• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہاء اربعہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وفات:
امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ امام شافعی رحمہ اللہ کو آخری عمر میں بواسیر کی سخت شکایت ہوگئی تھی۔ ایک مشہور واقعہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ فتیان بن ابی السمح جو متصلب مالکی تھے انہوں نے ایک مناظرے میں امام محترم سے علمی شکست کھائی تھی۔ مگر انہوں نے بعد میں موقع پاکر رات کے اندھیرے میں امام محترم کے سر پر لوہے کا ایک گرز دے مارا جس سے امام محترم کا سر پھٹ گیا۔ طبیعت پہلے ہی کمزور تھی۔ اس تکلیف نے مزید نڈھال کردیا۔ دوسری طرف مالکی فقیہ اشہب بن عبد العزیز مسلسل سجدہ میں پڑ کر آپ کے لئے بددعا کرتا رہا کہ الٰہی! شافعی کو اٹھالے ورنہ ہمارا مالکی مسلک فنا ہو جائے گا۔ امام محترم کو جب اس کا علم ہوا تو فی البدیہہ دو اشعار کہے :

تَمَــنّٰی رِجَالٌ بِأَنْ أَمُـــــوتَ فَإِنْ أَمُتْ فَتِلْکَ سَبِیـْــــلٌ لَسْتُ فِیْہَا بِأَوْحَدِ

َوقَــدْ عَلِمُوا لَو یَنْفَــــعُ الْعِلْمُ عِنْدَہُمْ لَئِـــنْ مِتُّ مَا الــدَّاعِیْ عَلَیَّ بِمَخْلَدِ


لوگ تمنا کرتے ہیں کہ میں مرجاؤں۔ اگر میں مر بھی گیا تو یہ راہ ایسی ہے جس کا راہی صرف میں نہیں ہوں۔ اگر علم لوگوں کے لئے نفع بخش ثابت ہو تو وہ یہ مان لیں کہ میں اگر مر بھی گیا تو مجھے بددعا دینے والا بھی باقی رہنے کا نہیں۔

آپ کی طبیعت جب بہت زیادہ بگڑی تو پاس بیٹھے شاگرد امام مزنی ؒ نے خیریت دریافت کرتے ہوئے عرض کی: کَیْفَ أَمْسَیْتَ یَا أُستاذَ الأستاذِینَ؟ اساتذہ کے استاذ! آپ کا دن کیسے گذرا؟ جواب میں فرماتے ہیں:
أَصْبَحْتُ مِنَ الدُّنْیَا رَاحِلاً فَلِلإخْوَانِ مُفَارِقًا، وَبِسُوئِ أَفْعَالِی مُلَاقِیًا، وَعَلَی اللّٰہِ وَارِدًا، وَلَکَأْسُ الْمَنِیَّۃِ شَارِبًا، وَلَا وَاللّٰہِ لاَ أَدْرِیْ أَنَّ رُوحِیْ یَصِیرُ إِلَی الْجَنَّۃِ فَأُھَنِّئُہَا أَوْ إِلَی النَّارِ فَأُعَزِّیْہَا۔آج میں دنیا سے رخصت ہونے والا ہوں ، اور اپنے بھائیوں کو چھوڑنے والا بھی۔ ہائے! اپنے برے اعمال کی سزا بھی پانے والا ہوں اور اللہ بزرگ وبرتر کی بارگاہ میں پیش ہونے والا بھی ہوں اور موت کا پیالہ ابھی پینے والا ہوں۔ واللہ ! میں نہیں جانتا آیا میری روح جنت میں جائے گی کہ میں اسے مبارک باد دوں یا اس کامقام دوزخ ہے کہ میں اس سے تعزیت کروں۔

نماز مغرب سے فراغت کے بعد لیٹے ہی تھے کہ نزع کی کیفیت شروع ہوگئی۔ بہت الحاح کے ساتھ بارگاہ الٰہی میں پھر عرض گزار ہوئے۔ عشاء کی نماز ہمت کرکے پڑھی اور فراغت کے بعد پھر گڑگڑا کر دُعا مانگی۔ دُعا سے فارغ ہو کرلیٹے ہی تھے کہ روح مبارک بآسانی نکل گئی۔ اور اس طرح امام محترمؒ خدمت دین سے بھرپور اپنی یہ مختصر زندگی گزار کر دار فانی میں جا پہنچے۔ نماز جمعہ کے بعد آپ کی نماز جنازہ سب سے پہلے سیدہ نفیسہ بنت حسن نے ادا کی اور پھر ساری خلقت نے۔ اور یوں بعد از عصر آپ کو قاہرہ کے جبل مقطم کے قبرستان قرا فصۃ الصغری میں دفن کیا گیا۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔ آمین

٭٭٭٭٭​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
امام احمد بن حنبلؒ(۱۶۴۔۲۴۱ھ)

ابو عبد اللہ الشیبانی، بغداد میں ربیع الاول ۱۶۴ھ میں پیدا ہوئے۔ اپنے دور کے سب سے بڑے عالم حدیث، مجتہد تھے۔ سنت نبوی سے عملی وعلمی لگاؤ تھا اس لئے امت سے امام اہل السنۃ کا لقب پایا۔ زہد واستغناء ایسا مثالی تھا کہ جذبہ جہاد سے ہر وقت معمور رہتے۔ آپ کے والد محترم بھی فوج کے ایک سپاہی تھے جو جوانی میں ہی انتقال کر گئے۔ اس وقت ان کی عمر دو برس کی تھی۔ والدہ محترمہ نے تربیت وتعلیم کی ذمہ داری کو نبھایا اور پوری نگہداشت کی اور ابتدائی تعلیم بغداد میں ہی دلائی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تعلیم وسماعت حدیث:
سولہ برس کی عمر میں آپ نے حدیث کی سماعت شروع کی۔ امام ابویوسفؒ کے حلقہ درس میں بیٹھے۔ ۱۸۰ھ میں سب سے پہلا حج کیا۔ پھرحجاز آمد ورفت رہی اور علماء حجاز سے علم سیکھتے رہے۔ ۱۹۶ھ میں یمن جاکر امام عبد الرزاق الصنعانی ؒسے احادیث سنیں۔ یہاں امام یحییؒ بن معین اور اسحق بن راہویہؒ بھی ان کے شریک درس رہے۔ آپ کوفہ بھی تشریف لے گئے۔ مسافرت برائے حدیث میں تنگدستی بھی دیکھی۔ ان دنوں جس جگہ قیام پذیر رہے سر کے نیچے سونے کے لئے اینٹ رکھا کرتے۔ کہا کرتے کاش میرے پاس دس درہم ہوتے میں حدیث سننے کے لئے جریر بن عبد الحمید کے پاس رے چلا جاتا۔ امام شافعیؒ خود فرماتے ہیں انہوں نے مجھ سے مصر آنے کا وعدہ کیا مگر معلوم نہیں کس وجہ سے نہیں آسکے شاید وجہ بے زری ہوگی۔ بایں ہمہ امام محترم تقریبا سارے اسلامی ممالک میں گھومے اور اپنے وقت کے بیشتر مشایخ سے احادیث حاصل کیں۔ زمانہ طالب علمی میں ہارون الرشید کی طرف سے یمن کا قاضی بننے کی پیش کش ہوئی جسے انہوں نے قبول نہ کیا۔ ۱۹۹ھ میں امام شافعیؒ جب دوسری بار بغداد تشریف لائے تو امام احمدؒ سے انہوں نے کہا: اگر تمہارے پاس ، کوئی صحیح حدیث حجاز، شام، یا عراق کہیں کی ہو مجھے مطلع کرو۔ میں حجازی فقہاء کی طرح نہیں ہوں جو اپنے شہر کے علاوہ دیگر بلاد اسلامیہ میں پھیلی ہوئی احادیث کو غیر مصدقہ سمجھتے ہیں۔ اس وقت امام احمدؒ کی عمرچھتیس برس کی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اساتذہ:
آپ کے اساتذہ کی ایک خاصی تعداد ہے جن سے فقہ وحدیث کا علم حاصل کرتے رہے۔ ان میں قاضی ابویوسفؒ، امام شافعیؒ، سفیانؒ بن عیینہ، یحییؒ بن سعید القطان، عبد الرحمن بن مہدیؒ، إسمعیلؒ بن علیہ، ابوداؤد طیالسیؒ اور وکیعؒ بن الجراح جیسی نابغہ روزگار شخصیات ہیں جو اپنے مقام اور مرتبے کے اعتبار سے نہ صرف روایت ودرایت حدیث میں سب سے آگے ہیں بلکہ فقاہت کے اعتبار سے بھی وہ اجتہاد کے مقام کو پہنچتے ہیں۔ امام محترم نے حدیث حفظ کی اور جمع بھی کی۔اس ذوق نے انہیں اپنے وقت کا امام حدیث اور مجتہد بنا دیا۔ امام ابراہیم الحربی کہتے ہیں: میں نے امام احمد کو دیکھا یوں لگتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں علم اولین وآخرین جمع کردیا ہے۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیں: میں جب بغداد سے نکلا تو اپنے پیچھے سب سے زیادہ متقی اور فقیہ انسان احمدؒ بن حنبل ہی کو چھوڑا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تلامذہ:
بہت سے علماء نے آپ سے علم حاصل کیا۔ خصوصیت کے ساتھ آپ سے فقہ اور اجتہادات کو اخذ کرنے والے ایک سو بیس سے زیادہ فقہاء شاگرد ہیں۔جنہوں نے اپنے شیخ کی فقہ اور اجتہادات کو سارے عالم میں پھیلایا۔ ان میں ان کے اپنے بڑے صاحب زادے صالح بن احمد ہیں جنہوں نے اپنے والد محترم سے علم فقہ وحدیث کو حاصل کیا اور دیگر اساتذہ سے بھی وہ مستفید ہوئے۔۲۶۶ھ میں ان کا انتقال ہوا۔ ابوبکرأحمدؒ بن محمد الخراسانی جو الأثرم کے نام سے معروف تھے، انہوں نے بھی امام احمدؒ سے بہت سے فقہی مسائل روایت کئے ہیں اور بہت سی احادیث بھی۔ اپنے وقت کے فقہاء وحفاظ حدیث میں شمار ہوتے ہیں۔ سن ۲۷۳ھ میں آپ فوت ہوئے۔ ایک اور شاگرد عبد الملک بن عبد الحمید بن مہران المیمونی جو امام محترم کی صحبت میں بیس سال سے زائد عرصہ تک رہے۔ امام محترم کے شاگردوں میں یہ بہت جلیل القدر شمار ہوتے ہیں۔ ان کا انتقال سن ۲۷۴ھ میں ہوا۔ اسی طرح امام بخاریؒ، امام مسلمؒ اور امام ابوداؤدؒ بھی آپ کے تلمذ پر مفتخر تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تقویٰ:
امام بیہقی ؒلکھتے ہیں: امام احمدؒ اپنے چچا اور اپنے بیٹے کے پیچھے نماز نہیں پڑھا کرتے تھے اور نہ ہی ان میں سے کسی کے گھر کھانا کھاتے ۔ وجہ یہ تھی کہ ان دونوں نے بادشاہی مناصب قبول کر رکھے تھے۔ بڑے تاجر آآکر آپ کی خدمت میں دینار پیش کرتے مگر بالکل قبول نہ کرتے۔ یمن میں طالب علمی کے دوران ان کی مالی حالت بہت کمزور تھی آپ کے شیخ امام عبد الرزاقؒ نے اس خبر پر جب خاموشی سے ان کی مٹھی میں کچھ دینا چاہا تو لینے سے انکار کردیا اور کہا: اللہ میری ضروریات پوری کردیتا ہے۔ ان کی صحبت لوگوں کو آخرت یاد دلا دیتی ۔ دنیاوی باتوں میں بالکل نہیں الجھتے تھے۔ متوکل کون ہوتا ہے؟ اس کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: جو غیر اللہ سے ہر قسم کی توقعات ختم کردے۔ دلیل پوچھی گئی تو فرمایا: سیدنا ابراہیم علیہ السلام جب منجنیق پر چڑھائے گئے تو جبریل امین نے آکرمدد کے لئے کہا تو فرمایا: ہاں مدد تو چاہئے مگر تم سے نہیں۔ جبریل علیہ السلام نے عرض کی تو آپ اسی سے کہئے جس سے آپ کہنا چاہتے ہیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: میرے لئے وہی امر پسندیدہ ہے جو اللہ تعالیٰ کوپسندیدہ ہے۔ فرمایا کرتے: فقر ایک ایسا عظیم مرتبہ ہے جسے اکابر کے سوا اورکوئی نہیں پا سکتا۔ اپنی دعاؤں اور سجدوں میں اکثر گڑگڑاتے اور فرماتے: اے اللہ! اگر گنہگاران امت محمدیہ کا توکوئی فدیہ چاہتا ہے تومجھی کو ان کا فدیہ بنا لے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فتنہ خلق قرآن:
خلیفہ مامون نے معتزلی علماء کے اکسانے پر علمائے امت کو ایک خط لکھا جس میں قرآن کو مخلوق اور محدَث ماننے کی بہ جبر دعوت تھی۔ انکارکی صورت میں سختیاں شروع کر دیں، معاش بند کردیا اور سخت سزاؤں کی دھمکی بھی دی۔ بہت سے جبرا ًقائل ہوگئے کہ قرآن مخلوق ہے۔ مگر امام احمدؒ اور محمدؒ بن نوح نیسابوری نے اس نظریے کو ماننے سے صاف انکار کردیا۔ آزمائش کے اس مرحلے پر دونوں ثابت قدم رہے بلکہ کندن بن کر نکلے اور بڑا رتبہ بھی پایا مگر درجہ بدرجہ۔ جتنا ایمان اتنی آزمائش، جوتاحیات قائم رہتی ہے حالانکہ وہ گناہ گار نہیں ہوتا۔ آپ ﷺ کا یہ ارشاد انہیں ازبر تھا: یہ دنیا ہمیشہ مصائب اور فتنے دکھایا کرتی ہے۔ بعد کے ادوار میں مصائب کی شدت تیز تر ہوگی۔

