• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فرحت ہاشمی صاحبہ،ادارہ الہدی کے متعلق ایک خاتون کے سوالات، مفتی تقی عثمانی صاحب کے جوابات کی حقیقت

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ اور ان کے ادارہ الہدی کے متعلق ایک خاتون کے سوالات اور مفتی تقی عثمانی صاحب کے جوابات کی حقیقت
تحریر: مقبول احمدسلفی

پاکستان کی ایک خاتون مسز سیما افتخار صاحبہ جن کا دعوی ہے کہ انہوں نے الہدی انٹرنیشنل سے اسلامک اسٹڈیز سے ایک سالہ ڈپلومہ کورس کیا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ وہ طلب علم کی حیثیت سے الہدی جوائن کی تھی مگر بعد میں اس کے عقائد صحیح معلوم نہیں ہوئے تو ان کے متعلق مفتی تقی عثمانی صاحب صاحب سے رجوع کیا۔
مسز سیما افتخار کا کہنا ہے کہ ہماری استاد اور الہدیٰ انٹر نیشنل کی نگران محترمہ فرحت ہاشمی صاحبہ کے نظریات کا نچوڑ پیش خدمت ہے ۔
1۔اجماع امت سےہٹ کر ایک نئی راہ اختیار کرنا
2۔غیر مسلم اور اسلام بیزار طاقتوں کے نظریات کی ہمنوائی
3۔تلبیس حق و باطل
4۔فقہی اختلافات کے ذریعے دین میں شکوک و شبہات پیدا کرنا
5۔آسان دین
6۔ آداب و مستحبات کو نظر انداز کرنا۔
ان چھ نکات کے بعد پھر سیما صاحبہ نے ان کی کچھ تفاصیل ذکر کی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔
1۔اجماع امت سے ہٹ کر نئی راہ اختیار کرنا
1۔قضائے عمری سنت سے ثابت نہیں صرف توبہ کرلی جائے قضا ء ادا کرنیکی ضرورت نہیں ہے
2۔3 طلاقوں کو ایک شمار کرنا
3۔نفل نمازیں صلوٰۃ التسبیح ، رمضان میں طاق راتوں خصوصاً 27 ویں شب میں اجتماعی عبادت کا اہتمام اور خوتین کے جمع ہونے پر زور دینا
4۔غیر مسلم ،اسلام بیزار طاقتوں کے خیالات کی ہمنوائی:
5۔مولوی(عالم)،مدارس اور عربی زبان سے دور رہیں،
6۔علماء دین کو مشکل بناتے ہیں آپس میں لڑتے ہیں ،عوام کو فقہی بحثوں میں الجھاتےہیں ، بلکہ ایک موقع پر تو فرمایا کہ اگر آپ کو کسی مسئلے میں صحیح حدیث نہ ملے تو ضعیف لے لیں لیکن علماء کی بات نہ لیں ،
7۔مدارس میں گرائمر ،زبان سکھانے،فقہی نظریات پڑھانے میں بہت وقت ضائع کیا جاتا ہے، قوم کو عربی زبان سیکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ لوگوں کو قرآن صرف ترجمہ سے پڑھادیا جائے،
ایک موقع پر کہا (ان مدارس می جو 7,7,8,8سال کے کورس کرائے جاتے ہیں یہ دین کی روح کو پیدا نہیں کرتے ہیں) اشارہ درس نظامی کی طرف ہے ،
8۔وحید الدین خان کی کتابیں طالب علموں کی تربیت کیلئے بہترین ہیں نصاب میں بھی شامل ہیں اور اسٹالز پر بھی رکھی جاتی ہیں ،کسی نے احساس دلایا کہ ان کے بارے میں علماء کرام کی رائے کیا ہے تو کہا کہ ‘‘حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے’’

3۔تلبیس حق و باطل :
1۔تقلید شرک ہے (لیکن کونسی بر حق ہے اور کس وقت غلط ہے یہ کبھی نہیں بتایا )
2۔ضعیف حدیث پر عمل کرنا تقریباً ایک جرم بناکر پیش کیا جاتا ہے (کہ جب بخاری صحیح ترین احادیث کا مجموعہ ہے تو ضعیف کیوں قبول کی جائے )

4۔ فقہی اختلافات کے ذریعہ دین میں شکوک و شبہات پیدا کرنا:
1۔اپنا پیغام ،مقصد اور متفق علیہ باتوں سے زیادہ زور دوسرے مدارس اور علماء پر طعن و تشنیع ،
2۔ ایمان، نماز،روزہ ،زکوٰۃ ،حج ،کے بنیادی فرائض ،سنتیں ،مستحبات ،مکروہات سکھانے سے زیادہ اختلافی مسائل میں الجھایا گیا (پروپیگنڈا ہے کہ کسی تعصب کا شکار نہیں اور صحیح حدیث کو پھیلا رہے ہیں ،
3۔نماز کے اختلافی مسائل رفع یدین فاتحہ خلف الامام ،ایک وتر ،عورتوں،کو مسجد جانے کی ترغیب، عورتوں کی جماعت ان سب پر صحیح حدیث کے حوالہ سے زور دیا جاتا ہے،
4۔زکوٰۃ میں غلط مسائل بتائے جارہے ہیں ،خواتین کو تملیک کا کچھ علم نہیں ،

5۔آسان دین:
1۔دین مشکل نہیں ،مولویوں نے مشکل بنادیا ہے ،دین کا کوئی مسئلہ کسی بھی امام سے لے لیں اس بھی ہم دین کے دائرے میں ہی رہتے ہیں ،
2۔حدیث میں آتا ہے کہ آسانی پیدا کرو تنگی نہ کرو ،لہذا جس امام کی رائے آسان معلوم ہو وہ لے لیں ،
3۔روزانہ یٰس پڑھنا صحیح حدیث سے ثابت نہیں ،نوافل میں اصل صرف چاشت اور تہجد ہے، اشراق اور اوابین کی کوئی حیثیت نہیں ،
4۔دین آسان ہے ،بال کٹوانے کی کوئی ممانعت نہیں ،امہات المؤمنین میں سے ایک کے بال کٹے ہوئے تھے.
