• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غداری وخیانت کا ِفرقہ ،کفر ونفاق کا مجموعہ الشِّیْعَۃیہودیوں کا ایجنٹ کافر گروہ ھل اتاک حدیث الرافضة

شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
خامساً...
رافضیوں کے جرائم اور ان کی خیانتیں تاریخ کے صفحات پر پھیلی ہیں اور انہوں نے ان تمام خیانتوں کا ارتکاب بطور ِ دینی اعتقاد کے کیا ہے۔

لیکن ہم نے ان تمام کا مطالعہ ہر ایک خیانت کی حیثیت کے ساتھ کیا ہے۔ پس بعض جرائم محض دینی ہیں جو کہ عبادات اور شعائر سے متعلق ہیں جن کا مقصد دین کی عمارت کو گرانا اور اس کے اندر تحریف کرنا ہے۔ بعض جرائم سیاسی ہیں جن کا ارتکاب غداری اور داخلی قتل غارت گری کے ذریعے کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بیرونی طاقتوں کی مدد لی گئی ہے تاکہ اسلامی حکومت کی عمارت کو گرایا جائے۔

کچھ جرائم اجتماعی و اخلاقی ہیں تاکہ مسلمان خاندانی نظام کو تباہ کرنے کے لیے رذائل و فحاشیاں ان کے اندر پھیلائی جائیں اور''متعہ''کے نام پر دین کی بنیادوں میں دڑاریں ڈالی جائیں۔ پس ہم نے ان تمام کو اس کے مناسب مقام پر ذکر کیا ہے اور یہ تمام ایسے ہیں کہ انہیں دینی جرائم کی حدود سے باہر نہیں نکالا جاسکتا۔ اس تفصیل کے بعد ہم کہتے ہیں...!!
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
شیعہ کی تاریخی غداریاں اور خیانتیں
تاریخ نے ہمارے لیے عہدِ خلافت راشدہ سے لے کر اموی، عباسی ، عثمانی اور موجودہ ادوار میں گذرتے ہوئے ایسے نظائر بیان کیے ہیں جو اس قوم کی صریح خیانتوں ، غداریوں اور جرائم کا پتہ دیتے ہیں۔ اگر ہم ان تمام قباحتوں کا احاطہ کرنے لگ جائیں تو ہمیں کئی دروس اور لیکچر اور کئی مراحل درکار ہوں گے تاکہ ہم اسے احاطے میں لا سکیں۔

اس لیے یہاں ہمیں یہی کافی ہے کہ ہم ان کی واضح خیانتیں اور جرائم تاریخ کے صفحات سے سامنے لائیں اور ان کی ماضی میں کی گئی خیانتوں اور غداریوں کا موجودہ جرائم کے ساتھ ربط و تعلق بیان کریں تاکہ ہمارے ذہنوں میں صورت واضح ہو جائے جو محض ماضی کے قصے نہ ہوں کہ جن کا حاضر کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہ ہو۔

خلافت راشد رضی اللہ عنہم کا عہد
ان کی سب سے پہلی خیانت اور سب سے پہلا جرم خلیفہ عادل وراشد کے دور میں واقع ہوئی کہ جن کے ذریعے نبیﷺ کی دعا کی برکت سے اللہ عزوجل نے اسلام کو عزت بخشی، یعنی خلیفۃ العدل امیر المومنین عمر ؓبن الخطاب۔ یہ خیانت اساسی طور پر بھی اپناخاص اثر لیے ہوئے تھی کیونکہ اسکے بغیر رافضیت کا منصوبہ پوری طرح پروان نہ چڑھ سکتا تھا۔

اس خیانت کا ارتکاب کرنے والا ایک مجوسی فارسی خنزیرابولوء لوء ۃ تھا جو کہ فارس کی عہدِ فاروقی میں فتح کے بعد ایک غلام تھا۔ یہ مجوسی فارسی اپنے دل میں اس دین کے لیے حسد و کینہ لیے ہوئے تھا اور اسی بنا پہ اس نے اس دین کی دشمنی میں ایسا منصوبہ ترتیب دیا اور اس ساری سازش کے پیچھے جو دو کردار تھے، وہ تھے ''ہرمزان''اور ''جفینۃ''۔

ہرمزان جو کہ جنگِ قادسیہ میں رستم کے لشکر کے میمنہ کا قائد تھا پھر وہ رستم کی ہلاکت کے بعد ملکِ خوزشستان کی طرف فرار ہو گیا اور مسلمانوں سے لڑائی کرتا رہا لیکن جب اس نے دیکھا کہ وہ ایسا کرنے سے عاجز ہے تو اس نے صلح طلب کی تو اسے قبول کرلیا گیا لیکن اس نے غداری کی اور مجزاۃ بن توررضی اللہ عنہ اور برا ء بن مالک رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا تو مسلمانوں نے اس سے قتال کر کے اسے گرفتار کر لیا اور اسے لے کر عمر ؓبن خطاب کے پاس لے آئے تو اس نے ان کے سامنے اپنے اسلام کا اظہار کیا اور بہت اچھا عمل کیا اور مدینہ میں رہنے لگا۔جفینۃ النصرانی اہل حیرہ میں سے تھا وہ سعد بن مالک رضی اللہ عنہ کے ساتھ حلیف (اتحادی )بن کے آیا تا کہ اہلِ مدینہ کی موجودگی میں اس کے اور مسلمانوں کے درمیان صلح کا عہد نامہ لکھا جائے۔

باوجود اس کے کہ امیر المومنین اور تمام مسلمانوں نے اسکے ساتھ اچھا سلوک کیا لیکن مجوسی فارسی کا کینہ و بغض دین اور اسلام کی حکومت کے خلاف اس احسان کے باجود بہت بڑھا ہوا تھا۔ انہوں نے ایک بہت خطرناک منصوبہ بنایا اور شرعی طور پہ ایک عظیم خیانت کے مرتکب ہوئے۔ جبکہ انہوں نے اسلام کی تاریخ میں سب سے پہلی برائی کی بنیاد رکھی جو رافضیوں کے آئندہ منصوبوں کی پہلی اینٹ ثابت ہوئی۔

خبردار!وہ برائی تھی مسلمان حکمران کے خلاف خروج اور خلیفہ کا قتل جسکی موت سے یا اس کے خلاف خروج سے شہروں ا ور علاقوں میں فتنہ برپا ہوجاتا۔ ہم یہاں یہ بات درج کرتے ہیں کہ یہ خیانت اور یہ جرم رافضیوں کا پہلا جرم تھا حالانکہ اس وقت تک رافضی فرقہ بالفعل بطور سیاسی فکر وکفر کے ظاہر نہ ہوا تھا۔ اس کے دو سبب ہیں...

(پہلا)مجوسی پہلا شخص تھا جس نے مسلم حاکم کا سیاسی قتل کیا جبکہ وہ اسلام کے خلاف کینہ و بغض چھپائے ہوئے تھا اور یہی وہ ظلمت گاہ ہے جس سے باقی ماندہ رافضیوں نے راہ نکالی۔
(دوسرا)اس کے بعد رافضیوں نے اسے اپنے ہیروز میں شمار کیا اور اسی سے سنتِ قتل کو اپنی بنیاد قرار دیا اور اپنے جرائم کے لیے قانونی حیثیت سے سراہا یہاں تک کہ وہ اپنی کتب میں اس کاذکر کرتے ہیں بلکہ انہوں نے اپنے گڑھ ایران میں اس کے لیے ایک قبر اور مزار بھی تعمیر کیا جہاں وہ اس کی قبر کا طواف کرتے اور اس پہ نذریں مانتے ہیں۔

اس معاملے میں کتاب''للہ ثم للتاریخ''کے مصنف نے کہا''یہ بات جاننی چاہیے کہ ایران کے شہر'' کاشان ''میں ایک علاقہ ہے جسے''باغیتین'' کہا جاتا جو کہ ایک گمنام فوجی کی طرف منسوب ہے اور اس میں ابو لولوء فیروز مجوسی فارسی کتے کی وہمی قبر ہے جو کہ خلیفہ ثانی عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا قاتل ہے جبکہ انہیں اس جگہ کو ایسا نام دیا جس کا معنی ہے ''بابا شجاع الدین کی قبر''اور بابا شجاع الدین یہ وہ لقب ہے جو انہوں نے عمرِ فاروق کو قتل کرنے کے سبب اس خنزیر کو دے رکھا ہے اور اسکی دیواروں پر فارسی میں لکھا ہے
'' مرگ بر ابوبکر، مرگ برعمر، مرگ برعثمان'' جسکا معنی ہے موت ابوبکر کے لیے، موت عمر کے لیے ، موت عثمان کے لیے ( نعوذ باللہ)۔

یہ زیارت گاہ ایسی ہے کہ جہاں ایرانی زیارت کے لیے آتے ہیں اور وہاں اموال اور نفقات دیتے ہیں ۔ یہ جگہ میں ( الزرقاویؒ)نے خود بنفسِ نفیس دیکھی ہے۔ ایران کی وزارت ِارشاد نے اس کی توسیع و تجدید بھی کی ہے جبکہ اس کے علاوہ انہوں نے ایسے مبارکبادی کے کارڈ بھی چھاپ رکھے ہیں جن پر اس زیارت گاہ کی تصویریں چھپی ہیں جنہیں خطوط و رسائل کے تبادلے میں استعمال کیا جاتا ہے۔

امام ابن، تیمیہؒ ''المنہاج السنۃ النبویۃ''میں کہتے ہیں اسی لیے تو دیکھے گا کہ شیعہ ہمیشہ اسلام کے دشمنوں اور مرتدین کی مدد کرتے ہیں جیسے کہ مسیلمہ کذاب لعین کے اتباع بنی حنیفہ کے لوگ اور ان کے بارے میں(شیعہ) کہتے ہیں کہ یہ لوگ مظلوم تھے جیسے کہ اس صاحبِ کتاب نے بھی ذکر کیا ہے۔

اسی طرح وہ ابو لولوء کافر مجوسی کی نصرت کرتے ہیں اور ان میں سے بعض یہاں تک کہتے ہیں '' اللھم ارض عن ابی لوء لوء ة واحشرنی معہ'' اے اللہ ابو لولوء سے راضی ہوجا اور میرا خاتمہ اس کے ساتھ کرنا۔ جبکہ بعض ان میں اپنی لڑائیوں میں کہتے ہیں ''واثارات ابی لوء لوء ة'' ہائے ابو لولو کا انتقام ۔ جس طرح وہ تصویروں میں ایسا کرتے ہیں جب عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ کو قید میں دکھاتے ہیں۔ یہ خنزیر ابو لولوء اہل اسلام کے اتفاق کے ساتھ کافر ہے۔ یہ مجوسی تھا آگ کا پجاری اور یہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا غلام تھا جب کہ یہ چکیاں بنایا کرتا تھا اور اس کے اوپر مغیرہؓ کی طرف سے ہر دن چار درہم خراج مقرر تھا۔ اس نے دیکھا کہ مسلمان اہل الذمہ کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں اور جب وہ دیکھتا کہ غلام مدینہ کیسے لائے جاتے تھے تو اسے وہ اپنے ذہن میں بٹھا لیتا ( ابن، تیمیہ کا کلام ختم ہوا)۔

پھر ان کا دوسرا جرم ظاہر ہوا جو کہ رافضیوں کا سیاسی جرم ہے اور یہ تھا خلیفہ عثمان رضی اللہ عنہ کا قتل جبکہ اس کے لیے انہوں نے شبہات کو پھیلایا اور انکے خلاف قوم کو ابھارا۔ لیکن اس بار یہ جرم باقاعدہ منصوبہ بندی اور گہری فکر کا نتیجہ تھا۔ یہ منصوبہ بہت شدید تھا کیونکہ یہ رافضیت کے حقیقی موجد یہودی عبد اللہ بن سبا(لعنۃ اللہ علیہ) کے ذہن کی پیدا وار تھا یہاں تک رافضیوں کا ایک فرقہ اپنی نسبت بھی اسی سے رکھتا ہے اور وہ اپنے آپ کو ''السبایۃ'' کہتا ہے۔

عبد اللہ بن سبا، یہ شخص اگر چہ آج کے رافضی ظاہری طور پر اس سے برأت کا اظہار کرتے ہیں لیکن انکی امہات الکتب میں بڑے رسوخ کے ساتھ وہ باطنی طور پہ موجود ہے۔ یہاں تک کہ ان کے محقق علماء نے تاکیداً کہا کہ یہ شخصیت ان کی امہات الکتب، بلکہ مختلف مصادر اور بعض کتب ِ رجال اور بعض کتبِ فقہ اور بعض فرقوں میں موجود ہے۔

اس کا ثبوت جیسے کہ ''نہج البلاغۃ''میں ہے جسے ابن ابی الحدید نے ذکر کیا ہے کہ عبد اللہ بن سبا ،علی رضی اللہ عنہ کی طرف کھڑا ہوا جبکہ وہ منبر پر خطبہ دے رہے تھے۔اسی طرح کتاب الانوار النعمانیہ میں جسے ان کے سید ''نعمۃ اللہ الجزائری''نے ذکر کیا ہے کہ عبد اللہ بن سبا نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا ( انت الالہ الحقیقی) آپ حقیقی معبودہیں۔

جبکہ وہ یہودی الاصل ہے اور منہج ودعوت میں رافضی۔ وہ لوگوں میں خلیفہ عثمان رضی اللہ عنہ کی شرعیت کے بارے میں تشکیک اور فتنہ کھڑا کرانے میں کامیاب ہوگیااور اس نے بڑی صفائی کے ساتھ خلیفہ کو قتل کردیا ۔ اس سارے عمل میں اس کا بال بھی بیکا نہیں ہوا کیونکہ وہ حقیقت میں ایک امیر کو معزول کر کے دوسرے کو آگے نہ لانا چاہتاتھا بلکہ مسلمانوں کو فتنے میں مبتلا کرنا چاہتا تھا اور دین کے معاملے میں انہیں رسوا کرنا چاہتا تھا۔ پھر اس نے اپنی ان دسیسہ کاریوں کو جاری رکھا اور جناب امیرالمومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اپنے مکر وحیلوں کے تانے بانے بنتا رہا۔

پھر جب یہ فتنہ ''جنگِ جمل''کے واقعہ میں بالکل ختم ہونے کو آگیا جب دونوں فریقین میں صلح ہوگئی اور قریب تھا کہ وہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے حق میں دستبردار ہو جاتے تو وہیں پر اس کے پیروکاروں نے غداری کی اور مسلمانوں کے ساتھ قتال کرنے پر اصرارکرتے ہوئے اصحابِ جمل پر حملہ کردیا اور لڑائی شروع کردی تاکہ وہ اس جنگ کے شعلے پھر سے بھڑکا دیں جو ختم ہونے کے قریب تھی۔

یہی تک بس نہیں بلکہ جن لوگوں نے جنابِ علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں تشیع کا اظہار کیا انہوں نے آپ سے طلب کیا کہ عراق کی طرف چلیں اور اسلامی دارالحکومت کو مدینہ سے کوفہ منتقل کردیں۔ کتنی بار انہوں نے آپ رضی اللہ عنہ کو رسوا کیا اور آپ کی مدد سے رکے رہے۔جب علی رضی اللہ عنہ نے ارادہ کیا کہ وہ شام کی طرف خروج کریں تاکہ وہاں وہ زمامِ اقتدار اپنے ہاتھ میں لے کر مسلمانوں کے اتحاد کو جمع کر دیں تو یہ سب ان کی چھاؤنی سے اچانک غائب ہوگئے اور اپنے گھروں کو لوٹ گئے یہاں تک کہ ساری چھاؤنی خالی ہوگئی۔