خلیفہ مامون نے سب علماء کو بلا بھیجا۔ کمزور لوگ حکومت کی سطوت اور قہرکے آگے گردن خم کر بیٹھے۔ امام احمد اور محمد بن نوح نے جب نہ مانا تو دونوں حضرات کو اونٹ پر سوار کرکے مامون کے ہاں لے جایا گیا۔ راستہ میں ایک بدو نے نصیحت کرتے ہوئے کہا: آپ مسلمانوں کی نمائندگی کرنے جارہے ہیں ۔ سب کی نظر آپ پر ہے۔ للہ آپ مسلمانوں کو رسوا نہ کیجئے گا۔ اللہ آپ کا دوست ہے صبر کیجئے گا ۔ جنت آپ اور آپ کے شہید ہونے کی دیر تک ہے۔ موت تو بہرحال آنی ہے اس فتنہ میں آپ اگر کامیاب ہوگئے تو دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں گی۔ امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ یہ نصیحتیں میرے دل کو لگ گئیں اور میں نے مامون کے خیالات کی نفی کا پورا عزم کرلیا۔

مامون کے ہاں جب یہ دونوں حضرات پہنچے تو قریب ہی ایک جگہ میں انہیں ٹھہرا دیا گیا۔ خادم نے اطلاع دی کہ مامون نے رسول اللہ سے قرابت کا واسطہ دے کر قسم کھالی ہے: اگر احمدؒ نے خلق قرآن کا اقرار نہ کیا تو اسی تلوار سے اس کی گر دن اڑا دوں گا۔ امام احمدؒ نے یہ سنتے ہی گھٹنے زمین پر ٹیک دیے اور آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور عرض کی: خدایا! اس فاجر کوتیرے حلم نے بہت مغرور کردیا ہے کہ وہ اب تیرے دوستوں پر بھی تلوار اٹھاتا ہے۔ خدایا! اگر تیرا کلام غیر مخلوق ہے تو تو مجھے اس پر ثابت قدم رکھ میں اس کے لئے ہر مصیبت سہنے کو تیار ہوں۔ اسی رات صبح ہونے سے پہلے مامون کا انتقال ہوگیا۔ مگر معتصم خلیفہ بن گیا۔ اس نے محمد بن ابی دؤاد کو اپنا وزیر اور قوت بازو بنایا۔ اس طرح معتصم، مامون سے بھی زیادہ اس نظریے کے لئے سخت گیر ثابت ہوا۔ اس نے امام محترم کو دیگر قیدیوں کے ساتھ بیڑیاں باندھ کر ایک کشتی میں بغداد بھیج دیا۔ محمدؒ بن نوح راستہ میں ہی انتقال کرگئے۔

امام محترم جب بغداد پہنچے تو پاؤں میں بوجھل بیڑیا ں تھیں جن کی وجہ سے چلنا دشوار تھا۔ سخت علیل ہوگئے۔ قید خانہ میں ڈال دئیے گئے اور تیس ماہ قید میں رہے۔ پھر معتصم کے پاس انہی بیڑیوں میں لائے گئے۔ سُرَّمَنْ رَأَی (گلبرگ) میں ایک کمرہ میں بند کردیا گیا۔ جس میں اندھیرا ایسا تھا کہ کوئی چیز نظر نہ آتی۔ رب کے حضور نماز شکرانہ ادا کی۔ امام محترم فرماتے ہیں: معتصم کے پاس اسی حالت میں مجھے لے جایا گیا ۔ میں نے سلام کے بعد گفتگوکی اور کہا کہ آپ کے نانا محترم کا کیا پیغام تھا؟ معتصم نے کہا لا إلہ إلا اللہ کی طرف۔ تھوڑی گفتگو کے بعدمعتصم نے عبد الرحمن معتزلی کو کہا کہ ان سے پوچھو۔