5۔دین کی تعلیم کے ساتھ ساتھ پکنک ،پارٹیاں ،اچھا لباس ،زیورات کا شوق ،محبت ۔من حرم زینۃ اللہ ۔۔۔۔
6۔ خواتین دین کو پھیلانے کیلئے گھر سے ضرور نکلیں ،
7۔محترمہ کا اپنا عمل طالبعلموں کیلئے حجت ہے ،محرم کے بغیر تبلیغی دوروں پرجانا،قیام اللیل کیلئے راتوں کو نکلنا ،میڈیا کے ذریعہ تبلیغ (ریڈیو ،ٹی وی ، آڈیو)،

6۔آداب و مستحبات کی رعایت نہیں
1۔خواتین ناپاکی کی حالت میں بھی قرآن پاک چھوتی ہیں ،اٰیات پڑھتی ہیں
7۔متفرقات:
1۔قرآن کا ترجمہ پڑھاکر ہر معاملہ میں خود اجتہاد کی ترغیب دینا
2 ۔قرآن و حدیث کی فہم کیلئے جو اکابر علماء کرام نے علوم سیکھنے کی شرائط رکھی ہیں ان کو بیکار ،جاہلانہ باتیں اور سازش قرار دینا ،
3۔کسی فارغ التحصیل طالبہ کے سامنے دین کا کوئی حکم یا مسئلہ رکھا جائے تو اس کا سوال یہ ہوتا ہے کہ یہ صحیح حدیث سے ثابت ہے یا نہیں ،
ان تمام باتوں کا نتیجہ یہ ہے کہ گلی گلی ،محلے محلے الہدیٰ کی برانچز کھلی ہوئی ہیں اور ہر قسم کی طالبہ ،خواہ اس کی تجوید بھی درست نہ ہوئی ہو آگے پڑھا رہی ہے ،اور لوگوں کو مسائل میں الجھایا جارہا ہے ۔
گھر کے مردوں کا تعلق مسجد سے ہے (جہاں نماز کا طریقہ فقہ حنفی کے مطابق ہے)گھر کی عورتیں مردوں سے الجھتی ہیں ہمیں مساجد کے مولویوں پر اعتماد نہیں ۔
مفتی تقی عثمانی صاحب نےسائلہ کے مذکورہ سوالات کا جواب مندرجہ ذیل الفاظ میں دئے ہیں ۔

الجواب حامدًا ومصلیاً
سوال میں جن نظریات کا ذکر کیا گیا ہے خواہ وہ کسی کے بھی نظریات ہوں ان میں سے اکثر غلط ہیں ،بعض واضح طور پر گمراہانہ ہیں ،مثلاً اجماع امت کو اہمیت نہ دینا،تقلید کو علی الاطلاق شرک قرار دینا ،جس کا مطلب یہ ہے کہ چودہ سو سال کی تاریخ میں امت مسلمہ کی اکثریت جو ائمہ مجتہدین میں سے کسی کی تقلید کرتی رہی ہے وہ مشرک تھی ،یا یہ کہنا کہ قضاء عمری فوت شدہ نمازوں کو قضاء کرنے کی ضرورت نہیں ،صرف توبہ کافی ہے
۔(1،2)
بعض نظریات جمہور امت کے خلاف ہیں مثلاً تین طلاقوں کو ایک قرار دینا،بعض بدعات ہیں مثلاً صلاۃ التسبیح کی جماعت( 3 )،یا قیام اللیل کیلئے راتوں اہتمام کے ساتھ لوگوں کو نکالنا ،یا خواتین کو جماعت سے نماز پڑھنے کی ترغیب ، بعض انتہائی گمراہ کن ہیں مثلاً قرآن کریم کو صرف ترجمہ سے پڑھ کر پڑھنے والے کو اجتہاد کی دعوت ،یا اس بات پر لوگوں کو آمادہ کرنا کہ وہ جس مذہب میں آسانی پائیں اپنی خواہشات کے مطابق اسے اختیار کرلیں یا کسی کا اپنے عمل کو حجت قرار دینا
(4)۔اور ان میں سے بعض نظریات فتنہ انگیز ہیں مثلاًعلماء و فقہاء سے بد ظن کرنا ،دینی تعلیم کے جو ادارے اسلامی علوم کی وسیع و عمیق تعلیم کافریضہ انجام دے رہے ہیں ،ان کی اہمیت ذہنوں سے کم کر کے مختصر کورس کو علم دین کیلئے کافی سمجھنا ،نیز جو مسائل کسی امام مجتہد نے قرآن و حدیث سے اپنے گہرے علم کی بنیاد پر مستنبط کئے ہیں ان کو باطل قرار دیکر اسے قرآن و حدیث کے خلاف قرار دینا اور اس پر اصرار کرنا ۔
جو شخصیت یا ادارہ مذکورہ بالا نظریات رکھتا ہو اور اس کی تعلیم و تبلیغ کرتا ہو وہ نہ صرف گمراہانہ ،گمراہ کن یا فتنہ انگیز نظریات کا حامل ہے بلکہ اس سے مسلمانوں کے درمیان افتراق و انتشار پیدا ہونے کا قوی اندیشہ ہے ، اور اگر کوئی شخص سہولتوں کی لالچ میں اس قسم کی کوششوں سے دین کے قریب آئیگا بھی تو مذکورہ بالا فاسد نظریات کے نتیجے میں وہ گمراہی کا شکار ہوگا۔لہٰذا جو ادارہ یا شخصیت ان نظریات کی حامل اور مبلغ ہو ،اور اپنے دروس میں اس قسم کی ذہن سازی کرتی ہو اس کے درس میں شرکت کرنا ،اور اس کی دعوت دینا ان نظریات کی تائید ہے جو کسی طرح جائز نہیں (5)،خواہ اس پاس کسی قسم کی ڈگری ہو ،اور گلاسگو یونیورسٹی کی ڈگری بذات خود اسلامی علوم کے لحاظ سے کوئی قیمت نہیں رکھتی ،بلکہ غیر مسلم ممالک کی یونیورسٹیوں میں مستشرقین نے اسلامی تحقیق کے نام پر اسلامی احکام میں شکوک و شبہات پیدا کرنے اور دین کی تحریف کا ایک سلسلہ عرصہ دراز سے شروع کیا ہوا ہے ۔