- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
قرآن کریم مؤثر ربانی منہج
ان پڑھ عرب اس کے اولین مخاطب تھے مگر پھر بھی قرآن مجیدنے ان پر اپنا گہرا اثر چھوڑا۔انہیں مہذب اور مؤدب انسان بنادیا۔وہ سرزمین عرب سے نکل کر جب عراق ، شام ، مصر اور سنٹرل ایشیا گئے تو نہ صرف اس کتاب کے ذریعے انہیں حلقہ اسلام میں داخل کیا بلکہ عربی زبان کی محبت نے ان سے اپنی زبان وتہذیب بھی چھڑوادی۔حیرت کی بات تو ہے کہ یہ کیسی کتاب ہے جس کی زبان عربی ہے مگر غیر عربوں کی کثیر تعداد اسے آسان جان کر عرب بن بیٹھی اور بڑی عقیدت ومحبت سے اس کی بھرپور خدمت کرڈالی۔آج بھی دنیا کا ہر شخص اس کتاب کو بآسانی سمجھ سکتا ہے۔یہ نسل انسانی کی تعلیم وتربیت کا تیار کردہ الٰہی کورس ہے جو انسانوں کو پستی سے نکال کر دنیا کی انتہائی مہذب اور شائستہ قوم بناسکتا ہے ۔ورنہ پستی کا سبب بھی سوائے اس کتاب کو ترک کرنے کے اور کچھ نہیں۔ خوش قسمت ہے وہ قوم جسے یہ مقدس کتاب نصیب ہوئی ۔اس کی تدریس وتعلیم کا منہج بھی بہت آسان ہے۔
{وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِن مُّدَّکِرٍ } (القمر: ۱۷)
بے شک ہم نے قرآن کریم کو آسان بنایا ہے تو کیا کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے؟
آسان کتاب ، آسان منہج:
قرآن کریم کی خوبی یہ ہے کہ اس کی ابتداء کریں تو مشکل لگتی ہے مگر جوں جوں اسے پڑھتے جائیں تو یہ آسان ترہوتی جاتی ہے۔ اور اگر پڑھانے والا واقعی استاذ ہو تو بہت ہی آسان کتاب لگتی ہے۔جب کہ دنیاوی کتب کا حال یہ ہے کہ ان کی ابتداء کریں تو بھی مشکل اور ایم اے ، وپی ایچ ڈی کرتے جائیں تو مشکل سے مشکل تر۔اس سے مبتدی بے نیاز ہو سکتا ہے اور نہ ہی کوئی علامہ دہر۔بلکہ ہر درجے کا آدمی اس سے ہدایت حاصل کر سکتا ہے۔ اس میں جتنا غور کریں نئے نئے اسرار کھلتے ہیں۔ اس لئے جو اسے سیکھنے یا جاننے کا شوق رکھتا ہے وہ بتدریج اپنی پیاس بجھا سکتا ہے۔اس کے بیان کردہ مسائل واحکام اورعقائد میں کوئی گنجلک نہیں، نہ ہی عقل سے ماوراء اس کی باتیں ہیں۔
{ قَدْ بَیَّنَّالَکُمُ الْآَیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ} (آل عمران : ۱۱۸)
ہم نے کھول کھول کر تمہارے لئے آیات میں عقائد واحکام بیان کردئے ہیں تاکہ تم عقل سے کام لو۔جی ہاں!اس میں انسانی مسائل کا ہی تذکرہ ہے نہ کہ جانوروں یا حشرات الارض کے مسائل کا یا میڈیکل وسائنس کا۔اسی میں ہی ہمارے عروج وزوال کی تاریخ ثبت ہے اور ثواب وعقاب کی بھی۔إن فی ذلک لآیت لقوم یسمعون،۔۔۔ لقوم یعقلون،۔۔۔ لقوم یتذکرون ،۔۔۔ للعالمین، میں مخاطب ابن آدم ہی ہے جو صاحب عقل ہے اور خود مختار وآزاد ہے۔اس لئے اسے مشکل نہیں کہا جاسکتا البتہ اسے آسان بنا کر پیش کرنا علماء کرام کا فرض ضرور بنتا ہے۔اس لئے یہ کتاب:
اتنی مشکل بھی نہیں کہ اسے صرف علماء ہی سمجھ سکیں اور عام مسلمان اس سے محروم رہے ۔یا اسے صرف مسلمان سمجھ سکتا ہے اور غیر مسلم نہیں۔ بلکہ کئی غیر مسلم محض اسے سن کر یا خود پڑھ کر حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ نہ ہی یہ پر اسرار کتاب ہے کہ اس کا ایک مفہوم ظاہری ہو اور دوسرا باطنی۔یا ظاہری مفہوم ، عام اور باطنی ، خاص لوگ ہی جان سکتے ہیں۔ یہ سوچ اگر دنیاوی علوم کے بارے میں ہو تو کیا نتائج نکل سکتے ہیں؟ کیااللہ کی کتاب ایسا کہنے کا حق کسی کو دیتی ہے۔بلکہ ایسا کہنے سے انسان میں عملی اور اخلاقی تبدیلی آسکتی ہے نہ اللہ کی عظمت دلوں میں سماتی ہے اور نہ الہامی ہدایات کی قدر باقی رہتی ہے۔یہ سب غلط اصول مسلمان کو کتاب سے دور کرنے اور ذاتی سوچ میں ڈھالنے کے ہیں۔ہاں اس کی گہرائی میں جانے کے لئے بلاشبہ چند بنیادی علوم کی ضرورت ہے تا کہ عصری اشکالات اور مسائل کا حل اس سے تلاش کیا جاسکے۔
٭٭٭٭٭