• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقاہت راوی، رد خبر بالقیاس اور احناف۔ بعض اشکالات کا جائزہ

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
11 المغني في أصول الفقه - جلال الدين عمر بن محمد الخبازي (المتوفى: 691هـ)
ثم الراوي المعروف بالفقه و الاجتهاد، كالخلفاء الراشدین و العبادلۃ، خبره حجۃ یترك به القیاس، و كذا المعروف بالعدالۃ و الضبط دون الفقه، كأبي هریرۃ و أنس بن مالك رضي الله عنهما فیما وافق القیاس،
و فیما خالف، إن قبلته الأئمۃ و إلا فالقیاس الصحیح أحق، لأن الناقل۔۔۔۔۔۔۔
و لأنه إذا السد به باب القیاس صار مخالفاً للكتاب و السنۃ و الإجماع، كضمان صاع من التمر مكان اللبن في روایۃ ابي هریرۃ رضي الله عنه.
المغنی فی اصول الفقہ، 1۔208، ط: جامعۃ ام القری)

علامہ جلال الدین عمر الخبازیؒ نے بھی راوی کی مذکورہ تقسیم ذکر فرمائی ہے اور فرمایا ہے: "اور اس لیے کہ جب اس سے قیاس کا باب بند ہو جائے گا تو یہ کتاب، سنت اور اجماع کے خلاف ہو جائے گی۔ جیسا کہ ابو ہریرہ رض کی روایت میں دودھ کی جگہ کھجور کے ایک صاع کا ضمان دینا۔"
لیکن اس قیاس سے ان کے یہاں کیا مراد ہے اس میں دونوں احتمالات ہیں۔ لیکن چند صفحات قبل انہوں نے تحریر فرمایا ہے:
وحدیث المصراۃ قولہ تعالی "فاعتدوا" (197)
ترجمہ: "اور حدیث المصراۃ اللہ تعالی کے قول "فاعتدوا" (کے خلاف ہے)۔"
اسی حدیث مصراۃ کی مثال قیاس کا باب بند ہونے کی بحث میں دی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قیاس سے مراد ان کے یہاں بھی قیاس قسم ثانی ہے۔ ورنہ قیاس قسم اول سے حدیث کو رد کرنے کی بحث ہی نہ ہوتی کیوں کہ حدیث قرآن کریم سے معارض ہو کر پہلے ہی رد ہو چکی ہوتی۔ اسی لیے فرمایا ہے: " یہ کتاب، سنت اور اجماع کے خلاف ہو جائے گی۔"

12 متن المنار في أصول الفقه – أبو البركات عبد الله بن أحمد بن محمود النسفي (المتوفى: 710هـ)
و الراوي إن عرف بالفقه و التقدم في الاجتهاد كالخلفاء الراشدین و العبادلۃ رضي الله عنهم كان حديثه حجۃ یترك به القیاس خلافا لمالك و إن عرف بالعدالۃ دون الفقه كأنس و أبي هریرۃ رض إن وافق حديثه القیاس عمل به و إن خالفه لم یترك إلا بالضرورۃ كحدیث المصراۃ
متن المنار، ص 60، مخطوط، جامعۃ طوکیو

صاحب منار ابو البرکات النسفیؒ کی اس عبارت سے تو یہ واضح نہیں ہوتا کہ قیاس سے کون سا قیاس مراد ہے لیکن انہوں نے اس کی جو شرح خود کشف الاسرار کے نام سے کی ہے اس سے اس کی وضاحت ہوتی ہے:

