• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم قراء ا ت

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۷۔ الکسائی(۱۱۹۔۱۸۹ھ): ان کا نام ابو الحسن علی بن حمزہ الاسدی تھا۔ حمزہ الزیات کے بعد کوفہ میں قراء ۃ کا ڈنکا انہی کا بجتا تھا انہوں نے حمزہ، ابن ابی لیلی ، عیسیٰ بن عمر الہمدانی اور دیگر علماء وقراء سے قراء ۃ لی۔اور ان سے عرضاً وسماعاً الدوری، ابوحمدون الطیب بن اسماعیل، ابو عبید القاسم بن سلام ۔۔جو خلیفہ امین کے مؤدب بھی تھے۔۔ نے قراء ۃ سیکھی اور روایت کی۔نحو وعربی زبان اور غریب الفاظ میں اپنے وقت کے امام تھے اور آج بھی کسائی علم نحو کی علامت ہیں۔ الدوری اور اللیث ان کی قراء ۃ کے بلاواسطہ راوی ہیں۔

٭ الدوری: ان کا تذکرہ اوپر گذر چکا ہے۔ مگر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ دوری ابو عمرو کے بھی راوی ہیں اور الکسائی کے بھی۔ جب ان کی روایت امام کسائی سے ہو تو ان کا تذکرہ ان کے نام کے ساتھ دوری الکسائی سے ہوتا ہے۔ ورنہ صرف عن ابی عمرو کہہ دیاجاتا ہے۔

٭ اللیث(۔۲۴۰ھ) ان کا نام ابو الحارث اللیث ؒبن خالد ہے بغداد کے انتہائی ثقہ وحاذق انسان تھے۔ امام کسائیؒ سے ان کو شرف تلمذ حاصل ہے اور قراء ۃ ان کے سامنے پیش کرنے اور ان سے اجازہ لینے کا شرف بھی انہیں حاصل ہے۔ان کے خاص شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں۔مختلف حروف کو انہوں نے حمزہ ؒبن قاسم احول اور الیزیدیؒ سے روایت کیا ہے۔ ان سے قراء ۃ کی روایت کرنے والوں میں بطور خاص سلمہؒ بن عاصم جو امام فراء ؒکے ساتھی تھے اور محمدؒ بن یحیی الکسائی الصغیر اور فضل ؒبن شاذان ہیں۔(غایۃ النہایۃ ۲/۳۴)

نوٹ: ابن ؒمجاہد کی اس کوشش کو غلط سمجھا گیا اوریہ کہا گیا کہ بس قراءتیں ہیں تو یہی ہیں نیز یہی سبعہ حروف ہیں۔حالانکہ ان کی مرادیہ نہ تھی کہ جو بھی ان سات قراءتوں سے نکلا وہ غلط ہوگا اور نہ ہی نبی ﷺ کے اس ارشاد إِنَّمَا أُنزْلِ َالقرآنُ عَلَی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ سے یہی سات قراء ہی مراد ہیں بلکہ یہ سات قراء وہ ہیں جن کی قراءتیں مختلف علاقوں میں مشہور ہوگئیں ورنہ اہل مغرب تو انہیں جانتے ہی نہ تھے اہل عراق کے ہاں یہ جانی بوجھی تھیں۔ابنؒ مجاہد کی مانند دیگر علماء نے بھی سبع قراء ات پر کام کیا اور کتب لکھی۔ جن میں بطور خاص ابومحمد مکی بن ابی القیسی (م: ۴۳۷ھ) کی کتاب التبصرۃ فی القراء ت السبع اور الکشف عن وجوہ القراء ت السبع وعللہا وحججہا۔اور ابو عمرو عثمان بن سعید الدانی (م: ۴۴۴ھ) کی کتاب جامع البیان فی القراء ت السبع ۔ان کی دوسری کتاب التیسیر فی القراء ت السبع ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قراء عشرہ: مندرجہ بالا سات قراء توں کے علاوہ اور بھی کئی صحیح اور متواتر قراء ات موجود تھیں۔ متعدد علماء ۔ علامہ شذائی اور ابوبکر بن مہران وغیرہ۔ نے سات کی بجائے دس قراء تیں جمع کیں اور قراء ات عشرہ کی اصطلاح کو پروان چڑھایا۔ ان دس قراءتوں میں مندرجہ بالا قاریوں کے علاوہ تین اور قراء کی قراءتیں بھی شامل کیں۔

