• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قراء اتِ عشرۃکی اَسانید اور ان کا تواتر

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
مدینہ کے معروف قراء تابعین

سعیدبن مسیب رحمہ اللہ(المتوفی بعد از ۹۰ھ)
عروہ بن زبیررحمہ اللہ(المتوفی۹۴ھ)
سالم بن عبداللہ رحمہ اللہ(المتوفی ۱۰۶ھ)
ابن شہاب زہری رحمہ اللہ(المتوفی ۱۲۴ھ)
عبدالرحمن بن ہرمزالمعروف اعرج رحمہ اللہ(المتوفی ۱۱۷ھ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
مکہ کے معروف قراء تابعین

عبداللہ بن عمیر اللیثی رحمہ اللہ (المتوفی۱۱۳ھ)
عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ(المتوفی۱۱۴ھ)
طاؤس رحمہ اللہ(المتوفی۱۰۶ھ)
ابن عباس کے غلام عکرمہ رحمہ اللہ(المتوفی۱۰۵ھ)
عبداللہ بن ابی ملیکہ رحمہ اللہ (المتوفی۱۱۷ھ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
کوفہ کے معروف قراء تابعین

علقمہ بن قیس رحمہ اللہ(المتوفی بعد از ۷۰ھ)
اسود بن یزید رحمہ اللہ (المتوفی۷۵ھ)
مسروق بن اجدع رحمہ اللہ(المتوفی۶۳ھ)
عبیدہ سلمانی رحمہ اللہ(المتوفی۷۲ھ)
عمر بن شرجیل رحمہ اللہ(المتوفی۶۳ھ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
بصرہ کے معروف قراء تابعین

عامر بن عبداللہ رحمہ اللہ(المتوفی ۹۳ھ)
ابوالعالیہ الریاحی رحمہ اللہ(المتوفی۹۳ھ)
ابورجاء العطاردی رحمہ اللہ (المتوفی ۱۰۵ھ)
نصر بن عاصم اللیثی رحمہ اللہ (المتوفی۹۰ھ)
یحییٰ بن یعمررحمہ اللہ(المتوفی قبل از ۹۰ھ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
تبع تابعین میں سے قراء کرام رحمہم اللہ

ابوعبیدقاسم بن سلام رحمہ اللہ مذکورہ لوگوں کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’ان کے جانشین حامل قرآن لوگوں میں ان جیسی ہمت اور طاقت نہ تھی۔ انہوں نے صرف قراء ات کو اپنا مرکز و محور بناکرتمام تر توجہ قراء ات میں صرف کی۔ لوگ ان سے قراء ات نقل کرنے لگے، حتیٰ کہ وہ اس فن کے امام ومقتدا بن گئے۔
چنانچہ مدینہ میں درج ذیل حضرات پر قراء ات کی بنیاد منتہی ہوئی:
ابوجعفر یزیدبن قعقاع رحمہ اللہ (المتوفی ۱۳۰)
شیبہ بن نصاح رحمہ اللہ(المتوفی ۱۳۰ یا ۱۶۰ھ)
نافع بن ابی نعیم رحمہ اللہ(المتوفی ۱۶۰ھ یا ۱۷۰ھ)

مکہ مکرمہ میں درج ذیل حضرات پر قراء ات کی بنیاد منتہی ہوئی:
عبداللہ بن کثیر مکی رحمہ اللہ (المتوفی ۱۳۰ھ)
حمیدبن قیس الاعرج رحمہ اللہ(المتوفی۱۲۰ھ)
محمد بن محصن رحمہ اللہ (المتوفی۱۲۳ھ)

کوفہ میں درج ذیل حضرات پر قراء ات کی بنیاد منتہی ہوئی:
یحییٰ بن وثاب رحمہ اللہ(المتوفی۱۰۳ھ)
عاصم بن ابی النجود رحمہ اللہ(المتوفی۱۲۷ھ)
سلیمان بن اعمش رحمہ اللہ(المتوفی۱۴۸ھ)
حمزہ بن حبیب رحمہ اللہ(المتوفی۱۵۶ھ)
علی کسائی رحمہ اللہ(المتوفی۱۸۹ھ)

بصرہ میں درج ذیل حضرات پر قراء ات کی بنیاد منتہی ہوئی:
عبداللہ بن ابواسحاق حضرمی رحمہ اللہ(المتوفی۱۱۷ھ)
عیسییٰ بن عمر ثقفی رحمہ اللہ(المتوفی۱۴۹ھ)
ابوعمرو بن العلاء رحمہ اللہ(المتوفی۱۵۴ھ)
عاصم جحدری رحمہ اللہ(المتوفی۱۳۰ھ)
یعقوب حضرمی رحمہ اللہ(المتوفی۲۰۵ھ)

