- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
زمانہ خیر کے بعد فتویٰ:
دوسری صدی ہجری میں قرون اولیٰ کے اس منہج میں اہل علم کے درمیان کچھ اصولی اور عقلی بنیادوں پر اختلافات رونما ہوئے۔ اس طرح اصولی نقطہ نظر کی تبدیلی سے فقہاء کے درمیان دو گروہ ہو گئے۔
وہ گروہ جو استنباط مسائل میں یا افتاء میں احادیث وفتاوی صحابہ ؓ کی بنیاد پر فتوی دیتا تھا اور مفروضہ مسائل میں شرعی حکم بیان کرنے سے مجتنب تھا۔ یہ محدثین کی جماعت تھی جس میں حجازی علماء وفقہاء کی غالب اکثریت تھی۔
-- دوسرے گروہ کے نمائندے فقہاء عراق تھے جن کی غالب اکثریت تھی جنہوں نے بعض قواعد بنائے اور انہی کی روشنی میں پیش آمدہ مسائل اور مستقبل میں پیش آنے والے مسائل کو مفروضی شکل میں تحریر کر دیا۔ اس کی وجہ غالبا ً یہی بیان کی جا سکتی ہے کہ اہل عراق کے ان فقہاء کے پاس صحیح احادیث کم تھیں۔ باقی موضوع احادیث کیلئے تو عراق ایک ٹکسال تھا۔ یہ فقہاء کسی بھی حدیث کو قبول کرنے میں محتاط تھے اس لئے ان کے ہاں رائے اور قیاس کا استعمال بکثرت تھا۔ جنہیں بعد میں کتب فقہ میں اور کتب فتاویٰ میں جگہ دے دی گئی۔
بعد کی نسلوں میں انہی کے متبعین اور مقلدین نے اپنے اپنے مسلک کی توجیہ وتائید میں کتب لکھیں۔ اور یوں دو انتہائیں سامنے آ گئیں۔ ایک نصوص میں اتنا منہمک ہوا کہ تفقہ نظر انداز ہو گیا اور دوسرا اصول و فروع میں اتنا گم ہوا کہ نصوص اسے نظر نہ آئیں۔ انہی میں کچھ ایسے مجتہدین بھی ظاہر ہوئے جنہوں نے نصوص اور تفقہ کو باہم ساتھ لیا اور جمود وسابقہ منہج آراء وقیاس سے آزاد ہو کر سلف صالحین کے اس منہج کو اپنایا جو اجتہادی تھا۔ انہوں نے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اس کا علاج کیا اور بخوبی کیا۔ اس طائفہ کے سرخیل شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ تھے۔ ان کے اس طریقہء کار کا اثر مصر وشام اور دیگر بلاد عربیہ پر خاصا ہوا۔ ایسی روشن فکر نے جمود وقیاسات کی دیواریں توڑ دیں اور ہر جگہ نصوص وتفقہ سے استفادہ کا رحجان بڑھا اور بہتر نتیجہ دیکھنے میں آیا۔
خلافت عثمانیہ نے جب ۱۲۸۶ھ میں مجلۃ الاحکام العدلیہ کی تدوین کی تو پہلی بار مذاہب اربعہ سے ہٹ کر بعض مسائل میں امام ابن شبرمہ کے مسلک پہ فتوی بھی دیا گیا۔ ۱۹۲۹ھ اور ۱۹۳۶ھ میں مصر نے بھی اسی ڈگر پہ چلنے کی کوشش کی۔ برصغیر میں بھی بڑے بڑے علماء نے اپنے اپنے مسلک سے ہٹ کر دیگر مسالک پر فتوے دیے۔ اور اس کی تائید میں کتب لکھیں۔ جن میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی شامل ہیں اوران کی اولاد وتلامذہ کی کثیر تعداد شامل ہے۔ پاکستان میں بھی بیشتر عائلی مسائل کا نفاذ انہی اجتہادی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ جن میں اکثر مستحسن ہیں اور بعض دین سے جہالت پر مبنی اور خواہشات کا پلندہ ہیں۔
