(۱) موجودہ صلیبی رافضی اتحاد
اس اتحاد کی حقیقت مسلمانوں پر اس وقت آشکار ہوئی جب صلیبیوں نے یہودیوں کے تعاون کے ساتھ اپنے مکروہ منصوبوں کو نافذ کرنے کا آغاز کیا اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے دین کے خاتمہ (لاقدر اللہ) کو اپنا ہدف بنایا۔اس اتحاد کی قبیح شکل دو اہم ترین محاذوں پر سامنے آئی اور وہ ذیل ہیں...
٭ جہادِ افغانستان...شیعہ کا مکروہ چہرا اس وقت ظاہر ہوا جب پوری دنیا میں شیعہ کی سر پرستی کرنے والے مجوسی ملک ایران نے افغانسان کے خلاف صلیبی جنگ میں بدترین کردار ادا کیا اور صلیبیوں کو ہر طرح کا عسکری ولاجسٹک تعاون فراہم کیا۔اس کے ساتھ ہی ایران نے صہیونی امریکی افواج کے لیے افغانستان کے ساتھ متصل اپنا بارڈر کھولتے ہوئے انہیں راہداری بھی فراہم کردی۔اس کے بعد اس نے اپنی افواج کو لڑنے کے لیے اپنے زیرِ اثر شیعہ علاقوں میں شیعہ حزبِ وحدت اور ہزارہ قبائل کی طرف بھیجا اور اس کے ساتھ بدبودار شمالی اتحاد کی بھی بھر پور مدد کی تاکہ سنی حکومت کو گرایا جاسکے جو کہ طالبان کی شکل میں متمکن تھی۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ شیعہ جو افغانستان کے صوبہ بامیان میں ایک اقلیت کے نمائندہ ہیں انہوں نے روس دور میں افغان جہاد کے دوران بھی اپنے باپ ابن اُبیَ سلول کی سنت پر عمل جاری رکھا۔ان کا کام اس وقت بھی مجاہدین کے راستے کاٹنا، ان کی جاسوسی کرنا اور روسی مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔پھر جب امریکی دشمن یہاں نمودار ہوا تو انہوں نے وہی کردار پھر دہرایا تاکہ وہ افغانستان کے اہل السنۃ کے خلاف اپنے حقد و کینہ کا اظہار کرسکے۔لہذا جنگ کے شروع ہوتے ہی ایران نے افغانستان کے ساتھ متصل علاقہ ہرات میں اپنا ایک بیس کیمپ بنایا تاکہ طالبان کی مخالف قوتوں کی مدد کی جاسکے اور ساتھ ساتھ صلیبیوں کو مدد بہم پہنچائی جاسکے۔پھر جب مرتدین کی حکومت قائم ہوئی تو ایران نے سب سے پہلے وہاں اپنا سفارت خانہ قائم کیا تاکہ وہ جاسوسی اور صلیبیوں کے ساتھ منصوبہ بندی کو مزید آگے بڑھا سکے۔ایران کے رافضیوں کی ذلالت کوظاہر کرنے کے لیے ان کے ایک مسئول کا یہی بیان کافی ہے ''اگر ایران نہ ہوتا تو افغانستان کا سقوط نہ ہوتا''!!!
٭ جہادِ بلاد الرافدین (عراق)...ہم میں سے کون جانتا ہے اس نجس کردار کو جو عراق کے سقوط میں اور صلیبیوں کے قبضہ میں شیعہ نے اور ان کے مجوسی ایرانی شیعہ بھائیوں نے ادا کیا ہے۔ ایرانی شیعہ تو صدیوں سے عراق پر قبضے کے خواب دیکھ رہے تھے تاکہ وہ وہاں صفویوں اور بویہیوں کی حکومت دوبارہ قائم کرسکیں۔شیعہ کو کسی دین سے کوئی سروکار نہیں اسی لیے انہوں نے عراق میں سب سے پہلے ایرانی مدد کے تحت صلیبیوں کے ساتھ دستِ تعاون دراز کیا۔ اس وقت عراق میں ایران کے زیرِ اثر چلنے والی چند خبیث شیعہ جماعتیں موجود تھیں جن میں سرِ فہرست تھی ''المجلس الاعلیٰ للثورة الاسلامیة'' جس کا سربراہ محمد باقر الحکیم تھا۔ اس کے ساتھ شیعہ وفود صبح شام اپنے قبلہ امریکہ کا رخ کرتے اور ظاہراً بہتاناً وکذباً ''شیطانِ اکبر (امریکہ)کے خلاف جنگ''کا جھنڈا اٹھائے ہوئے جاتے تاکہ وہ اپنے قدیم دینی (صلیبی )بھائیوں کے تعاون و اشتراک سے عراق پر قبضے کا خواب پورا کرسکیں۔جبکہ صلیبیوں اور رافضیوں کے اہداف جلی طور پر سامنے آگئے ...
صلیبیوں کو ذیل کے اہداف کے علاوہ کسی چیز سے کوئی سروکار نہیں!!!
٭ عراق کو آئندہ جنگوں کے لیے اپنا بیس کیمپ بنانا اور باقی عالمِ اسلام کے خلاف اپنے مکروہ عزائم کو پورا کرنا یعنی (اللہ انہیں رسوا کرے) اسلام کا خاتمہ!