ان غیر مسلم مستشرقین نے (جنہیں ایمان تک کی توفیق نہیں ہوئی)اس قسم کے اکثر ادارے در حقیقت اسلام میں تحریف کرنے والے افراد تیار کرنے کیلئے قائم کئے ہیں ، اور ان کے نصاب و نظام کو اس انداز سے مرتب کیا ہے کہ اس کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے (الا ماشاءاللہ )اکثر دجل و فریب کا شکار ہو کر عالم اسلام میں فتنے برپا کرتے ہیں ۔لہٰذا گلاسگو یونیورسٹی سے اسلامی علوم کی کوئی ڈگری نہ صرف یہ کہ کسی شخص کے مستند عالم ہونے کی کوئی دلیل نہیں بلکہ اس سے اس کی دین فہمی کے بارے میں شکوک پیدا ہونا بھی بیجا نہیں ۔دوسری طرف بعض اللہ کے بندے ایسے بھی ہیں جنہوں نے ان یونیورسٹیوں سےڈگریاں حاصل کیں ۔اور عقائد فاسدہ سے محفوظ رہے ،اگرچہ ان کی تعداد کم ہو ۔لہٰذا یہ ڈگری نہ کسی کے مستند عالم ہونے کی علامت ہے اور نہ محض اس ڈگری کی وجہ سے کسی کو مطعون کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ اس کے عقائد و اعمال درست ہوں ۔
مذکورہ بالا جواب ان نظریات پر مبنی ہے جو سائلہ نے اپنے استفتاء میں ذکر کئے ہیں اب کون شخص ان نظریات کا کس حد تک قائل ہے ؟اس کی ذمہ داری جواب دہندہ پر نہیں ہے۔(
مفتی تقی عثمانی صاحب کی بات ختم ہوئی) ۔
سائلہ کے سوالات اور مفتی تقی عثمانی صاحب کے جوابات کا تجزیہ
جواب دینے سے قبل یہ بات عرض کرنی ضروری ہے کہ سائلہ نے کہیں پر اپنے دعوی کے لئے کوئی دلیل نہیں پیش کی ہے یعنی ڈاکٹر صاحبہ سے متعلق جو باتیں کی ہیں ان میں سے کسی کا حوالہ نہیں دیا ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ یہ سوالات قطعا اس خاتون کے نہیں ہوسکتے ہیں جو الہدی میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے گئی ہوکیونکہ سوالات کا اکثر حصہ الزامات پر مبنی ہے ۔ بھلاکوئی طالبہ اپنی استاد پہ کیسے الزام لگا سکتی ہے ۔تیسری بات یہ ہے کہ جواب دینے سےقبل مفتی صاحب نے کم ازکم الزامات کی تحقیق نہیں کی ہے،نہ ہی جواب دینے میں کتاب وسنت کو معیار بنایا ہے بلکہ مسلک حنفی کو سامنے رکھتے ہوئے اہل حدیث عالمہ پر لگائے گئے الزامات کا جواب دیا ہے،اس سے مقصد دنیا میں بالخصوص ملک پاکستان میں خواتین میں قرآن وحدیث کے تئیں بیداری اور کتاب وسنت کی بالادستی سے حسد کے سوا کچھ نہیں ۔
مذکورہ بالا تحریر میں ڈاکٹر صاحبہ پہ لگائے گئے الزامات کی فہرست دیکھیں ۔
٭ اجماع امت سے ہٹ کر نئی راہ نکالنا
(اہلحدیث کے یہاں اجماع کا انکار نہیں،ہاں فقہ حنفی کے مسائل جو کتاب وسنت سے ٹکرائے ان کا انکار اجماع امت کا انکار نہیں ہے ، بیچارے مقلدین اسے اجماع امت کا انکار اور نئی راہ نکالنا کہتے ہیں گویا اجماع کیا ہے انہیں خود ہی پتہ نہیں)
٭ غیرمسلم اور اسلام بیزار طاقتوں کے نظریات سے ہمنوائی (یہ سراسر الزام ہے اور مسلکی تعصب کا نتیجہ ہے،مسلکی عناد میں ایسا الزام لگاناکوئی بعید نہیں)
٭ تلبیس حق وباطل (یہ بھی مسلکی بغض وعناد سے بھرا الزام ہے)
٭ فقہی اختلاف کے ذریعہ دین میں شکوک پیدا کرنا(قرآن وحدیث کی دعوت دینے والے داعیان وداعیات کو ایسے الزام سے بھی متہم کیا جاتا رہاہے تاکہ عوام کو ان کے قریب جانے سے روکا جاسکے، کتاب وسنت کی روشنی میں مسائل بیان کرنے سے لازما فقہ حنفی کے ہزاروں مخالف سنت مسائل کا رد ہوتا ہے جس کانام مقلدین یہ دیتے ہیں کہ اختلافی مسائل کے ذریعہ لوگوں کو شک میں مبتلا کیا جاتا ہے حالانکہ قرآن وحدیث چھوڑ کے خود ہی لوگوں کو خودساختہ مسائل میں الجھائے ہوئےہیں )
٭ آداب ومستحباب کو نظر انداز کرنا( الحمد للہ اہل حدیث جماعت میں عقائد کے ساتھ اعمال میں واجبات ،فرائض،آداب، سنن، مستحبات ، مشروعات، مباحات سب کا خیال کیا جاتاہے ، ہاں یہ الگ بات ہے کہ احناف کے یہاں صرف فضائل اعمال پر ہی زور دیا جاتا ہے ، اور اس باب میں صحیح احادیث سے قطع نظر کثرت سے ضعیف احادیث پر عمل کیا جاتا ہے جبکہ اہل حدیث فضائل اعمال میں بھی صحیح احادیث کا اہتمام کرتے ہیں۔نیز سائلہ نے خود بھی بتلایا ہے کہ ڈاکٹرصاحبہ نفلی نمازیں صلاۃ التسبیح اور قیام اللیل وغیرہ پر زور دیتی ہیں، اس بات سے الزام کی مزیدحقیقت سامنے آجاتی ہے )