حتیٰ کہ جناب علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے انہیں کہا ( ما انتم الا اسود الثری فی الدعةو ثعالب رواغة حین تدعون الی بأس وما انتم بثقة) کہ تم لوگ محض باتوں کے شیر ہو اور جب جنگ آتی ہے تو لومڑی کی طرح دم دبا کر بھاگ جاتے ہو تم نہایت ناقابل اعتماد ساتھی ہو۔ یہاں تک کہ انہوں نے فرمایا'' تم ایسے سوار نہیں کہ جن کے ساتھ دفاع کیا جائے، نہ ہی تم ایسے غلبہ والے ہو کہ تمہاری طرف مضبوطی کو پکڑا جائے، اللہ کی قسم تم جنگ میں کوڑے کا لباس ہو، تمہارے خلاف چالیں چلی جاتی ہیں اور تم اپنی چالوں کے جنگ میں کوئی جوہر نہیں دکھا پاتے ہو اور تمہاری طرف کا نقصان ہو تو تمہیں غیرت بھی نہیں آتی''۔

رافضیوں نے جنابِ علیؓ کو اس وقت بھی رسوا کیا جب جنابِ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا لشکرِ جرار عین التمر کی طرف عراق کے اطراف سے آیا تو رافضیوں کی ناک خاک آلود ہوگئی۔ جب جنابِ علی رضی اللہ عنہ نے انہیں دفاع ِ عراق کے لیے ابھارا تو انہوں نے کورا جواب دے دیا یہاں تک کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا ان کے متعلق فرمایا :
یا اھل الکوفة کلما سمعتم بمنسر من مناسر اھل الشام انجحر کل امریء منکم فی بیتہ، واغلق بابہ انجحار الضب فی حجرہ والضبع فی وزارہا، المغرور من غررتموہ ولمن فاز بکم فاز بالسھم الاخیب، لا احرار عند النداء ولا اخوان ثقة عند النجاة ان للّٰہ وان الیہ راجعون۔
اے اہلِ کوفہ! تم جب بھی شامیوں کے لشکر کی آہٹ پاتے ہو توتمہارا ہر مرد اپنے گھر میں گھس جاتا ہے اور اس کا دروازہ ایسے بند کرلیتا گویا کہ وہ کسی گوہ کی بل میں ہو اور دھوکہ میں وہ ہے جسے تم نے دھوکہ دیا ہو اور جو کوئی تمہارے ساتھ کامیاب ہوا تو بہت ہی حقیر ترین حصہ کے ساتھ کامیاب ہوا۔ جنگ کے وقت تم دھوکہ باز ہو اور امن کے وقت ناقابل اعتماد ساتھی ہو۔ انا للّٰہ وانالیہ راجعون۔

جب اس رافضی یہودی نے یہ دیکھا کہ شہروں کے سیاسی حالات ویسے ہی ہو گئے ہیں جیسی کہ اس نے منصوبہ بندی کی تھی تو اس نے اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اس نے دین کی اصل کو ڈھانے کی کوششیں شروع کردیں تا کہ مسلمانوں کے لیے کوئی ایسا نہ رہے جو ان کے تنازعات میں انہیں حق کی طرف لوٹا دے۔

تواس نے دین کی اس جہت سے اپنا کام شروع کیا جو براہ راست عقیدہ کے متعلق تھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ سیاسی کے ساتھ دین کے اعتقادی میدان میں بھی فتنے کھڑے کر دئیے جائیں۔ پس اس کے دینی جرائم جسے اس نے شروع کیا جو بعد میں رافضیت کے مذہب کی اصل بن گئے وہ تھا صحابہ کو گالی دینا۔ یہی وہ سب سے پہلا شخص تھا جس نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو ''الٰہ ''قرار دیا یہاں تک کہ انہوں نے اسے جلانے کا فیصلہ کیا پھر چھوڑ دیا اور آپ نے ''السبایہ''کے لوگوں کو آگ میں جلوا دیا جنہوں نے اس کی اتباع میں آپ رضی اللہ عنہ کو ''الٰہ''قرار دیا اور پھر بعد میں توبہ بھی نہ کی۔

اس یہودی رافضی نے یہودیت، نصرانیت اور مجوسیت کے فاسد اعتقادات کو مختلط کرکے رواج دینا شروع کیا یہاں تک کہ وہ اس کے پیروکاروں کے دلوں میں راسخ ہوگئے۔ پس رافضیت کے اصول اور اسکی بنیادیں ان تمام مذاہب پر ہی ہیں۔

جناب علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ان خیانتوں کا سلسلہ جاری رہا تاکہ ان کا شکار انکے بیٹوں ، رسول اللہ ﷺ کے نواسوں اور جنت کے نوجوانوں کے سردارحسن ؓو حسین رضی اللہ عنہما کو بنایا جائے۔ انہوں نے حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ خیانت کی جب انہوں نے باصرار آپ کو ابھارا کہ اہل شام کی طرف معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کریں۔ ان کے پاس کوئی چارہ نہ تھا جبکہ وہ ان کی چالوں سے خوب آگاہ تھے۔ اس لیے آپ رضی اللہ عنہ نے انکے ساتھ جانے کی حامی بھرلی جبکہ آپ نے دل میں معاویہ رضی اللہ عنہ سے مصالحت کی طرف مائل تھے۔ جب آپ نے لشکر ترتیب دیا اور اس کا قائد قیس بن عبادۃ کو مقرر کیا۔ پھر جب لڑائی میں ایک آواز دینے والے نے قیس بن عبادہ کے قتل کی آواز لگائی تو انکی حقیقت واضح ہوگئی ۔ وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے اور ثابت قدم نہ رہے یہاں تک کہ حسن رضی اللہ عنہ کی طرف لوٹ آئے اور ان کی متاع لوٹنے لگے حتی کے آپ کے نیچے سے قالین بھی کھینچ لیا اور اس کے بعد انہوں نے آپ کو خنجر مار کر زخمی کردیا تھا۔

بلکہ بعد میں ان کی خیانت اس سے بھی پرے جاپڑی، جب ایک عراقی شیعہ مختار بن ابی عبید الثقفی نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح کر لی اس شرط پر کہ حسن رضی اللہ عنہ کو حوالے کردیا جائے۔ تو اس نے بعد میں اپنے چچا سعد بن مسعود سے کہا جو کہ اس وقت مدائن کا والی تھا۔ کہنے لگا کیا تو امیر ہونا چاہتا ہے ، اس کے چچا نے کہا وہ کیسے ؟ کہنے لگا حسن رضی اللہ عنہ کو گرفتار کر اور اسے لے کر معاویہ رضی اللہ عنہ سے امن حاصل کر ۔ تو اس کے چچا نے کہا:
علیک لعنة اللّٰہ اثب علی ابن بنت رسول اللّٰہ ، فاوثقہٗ بئس الرجل انت۔
تجھ پہ اللہ کی لعنت ہو میں اللہ ﷺکے رسول کی بیٹی کے بیٹے پر زیادتی کروں، تو اس نے اسے گرفتار کر لیا اور کہا کہ توبہت برا آدمی ہے۔

یہ حسن رضی اللہ عنہ ان کی خیانت کا قصہ بیان کرتے ہیں معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح کو ترجیح دیتے ہوئے اور ان کے حق میں دستبردار ہوتے ہوئے اور اہلِ بیت کو خبردار کرتے ہوئے کہا، ''میں سمجھتا ہوں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ ان لوگوں سے بہتر ہیں جو یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ میرے شیعہ ہیں جنہوں نے مجھے قتل کرنا چاہا اور میرا مال لے لیا، اللہ کی قسم اگر معاویہ میرا خون بہادے اور میرے گھر والوں کو امن میں کر دے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ یہ لوگ مجھے قتل کریں اور میرے گھر والوں کو ضائع کر دیں۔ اللہ کی قسم ! اگر میں معاویہ کے ساتھ لڑائی کروں تو یہ لوگ میری گردن پکڑ لیں اور مجھے ان کے حوالے کر دیں، اللہ کی قسم! اگر میں ان سے صلح کرلوں اس حال میں کہ میں آزاد ہوں تو یہ اس سے بہتر ہے کہ میں قید ہوکر ان کے پاس آؤں اور وہ مجھے قتل کردیں۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
عہد بنو امیہ 41 ہجری سے132 ہجری تک
ان کی خیانتیں اعتقادی میدان کی نسبت سیاسی میدان میں بہت زیادہ ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کو جب بھی کوئی ایسا مسلمان خلیفہ مل گیا جو ان کے دین اور انکی دنیاکی سیاست کی بہترین پہرہ داری کرے تو اس وقت ان کے ایسے عقائد کا کچھ بھی قابل ذکراثر باقی نہ رہے گا۔ کیونکہ ایسا خلیفہ ہر فتنہ و شبہہ کے ازالہ کے لیے سعی کرے گا۔

اس لیے اس مرحلہ میں انہوں نے سیاسی میدان میں بہت بڑے پیمانے پر خلل پیدا کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تاکہ دین میں خلل پیدا کیا جاسکے۔ تو انہوں جنابِ حسین رضی اللہ عنہ کی بے پناہ حمایت کرنا شروع کر دی اور ان کے بارے میں ایسی خبریں اور روایتیں مبالغہ آمیزی اور جھوٹ کے ساتھ پھیلانا شروع کر دیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ یزید ؒاور معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں جھوٹی باتیں پھیلانا شروع کر دیں۔ کہا کہ انہوں نے مخلوق پر ظلم روا رکھا ہے اور شریعت کو معطل کر دیا ہے یہاں تک حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے چچا کے بیٹے مسلم بن عقیلؒ کو کوفہ بھیجا تا کہ معاملہ کی تحقیق کر کے آئیں۔ جونہی ابن عقیل ؒ کوفہ پہنچے تو اہل کوفہ بھاگ کے ان کے پاس آئے اور ان سے بیعت کرنے لگے پھر انہوںاہل کوفہ کی اس بیعت کی خبر حسین رضی اللہ عنہ کو ارسال کردی۔

جب والی کوفہ عبید اللہ بن زیاد کو معاملے کا پتہ چلا وہ آیا اور اس نے مسلم بن عقیل کو قتل کر دیا جیسے کہ اس نے اہلِ کوفہ کے شیعہ کے سامنے ہانی بن عروہ المرادی کو قتل کیا جو اس کی بیعت کرنے کے لیے بڑے جوش سے جمع ہوئے تھے۔ وہ اس وقت بھی مسلم بن عقیلؒ اور ہانی کے دفاع کے لیے متحرک نہ ہوئے یہاں تک کہ عبید اللہ نے پیسے دے کر ان کی وفاداریوں کو خرید لیا۔

ہائے ری قسمت! کون سا عہد، بلکہ کون سی بیعت تھی جس کو انہوں نے اس کے نافذ ہونے سے قبل ہی نہ توڑا ہو۔ ہائے افسوس کہ!یہ کون سی تاریخ ہے جو آج ان خیانتوں کو رقم کررہی ہے تاکہ پہلی تاریخ کو دہرایا جائے؟ پس یہ ''ذمہ''اصحابِ رفض کے نزدیک ان دنوں میں اس سے بھی زیادہ سستا ہے یہاں تک کہ انہوں نے اسے چند ٹکوں کے عوض بیچ ڈالا۔

ہم کہتے ہیں کہ اس تمام کے باوجود حسین رضی اللہ عنہ نے انکار کردیا لیکن وہ ان باتوں کی طرف دھیان دیتے ہوئے نکلے...
٭ ظلم و ستم کا واقع ہونا۔

٭ یزیدؒ کے عمال کی طرف سے حدود کی پامالی اور حرمات کی توہین۔

٭ آپ کی طرف سے بیعت کا پیغام بھیجنا۔

٭ اس کے بعدحسین رضی اللہ عنہ اپنے چند ساتھیوں کی معیت میں نکلے جبکہ اکثریت انہیں ایسا خروج کرنے سے منع کرتی رہی اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے کہ اس سے قبل ان کے والدعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور بھائی حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا معاملہ کیا گیا ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو اپنا امر پورا کرنا تھا۔

پس!جب یزید کو حسین رضی اللہ عنہ کے آنے علم ہوا تو اس نے آپ کی طرف اپنا لشکر روانہ کیا تاکہ آپ کے اور مسلمانوں کے اتحاد و اجتماعِ کلمہ کے درمیان حائل ہو جائے۔ لیکن جب جنابِ حسین رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ان کا محاصر ہ کر لیا گیا اور ان کے اپنے شیعہ نے انہیں رسوا کر دیا ہے اور وہ آپ کی نصرت سے ہاتھ کھینچ رہے ہیں تو آپ رضی اللہ عنہ کواچھی طرح معلوم ہو گیا کہ آپ ان کی خیانت کے دھوکہ میں آ گئے ہیں تو آپ نے یزیدی فوج کے قائد کے سامنے تین شروط رکھیں۔

(۱) یہ کہ میں جہاں سے آیا ہوں وہاں واپس چلا جاؤں۔

(۲) یا انہیں چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ خود جاکر یزید سے ملاقات کریں۔

٭{ ایک روایت میں ہے کہ حسینؓ نے فرمایا حتی اضع یدی علی یدیہ تاکہ میں اپنا ہاتھ یزید کے ہاتھ میں دے دوں یعنی اسکی بیعت کر لوں}

(۳) یا پھر انہیں چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ محاذوں پہ چلے جائیں اور مجاہدین کے شانہ بشانہ جہاد کریں۔

لیکن عبید اللہ بن زیاد نے انکار کیا اور لڑائی کا اعلان کردیا یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے۔ یہاں ان کے عجائب و غرائب ایسے ہیں کہ ان کے علماء بیان کرتے ہیں کہ حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے قتل سے قبل ان کے یعنی شیعہ کے خلاف بد دعا فرمائی ۔''اعلام الووریٰ'' میں الطبرسی لکھتا ہے '' دعاء حسین علی شیعتہ قبل استشھادہ''حسین رضی اللہ عنہ کی ا پنے شیعہ کے خلاف شہادت سے قبل بد دعا۔
اللھم ان متعتھم ففرقھم فرقا، واجعلھم طرائق قددا، ولا ترضی الولاة عنھم ابداً، فانھم دعونا لینصرونا ثم عدوا علینا فقتلونا
اے اللہ !ان کواگر تو فائدہ دے تو انہیں فرقوں میں تقسیم کر دے اور ان کے راستے جداجدا کر دے اوران کے والیوں کو ان کے ساتھ ہمیشہ ناراض رکھ کہ انہوں نے ہمیں بلایا تاکہ ہماری نصرت کریں پھر انہوں نے ہم سے دشمنی کی اور ہمیں قتل کرڈالا۔

لیکن ہمیں یہاں وقفہ تفکر کرنا ہے اور اہلِ بیت کے خلاف ہونے والی ان خیانتوں پر غور وتأمل کرنا ہے۔پس اگر ان کا ان مقدس لوگوں کے ساتھ یہ سلوک کیا جن کے ساتھ وہ محبت کا دعویٰ کرتے ہیں بلکہ ان کی محبت میں مبالغہ کرتے ہیں تو ان کے علاوہ لوگوں کے ساتھ ان کا برتاؤکیسا ہو گا۔... یہاں عبرت پکڑے والے کی مانند تأمل کی ضرورت ہے۔پس اگر ان کی خیانتیں اپنے محبوبوں کے ساتھ اس قدر ہیں تو پھر باقی مسلمانوں کے ساتھ کیسی ہوں گی جن کا مظاہرہ آج ہم دیکھ رہے ہیں جبکہ وہ کافروں کی طرف دوڑتے، بھاگتے جاتے ہیں۔ ان سے دوستیاں لگاتے ہیں اوران کے کفر میں تعاون کرتے ہیں۔