دوسری صدی ہجری میں قرون اولیٰ کے اس منہج میں اہل علم کے درمیان کچھ اصولی اور عقلی بنیادوں پر اختلافات رونما ہوئے۔ اس طرح اصولی نقطہ نظر کی تبدیلی سے فقہاء کے درمیان دو گروہ ہو گئے۔
وہ گروہ جو استنباط مسائل میں یا افتاء میں احادیث وفتاوی صحابہ ؓ کی بنیاد پر فتوی دیتا تھا اور مفروضہ مسائل میں شرعی حکم بیان کرنے سے مجتنب تھا۔ یہ محدثین کی جماعت تھی جس میں حجازی علماء وفقہاء کی غالب اکثریت تھی۔
-- دوسرے گروہ کے نمائندے فقہاء عراق تھے جن کی غالب اکثریت تھی جنہوں نے بعض قواعد بنائے اور انہی کی روشنی میں پیش آمدہ مسائل اور مستقبل میں پیش آنے والے مسائل کو مفروضی شکل میں تحریر کر دیا۔ اس کی وجہ غالبا ً یہی بیان کی جا سکتی ہے کہ اہل عراق کے ان فقہاء کے پاس صحیح احادیث کم تھیں۔ باقی موضوع احادیث کیلئے تو عراق ایک ٹکسال تھا۔ یہ فقہاء کسی بھی حدیث کو قبول کرنے میں محتاط تھے اس لئے ان کے ہاں رائے اور قیاس کا استعمال بکثرت تھا۔ جنہیں بعد میں کتب فقہ میں اور کتب فتاویٰ میں جگہ دے دی گئی۔
بعد کی نسلوں میں انہی کے متبعین اور مقلدین نے اپنے اپنے مسلک کی توجیہ وتائید میں کتب لکھیں۔ اور یوں دو انتہائیں سامنے آ گئیں۔ ایک نصوص میں اتنا منہمک ہوا کہ تفقہ نظر انداز ہو گیا اور دوسرا اصول و فروع میں اتنا گم ہوا کہ نصوص اسے نظر نہ آئیں۔ انہی میں کچھ ایسے مجتہدین بھی ظاہر ہوئے جنہوں نے نصوص اور تفقہ کو باہم ساتھ لیا اور جمود وسابقہ منہج آراء وقیاس سے آزاد ہو کر سلف صالحین کے اس منہج کو اپنایا جو اجتہادی تھا۔ انہوں نے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اس کا علاج کیا اور بخوبی کیا۔ اس طائفہ کے سرخیل شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ تھے۔ ان کے اس طریقہء کار کا اثر مصر وشام اور دیگر بلاد عربیہ پر خاصا ہوا۔ ایسی روشن فکر نے جمود وقیاسات کی دیواریں توڑ دیں اور ہر جگہ نصوص وتفقہ سے استفادہ کا رحجان بڑھا اور بہتر نتیجہ دیکھنے میں آیا۔
خلافت عثمانیہ نے جب ۱۲۸۶ھ میں مجلۃ الاحکام العدلیہ کی تدوین کی تو پہلی بار مذاہب اربعہ سے ہٹ کر بعض مسائل میں امام ابن شبرمہ کے مسلک پہ فتوی بھی دیا گیا۔ ۱۹۲۹ھ اور ۱۹۳۶ھ میں مصر نے بھی اسی ڈگر پہ چلنے کی کوشش کی۔ برصغیر میں بھی بڑے بڑے علماء نے اپنے اپنے مسلک سے ہٹ کر دیگر مسالک پر فتوے دیے۔ اور اس کی تائید میں کتب لکھیں۔ جن میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی شامل ہیں اوران کی اولاد وتلامذہ کی کثیر تعداد شامل ہے۔ پاکستان میں بھی بیشتر عائلی مسائل کا نفاذ انہی اجتہادی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ جن میں اکثر مستحسن ہیں اور بعض دین سے جہالت پر مبنی اور خواہشات کا پلندہ ہیں۔