علی ولی
مبتدی
- شمولیت
- جولائی 26، 2013
- پیغامات
- 68
- ری ایکشن اسکور
- 81
- پوائنٹ
- 21
ْقرآن حکیم کا حتمی فیصلہ :خوارج واجب القتل ہیں
سورۃ المائدۃ میں ارشادِ باری تعاليٰ ہے :
اِنَّمَا جَزٰؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ وَيَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْا اَوْيُصَلَّبُوْا اَوْتُقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الاَرْضِ ط ذٰلِکَ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌo المائدة، 5 : 33
''بے شک جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں (یعنی مسلمانوں میں خونریز رہزنی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں) ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کیے جائیں یا پھانسی دیے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا (وطن کی) زمین (میں چلنے پھرنے) سے دور (یعنی ملک بدر یا قید) کر دیے جائیں۔ یہ (تو) ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہےo''
۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
من شهر السلاح في فئة الإسلام، وأخاف السبيل ثم ظفر به، وقدر عليه فإمام المسلمين فيه بالخيار، إن شاء قتله وإن شاء صلبه وإن شاء قطع يده ورجله.
طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 6 : 214. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 51''جس نے مسلم آبادی پر ہتھیار اٹھائے اور راستے کو اپنی دہشت گردی کے ذریعے غیر محفوظ بنایا اور اس پر کنٹرول حاصل کرکے لوگوں کا پر امن طریقے سے گزرنا دشوار کر دیا، تو مسلمانوں کے حاکم کو اختیار ہے چاہے تو اسے قتل کرے، چاہے تو پھانسی دے اور چاہے تو حسبِ قانون کوئی اذیت ناک سزا دے۔''
۔ امام طبری رحمہ اللہ اور حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ
سعید بن مسیب، مجاہد، عطاء، حسن بصری، ابراہیم النخعی اور ضحاک نے بھی اسی معنی کو روایت کیا ہے۔
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 51طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 6 : 214
۔ اس کو امام سیوطی رحمہ اللہ نے بھی
''الدر المنثور (3 : 68)'' میں روایت کیا ہے۔
۔ امام قرطبی رحمہ اللہ نے
''الجامع لأحکام القرآن (6 : 148)'' میں روایت کیا ہے کہ یہ آیت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ایک ایسے گروہ کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے مدینہ کے باہر دہشت گردی کا ارتکاب کیا، قتل اور املاک لوٹنے کے اقدامات کیے جس پر انہیں عبرت ناک سزا دی گئی۔
علامہ زمخشری رحمہ اللہ نے اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں لکھا ہے :
۔ علامہ ابو حفص الحنبلی رحمہ اللہ، علامہ زمخشری رحمہ اللہکی مذکورہ بالا عبارت تحریر کرنے کے بعد مزید لکھتے ہیں :يُحَارِبُون رسُول اﷲ، ومحاربة المُسْلِمِين فی حکم مُحَارَبَتِه.
زمخشری، الکشاف عن حقائق غوامض التنزيل، 1 : 661
'' يُحَارِبُون رسُول اﷲِ (یعنی) مسلمانوں کے ساتھ جنگ برپا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنگ کرنے کے حکم میں ہے۔''
۔ اس آیت سے یہ مفہوم بھی اَخذ ہوتا ہے کہ راہزنی کرنے والوں کا اذیت ناک قتل جائز ہے۔أنَّ المقصود أنَّهم يُحَارِبون رَسُول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم وإنما ذکر اسْم اﷲ تبارک وتعالی تَعْظِيماً وتَفْخِيماً لمن يُحَارَبُ، کقوله تعالی : ﴿إِنَّ الذين يُبَايِعُونَکَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اﷲَ﴾(1) - (2)
الفتح، 48 : 10 ؛أبو حفص الحنبلی، اللباب فی علوم الکتاب، 7 : 303''مقصد یہ ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنگ کرتے ہیں اور (اس آیت میں) اللہ تعاليٰ کا نام جنگ کا نشانہ بننے والوں کی عظمت اور قدر و منزلت بڑھانے کے لئے مذکور ہوا۔ جیسا کہ بیعتِ رضوان کے حوالے سے قرآن مجید میں فرمایا گیا : ((اے حبیب!) بے شک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اﷲ ہی سے بیعت کرتے ہیں۔)''
قاضی ثناء اﷲ پانی پتی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
أجمعوا علی أن المراد بالمحاربين المفسدين فی هذه الآية قطاع الطريق سواء کانوا مسلمين أو من أهل الذمة. واتفقوا علی أن من برزو شهر السلاح مخيفا مغيرا خارج المصر بحيث لا يدرکه الغوث فهو محارب قاطع للطريق جارية عليه أحکام هذه الآية. . . . وقال البغوي : المکابرون فی الأمصار داخلون فی حکم هذه الآية.
قاضی ثناء اﷲ، تفسير المظهری، 3 : 86''اس پر سب کا اجماع ہے کہ محاربین سے مراد فساد بپا کرنے والے اور راہ زن ہیں؛ خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، سب کے لئے حکم برابر ہے۔ اس اَمر پر بھی اتفاق ہے کہ جو کھل کر ہتھیار اٹھالیں یا شہر سے باہر لوگوں کو خوفزدہ کریں اور غارت گری کریں جہاں کوئی مددگار بھی نہ پہنچ سکے، ایسا شخص جنگجو اور راہ زن ہے۔ اُس پر اس آیت کے احکام جاری ہوں گے۔ ۔ ۔ ۔ امام بغوی فرماتے ہیں۔ : شہروں میں دہشت گردی کرنے والے بھی اس آیت کے حکم میں شامل ہیں۔''
اس آیت مبارکہ اور سلف صالحین کے بیان کردہ تفسیری اقوال سے یہ مفہوم اَخذ ہوتا ہے کہ
مسلمان ریاست کی رعایا میں سے مسلمانوں کو اسلحہ کے ذریعے خوف زدہ کرنے والوں کا خاتمہ ضروری ہے کیوں کہ جو زمین میں فساد انگیزی کرتے ہیں وہ پوری انسانیت کے قاتل ہیں۔ جو کسی مسلم ریاست کی اتھارٹی کو چیلنج کرتے ہیں اور اس کے خلاف مسلح بغاوت کرتے ہیں، ان کے لیے اذیت ناک سزائیں اور دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے۔
مضمون جاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