٭ عالم ،مدارس اور عربی زبان سے دور رہیں (اگرعالم ومولوی مدارس اور عربی زبان سے دور ہوں گے تو پھر کون قریب ہوں گے ، ایسی تعلیم تو کوئی تقلید کرنے والا بھی نہیں دے گا ، قرآن وحدیث کے عاملین کے لئے سوچا بھی نہیں جاسکتا)
٭ مدارس اور علماء پر طعن وتشنیع( اپنی حنفی عوام بطور خاص اہل مدارس اور علمائے احناف کو ڈاکٹر صاحبہ سے متنفر کرنے والا الزام ہے ،اس کی دور دور تک کوئی حقیقت نہیں)
٭ زکوۃ میں غلط مسائل بتانا(اس بات کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے کیونکہ قرآن وحدیث کی دعوت دینے والے کبھی مسائل غلط نہیں بتاتے ، ہاں کسی عالم سے بھول ہوجانا الگ بات ہے )
٭ محترمہ کا اپنا عمل دین میں حجت ہے (یہ سارے الزامات میں سب سے بڑا ہے ، دین میں کسی کا عمل حجت نہیں سوائے رسول اللہ ﷺ کے جیساکہ اللہ کا فرمان ہے : لقدکان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃیعنی تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں ہی نمونہ ہے )
٭ فہم قرآن وحدیث کے لئے اکابرین کی شرائط بیکار، جاہلانہ اور سازش ہیں۔(یہ بھی غلط بات ہے ، دین میں فہم سلف معیار ہے ،قرآن وحدیث کو ویسے ہی سمجھنا ہے جیسے سلف صالحین نے سمجھا ہے ،قرآن وحدیث کو سمجھنے کے لئے اگر کوئی حنفی فقہ کو شرائط کے طور پر پیش کرے تو ظاہر ہی بات ہے یہ غلط ہے جس کی روشنی میں قرآن وحدیث کو سمجھنے کے لئے بہت سارے علوم چاہئے ، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قرآن وحدیث کو عام آدمی نہیں سمجھ سکتا سوائے علماء کے )
ان الزامات کے علاوہ سوالات میں بعض باتیں حق اور کتاب وسنت کے دلائل سے ثابت ہیں مگر مسلک حنفی کا ماننے والا محض تقلید اور فقہی جمود کے سبب انہیں تسلیم نہیں کرتا ۔ ان کی چند مثالیں مندرجہ ذیل ہیں۔
دین آسان ہے :
اس میں کوئی شک نہیں کہ دین آسان ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے : ان ھذاالدین یسریعنی دین آسان ہے مگر تقلید کی دعوت دینے والے محض اس خوف سے کہ اگر عوام دین سمجھنے لگی تو تقلید کا جمود ٹوٹ ہوجائے گا ،کتاب وسنت کی بالادستی قائم ہوجائے اور فقہ حنفی کا تسلط وتغلب ختم ہوجائے گا، اس بناپر دین کو مشکل باور کراتے ہیں۔
تقلید شرک ہے :اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ فلاں عالم یا امام یا مفتی جو کہے وہ حلال یا حرام ہے بغیر کسی دلیل کے تو یہ غیراللہ کو رب بنانا ہے اسے شرک کہتے ہیں ۔ اس کی وضاحت سورہ توبہ کی آیت نمبر اکتیس میں دیکھ سکتے ہیں۔
قضائے عمری:پنچ وقتہ نمازیں اپنے وقت پر فرض ہیں،کوئی انہیں اپنے وقت سے ٹال نہیں سکتا ۔ جو نماز کو ان کے اوقات میں فرض ہونے کا یقین رکھ کرجان بوجھ کرادا نہ کرے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہیں کہ جو جان بوجھ کر نماز چھوڑ ے وہ بلاشبہ صریح کفر کرتا ہے ۔ بطور مثال تیس برسوں سے جوجان بوجھ کر نماز چھوڑتا رہا کیا چند اوقات میں ان برسوں کی ساری نمازوں کو جمع کرکے پڑھنے سے جان بوجھ کر نماز چھوڑنے کا گناہ بغیر توبہ کے معاف ہوجائے گاجبکہ ایک دن کی پانچ نمازیں بھی بغیر عذرکے جمع کرکے نہیں پڑھ سکتے ، عذر کی بنیاد پر بھی صرف دونمازوں کو جمع کرنے کا حکم ہے۔ پھر بغیر عذرکے برسوں کی نمازیں کیسے جمع کرسکتے ؟ اب تو مولوی حضرات آسان نسخہ بتانے لگے ہیں کہ فلاں دن اتنے رکعات ادا کرلو قضائے عمری ہوجائے گی ۔ یا للعجب