سب سے اہم ترین بغاوت جو انہوں نے بنو امیہ کے خلاف کی جیسے کہ''وفیات الاعیان ''میں ہے کہ انہوں نے بنو عباس کی بنوامیہ کے خلاف خروج میں مدد کی۔ خراسان کی حکومت کے گرانے میں بھی ابی مسلم الخراسانی کی مدد کی۔ اس نے بعد میں ''ابراہیم بن محمد'' کی بیعت کی طرف لوگوں کو دعوت دینا شروع کردی۔ جب نصر بن سیاط کو پتہ چلا، جو خراسان میں بنی امیہ کے آخری بادشاہ کا نائب تھا، اس نے مروان کو بیعت کے بارے میں لکھ کر بھیجا تو مروان نے اپنے نائب کو دمشق میں لکھا کہ ابراہیم کو گرفتار کر کے پیش کیا جائے تو اسے پکڑ کر قید کردیا گیا۔ جب اسے یقینی طور پہ پتہ چل گیا کہ مروان اسے قتل کرنے والا ہے تو اس نے اپنے بھائی ''السفاح'' کو وصیت کی اور یہ بنو عباس کی اولاد میں پہلا خلیفہ تھا۔ پھر ابراہیم دو مہینہ قید میں رہنے کے بعد فوت ہو گیا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ قتل کردیا گیا۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
عہد بنوعباس132-656 ہجری
اس دور میں رافضیوں کی خیانتیں جاری رہی اور وہ ملت میں نئے نئے فتنے لیے ظاہر ہوتے رہے۔ انہوں نے حسب ِ سابق دینی ، سیاسی اور اخلاقی میدانوں کی تباہی کا عمل جاری رکھا۔ اس قدر''ٹارگٹ کلنگ ''کی گئی کہ وہ گنتی کے احاطہ میں لانا مشکل ہے اور تقسیم اس قدر کی کہ خلافت کو چھوٹی حکومتوں میں تقسیم کردیا جن کو واپس خلافت کی طرف پرونا مشکل ہوگیا۔

اس زمانے میں ان جرائم کا آغاز اس طرح ہوا کہ انہوں نے ایسی سیاست چلی کہ جس سے خلافت بنو امیہ کا خاتمہ ہو گیا جب انہوں نے اموی حاکم کے خلاف خروج کیا۔ اس کے بعد انہوں نے خفیہ دعوت کا آغاز کیا کہ ''بنو عباس''خلافت کے زیادہ حق دار ہیں۔ اس دعوت کو پھیلانے والا کردار تھا ''ابو مسلم الخراسانی'' ۔ یہ سب اس لیے تھا تاکہ وہ ملک میں اعلیٰ عہدوں پہ فائز ہو جائیں جبکہ اس کے لیے انہوں نے بنو عباس کے ساتھ اپنی دوستی اور موافقت کا جھوٹااظہار کیا۔ تو انہوں نے اس کام کو خراسان سے شروع کیا جو کہ سب سے پہلا علاقہ تھا جو امویوں کے ہاتھوں سے نکلا اور یہ سب کر نے والا تھا ابو مسلم الخراسانی۔ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ کینہ و بغض سے بھرے ہوئے فارسیوں نے اس لڑائی میں مسلمانوں کے خلاف خوب خونریزی کی تاکہ وہ اپنا انتقام لے سکیں۔

حتی کہ اسی ابو مسلم نے بعد میں خلیفہ المنصور کی اطاعت کا ذمہ توڑنے کی کوشش کی جب وہ اپنے بھائی السفاح کی موت کے بعد مسندِ خلافت پر براجمان ہوا۔ یہاں تک کہ ابو مسلم نے غداری کی کوشش کی لیکن المنصور نے اپنی ذکاوت اور فطانت کے ساتھ معاملہ کو سلجھا لیا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ابومسلم کی طرف خوب متنبہ رہا یہاں تک کہ اسے تدریجاً قریب کرکے قابو کر لیا اور انتہائی برے طریقے سے قتل کر ڈالا۔ اس کے بعد ابو مسلم کے ساتھیوں نے انتہائی کوششیں کی تاکہ وہ اس کا انتقام لے سکیں۔ اس کے لیے کبھی وہ سیاسی فتنے کھڑے کر دیتے اور کبھی شبہات پھیلاتے رہتے تھے۔

انہیں کوششوں میں سے ایک کوشش ''سنباب'' کی تھی جس نے المنصور سے ابومسلم کی نعش حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تو منصور نے اسکی طرف ایک لشکر بھیجا جس نے اسے شکست و ریخت سے دوچار کردیا۔

اس کے بعد ''الرواندیہ'' فارسی شہر ''اصفہان''کے قریب ظاہر ہوئے اور یہ بھی ابو مسلم کی جماعت کے لوگ تھے۔ اس دفعہ وہ بڑے فاسد عقیدہ کے ساتھ سامنے آئے اور انہوں نے خلیفہ المنصور کے بارے میں ''الوہیت'' کا دعویٰ کر دیا لیکن منصور نے ان کے ساتھ لڑائی کی اور ان کا قلع قمع کردیا۔

اس کے بعد وہ آدمی ظاہر ہوا جس نے ''المقنع'' کا لقب اختیار کیا۔ اسے یہ زعم تھا کہ اللہ تعالیٰ نے نعوذ باللہ سب سے پہلے آدم میں حلول کیا پھر نوحؑ میں، پھر ابومسلم میں اور پھر اس کے اندر حلول کیا۔ وہ اپنی ایک خاص جماعت نہ صرف بنانے میں کامیاب ہو گیا بلکہ وہ اس کے ساتھ ماوراء النہر کے علاقوں پہ بھی قابض ہو گیا اور اس نے ''کش''نامی قلعہ میں پناہ لی۔ لیکن خلیفہ ''المہدی''جو ملحدوں اور زندیقوں کے خلاف اپنی شدت میں بہت مشہور تھا اس نے اس کا تعاقب کیا اورایک لشکر اس کا محاصرہ کرنے کے لیے بھیجا۔ جب اسے موت کا یقین ہوگیا تو اس نے خود کواور اپنے گھر والوں کو زہر پلا کر ہلاک کرلیا۔

اس سب کے باوجود ''المہدی''اس فتنہ کو مکمل ختم کرنے میں نا کام رہا کیونکہ یہ سب لوگ ہمیشہ خفیہ رہتے اور ''تقیہ'' کا سہارا لیتے تھے۔ یہ لوگ ہمیشہ خفیہ اور رازداری سے کام کرتے اور اپنے منصوبوں کے جال بنتے رہتے تھے اور حکومتی ارکان کے ساتھ نفاق کا اظہار کر کے ان کی قربتیں تلاش کرنے کے چکر میں رہتے تھے تاکہ عباسی خلافت میں اثر و رسوخ حاصل کیا جاسکے اور وہ کسی وزارت کے عہدے پر فائز ہو سکیں۔ پس اسطرح بہت سے رافضی مجوسی بنوعباس کے خلفاء کے ہاں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے میں کامیاب ہو گئے۔مثلاً البرامکہ، ابومسلم الخراسانی ،الفضل بن سحل المجوسی جو کہ المامون کا وزیر اور اس کے لشکر کا قائد تھا اور اس کا لقب تھا '' ذی الریاستین'' یعنی جنگ اور سیاست کا وزیر۔

یہاں تک ہی نہیں بلکہ انہوں اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کے نکاح بھی ان میں کیے۔ پس المامون کی ماں '' المراجل''فارسیہ تھی اور اسکی تاثیر یہ تھی کہ جب المامون کو حکومت ملی تو اس نے بغداد سے اپنا دارالخلافہ بدل کے فارسی شہر ''مروء'' کو بنالیا اور اس کے ساتھ ساتھ اسلام میں عجیب و غریب افکار و فلسفے پھیلانے کا سلسلہ شروع کردیا جیسے کہ اس کا خلقِ قرآن کا عقیدہ پھیلانا۔

یہ ساری دعوت فارسیت و مجوسیت کی تربیت کا شاخسانہ تھی۔ اس تقرب کا نتیجہ یہ نکلا کہ رافضی مجوسی اپنے افکار و اعتقادات مسلمانوں کے درمیان پھیلانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس طرح انہوں نے جھوٹی احادیث پھیلانے کا سلسلہ بھی شروع کیا اور پھر ان احادیث کو دین کا حصہ قرار دینے لگے۔ اس کے بعد انہوں نے تاریخ کے چہرے کو مسخ کرنا شروع کر دیا اور یہ تاثر دیا کہ اسلام کی تاریخ صحابہ کے درمیان نعوذ باللہ مشاجرات و مخالفات کا ملغوبہ تھی۔ پھر انہوں نے ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما پہ زبان ِ طعن دراز کرنا شروع کر دی اور اس کے ساتھ عام صحابہ کو مطعو ن ٹھہرانا شروع کر دیا۔ بلکہ ان کے شعراء فارس کی قدیم بزرگی پر بڑے قصیدے کہتے اور اس پہ فخر کرتے تھے جیسے کہ الاصمعی شاعر ان کی ہجو کرتے ہوئے کہا ہے...


اذا ذکر الشرک بمجلس​
اضائت وجوہ بنی برمکی​
وان تلیت عندہم آیة​
اتوا بالحدیث عن مزدکی​



٭ کہ جب ان کی مجلس میں شرک کا ذکر ہو تو بنو برامکہ کے چہرے کھل اٹھتے ہیں اور جب کوئی آیت تلاوت کی جائے تو وہ مزدکی کی حدیث لے کے بیٹھ جاتے ہیں۔

بلکہ اس قربت کا بد ترین نتیجہ یہ نکلا جو کہ اسلامی حکومت کے لیے بہت گھمبیرتھا''وہ تھا ان کاخلافت کے بعض علاقوں پہ قابض ہو جانا اور مختلف علاقوں میں متعدد مستقل ریاستیں بنا لینا۔

سب سے پہلے جس نے اسلامی خلافت سے خروج کیا وہ ''طاہر بن الحسین الخزاعی ''تھاجس نے خراسان کے علاقے کو علیحدہ کرلیا جیسے کہ اس سے پہلے ابومسلم نے کیا تھا۔ اس کے بعد خلافت میں تقسیم در تقسیم کا ایک سلسلہ چل پڑا اور خلافت کے ساتھ بہت سی خیانتوں اور جرائم کا ظہور ہوا۔'' القرامطہ''نے الاحساء اور البحرین، یمن، عمان اور شام کے علاقوں پہ تسلط جما لیا۔'' البویہیون''نے عراق و فارس کے علاقے قبضے میں لے لیے اور عبیدیوں نے مصر و شام کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔

لیکن اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے جب بھی کہیں رافضیوں کی کوئی حکومت یا ان کا کوئی علاقہ ظاہر ہوتا تو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ان کے لیے ایسے لوگ کھڑے فرما دیتے جو ان کے خلاف جہاد کرتے تھے اور انہیں بدترین عذاب سے دوچار کرتے تھے۔ رافضیوں کی قضاء کا فیصلہ اس وقت ''السلاجقہ''کے سنیوں کے ہاتھوں ہوا جو ولایت بنوعباس کے تابع تھے اور یہ رافضیوں کے خلاف بہت شدید تھے۔ یہ رافضی حکومتیں خارجی صلیبی طاقتوں کے تعاون سے مسلمان علاقوں میں قائم کی گئی کیونکہ اہل السنۃ کی موجودگی میں ان کی دال گلتی نظر نہ آتی تھی۔

بنو عباس کے عہد میں القرامطہ کے جن جرائم کو تاریخ نے ہمارے لیے محفوظ رکھا ہے ان میں سے ایک ہے ان کا بنو عباس کے خلاف خروج کرنا اور بنی عبد القیس کے مکانوں کو جلانا، پھر293 ہجری میں کوفہ پہ ہلہ بولنا اور وہاں انہوں نے اس قدر خون ریزی کی کہ مورخین اس کی تاریخ رقم کرنے پہ مجبور ہوگئے۔

عقائد کے میدان میں انہوں نے اہلِ بیت کے بارے میں تشیع کے بہت سے فاسد عقائد کو ہوا دی پھر اس کے بعدانہوں نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے لیے علمِ غیب کا دعویٰ کردیا اور اہلِ بیت کے علاوہ ہر چیز کا انکار کرنے لگے اور علی رضی اللہ عنہ اور انکی اولاد کا تذکرہ کرنے لگے اور اس دین کو باطل ثابت کرنے لگے۔ اسی لیے القرامطہ فلسفیوں کی کتابوں اور ان کی مجالس کا بہت اہتمام کرتے تھے اور اپنے داعی حضرات کو نصیحت کرتے کہ'' کہ اگر کوئی فلسفی مل جائے تو وہ ہمارے لیے اعتماد کی شئے ہے، اس لیے کہ وہ انبیاء علہم السلام کے راستوں کومٹانے کی راہ پر ہیں اور اس عالم کے قدیم ہونے کے منکر ہیں''۔

سن294 ہجری میں القرامطہ کے اسماعیلیوں نے بیت اللہ کا حج کرنے والے حجاج ِ کرام پر حملہ کردیا جبکہ انہوں نے پہلے اپنے بارے میں حاجیوں کو امن میں لیا اور پھر حجاجِ کرام کے تمام قافلوں کو قتل کرڈالا اور پھر ہر اس شخص کا تعاقب کیا جو فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ یہاں تک قرامطی لعینوں کی عورتیں مقتولین کے درمیان پانی لیے کھڑی ہو جاتیں اور جس کسی میں زندگی کی رمق پاتیں اسے اکٹھا ہوکر قتل کر دیتیں تھی۔ انہوں نے صرف حاجیوں کے قتل پہ ہی اکتفاء نہ کیا بلکہ اس کے بعد ارد گرد موجود کنوؤں میں مٹی اور گند ڈال دیا۔ اسی طرح سن321 ہجری میں انہوں نے حجاجِ کرام کے قافلوں کو روک لیا ، ان کے مردوں کو قتل اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنالیا۔

تاریخ ان کے جرائم کو ہمارے لیے ایسے ہی ذکر کرتی ہے۔ چنانچہ اس زمانے میں یہ 1409 ہجری کا واقعہ ہے جب ایران نے کویت کے شیعوں کا ایک گروپ حجاج کی مدد کے لیے بھیجا تو اس گروپ نے مکۃ المکرمہ کے ایک پل کے ساتھ تباہ کن بارود لگادیا جبکہ یہ بارود انہیں کویت میں ایرانی سفیر نے سپرد کیا تھا تو وہ اسے لے کر مکہ بھاگ گئے اور ذی الحجہ کے ساتویں دن شام کے وقت انہوں نے مسجدِ حرام کے پڑوس دھماکہ کرڈالا جس سے وہاں ایک آدمی ہلاک اور سولہ آدمی زخمی ہوئے جبکہ مادی خسائر اس کے علاوہ تھے۔ ان کے انہی دینی جرائم میں سے ایک ہے کہ انہوں نے اپنے ان قبیح افعال سے کعبۃ اللہ المشرفہ کو بھی نہیں بخشا۔ چنانچہ انہوں نے335 ہجری میں کعبہ سے حجرِ اسود چوری کرلیا۔

اسی کو بیان کرتے ہوئے حافظ ابنِ کثیرؒ ،''البدایۃ والنہایۃ''میں لکھتے ہیں کہ قرامطہ حجر اسود کو چوری کرکے اپنے وطن لے گئے۔ عراقیوں کا ایک گروہ نکلا اور ان کا امیر منصور الدیلمی تھا۔ وہ صحیح سالم مکہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ وہاں اس وقت دنیا جہاں کے قافلے جمع ہوچکے تھے۔ حجاج کو بالکل پتہ ہی نہ چلا یہاں تک کہ ترویہ کے دن ایک قرامطی اپنی جماعت کے ساتھ ان کے اوپر چڑھ دوڑا۔ اس نے ان کے اموال لوٹ لیے اور ان کا خوب قتل کیا۔ پھر انہوں نے مکہ کے ارد گرد،اسکی گلیوں اور چوراہوں میں بہت سے حاجیوں کو قتل کیا۔ اس اثناء میں ان کا امیر ابو طاہر( علیہ لعنۃ اللہ) کعبہ کے دروازے پر بیٹھا تھا اور لوگ اس کے ارد گرد چیخ رہے تھے جبکہ کعبہ کے ارد گرد قتل و خون ریزی جاری تھی ایک ایسے دن جو اللہ کے نزدیک افضل ترین دن تھا اور وہ ملعون اعلان کرتا (انا باللّٰہ وبا اللّٰہ انااخلق الخلق وافنیھم) میں اللہ سے اور اللہ مجھ سے ہے ، میں مخلوق کو پیدا کرتا ہوں اور اسے فنا کرتا ہوں۔ جبکہ لوگ وہاں سے بھاگ رہے تھے اور بعض کعبہ کے پردوں کے ساتھ چمٹ جاتے لیکن پھر بھی وہ بچ نہ پاتے تھے۔

