• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم قراء ا ت

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
قراء سبعہ:
امام ذہبی ؒ فرماتے ہیں: صحابہ میں قرآن پڑھانے والے مشہور لوگ سات تھے۔ سیدنا عثمان بن عفان، علی بن ابی طالب،ابی بن کعب، عبد اللہ بن مسعود، زید بن ثابت، ابوموسیٰ اشعری، اور ابو الدرداء عویمر بن زید رضی اللہ عنہم۔یہ وہ محترم صحابہ ہیں جنہوں نے حیات نبوی میں ہی قرآن حفظ بھی کر لیا تھا اور عرضاً آپ ﷺ کو پیش بھی کردیا تھا۔قرا ائمہ عشرہ کی اسانید انہی پر جا ختم ہوتی ہیں۔جن صحابہ نے قرآن کو جمع کیا تھا جیسے معاذ بن جبل، ابو زید، سالم مولی ابی حذیفہ،عبد اللہ بن عمر اور عتبہ بن عامر۔ ان کی قراء ۃ ہم تک متصل نہیں پہنچ پائی اس لئے انہی سات صحابہ کی قراء ۃ محدود ہوگئی۔(معرفۃ القراء الکبار ۱؍۳۹)
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
قراء ات کی انواع:
علماء نے متعدد گنوائی ہیں۔ جن میں متداول یہ ہیں:

متواتر:
جیسے {ملک یوم الدین} الف کی ساتھ ۔ مگر {ملک یوم الدین} بغیر الف کے متواتر نہیں۔

مشہور:
جو درجہ تواتر تک نہ پہنچی ہو۔ جیسے: {ما أشہدنہم خلق السموت ولا خلق أنفسہم وما کنتً متخذ المضلین عضدا}۔ یہ مشہور ہے ورنہ متواتر تو وہی ہے جو مصحف میں پڑھی جاتی ہے۔

آحاد:
جس کی سند صحیح ہو مگر رسم کے یا عربی زبان کے مطابق نہ ہو۔ جیسے: {متکئین علی رفارف خضر وعباقری حسان} کوئی پڑھے۔

شاذ:
جس کی سند صحیح نہ ہو۔ جیسے:{ ننجیک ببدنک} کو نُنَحِّیک روایت کرے۔

موضوع:
جس کی کوئی اصل نہ ہو۔ جیسے: (مَلَکَ یوم الدین ) صیغہ ماضی کے ساتھ کوئی پڑھے۔یہ ناقابل قبول ہے۔

مدرَج:
قراء ۃ میں کوئی تفسیری انداز میں بڑھا دے۔ جیسے: {ولہ أخ أو أخت} میں سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی تفسیر کرتے ہوئے من أم کا اضافہ کیا۔یا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت{لیس علیکم جناح أن تبتغوا فضلاً من ربکم} میں فی مواسم الحج کا اضافہ کیا۔بہر حال یہ تفسیر ہے نہ کہ قراء ۃ۔

… آخری دو کے علاوہ ان قراء ات کا حکم یہی ہے کہ ان میں اگردرجہ بالا تین شرائط پائی جاتی ہیں تو وہ قراء ۃ صحیح ہوگی ورنہ نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
٭… قراء: کے تین مراتب ہیں:

مبتدی:
جس نے ابتداء کی اور تین قراء ات کو وہ سمجھ سکا۔

متوسط:
جو چار یا پانچ قراء ات کو جان سکا۔

منتہی:
جو قراء ات کی اکثر اور مشہور انواع کو جان سکا۔

مقرئ:
جو عالم قراء ات ہو اور جنہیں وہ بالمشافہہ روایت کرے خواہ اس نے شاطبیہ ہی کیوں نہ حفظ کررکھی ہو۔ مثلاً وہ جو اس میں ہو وہ پڑھ لے اگرچہ اس نے بالمشافہہ شیخ سے نہیں لیاکیونکہ قراء ات میں سماع اور مشافہہ کو دیکھ کر حکم لگایا جاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
قراء کرام:
صحابہ کرام میں سات صحابہ قرآن پڑھانے میں مشہور ہوئے۔ امام ذہبی فرماتے ہیں وہ یہ ہیں:

سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ۔ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ۔ ابو الدرداء عویمر بن زید رضی اللہ عنہ۔ان سب نے آپ ﷺ سے قرآن سنا کر (عرضاً) حاصل کیا۔ قراء ائمہ عشرہ کی اسانیدکا دارومدار انہی پر ہی ہے۔دیگر صحابہ نے بھی قرآن کریم کو حاصل کیا مگر ان کی سند ہم تک نہیں پہنچ سکی۔ اس لئے انہی سات صحابہ کرام پر قراء ۃکی سند آکرتھم گئی۔(معرفۃ القراء الکبار ۱؍ ۳۹)

بہت سے تابعین کرام نے ان صحابہ کرام سے قراء ۃ سیکھی۔ جو بیشتر علاقوں میں آباد تھے۔صحیح قراء و کی شروط کے مطابق جب علامہ ابوبکر احمد بن موسیٰ بن عباس ابن مجاہد تمیمی بغدادی(م: ۳۲۴ھ)نے "کتاب السبعۃ"لکھی اور ان قراء حضرات کی قراء ۃ کو سات میں محصور کردیا تو ضبط قراء ۃکے ساتھ نقل میں بھی پختگی آگئی۔ کیونکہ یہ قراء اۃ اس دور کی باقی قراءتوں کے مقابلہ میں عام وخاص کے ہاں متداول،مشہور اور سب سے زیادہ مستند اور صحیح تھیں۔جس کا بہت زبردست اثر ہوا اور پھر یکے بعد دیگرے اس موضوع پر کتابیں آنا شروع ہوگئیں۔یہ سبعہ قراء درج ذیل ہیں:میں قراء ۃ کے بہت ماہر علماء بے شمار شہروں میں گزرے ہیں مگر سات قراء کو بالخصوص بہت شہرت ملی ۔ جس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۱۔ عبد اللہ بن عامریحصبی دمشقی (۲۱۔۱۱۸ھ) ، جلیل القدر تابعی جو ابن عامر کے نام سے شام کے مشہور قاری تھے۔ولید بن عبد الملک کے عہد میں دمشق کے قاضی رہے۔ان کی کنیت ابونعیم تھی۔تابعی تھے نعمان بن بشیر اور واثلہ بن اسقع ؓ سے ان کی ملاقات ہوئی۔ امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفانؓ کی خدمت میں بھی انہوں نے اپنا قرآن پڑھا۔ہشام بن عبد الملک کے عہد میں ان کی وفات ہوئی۔ان کی سند ہشام سے یوں چلی ۔ حدثنا الولید بن مسلم، حدثنا یحیی بن الحارث الذماری، عن عبداللہ بن عامر أنہ قرأ علی عثمان بن عفان۔ امام دانیؒ فرماتے ہیں: انہوں نے سیدنا ابو الدرداء ؓ اور مغیرہ بن ابی شہاب سے عرضاً قراء ۃ حاصل کی ۔اہل شام میں ان کی قراء ۃ پانچ سو سال تک تلاوت، نماز اور تلقین میں غالب رہی۔ان سے دو راوی ابن عمار اور ابن ذکوان بالواسطہ روایت کرتے ہیں۔(معرفۃ القراء الکبار ۱/۸۲، غایۃ النہایۃ ۱/۴۲۳)

٭ ابو الولیدہشامبن عمار سلمی(۱۵۳۔۲۴۵ھ) جو دمشق کے امام خطیب، محدث، مقرئ اور مفتی رہے۔انہوں نے عرضاً بہت سے قراء سے سنا۔ فصیح اللسان تھے ، ان کی روایت بہت پھیلی۔ طویل عمر کے باجود ان کا حافظہ آخر عمرتک صحیح رہا۔ ابو الولید کی سند ابن عامر تک یہ ہے: ابو علی ایوب بن تمیم،اور سوید بن عبد العزیز،دونوں ابوعمرو یحیی بن الحارث الذماری سے اور وہ ابن عامر سے۔ ابوالولیدخود، ابوعبید القاسم بن سلام ، حلوانی، ہارون اخفش کے شاگرد تھے ۔ سندقراء ت لینے کے لئے ان کے پاس بہت دور دور سے لوگ آتے۔((معرفۃ القراء الکبار ۱/۱۹۵، غایۃ النہایۃ ۱/۳۵۴)