عبد الرحمن نے مجھ سے کہا: قرآن کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ میں چپ رہا۔ لیکن معتصم نے اصرار کیا جواب دو تو میں نے کہا: باری تعالیٰ کے علم کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔ اس نے جواب نہ دیا۔ میں نے کہا: قرآن اللہ کا علم ہے اور جس نے اللہ کے علم کو مخلوق کہا اس نے کفر کیا۔ کفر کے لفظ سے یہ جماعت بڑی سیخ پا ہوئی اور معتصم سے کہا: دیکھئے اس نے آپ کو اور ہم سب کو کافر کہہ دیا۔ مگر معتصم نے توجہ نہ دی۔ پھر عبد الرحمن نے سوال کیا: یہ بتاؤ ایک زمانہ تھا جب اللہ تھا اور قرآن نہ تھا۔ میں نے جوابا ًکہا: کیا ایسا تھا کہ خدا تھا اور اس کا علم نہ تھا؟ عبدالرحمن چپ ہوگیا۔ بہرحال وہ جو دلائل دیتے میرے سوال یا جواب میں وہ خاموش ہوتے رہے اور بدتمیزی و بدکلامی بھی کرتے رہے۔ اور خلیفہ کو بہکاتے بھی۔ میں کہتا : دین کی بنیاد کتاب وسنت کے علاوہ کسی تیسری چیز پر نہیں ہے۔ مگر ابن ابی دؤاد کہتا: بحث کا دار ومدار نقل کے علاوہ عقل پر بھی ہونا چاہئے۔ اسی طرح دوسرے اور تیسرے دن گفتگو ہوتی رہی۔ آخری دن امام محترم کی آواز ان سب کی آوازوں سے بھاری اور اونچی رہی جو معتزلی فقہاء اور قضاۃ کی تھی۔ وہ لا جواب رہے۔ اور خلیفہ مجھے یہی کہتا رہاکہ تم میرے مسلک کی تائید کرو میں تمہیں مقرب خاص بنا لوں گا۔ میں نے یہی کہا: کہ اگر کوئی دلیل قرآن وحدیث سے پیش کردیجئے تومیں ماننے کو تیار ہوں۔ بعد ازاں خلیفہ نے میرے ہاتھ پاؤں بندھوا دئیے اور مجھے کوڑے برسوائے۔ میں بار بار بے ہوش ہوا۔ جب پہلا کوڑا برسا میں نے بِسْمِ اللّٰہِ کہا۔ جب دوسرا پڑا تو لاَ حَولَ وَلَا قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللّٰہِ کہا اور جب تیسرا پڑا تو کہا: {قل لن یصیبنا إلا ما کتب اللہ لنا}۔ بے ہوش ہوتا تو چھوڑ دیا جاتا۔ ہوش میں آتا تو دوبارہ مارنا شروع کردیتے ۔میں جلد بے ہوش ہونے لگا تو معتصم ڈر گیا کہ کہیں اب یہ فوت ہی نہ ہوجائیں۔ اس نے ضرب بند کرادی۔ جب ہوش آیا تو معتصم کے ایک کمرہ میں ہی خود کو بغیر سلاسل کے آزاد پایا۔ یہ واقعہ ۲۵رمضان ۲۲۱ھ کا ہے۔