حاجی طواف بھی جاری رکھتے اور ان کو قتل کیا جارہا تھا۔ پس جب اس قرامطی نے اپنے کام کو پورا کرلیا تو اس نے حکم دیا کہ آبِ زم زم کے کنویں میں حاجیوں کو دفن کردیا جائے۔ بہت سے حاجیوں کو جہاں وہ قتل ہوئے وہیں مسجدِ حرام میں ہی دفن کردیا گیا۔ ہائے کیسے مقتول تھے اور کیسی اعلیٰ جگہ پہ مدفون ہوئے۔ اس کے ساتھ انہیں نہ غسل دیا گیا نہ ان پہ کسی نے جنازہ پڑھا کیونکہ وہ احرام میں تھے اور شہداء تھے۔ اس کے بعد انہوں نے زم زم کے قبہ کا انہدام کیا اور پھر کعبہ کا پردہ اتار لیا اور اپنے ساتھیوں کے سامنے اسے پھاڑ ڈالا۔ پھر اس نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ کعبہ کی چھت پر چڑھے اور اس کے میزاب(پرنالے)کو اکھاڑ دے تو وہ شخص منہ کے بل نیچے گرا اور مر گیا تو اس کے بعد وہ خبیث رک گیا جس پر وہ میزاب کو نقصان پہنچانے سے باز رہا پھر اس نے حجر اسود کو اکھاڑنے کا حکم دیا۔ تو ایک لعنتی آیا تو اس نے اپنے ہاتھ میں ایک ہتھوڑے سے اسے مارا اور کہنے لگا کہاں ہیں ابابیل پرندے اور کہاں وہ کنکریاں؟پھر اس نے حجرِ اسود کو اکھاڑ لیا اور اسے لے کر ساتھ چلے گئے۔ پھر یہ پتھر ان کے ساتھ 22 سال تک رہا یہاں تک کہ اسے واپس لایا گیا ، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون(ابنِ کثیر کا کلام ختم ہوا)۔

جہاں تک ''البویہیون'' کا تعلق ہے تو انہوں نے بھی خلافتِ عباسیہ کے خلاف خروج کیا اور334 ہجری میں عراق پر قابض ہوگئے اور انہوں نے عباسی خلیفہ المستکفی باللہ کو اتار دیا اور اس کی جگہ ''الفضل بن المقتدر'' کو لے کر آئے اور اس کو خلیفہ مقرر کردیا اور اسے ''المطیع للہ'' کا لقب دیا۔

ان کے دینی جرائم میں سے یہ ہے کہ انہوں نے شیعیت کو لوگوں پر فرض کر دیا اور اس پردے کے پیچھے لوگوں میں مجوسیت کے فاسد اعتقادات و افکار پھیلانے شروع کر دئیے۔ اسطرح انہوں نے مسلمانوں کے درمیان شیعہ سنی جھگڑے کو بنیاد بناتے ہوئے بہت سے فتنے کھڑے کر دئیے۔ان کے عہد میں صحابہ کو گالی دینے کا قبیح عمل بہت زیادہ پھیل گیا۔

یہی وہ پہلے لوگ تھے جنہوں نے یومِ عاشورہ کے دن محرم میں بازاروں کو بند کرنے کی بدعت کو ایجاد کیا، قبے نصب کیے اور غم کی علم بنائیں اور اپنی عورتوں کو لے کر اس طرح نکلتے کہ وہ حسین رضی اللہ عنہ کے لیے اپنے چہروں پہ تھپڑ مارہی ہوتی تھی۔اسطرح وہ یہ عمل کر کے اپنے اس عقیدے کو لوگوں کے درمیان نشر کرتے۔انہوں نے اللہ کی ذاتِ باری پر جرأت کی جب ان کے آخری بادشاہ نے اپنا لقب ''الملک الرحیم''رکھا اوراسے اللہ کے نام کے ساتھ متنازع بنایا۔

جبکہ عبیدی جو فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺکی طرف نسبت کا جھوٹا دعویٰ کرتے تھے کہ ہم ان کی اولاد سے ہیں۔ ان کے جرائم بھی کچھ مختلف نہیں ہیں۔ انہوں نے بھی خلافتِ عباسیہ کے خلاف خروج کیا تھا۔ جبکہ اس خروج کے لیے انہوں نے انتہائی خفیہ منصوبہ بندی کی اور بلادِ مغرب میں اہلِ بیت کے نام کو استعمال کرتے ہوئے رازدارانہ طریقے سے اپنی دعوت کو پھیلایا۔ پھر جب انہوں نے بلاد مغرب پر قبضہ کرلیا تو وہ مصر کی طرف متوجہ ہوئے اور اس پر بھی قبضہ کر لیا اور وہاں خلیفہ کو اتار دیا۔

عقیدہ کے میدان میں ان کے بڑے جرائم یہ تھے کہ جب ان کے حاکم نے مصر میں داخل ہونے کا ارادہ کیا تو اس نے اپنا ایک قاصد اہل مصر کی طرف بھیجا اور ان سے پکا عہد کیا کہ وہ وہاں بدعتوں کا اظہار نہیں کرے گا، بلکہ سنت کا احیاء کرے گا لیکن مصر داخل ہوجانے کے بعد انہوں نے غداری کی اور شیعیت کو لوگوں پہ نہ صرف فرض کردیا بلکہ اس کا اظہار لازم قرار دے دیا۔ انہوں نے مساجد کے منبروں کو اپنی دعوت پھیلانے کے لیے استعمال کیا اور اپنی بدعتوں کو خوب پھیلایا اور اپنی اذانوں میں ''حیَّ علی خیرِّ الْعَمَل'' کے الفاظ کا اضافہ کردیا۔

ان کا حکمران ''الحاکم بامر اللہ''ظاہر ہوا جس نے الوہیت کا دعویٰ کیا اور اپنے قاصد ملک کے کونے کونے میں بھیجے جو وہاں جاکے مجوسی افکار پھیلاتے تھے جیسے تناسخ اور حلول وغیرہ کے عقائد۔ پھر وہ یہ زعم رکھتے تھے کہ روح القدس آدمؑ سے علی ؓ کی طرف منتقل ہوئی اور پھر علی کی رو ح''الحاکم بامراللہ'' کی طرف منتقل ہو گئی۔ اس کے ان افکار کے سب سے مشہور داعی تھا، محمد بن اسماعیل الدرزی المعروف ''انشتکین''اور حمزہ بن علی الزوزنی جو کہ فارس کے شہر ''زوزن''کے نواح کا رہنے والا تھا۔ پھر وہ یہ مہم یعنی الوہیت کا نعرہ لے کر قاہرہ واردہوا۔ ان کے دینی جرائم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ حاکم بامر اللہ جس نے الوہیت کا دعوی ٰ کیا تھا،اس کے دور میں انہوں نے دو مرتبہ نبی ﷺ کے جسمِ اطہر کو قبر مبارک سے نکالنے کی ناپاک جسارت کی۔

پہلی کوشش اس وقت کی گی جب بعض زندیقوں نے اسے اشارہ دیا کہ نبی ﷺکے جسمِ اطہر کو مدینہ سے مصر منتقل کر دیا جائے۔ پھر اس نے اس کام کے لیے مصر میں ایک بہت بڑا مزار تعمیر کروایا اور اس پہ بہت سے اموال خرچ کیے اور پھر ابو الفتوح کو بھیجا کہ وہاں جاکر جسمِ اطہر کو نکال لائے لیکن مدینہ کے لوگ اس کے درمیان حائل ہو گئے اور اسے ایسی پریشانی نے آلیا کہ وہ اپنے قصد سے باز آگیا (وللّٰہ الحمد والمنة)۔

دوسری کوشش اس وقت کی جب اس نے ایک آدمی کو بھیجا جو جاکے نبی ﷺ کی قبر مبارک کو کھودے تو وہ قاصد آ کے روضے کے قریب رہائش پذیر ہو گیا اور نیچے سے زمین کھودنے لگا لیکن جلد ہی لوگوں کو پتہ چل گیا اور اسے قتل کردیا گیا۔

پھر جب اللہ عزوجل نے ترک کے السلاجقہ کو ان پہ مسلط کیا جو ہر طرف سنت کا احیاء کرتے اور رافضیت کا قلع قمع کر دیتے تھے۔ اس موقع پر جب عبیدیوں کو محسوس ہوا کہ اب وہ سنیوں کی قوت کے سامنے ٹھہرنہیں سکتے اور انہوں نے جان لیا کہ اب وہ ان کا سامنا کرنے سے عاجز ہیں تو پھر وہ اپنے پرانے طریقے کی طرف متوجہ ہوئے۔ انہوں اس بار یہ منصوبہ بندی کی کہ اللہ کے دین کے دشمنوں صلیبیوں کی طرف قاصد بھیجے اور انہیں مسلمان علاقوں پر چڑھائی کرنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ ان علاقوں کو اپنا وطن بنالیں اور مسلم علاقوں پر قبضہ کرلیں بجائے اس کے کہ اہل السنۃ کا مذہب پھیلے اور سلاجقہ غلبہ پا جائیں۔ جس شخص نے یہ ساری مکاتبت صلیبیوں کے ساتھ کی وہ فاطمی افواج کا امیر ''الافضل'' تھا۔
چنانچہ اسی بات کا ذکر کرتے ہوئے ابنِ الاثیر کہتے ہیں کہ مصر کے علویوں نے جب سلجوقی حکومت کی قوت کو دیکھا کہ وہ شام سے غزۃ تک تمام علاقوں پر قابض ہو گئی ہے اور ان کے اور مصر کے درمیان ''الاقسیس ''نامی ایک چھوٹی ریاست باقی رہ گئی ہے جو انہیں مصر میں داخلے سے روکے تو وہ خوف کھاگئے اور انہوں فرنگیوں کی طرف پیغام بھیجا اور انہیں دعوت دی کہ شام کی طرف خروج کریں اور اس پر قبضہ جما لیں۔

ڈاکٹر مصطفیٰ العنانی صلیبی حملوں کے معاصر لاطینی مورخ '' الکفارو الکاسکی ''سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں''یہ سب کو معلوم ہونا چاہیے بابا کے عہد میں ''بان الثانی''جس کا بڑا چرچا ہے ، جان فرائڈ ، کونٹ فرانڈلینیس کی معیت میں اور چند دوسرے صلیبی شرفاء کے ساتھ جو مسیح کی جائے پیدائش کی زیارت کا بہت شوق رکھتے تھے وہ سب ''جنوۃ''کے شہر کی طرف گئے اور وہاں سے وہ ایک جنگی جہاز میں سوار ہوئے جو ''بومیلا''کے نام سے معروف تھا اور وہ سفر کرتے ہوئے اسکندریہ پہنچے۔ جب ان کا وفد اسکندریہ کی بندرگاہ تک پہنچا تو وہ فاطمی فوجیوں کی معیت میں بیت المقدس کی بندرگاہ کی طرف گئے یعنی ''بندرگاہ یافاہ''۔ لیکن جب انہوں نے شہر میں داخل ہونا چاہا تاکہ وہ مسیح کی زیارت گاہ تک جا سکیں تو شہر کے پہرے دار نے انہیں اجازت دینے سے انکار کردیا اور طلب کیا کہ پہلے وہ داخلے کی سرکاری فیس ادا کریں اس کے مطابق جو کہ عادتاً مقرر تھی اور اس کی مقدار ایک ''بیزنط ''تھی۔

ڈاکٹر العنانی اس واقعہ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ سفر جسے صلیبی امراء نے طے کیا یہ کوئی خالی دور نہ تھا کہ جس کا پہلے کوئی معاہدہ نہ طے پایا ہو اور پہلے سے کوئی رابطہ صلیبیوں اورمصری فاطمیوں کے درمیان نہ ہوا ہو۔ پس یہ ایسے ہی تصور نہیں کیا جاسکتا کہ صلیبی یونہی منہ اٹھائے اسکندریہ کی بندرگاہ پہ پہنچ گئے بغیر اس کے کہ ان کا سامنا رستے میں امن کے مسئولین یا جدید زبان میں سکیورٹی کے اہلکاروں کے ساتھ نہ ہوا ہو اور نہ ہی یہ تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ اس سے قبل اس قسم کی آمد کے لیے ان کا کوئی باہمی رابطہ نہ ہوا ہو۔ جو چیز اس بات کی تائید کرتی ہے کہ فاطمیوں نے اپنے فوجی دستوں کو بھیجا جو ''بومیلا''میں چھپ کر بیت المقدس کی طرف گئے اور اس سے ان کا مقصد ان امراء کو سلاجقہ کے خطرے سے امن میں رکھنا تھا جبکہ اسکندریہ سے بیت المقدس تک آنے جانے کا یہ سلسلہ دو سال تک جاری رہا۔

پھر جب صلیبی لشکر مسلمان علاقوں کی طرف صلیبی حملہ کے لیے یورپ سے نکلے تو رستے میں وہ بزنطینی علاقے میں ''البسفور'' کی ریاست سے گذرے جہاں کے بادشاہ کوفین نے ان سے عہد لیا کہ وہ اس کیساتھ دوستی اور اطاعت کا رشتہ استوار رکھیں گے اور اس نے انہیں حکم دیا کہ مصر میں فاطمیوں کے ساتھ اتفاق کرنے کی کوشش کریں کیونکہ وہ سلاجقہ سنیوں کے خلاف بہت شدید ہیں۔ سلاجقیوں کے خلاف وہ کسی قسم کی مصالحت کے روادار نہیں جبکہ مسیحی رعایا کے ساتھ وہ بہت نرمی برتتے ہیں اور وہ ہمیشہ مسیحی ریاستوں کے ساتھ تفاہم کے لیے تیار رہے ہیں۔

یہ ساری باتیں بین ثبوت ہیں کہ صلیبیوں اور رافضیوں کے درمیان محبت و الفت کے رشتے بہت قدیم تھے۔ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے اور آج پھر ایرانی رافضیوں نے صلیبی امریکیوں کے ساتھ مل کر اورشمال افغانستان کے رافضیوں کی مدد سے طالبان کی حکومت کو گرا دیا۔ اسی طرح عراق پر قبضہ جمانے میں ایران نے امریکہ کے ساتھ عراقی رافضیوں کی مدد کی اور پورا پورا تعاون فراہم کیا۔

لیکن کاش !وہ مسلمانوں کے خلاف اپنے اس برے معاہدے تک ہی محدود رہتے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ انطاکیہ کا محاصر طوالت اختیار کر گیا ہے تو انہیں خوف لاحق ہوا کہ کہیں صلیبی لشکر مایوس ہوکر واپس ہی نہ لوٹ جائے اور سلاجقہ فتح یاب ہو جائیں۔ تو فاطمیوں کے عسکری امیر'' الافضل ''نے اپنے مخصوص سفراء کو صلیبیوں کی طرف بھیجا اور ان سے وعدہ کیا کہ وہ ان کو ہر وہ چیز غذا اور عسکری امداد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے لیکن وہ محاصرہ چھوڑ کر نہ جائیں۔ تو صلیبی قیادت نے الافضل کے سفراء کو بڑی گرم جوشی کے ساتھ خوش آمدید کہا۔پھر اس کے بعد ان کے آپس میں کئی اجتماعات ہوئے۔