٭ ابن ذکوان کا نام ابوعمرو عبد اللہ بن احمد بن بشر بن ذکوان القرشی الدمشقی (۱۷۳۔۲۴۲ھ)ہے۔ امام ، استاذ اور ثقہ راوی ہونے کے علاوہ بلاد شام میں انہیں مشیخت حاصل تھی۔ جامع مسجد دمشق کے امام بھی رہے جبکہ وہاں خطیب ابن عمار تھے۔ ابن عمار کے شاگرد تھے مگر ان سے بڑھ کر مقرئ تھے ۔علم میں ہشام ان سے کہیں آگے تھے۔(معرفۃ القراء الکبار ۱/۱۹۸، غایۃ النہایۃ ۱/۴۰۴)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۲۔ عبد اللہ بن کثیر الداری (۴۵۔۱۲۰ھ) مکی۔قارئ مکہ تھے۔عرضاً عبد اللہ بن السائب سے قراء ۃ لی۔اور ابی بن کعب وسیدنا عمر بن خطاب کو بھی اپنی قراء ۃسنائی۔ عبد اللہ بن السائب، مجاہد اور درباس سے علم قراء ۃ سیکھا۔ان سے متعدد تلامذہ نے قراء ۃ سیکھی اور روایت کی جن میں ان کے اپنے صاحب زادے صدقہ اور اسماعیل بن عبد اللہ القسط، خلیل بن احمد، حماد بن سلمہ اور شبل بن عباد خاصے معروف شاگرد ہیں۔بڑے فصیح وبلیغ انسان تھے سفید ریش تھے، جسم لانبا تھا گندمی رنگ اور آنکھ سیاہ مگر مائل بسرخ تھی۔ ابو معبد ان کی کنیت تھی۔ان کی قراء ۃ کو بالواسطہ قنبل اور البزی روایت کرتے ہیں۔(معرفۃ القراء الکبار ۱/۸۶، غایۃ النہایۃ ۱/۴۴۳)

٭ البزی(۱۷۰۔۲۵۰ھ): کا نام احمد بن محمد بن عبد اللہ۔۔بن ابی بزہ تھا۔مکہ کے مقرئ اور مسجد حرام کے مؤذن وامام تھے۔ایک محقق، ضابط اور متقن مقرئ تھے۔(معرفۃ القراء الکبار ۱/۱۷۳، غایۃ النہایۃ ۱/۱۱۹)

٭ قنبل:(۱۹۵۔۲۹۱ھ) ان کا نام ابو عمرمحمد بن عبد الرحمن مخزومی اور قنبل لقب سے معروف تھے۔اعلام قراء میں سے تھے۔ اتقان میں لاثانی تھے۔ حجاز میں قراء ت کی تدریس انہی پر منتہی تھی۔اطراف سے لوگ ان کے پاس پڑھنے کو آئے۔مکی ایڈمنسٹریشن میں ان کی ملازمت تھی۔علم وفضل کے مالک کے آگے سرنگوں ہوجاتے۔ ان کے شاگردوں میں ابوربیعہ، ابن مجاہد اورابن شنبوذ شامل ہیں۔( غایۃ النہایہ ۱/۲۵۴، لطائف الاشارات ۱/۱۰۱)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۳۔ عاصم(۔۔۱۲۷ھ) : ان کا نام ابوبکر عاصم بن بہدلہ بن ابی النجود تھا، کہا جاتا ہے کہ بہدلہ ان کی والدہ اور ابوالنجود ان کے والد تھے۔تابعی اور اسدی تھے۔ فصاحت، اتقان، تحریر اور تجوید کے ماہر تھے۔ان کی قراء ۃ بہت ہی خوبصورت تھی۔ کوفہ میں ابو عبد الرحمن السلمی کے بعد مسند تدریس انہی کی تھی۔عاصم نے عرضاً زر بن حبیش عن عبد اللہ بن مسعود، ابو عبد الرحمن السلمی اور ابوعمرو الشیبانی سے روایت کی ہے۔ ان کی قراء ۃ کی روایت بلاواسطہ ابو بکر بن عیاش اور حفص بن سلیمان نے کی ہے۔(معرفۃ القراء الکبار ۱/۸۸، تہذیب التہذیب ۵/۳۸)

٭ ابو بکر: یہ شعبہ بن عیاش بن سالم ابوبکر الحناط کوفی ہیں جو سن ۹۵ھ میں پیدا ہوئے ۔ امام عاصمؒ کو انہوں نے تین بار قرآن پاک سنایا۔عطاء بن السائب کے بھی شاگرد تھے۔ باعمل اور فقیہ تھے۔ ان کے بے شمار اساتذہ ہیں۔شاگردوں کی تعداد بھی خاصی زیادہ ہے جن میں یعقوب بن خلیفہ الاعشی، یحیی العلیمی وغیرہ خاصے معروف ہیں۔ سن۱۹۳ھ میں فوت ہوئے۔(معرفۃ القراء الکبار ۱/۱۳۴، غایۃ النہایہ ۱/۳۲۵)

٭ حفص(۹۰۔۱۸۰ھ): آپ کا نام ابوعمر حفص بن سلیمان الاسدی کوفی ہے بزاز بھی تھے حفیص کے نام سے زیادہ معروف تھے۔ امام عاصمؒ سے قراء ۃ کو عرضاً اور بالمشافہہ حاصل کیا۔ان کی بیوی کا بیٹا ان کا ربیب تھا۔بغداد قیام پذیر ہوگئے وہاں مدتوں پڑھایا بھی۔ مکہ میں بھی مجاورت کی اور وہاں بھی قراء ۃ پڑھائی۔ قراءت عاصم کے سب سے بڑے عالم تھے۔اور بقول امام یحییؒ بن معین سب سے زیادہ صحیح روایت عاصمؒ سے حفص ؒبن سلیمان ہی کی ہے۔حروف کے ضابط بھی تھے۔ ان کے شاگردوں میں عمرو بن صباح، عبید بن صباح اور حسین جعفی تھے۔حفصؒ کی روایت عالم اسلامی میں پھیلی ہوئی ہے اور اکثر وبیشتر مصاحف حفص عن عاصم کی روایت سے شائع شدہ ہیں۔(معرفۃ القراء الکبار ۱/۱۴۰، غایۃ النہایہ ۱/۲۵۴)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۴۔ ابو عمر و زُباَّن بن العلاء تمیمی، المازنی(۶۸۔۱۵۴ھ) بصرہ کے مشہور قارئ تھے۔قراء سبعہ میں ان کا شمار ہوتا ہے۔حجاج کے خوف سے جب ان کے والد بھاگے تو یہ بھی ان کے ہمراہ حجاز آگئے۔ مکہ ومدینہ میں انہوں نے علم حاصل کیا۔ حسن بصری ، عاصم، ابن کثیر، حمید بن قیس الاعرج اور ابو العالیہ الریاحی وغیرہ سے انہیں شرف تلمذ حاصل ہے۔قراء میں سب سے زیادہ شیوخ انہی کے ہیں۔عرضاً اور سماعاً ان سے بہت لوگوں نے قراء ۃ روایت کی ۔قرآن کریم کے عالم اور عربی زبان کے ماہر تھے۔ صادق، ثقہ اور زاہد تھے۔ کوفہ میں ان کا انتقال ہوا۔ انہوں نے مجاہد بن جبیرؓ اور سعید بن جبیر ؓکے واسطوں سے سیدنا ابن عباسؓ اور ابی بن کعب ؓسے روایت کی ہے۔تلامذہ میں حسین الجعفی، اصمعی اور سیبویہ جیسے نابغہ لوگ ہیں۔ ان کی قراء ۃ کی روایت بالواسطہ الدوری اور السوسی نے کی ہیں۔( معرفۃ القراء الکبار ۱/۱۰۰، غایۃ النہایۃ ۱/۲۸۸)