13 كشف الأسرار شرح المصنف علی المنار - أبو البركات عبد الله بن أحمد بن محمود النسفي (المتوفى: 710هـ)
و إن عرف بالروایۃ و العدالۃ، و الضبط، و الحفظ، و لكنه قلیل الفقه كأبي هریرۃ و أنس بن مالك و سلمان و بلال و غیرهم ممن اشتهر بالصحبۃ مع رسول الله علیه السلام و السماع منه مدۃ طویلۃ في الحضر، و السفر، و لكنه لم یكن من اهل الاجتهاد ، فما وافق القیاس من روایته عمل به، و ما خالف القیاس فإن تلقته الأمۃ بالقبول یعمل به، و إلا فالقیاس الصحیح شرعاً مقدم علی روایته فیما ینسد باب الرأي فیه۔۔۔۔۔۔۔۔
كشف الاسرار و نور الانوار ،2۔26، العلمیۃ
و لنا أن القیاس الصحیح حجۃ بالكتاب و السنۃ و الإجماع، فما خالف القیاس من كل وجه فهو في المعنی مخالف للكتاب و السنۃ المشهورۃ الإجماع و ذلك مثل حدیث ابي هریرۃ في المصراۃ۔۔۔۔۔۔۔۔
كشف الاسرار، 2۔27، العلمیۃ

اس عبارت سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ نسفیؒ کی مراد قیاس سے قیاس معروف ہے کیوں کہ انہوں نے خبر واحد مخالف قیاس کو کتاب و سنت و اجماع کے مخالف معنیً قرار دیا ہے۔ یعنی قیاس ثابت ہوتا ہے کتاب و سنت و اجماع سے اور یہ خبر واحد اس قیاس کے خلاف ہے۔ لیکن آگے جو حدیث مصراۃ کی بحث کی ہے اس میں پھر قواعد کا ذکر کیا ہے جو بذات خود قرآن، سنت اور اجماع سے ثابت ہوتے ہیں اور ان میں اصل و فرع کی بحث نہیں ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے یہاں قیاس سے مراد قسم ثانی ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے نزدیک قیاس سے مراد تو قسم اول ہی ہے لیکن مثال انہوں نے قسم ثانی کی دی ہے۔ یا ان کے نزدیک قیاس کی قسم اول اور ثانی دونوں مراد ہیں۔

14 جامع الأسرار في شرح المنار - محمد بن محمد بن احمد الكاكي (المتوفى: 749هـ)
واعلم أن اشتراط فقه الراوي لتقدیم الخبر علی القیاس مذهب عیسی بن أبان و اختاره القاضی أبو زید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فأما عند الكرخي ومن تابعه من أصحابنا، فلیس فقه الراوي بشرط التقدیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قال ابو الیسر: و إلیه مال أكثر العلماء
جامع الأسرار،673، ط: مكتبۃ نزار مصطفی الباز

ترجمہ: " اور جان لیجیے کہ خبر کو قیاس پر مقدم کرنے کے لیے فقہ راوی کی شرط لگانا عیسی بن ابان کا مذہب ہے اور اسے قاضی ابو زید نے اختیار کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کرخیؒ اور ہمارے اصحاب میں سے جنہوں نے ان کی متابعت کی ہے ان کے نزدیک فقہ راوی مقدم کرنے کی شرط نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابو الیسر فرماتے ہیں: اسی کی طرف اکثر علماء کا میلان ہے۔"
کاکیؒ کی اس عبارت کا طرز تحریر ان کے اختیار کو بتاتا ہے۔ پہلے انہوں نے نسفیؒ کی کتاب کی شرح کرتے ہوئے ان کے مذہب کی وضاحت کی اور پھر اس کے بعد کرخیؒ کا مسلک بغیر کسی جواب کو نکیر کے تحریر فرما یا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے یہاں بھی کرخیؒ کا مسلک مختار ہے۔
اور اگر بالفرض یہ ظاہرنہ بھی ہو تب بھی ان کے یہاں دونوں مسالک کا برابر ہونا تو واضح ہے۔ اس صورت میں یہ محض ناقل ہوں گے۔

15 شرح منار الأنوار في أصول الفقه - عز الدين عبد اللطيف بن عبد العزيز بن الملك المعروف بابن المك (المتوفى: 801هـ)
اعلم أن اشتراط فقه الراوي لتقدیم الخبر علی القیاس مذهب عیسی بن أبان و اختاره القاضي أبو زید و خرج علیه حدیث المصراۃ و تابعه أكثر من المتأخرین، و أما عند الكرخي و من تابعه من اصحابنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شرح منار الأنوار لابن عبد الملك، 1۔210، ط: العلمیۃ