تین طلاقوں کو ایک شمارکرنا: کتاب وسنت کے براہین سے واضح ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار کی جائے ،اگر فرحت ہاشمی صاحبہ قرآن وحدیث سے ثابت اس مسئلہ کو بتائے اور کوئی سائلہ کسی مفتی صاحب سے ڈاکٹر صاحبہ کی بات پہ سوال کرے تو مفتی صاحب کا حق بنتا ہے کہ اگر وہ واقعی مفتی ہیں تو کتاب اللہ اور سنت رسول سے جواب دے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ایک ہی طلاق ہوتی ہے ،ورنہ تقلیدکرنے والوں کے یہاں مفتی ہونا مضحکہ خیز ہے جہاں ایک امام بقیہ سارے عامی یعنی جاہل ہیں کسی کوعالم کہلانے یا مفتی بننے کا کوئی حق نہیں ہےکیونکہ بہرکیف تقلید ایک کی ہی کرنی ہے ۔
نمازکے مختلف فیہ مسائل صحیح احادیث سے بتانا: کیا بھلی بات کہی مگر صد افسوس ہےکہ اس پر بھی تنقید ہی مقصود ہے ،غور کریں سائلہ کے جملہ پر" نماز کے اختلافی مسائل رفع یدین، فاتحہ خلف الامام ،ایک وتر ،عورتوں کو مسجد جانے کی ترغیب، عورتوں کی جماعت ان سب پر صحیح حدیث کے حوالہ سے زور دیا جاتا ہے" ۔ خود ہی کہتے ہیں کہ ان مسائل پہ ترغیب صحیح احادیث کی روشنی میں دیتے ہیں یعنی جس بات کی دلیل ہے اس کی دعوت اور ترغیب دیتے ہیں بھلا یہ بھی کوئی اعتراض کی بات ہے ، اگر اس پر اعتراض ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ دینی حیثیت سے اعتراض ہوگا بلکہ اعتراض تقلیدی نظر سے ہوگا۔
سورہ یسین کی فضیلت : ڈاکٹر صاحبہ کی بات درست ہے ، سورہ یاسین کے متعلق یہ بات جان لیں کہ اس سورہ کی فضیلت میں کوئی بھی صحیح حدیث نہیں ہے ۔
ضعیف حدیث پرعمل : محدثین نے ضعیف ا حادیث اس لئے الگ کئے ہیں تاکہ ان سے بچاجائے ۔ضعیف احادیث میں موضوع بھی داخل ہیں جنہیں گھڑ کر نبی ﷺ کی طرف منسوب کردی گئی ہیں ۔ محدثین نے حدیث کی صحت وضعف کی چھان پھٹک کے لئے بلند وبے مثال معیار قائم کئے ،ان کے جہد کا خلاصہ یہی ہے کہ ضعیف وموضوع روایات پر لوگوں کو مطلع کیا جائے اور ان پر عمل نہ کیا جائے ۔ فقط فضائل اعمال میں ضعیف احادیث پر عمل کیا جائے گا ،اس کے لئے بھی کئی شروط ہیں جن کی معلومات علوم حدیث سے حاصل کی جاسکتی ہے ۔
رمضان میں قیام اللیل کی جماعت : رمضان المبارک میں نبی ﷺ سے جماعت کے ساتھ تراویح کی نماز پڑھنا ثابت ہے ، تراویح کو ہی تہجد اور قیام اللیل کہا جاتا ہے ۔ بعض لوگ تراویح اور تہجدمیں فرق کرتے ہیں جوکہ صحیح نہیں ہے اور حدیث کے الفاظ من قام (جوقیام اللیل کرے) کے خلاف ہے۔ اس وجہ سے رمضان میں خواتین بھی جماعت سے قیام اللیل کرسکتی ہیں خواہ مردوں کے ساتھ قیام کرے یا الگ سے عورتوں کی جماعت بناکر۔
سائلہ کے سوالات کی میں نے حقیقت بیان کردی ، ان حقائق کی روشنی میں مفتی تقی عثمانی صاحب کے جواب کی بھی حقیقت طشت از بام ہوجاتی ہے ۔ دراصل ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ خالص کتاب وسنت کی تعلیم دے رہی ہیں اور دن ورات دعوتی وتعلیمی مشن میں زوروشور سے لگی ہوئی ہیں ،جس کے باعث آج پاکستان بھر میں گھرگھر اور گلی گلی قرآن وحدیث کا نعرہ بلند ہورہاہے ۔ خواتین کتاب وسنت کی روشنی میں مسائل کو سمجھنے کے قابل ہورہی ہیں ، مردوں میں بھی کتاب وسنت کی تعلیم عام ہورہی ہے ۔ بیرون ملک بھی آپ کی تعلیم کا گہرا اثر پڑرہاہے ۔ یہی چیز کتاب وسنت سے دوری اختیار کرنے والوں کے لئے حسد کا باعث بنی ہے جس کے باعث اپنی عوام کو الہدی سنٹرسے نفرت دلائی جاتی ہے ۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ اس ادارے میں یا اس کی نگراں فرحت صاحبہ میں کوئی غلطی نہیں ہے ، غلطیاں ہوں گی مگر دین کا کام کرنے والی بے مثال خاتون پر الزام لگانا کم ازکم ایک مسلم خاتون کا شیوہ نہیں ہوگا۔ رہے وہ مسائل جومسلک کی بنیاد پر مختلف ہیں تو یہ باتیں اس وقت تک مختلف رہیں گی جب تک مسلمانوں کے بیچ تقلید رہے گی ۔ڈاکٹرصاحبہ کی کچھ باتوں سے میں بھی اتفاق نہیں رکھتا اگر واقعی انہوں نے ان کی تعلیم دی ہیں مثلا اجتماعی نمازتسبیح کا اہتمام کرنا، عورتوں کا بال کٹوانا، وحیدالدین خان کی کتابوں کی دعوت دینا، مدارس میں عربی قواعدوزبان اور فقہی مسائل کی تعلیم کو وقت کا ضیاع سمجھنا۔ ان باتوں کے لئے اصلاح کا پہلو مدنظر رکھا جائےاور غلط باتوں پہ انہیں مطلع کیا جائے ،ان شاء اللہ حق واضح ہونے پر وہ اسے قبول کریں گی۔
