- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
فقہ سے مستفید ہونے کا طریقہ
اسلامی فقہ کی واقفیت سے آپ بآسانی اپنے اعمال کو حلال وحرام، جائز وناجائز اور مسنون وغیر مسنون وغیرہ کا درجہ دے سکتے ہیں۔ فقہ دراصل کسی بھی مسئلے کی ایک مربوط و مرتب و ضاحت کا نام ہے۔ اس لئے ایک عام آدمی کو فقہ جب مربوط صورت میں ملتی ہے اور وہ اسے پڑھتا ہے۔ تو فقہ کا سمجھنا اس کے لئے آسان تر ہوتا ہے۔
فقہ اسلامی بذات خودکوئی مستقل موضوع نہیں بلکہ قرآن وسنت ہی کا یہ فہم ہوتا ہے۔ اور اس کے تمام موضوعات انہی دونوں سے ہی مأخوذ ہوتے ہیں۔ قرآن میں چونکہ فقہی مضامین خال خال مگر جا بجا بکھرے ہیں۔ اس لئے اس سے بیک وقت کسی مسئلے سے تفصیلی طور پر آگاہ ہونا عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہاں قرآن مجید کی مطبوعہ موضوعاتی فہارس سے مستفید ہونا ممکن ہے۔ مگر حدیث کی وہ کتب جو سنن کے نام سے معروف ہیں۔ اِن میں دینی مسائل کو فقہی ترتیب دے دی گئی ہے۔ اس لئے پہلا گر یہی ہے کہ ان سنن کی کتب کا مطالعہ کیجئے۔ فقہاء حدیث کے استنباطات کو دیکھئے جو ابواب حدیث سے پہلے صاحب کتاب نے لکھے ہیں، اور اصول و قواعد فقہیہ جو زبان رسول سے ماخوذ ہیں نوٹ کیجئے۔ اور اس اندازِ استدلال کے خوگر بنئے جو محدّثین نے اپنائے ہیں۔ جہاں دلائل ہیں نصوص ہیں قیاسات نہیں ہیں۔ صحیح بخاری بھی اس سلسلے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
امام بخاری کے بارے میں یہ قول بہت مشہور ہے۔ فِقْہُ الْبُخَارِیِّ فِیْ تَرَاجُمِہِ بہت مشہور ہے۔یعنی امام بخاری کی فقیہانہ شان دیکھنی ہو تو ان کی کتاب کے ابواب chapters پر نگاہ ڈالئے۔ ان کتب کا مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی مارکیٹ میں دستیاب ہے۔ ایسی کتب کا مطالعہ شاید ان کتب سے مفید ہو جو صرف اردو میں تو لکھی گئی ہوں مگر Originalنہ ہوں اور شاذونادر ہی ان میں کسی مسئلے کی دلیل دی گئی ہو۔ اگر دی بھی گئی ہے تو وہ بھی ایسی کتب سے جن کا محدثین کیا علماء فقہ کے ہاں بھی کوئی مقام نہیں۔ ان میں زیادہ تر ضعیف وموضوع احادیث کا سہارا لیا جاتا ہے۔ جن پر عمل کرنا تمام اہل علم کے ہاں ناجائز بلکہ بعض صورتوں میں حرام ہوتا ہے۔ ریفرنس کے سلسلے میں بھی انہیں کتب کو اپنا اولین مأخذ بنائیے ۔
دوسرا آسان گر یہ ہے کہ اپنے آپ کو اقوال رجال سے یا ان کتب سے حتی الامکان دور رکھئے جن میں ائمہ مجتہدین کی طرف منسوب ایسے غیر ضروری عجیب وغریب مسائل بیان کئے گئے ہیں جو انہوں نے نہیں کہے۔ آخر وہ کیسے کہہ سکتے ہیں جب کہ سنت رسول میں صراحۃً ان مسائل کے برعکس ایسی احادیث مذکور ہیں۔ جن کا رنگ یا معنی ومفہوم ان سے بالکل مختلف ہے۔ اور اگر بالفرض ان سے منسوب کچھ مسائل ہیں بھی سہی تو وجہ صاف ظاہر ہوتی ہے کہ ایسے مجتہدین وفقہاء کرام کو احادیث نہیں مل سکیں۔
اسلامی فقہ کی واقفیت سے آپ بآسانی اپنے اعمال کو حلال وحرام، جائز وناجائز اور مسنون وغیر مسنون وغیرہ کا درجہ دے سکتے ہیں۔ فقہ دراصل کسی بھی مسئلے کی ایک مربوط و مرتب و ضاحت کا نام ہے۔ اس لئے ایک عام آدمی کو فقہ جب مربوط صورت میں ملتی ہے اور وہ اسے پڑھتا ہے۔ تو فقہ کا سمجھنا اس کے لئے آسان تر ہوتا ہے۔
فقہ اسلامی بذات خودکوئی مستقل موضوع نہیں بلکہ قرآن وسنت ہی کا یہ فہم ہوتا ہے۔ اور اس کے تمام موضوعات انہی دونوں سے ہی مأخوذ ہوتے ہیں۔ قرآن میں چونکہ فقہی مضامین خال خال مگر جا بجا بکھرے ہیں۔ اس لئے اس سے بیک وقت کسی مسئلے سے تفصیلی طور پر آگاہ ہونا عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہاں قرآن مجید کی مطبوعہ موضوعاتی فہارس سے مستفید ہونا ممکن ہے۔ مگر حدیث کی وہ کتب جو سنن کے نام سے معروف ہیں۔ اِن میں دینی مسائل کو فقہی ترتیب دے دی گئی ہے۔ اس لئے پہلا گر یہی ہے کہ ان سنن کی کتب کا مطالعہ کیجئے۔ فقہاء حدیث کے استنباطات کو دیکھئے جو ابواب حدیث سے پہلے صاحب کتاب نے لکھے ہیں، اور اصول و قواعد فقہیہ جو زبان رسول سے ماخوذ ہیں نوٹ کیجئے۔ اور اس اندازِ استدلال کے خوگر بنئے جو محدّثین نے اپنائے ہیں۔ جہاں دلائل ہیں نصوص ہیں قیاسات نہیں ہیں۔ صحیح بخاری بھی اس سلسلے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
امام بخاری کے بارے میں یہ قول بہت مشہور ہے۔ فِقْہُ الْبُخَارِیِّ فِیْ تَرَاجُمِہِ بہت مشہور ہے۔یعنی امام بخاری کی فقیہانہ شان دیکھنی ہو تو ان کی کتاب کے ابواب chapters پر نگاہ ڈالئے۔ ان کتب کا مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی مارکیٹ میں دستیاب ہے۔ ایسی کتب کا مطالعہ شاید ان کتب سے مفید ہو جو صرف اردو میں تو لکھی گئی ہوں مگر Originalنہ ہوں اور شاذونادر ہی ان میں کسی مسئلے کی دلیل دی گئی ہو۔ اگر دی بھی گئی ہے تو وہ بھی ایسی کتب سے جن کا محدثین کیا علماء فقہ کے ہاں بھی کوئی مقام نہیں۔ ان میں زیادہ تر ضعیف وموضوع احادیث کا سہارا لیا جاتا ہے۔ جن پر عمل کرنا تمام اہل علم کے ہاں ناجائز بلکہ بعض صورتوں میں حرام ہوتا ہے۔ ریفرنس کے سلسلے میں بھی انہیں کتب کو اپنا اولین مأخذ بنائیے ۔
دوسرا آسان گر یہ ہے کہ اپنے آپ کو اقوال رجال سے یا ان کتب سے حتی الامکان دور رکھئے جن میں ائمہ مجتہدین کی طرف منسوب ایسے غیر ضروری عجیب وغریب مسائل بیان کئے گئے ہیں جو انہوں نے نہیں کہے۔ آخر وہ کیسے کہہ سکتے ہیں جب کہ سنت رسول میں صراحۃً ان مسائل کے برعکس ایسی احادیث مذکور ہیں۔ جن کا رنگ یا معنی ومفہوم ان سے بالکل مختلف ہے۔ اور اگر بالفرض ان سے منسوب کچھ مسائل ہیں بھی سہی تو وجہ صاف ظاہر ہوتی ہے کہ ایسے مجتہدین وفقہاء کرام کو احادیث نہیں مل سکیں۔