ابن ملکؒ کو ابن فرشتہ بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے بھی پہلے نسفیؒ کے مسلک کی وضاحت کر کے اس کے بعد بلا نکیر دوسرے مذہب کو ذکر کیا ہے جو ان کی ترجیح پر دال ہے۔

16 إفاضة الأنوار في إضاءة أصول المنار ۔ محمود بن محمد الدهلوي الحنفي (المتوفى: 891هـ)
وإن خالفه لا یترك إلا بالضرورۃ۔۔۔۔۔۔۔ فقلنا: إذا روی حدیثاً ینفي كون القیاس حجۃ یترك الحدیث لضرورۃ انسداد باب الرأي بخلاف ما إذا كان موافقاً لقیاس و مخالفاً لقیاس آخر فإنه لا یترك۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
إفاضۃ الأنوار، 1۔304، ط: الرشد

دہلویؒ کی ظاہر عبارت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ نسفیؒ کا مسلک رکھتے ہیں۔ اسی لیے آپ نے اس کے بعد کرخیؒ کے مذہب کا ذکر بھی نہیں کیا۔

17 حاشية للشيخ يحيى الرهاوي علی شرح المنار - عبد اللطيف بن عبد العزيز بن الملك - يحيى بن قراجا سبط الرهاوى (المتوفى: بعد 942هـ)
علی قوله : لم یعملوا به لمخالفۃ الكتاب۔۔۔۔
بقي شیء وهو أن هذا الكلام یدل علی أن الحدیث یرد إذا خالف الكتاب والسنۃ المشهورۃ و إن كان الراوي فقیهاً و فیه كلام لأن هذا مسلم فیما إذا كان ثمۃ الكتاب أو سنۃ مشهورۃ أو إجماع، أما إذا لم یكن إلا قیاس فقط و الحدیث یخالف له مع فقه راویه فما ذا یفعل؟ قلت: ذكر في التحقیق أن القیاس الصحیح یرد به و فیه بحث لأن صاحب التحقیق قد ذكرقبله أن صدر الإسلام قال: یجب قبول خبر الواحد إذا لم یخالف صریح الكتاب أو السنۃ و ظاهره إذا لم یكن واحد منهما و ما خالف القیاس یقبل و لا یلتفت إلی القیاس، فإن قلت: إذا خالف القیاس فقد خالف الكتاب و السنۃ لثبوته بهما، قلت: المراد المخالفۃ الصریحۃ لا الضمنیۃ
حاشیۃ الرهاوی (شرح المنار و حواشیه من علم الاصول)،1۔626، ط: مطبعه عثمانیه

یحیی رہاویؒ کا یہ حاشیہ ابن الملک المعروف بابن فرشتہ کی شرح پر ہے۔ ابن فرشتا نے کرخیؒ کے مذہب کو متاخر ذکر کیا ہے اور رہاویؒ نے نہ صرف اس کو باقی رکھا ہے بلکہ اس پر کچھ تفصیل بھی بیان فرمائی ہے:
ترجمہ: "ایک چیز رہ گئی، اور وہ یہ ہے کہ یہ کلام (کرخیؒ اور ان کے اصحاب کا کلام۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مترجم) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حدیث جب کتاب اور سنت مشہورہ کے خلاف ہو تو اسے رد کر دیا جائے گا اگر چہ اس کا راوی فقیہ ہو۔ اور اس میں کلام ہے اس لیے کہ یہ مسلم ہے اس صورت میں جب کتاب یا سنت مشہورہ یا اجماع موجود ہو۔ اگر صرف قیاس ہی ہو اور حدیث اس کے خلاف ہو اور راوی بھی فقیہ ہو تو کیا کیا جائے گا؟ میں کہتا ہوں: التحقیق میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ قیاس صحیح کے ذریعے اسے رد کر دیا جائے گا۔ اور اس میں بحث ہے اس لیے کہ صاحب تحقیق اس سے پہلے ذکر کر چکے ہیں صدر الاسلام فرماتے ہیں: خبر واحد کو قبول کرنا واجب ہے جب وہ صریح کتاب یا سنت کے خلاف نہ ہو۔ اس کا ظاہر یہ ہے کہ اگر ان دونوں چیزوں میں سے کوئی بھی نہ ہو تو جو روایت قیاس کے خلاف ہوگی اسے قبول کیا جائے گا اور قیاس کی جانب التفات نہیں کیا جائے گا۔ پھر اگر آپ کہیں: جب روایت قیاس کے خلاف ہے تو وہ کتاب اور سنت کے خلاف بھی ہو گئی قیاس کے انہی دونوں سے ثابت ہونے کی وجہ سے۔ میں کہتا ہوں: مخالفت صریحہ مراد ہے ضمنی مخالفت مراد نہیں ہے۔"
اس کلام کے اندر انتہائی صراحت ہے کہ خبر واحد جب قیاس معروف کے خلاف ہو گی تو قیاس کو ترک کر دیا جائے گا۔ ساتھ ہی اس میں نسفیؒ کے قول کا رد بھی ہے کہ کتاب و سنت کی مخالفت جب صراحتاً ہو تب روایت کو ترک کیا جائے گا ورنہ نہیں۔ نسفیؒ نے معنیً مخالفت پر ترک ہونے کا کہا تھا۔