نوٹ : ڈاکٹر صاحبہ کےعقائدونظریات اور دعوت وتعلیم کے متعلق جاننے کے لئے ان کی ویڈیوز دیکھی جاسکتی ہیں جو سیکڑوں کی تعداد میں انٹرنیٹ پرموجودہیں۔اور سائلہ کے سوالات ومفتی تقی عثمانی صاحب کے جواب مندرجہ ذیل رابط پہ دیکھ سکتے ہیں ۔

رابط
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
حضرت شیخ الاسلام صاحب سے فتوی تو فقہ حنفی کے مطابق لیا جاتا ہے اور اسی کے لیے سوال کیا جاتا ہے اس لیے انہوں نے بھی اسی کے مطابق جواب دیا۔ ورنہ ان کی کشادہ ذہنی اور فقہ مقارن پر کنٹرول معروف ہے۔
نیز انہوں نے حکم بھی نظریات پر لگایا ہے نہ کہ افراد پر اور یہ افتاء کا ایک اہم اصول ہے۔ آگے تطبیق سائل کی اپنی ذمہ داری ہے۔
لیکن:
٭ اجماع امت سے ہٹ کر نئی راہ نکالنا(اہلحدیث کے یہاں اجماع کا انکار نہیں،ہاں فقہ حنفی کے مسائل جو کتاب وسنت سے ٹکرائے ان کا انکار اجماع امت کا انکار نہیں ہے ، بیچارے مقلدین اسے اجماع امت کا انکار اور نئی راہ نکالنا کہتے ہیں گویا اجماع کیا ہے انہیں خود ہی پتہ نہیں)
٭ غیرمسلم اور اسلام بیزار طاقتوں کے نظریات سے ہمنوائی (یہ سراسر الزام ہے اور مسلکی تعصب کا نتیجہ ہے،مسلکی عناد میں ایسا الزام لگاناکوئی بعید نہیں)
٭ تلبیس حق وباطل (یہ بھی مسلکی بغض وعناد سے بھرا الزام ہے)
٭ فقہی اختلاف کے ذریعہ دین میں شکوک پیدا کرنا(قرآن وحدیث کی دعوت دینے والے داعیان وداعیات کو ایسے الزام سے بھی متہم کیا جاتا رہاہے تاکہ عوام کو ان کے قریب جانے سے روکا جاسکے، کتاب وسنت کی روشنی میں مسائل بیان کرنے سے لازما فقہ حنفی کے ہزاروں مخالف سنت مسائل کا رد ہوتا ہے جس کانام مقلدین یہ دیتے ہیں کہ اختلافی مسائل کے ذریعہ لوگوں کو شک میں مبتلا کیا جاتا ہے حالانکہ قرآن وحدیث چھوڑ کے خود ہی لوگوں کو خودساختہ مسائل میں الجھائے ہوئےہیں )
٭ آداب ومستحباب کو نظر انداز کرنا( الحمد للہ اہل حدیث جماعت میں عقائد کے ساتھ اعمال میں واجبات ،فرائض،آداب، سنن، مستحبات ، مشروعات، مباحات سب کا خیال کیا جاتاہے ، ہاں یہ الگ بات ہے کہ احناف کے یہاں صرف فضائل اعمال پر ہی زور دیا جاتا ہے ، اور اس باب میں صحیح احادیث سے قطع نظر کثرت سے ضعیف احادیث پر عمل کیا جاتا ہے جبکہ اہل حدیث فضائل اعمال میں بھی صحیح احادیث کا اہتمام کرتے ہیں۔نیز سائلہ نے خود بھی بتلایا ہے کہ ڈاکٹرصاحبہ نفلی نمازیں صلاۃ التسبیح اور قیام اللیل وغیرہ پر زور دیتی ہیں، اس بات سے الزام کی مزیدحقیقت سامنے آجاتی ہے )
٭ عالم ،مدارس اور عربی زبان سے دور رہیں (اگرعالم ومولوی مدارس اور عربی زبان سے دور ہوں گے تو پھر کون قریب ہوں گے ، ایسی تعلیم تو کوئی تقلید کرنے والا بھی نہیں دے گا ، قرآن وحدیث کے عاملین کے لئے سوچا بھی نہیں جاسکتا)
٭ مدارس اور علماء پر طعن وتشنیع( اپنی حنفی عوام بطور خاص اہل مدارس اور علمائے احناف کو ڈاکٹر صاحبہ سے متنفر کرنے والا الزام ہے ،اس کی دور دور تک کوئی حقیقت نہیں)
٭ زکوۃ میں غلط مسائل بتانا(اس بات کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے کیونکہ قرآن وحدیث کی دعوت دینے والے کبھی مسائل غلط نہیں بتاتے ، ہاں کسی عالم سے بھول ہوجانا الگ بات ہے )
٭ محترمہ کا اپنا عمل دین میں حجت ہے (یہ سارے الزامات میں سب سے بڑا ہے ، دین میں کسی کا عمل حجت نہیں سوائے رسول اللہ ﷺ کے جیساکہ اللہ کا فرمان ہے : لقدکان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃیعنی تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں ہی نمونہ ہے )
٭ فہم قرآن وحدیث کے لئے اکابرین کی شرائط بیکار، جاہلانہ اور سازش ہیں۔(یہ بھی غلط بات ہے ، دین میں فہم سلف معیار ہے ،قرآن وحدیث کو ویسے ہی سمجھنا ہے جیسے سلف صالحین نے سمجھا ہے ،قرآن وحدیث کو سمجھنے کے لئے اگر کوئی حنفی فقہ کو شرائط کے طور پر پیش کرے تو ظاہر ہی بات ہے یہ غلط ہے جس کی روشنی میں قرآن وحدیث کو سمجھنے کے لئے بہت سارے علوم چاہئے ، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قرآن وحدیث کو عام آدمی نہیں سمجھ سکتا سوائے علماء کے )