چنانچہ ولیم صوری کہتا ہے جسے ڈاکٹر یوسف الغوانمہ نے نقل کیا ہے ''جب انطاکیہ کے صلیبی محاصرے کی مدت طول پکر گئی تو الافضل کا سینہ کھٹکا اور اس نے کہا کہ سلاجقہ کاکسی بھی قسم کا نقصان اس کی فتح کے مساوی ہو گا۔ پس جب الافضل کے سفیروں کا قافلہ واپس آیا تو وہ تحائف وہدئیے لیے ہوئے واپس لوٹا اور ان تحائف میں سلاجقہ کے چار بہترین آدمیوں کے سر کاٹ کر فاطمی بادشاہ کو تحفہ کے طور بھیجے گئے۔

الافضل نے اسی پہ بس نہ کی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس نے سلاجقہ کو صلیبیوں کے جہاد میں تنگ کرنے کے لیے اپنی فوجوں کو ''صور'' کی طرف بھیجا اور اسے بزور طاقت فتح کرلیا۔ پھر اگلے سال اس نے اپنی فوجوں کولیکر بیت المقدس پہ حملہ کر دیا اوروہاں سے ''الاراتقہ''کا علاقہ چھڑوالیا جس کے فورا ًبعد صلیبی تیزی کے ساتھ بیت المقدس کی طرف بڑھے۔ گویا کہ یہ پہلے سے طے شدہ امر تھا تو الافضل نے آگے بڑھ کر بیت المقدس پر قبضہ کر لیا تاکہ اسے آسانی سے صلیبیوں کے ہاتھوں میں دیا جا سکے۔ پھر جب اسے صلیبیوں کی آمد کا علم ہوا وہ اپنی فوج لے کر واپس قاہرہ کی طرف چلا گیا۔

یہ صلیبی فوجیں جو یہاں آ موجود ہوئیں تھیں وہ انتہائی تھکی ہوئی تھیں ، گرمی کی شدت اور طویل محاصروں کے باعث یہاں تک کہ بہت سے پیدل لوگ اور ان کے جانوروں کی اکثریت ہلاک ہو چکی تھی۔ بلکہ وہ صلیبی لشکر جو بیت المقدس کا محاصرہ کرنے کے لیے آیا تھا کوئی بہت بڑا لشکر نہ تھا۔ اس لیے اس بات کا قوی امکان تھا کہ ان کی راہ میں بآسانی مزاحمت کے ساتھ کھڑا ہوا جاسکتا تھا۔ اگر رافضیوں کی ایسی خیانت نہ ہوتی اور صلیبیوں کے ساتھ ان کا ایسا اتفاق نہ ہوتا تو یہ ممکن نہ تھاجبکہ ان کی کل تعداد ایک ہزار پانچ سو گھڑ سوار اور بیس ہزار پیادہ کی تھی۔

یہاں تک کہ ایک مئورخ ''ابن، تغری بردی''نے تعجب کرتے ہوئے کہا '' کہ عجیب بات یہ ہے کہ جب صلیبی مسلمانوں کی طرف نکلے تو انکی حالت بھوک اور کمزوری کے باعث انتہائی دگر گوں تھی اور ان کے پاس رسد بھی انتہائی کم تھی یہاں تک کہ وہ اکثر مردار کھانے پر مجبور ہوتے۔ جبکہ مسلمانوں کی افواج قوت میں اور کثرت میں تھیں لیکن صلیبی ان کے اندر افتراق پیدا کرنے اور ان کی قوت کو توڑنے میں کامیاب ہوگئے۔

شعبان ، 492ہجری میں چالیس دنوں پر محیط ایک لمبے اور خونریز محاصرے کے بعد صلیبی اس بات کے قابل ہوئے کہ وہ بیت المقدس میں داخل ہو جائیں اور شہر پر مکمل قبضہ کر لیں۔ اس کے بعد انہوں نے بیت المقدس میں مسلمانوں کا خوب قتل ِ عام کیا اور مسلمانوں کے علمی ورثہ کو جلا دیا یہاں تک کہ70,000 مسلمان قتل کر دئیے گئے جن میں بہت سے دین کے آئمہ، علماء اور اللہ کے بندے شامل تھے۔ پورا ایک ہفتہ تک قتل و غارتگری کا یہ بازار گرم رکھا گیا یہاں تک کہ جب صلیبی قائد نے عبادت خانے تک جانا چاہا تو اس میدان میں پڑی ہوئی نعشوں میں راستہ بنانا پڑا جبکہ خون اس کے گھٹنوں تک آرہا تھا۔

ان عبیدی بادشاہوں کے جرائم میں سے ایک یہ تھا کہ ہر وہ وزیر جو جہاد کی ندا لگاتا اور اس کے جھنڈے کو بلند کرتا اور کچھ مدت میں اوپر کے لیول تک پہنچ جاتا وہ اسے فارغ کردیتے تھے۔ پس یہ وزیر ''الافضل''جب صلیبیوں کا اتحادی تھا تو یہ ان کا بہت مقرب رہا لیکن جب اس نے صلیبیوں کو روکنے کے لیے دمشق کے لوگوں کے ساتھ اتحاد کیا تو اس وقت کے بادشاہ نے اسے قتل کروا دیا۔

اس طرح ان کا وزیر ''رضوان بن الولخشی''جو لوگوں میں صلیبیوں کے خلاف جہاد کا سب سے زیادہ داعی تھا یہاں تک کہ اس نے ایک نیا محکمہ قائم کیا اور اس کا نام ''دیوان الجہاد''رکھا اور اس نے ارمنی لوگوں سے وہ مناصب چھیننا شروع کر دئیے جو انہوں نے رافضی عبیدیوں سے حاصل کیے تھے بلکہ اس کے ساتھ اس نے خلیفہ کو بھی شام میں قیام پذیر صلیبیوں کے بارے میں دھمکی دی۔

تو اس وقت کے بادشاہ ''الحافظ''نے ارمنوں کو قوت دینے کے لیے ان کے ساتھ خفیہ طور پہ تعاون شروع کر دیااور اس کے ساتھ ہی اس نے فاطمی فوجیوں کو اپنے وزیر ''ابن الولخشی''کے پیچھے لگا دیا تا کہ جہاد کی تحریک کو جاری کرنے کی اسے سزا دی جا سکے۔ یہاں تک کہ وزیر شمال کے علاقوں کی طرف بھاگنے پر مجبور ہو گیا تا کہ جہاد کے لیے وہاں سے مدد حاصل کرے جہاں جہاد کے میدان کا ایک شیر موجود تھا ... اور وہ تھا مجاہد عماد الدین زنگی۔

اسی طرح ایک سنی شافعی وزیر''ابن السلار''نے صلیبیوں کے خلاف جدوجہد کرنے میں اپنی انتھک کوششیں کی اور اس نے نورالدین زنگی کے ساتھ رابطے اور تعاون کا ہاتھ بڑھایاتاکہ وہ بھی فرنگیوں کے خلاف جہاد میں حصہ لے سکے اور انہیں ایک دوسری جہت سے ضرب لگا سکے لیکن باشاہ ''الظافر'' کو اس کی خبر ہوگئی اور اس نے اس کے خلاف منصوبہ تیار کیا اور اسے 548 میں قتل کروا دیا۔

اسی طرح عادل وزیر''طلائع بن زریک''جس نے وزارت سنبھالتے ہی جہاد کا نعرہ بلند کیا اور صلیبیوں کے خلاف گروہ اور لشکر اکٹھے کرنا شروع کردئیے لیکن بیت المقدس کو آزاد کروانے کی اس کی خواہش کی تکمیل سے قبل ہی اسے558 ہجری میں قتل کر دیا گیا۔ جبکہ اس کے خلاف منصوبہ بنانے والا ''شاور السعدی'' تھاجو بادشاہ ''العاضد''کے دور میں ایک محکمہ کا وزیر تھا۔

لیکن جب فوج کے ایک قائد''ابوالاشبال الضرغام''نے بغاوت کرتے ہوئے شاور پر چڑھائی کر دی اور اس سے وزارت چھین لی اور اس کے بڑے بیٹے ''طی بن شاور'' کو قتل کردیا تو شاور نے مجبور ہوکر عادل بادشاہ نورالدین محمود زنگی سے مدد طلب کی اور اسے وعدہ کیا کہ وہ اس کا نائب بن کے رہے گا اور اسے مصر کے خراج کا تیسرا حصہ بھی دے گا اورکہا کہ میں اپنا نقصان پورا کرلوں تو باقی سب تمہارا ہے۔

اس کے باوجود نورالدین اپنی فوج اسکی مدد کے لیے بھیجنے میں متردد تھا تو اس نے استخارہ کیا تو اس کے بعد اس نے اپنا سب سے بڑا کمانڈر ''اسدالدین شرکوہ'' بھیجا اور اس کے ساتھ اپنے بھائی کا بیٹا صلاح الدین بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ شاور کو حکومت دوبارہ لوٹا دیں تو اسد الدین نے اپنے حملہ میں ضرغام کو ختم کردیا اوررجب 559 ہجری میں وزارت واپس شاور کے حوالے کردی۔

لیکن غداری وخیانت کا خمیر شاور کے اندر موجود تھا تو اس نے لوگوں کے ساتھ برا برتاؤکیا اوراپنے وعدے سے مکر گیا ۔ پھر اس نے اسد الدین شرکوہ سے بھی غداری کرنا چاہی جب اس نے اسے کہا کہ شام واپس چلا جائے بغیر اس بات کے کہ وہ ساتھ معاہدہ کے مطابق مصر کے خراج کا تیسرا حصہ بھی بھیجے۔ لیکن اسدالدین نے واپس جانے سے انکار کردیا اور جاکے ''بلبیس''شہر میں قلع بند ہوگیا لیکن شاور جیسے کہ ہمیشہ سے رافضیوں مجوسیوں کی عادت رہی ہے ، اس نے بیت المقدس میں صلیبیوں کو نجات کے لیے بلایا اور انہیں مصر پر غلبہ کی طمع دلائی تو صلیبی بالفعل تیزی ادھر آدھمکے اور انہوں نے شاورور کی فوجوں کے ساتھ مل کر بلبیس میں اسدالدین کا محاصرہ کرلیا۔

لیکن اللہ کی رحمت سے محاصرے کے دوران ہی جب انہیں خبر ملی کہ شہرِ حارم میں صلیبیوں کو نورالدین کے ہاتھوں شکست ہو گئی ہے اور وہ شہر نورالدین کے قبضے میں چلا گیا ہے اور اب وہ ''بانیسا'' کی طرف بڑھ رہا ہے تاکہ اس پر قبضہ کر لیں تو رعب صلیبیوں کے دلوں میں گھر کر گیا اور انہوں نے اسدالدین سے کہا کہ وہ صلح کر لے اور امن کے ساتھ شہر ان کے حوالے کردے تو اسد نے دیکھا کہ اس کے پاس وقت کم ہے اور دونوں فریقوں کے مقابلے کی اس کے پاس تعداد بھی نہیں تو اس نے 559 ہجری میں ان کے ساتھ صلح کر لی اور بہت غصے و قہر کے ساتھ بلبیس شہر سے نکل گیا۔

اس معاملے اور شاور کی اس خیانت کو دیکھتے ہوئے، اور اس کا صلیبیوں کے ساتھ اتحاد دیکھتے ہوئے نیک بادشاہ نور الدین زنگی نے مصر پر دوبارہ حملہ کا ارادہ کیا تاکہ عالمِ اسلام سے خیانت کے گڑھ یعنی فاطمی خلافت کا خاتمہ کردیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ اسکی طمع یہ بھی تھی کہ رافضیت کا قلع قمع کر کے سنی مذہب پھیلایا جائے۔ پس 562 ہجری میں ماہِ ربیع الاول کے نصف میں دمشق سے اسدالدین اور اس کے بھائی کے بیٹے صلاح الدین کی قیادت میں جہادیوں کے قافلے نکلے اور ان کا ہدف فتح تھی۔ لیکن اس فتح کے مقدمات میں ہی اللہ عزوجل نے صلیبیوں اور ان کے اتحادی رافضی مرتدوں کے دل میں رعب ڈال دیا۔ یہاں تک کہ باوجود شاور کے اتحاد کے صلیبی انتہائی خوف زدہ تھے۔

سب سے پہلے معرکے اسد الدین اور شاور اور اسکے اتحادیوں کے ساتھ''بابین''کے بلند علاقوں میں ہوئے اور ان معرکوں کاخاتمہ صلیبیوں اور ان کے رافضی اتحادی کی شکست پر ہوا یہاں سب سے عجیب بات جسے مئورخین نے ذکر کیا ہے کہ صرف دو ہزارسواروں نے صلیبیوں اور مصر کی افواج کو شکست دے دی۔

اسی کرو فر کے ساتھ تیاریاں جاری تھی کہ اللہ کے فضل سے شاور اور فاطمی بادشاہ کے درمیان اختلاف و فرقہ پیدا ہوگیا اور صلیبیوں نے بھی شاور کا بطور وزیر انکار کر دیا۔ اس جد جہد کا آخر میں یہ نتیجہ نکلا نور الدین کی سپاہ اسدالدین اور اسکے بھائی کے بیٹے صلاح الدین کی قیادت میں مصر پر انکا قبضہ ہوگیا۔

لیکن رافضیوں کا حسدو کینہ ابھی ختم نہ ہوا تھا اور وہ اب بھی چالیں چلنے میں مشغول تھے۔ اب وہ اس کوشش میں تھے کہ عبیدیوں کی بادشاہت گرنے کے بعد اسدالدین کی حکومت کو گرایا جائے اور اس کے بعد اس کے بھائی کے بیٹے صلاح الدین کو ہٹایا جائے جس نے567 ہجری میں عبیدی بادشاہ کے نام کا خطبہ مسجدوں میں بند کروا دیا اور دوبارہ عباسی خلیفہ ''المستضی بامر اللہ''کے نام کا خطبہ جاری کروایا۔ اسی لیے اس کے بعد قائد صلاح الدین ایوب کو قتل کرنے کی کئی کوششیں ہوئیں۔

ذی القعدہ574 ہجری میں خلافت کے امین نے جو کہ العاضد کے محل میں رہائش پذیر تھا اور یہاں کا انتظام اس کے اور بعض مصریوں کے پاس تھا۔ اس نے ایک شخص کو استعمال کرتے ہوئے صلیبیوں کے ساتھ معاہدہ کیا کہ وہ مصری علاقوں پر چڑھائی کریں اور جب وہ اس کی طرف پہنچیں گے اور صلاح الدین الایوبی انکی طرف نکلنے کا ارادہ کرے گا تو وہ پیچھے سے اس پر حملہ کرکے اسے اور اس کے انصار کو قتل کردیں گے پھر وہ باقی افواج کے پیچھے نکلیں گے اور انہیں قتل کردیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کا منصوبہ ناکام بنا دیا اور ان کا قاصد جو خط لیکر جارہا تھا پکڑا گیا۔ صلاح الدین نے فوراً اپنے ساتھیوں کی ایک جماعت کو خلافت کے امین کی طرف بھیجا تو انہوں نے اسے بستی کے ایک کونے میں پالیا۔ پھر اسے گرفتار کرنے کے بعد قتل کردیا گیا اور اس کا سر کاٹ کے لے آئے اور ساتھ محل کے تمام متولیوں کو فارغ کر دیا گیا۔