18 فتح الغفار بشرح المنار المعروف بمشكاة الأنوار في أصول المنار - زين الدين بن إبراهيم ، المعروف بابن نجيم المصري الحنفي (المتوفى:970هـ)
ثم اعلم أن اشتراط فقه الراوي لتقدم الخبر علی القیاس مذهب عیسی بن أبان و اختاره القاضي أبو زید و خرج علیه۔۔۔۔۔۔۔۔۔
و كذا في التحریر مرجحاً لتقدیم الخبر علی القیاس مطلقاً كما هو قول الأكثر فالحق تقدیمه عندنا علی القیاس مطلقاً
فتح الغفار، 2۔91، ط: مطبعۃ مصطفی البابی

ابن نجیمؒ احناف کے محقق علماء میں سے ایک ہیں اور آپ کی کتاب البحر الرائق فقہ حنفی کی مشہور کتاب ہے۔ اس کتاب سے فتاوی دینے میں بھی مدد لی جاتی ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ معترضین نے ان کا اور ان کی کتاب کا نام اس عیسی بن ابان یا دبوسیؒ کے اصول کے حق میں ہونے کے طور پر کیسے لیا۔ ابن نجیمؒ نے کرخیؒ کا مذہب ذکر کر کے صریح الفاظ میں فرمایا ہے:
ترجمہ: " اور اسی طرح تحریر میں بھی خبر کو قیاس پر مطلقاً مقدم کرنے کو ترجیح دیتے ہوئے مذکور ہے جیسا کہ اکثر کا قول ہے۔ سو حق ہمارے نزدیک خبر کو مطلقاً قیاس پر مقدم کرنا ہے۔"

19 إضافة الأنوار علي أصول المنار - محمد علاء الدين بن علي بن محمد الحصي المعروف علاء الدين الحصكفي (المتوفى: 891هـ)
اس کتاب کا اصل نام "افاضۃ الانوار" اور مصنف کی تاریخ وفات 1088 ھ ہے۔
علی أن الحق تقدیمه عندنا علی القیاس مطلقاً
افاضۃ الانوار للحصكفی، مخطوط، بجامعۃ الملك السعود

ترجمہ: " جب کہ حق ہمارے نزدیک خبر کو قیاس پر مطلقاً مقدم کرنا ہے۔"
اس کتاب کا مجھے مطبوعہ نسخہ میسر نہیں ہوا۔ اس مخطوطہ کے حاشیہ پر رقم ہے:
قوله مطلقاً سواء عرف بالفقه و الاجتهاد أم لا
ترجمہ: "ان کے قول مطلقاً (کا مطلب ہے) چاہے اجتہاد اور فقہ میں معروف ہو یا نہ ہو۔"
حصکفیؒ کا مسلک بھی کرخیؒ والا ہے۔