ان الزامات کے علاوہ سوالات میں بعض باتیں حق اور کتاب وسنت کے دلائل سے ثابت ہیں مگر مسلک حنفی کا ماننے والا محض تقلید اور فقہی جمود کے سبب انہیں تسلیم نہیں کرتا ۔ ان کی چند مثالیں مندرجہ ذیل ہیں۔
دین آسان ہے : اس میں کوئی شک نہیں کہ دین آسان ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے : ان ھذاالدین یسریعنی دین آسان ہے مگر تقلید کی دعوت دینے والے محض اس خوف سے کہ اگر عوام دین سمجھنے لگی تو تقلید کا جمود ٹوٹ ہوجائے گا ،کتاب وسنت کی بالادستی قائم ہوجائے اور فقہ حنفی کا تسلط وتغلب ختم ہوجائے گا، اس بناپر دین کو مشکل باور کراتے ہیں۔
تقلید شرک ہے :اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ فلاں عالم یا امام یا مفتی جو کہے وہ حلال یا حرام ہے بغیر کسی دلیل کے تو یہ غیراللہ کو رب بنانا ہے اسے شرک کہتے ہیں ۔ اس کی وضاحت سورہ توبہ کی آیت نمبر اکتیس میں دیکھ سکتے ہیں۔
قضائے عمری:پنچ وقتہ نمازیں اپنے وقت پر فرض ہیں،کوئی انہیں اپنے وقت سے ٹال نہیں سکتا ۔ جو نماز کو ان کے اوقات میں فرض ہونے کا یقین رکھ کرجان بوجھ کرادا نہ کرے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہیں کہ جو جان بوجھ کر نماز چھوڑ ے وہ بلاشبہ صریح کفر کرتا ہے ۔ بطور مثال تیس برسوں سے جوجان بوجھ کر نماز چھوڑتا رہا کیا چند اوقات میں ان برسوں کی ساری نمازوں کو جمع کرکے پڑھنے سے جان بوجھ کر نماز چھوڑنے کا گناہ بغیر توبہ کے معاف ہوجائے گاجبکہ ایک دن کی پانچ نمازیں بھی بغیر عذرکے جمع کرکے نہیں پڑھ سکتے ، عذر کی بنیاد پر بھی صرف دونمازوں کو جمع کرنے کا حکم ہے۔ پھر بغیر عذرکے برسوں کی نمازیں کیسے جمع کرسکتے ؟ اب تو مولوی حضرات آسان نسخہ بتانے لگے ہیں کہ فلاں دن اتنے رکعات ادا کرلو قضائے عمری ہوجائے گی ۔ یا للعجب
تین طلاقوں کو ایک شمارکرنا: کتاب وسنت کے براہین سے واضح ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار کی جائے ،اگر فرحت ہاشمی صاحبہ قرآن وحدیث سے ثابت اس مسئلہ کو بتائے اور کوئی سائلہ کسی مفتی صاحب سے ڈاکٹر صاحبہ کی بات پہ سوال کرے تو مفتی صاحب کا حق بنتا ہے کہ اگر وہ واقعی مفتی ہیں تو کتاب اللہ اور سنت رسول سے جواب دے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ایک ہی طلاق ہوتی ہے ،ورنہ تقلیدکرنے والوں کے یہاں مفتی ہونا مضحکہ خیز ہے جہاں ایک امام بقیہ سارے عامی یعنی جاہل ہیں کسی کوعالم کہلانے یا مفتی بننے کا کوئی حق نہیں ہےکیونکہ بہرکیف تقلید ایک کی ہی کرنی ہے ۔
نمازکے مختلف فیہ مسائل صحیح احادیث سے بتانا: کیا بھلی بات کہی مگر صد افسوس ہےکہ اس پر بھی تنقید ہی مقصود ہے ،غور کریں سائلہ کے جملہ پر"
نماز کے اختلافی مسائل رفع یدین، فاتحہ خلف الامام ،ایک وتر ،عورتوں کو مسجد جانے کی ترغیب، عورتوں کی جماعت ان سب پر صحیح حدیث کے حوالہ سے زور دیا جاتا ہے" ۔ خود ہی کہتے ہیں کہ ان مسائل پہ ترغیب صحیح احادیث کی روشنی میں دیتے ہیں یعنی جس بات کی دلیل ہے اس کی دعوت اور ترغیب دیتے ہیں بھلا یہ بھی کوئی اعتراض کی بات ہے ، اگر اس پر اعتراض ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ دینی حیثیت سے اعتراض ہوگا بلکہ اعتراض تقلیدی نظر سے ہوگا۔
سورہ یسین کی فضیلت : ڈاکٹر صاحبہ کی بات درست ہے ، سورہ یاسین کے متعلق یہ بات جان لیں کہ اس سورہ کی فضیلت میں کوئی بھی صحیح حدیث نہیں ہے ۔
ضعیف حدیث پرعمل : محدثین نے ضعیف ا حادیث اس لئے الگ کئے ہیں تاکہ ان سے بچاجائے ۔ضعیف احادیث میں موضوع بھی داخل ہیں جنہیں گھڑ کر نبی ﷺ کی طرف منسوب کردی گئی ہیں ۔ محدثین نے حدیث کی صحت وضعف کی چھان پھٹک کے لئے بلند وبے مثال معیار قائم کئے ،ان کے جہد کا خلاصہ یہی ہے کہ ضعیف وموضوع روایات پر لوگوں کو مطلع کیا جائے اور ان پر عمل نہ کیا جائے ۔ فقط فضائل اعمال میں ضعیف احادیث پر عمل کیا جائے گا ،اس کے لئے بھی کئی شروط ہیں جن کی معلومات علوم حدیث سے حاصل کی جاسکتی ہے ۔