٭ الدوری(۲۴۶ھ): ان کا نام ابوعمر حفص بن عمر بن عبد العزیز الدوری تھا۔ دور بغداد کا ایک محلہ ہے۔ نابینا تھے ، سامراء آکروہیں پلے بڑھے۔علم قراء ۃ کی طلب میں بڑی مسافرت کی۔ قراء ۃ میں ثقہ و ضابط اور امام تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے دوری نے قراء ۃ کو جمع کیا ہے مگر اس کا علم نہیں کہ کیا انہوں نے اسے یاد کیا تھا یا کتب میں جمع کیا تھا۔اسماعیل بن جعفر سے قراء ۃ لی جن کی سند امام نافع سے تھی۔ اسی طرح ابوبکرسے جو عن عاصم کی سندرکھتے اورسلیم جو حمزہ بن القاسم کے ساتھی تھے ان سے عن اصحابہ کی سند قراء ۃ لی۔ اسی طرح کسائی اور یحیی الیزیدی سے بھی تلمذ حاصل ہے۔طویل العمر ہونے کی وجہ سے ان کا حلقہ تلمذ خاصا وسیع تھا اور سند عالی لینے کے لئے ان کی مجلس میں خوب اژدحام ہوتا۔(معرفۃ القراء الکبار ۱/۱۹۱، غایۃ النہایۃ ۱/۲۵۵)

٭ السوسی(۱۷۳۔۲۶۱ھ)، ان کا نام ابوشعیب صالح بن زیاد الرقی تھا۔ بہت بڑے مقرئ تھے۔ اہواز کے ایک مقام سوس کے طرف ان کی نسبت ہے۔یحیی بن مبارک الیزیدی سے علم قراء ۃ حاصل کرنے کے بعد ان کے قابل فخر شاگرد کہلائے۔ خود انتہائی ضابط، ثقہ قارئ تھے۔ان کے شاگردوں میں ان کا بیٹا محمد، امام نسائی اور دیگر لوگ شامل ہیں۔سوسی کی روایت ہی دراصل اہل رقہ کی روایت کہلاتی ہے یہ سب الیزیدی عن ابی عمرو سے روایت کرتے ہیں۔( غایۃ النہایۃ ۱/۳۳۲، لطائف الاشارات۱/۱۰۱)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۵۔ حمزہ(۸۰۔۱۵۶ھ) : ان کا نام ابو عمارہ حمزہ بن حبیب الزیات ہے۔سلیمان اعمش، یحی بن وثاب، زر بن حبیش اور حمرانؒ بن اعین، سیدنا عثمان، وعلی، وعبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کے شاگرد ہیں۔ان سے ابراہیم بن ادہم، سفیان ثوری اور کسائی وغیرہ نے روایت کی ہے۔عاصمؒ اور اعمشؒ کے بعد قراء ۃ کی امامت کا سہرا انہی کے سر ہے۔بہت بڑے امام قراء ۃ، حجت ، ثقہ ، عابد وزاہد اور خشوع کرنے والے انسان تھے۔عبد اللہ بن ابی اوفی اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما کو انہوں نے دیکھا اور پایا۔ خلف اور خلاد ، ان کے بالواسطہ راوی ہیں۔(معرفۃ القراء الکبار ۱/۱۱، غایۃ النہا یۃ۱/۲۶۱)

٭ خلف(۱۵۰۔۲۲۰ھ): ان کا نام ابومحمد خلف بن ہشام البزار ہے ۔ بغدادی ہیں۔دس سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کیا۔ ایک ثقہ، زاہد انسان تھے۔انہوں نے قراء ت کو عرضاً سلیم عن حمزہ لی ۔اپنی قراء ۃ بھی کی جس میں وہ ایک سو بیس حروف میں اپنے شیخ حمزہ سے منفرد ہیں۔(معرفۃ القراء الکبار ۱/۲۰۸، غایۃ النہایۃ ۱/۲۷۲)