۱۔ ابو جعفر یزید بن القعقاع (م۱۳۰ھ؁)مدنی۔ آپ نے سیدنا ابن عباس، ابو ہریرہ اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہم سے استفادہ کیا تھا۔ان کے راوی ابن وردان اور سلیمان بن حجار ہیں۔

۲۔ یعقوب بن اسحاق الحضرمی (م۲۰۵ھ؁) بصری۔رویس اور عبد المؤمن الدؤلی ان کے شاگرد ہیں۔

۳۔ خلف بن ہشام (م ۲۲۹ھ؁) کوفی۔ آپ نے سلیم بن عیسیٰ الزیات سے استفادہ کیا تھا۔اسحاق الوراق اور ادریس بن عبد الکریم ان کے راوی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مزید قراء تیں: بعض متاخر علماء نے ۔۔۔ جن میں دمیاطیؒ بطور خاص ہیں۔۔۔ان مذکورہ قراء پر چارمزید قراء کی قراءتوں کا اضافہ کیا جن کی قراءتیں بھی خاصی پسندیدہ اور مشہور تھیں ۔یوں یہ کل چودہ قراء تیں بن گئیں۔

۱۔ امام حسن بصری (م ۱۱۰ھ؁) :کبار تابعین سے میں سے تھے اور زہد وورع میں خاصے معروف۔ سن ۱۱۰ھ میں ان کا انتقال ہوا۔

۲۔ محمد بن عبد الرحمن (م۱۲۳ھ؁) : جو ابن محیصن کہلاتے تھے۔یہ ابو عمرو بن العلاء کے شیخ تھے۔ ائمہ سبعہ میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ سن ۱۲۳ھ میں فوت ہوئے۔

۳۔ یحییٰ بن مبارک یزیدی (م ۲۰۲ھ؁) : بغداد کے مشہور نحویوں میں سے تھے۔ انہوں نے قراءت ابوعمرو، اور حمزہ سے حاصل کی ۔ دوری اور سوسی کے استاذ تھے سن ۲۰۲ھ میں ان کا انتقال ہوا۔

۴۔ سلیمان بن مہران الأسدی :جو اعمش کے نام سے مشہور تھے، تابعی ہیں ۔ ۱۴۸ھ میں ان کا انتقال ہوا۔

ان قراء ت کا حکم: علماء اس بارے میں مختلف الخیال ہیں۔

واضح رہے کہ ان ائمہ قراء نے اپنے شیوخ سے قراء ۃ ضبط کرکے اپنی سند کے ساتھ آگے بیان کردیں۔

ایک رائے یہ ہے کہ متواتر قراء ۃ صرف ائمہ سبعہ کی ہیں۔ جبکہ ان کے بعد تین ائمہ قراء ابوجعفر، یعقوب اور خلف کی قر اء ات جودس قراءتوں کا تکملہ ہیں وہ آحاد ہیں ۔ جو باقی ہیں وہ شاذ قراءتیں ہیں۔

دوسری رائے یہ ہے کہ متواتر قراء ۃ دس کی دس ہیں۔صرف سبعہ نہیں۔ ائمہ ثلاثہ کی قراء ۃ ان میں شامل ہیں۔ السبکیؒ کہتے ہیں۔

قرا ء ا ت سبعہ ہی متواترہ ہیں۔۔۔شاذ قراء ت جائز نہیں۔ اور صحیح یہ ہے کہ قراء ت عشرہ کے علاوہ باقی شاذ ہیں۔شارح لکھتے ہیں۔ ان کی مراد ہے کہ درجہ بالا سات قراء کی قرا ء ت متواتر ہیں رہی یعقوب، ابوجعفر اور خلف کی قراء ت تو ان کی قراء ت کرنا جائز ہے۔وجہ یہ لکھتے ہیں کہ ان کی قراء ت بھی صحت سند سے رسم سبعہ کی مخالفت نہیں کرتی۔ ان میں عربیت کی وجوہ بھی مستقیم ہیں۔ نیز مصحف امام کے خط کے موافق بھی ہیں۔

امام ابن الجزری ؒ تواتر کی تعریف کے بعدفرماتے ہیں:

ہمارے زمانے میں یہی تینوں ارکان جس قراء ت میں جمع ہوں وہ ان ائمہ عشرہ کی قراء ات میں مل جاتے ہیں جنہیں علماء نے قبولیت کا شرف بخشا ہے ۔ وہ ابوجعفر، نافع، ابن کثیر، ابوعمرو، یعقوب، ابن عامر، عاصم، حمزہ، الکسائی اور خلف ہیں۔