رمضان میں قیام اللیل کی جماعت : رمضان المبارک میں نبی ﷺ سے جماعت کے ساتھ تراویح کی نماز پڑھنا ثابت ہے ، تراویح کو ہی تہجد اور قیام اللیل کہا جاتا ہے ۔ بعض لوگ تراویح اور تہجدمیں فرق کرتے ہیں جوکہ صحیح نہیں ہے اور حدیث کے الفاظ من قام (جوقیام اللیل کرے) کے خلاف ہے۔ اس وجہ سے رمضان میں خواتین بھی جماعت سے قیام اللیل کرسکتی ہیں خواہ مردوں کے ساتھ قیام کرے یا الگ سے عورتوں کی جماعت بناکر۔

سائلہ کے سوالات کی میں نے حقیقت بیان کردی ، ان حقائق کی روشنی میں مفتی تقی عثمانی صاحب کے جواب کی بھی حقیقت طشت از بام ہوجاتی ہے ۔ دراصل ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ خالص کتاب وسنت کی تعلیم دے رہی ہیں اور دن ورات دعوتی وتعلیمی مشن میں زوروشور سے لگی ہوئی ہیں ،جس کے باعث آج پاکستان بھر میں گھرگھر اور گلی گلی قرآن وحدیث کا نعرہ بلند ہورہاہے ۔ خواتین کتاب وسنت کی روشنی میں مسائل کو سمجھنے کے قابل ہورہی ہیں ، مردوں میں بھی کتاب وسنت کی تعلیم عام ہورہی ہے ۔ بیرون ملک بھی آپ کی تعلیم کا گہرا اثر پڑرہاہے ۔ یہی چیز کتاب وسنت سے دوری اختیار کرنے والوں کے لئے حسد کا باعث بنی ہے جس کے باعث اپنی عوام کو الہدی سنٹرسے نفرت دلائی جاتی ہے ۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ اس ادارے میں یا اس کی نگراں فرحت صاحبہ میں کوئی غلطی نہیں ہے ، غلطیاں ہوں گی مگر دین کا کام کرنے والی بے مثال خاتون پر الزام لگانا کم ازکم ایک مسلم خاتون کا شیوہ نہیں ہوگا۔ رہے وہ مسائل جومسلک کی بنیاد پر مختلف ہیں تو یہ باتیں اس وقت تک مختلف رہیں گی جب تک مسلمانوں کے بیچ تقلید رہے گی ۔ڈاکٹرصاحبہ کی کچھ باتوں سے میں بھی اتفاق نہیں رکھتا اگر واقعی انہوں نے ان کی تعلیم دی ہیں مثلا اجتماعی نمازتسبیح کا اہتمام کرنا، عورتوں کا بال کٹوانا، وحیدالدین خان کی کتابوں کی دعوت دینا، مدارس میں عربی قواعدوزبان اور فقہی مسائل کی تعلیم کو وقت کا ضیاع سمجھنا۔ ان باتوں کے لئے اصلاح کا پہلو مدنظر رکھا جائےاور غلط باتوں پہ انہیں مطلع کیا جائے ،ان شاء اللہ حق واضح ہونے پر وہ اسے قبول کریں گی۔
نوٹ : ڈاکٹر صاحبہ کےعقائدونظریات اور دعوت وتعلیم کے متعلق جاننے کے لئے ان کی ویڈیوز دیکھی جاسکتی ہیں جو سیکڑوں کی تعداد میں انٹرنیٹ پرموجودہیں۔اور سائلہ کے سوالات ومفتی تقی عثمانی صاحب کے جواب مندرجہ ذیل رابط پہ دیکھ سکتے ہیں ۔

اگر آپ تمام باتوں کا حوالہ دے دیتے ڈاکٹر صاحب کی کتب وغیرہ سے تو زیادہ مناسب تھا۔ ایسے تو یہ فقط اندازے معلوم ہو رہے ہیں۔ چونکہ الہدی انٹرنیشنل ہمارے یہاں ہے اس لیے اس قسم کی کئی باتیں ہم نے بھی سنی ہیں۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
Last edited:

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
حضرت شیخ الاسلام صاحب سے فتوی تو فقہ حنفی کے مطابق لیا جاتا ہے اور اسی کے لیے سوال کیا جاتا ہے اس لیے انہوں نے بھی اسی کے مطابق جواب دیا۔ ورنہ ان کی کشادہ ذہنی اور فقہ مقارن پر کنٹرول معروف ہے۔
جب وہ فتوی فقہ الاحناف سے دیتے ہیں تو شیخ الاسلام کیسے بن گئے ،انہیں تو شیخ الاحناف کہنا چاہئے ۔
نیز انہوں نے حکم بھی نظریات پر لگایا ہے نہ کہ افراد پر اور یہ افتاء کا ایک اہم اصول ہے۔ آگے تطبیق سائل کی اپنی ذمہ داری ہے۔
جس کے نظریات پیش کئے گئے ہیں وہ جماعت نہیں فردہے،اس کے نظریات پہ تنقید دراصل اس فرد پر تنقید کہلائے گی اور تنقید کی حیثیت کیا ہے وہ تو واضح ہوگئی۔
اگر آپ تمام باتوں کا حوالہ دے دیتے ڈاکٹر صاحب کی کتب وغیرہ سے تو زیادہ مناسب تھا۔ ایسے تو یہ فقط اندازے معلوم ہو رہے ہیں۔ چونکہ الہدی انٹرنیشنل ہمارے یہاں ہے اس لیے اس قسم کی کئی باتیں ہم نے بھی سنی ہیں۔
حوالہ کس کو دینا چاہئے تھا یہ لنک دیکھ لیں۔
 
Top