٭ خلاد: ابو عیسیٰ خلاد بن خالد الشیبانی کوفہ میں سن ۲۲۰ھ میں فوت ہوئے۔ قراء ۃ میں امامت کا درجہ انہیں بھی حاصل تھا۔ انتہائی ثقہ، قراء ۃ کی صحیح معرفت رکھنے والے، محقق استاذ تھے اور ضبط اور جلالت سے موصوف کئے جاتے۔( معرفۃ القراء الکبار۱/۲۱۰، غایۃ النہایۃ ۱/۲۷۴)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۶۔ نافع(۷۰۔۱۶۹ھ): ان کا نام ابورویم نافع بن عبد الرحمن بن ابی نعیم تھا۔اصفہان سے ان کا تعلق تھا مگر مدینہ میں پرورش پائی اور اسی کی طرف منسوب ہوئے۔قراء ۃ کو ابن ہرمز، ابو جعفر بن قعقاع، شیبۃ بن نصاح اور امام زہری وغیرہ سے عرضاً سیکھا۔کہا کرتے کہ میں نے ستر تابعین سے پڑھا ۔ان کے شاگردوں میں ابن وردان، ابن جماز، مالک بن انس، اصمعی اور ابوعمرو بن العلاء جیسے ائمہ ہیں۔ان سے عرضاً اور سماعاً قراء ۃ کو روایت کرنے والوں میں اسماعیل بن جعفر، مالک بن انس، یعقوب بن جعفر اور عیسیٰ بن مینا قالون اور ابوعمرو بن العلاء جیسے ائمہ وقت شامل ہیں۔قراء ۃ کی مختلف صورتوں کے زبردست عالم تھے اور مدینہ کے علماء ائمہ سے مروی قراء ۃ کی مختلف وجوہ سے بھی آشنا۔قالون کہا کرتے: اخلاق کے اعتبار سے نافع انتہائی پاکیزہ انسان تھے۔ زاہد وسخی انسان ۔ مدینہ میں تقریباً ستر سال تک مسند تدریس پر رہے۔اور مسجد نبوی کے امام بھی رہے۔ان سے دو معروف راوی قالون اور ورش بلاواسطہ روایت کرتے ہیں۔

٭ قالون(۱۲۰۔۲۲۰ھ): ان کا پورا نام ابوموسیٰ عیسیٰ بن مینا بن وردان ہے بنو زہرہ کے مولی تھے۔ مدینہ کے قاری اور نحوی۔ کہا جاتا ہے کہ امام نافعؒ کے ربیب تھے۔انہی کے ساتھ بہت حد تک صحبت خاص رہی۔ انہوں نے ہی ان کا نام قالون رکھا جو رومی زبان میں خوبصورت قراء ۃ والے کو کہتے ہیں۔اس لئے کہ اصلاً قالون رومی تھے۔بہرے تھے بگل کو نہیں سن سکتے تھے مگر جب کوئی قاری ان پر قرآن پڑھتا تو نہ صرف سمجھتے تھے بلکہ اگر وہ غلطی کرتا تو اس کی تصحیح بھی فرمادیتے۔(معرفۃ القراء الکبار ۱/ ۱۵۵)

٭ وَرْش(۱۱۰۔۱۹۷ھ): ان کا نام ابوسعید عثمان بن سعید المصری تھا اور لقب ورش۔ امام نافع نے ان کا نام ان کے گورے پن کی وجہ سے رکھا ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حسن قراء ۃ کی وجہ سے ان کایہ نام پڑا۔مصر میں پیدا ہوئے اور طلب علم کے لئے مدینہ امام نافعؒ کے پاس تشریف لائے۔ پورے قرآن مجید کی تلاوت انہیں کئی بار سنائی۔ محقق قراء کے شیخ کہلاتے ہیں۔تلاوت میں بعض منتخبات ان کے کچھ ایسے ہیں جن میں اپنے شیخ سے انہوں نے اختلاف کیا ہے۔ مصر میں قراء ۃ کی استاذیت انہی پر منتہی تھی۔عربی زبان کے بھی ماہر تھے۔(معرفۃ القراء الکبار ۱/۱۵۲، غایۃ النہایۃ ۱/۵۰۲)
 
Top