20 نور الأنوار في شرح المنار - أحمد بن أبي سعيد ملاجيون الحنفي (المتوفى: 1130هـ)
ثم هذه التفرقۃ بین المعروف بالفقه و العدالۃ مذهب عیسی بن أبان و تابعه أكثر المتأخرین، و أما عند الكرخي و من تابعه من اصحابنافلیس فقه الراوي شرطاً لتقدم الحدیث علی القیاس۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور الأنوار علی هامش كشف الاسرار، 2۔23، ط: العلمیۃ

صاحب نور الانوار ملا جیونؒ نے بھی نسفیؒ کے مذہب کی تشریح کرنے کے بعد بلا نکیر و جواب کرخیؒ کے مسلک کو ذکر فرمایا ہے اور نسفیؒ کا مذہب عیسی بن ابان کا قرار دیا ہے۔

21 نسمات الاسحار على شرح إفاضة الأنوار– ابن عابدين الشامي، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز عابدين الحنفي (المتوفى: 1252هـ)
قوله : علی أن الحق تقدیمه عندنا علی القیاس مطلقاً، أي سواء عرف بالفقه و الاجتهاد أم لا، و رجحه في التحریر
نسمات الاسحار، 1۔181، ط: ادارۃ القران

علامہ شامیؒ بھی محققین علماء میں سے ہیں بلکہ انہیں خاتمۃ المحققین بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی یہ شرح علامہ حصکفیؒ کی افاضۃ الانوار پر ہے۔ اور اس میں انہوں نے نہ صرف حصکفیؒ کے قول کو باقی رکھا ہے بلکہ اس کی مزید تشریح بھی کی ہے اور اسے کتاب "تحریر" میں راجح قرار دینے کا ذکر بھی کیا ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
کچھ عزیز احباب کے روکنے پر یہ سلسلہ روک دیا۔ ان شاء اللہ کبھی موقع ملا تو مکمل مضمون کی شکل دوں گا۔
باقی درست بات ڈھونڈنے والوں کے لیے غالبا اتنا بھی کافی ہے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
کچھ عزیز احباب کے روکنے پر یہ سلسلہ روک دیا۔ ان شاء اللہ کبھی موقع ملا تو مکمل مضمون کی شکل دوں گا۔
باقی درست بات ڈھونڈنے والوں کے لیے غالبا اتنا بھی کافی ہے۔
آپ اتنے کی بات کرتے ہیں؟؟؟
مجھے تو اس کو پڑھ کر افسوس ہی ہوا. اور میں نے اسی کو ظاہر کرنے کے لۓ ہی تبصرہ کیا تھا. لیکن پھر بحث کا سوچ کر اسکی تدوین کر دی.
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
آپ اتنے کی بات کرتے ہیں؟؟؟
مجھے تو اس کو پڑھ کر افسوس ہی ہوا. اور میں نے اسی کو ظاہر کرنے کے لۓ ہی تبصرہ کیا تھا. لیکن پھر بحث کا سوچ کر اسکی تدوین کر دی.
آپ کو افسردہ کرنے پر میں معذرت خواہ ہوں۔
ویسے بغیر بحث کے صرف یہ بتا دیجیے کہ اس میں افسوس کی کیا بات ہے تاکہ میں اپنی اصلاح کر لوں۔۔۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
آپ کو افسردہ کرنے پر میں معذرت خواہ ہوں۔
ویسے بغیر بحث کے صرف یہ بتا دیجیے کہ اس میں افسوس کی کیا بات ہے تاکہ میں اپنی اصلاح کر لوں۔۔۔
کچھ علماء احناف نے جو باتیں راوی کے فقاہت وغیرہ کے بارے میں کہی ہیں اور جو انھوں نے حدیث کے مقابلے میں قیاس کو ترجیح دی ہے تو کیا اسمیں تاوہل کرنے کی گنجائش ہے؟؟؟؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
کچھ علماء احناف نے جو باتیں راوی کے فقاہت وغیرہ کے بارے میں کہی ہیں اور جو انھوں نے حدیث کے مقابلے میں قیاس کو ترجیح دی ہے تو کیا اسمیں تاوہل کرنے کی گنجائش ہے؟؟؟؟
شاید آپ نے پہلی پوسٹس نہیں پڑھیں۔
امام مالکؒ کے حوالے بھی شاید نظر سے رہ گئے ہوں۔ دوبارہ دیکھ لیجیے۔