مجھے گھر پہنچانے کا خلیفہ نے حکم دیا۔ راستہ میں اسحق بن ابراہیم کے ہاں ٹھہرے۔ کہتے ہیں کہ میں صائم تھا۔ کپڑے خون آلود تھے اسی حالت میں نماز ادا کی۔ ابن سماعہ نے کہا کہ آپ نے خون کے کپڑوں میں نماز ادا کی؟۔ میں نے کہا: ہاں! سیدنا عمرؓ نے خون بہنے کی حالت میں نماز ادا تھی اور ان کے زخم کا خون فوارہ کی صورت میں نکل رہا تھا۔ کوڑوں کے ضرب کی وجہ سے ہاتھ اور ہونٹوں پر سردی کا اثر تا وفات رہا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
خراج عقیدت:
امام ابن المدینیؒ نے آزمائش کی اس گھڑی پر امام کی ثابت قدمی پر کہا: اللہ تعالیٰ نے اسلام کو دو بندوں کی وجہ سے بڑی عزت عطا فرمائی۔ ابو بکرؓ صدیق سے جو یوم الردۃ(جنگ یمامہ) کے دن ثابت قدم رہے۔ اور امام احمدؒ سے جنہوں نے محنہ (آزمائش) کے موقع پر اسلام کو سرفراز فرمایا۔ امام بشر الحافی ؒ نے فرمایا: امام احمدؒ نے اس امت میں نبوت کے فرائض سر انجام دئیے ہیں۔ ابو الولید الطیالسیؒ نے کہا: اگر احمدؒ بنو اسرائیل میں پیدا ہوتے تو کچھ بعید نہ تھا کہ وہ نبی ہوتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
عقیدہ:
امام محترم ٹھوس اسلامی عقائد کے قائل تھے۔ قرآن پر کسی چیزکومقدم نہ کرتے۔ اسے غیر مخلوق بلکہ لوح محفوظ میں جو کچھ ہے وہ بھی غیر مخلوق قرار دیتے۔ اس کے بعد حدیث رسولﷺ کا مرتبہ ہے۔ اور آپ ﷺ کی حدیث کے ساتھ صحابہ وتابعین کے آثار بھی قابل قبول ہیں۔ آپ ﷺ جو کچھ لائے ہیں اس کی تصدیق اور آپ ﷺ کی سنت کی اتباع میں ہی نجات ہے۔ قضاء وقدر، خیر وشر سب اللہ کی جانب سے ہیں۔ اگر کسی نے فرض کو سستی ولا پروائی سے ترک کردیا تو اللہ کو اختیار ہے بخش دے یا اسے عذاب دے ۔ ایمان، قول وعمل اور دلی تصدیق کا نام ہے۔ میزان حق ہے۔ صراط حق ہے۔ جنت ودوزخ برحق ہیں۔ عیسیٰ بن مریم کا نزول برحق ہے۔ حوض حق اور شفاعت بھی حق ہے۔ عرش وکرسی بر حق ہیں۔ ملک الموت پر میرا ایمان ہے۔ دجال یقینا آئے گا۔ عیسیٰ بن مریم دنیا میں آئیں گے اور باب لد پر دجال کو قتل کریں گے۔

آپﷺ کے بعدسیدنا ابوبکر ؓ جیسا کوئی نہیں۔ ان کے بعد سیدنا عمرؓ جیسا اور ان کے بعد عثمانؓ جیسا کوئی نہیں۔ بغیرولی نکاح صحیح نہیں۔ متعہ(وقتی نکاح) قیامت تک کے لئے حرام ہے۔وغیرہ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وفات:
۲۴۱ھ ربیع الاول میں مرض الموت میں مبتلا ہوئے ۔ وفات سے قبل امام محترم نے وصیت لکھی اور کی بھی۔ جس کے الفاظ یہ تھے:
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحیمِ ہٰذَا مَا أَوْصٰی أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ أَوْصٰی أَنَّہُ یَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیْکَ لَہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ، أَرْسَلَہُ بِالْہُدٰی وَدِینِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ وَلَوکَرِہَ الْمُشْرِکُونَ، وَأُوْصِیْ لِأہْلِی وَقَرَابَتِی أَنْ یَعْبُدُوا اللّٰہَ وَأنْ یَحْمَدُوہُ وَأَنْ یَنْصَحُوا لِجَمَاعَۃِ الْمُسلِمِینَ وَأُوْصِی أَنَّی قَدْ رَضِیتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَبِالإسْلاَمِ دِیْنًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولاً۔
وفات سے قبل اپنا وضو کرایا، اور ہر حصے کو اچھی طرح دھلوایا۔ پیر کی انگلیوں کا خلال تک کیا۔ درمیان میں اللہ کا ذکر کرتے رہے جب وضو مکمل ہوا تب فوت ہوگئے۔ جمعہ کا دن تھا۔ عمر تقریبا (۷۷) ستتر سال تھی۔تجہیز وتکفین سب کچھ اولاد نے خرید کر کی۔ جنازہ میں سات لاکھ لوگ شریک ہوئے جن میں اکثریت اہل علم کی تھی۔ علماء اس وقت کہا کرتے تھے: بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَومِ الْجَنَائِزُ ہمارے اور دوسروں کے درمیان جنازے ہی تو فرق کیا کرتے ہیں۔
 
Top