پھر دوسری دفعہ صلاح الدین الایوبی کو رافضیوں نے اس وقت قتل کرنے کی کوشش کی جب سوڈان کا لشکر خلافت کے امین کا انتقام لینے کے لیے صلاح الدین کے خلاف اپنے پچاس ہزار افراد کو لیکر معرکہ آراء ہوا۔ پھر ان کے درمیان متعدد معرکے ہوئے اور فریقین کے بہت سے لوگ قتل ہو گئے۔ پھر صلاح الدین نے ان کے محلے کی طرف مجاہدین کو روانہ کیا جو کہ ''المنصورہ''کے نام سے مشہور تھا۔ اس کے بعد ان رافضیوں کے محلے کو مکینوں سمیت جلا دیا گیا یہاں تک کہ ان کے آخرمیں ''توران شاہ ،الجیزہ'' کے علاقہ کو بھی ختم کردیا گیا۔
لیکن رافضیوں کو اس حد تک بھی چین نہ آیا یہاں تک کہ مصر میں علوی شیعوں کی ایک جماعت نے فرنگیوں کو بلانے کا ارادہ کیا جن میں مشہور شاعرعمارہ الیمنی، عبد الصمد، کاتب ، قاضی العویرسی اور داعی الدعاۃ عبد الجبار بن اسماعیل بن عبد القویٰ، قاضی القضاء ہبۃ اللہ بن کامل اور صلاح الدین کی فوج کے چند امراء کی ایک جماعت شامل تھی۔ یہ طے پایا کہ انہیں صقلیہ ، سواحلِ شام سے بلا کر مصر پر حملہ کی دعوت دی جائے تاکہ انہیں اس کے عوض کچھ مال اور حکومت حاصل ہو جائے ۔ پھر جب وہ حکومت لینا چاہیں گے اور صلاح الدین ان کے مقابل نکلے گا تو وہ قاہرہ اور مصر کے اندر سے اس پر حملہ کر کے فاطمیوں کی حکومت بحال کردیں گے۔

لیکن اللہ کا کرم یہ ہوا کہ ان کا منصوبہ تکمیل سے پہلے ہی پکڑا گیا۔ انہوں نے جس شخص کو اس منصوبہ میں شامل کرنا چاہا ان میں امیر زین الدین علی بن الواعظ تھا جس نے اپنی قوم کے خلاف مردہ ضمیری کا یہ سودہ کرنے سے انکار کردیا اور ساری بات کی خبر صلاح الدین ایوبی کو دے دی۔ تو صلاح الدین ان سب کو بلایا اور سب کو علیحدہ علیحدہ پوچھا جس پر سب نے اعتراف کرلیا پھر اس نے سب کو گرفتار کرلیا اور فقہاء سے ان کے متعلق فتویٰ دریافت کیا تو انہوں نے ان کے قتل کا فتویٰ دیا۔ پھر اس نے ان کے سب بڑوں کو قتل کردیا اور ان کے بچوں اور پیروکاروں کو معاف کردیا اور باقی تمام عبیدی لشکریوں کو دور افتادہ علاقوں میں ملک بدر کردیا۔ اسطرح مصر ایک دفعہ پھر ایک صاف ستھرے صفحہ کی طرح ہوگیا جبکہ صلاح الدین نے اسے نئے سرے سے مذہبِ اہل السنۃ کی طرف لوٹادیا اور ملک کو دوبارہ خلافتِ عباسیہ کے تابع کردیا اور پھر وہ نئے سرے سے اپنی صفیں مرتب کرنے میں مصروف ہو گیا۔

اگر اسے رافضیوں نے اس قدر مشغول نہ کر دیا ہوتا اور اس کے قتل کے لیے اس قدر منصوبے برپا نہ کیے ہوتے تو وہ 583 ہجری میں حاصل ہونے والی فتحِ مبین میں اس قدر تاخیر نہ کرتا۔ کیونکہ وہ سار اعرصہ رافضیوں کے خلاف قتال میں مشغول رہا پھر جب وہ ان کے ساتھ لڑائی سے فارغ ہوا تو اس نے اپنی لڑائی کو صلیبیوں کی طرف متوجہ کیا یہاں تک کہ حطین کے فیصلہ کن معرکے کے بعد ''بیت المقدس''مسلمانوں کے پاس واپس آ گیا۔ اسی لیے صلاح الدین ایوبیؒ کی اس نصرت کو اللہ کے دین کی بزرگی و عزت کا سبب مانا جاتا ہے اور اہل السنۃ اسی قدر عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جتنا رافضی اس بطلِ اسلام سے بغض رکھتے ہیں۔

(یہاں امام ابو مصعب الزرقاوی شہیدؒ کا پہلا درس مکمل ہوا)​
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65

ھَلْ اَتَاکَ حَدِیْثُ الرَّافِضَة
(دوسرا درس)​

جب خلافتِ عباسیہ کا دوسرا دور شروع ہوا تو ہم دیکھتے ہیں کہ رافضیوں نے دوبارہ سامنے آنا شروع کیا لیکن اس دفعہ ایک نئے روپ میں اور وہ تھا ''تقیہ کا لباس''جس کا وہ عقیدہ رکھتے ہیں تاکہ انہیں حکومت مل جائے۔ ایسے جیسے کوئی بھیڑیا بکری کا لباس پہن لے اور اس سے چرواہا دھوکہ کھاجائے اور اپنے ریوڑ کو خطرے میں ڈال دے اور اپنے دین و دنیا کے امر سے غافل ہوجائے۔

تو وہ بھیس بدل بدل کے بڑے عہدہ داروں کے دروازوں پر اپنے نفاق کو چھپائے ہوئے جمع ہونے لگے اور سری و جہری انکی اطاعت کا اظہار کرنے لگے اور اندرون ِ خانہ ان کی سرگرمیاں جاری رہیں یہاں تک کہ بہت سے عباسی خلفاء ان سے دھوکہ کھا گئے۔ پس دیکھنے والا دیکھتا ہے کہ وہ ہمیشہ حکومت میں اعلیٰ اور حساس مناصب اور عہدوں کے پیچھے بھاگتے نظر آتے ہیں۔

ایسا ہی ایک مشہور رافضی ''ابن العلقمی''تھا جس کو عباسی خلیفہ معتصم نے غفلت وضیاع میں گرتے ہوئے وزیر بنا ڈالا جبکہ اسے اس کے اجداد رافضہ کی تاریخ سے عبرت حاصل کرنا چاہیے تھی۔لیکن اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے ہاں جس بات کا فیصلہ ہو چکا تھا وہ ہونے کو تھی اور تاریخ ہمارے لیے رقم کرتی ہے کہ یہ اہل السنۃ کے خلاف ان جرائم کا ارتکاب کرتے رہے اور ہر دور میں ان کے خلاف گھات لگا کر بیٹھے رہے۔

پس اس کی جزاء عباسی خلیفہ کو کیا ملی کہ اس حاقد ابن العلقمی نے اپنے رافضی مجوسی استاد نصیر الدین الطوسی کے ساتھ مل کر ملک کو تباہ کردیا اور بندوں کو قتل کروا دیا اور خلیفہ کو معزول کروا دیا جبکہ اس نے تاتاریوں کے بادشاہ ''ہلاکو خان''کے ساتھ مراسلت کر کے اسے بغداد پر حملہ کرنے کی طمع دلائی اور اس سے وعدہ کیا کہ وہ اسکی نصرت کرے گا اور اس کے مقابل اس کو حکومت عطاکی جائے گی۔

اس نے خلیفہ کو اس وہم میں مبتلا کر دیا کہ فوج کی تعداد ضرورت سے زیادہ ہو گئی ہے یہاں تک کہ ان کی کثرت ملکی اقتصادیات پر بوجھ بن گئی ہے۔ جبکہ حکومت کو دوسرے امور میں مال کی بہت ضرورت ہے تو اس نے خلیفہ سے کہا کہ فوج میں کمی کر دے۔ یہاں تک کہ خلیفہ ایسا کرنے پر راضی ہو گیا تو پھر کیا تھا ابن العلقمی نے ایک بعد ایک گروہ در گروہ فوج کو فارغ کرنا شروع کر دیا یہاں تک کہ فو ج کی تعداد ایک لاکھ اور پھر محض دس ہزار رہ گئی۔

چناچہ حافظ ابنِ کثیرؒ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ''کہ اس حادثہ سے قبل وزیر علقمی اس کوشش میں تھا کہ کسی طرح فوج میں کمی کر دی جائے۔ حتی کہ المستنصر کے آخری ایام ِ حکومت میں یہ تعداد صرف ایک لاکھ فوج رہ گئی جن میں افسر اور اکابر بہت زیادہ تھے ۔ پھر وہ ان کوششوں میں لگا رہا یہاں تک کہ صرف دس ہزار فوج باقی رہ گئی ۔ پھر اس نے تاتاریوں سے مکاتبت کی اور انہیں طمع دلوائی کہ ملک پر قبضہ کر لیں اور ان کے لیے اس نے کام آسان کر دیا اور انہیں ساری حقیقت بیان کی اور فوجیوں کی کمزوریاں بیان کی اور اس میں اس کی طمع صرف یہ تھی کہ ''اہل السنۃ '' کا مکمل صفایا ہو جائے اور بدعتی رافضیوں کا ظہور ہو اور خلافت فاطمیوں کے ہاتھوں چلی جائے اور علماء و مفتیان قتل کردئیے جائیں... اور اللہ اپنے امر میں غالب ہے!

اس وقت علقمی نے ہلاکو کو پیغام بھیجا اور اسے بتایا کہ کیسی کمزوریاں ہیں جو عود کر آئی ہیں۔ پھر جب ہلاکو بغداد کو تاراج کرنے نکلا یہاں تک کہ جب وہ شہر کی حدود تک پہنچا تو ابن العقمی اپنے خاصہ داروں کی ایک جماعت لیے اس کے پاس پہنچا ۔ ابن العلقمی نے ہلاکو کو ایک منصوبہ بتایا کہ وہ خلیفہ اوراس کے قائدین کو لیکر بغداد سے باہر نکلے گا تاکہ ان سب کا خاتمہ آسان ہو جائے۔

پس !ابن العلقمی واپس ہوا اور خیانت و غداری کے تانے بانے بننے میں مصروف ہو گیااور خلیفہ کو کہنے لگا کہ باہر نکل کر اس کے ساتھ ہلاکو سے صلح کر لے اور بہترہے کہ اپنے قاضی اور تمام حاشیہ برداروں کو ساتھ لے چل۔ پھر واقعتا خلیفہ اپنے رافضی وزیر کی حمایت کر گیا... کیسے نہ کرتا کہ اسی نے اسے منتخب کیا تھا اور اس پہ اعتماد کیا تھا۔پس !اس سنی کا ایسے مشہوررافضی کو اپنے قریب کرنے کا نتیجہ کیا نکلا؟

نتیجہ وہی نکلا جس کا ان رافضیوں نے منصوبہ بنایا تھا... غداری وخیانت یہاں تک کہ جب خلیفہ ہلاکو کے پاس پہنچا تو ہلاکو خلیفہ کو قتل کرنے کے لیے تیار نہ تھا بلکہ وہ خوف زدہ تھا لیکن ابن العلقمی اور طوسی نے اسکو بھڑکایا اور اسے اس کے ساتھیوں سمیت قتل کرنے کی نصیحت کی یہاں تک کہ بالفعل ایسا ہی کردیا گیا۔ پھر تاتاری بغداد میں داخل ہوئے اور اس میں انہوں نے انسانیت کا بہت بڑا قتل عظیم کیا ، کتابیں اور لائبریریاں جلادی گئی، یہاں تک کہ اہلِ ذمہ یہود و نصاریٰ باقی بچے اور وہ لوگ بچے جنہوں نے وزیر ابن العلقمی کے گھر پناہ لی تھی۔

چنانچہ امام الذہبی لکھتے ہیں '' 656 ہجری میں اللہ کا امر بغداد پہ پورا ہوگیا اور وہ اوندھے منہ اپنے چھتوں پر گر گیا اور ایسے بھوسے کی طرح ہو گیا کہ گویا یہاں کبھی کوئی شہر تھا ہی نہیں... انا للّٰہ و انا الیہ راجعون... اس شہر میں منگولوں نے اپنے سفلی پن کا مظاہرہ کیا، اوباشوں اور منافقوں نے ان کا ساتھ دیا اور ہر اس شخص نے ان کا ساتھ دیا جو رب العلمین پر ایمان نہ رکھتا تھا اور یہ ابن العلقمی وزیر مسلمانوں پر والی تھا لیکن یہ بہت کٹر رافضی تھا۔ پس جب تارتاریوں نے بغداد کو گھیر لیا، جب قوتیں پست ہوگئیں، گلے خشک ہوگئے اور دل حلق کو پہنچ گئے تو ایسے وقت میں وزیر نے خلیفہ معتصم کو اشارہ دیا کہ وہ کہ ہلاکو کے ساتھ مذاکرات کرے تو پہلے وہ رافضی خود اسکی طرف نکلا اور اس نے اپنے اور اپنے اہل کے لیے امان حاصل کرلی پھر واپس آیااور خلیفہ سے کہنے لگا کہ بادشاہ اپنی بیٹی کی شادی تیرے بیٹے ابو بکر سے کرناچاہتا ہے اور اس کام کے عوض وہ تجھے خلافت پر باقی رکھے گا جیسے کہ باقی سلجوقی خلفاء کا حال تھا اور پھر وہ چلا جائے گا تو اس کی طرف جا تاکہ لوگوں کا ناحق خون بہنے سے بچ جائے۔

خلیفہ اپنے حاشیہ برداروں کے گروہ کے ساتھ بادشاہ ہلاکو خان کی طرف گیا تو اس نے اسے ایک خیمہ میں ٹھہرایا پھر اس کے بعد وزیر علقمی آیا تو اس نے اکابرین کو طلب کیا تاکہ معاہدہ کیا جائے تو جب وہ نکلے تو انہیں قتل کردیا گیا اسی طرح ان سب کو بلا کر بار ی باری قتل کردیا گیا ۔ پھر بغداد میں تلوار کا راج تھا، عزتیں لٹ گئیں، لوگ قتل ہو گئے اور ہر چیز کو آگ لگادی گئی اور ...بغداد میں قیامت برپا ہوگئی ... و لا حول و لا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم تیس سے کچھ اوپر دنوں تک قتل و غارت گری کا بازار گرم رہا ہر روز تاتاری ایک محلے میں داخل ہوتے اور اس محلے کا نام و نشان مٹادیتے یہاں تک کہ خون کی ندیاں بہ گئیں اور پورا شہر مقتولین کی لاشوں سے اٹ گیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں دس لاکھ اسی ہزار افراد کو تہ تیغ کردیا گیا۔ جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ آٹھ لاکھ افراد قتل ہوئے جبکہ یہ ایسا معاملہ ہے جسے ضبط میں لانا ممکن نہیں۔ پس انہوں نے رستوں ، چوراہوں، گھروں اور چھتوں پر اور ہر جگہ قتل عام کیا جس کا شمار نہیں۔ بلکہ یہ ایسی عظیم جنگ تھی کہ اسلام میں اس سے قبل ایسی لڑائی نہ ہوئی تھی۔ انہوں نے عورتوں اور بچوں کو قید کرلیا اور ان قیدیوں میں خلیفہ کا چھوٹا بیٹا اور اس کے بھائی بھی تھے۔ جبکہ خلیفہ اور اس کے بیٹے احمد، عبد الرحمن اور اس کے اعیان کو قتل کردیا گیا۔خلیفہ کے چچاؤں علی، حسین ، یوسف اور اہل بیت کو قتل کیا گیا۔
محی الدین الرئیس العلامہ ابن الجوزی کے بیٹوں عبد اللہ ، عبد الرحمن اور عبد الکریم کو نکالا گیا اور ان کی گردنیں اڑادی گئی۔ جبکہ اس کے علاوہ علماء ، امراء اور اکابرین کی بہت بڑی جماعت کو قتل کیا گیا۔ بغداد پر آگ کا راج تھا یہاں تک کہ اسلام کا دار الخلافہ جل اٹھا، جامع الکبیر جل گئی اور بے مہار آگ نے بد نصیب کتب خانے کی راہ دیکھ لی اور آگ ہر طرف پھیل گئی اور اس سے بچنے والوں میں صرف یہی ملعون رافضی تھے۔