تیسری رائے یہ ہے کہ جس قراء ۃ میں قبولیت کی تینوں شرطیں ہوں گی اسے قبول کرنا واجب ہوگاخواہ یہ قراء ۃ سبعہ میں سے ہو یا عشرہ میں سے یا ائمہ مقبولین میں کسی سے۔ رہیں وہ قراء ات جو ان کے بعد کے قراء کی ہیں جن میں ابن محیصن، الیزیدی، الحسن اور الاعمش کی ہیں وہ شاذ ہیں۔( ملخص از : دراسات فی علوم القرآن الکریم ۔ از د: فہد بن عبد الرحمن الرومی: ۳۵۱)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
متعدد قراء ا ت کے فوائد:قراء ت کا یہ اختلاف درحقیقت تنوع کا اختلاف ہے نہ کہ تضاد کا۔ یہ ناممکن ہے کہ کلام اللہ میں تضاد ہو۔{أفلا یتدبرون القرآن ، ولو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافا کثیرا} (۴، ۸۲) کیا بھلا یہ قرآن پر غور نہیں کرتے۔ اگر یہ قرآن غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف پاتے۔اس لئے قرا ء ۃ میں تنوع کے یہ فوائد ہیں:

۱۔ اللہ تعالی کی طرف سے امت پر تخفیف، کہ مشکل نہیں ڈالی۔ یہ امت کا شرف ہے ۔ اور رحمت الٰہی کی وسعت نیز اس کا خاص فضل۔

۲۔ اس اختلاف میں بلاغت کی انتہاء، معجزہ کا کمال اور غایت درجے اختصار اور پھر اس میں جمال ہے۔ بدلتا انداز بیان حیران کن ہے۔ کیونکہ ہر قراء ت ایک آیت(نشانی) ہے ۔ زیر وزبر کی بدلتی حرکتیں متنوع الفاظ کو جنم دیتی ہیں اور معنی مستقیم رہتا ہے۔ مثلاً { ونادیہا مِن تحتہا ألا تحزنی} کو ایک قراء ت میں یوں بھی پڑھا گیا{ ونادیہا مَن تحتہا ألا تحزنی}۔ حیران کن ہے اور معنوی اعتبار سے انتہائی مستقیم بھی۔

۳۔ قرآن پاک میں کوئی تحریف یا تبدیلی نہیں ہوئی یہ قراء ۃ اس کی دلیل ہیں۔کیونکہ متنوع اختلاف کے باوجود اس میں تعارض، تضاد اورتناقض نہیں آپایا۔بلکہ یہ تنوع ایک دوسرے کی وضاحت و تصدیق کرتا اور ایک ہی اسلوب کی شہادت دیتا ہے۔

۴۔ ان قر اء ۃ کا حفظ کرنا آسان ہے۔کیونکہ جو ایک ہی کلمہ کی مختلف قراء ۃ کے اس تنوع کو سمجھتا ہے وہ اس کا فہم بھی ذہن میں بآسانی رکھ لیتا ہے ۔نیزمجمل کی وضاحت دوسری قرا ء ۃ سے بھی ہونے کا احتمال ہوتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مشہور کتب: علم ِ قراء ات پر بے شمار کتب لکھی گئیں۔ چند مشہور کتب کا تعارف مختصرا درج ذیل ہے۔

۱۔ التیسیر في القراء ات السبع اس کے مؤلف ابو عمر والدانیؒ (م ۴۴۴ھ؁) ہیں۔

۲۔ حرز الأمانی- یہ کتاب "التیسیر"کا منظوم مجموعہ ہے جواندلسی امام القاسم ؒبن فیرۃ (م۵۹۰ھ) نے لکھا۔

قراء ات عشرہ کے بارے میں بھی بے شمار کتب لکھی گئیں۔ جن میں:

۳۔النشر في القراء ات العشر ہے ۔ جو امام ابو الخیرمحمد بن محمد الجزریؒ کی قابل قدر اور عمدہ علمی کاوش ہے۔اسی طرح چودہ قراء ات کے تعارف میں بھی کتب سامنے آئیں۔ جن میں سب سے زیادہ بہتر کتاب:

۴۔اتحاف فضلاء البشر في القراء ات الأربع عشر ہے۔ جو امام احمدبن محمد الدمیاطیؒ (م۱۱۱۷ھ؁) کی تصنیف ہے۔

٭٭٭٭٭​

قرآن کریم اور اس کے چند مباحث
 
Top