ قراء ۃ جو مصحف عثمانی کے خلاف تھی اسے ترک کر دیا گیا۔ امام کسائی ؒ کا کہنا ہے کہ لفظ" صراط "کو سین سے پڑھنا عربی زبان میں عام ہے۔ لیکن اسے صاد سے کیوں پڑھتا ہوں ؟ اس لئے کہ مصحف کی پیروی کرتا ہوں۔ اسی طرح مشہور نحوی عالم زجاج (ملاقوا ربھم) کے بارے میں کہتے ہیں کہ اصل میں (ملاقون ربھم) ہے مگر قرآن میں ایسا لکھنا جائز نہیں کیونکہ یہ مصحف کے رسم الخط کی مخالفت ہو گی۔رسم عثمانی میں اگر ایک لفظ کو مختلف طریقوں سے پڑھنے کی گنجائش موجود تھی تو اسے اس لئے اختیار نہیں کیا گیا کہ آپ ﷺ سے یہ طریقے ثابت نہیں تھے ۔ اس بات سے قراء ۃ کے لئے پہلی اور دوسری شرط کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
عربی زبان کے موافق:
صحیح قراء ۃ کے سلسلے میں لگائی جانے والی تیسری شرط یہ تھی کہ کی جانے والی قراء ۃ عربی زبان کے قواعد او رصرف ونحو کے مطابق ہو اور اس میں غلطی نہ ہو۔امام مکی بن أبی طالب القیسیؒ (م۴۳۷ھ) اپنی کتاب "الإبانۃ:۱۸"میں صحیح قراء ۃ کے ارکان اور شرائط کے بارے میں لکھتے ہیں:
أَنْ یَّنْقُلَ عَنِ الثِّقَاتِ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَیَکُونَ وَجْھُہُ فِي الّعَرَبِیَّۃِ الَّتِيْ نَزَلَ بِھَا الْقُرْآنُ الْکَرِیْمُ شَائِعًا، وَیَکُوْنَ مُوَافِقاً لِخَطِّ الْمُصْحَفِ۔
ثقات کی سند نبی اکرم ﷺ تک متصل ہواور عربی کی وہی صورت ہو جس میں قرآن اترا اور عام ہوا نیز وہ خط مصحف کے موافق ہو۔
 
Top