مطلب اس بات کا یہ ہے کہ فقہ اور اجتہاد اسی کو کہتے ہیں۔ جب فقہاء احناف امام مالکؒ کے اس موقف کو تسلیم نہیں کرتے تو ظاہر ہے احناف کے بعض علماء کے موقف کو بھی تسلیم نہیں کریں گے۔ لیکن نہ تاویل کرنی چاہیے اور نہ توہین جیسا کہ مالکیہ میں نہ تاویل ہوتی ہے نہ توہین۔ اور جہاں واقعی کوئی صحیح مطلب نکلتا ہے وہاں وہ نکالنا چاہیے۔باقی اللہ اعلم بالصواب۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
شاید آپ نے پہلی پوسٹس نہیں پڑھیں۔
امام مالکؒ کے حوالے بھی شاید نظر سے رہ گئے ہوں۔ دوبارہ دیکھ لیجیے۔

مطلب اس بات کا یہ ہے کہ فقہ اور اجتہاد اسی کو کہتے ہیں۔ جب فقہاء احناف امام مالکؒ کے اس موقف کو تسلیم نہیں کرتے تو ظاہر ہے احناف کے بعض علماء کے موقف کو بھی تسلیم نہیں کریں گے۔ لیکن نہ تاویل کرنی چاہیے اور نہ توہین جیسا کہ مالکیہ میں نہ تاویل ہوتی ہے نہ توہین۔ اور جہاں واقعی کوئی صحیح مطلب نکلتا ہے وہاں وہ نکالنا چاہیے۔باقی اللہ اعلم بالصواب۔
محترم بھائی!
میں نے اسی خدشے کے پیش نظر کہا تھا کہ بحث ہوگی.
میں نے مضمون پڑھا ہے اور یہ دوسری بار پڑھا ہے پہلی بار مسئلہ سمجھ میں نہیں آیا تھا اسی لۓ کچھ نہیں کہا. کیونکہ جب تک کسی مسئلہ می علم نہ ہو جہالت دکھا کر کیا فائدہ؟
ایک دن خبر واحد کی حجیت کی بحث پڑھی. اس وقت بھی اس مضمون کی طرف ذہن گیا تھا. لیکن اس وقت مضمون نہیں پڑھا. لیکن صحیح بخاری پڑھتے وقت حدیث مصراۃ پڑھی تو سہارنپوری صاحب کا حاشیہ پڑھا.
اسکے بعد آپکا یہ مضمون پڑھا.
تفصیل کا وقت نہیں ورنہ بتاتا کہ کس طرح سے استاذ محترم سے بات ہوئی.
ایک بات اور بتا دوں کہ ہمارے سارے اساتذہ بحمد للہ تعصب وغیرہ سے پاک ہیں. خاص طور سے صحیح بخاری کے. لیکن اس دن انھوں نے جو تشریح کی وہ اب تک میرے ذہن سے چپکی ہوئی ہے. آپ یہ نہ سمجھۓ گا کہ سہارنپوری صاحب کی تشریح. بلکہ حدیث کی تشریح.
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
ایک بات اور بتا دوں کہ ہمارے سارے اساتذہ بحمد للہ تعصب وغیرہ سے پاک ہیں. خاص طور سے صحیح بخاری کے. لیکن اس دن انھوں نے جو تشریح کی وہ اب تک میرے ذہن سے چپکی ہوئی ہے. آپ یہ نہ سمجھۓ گا کہ سہارنپوری صاحب کی تشریح. بلکہ حدیث کی تشریح.
اگر آپ وہ تشریح بتا دیں تو ان شاء اللہ نافع ہوگی۔
 
Top