لیکن کونسی ایسی آخری حد تھی جہاں یہ رافضی رک جاتے۔ ان کے جرائم صرف خلیفہ اور اس کے حاشیہ برداروں کے خلاف ہی نہ تھے کہ اسلامی حکومت کو گرانے کے بعدختم ہو جاتے بلکہ ان کا ضرر عام مسلمانوں کے خلاف بھی شدید تر تھا۔ انہوں نے راستے کاٹنے شروع کردئیے، قافلوں کو لوٹنا اور ان کے اموال غصب کرنا اور ہر وسیلے کیساتھ لوگوں میں رعب پھیلانا ان مفسدین کا وطیرہ بن چکا تھا ۔ یہ اچانک لوگوں کورستوں اور وادیوں سے اچک لے جاتے اور انہیں دور افتادہ علاقوں میں بے آسرا پھینک دیتے اور جو کوئی مزاحمت کرتا اس کے سینے میں خنجر گھونپ دیا جاتا تھا۔پس اس زمانے میں لوگوں کا یہ دستور تھا کہ جب کوئی اپنے گھر سے زیادہ دیر کے لیے غائب ہو جاتا تو اس کے بارے میں سمجھ لیا جاتا کہ اسے باطنیہ فرقہ کے لوگ اٹھاکے لے گئے ہیں اور اسے قتل کردیا ہے تو اس کے گھر والے اپنے غمگین چہرے لیے افسوس کرنے بیٹھ جاتے کہ شاید کہیں وہ کبھی لوٹ آئے۔ اس وقت لوگوں کی یہ عادت بن گئی تھی کہ وہ عام راہوں پر چلنے سے گریز کرتے تھے۔

پس مئورخ ابن ا لأثیر ہمارے لیے باطنیہ فرقہ کا ایک مئوذن کو اغوا کرنے کا واقعہ نقل کرتے ہیں۔'' ایک دن باطنیہ فرقہ کے لوگوں نے ایک مئوذن کو اس کے گھر سے اٹھایا اور اٹھانے والا اس کا ایک پڑوسی باطنی تھا تو اس کے گھر والے اس پر نوحہ و بین کرنے لگے تو وہ اس مئوذن کو لیکر چھت پر چڑھے تاکہ اسے دکھائیں کہ اپنے گھر والوں کی حالت دیکھو کیسے وہ اپنے آپ کو تھپڑ مار رہے ہیں اور رو رہے ہیں جبکہ وہ خوف کے مارے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکال سکتا تھا''۔

اسی طرح ایسے بہت سے طریقے تھے جن کے ذریعے وہ مسلم معاشرے کے افراد کو تنگ کرتے اور ان کے اندر رعب پھیلاتے تھے۔ وہ لوگوں کو مختلف حیلے بہانوں سے اغوا کرتے اور انہیں غیر معروف جگہوں پر لے جاتے جہاں وہ انہیں قید کر دیتے یا انہیں قتل کر دیتے تھے۔ جب بھی کوئی انسان ان کے قریب سے گزرتا تو اسے پکڑ کر اپنے کسی ڈیرے کی طرف لے جاتے تھے اور وہاں اسے تعذیب دیتے پھر اسے قتل کر کے اسی ڈیرے میں اس مقصد کے لیے بنے ہوئے گڑھے میں پھینک دیتے تھے۔

ان کا طریقہ واردات یہ تھا کہ ان کا ایک آدمی راستے کے شروع میں بیٹھ جاتا اور یہ باطنیہ کا ہی خبیث آدمی ہوتا تھا اور جب بھی کوئی اس راہ پہ گذرتے ہوئے اس سے راستہ پوچھتا تو اسے وہ اگلے مرحلے کے رستے کی طرف ڈال دیتا تھا تو وہ مسافر اس کا احسان مند ہو کر اگلے پھندے کی طرف چل دیتا یہاں تک کہ جب ان کے ہتھے چڑھ جاتا تو وہ اسے پکڑ کے قتل کردیتے اور اس کنویں میں پھینک دیتے تھے۔

لیکن زیادہ وقت نہ گذرا تھا کہ لوگوں کو باطنیہ فرقہ کا یہ طریقہء واردات پتہ چل گیا تو انہوں نے ان سب کو پکڑکے قتل کردیا۔ ہوا یوں کہ ایک دن ایک آدمی اپنے دوست کے گھر داخل ہوا تو اس نے اس کے گھر میں بہت سے کپڑے اور جوتے دیکھے تو وہ گھر سے باہر نکل آیا اور اس نے یہ سارا ماجرا لوگوں سے بیان کیا تو لوگوں نے گھر پر ہلہ بول دیا اور وہاں انہوں نے بہت سے کپڑے دریافت کیے تو وہ اپنے اپنے مقتولین کے کپڑے پہچاننے میں لگ گئے تو لوگ سیخ پا ہوگئے تو سب لوگ ملکر ایک عالم ِ دین ابی القاسم مسعود بن محمد الخجندی الشافعی کی قیادت میں نکلے اور لوگ اپنا اپنا اسلحہ لیکر آئے ، پھر انہوں نے خندقیں کھودیں اور اس میں آگ بھڑکائی گئی اور لوگوں کو حکم دیا گیا کہ باطنیہ فرقہ کے لوگوں کو فوج در فوج پکڑ کے لایا جائے اور انفرادی طور پر بھی پکڑ کے لائیں اور پھر ان کی خلقتِ کثیر کو قتل کر کے آگ میں پھینک دیا گیا۔

یہ بات قاری کے علم میں آنی چاہیے کہ رافضی قزاقوں کی سیاہ تاریخ جسکا اوپر ذکر کیا گیا ہے ان کا امن پسند لوگوں کو قتل کرنا، انہیں خوف و رعب میں مبتلاء کرنا ... ان کے ایسے ہی جرائم ہیں جنہیں آج وہ ارضِ دجلہ وفرات عراق میں دہرارہے ہیں۔ آج انہوں نے پولیس میں بھرتی ہوکر اپنے چہرے کو چھپا لیا تاکہ ان کے لیے قانونی اختیار کی راہ آسان ہو جائے ۔ وہ آج بے گناہ لوگوں کو گھروں سے اٹھاتے ہیں اور پھر انہیں تعذیب دے کر قتل کر دیتے ہیں اور مسلمانوں کی عورتوں پر زیادتی کرتے ہیں اور مسلمانوں کے گھروں سے تفتیش کے بہانے اموال لوٹتے ہیں اور کوئی انہیں منع کرنے والا نہیں۔ بلکہ ان کے جرائم اہل السنۃ کے اہل علم لوگوں ، علماء ، پروفیسرز اور ڈاکٹرز، قضاۃ اور اساتذہ کے قتل میں بھی بہت بڑھ گئے ہیں۔آج رافضیوں کے علاوہ کون ان کا شکار کر رہا ہے جب ان کو ان تمام باتوں کے احکام ان کے مجوسی مرجع سے مل رہے ہیں اور ان کے ایسے بیانات انٹر نیٹ پر بھی شائع ہوچکے ہیں جنہیں ہر عاقل و غیر عاقل نے پڑھ لیا ہے اور جن کے انکار کی کوئی مجال نہیں۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
عہد خلافتِ عثمانیہ
عثمانیوں کا عہد جس میں انہوں نے مسلمانوں کے اندر جہاد کی تحریک کو ایک نئی روح پھونک دی اور دنیا کو نئے سرے سے فتح کرنا شروع کیا یہاں تک کہ وہ فتوحات کو بڑھاتے ہوئے یورپ تک جاپہنچے اسطرح کہ صلیبی معرکوں میں جو خسارہ مسلمانوں نے اٹھایا اس کا ازالہ کیا جائے... ایسے زریں عہد میں بھی غداری و خیانت کے مرتکب ہاتھ حرکت میں رہے۔رافضیت کا فکرو منہج جو یہودی الاصل ہے ہمیشہ مسلمانوں کے کافروں کے خلاف جہاد میں حائل رہا، اس عہد میں نئے سر ے سے اُٹھا تاکہ عثمانی مجاہدین کو یورپ کو سبق سکھانے سے روک سکے۔ انہوں نے بہت سی علیحدگی کی تحریکیں چلائیں جن میں انہیں اسلام کے دشمنوں کی مکمل حمایت حاصل رہی۔

انہوں نے برطانیہ، پرتگال، فرانس اور روس کے ساتھ تعاون کا ہاتھ بڑی گرمجوشی کے ساتھ بڑھایا یہاں تک کہ انہوں نے خلافتِ عثمانیہ کو کمزور کردیا اور وہی لوگ خلافتِ عثمانیہ کے سقوط کا سب سے بڑا سبب تھے۔ انہوں نے مختلف محاذ علیحدگی کی شکل میں شروع کئے۔ پس ''صفوی''شروان، عراق اور فارس کے علاقوں میں اٹھے اسی طرح بہائی فارس کے علاقوںمیں ظاہر ہوئے اور ان کی سرگرمیاں مختلف علاقوں میں جاری رہیں۔ اسی طرح قادیانی ہندوستان میں ظاہر ہوئے اور شام کے علاقوں میں نصیریہ اورالدروز کے فرقے ظاہر ہوئے۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
صفوی فرقہ
صفوی فرقہ کے سیاسی جرائم میں ایک یہ ہے کہ انہوں نے خلافتِ عثمانیہ کے خلاف خروج کیا اور سن 1500 عیسوی میں اپنی ایک علیحدہ ریاست قائم کی اور وہاں رافضیت کو بطور دین نافذ کیا اور اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ انہوں نے اہل السنۃ کے ساتھ جنگ کی جو کہ وہاں اکثریت میں تھے یہاں تک کہ اس علاقے میں سنیوں کی تعداد 65% تک تھی۔ پھر1588 عیسوی میں انہوں نے شاہ عباس صفوی کے عہد میں انگریز کے ساتھ اتحاد کیا اور انہیں اپنے ملک میں بسایا اور ان کے ساتھ ایسے منصوبے بنائے تاکہ خلافتِ عثمانیہ کے خلاف تحریک چلائی جا سکے۔ ان کے اجتماعات میں انگریز موجود ہوتے تھے جن میں مشہور ''سر انتھونی اوررابرٹ چارلی''تھے۔

جبکہ ان کے ایسے جرائم جن کا تعلق عقیدہ سے ہے کہ انہوں نے ایرانی حاجیوں کو بیت اللہ، مکہ مکرمہ کی بجائے ''مشہد'' کا حج کرنے کی طرف لگا دیا۔ ان کے شاہ عباس صفوی نے مشہد میں حج ادا کیا اس کام کو شروع کرتے ہوئے وہ اپنے قدموں پر پیدل چل کے گیا تاکہ لوگوں کو بیت اللہ کے حج سے پھیرے اور خود اس کام کے لیے نمونہ بن جائے۔ اس وقت سے مشہد شہر ایرانی رافضیوں کے لیے ایک مقدس شہر بن گیا ہے۔ صفویوں نے شاہ عباس کے عہد میں مغربی مشنریوں کو اپنے ملک میں آنے کی اجازت دی یہاں تک کہ انہیں گرجے تعمیر کرنے کی اجازت دی اور انگریز کے ساتھ اقتصادی، عسکری اور سیاسی تعاون کے پل بنائے۔

چنانچہ اس کا ذکر کرتے ہوئے ''سلیم واکیم''نے اپنی کتاب ''ایرانی تہذیب''میں کہا کہ '' پرتگالیوں کے علاقہ میں ظہور کے بعد ایران نے برطانیہ ، فرانس اور ہالینڈ کے ساتھ تجارتی تعلقات استوار کرنا شروع کیے یہاں تک کہ یہ تعلقات 1857 میں شاہ عباس کے عہد میں ہی ڈپلومیٹک لیول سے بڑھتے ہوئے اتفاقی اور دینی سطح پر پہنچ گئے۔پھر علاقے میں مغرب کے ساتھ تعلقات میں پالیسی کی تبدیلی واضح محسوس کی گئی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ شاہ نے ڈپلومیٹس، تاجر ، صعنت کار اور فوجیوں کے علاوہ مغربی مشنریوں اور ان کے پادریوں کو ملک میں آنے کی اجازت دی۔ حتی کہ انہوں نے بہت سے گرجا گھر تعمیر کیے۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
بہائی فرقہ
اس نے بھی خلافتِ عثمانیہ کے خلاف خروج کیا اور مغربی استعما ر کے ساتھ تعاون کیا اور جہاد فی سبیل کو معطل کرنے کا آوازہ بلند کیا بلکہ انگریز استعمار کے خلاف اسے بالکل منسوخ قرار دے دیا، جس کا مطلب تھا کہ استعمار کے سامنے مکمل طور پر سرِ تسلیم خم کردیا جائے۔ اس فرقہ کے لوگ یہودیوں کے خفیہ کلبوں کے ساتھ وابستہ تھے جیسے کہ ''خفیہ فری میسن''جس کا کام دین اسلام کا خاتمہ تھا اور اسکی حکومت کو ختم کرنا تھا تاکہ اسکی کہیں بھی بنیاد قائم نہ ہو۔ اس کے لیے انہوں نے فتنوں اور قتل و غارتگری کا سہارا لیا۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
قادیا نی فرقہ
اس نے بھی انگریز وں کے ساتھ تعاون کیا جبکہ اس فرقہ کو خود انگریزوں نے ہی شروع کیا تھا اور اس کے پھیلانے میں خود انگریز نے مدد دی۔ یہاں تک کہ ان کا لیڈر غلام ملعون کذاب سامنے آیا جس نے پہلے دعوی کیا کہ وہ مہدی المنتظر ہے پھر پلٹا کھا کے کہا کہ وہ نیا نبی ہے اور اس نے ساتھ ہی جہاد کی تعطیل کا فتویٰ داغ دیا تاکہ اپنے پیروکاروں کو انگریز کے خلاف جہاد سے مکمل طور پر برگشتہ کر دے۔ وہ جہاد کی تعطیل میں اس قدر سخت واقع ہوا گویا یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہ لوگ جہاد کے خلاف ہی پیدا کیے گئے ہیں۔اسی لیے آج ان کے پیروکاروں کو ہم فلسطین میں دیکھتے ہیں کہ وہ بہت زیادہ متحرک ہیں تاکہ یہودیوں کے خلاف جاری جہاد کو رسوا کرسکیں۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
النصیریہ فرقہ
انہوں نے بھی صلیبی معرکوں کے صلیبیوں کے ساتھ تعاون کیا اور وہ شام اور بیت المقدس کے علاقوں میں سقوط کا سبب تھے۔ اسی طرح انہوں نے تاتاریوں کے ساتھ بھی بلاد شام کی تباہی میں تعاون کیا۔

الدروز فرقہ
اس فرقہ نے اپنے بہت سے جوانوں کو صہیونی دفاعی فوجوں میں بھرتی کیا اس طمع میں کہ لبنان اور شام میں ان کی مستقل حکومت قائم ہونے میں مدد ملے۔ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں جولان اور اردن میں صہیونی دفاعی فوجوں میں حصہ لیتے ہوئے دروز نے مسلمانوں کو بہت تباہی سے دوچار کیا اور ایسا کرنے میں کسی بوڑھے پر اور نہ ہی کسی بچے پر انہوں نے کوئی رحم نہ کیا۔