٭ ان کا دوسرا ہدف عراق سے ابتدا کرتے ہوئے مسلمانوں کے ثروات و وسائل پر قبضہ جمانا ہے۔اس لیے کہ وہ اپنی اقتصادی مشکلات کو حل کرسکیں اور اہلِ اسلام کے خلاف خون ریزی و قتل و غارتگری کا بازار گرم کرسکیں اور اس لیے بھی کہ یہ کام بہت سارے اموال کا محتاج ہے!
٭ اسرائیل کی حکومتِ کبریٰ کا قیام نیل کے ساحل سے فرات تک۔
٭ مسیح دجال کے لانے میں جلدی جس پر یہ تینوں گروہ یہودی، صلیبی اور رافضی متفق ہیں!
جہاں تک شیعہ کا تعلق ہے تو انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ عراق پر یہودی حکومت کرے یا صلیبی کیونکہ ان کا دین ان لوگوں کے مجمل دین کے ساتھ کسی صورت متعارض نہیں ہے۔ ان کا اہم ترین ہدف صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے عراق کے اہم ترین کلیدی عہدوں پر قبضہ کرنا تاکہ رافضی یہودی فکر کو پھیلانے اور اہل السنۃ کا خاتمہ کرنے کے لیے انہیں استعمال کیا جاسکے۔اسی لیے وہ صلیبیوں اور یہودیوں کے لیے راہ خالی کردیتے ہیں تاکہ وہ عسکری اور اقتصادی میدان کو سنبھال لیں اور یہ آرام سے اپنے مکروہ ایجنڈے کو پورا کرسکیں۔یو ں لگتا ہے کہ اس منصوبہ کی تنفیذ کا آغاز ہوچکا ہے ۔جب سے حجازِ مقدس(سعودیۃ) کے مشرقی علاقوں میں شیعہ کو فورسز میں بھرتی کیا گیا تاکہ وہ مستقبل میں اس مقدس سرزمین کی عراق کی طرح تقسیم میں اہم کردار ادا کرسکیں۔پھر اس کے بعد یہ شیعی ایرانی طوق عراق و سعودیۃ سے ہوتا ہوا باقی خلیجی ممالک لبنان، اردن اور شام کے علاقوں کو بھی پہنادیا جائے اور اس کے ساتھ یہودیوں کو نیل کے ساحل سے لیکر فرات تک ان کے تعاون سے عراق کی طرح حکومت مل جائے۔
سیاسی و عسکری منصوبے...عراق میں رافضی صلیبی منصوبہ ساز اب بالفعل خبیث شیعہ تنظیموں کے ساتھ تعاون کررہے ہیں جیسے کہ''المجلس الاعلیٰ للثورة الاسلامیة ''جس کی قیادت محمد باقر حکیم کرتا تھا اور اب اس کا بھائی عبد العزیز کرتا ہے اور ''فِیْلَقُ البدر'' اس مجلس کا عسکری شعبہ شمار کیا جاتا ہے۔ یہ تمام ایسی افواج ہیں جن کی تنظیم سازی اور عسکری ٹریننگ سب ایران میں ہوئی ہے۔ آج یہی افواج صلیبیوں کے ساتھ مل کر عراق میں پر امن سنی گھروں پر دھاوے بول رہے ہیں اور پھر جو بھی ان کے قبضہ کی مزاحمت کرتا ہے وہ مرد ہو یا عورت پابندِ سلاسل کردیا جاتا ہے اور اسے زنداں میں پھینک دیا جاتا ہے۔آج ان کے پاس مخالفین کے لیے ایک ہی تہمت ہے وہ اہل السنۃ کے کسی بھی آدمی پر ''سلفی''یا ''وہابی'' ہونے کا الزام لگا کر اسے دھر لیتے ہیں۔پس وہ کسی بھی سنی کو نہیں چھوڑتے جو محض مسجد میں نماز پڑھنے ہی جاتا ہو یا اس کا امام مسجد کے ساتھ کوئی تعلق ہو۔
یہ بات بالکل ڈھکی چھپی نہیں کہ یہ کردارِ بد ادا کرنے والے صلیبیوں کے معاون پولیس کے لوگ، فیلق ''بدر'' کے لوگ ، بعض کرد ''البیشمرکة'' اور وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنا دین دنیا کے تھوڑے فائدے کے عوض بیچ دیا ہے۔یہ منصوبے اس قدر خطرناک ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صلیبی جس علاقے کو چھوڑتے ہیں وہ ''فیلق بدر '' اور ان کے معاون پولیس وشہری دفاع کے لوگوں کے حوالے کردیا جاتا ہے۔پھر فیلق بدر کے یہ لوگ ، فلسطین میں الدروز شیعہ کی طرح لوگوں کے گھروں پر دھاوے بولتے ہیں جسطرح انہیں ان کے آقا یہودی املا کرواتے ہیں۔ان افعال میں وہ ایسے سفاکانہ جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں کہ یہودیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔پس اسطرح باطنی فرقوں کے ان گروہوں کے افراد اس بدکرداری کو کر گذرنے کے لیے پوری طرح تیار کیے گئے ہیں۔کیونکہ ان کا عقیدہ وتاریخ اور دین ایک ہے اور تاریخ ان کی حرکات کی گواہ ہے جو انہوں نے مسلمانوں کے خلاف رقم کی ہے!یہاں ہم رافضی خبیثوں کی طرف سے صادر ہونے والے دواعلانات کو نقل کرتے ہیں جن سے قاری ان کے حقد وکنیہ اور اہل السنۃ کے لیے ان خبیث رافضیوں کی کراہت کا بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے...