• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآنی آیات كا جواب دينے سے متعلق تمام احاديث كي تخريج وتحقیق

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
سورہ الزخرف (43) کی آیت نمبر (80) { أَمْ يَحْسَبُونَ أَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ} کے جواب سے متعلق روایت:

أبو بكر ابن أبي الدنيا (المتوفى281)نے کہا:
حدثني أبو عبد الله التيمي، قال: حدثني خالد بن الصقر السدوسي، قال: كان أبي خاصا لسفيان الثوري قال أبي: فاستأذنت على سفيان في نحر الظهر، فأذنت لي امرأة، فدخلت عليه وهو يقول: {أم يحسبون أنا لا نسمع سرهم ونجواهم} [الزخرف: 80] ثم يقول: بلى يا رب بلى يا رب وينتحب , وينظر إلى سقف البيت ودموعه تسيل. فمكثت جالسا كم شاء الله، ثم أقبل إلي، فجلس معي، فقال: مذ كم أنت ههنا؟ ما شعرت بمكانك "
صقر السدوسي کہتے ہیں کہ میں نے دوپہر کے وقت سفیان ثوری کے گھر اجازت طلب کی تو ایک خاتون نے اجازت دی، میں گھر میں داخل ہوا تو سفیان ثوری {أم يحسبون أنا لا نسمع سرهم ونجواهم} پڑھ رہے تھے اور اس کے بعد کہہ رہے تھے :بلى يا رب بلى يا رب ، آپ سسکیاں بھر رہے تھے اور گھر کی چھت کی جانب دیکھتے اور روتے جاتے ۔ میں بیٹھا رہا جب تک اللہ نے چاہا پھر وہ میری جانب متوجہ ہوئے اور میرے ساتھ بیٹھ گئے اور کہا: تم کب سے یہاں ہو؟ مجھے تمہاری موجودگی کا احسان نہیں ہوا[الرقة والبكاء لابن أبي الدنيا ص: 207]

اس سند کے راوی خالد بن الصقر السدوسي نامعلوم ہیں اس لئے یہ ثابت نہیں ۔نیز یہ مرفوع یا موقوف حدیث نہیں بلکہ سفیان ثوری کا اثر ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
سورہ ق (50) کی آیت نمبر (45) { فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ يَخَافُ وَعِيدِ} کے جواب سے متعلق روایت:
مذکورہ آیت کے بعد امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774)نے لکھا:
كان قتادة يقول: اللهم، اجعلنا ممن يخاف وعيدك، ويرجو موعودك، يا بار، يا رحيم[تفسير ابن كثير / دار طيبة 7/ 412]
یعنی قتادہ مذکورہ آیت کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے۔
لیکن یہ اول تو قتادہ کا قول ہے جو حجت نہیں دوم قتادہ سے بھی اس قول کی کوئی سنددستیاب نہیں ہے لہٰذا ان سے بھی ثابت نہیں ۔

سورہ الذاريات (51) کی آیت نمبر (22) {وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ } کے جواب سے متعلق روایت:
اس آیت کے بعد گواہی دینے سے متعلق عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے ایک اثر مروی ہے جس پر گذشتہ سطور میں بات ہوچکی ہے کہ یہ ثابت نہیں ۔


سورہ الرحمن (55) کی آیت نمبر (27) {وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ} کے جواب سے متعلق مقطوع روایت:
أبو عُبيد القاسم بن سلاّم البغدادي (المتوفى224)نے کہا:
حدثنا يزيد، عن الجريري، عن أبي السليل، عن صلة بن أشيم، قال: " إذا أتيت على هذه الآية {ويبقى وجه ربك ذو الجلال والإكرام} [الرحمن: 27] فقف عندها وسل الله الجليل "
امام صلة بن أشيم تابعی رحمہ اللہ(المتوفی62) کہتے کہ جب اس آیت {ويبقى وجه ربك ذو الجلال والإكرام} پر پہنچو تو ٹہر کر اللہ سے سوال کرلیا کرو[فضائل القرآن للقاسم بن سلام ص: 154 وإسناده صحيح ۔وأخرجه أيضا البيهقي في الصفات 2/ 113، وابن أبي الدنيا في الإشراف ص: 216 وأبونعيم في حلية الأولياء 2/ 252 كلهم من طريق ابن عليه عن أيوب، عن حميد بن هلال،قال: قال رجل۔۔۔فأبهمو القائل ولعله ”صلة بن أشيم“ فإنه من مشائخ حميد بن هلال كما في تاريخ الإسلام للذھبی ت بشار 2/ 645]

یہ قول تابعی صلة بن أشيم رحمہ اللہ سے ثابت ہے لیکن چونکہ اس خصوصی عمل کی دلیل مرفوع یا موقوف حدیث سے ثابت نہیں ہے اس لئے اسے خصوصی فضیلت وحیثیت نہیں دی جاسکتی۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
سورہ الواقعة (56) کی {أفرأيتم } والی آیات (58 و 63 و 68) کے جواب سے متعلق روایت:
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211)نے کہا:
عن معمر، عن شداد بن جابان، (عن حجر بن قيس المدري، قال: بت عند أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضي الله عنه) فسمعته وهو يصلي من الليل، فقرأ، فمر بهذه الآية: {أفرأيتم ما تمنون أأنتم تخلقونه أم نحن الخالقون}، قال: بل أنت يا رب، بل أنت يا رب، بل أنت يا رب، ثلاثا، ثم قرأ: {أفرأيتم ما تحرثون أأنتم تزرعونه أم نحن الزارعون}، قال: بل أنت يا رب، بل أنت يا رب، بل أنت يا رب، ثلاثا، قال: {أفرأيتم الماء الذي تشربون أأنتم أنزلتموه من المزن أم نحن المنزلون}، قال: بل أنت يا رب، بل أنت يا رب، ثلاثا، ثم قال: {أفرأيتم النار التي تورون أأنتم أنشأتم شجرتها أم نحن المنشئون}، قال: بل أنت يا رب، قالها ثلاثا.
حجر بن قيس المدري کہتے ہیں کہ میں نے أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضي الله عنہ کے پاس رات گذاری تو میں نے انہیں نماز میں قرات کرتے ہوئے سنا تو وہ جب اس آیت {أفرأيتم ما تمنون أأنتم تخلقونه أم نحن الخالقون} سے گذرے تو کہا: بل أنت يا رب، بل أنت يا رب، بل أنت يا رب، تین بار۔ اورجب آیت {أفرأيتم ما تحرثون أأنتم تزرعونه أم نحن الزارعون} پڑھی تو کہا:بل أنت يا رب، بل أنت يا رب، بل أنت يا رب، تین بار ۔ اور جب آیت {أفرأيتم الماء الذي تشربون أأنتم أنزلتموه من المزن أم نحن المنزلون} پڑھی تو کہا: بل أنت يا رب، بل أنت يا رب، تین بار ۔ پھر آیت {أفرأيتم النار التي تورون أأنتم أنشأتم شجرتها أم نحن المنشئون} پڑھی اور کہا:بل أنت يا رب، اسے تین بار کہا۔[المصنف لعبد الرزاق الصنعاني، دار التأصيل: 2/ 451۔ مابين القوسين مصحف في المصنف وصوبته من المستدرك ، فقد أخرجه الحاكم في المستدرك 2/ 518 من طريق عبدالرزاق به ، وأخرجه أيضا البيهقي في السنن الكبري 2/ 440 وفي شعب الإيمان 1/ 398 وورد عنده ”بشربن جابان“ وهو خطأ والصواب ”شدادبن جابان“ كما عند عبدالرزاق والحاكم ويؤيده كتب الرجال ]

اس کی سند ضعیف ہے شداد بن جابان کو صرف ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیا ہے ۔
باقی اس کی کوئی بھی معتبر توثیق نہیں ملتی ہے ، اورنہ ہی معمر کے علاوہ اس کا کوئی اور شاگرد ملتا ہے۔لہٰذا اس کی ثقاہت ثابت نہیں علامہ مقبل رحمہ اللہ نے اسے مجہول لکھا ہے ۔دیکھیں:[المستدرك على الصحيحين للحاكم (ط مقبل) 2/ 562]
لہٰذا اس کے سبب یہ روایت ضعیف ہے۔

أبو عُبيد القاسم بن سلاّم البغدادي (المتوفى224)نے یہی بات امام أبو جعفر الباقر (المتوفی 100) سے بھی روایت کی ہے [فضائل القرآن للقاسم بن سلام ص: 152]
لیکن اس کی سند میں عمر بن عطية ہے جس کی معتبر توثیق موجود نہیں ہے لہٰذا یہ روایت بھی ضعیف ہے علاوہ بریں یہ مرفوع یا موقوف روایت نہیں ہے بلکہ ایک تابعی کی طرف منسوب بات ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
سورہ الملک (67) کی آیت نمبر (30) { إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِمَاءٍ مَعِينٍ } کے جواب سے متعلق روایت:

جلال الدين المحلي رحمہ اللہ(المتوفی864) لکھتے ہیں:
ويستحب أن يقول القارئ عقب معين الله رب العالمين كما ورد في الحديث
مستحب ہے کہ قاری معین کے بعد کہے : (الله رب العالمين) جیساکہ حدیث میں وارد ہے[تفسير الجلالين ص: 757 ]
عرض ہے کہ دستیاب ذخیرہ احادیث میں ایسی کوئی صحیح حدیث نہیں ملتی ہے ۔ لہٰذا اس عمل کی مشروعیت کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
سورہ القيامة (75) کی آیت نمبر (27) {أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى}کا جواب

اس سلسلے کی مرفوع روایات ضعیف ہیں:
پہلی روایت: حدیث ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
حدثنا عبد الله بن محمد الزهري، حدثنا سفيان، حدثني إسماعيل بن أمية، سمعت أعرابيا يقول: سمعت أبا هريرة يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من قرأ منكم والتين والزيتون، فانتهى إلى آخرها: {أليس الله بأحكم الحاكمين} [التين: 8]، فليقل: بلى، وأنا على ذلك من الشاهدين، ومن قرأ: لا أقسم بيوم القيامة، فانتهى إلى {أليس ذلك بقادر على أن يحيي الموتى} [القيامة: 40]، فليقل: بلى، ومن قرأ: والمرسلات، فبلغ: {فبأي حديث بعده يؤمنون} [المرسلات: 50]، فليقل: آمنا بالله "
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جو شخص سورۃ «والتين والزيتون» پڑھے اسے چاہیئے کہ جب اس کی آخری آیت «والتين والزيتون» پر پہنچے تو: «بلى وأنا على ذلك من الشاهدين» کہے، اور جو سورۃ «لا أقسم بيوم القيامة» پڑھے اور «أليس ذلك بقادر على أن يحيي الموتى» پر پہنچے تو «بلى» کہے، اور جو سورۃ «والمرسلات» پڑھے اور آیت «فبأى حديث بعده يؤمنون» پر پہنچے تو «آمنا بالله» کہے۔[سنن أبي داود 1/ 234 رقم 887،وأخرجه الترمذي 5/ 443 مختصرا بما يتعلق بـ {والتين والزيتون } من طريق سفيان به ، إسماعيل بن أمية أرسل هذ الحديث عند عبدالرزاق في ، ت الأعظمي: 2/ 452]

یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اعرابی نامعلوم ہے۔
تنبیہ اول:
ابن علیہ نے اسماعیل بن امیہ سے اسی روایت کو نقل کیا تو سفیان بن عیینہ کے برخلاف سند میں اعرابی کی جگہ عبد الرحمن بن القاسم نام ذکر کردیا اورمتن کو موقوفا بیان کیا [فضائل القرآن للقاسم بن سلام ص: 152]
ابن علیہ کی اس روایت کے بارے میں ابن المدینی رحمہ اللہ نے سفیان بن عینہ سے سوال کیا تو سفیان بن عینہ نے کہا : لم يحفظ یعنی ابن علیہ سند کو ٹھیک طرح سے یاد نہیں کرسکے ۔دیکھئے: [العلل للدارقطني، ت الدباسي: 5/ 429، نتائج الأفكار لابن حجر: 2/ 44]
بالفرض سند میں عبد الرحمن بن القاسم کا اضافہ درست مان لیں تو بھی یہ سند ضعیف ہوگی کیونکہ بقول حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے عبد الرحمن بن القاسم نے نہیں سنا ہےدیکھئے: [نتائج الأفكار لابن حجر: 2/ 44]
تنبیہ دوم:
نصر بن طريف(متروک) نے اسماعیل بن امیہ سے اسی روایت کو نقل کیا تو سفیان بن عیینہ کے برخلاف سند میں اعرابی کی جگہ محمد بن عبد الرحمن بن سعد نام ذکر کردیا [الفوائد الشهير بالغيلانيات لأبي بكر الشافعي 1/ 558 ]
نصر بن طريف ضعیف ومتروک ہے اوریہاں اس نے سفیان بن عیینہ کی مخالفت کی ہے اس لئے اس کا اعتبار نہیں ، علاوہ بریں محمد بن عبد الرحمن بن سعد کا سماع بھی ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے بعید معلوم ہوتا ہے بلکہ امام مزی نے صراحتا اس کے اور ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کے بیچ میں ایک واسطہ کا ذکر کیا ہے۔[تحفة الأشراف للمزي: 11/ 105]
تنبیہ سوم:
يزيد بن عياض (کذاب) نے اسماعیل بن امیہ سے اسی روایت کو نقل کیا تو سفیان بن عیینہ کے برخلاف سند میں اعرابی کی جگہ أبو اليسع نام ذکر کردیا [المستدرك على الصحيحين للحاكم 2/ 554 ]
یہ سند بھی ثابت نہیں ہے کیونکہ يزيد بن عياض کذاب ہے۔امام أحمد بن صالح المصرى (المتوفى248)نے اسے حدیث گھڑنے والا قراردیا ہے ۔[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 9/ 282 واسنادہ صحیح]
مزید یہ کہ ابوالیسع کے بارے میں امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)فرماتے ہیں:
أبو اليسع لا يعرف ،ابو الیسع غیر معروف ہے[المغني في الضعفاء للذهبي، ت نور: 2/ 816]
ان تفصیلات سے معلوم ہوا کہ مذکورہ روایت کی سند گمنام اعرابی ہی کے واسطے سے مروی ہے امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279) فرماتے ہیں:
هذا حديث إنما يروى بهذا الإسناد عن هذا الأعرابي، عن أبي هريرة ولا يسمى
یہ حدیث اسی سند سے اس اعرابی کے واسطے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس اعرابی کا نام ذکر نہیں ہے[سنن الترمذي ت شاكر 5/ 443]

دوسری روایت: غیر مسمی صحابی
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن موسى بن أبي عائشة، قال: كان رجل يصلي فوق بيته، وكان إذا قرأ: {أليس ذلك بقادر على أن يحيي الموتى} [القيامة: 40]، قال: «سبحانك فبلی» ، فسألوه عن ذلك، فقال : «سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم»، قال أبو داود: " قال أحمد: يعجبني في الفريضة أن يدعو بما في القرآن "
موسی بن ابی عائشہ کہتے ہیں` ایک صاحب اپنی چھت پر نماز پڑھا کرتے تھے، جب وہ آیت کریمہ «أليس ذلك بقادر على أن يحيي الموتى» (سورة القيامة: ۴۰) پر پہنچتے تو «سبحانك» کہتے ، لوگوں نے اس سے ان کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا: میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ [سنن أبي داود 1/ 233 رقم 884 وورد فيه ”فبكي“ والصواب ”فبلي“ كما أخرجه البيهقي في السنن الكبري2/ 440من طريق أبي داؤد به وفيه ”سبحانك فبلي“ ۔ وأخرجه أيضا ابن أبي حاتم كما في نتائج الأفكار لابن حجر(2/ 48) من طريق شعبه به وعنده عن رجل عن آخر ولفظه : ”سبحانك اللهم فبلى“ ۔وأخرجه أيضا أبوعبيد في فضائل القرآنص: 151 من طريق أبي النضر عن شعبه به وورد عنده ”عن رجل عن آخر، عن آخر “ ولفظه :” سبحانك اللهم وبلى“۔]

یہ روایت منقطع ہے کیونکہ موسی بن ابی عائشہ اور صحابی کے درمیان دو مبہم ناموں کا واسطہ ہے جیساکہ ابن ابی حاتم اور ابوعبید کی روایت میں صراحت ہے ۔[ ابن أبي حاتم كما في نتائج الأفكار لابن حجر 2/ 48 ،فضائل القرآن لابی عبید ص: 151 ]
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) فرماتے ہیں:
وروايتنا من طريق أبي النضر أتم؛ وفيها مبهمان لا يعرف حالهما ولا عينهما وسقطت من رواية أبي داود
اورابوالنضر کے طریق سے ہماری روایت کردہ سند میں دو مبہم رواۃ ہیں جن کی حالت و شخصیت غیر معروف ہے اور ان دونوں کا ذکر ابوداؤد کی روایت سے ساقط ہے[ نتائج الأفكار لابن حجر 2/ 50]
ان واسطوں کی موجود گی کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ موسى بن أبي عائشة ارسال کرنے والے راوی ہیں اور صحابہ سے براہ راست ان کی روایت ثابت نہیں ہے۔

شیخ شعَيب الأرنؤوط فرماتے ہیں:
وإسناده منقطع ، اس کی سند منقطع ہے[ سنن أبي داود ت الأرنؤوط 2/ 163 حاشیہ 1]

تیسری روایت: حدیث جابربن عبدللہ رضی اللہ :
أبو العباس جعفر بن محمد المستغفري رحمه الله (المتوفى432)نے کہا:
حدثنا أبو عمرو محمد بن محمد بن صابر، حدثنا عبد الله بن جعفر بن الحسين، حدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا الفضل بن دكين، حدثنا عبد السلام بن حرب عن إسحاق بن عبد الله بن أبي فروة عن محمد بن المنكدر عن جابر بن عبد الله أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا قرأت {والتين والزيتون} فبلغت {بأحكم الحاكمين} فقل: بلى وإذا قرأت {لا أقسم بيوم القيامة} فبلغت {أليس ذلك بقادر على أن يحيى الموتى} فقل: بلى.
جابررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسم نے فرمایا: جب تم {والتين والزيتون} پڑھو اور {بأحكم الحاكمين} پر پہنچو تو کہو:بلى اور جب تم {لا أقسم بيوم القيامة} پڑھو اور {أليس ذلك بقادر على أن يحيى الموتى} پرپہنچو تو کہو: بلى[فضائل القرآن للمستغفري 1/ 173]

یہ روایت بھی سخت ضعیف ہے ۔سحاق بن عبد الله بن أبي فروة کے باے میں حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) نے کہا:
متروك، یہ متروک ہے[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم368 ]

چوتھی روایت: حدیث براء رضی اللہ عنہ:
أبو بكر أحمد بن جعفر القطيعي (المتوفى 368) نے کہا:
حدثنا محمد قال: حدثنا شعيب بن بيان الصفار قال: حدثنا شعبة قال: حدثني يونس جليس لأبي إسحاق الهمداني عن البراء بن عازب قال: لما نزلت هذه الآية: {أليس ذلك بقادر على أن يحيي الموتى} [القيامة: 40] قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «سبحانك وبلى»
براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہین کہ جب یہ آیت {أليس ذلك بقادر على أن يحيي الموتى} [القيامة: 40] نازل ہوئی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:«سبحانك وبلى»[جزء الألف دينار للقطيعي ص: 451 ،ومن طريق القطيعي أخرجه الثعلبي في تفسيره 10/ 92 به]
یہ روایت سخت ضعیف ہے۔امام قطیعی کا استاذ محمد یہ محمدبن یونس القطیعی ہے۔
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
كان يضع على الثقات الحديث وضعا ولعله قد وضع أكثر من ألف حديث
یہ ثقات کے حوالے سے حدیث گھڑتا تھا اور اس نے شاید ایک ہزار سے زائد احادیث گڑھی ہیں[المجروحين لابن حبان: 2/ 313]

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
كان الكديمي يتهم بوضع الحديث
(محمدبن یونس)کدیمی حدیث گھڑنے سے متہم تھا[سؤالات حمزة للدارقطني، ت موفق: ص: 111]
اس کے علاوہ یونس جلیس ابی اسحاق کی توثیق بھی نامعلوم ہے۔

پانچویں روایت : مرسل قتادۃ:
امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310)نے کہا:
حدثنا ابن عبد الأعلى، قال: ثنا ابن ثور، عن معمر، قال: كان قتادة إذا تلا: {أليس الله بأحكم الحاكمين} [التين: 8] قال: «بلى، وأنا على ذلك من الشاهدين» أحسبه كان يرفع ذلك؛ وإذا قرأ: {أليس ذلك بقادر على أن يحيي الموتى} [القيامة: 40] قال: «بلى» ، وإذا تلا: {فبأي حديث بعده يؤمنون} [المرسلات: 50] قال: «آمنت بالله، وبما أنزل»
قتادہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب {أليس الله بأحكم الحاكمين} کی تلاوت کرتے تو کہتے :«بلى، وأنا على ذلك من الشاهدين» راوی کا گمان ہے کہ قتادہ اسے مرسلا بیان کرتے تھے ۔اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم {أليس ذلك بقادر على أن يحيي الموتى} پڑھتے تو کہتے :«بلى» اور جب {فبأي حديث بعده يؤمنون} [المرسلات: 50] کی تلاوت کرتے تو کہتے :«آمنت بالله، وبما أنزل»[تفسير الطبري ط هجر 24/ 526 وأخرجه الطبري ط هجر 24/ 525 من طريق سعيد عن قتاده ولفظه:{أليس الله بأحكم الحاكمين} [التين: 8] : ذكر لنا أن نبي الله صلى الله عليه وسلم كان إذا قرأها قال: ” بلى، وأنا على ذلك من الشاهدين“]

یہ روایت مرسل ہے قتادہ نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک اپنی سند بیان نہیں کی ہے۔

عبدالله بن عباس كي موقوف فعلي روايت:
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211)نے كہا:
عن معمر، عن أبي إسحاق، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، أنه كان إذا قرأ: {أليس ذلك بقادر على أن يحيي الموتى} [القيامة: 40] قال: «سبحانك اللهم بلى» ، وإذا قرأ: سبح اسم ربك الأعلى قال: «سبحان ربي الأعلى»
عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ جب {أليس ذلك بقادر على أن يحيي الموتى} پڑھتے تو کہتے :«سبحانك اللهم بلى»۔اور جب سبح اسم ربك الأعلى پڑھتے تو کہتے :«سبحان ربي الأعلى» [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 2/ 451 ،تفسير عبد الرزاق 3/ 442، وأخرجه الطبري في تفسيره ط هجر 24/ 526 من طريق أبي الوكيع ، وأخرجه أبوعبيد في فضائل القرآن ص: 151من طريق سفيان۔كلهم (معمر و أبوالوكيع وسفيان ) من طريق أبي إسحاق به۔وأخرجه أيضا ابن أبي حاتم في تفسره 10/ 3389 من طريق سفيان عن أبي اسحاق به لكن زاد في الإسناد ”مسلم البطين“ بين أبي إسحاق و سعيدبن جبير۔ وأبوإسحاق السبيعي قد تابعه أيوب عن سعيد بن جبير عند المستغفري في فضائل القرآن 1/ 174، لكن الأسناد إليه ضعيف ،شيخ المستغري لم أجد له ترجمة ولا توثيقا]

یہ فعلی موقوف روایت ضعیف ہے سند میں تیسرے طبقہ کے مدلس ابواسحاق السبیعی کا عنعنہ ہے جن کے بارے میں تفصیل آرہی ہے فضائل القرآن للمستغفري( 1/ 174) میں ایوب نے ابواسحاق کی متابعت کی ہے مگر ان تک سند ثابت نہیں کیونکہ اس سند میں موجود امام مستغفری کے شیخ کی توثیق یا ان کا تعارف کہیں نہیں ملتا۔
البتہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نماز کی صراحت کے بغیر قولا یہ بات ثابت ہے جیساکہ صحیح روایات کے ضمن میں اسے پیش کیا جاچکا ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
سورہ الإنسان (76) کی آیت نمبر (1) { هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَذْكُورًا } کے جواب سے متعلق روایات:

پہلی روایت:
أبو عُبيد القاسم بن سلاّم البغدادي (المتوفى224)نے کہا:
حدثنا كثير بن هشام، عن جعفر بن برقان، قال: حدثنا يزيد بن أبي زياد، أن عبد الله بن مسعود، سمع رجلا قرأ {هل أتى على الإنسان حين من الدهر لم يكن شيئا مذكورا} فقال: «إي وعزتك، فجعلته سميعا بصيرا، وحيا وميتا»
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو {هل أتى على الإنسان حين من الدهر لم يكن شيئا مذكورا} پڑھتے ہوئے سنا تو کہا: «إي وعزتك، فجعلته سميعا بصيرا، وحيا وميتا»

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ نے ایک شخص کو سنا اس نے {هل أتى على الإنسان حين من الدهر لم يكن شيئا مذكورا} پڑھا تو آپ نے کہا: «إي وعزتك، فجعلته سميعا بصيرا، وحيا وميتا»[فضائل القرآن للقاسم بن سلام (ص: 150) و من طریق ابی عبید اخرجہ المستغفري فی فضائل القران 1/ 175 ]

یہ روایت کئ اسباب کی بناپر ضعیف ہے۔
اول:
سند منقطع ہے،عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ کی وفات 33 ہجری میں ہوئی ہے [تهذيب الكمال للمزي: 16/ 127]
اور ان کی وفات کے 14 سال بعد يزيد بن أبي زياد کی پیدائش 47 ہجری میں ہوئی ہے دیکھئے: [المجروحين لابن حبان: 3/ 100]
دوم:
يزيد بن أبى زياد القرشى الكوفى ضعیف ہے۔ دیکھئے :[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 7717]

دوسری روایت:
أبو العباس جعفر بن محمد المستغفري رحمه الله (المتوفى432)نے کہا:
اخبرنا الشيخ أبو بكر، حدثنا بكر، حدثنا عبد، حدثنا كثير بن هشام، حدثنا جعفر بن برقان، حدثنا يزيد بن أبي زياد أن ابن مسعود سمع رجلا يتلو هذه الآية {هل أتى على الأنسان حين من الدهر لم يكن شيئا مذكورا} فقال ابن مسعود: ياليتها تمت فعوتب في قوله هذا فأخذ عودا من الأرض فقال: ياليتني كنت مثل هذا.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو یہ آیت {هل أتى على الأنسان حين من الدهر لم يكن شيئا مذكورا} تلاوت کرتے ہوئے سنا تو کہا:ياليتها تمت(کاش یہ معاملہ یہیں پر تمام ہوجاتا) اس پر کچھ لوگوں نے گرفت کی تو انہوں نے زمین سے ایک ٹکڑا اٹھا یا اور کہا: کاش میں اس جیسا ہوتا[فضائل القرآن للمستغفري 1/ 175]
یہ روایت بھی ماقبل والی روایت کی طرح ضعیف ہے یعنی سند منقطع ہے اور یزید بن ابی زیاد ضعیف ہے جیساکہ وضاحت ہوچکی ہے۔

تیسری روایت:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حدثنا أبو أسامة ، عن مسعر ، قال سمعت عون بن عبد الله يقول : قرأ رجل عند عبد الله بن مسعود : {هل أتى على الإنسان حين من الدهر لم يكن شيئا مذكورا} فقال عبد الله : ألا ليت ذلك تم.
ایک شخص نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس {هل أتى على الإنسان حين من الدهر لم يكن شيئا مذكورا} پڑھا تو آپ نے کہا:ألا ليت ذلك تم (کاش یہ معاملہ یہیں پر تمام ہوجاتا)[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 13/ 298]

یہ روایت منقطع ہونے کے سبب ضعیف ہے عون بن عبداللہ کی عبداللہ بن مسعود سے ملاقات نہیں ہے دیکھئے [المراسيل لابن أبي حاتم ت قوجاني: ص: 51،جامع التحصيل للعلائي: ص: 249، تحفة التحصيل في ذكر رواة المراسيل ص: 251]

شیخ سعد بن ناصر الشثري اپنے نسخہ میں اس روایت پر حاشیہ لگاتے ہوئے لکھتے ہیں:
منقطع، عون لم یسمع من ابن مسعود
یہ روایت منقطع ہے عون نے ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے نہیں سنا[مصنف ابن أبي شيبة. إشبيليا: 19/ 339]
مصنف ابن ابی شیبہ کے ایک دوسرے محقق أسامة إبراهيم نے بھی اس روایت کو ضعیف قرار دیتے ہوئے یہی بات کہی ہے دیکھیں:[مصنف ابن أبي شيبة/الفاروق 12/ 78]

چوتھی روایت:
أبو العباس جعفر بن محمد المستغفري رحمه الله (المتوفى432)نے کہا:
أخبرنا أبو بكر القلانسي، حدثنا بكر بن المرزبان، حدثنا عبد بن حميد، حدثنا كثير بن هشام، حدثنا جعفر بن برقان قال: بلغني أن عمر بن الخطاب تلا هذه الآية {هل أتى على الإنسان حين من الدهر لم يكن شيئا مذكورا} فقال: إي وعزتك يارب فجعلته سميعا بصيرا وحيا ميتا.
عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اس آیت {هل أتى على الإنسان حين من الدهر لم يكن شيئا مذكورا} کی تلاوت کی تو کہا: إي وعزتك يارب فجعلته سميعا بصيرا وحيا ميتا.[فضائل القرآن للمستغفري 1/ 176 ]
یہ روایت ضعیف ہے جعفر بن برقان (المتوفی 150) تبع تابعی ہے اور اس نے عمرفاروق رضی اللہ عنہ تک اپنی سند بیان نہیں کی ہے۔

پانچویں روایت:
أبو عُبيد القاسم بن سلاّم البغدادي (المتوفى224)نے کہا
حدثنا حجاج، عن أبي عمر , زياد بن أبي مسلم، عن صالح أبي الخليل، أن عمر بن الخطاب، رضي الله عنه سمع رجلا، يقرأ {هل أتى على الإنسان حين من الدهر لم يكن شيئا مذكورا} [الإنسان: 1] فقال: «يا ليتها تمت»
عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو{هل أتى على الإنسان حين من الدهر لم يكن شيئا مذكورا} پڑھتے ہوئے سنا تو کہا:«يا ليتها تمت» کاش یہ معاملہ یہیں پر تمام ہوجاتا[فضائل القرآن للقاسم بن سلام ص: 150 ، واخرجہ ایضا ابن المبارک فی الزهد 1/ 79من طریق أبي عمر بہ]

یہ روایت منقطع ہونے کے سبب ضعیف ہے۔صالح بن أبى مريم ،أبو الخليل البصرى، صغار تابعین کے دور کے یعنی چھٹے طبقے کے ہیں اور ان کی ملاقات کسی بھی صحابی سے نہیں ہے دیکھئے: [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 2887]
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
سورہ المرسلات(77) کی آخری آیت {فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ} کے جواب سے متعلق روایات:
سورہ القيامة (75) کی آیت نمبر (27) {أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى}کے جواب سے متعلق ماقبل میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت اور قتادہ کی جو مرسل روایت گذرچکی ہے اس میں سورہ مرسلات کے اختتام پر «آمنا بالله» یا «آمنت بالله، وبما أنزل» پڑھنے کی بات مذکور ہے لیکن یہ روایات ضعیف ہیں جیساکہ تفصیل گذرچکی ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
سورہ الانفطار (82) کی آیت نمبر (6) {يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ } کے جواب سے متعلق روایات:

پہلی روایت:
أبو عُبيد القاسم بن سلاّم البغدادي (المتوفى224)نے کہا:
حدثنا أبو عبيد حدثنا كثير بن هشام، عن جعفر بن برقان، عن صالح بن مسمار، قال: بلغنا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم تلا هذه الآية {يا أيها الإنسان ما غرك بربك الكريم} [الانفطار: 6] فقال: «جهله»
صالح بن مسمار کہتے ہیں کہ ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت
{يا أيها الإنسان ما غرك بربك الكريم} کی تلاوت کی اور کہا: «جهله»(اس کی جہالت نے)[فضائل القرآن للقاسم بن سلام ص: 151،وأخرجه الثعلبي في تفسيره 10/ 146۔ومن طريقه الواحدي في تفسيره ومن طريقه الواحدي في تفسيره 4/ 435 من طريق كثير بن هشام به]
یہ روایت درج ذیل اسباب کی بنا پر ضعیف ہے:
اول:
سند منقطع ہے صالح بن مسمار ، البصرى نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک اپنی سند بیان نہیں کی ہے۔اور یہ ساتویں طبقہ کی تبع تابعی ہیں دیکھئے:[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 2889 ]
دوم:
صالح بن مسمار البصری کی معتبر توثیق موجود نہیں ہے ۔ اسے ابن حبان کے علاوہ کسی نے ثقہ نہیں کہا ہے ۔

دوسری روایت:
امام ابن أبي حاتم رحمه الله (المتوفى327)نے کہا:
حدثنا أبي، حدثنا ابن أبي عمر، حدثنا سفيان: أن عمر سمع رجلا يقرأ: {ياأيها الإنسان ما غرك بربك الكريم} فقال عمر: الجهل
عمررضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو {ياأيها الإنسان ما غرك بربك الكريم}پڑھتے ہوئے سنا تو کہا: ”الجهل“(جہالت نے)[تفسير ابن كثير ت سلامة 8/ 342 ،وأخرجه أيضا أبونعيم في حلية الأولياء 5/ 112من طريق ابن أبي عمر به وورد عنده ”عمر بن ذر“ وهو خطأ ، وأخرجه أيضا سعيد بن منصور في سننه (الكتملة) 8/ 273 من طريق سفيان به وعنده ”عمر بن الخطاب“ وهو الصواب وكذا نقله السيوطي في الدر المنثور 8/ 439 ، ولفظ سعيد بن منصور : ”الجهل, الجهل“]
یہ سند منقطع ہے سفیان سے عمرفاروق رضی اللہ عنہ تک کا واسطہ موجود نہیں لہٰذا یہ بھی ثابت نہیں ۔
تنبیہ :
ابونعیم کی روایت میں سند میں عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی جگہ ”عمر بن ذر“ کا نام آیا ہے یہ غلط ہے ، صحیح نام عمر (بن الخطاب ) ہی ہے جیساکہ سعید بن منصور کی روایت میں صراحت ہے اور ائمہ مفسرین نے بھی یہ قول عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہی کی طرف منسوب کیا ہے ۔ نیز ابونعیم والی سند میں ایک راوی ”عبد الله بن محمد بن عمران،“ نامعلوم التوثيق ہے۔

تیسری روایت:
امام ابن أبي حاتم رحمه الله (المتوفى327)نے کہا:
حدثنا عمر بن شبة، حدثنا أبو خلف، حدثنا يحيى البكاء، سمعت ابن عمر يقول وقرأ هذه الآية: {ياأيها الإنسان ما غرك بربك الكريم} قال ابن عمر: غره-والله-جهله.
ابن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ آیت {ياأيها الإنسان ما غرك بربك الكريم} پڑھی اور کہا: ”غره-والله-جهله“ (اللہ کی قسم انسان کو اس کے جہالت نے دھوکہ میں ڈالا ہے)[تفسير ابن كثير ت سلامة 8/ 342 ]
یہ روایت درج ذیل اسباب کی بنا پر ضعیف ہے ۔
اول:
يحيى البكاء کو بہت سارے محدثین نے ضعیف ہےبلکہ بعض نے سخت جرح کی ہے ۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) نے کہا:
ضعيف ، یہ ضعیف ہے [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 7645]
دوم:
أبو خلف عبد الله بن عيسى بن خالد الخزاز البصرى بھی محدثین کے نزدیک ضعیف ہے ۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) نے کہا:
ضعيف ، یہ ضعیف ہے[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم3524 ]

چوتھی روایت:
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، حدثنا الحسن بن مكرم، حدثنا علي بن عاصم حدثنا عاصم بن كليب، عن أبي بردة، قال: كان أبو موسى " إذا قرأ {يا أيها الإنسان ما غرك بربك الكريم} [الانفطار: 6] قال: يعني الجهل
ابوموسی الاشعری رضی اللہ عنہ جب {يا أيها الإنسان ما غرك بربك الكريم} [الانفطار: 6] پڑھتے تو کہتے : يعني الجهل (یعنی جہالت نے انسان کو دھوکہ میں ڈالا ہے)[شعب الإيمان 3/ 415، ومن طريق البيهقي أخرجه ابن عساكر في تاريخه 32/ 86 ]
اول تو یہ تفسیری روایت ہے دوسرے یہ سخت ضعیف ہے اس کی سند میں علی بن عاصم بن صھیب ہے ۔کئی محدثین نے اس پر کذاب ہونے کی جرح کی ہے۔

امام يزيد بن هارون رحمه الله (المتوفى206)نے کہا:
ما زلنا نعرفه بالكذب
ہم اسے جھوٹ کے ساتھ ہی جانتے رہے [سؤالات البرذعي لأبي زرعة، ت الأزهري: ص: 133وإسناده صحيح و خرجه أيضا العقيلي في الضعفاء : 4/ 266 والخطيب في تاريخ بغداد: 11/ 456 من طريق عثمان به ]

خالد بن مهران الحذاء رحمه الله (المتوفى141)نے کہا:
كذاب فاحذروه
یہ بہت بڑاجھوٹاشخص ہے اس سے بچ کررہو۔[الضعفاء للعقيلي، ت د مازن: 4/ 266 وإسناده صحيح]

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
وقال وهب بن بقية: سمعت يزيد بن زريع، قال: حدثنا علي، عن خالد ببضعة عشر حديثا، فسألنا خالدا عن حديث، فأنكره، ثم آخر فأنكره، ثم ثالث فأنكره، فأخبرناه، فقال: كذاب فاحذروه
بخاری ومسلم کے راوی یزیدبن زریع کہتے کہ علی بن عاصم نے ہم سے درجنوں احادیث خالد الحذاء سے بیان کی ، پھر ہم نے خالدالحذاء سے ان میں سے ایک حدیث کے بارے میں پوچھا توانہوں نے اس سے انکار کیا ، پھر ہم نے ایک دوسری حدیث کے بارے میں پوچھا، اس سے بھی خالد الحذاء نے انکار کیا ، پھر ہم نے ایک تیسری حدیث کے بارے میں پوچھا اس سے بھی خالد الحذاء نے انکار کیا ۔اس کے بعد ہم نے خالد الحذاء کو یہ بات بتلادی تو خالد الحذاء نے کہا: یہ بہت بڑاجھوٹاشخص ہے اس سے بچ کررہو۔[التاريخ الكبير للبخاري: 6/ 290وإسناده صحيح وأخرجه أيضا العقيلي في الضعفاء 4/ 267 من طريق محمدبن المنهال الضرير به ، وإسناده صحيح]

یہ واقعہ اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ علی بن عاصم نے جھوٹی احادیث بیان کی ہیں اسی سبب کئی ایک محدثین نے انہیں کذاب کہا ہے۔
بعض محدثین نے ان کا دفاع کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ ان کی کتاب میں دوسرے لوگ ان کے نام سے جھوٹی احادیث لکھ دیتے تھے جسے یہ بیان کردیتے ۔

اگراسے تسلیم کرلین تو بھی اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ان کی طرف سے جھوٹی احادیث بیان ہوئی ہیں لہٰذا ان کی احادیث کی شمار میں نہیں ہیں ۔

علامہ معلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
علي بن عاصم لا يُعتدُّ بحديثه
علی بن عاصم کی حدیث کسی شمار میں نہیں ہے۔[آثار الشيخ العلامة عبد الرحمن بن يحيي المعلمي اليماني 16/ 44]

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) نے کہا:
أجمعوا على ضعفه يعني علي بن عاصم
محدثین کا ان کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے [المستدرك للحاكم مع تعليق الذهبي: 4/ 376]

پانچویں روایت:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حدثنا معاوية بن هشام ، قال : حدثنا سفيان ، عن رجل ، عن ربيع بن خثيم في قوله : {يا أيها الإنسان ما غرك بربك الكريم} قال : الجهل.
ربيع بن خثيم نے اللہ کے قول {يا أيها الإنسان ما غرك بربك الكريم} کی بابت کہا : اس سے جہالت مراد ہے[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 13/ 402]
اول تو یہ تفسیری روایت ہے دوسرے یہ کہ اس کی سند میں رجل مبہم و نامعلوم ہے اس لئے یہ ثابت ہی نہیں ۔

نوٹ : امام ابن كثير رحمہ اللہ نے بغیر سند کے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف بھی یہ بات منسوب کی ہے مگر سند کے ساتھ یہ روایت ہمیں کہیں نہیں مل سکی ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
سورہ الأعلى (87) کی پہلی آیت{سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى} کے جواب سے متعلق روایات:

پہلی روایت:
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حدثنا وكيع ، حدثنا إسرائيل ، عن أبي إسحاق ، عن مسلم البطين ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس : أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا قرأ : سبح اسم ربك الأعلى ، قال : سبحان ربي الأعلى
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ` نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب «سبح اسم ربك الأعلى» پڑھتے تو «سبحان ربي الأعلى» کہتے۔[مسند أحمد ط الميمنية: 1/ 232، ومن طريق أحمد أخرجه الطبراني في المعجم الكبير (12/ 16) به ۔ وأخرجه أيضا أبوداؤد في سننه (1/ 233 ) رقم (883) ومن طريقه البيهقي في سننه (2/ 440) والحاكم في المستدرك (1/ 395) من طريق أبي يعلي، كلاهما (ابوداؤد وأبويعلي) من طريق زهير بن حرب۔وأخرجه البغوي في تفسيره 5/ 241 من طريق عبد الله بن عمر بن أبان، جميعهم (احمد و زهيربن حرب و عبد الله بن عمر بن أبان) عن وكيع عن إسرائيل به۔وخولف إسرائيل في إسناده وفي رفعه فرواه أبوالوكيع و معمر وسفيان عن أبي إسحاق، عن سعيد بن جبير به بدون ذكر”مسلم البطين“ في إسنادهم و موقوفا من فعل ابن عباس، وهوالمحفوظ وسياتي ]

اولا:
اس حديث كے مرفوع يا موقوف ہونے میں اختلاف ہے ابواسحاق کے ایک شاگرد اسرائیل نے اسے مرفوع بیان کیا ہے جبکہ ابواسحاق کے دیگر تين شاگردوں (أبوالوكيع،معمر اورسفيان) نےابواسحاق سے اسے موقوفا نقل کیا ہے اور سند میں ”مسلم البطين“ کا ذکر نہیں کیا چنانچہ:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حدثنا وكيع ، عن أبيه ، عن أبي إسحاق ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس : أنه قرأ : {سبح اسم ربك الأعلى} فقال : سبحان ربي الأعلى.
ابن عباس رضی اللہ عنہ {سبح اسم ربك الأعلى} پڑھا تو کہا :سبحان ربي الأعلى [مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 2/ 509، وأخرجه عبدالرزاق في مصنفه، ت الأعظمي: 2/ 451 عن معمر عن أبي اسحاق ،وهو في تفسره 3/ 418 لكن جاء فيه زيادة ”قتاده“ بين معمر و أبي اسحاق وليس هذا في مصنفه فهو خطأ ، و من طريق عبدالرزاق أخرجه المستغفري في فضائل القرآن 1/ 174 ،وأخرجه أبوعبيد في فضائل القرآن ص: 154من طريق سفيان۔ كلهم (أبوالوكيع و معمر وسفيان ) عن أبي إسحاق، عن سعيد بن جبير به بدون ذكر”مسلم البطين“ في إسنادهم و موقوفا من فعل ابن عباس ، و أبوإاسحاق قد تابعه أيوب عند المستغفري في فضائل القرآن 1/ 174، لكن الأسناد إليه ضعيف ،شيخ المستغري لم أجد له ترجمة ولا توثيقا۔ و سعيدبن جبر قد تابعه زياد بن عبد الله بن حديرالأسدي عند الطبري ط هجر 24/ 310 لكن إسناده واه جدا]

ظاہر ہے کہ موقوف والی روایت ہی محفوظ ہے کیونکہ اسے تین شاگردوں نے بالاتفاق بیان کیا ہے جبکہ مرفوع روایت صرف ایک شاگرد بیان کررہاہے۔

ثانیا:
یہ روایت مرفوعا اور موقوفا دونوں طرح ضعیف ہے کیونکہ ہر طرح کی سندوں میں ابواسحاق السبیعی کا عنعنہ ہے اور یہ تیسرے طبقے کے مدلس ہیں ۔
امام مغيرة بن مقسم الضبى رحمه الله (المتوفى: 136) نے انہیں خطرناک مدلس کہا ہے[العلل ومعرفة الرجال لأحمد 1/ 244 واسنادہ صحیح ،تهذيب التهذيب لابن حجر: 24/ 67]۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى:852)نے انہیں مدلسین کے تیسرے طبقے میں ذکر کرتے ہوئے کہا:
عمرو بن عبد الله السبيعي الكوفي مشهور بالتدليس
ابواسحاق عمرو بن عبد الله السبيعي الكوفي تدلیس سے مشہور ہیں [طبقات المدلسين لابن حجر: ص: 42 المرتبہ الثالثہ]۔
امام سيوطي رحمه الله (المتوفى:911)نے کہا:
مشهور بالتدليس
یہ تدلیس سے مشہور ہیں [أسماء المدلسين للسيوطي: ص: 77]۔
امام شعبة (المتوفى 160)،امام طبري (المتوفى:310) ،امام دارقطني (المتوفى 385)،امام ابن حبان (المتوفى 354)امام كرابيسي (المتوفى 570) اورامام ابن الملقن رحمه الله (المتوفى804) رحمھم اللہ نے بھی انہیں مدلس کہاہے،دیکھئے[مسألة التسمية لابن القيسراني: ص:47 واسنادہ صحیح،تهذيب الآثار مسند علي، للطبري: 3/ 247 ،الإلزامات والتتبع للدارقطني: ص: 363،الثقات لابن حبان: 5/ 177،تهذيب التهذيب لابن حجر: 24/ 66،[البدر المنير لابن الملقن: 3/ 634]۔
الغرض ابو اسحاق تیسرے طبقہ کا مدلس راوی ہے اور اس نے مذکورہ روایت کو عن سے بیان کیا ہے لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔


علامہ البانی رحمہ اللہ کی تصحیح کا جائزہ:
علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی مذکورہ حدیث کی سند میں اس کمزوری کو تسلیم کیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں:
وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير أن أبا إسحاق- وهو عمرو بن عبد الله السبِيعي- كان اختلط، ثم هو مدلس، وقد عنعنه.
اس سند کے رجال ثقہ ہیں اور شیخین کے رجال ہیں لیکن ابواسحاق عمربن عبداللہ السبیی مختلط ہوگئے تھے نیز یہ مدلس ہیں اور عن سے روایت کیا ہے[صحيح أبي داود - الأم (4/ 38)]۔
اس سند کو ضعیف تسلیم کرنے کے بعد علامہ البانی رحمہ اللہ نے شواہد کی روشنی میں اسے صحیح کہا ہے لیکن یہ شواہد اس روایت کی تصحیح کے لئے معتبر نہیں ہیں تفصیل ملاحظہ ہو:
پہلاشاہد:
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أحدهما: عن قتادة... مرسلاً: أن نبي الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كان إذا قرأها قال:" سبحان ربي الأعلى ".أخرجه عبد بن حميد كما في " الدر المنثور" (6 /326) .
پہلا شاہد قتادہ کی مرسل روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سبح اسم ربك الأعلى پڑھتے تو کہتے :سبحان ربي الأعلى ،اسے عبد بن حمید نے روایت کیا ہے جیساکہ الدر المنثور" ( 6 /326) میں ہے[صحيح أبي داود (الام) للالباني: 4/ 39]۔
یہ مرسل روایت بھی ثابت نہیں ہے عبدبن حمید کی کتاب کے مطبوعہ حصہ میں اس کی سند نہیں ہے نہ ہی ان کے طریق مروی کسی اور کتاب میں یہ سند دستیاب ہے۔
البتہ امام طبری رحمہ اللہ نے اپنی سند سے قتادہ سے اسے یوں نقل کیا ہے:
حدثنا بشر، قال: ثنا يزيد، قال: ثنا سعيد، عن قتادة، " {سبح اسم ربك الأعلى} [الأعلى: 1] ذكر لنا أن نبي الله صلى الله عليه وسلم كان إذا قرأها قال: سبحان ربي الأعلى "
قتادہ کہتے ہیں کہ ہم سے ذکر کیا گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سبح اسم ربك الأعلى پڑھتے تو کہتے :سبحان ربي الأعلى [تفسير الطبري ، ط هجر 24/ 310]
لیکن یہ سند بھی ضعیف ہے قتادہ سے روایت کرنے والے سعيد بن أبي عروبة العدوي نے عن سے روایت کیا ہے جن کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) نے کہا:كثير التدليس ، یہ بکثرت تدلیس کرنے والے ہیں[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 2365 ]
نیزیہ روایت قتادہ سے ثابت بھی ہوتی تومرسل ہے اور اور یہ عین ممکن ہے کہ قتادہ نے اس روایت کو اپنے استاذ ابواسحاق السبیعی کے شاگرد اسرائل ہی سے سنا ہو اورسند کے نازل ہونے کے سبب اسے ارسال کردیا ۔ایسی صورت میں یہ ابواسحاق السبیعی والی ہی سند ہو گی نہ کہ کوئی دوسری سند ۔
نیز علامہ البانی رحمہ اللہ خود مرسل حدیث کے بارے میں ایک مقام پر لکھتے ہیں:
یحتمل أن يكون كل من الواسطتين أو أكثر ضعيفًا، وعليه يحتمل أن يكون ضعفهم من النوع الأول الذي ينجبر بمثله الحديث على ما سبق نقله عن ابن الصلاح، ويحتمل أن يكون من النوع الآخر الذي لا يقوى الحديث بكثرة طرقه، ومع ورود هذه الاحتمالات يسقط الاستدلال بالحديث المرسل وإن تعددت طرقه.
مرسل حدیث کے بارے میں احتمال ہے کہ دو یا دو سے زائد ساقط رواۃ ضعیف ہوں اوران کے ضعیف ہونے کی صورت میں ہوسکتا ہے کہ ان کا ضعف پہلی قسم کا ہو جو اسی جیسے دوسرے طریق سے مل قابل انجبار ہوتا ہے جیساکہ ابن الصلاح کے حوالے سے نقل کیا گیا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کا ضعف اس دوسری قسم کا ہو جو تعدد طرق کے باب میں تقویت دینے کے قابل نہیں رہتا ان احتمالات کے پیش نظر مرسل حدیث سے استدالال ساقط ہے گرچہ اس کے طرق متعدد ہوں[نصب المجانيق لنسف قصة الغرانيق ص:44- 46 ]۔
لہٰذا علامہ البانی رحمہ اللہ کے اس اصول کے مطابق مرسل روایت شہادت کے قابل نہیں بن سکتی ، اور یہ اس صورت میں جب مرسل روایت کی بقہ سند صحیح ہو لیکن یہاں حال یہ ہے کہ بقیہ سند بھی ثابت نہیں ہے۔

دوسرا شاہد:
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والأخر: عن علي بن أبي طالب۔۔۔
دوسرا شاہد علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے[صحيح أبي داود (الام) للالباني: 4/ 40]۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس شاہد کو امام سیوطی کی کتاب سے نقل کیا ہے جس میں امام سیوطی نے اس کی سند ذکر نہیں کی ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ کی رسائی اس کی سند تک نہیں ہوسکی اگرعلامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کی سند دیکھ لی ہوتی تو ہرگز اسے بطور شاہد پیش نہ کرتے ۔کیونکہ یہ سند سخت ضعیف ہے آگے اس پر مفصل بحث آرہی ہے ۔
نومولود بچے کے کان میں اذان دینے والی روایت سے متعلق بھی علامہ البانی رحمہ اللہ سے اسی طرح کاسہو ہوا تھا انہوں نے ایک بے سند شاہد کے سہارے اسے حسن کہہ دیا لیکن جب اس شاہد کی سند تک ان کی رسائی ہوئی تو یہ کہتے ہوئے رجوع کیا کہ اس کی سند تو موضوع اور من گھڑت ہے ۔[سلسلة الأحاديث الضعيفة 1/ 494 ]

تیسرا شاہد:
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وله شاهد ثالث موقوف من طريق عمير بن سعيد قال: سمعت أبا موسى يقرأ في الجمعة بـ: {سبح اسم ربك الأعلى} ؛ فقال: سبحان ربي الأعلى. أخرجه البيهقي بسند صحيح.
اس کا ایک تیسرا شاہد بھی ہے جو عمربن سعید کے طریق سے مروی ہے کہ انہوں نے ابوموسی الاشعری رضی اللہ کو سنا کہ آپ نے جمعہ میں {سبح اسم ربك الأعلى} پھر کہا: سبحان ربي الأعلى اسے بیہقی نے صحیح سند سے روایت کیا ہے۔[صحيح أبي داود (الام) للالباني: 4/ 40]۔

عرض ہے کہ ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے موقوفا بے شک یہ بات ثابت ہے اسی طرح علی رضی اللہ عنہ سے بھی موقوفا ثابت ہے جیساکہ اسے بھی علامہ البانی رحمہ اللہ نے دوسرے شاہد کے ضمن میں ذکر کیا ہے لیکن موقوف روایت مرفوع روایت کے لئے شاہد نہیں بنتی خود علامہ البانی رحمہ اللہ ایک مقام پر لکھتے ہیں:
فقد عاد الحديث إلى أنه موقوف مع ضعف إسناده فلا يصلح شاهدا للمرفوع الذي قبله
یہ حدیث سند میں ضعف کے ساتھ موقوف ہے اس لئے اس سے قبل والی مرفوع حدیث کے لئے یہ شاہد نہیں بن سکتی [تمام المنة ص: 117]۔
ایک اورمقام پرلکھتے ہیں:
ولا يخفى أن أثر ابن عمر هذا لو صح لا يشهد ۔۔۔ لحديث الترجمة ، وذلك لأمرين : أن الحديث مرفوع ، والأثر موقوف .
یہ بات مخفی نہیں ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ اثر صحیح بھی ثابت ہوجائے تو بھی باب کی حدیث کے لئے دو وجواہات کی بنا پر شاہد نہیں بن سکتا ان میں سے ایک یہ کہ باب کی حدیث مرفوع ہے اور یہ اثر موقوف ہے[سلسلة الأحاديث الضعيفة 11/ 724]۔
ممکن ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے زیربحث مسئلہ میں مرفوع کی تائید پیش کردہ موقوف اثر کے بارے میں یہ گمان کیا ہو کہ یہ حکما مرفوع ہے کیونکہ یہ عمل قیاس کی بنیاد پر نہیں ہوسکتا ہے ۔ لیکن یہ درست نہیں ہے کیونکہ نفل نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل پر قیاس کا بھی امکان ہے۔
خلاصہ یہ کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے جن شواہد کے پیش نظر اس ضعیف روایت کو صحیح قرار دیا ہے ان میں سے پہلا مرسل ضعیف ہے اور بعید نہیں کہ اس کی اصل سند مشہود لہ روایت والی سندہی ہو، دوسرا سخت ضعیف و مردود ہے تیسرا موقوف ہے جسے مرفوع کی تقویت میں پیش ہی نہیں کیا جاسکتا۔لہٰذا یہ روایت ضعیف ہی ہے ۔

دوسری روایت :
امام أبو بكر ابن الأنباري رحمه الله (المتوفى328)نے کہا:
حدثني محمد بن شهريار، قال: حدثنا حسين بن الأسود، قال: حدثنا عبد الرحمن بن أبي حماد قال: حدثنا عيسى ابن عمر، عن أبيه، قال: قرأ علي بن أبي طالب عليه السلام في الصلاة سبح اسم ربك الأعلى، ثم قال: سبحان ربي الأعلى، فلما انقضت الصلاة قيل له: يا أمير المؤمنين، أتزيد هذا في القرآن؟ قال: ما هو؟ قالوا: سبحان ربي الأعلى. قال: لا، إنما أمرنا بشيء فقلته
علی رضی اللہ عنہ نے نماز میں سبح اسم ربك الأعلى پڑھا پھر کہا: سبحان ربي الأعلى ، جب نماز ختم ہوگئی تو ان سے کہاگیا: اے امیرالمؤمنین ! کیا آپ قرآن میں اضافہ فرمائیں گے؟ علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا بات ہے ؟ لوگوں نے کہا: آپ نے سبحان ربي الأعلى کا اضافہ کیا ہے ! اس پر علی رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں ! ہمیں ایک چیز کاحکم دیا گیا تھا میں نے اسی پر عمل کیا ہے[المصاحف لابن الأنباري كمافي تفسير القرطبي، ت أحمد: 20/ 14 والدر المنثور للسيوطي 8/ 482]
یہ وہی روایت ہے جسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے دوسرے شاہد کے طور پر ذکر کیا لیکن اس کی سند ان کے سامنے نہ تھی ورنہ وہ ہرگز اس روایت کو بطور شاہد ذکر نہ کرتے کیونکہ اس کی سند سخت ضعیف ہے ۔تفصیل ملاحظہ ہو:
اول:
علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والا عیسی ابن عمر کا باپ غیر متعین ہے ، یہ بھی نہیں معلوم کی علی رضی اللہ عنہ سے اس کی ملاقات ہے یا نہیں علی رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کی فہر ست میں عیسی بن عمر کے والد کا کوی سراغ نہیں ملا۔
دوم:
عبد الرحمن بن أبي حماد التميمي الكوفي المقري
یہ بھی نامعلوم ہے تاريخ الإسلام ت بشار 5/ 107معرفة الرجال لابن معين 1/ رقم 194، وتاريخ الطبري 1/ 334، والجرح والتعديل 5/ 244 رقم 1162، وغاية النهاية لابن الجزري 1/ 369، 370 رقم 1572. میں اس کا تذکرہ ملتا ہے مگر اس کی توثیق کہیں نہیں ملتی۔
سوم:
”حسين بن الأسود“ یہ الحسين بن على بن الأسود العجلى ، أبو عبد الله الكوفى ہے ۔
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
لا ألتفت إلى حكاياته أراها أوهاما
میں اس کی روایات کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا یہ سب اوہام کا مجموعہ ہیں[سؤالات أبي عبيد الآجري أبا داود، ت الأزهري: ص: 74]

امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى 365)نے کہا:
يسرق الحديث۔۔۔وللحسين بن علي بن الأسود أحاديث غير هذا مما سرقه من الثقات، وأحاديثه لا يتابع عليها
یہ حدیث چراتا ہے ۔۔۔اور اس کی کئی اس کے علاوہ بھی کئی احادیث ہیں جنہوں اس نے ثقہ رواۃ کے یہاں سے چرایا ہے ، اس کی احادیث کی متابعت نہیں کیا جاتی[الكامل لابن عدي طبعة الرشد: 4/ 36]

امام ابن المواق المالكي (المتوفى 897) نے کہا:
رمي بالكذب وسرقة الحديث.
یہ جھوٹ بولنے اور حدیث چوری کرنے سے متہم ہے [إكمال تهذيب الكمال 1 / الورقة 260 نقلا عن بغية النقاد لابن المواق ]۔

تحرير التقريب كي مؤلفين (دكتور بشار عواد اور شعيب ارنؤوط) نے کہا:
ضعيف، یہ ضعیف ہے[تحرير التقريب: رقم1331]
سوم:
امام أبو بكر الأنباري رحمہ اللہ کا استاذ ''محمد بن شهريار'' مجہول ہے ۔
اس کی توثیق کہیں نہیں ملی امام ابن عساکر رحمہ اللہ نے تاریخ دمشق میں ان کا تذکرہ کیا ہے مگران کی توثیق کے بارے میں کوئی معلومات نہیں دی، ملاحظہ ہو[تاريخ دمشق لابن عساكر 53/ 256]۔
معلوم ہوا کہ اس کی سند علتوں سے پر ہے لہٰذا یہ روایت سخت ضعیف ہے۔

بعض ضعیف موقوف روایات :
عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب اثر:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حدثنا أبو أسامة، عن الجريري، عن أبي نضرة، عن عمر، أنه كان إذا قرأ: {سبح اسم ربك الأعلى}، قال: سبحان ربي الأعلى.
أبو نضرة، عمر(رضی اللہ عنہ) سے نقل کرتے ہیں کہ وہ جب {سبح اسم ربك الأعلى} پڑھتے تو کہتے : «سبحان ربي الأعلى»[مصنف ابن أبي شيبة. إشبيليا: 5/ 395وانظر:الدر المنثور في التفسير بالمأثور 8/ 482]
أبو نضرة المنذر بن مالك قدیم صحابہ سےارسال کرنے والے راوی ہیں دیکھئے:[جامع التحصيل للعلائي: ص: 287]
اور عمر رضی اللہ عنہ سے ان کا سماع ثابت نہیں ہے ۔شیخ سعد بن ناصر الشثري اپنے نسخہ میں اس روایت پر حاشیہ لگاتے ہوئے لکھتے ہیں:
منقطع، ابو نضرہ لم یسمع من عمر
یہ روایت منقطع ہے ابونضرہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا[مصنف ابن أبي شيبة. إشبيليا: 5/ 396]
تنبیہ :
مصنف ابن ابی شیبہ کے بعض نسخوں میں اس روایت کے اند ”عمر“ کی جگہ ”عمران“ کا لفظ درج ہوگیا ہے جس کی بناپر بعض نے یہ لکھ دیا ہے کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے بھی یہ ثابت ہے ۔
لیکن یہ غلط ہے صحیح نام عمر ہی ہے جیساکہ اکثر نسخوں میں ہے اور امام سیوطی نے بھی اسی نام کے ساتھ ذکرکیا ہے ۔دیکھئے: [مصنف ابن أبي شيبة. إشبيليا: 5/ 395، مصنف بن أبي شيبة ت عوامة: 5/ 528 ،مصنف ابن أبي شيبة/الفاروق 3/ 520 وانظر:الدر المنثور في التفسير بالمأثور 8/ 482]


ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایت:
بعض اہل علم نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا بھی یہی عمل ذکر کیاہے [تفسير القرطبي 20/ 14، اللباب في علوم الكتاب 20/ 274 ]
لیکن اس کی سند دستیاب نہیں ہے۔عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سجدہ میں یہ ذکر پڑھنا نقل کیا ہے غالبا اسی کے پیش نظر بعض کو اشتباہ ہوا ہے ، واللہ اعلم۔


فائدہ:
ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے جمعہ کی نماز میں یہ بات ثابت ہے اور فرض نماز کی صراحت کے بغیر علی ، ابن عمر اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم سے بھی یہ عمل ثابت ہے جیساکہ صحیح روایات کے ضمن میں تفصیلا پیش کیا جاچکاہے۔
اسی طرح عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی غیر نماز میں قولا یہ بات ثابت ہے جیساکہ صحیح روایات کے ضمن میں پیش کیا گیا ہے رہی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے نماز کے اندر عملا وفعلا مروی روایت تو یہ مرفوعا اور موقوفا دونوں طرح ضعیف ہے جیساکہ وضاحت گذرچکی ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
سورہ الأعلى (88) کی آخری آیت{ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا حِسَابَهُمْ} کا جواب:
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241) نے کہا:
حدثنا إسماعيل ، حدثنا محمد بن إسحاق قال : حدثني عبد الواحد بن حمزة بن عبد الله بن الزبير ، عن عباد بن عبد الله بن الزبير ، عن عائشة قالت : سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول في بعض صلاته : اللهم حاسبني حسابا يسيرا فلما انصرف ، قلت : يا نبي الله ، ما الحساب اليسير ؟ قال : أن ينظر في كتابه فيتجاوز عنه ، إنه من نوقش الحساب يومئذ يا عائشة هلك ۔۔۔
اماں عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض نماز میں پڑھتے ہوئے سنا:اللهم حاسبني حسابا يسيرا ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے پوچھا: اے اللہ کے نبی ! یہ حساب یسیرکیاہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا مطلب ہے کہ نامہ اعمال میں دیکھ کر درگذر کردیا جائے اور اس دن جس سے حساب کے وقت بحث کرلی گئی تو اے عائشہ وہ ہلاک ہوجائے گا ۔۔۔[مسند أحمد ط الميمنية: 6/ 48 واسنادہ حسن]
اس روایت سے استدلال کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ سورہ الغاشیہ کے اختتام پر اللهم حاسبني حسابا يسيرا پڑھنا چاہئے لیکن اس روایت میں ایسی کوئی صراحت نہیں لہٰذا اس سے ایسا استدلال غلط ہے۔
 
Top