خلافتِ عثمانیہ کے ختم ہوجانے کے بعد جب عالمِ اسلام صہیونی صلیبی منصوبہ بندی کے مطابق چھوٹی چھوٹی حکومتوں میں تقسیم کردیا گیا اور اس میں رافضی بھی تھے۔ انہوں نے فارس کے علاقوں میں رافضیت کی ایک مرکزی حکومت قائم کی جو ان کے دینی معاملات میں بھی ان کا مرجع تھی۔ پھر وہاں ان کے اہم اجتماعات ہونے لگے۔ یہاں تک کہ جب بھی رافضیوں کو کوئی اہم مسئلہ درپیش آتا تو وہاں اکٹھے ہو کر مشورہ کرتے تھے۔ جب کبھی وہ کسی مسئلہ میں عام رافضیوں کے لیے کوئی فتویٰ صادر کر نا چاہتے ہیں جو ان کے حالات کے موافق ہو تو یہودیوں کی طر ح ان کے خفیہ اجتماعات ہوتے ہیں جس میں اس مملکت کو مرکز بنا کر وہ رافضی فکر کو پھیلاتے ہیں اور پھر بعد میں امور کو تھوڑا سا سیاست کی طرف پھیر دیتے ہیں۔

یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسکی طرف ''خمینی''کتے نے بھی اشارہ کیا تھا اپنی کتاب ''الحکومۃ الاسلامیہ''میں اور اس میں اس نے صراحت کے ساتھ اس حکومت کو اللہ کی نشانی قرار دیا''شریعتِ مداری''۔ اپنی ایک ملاقات میں جو کویت کے ایک رسالہ ''السیاسۃ''کے ساتھ بتاریخ 26 جنوری 1987 میں کی اور اس میں اس نے دوٹوک بات کہی '' کہ ایران اور قم میں شیعہ کی حکومت قائم ہے اور اس میں اضافہ کرتے ہوئے کہا پوری دنیا میں شیعہ کی ایک عالمی مجلسِ اعلیٰ کا ہونا بہت ضروری ہے۔

یہ در حقیقت وہی منہج ہے جسے ان کے آیہ اور امام ''خمینی ''کتے نے اس نداء کے ساتھ قائم کیا'' کہ شاہ کی حکومت کو گرادیا جائے اوروہاں کیمونزم کو ختم کیا جائے اور اسکے مقابل ایک عالمی اسلامی انقلاب برپا کیا جائے تاکہ اسلام کے مبادی کو عام کیا جائے۔ اس اسلام سے اسکی مراد رافضی اسلام ہے نہ کہ حقیقی اسلام! بلکہ اس کے اس عمل سے بہت سے اہل السنۃ بھی متأثر ہوئے جو ان کی تاریخ سے غافل تھے۔ وہ ملل، عقائد اور النحل کی کتب میں رافضیوں کی خبریں اور ان کے احکام پڑھتے تھے لیکن وہ خیال کرتے کہ یہ پہلے زمانوں کی باتیں ہیں اور اب اس دور میں ایسے شیعہ اور ان کے ایسے اصول باقی نہیں رہے۔

یہاں تک کہ اگر کوئی ان کے پاس جاکر رافضیوں کا حکم پوچھتا ہے؟ تو اس کے لیے یہ جواب سامنے آتاہے کہ کہ وہ کافر ہیں اور نظریاتی جہت سے ان کے خلاف لڑائی واجب ہے لیکن عملی اعتبار سے وہ ایسے آدمی کو ان کے ساتھ تقرب اور اتفاق کی دعوت دیتے نظر آئیں گے۔

یہ بات ذہن میں اور اپنے علم میں اچھی طرح لانی چاہیے کہ ''خمینی''خنزیر کا کردارخود امریکہ کا تراشیدہ ہے۔جسے امریکہ نے فرانس کے خفیہ گوشوں میں خود تیار کیا۔ پس اسی طرح امریکیوں اور صہیونیوں کا منہج ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے زرخرید ایجنٹوں کے ذریعے تبدیلیاں لاتے رہتے ہیں۔ ایسا اس سبب ہوتا ہے کہ ان کے پہلے ایجنٹ کی تاریخِ صلاحیت ختم ہوچکی ہوتی ہے یا پھر کوئی دوسرا ایجنٹ اس لیے آتا ہے تاکہ کوئی نیا سونپا گیا کام سر انجام دے اور پھر یہ نئے ایجنٹ پہلوں سے زیادہ بہتر انداز میں کام کرتے ہیں اور اپنے آقاء کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔

جیسے کہ کتاب ''وجاء دور المجوس''میں ہے کہ''خمینی کمینی''نے دنیا میں اپنے پیروکاروں کے ذریعے ایک ہی نعرہ پھیلایا کہ ''امریکہ دنیا میں ہرمشرقی قوم کی خرابی کے درپئے ہے'' اور خمینی نے لوگوں کووعدہ دیا کہ وہ امریکہ کے پنجے کاٹ دے گا اور لوگ گمان کر نے لگے کہ اس کے پیچھے کوئی لاوا پک چکا ہے لیکن جب جمہوریت کی حکومت قائم ہوئی تو لوگوں کو انقلابیوں کے عجیب و غریب منظر دیکھنے کو ملے جس کے وہ دعوے کرتے تھے۔

(۱) امریکہ ان ملکوں کی صف میں شامل تھا جس نے اس جدید نظام کو منظور کرتے ہوئے اس کا اعتراف کیا۔

(۲) خمینی کے اس انقلاب نے امریکی سفارت خانہ بھی بند نہ کیا۔

(۳) ایرانی تیل پہلے کی طرح پھر امریکہ کے ذخیرہ خانوں میں جمع کیا جانے لگا اور پھر وہاں سے اسرائیل پہنچنے لگا۔

(۴) ''پروسلنجین'' کا معاہدہ جو امریکی کوششوں کے ساتھ ہوا اس نے خمینی کے ساتھ تین ملاقاتیں کی اور آج تک ان ملاقاتوں کی حقیقتِ حال کا کسی کو علم نہیں۔

(۵) بہت سے امریکی صحافی اپنے کام پر واپس آگئے اور بعض رسالوں نے ان کی تعداد کا اندازہ سات ہزار بتایا ہے۔

(۶) شاہ نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ اسے امریکی جنرل ''ہویزر''کی موجودگی کا علم تھا جبکہ ہویزر یورپ میں امریکی ارکان کی قیادت کا نائب تھا۔ شاہ نے کہا کہ میرے جرنیلوں کو ہویزر کے دوروں کا علم نہ تھا لیکن جب اس کی زیارت کی خبر چھپی تو سوویت یونین کے میڈیا نے کہا کہ ہویزر طہران میں ایک عسکری انقلاب کا بندو بست کرنے گیا تھا۔ میں جانتا ہوں کہ ہویزر ایک عرصہ سے ''مہدی بازنقان '' کیساتھ رابطے میں تھا۔یہ وہ انجینئر ہے جو خمینی کے انقلاب کا خالق تھا اور مجھے اتارنے کے بعد خمینی نے مہدی کو وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز کیا۔ مہدی اور ہویزر اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ سارا ڈارمہ کیسے پس پردہ تیار کیا گیا تھا۔

پھر یہ خمینی کتا ایک جھوٹے دین کی دعوت لیے جب اپنی سابقہ فرانسیسی پناہ گاہ سے نکلااورجب اس کی دعوت کو رافضیوں کی تمام جماعتوں کی تائید حاصل ہوگئی حتی کہ بعض اہل السنۃ کے لوگوں کی بھی ، اور پورے ملک پر غلبہ حاصل ہوگیا تو یہی خمینی اپنے اسلاف عبیدیوں اور قرامطہ کی راہ پے چل نکلا۔ اہل السنۃ کے خلاف مکر و حیلہ کی راہ پر!۔ وہ اپنی خاص نجی مجالس میں اہل السنۃ کے خون مباح ہونے ، ان کی عورتوں کی شرمگاہوں کے حلال ہونے اور قوت کے ساتھ انقلاب کو پھیلانے کی باتیں کرنے لگا۔

یہاں تک کہ جن افواہوں میں یہ گمان کیا گیا کہ عراقی نظام نے ہی ایران کے خلاف جنگ شروع کرنے میں پہل کی تھی تو ایسا شخص وہم وگمان میں اور حقیقت سے دور ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ خمینی ہی تھا جس نے جنگ کا ارادہ کیا تاکہ عراق کو اپنے ملک فارس میں ضم کرلے جیسے کہ ملکِ فارس اس سے قبل اوائل دور کے مسلمانوں کے دور میں تھا۔پس خمینی کے پہنچنے کے بعد ایران نے اپنے ایجنٹ عراق میں داخل کر دیے اور ایرانی نظام نے متعدد بار عراقی سرحدوں پر حملے کیے۔

یہ رافضیوں کا ماضی اور ان کی تاریخ ہے جس کیساتھ وہ آج بھی اپنے حاضر و مستقبل میں ارتکاز کیے ہوئے ہیں۔وہ اسی تاریخ سے عنوانات لیتے ہیں اور اپنے اسلاف کے نہجِ غدر وخیانت کی راہوں پر چلتے ہیں۔اپنی تاریخ کو ایسا سفر گردانتے ہیں جس سے وہ زادِ راہ لیکر زمانے میں تغیر وتبدل کی راہ چلتے ہیں... اسی ''تقیہ کیساتھ... وہی خفیہ منصوبہ بندی... وہی فاسد عقائد لیے ہوئے!''۔

اے سننے والے! تو اس پر یہ بھی زیادہ کر لے کہ شیعوں کے لیے اس دور میں ایک حکومت موجود ہے، ایک قیادت ہے، ایک موحد سیاست ہے اور ایک مرجعیت کا مرکز ہے جو ان کے لیے تمام امور میں فتوے جاری کرتا ہے جن کا وہ التزام کرتے ہیں۔ آج وہ ظاہر ہو چکے ہیں اور دیکھنے والوں کے لیے ان کی خیانتیں بھی آشکار ہوچکی ہیں۔ اسکی سب سے واضح مثال ہے جو افغانستان میں ایران کی مدد سے وقوع پذیر ہوئی اور اسی طرح عراق میں بھی اس کا مظاہرہ کیا گیا اور بلادِ شام میں بھی ، خاص طور پر لبنان میں جہاں ''حزب اللہ''نا می حزب الشیطان ان کی نمائندگی کررہی ہے۔ وہ اپنی قوت اور تعلیم ایران سے حاصل کرتے ہیں جو برائی کا مرکز ہے اور ان کے منتظر مہدی ''مسیح الدجال'' کی پناہ گاہ ہے۔

اور لبنان میں... اس ایرانی حکومت نے جو منصوبے بلادِ شام میں چلائے اور لبنان میں خاص طور پر جہاں انہوں مسلح تحریک''حرکۃ الامل''کے ذریعے انقلاب برپا کیا۔ یہ تحریک جس کی بنیاد خمینی کے شاگرد اوراس کے سسر ''موسیٰ الصدر''نے رکھی جو ایران سے چلا اور لبنان میں آکر پناہ گزیں ہوگیا تاکہ لبنانی نیشنیلٹی حاصل کر لے اور اسکی مدد سے وہ ارض ِ لبنان میں اپنی سرگرمیاں سہولت کے ساتھ جاری رکھ سکے۔ اس تحریک کو مالی مدد ایران سے ملنے لگی اور اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ فلسطینی پناہ گزینوں کے کیمپ میں سنیوں کو ختم کیا جائے جو اپنی فلسطینی زمینوں سے نکالے گئے اور یہاں آباد ہونے پر مجبور ہوگئے۔ جب لبنا ن پر پناہ گزینوں کے مسئلہ میں بیرونی دبائو بڑھا تو یہ رافضی صہیونیوں کے حلیف بن گئے تاکہ ان خیمہ بستیوں میں موجود سنیوں کو ختم کیا جائے اور صہیونیوں کے خلاف کوئی تحریک نتیجہ خیز نہ ہواور ساتھ ساتھ دشمن کا ساتھ دینے کی خواہش بھی پوری ہوجائے۔پھر ان فلسطینیوں کا کوئی بھی حساب وشمار نہ ہو سکے اسی مقصد کے لیے انہوں نے کئی مرتبہ ان خیمہ بستیوں کو مذبحہ خانہ بنایا۔

ان حملوں میں سے ایک ہے ''عین الرمانہ''،صبر اور شاتیلا کی خیمہ بستیوں پر کیے جانے والے حملے جو 1982 میں کیے گئے اور عالمی جرائد نے لکھا کہ یہ سب رافضی تحریک''حرکۃ الامل''کے منصوبوں کا شاہکار تھا۔ چنانچہ ''صحیفۃ الوطن''نے اپنے شمارہ نمبر3688 ،بمطابق27مئی 1985میں اٹلی کے رسالے ''لیبو''سے نقل کرتے ہوئے لکھا کہ ایک پناہ گزین فلسطینی جو کئی سالوں سے چلنے کے قابل نہیں تھا اس نے مدد طلب کرتے ہوئے حرکتِ ''امل''کے ارکان کے سامنے ہاتھ پھیلائے اور ان سے رحم کی اپیل کی جس کا جواب یہ دیا گیا کہ اسے کتوں کی طرح پستول کی گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ صحیفہ نے لکھا کہ یہ''بے غیرتی ''ہے۔

سنڈے ٹائمز کے مراسلہ نگار نے لکھا کہ''اس ذبح خانے کی صحیح رپورٹنگ بہت مشکل ہے کیونکہ حرکتِ امل انہیں تصویریں لینے سے منع کررہی ہے اور بعض کو موت کی دھمکیاں تک مل رہی ہیں۔ اسی خوف کے تحت بعض صحافیوں کو علاقے سے نکال لیا گیا ہے اس خوف سے کہ کہیں انہیں قتل یا اغوا نہ کرلیا جائے کیونکہ ان میں سے جو کوئی لبنا ن میں رہے تو اس کے لیے وہاں کام کرنا مشکل ہوگا۔

سنڈے ٹائمز نے یہ بھی ذکر کیا کہ متعدد فلسطینیوں کو بیروت کے ہسپتالوں میں بھی قتل کردیا گیا ہے اور ان میں کچھ فلسطینیوں کوگردنیں کاٹ کر ذبح کیا گیا۔ نیوز ایجنسی ''وکالات الانباء''نے 6 جنوری 1985کو یہودیوں کی ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ ''ایہود باراک''کا بیان نشر کیا ''اس نے پورے وثوق کے ساتھ کہا کہ حرکتِ امل جنوب لبنان میں اکیلی قوت ہے جو لبنانیوں اور تنظیموں کے کارندوں کو جنوب لبنان کی طرف سے اسرائیلی اہداف پر حملہ سے روکے رکھے گی۔

لیکن اس کے بعد جب کہ دنیا کے سامنے اس خبیث تحریک کا چہرہ بے نقاب ہو گیا اور یہ بھی سامنے آگیا کہ انہوں نے فلسطینی سنیوں کے خلاف کیسے کیسے ظلم و ستم ڈھائے تو لوگ اس تحریک کے خلاف کھڑے ہوگئے اور وہ کارڈ جو ایران اس علاقے میں کھیل رہا تھا جل گیا۔اب اس لیے ضروری تھاکہ کوئی نیا طریقہ ایجاد کیا جائے اور کوئی دوسری تحریک شروع کی جائے جس کا ظاہری چہرہ حرکتِ امل سے مختلف ہو۔

اس مرتبہ ضروری تھا کہ سنیوں اور شیعوں کو قریب کرنے کا ڈرامہ کھیلا جائے اور ان کی وحدت کی طرف دعوت دی جائے اور اسرائیل کے خلاف جنگ کا اعلان کیا جائے اور اسرائیل سے فلسطینی زمین آزاد کرانے کا مطالبہ کیا جائے۔ پس اس کے لیے ایران میں خفیہ میٹنگیں منعقد کی گئی جن میںایرانی قیادت نے طے کیا کہ ایک نئی تحریک کی بنیاد رکھی جائے جس کی قیادت نئے لوگوں کے ہاتھوں میں ہو نہ کہ وہ لوگ ہوں جن کی سابقہ''شہرت''ہے!
 
Top