شام میں درج ذیل حضرات پر قراء ات کی بنیاد منتہی ہوئی:
عبد اللہ بن عامر رحمہ اللہ(المتوفی۱۱۸ھ)
عطیہ بن قیس الکلابی رحمہ اللہ(المتوفی۱۲۱ھ)
یحییٰ بن حارث ذماری رحمہ اللہ(المتوفی۱۴۵ھ)
شریح بن یزید الحضرمی رحمہ اللہ(المتوفی۲۰۳ھ)‘‘ (جمال القراء:۲؍۴۲۸ نقلا عن کتاب القراء ات لإبی عبید)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
صحابہ کرام، تابعین عظام اور حضرات تبع تابعین میں سے بعض دیگر شیوخ قراء ات کا تذکرہ

امام ابوعبید قاسم بن سلامی رحمہ اللہ ان معلّمین قراء ات کے مبارک ناموں میں کچھ نئے نام بھی لائے ہیں۔ وہ اپنی کتاب، کتاب القراء ات میں قراء صحابہ وتابعین کے نام ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’مہاجرین میں سے حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت سعد، حضرت عبداللہ ابن مسعود، حضرت حذیفہ، حضرت ابوموسیٰ، حضرت سالم، حضرت ابوہریرہ،حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت عمرو بن العاص، حضرت عبداللہ بن عمرو،حضرت معاویہ، حضرت عبداللہ بن سائب، اُمہات المؤمنین میں سے حضرت عائشہ، حضرت حفصہ، حضرت اُم سلمہ، اور انصار میں سے حضرت ابی، حضرت معاذ، حضرت ابوالدرداء، حضرت انس بن مالک رضوان اللہ علیہم اجمعین سے وجوہ قراء ات منقول ہیں۔ اسی گروہ میں سے حضرت عیاش رضی اللہ عنہ اور آپ کے فرزند حضرت ابوالحارث عبداللہ بن عیاش قرشی رضی اللہ عنہ، حضرت فضالہ بن عبید انصاری رضی اللہ عنہ اور حضرت واثلہ بن اسقع لیثی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں۔
ان میں سے اکثر حضرات نے حضورﷺ سے براہ راست اور بعض نے دوسرے صحابہ ؓ کے واسطہ سے قرآن پڑھا تھا اور تمام جماعت روزانہ حضورﷺکی زبان مبارک سے سنتی رہتی تھی۔ اس برگزیدہ جماعت نے ہر حرکت و اسکان اورحذف و اثبات کو حضورﷺ سے ضبط کیا تھا اور جس طرح پڑھا تھا اسی طرح تابعین کو پڑھا دیا۔صحابہ کرام ؓکے بعد قرآن پڑھانے والے تابعین عظام ہیں، جو اسلامی دنیا کے ہر گوشہ میں موجود تھے۔ ان میں سے پانچوں اسلامی مرکزوں میں حسب ذیل حضرات خصوصیت کے ساتھ قراء ات کے معلم تھے۔
مدینہ طیبہ میں حضرت امام زین العابدین، سیّدالتابعین حضرت سعید بن المسیّب، حضرت عروہ بن زبیر، حضرت سالم بن عبداللہ، حضرت عمر بن عبدالعزیز، حضرت سلیمان بن یسار، حضرت عطاء بن یسار، حضرت معاذ بن الحارث معروف معروف بمعاذ قاری، حضرت امام محمد باقر، حضرت عبدالرحمن بن ہرمز الاعرج، حضرت محمد بن شہاب الزہری، حضرت مسلم بن جندب ہذلی، حضرت زید بن اسلم، حضرت یزید بن رومان، حضرت صالح بن خوات، حضر ت عکرمہ بربری مولی حضرت ابن عباس، حضرت امام جعفر صادق رحمہم اللہ وغیرہ۔
مکہ معظمہ میں حضرت عبید بن عمیر، حضرت عطاء بن ابی رباح، حضرت طاؤس، حضرت مجاہد جبیر، حضرت عکرمہ بن خالد، حضرت ابن ابی ملیکہ، حضرت درباس رحمہم اللہ مولی حضرت ابن عباسؓ وغیرہ۔
کوفہ میں حضرت علقمہ بن قیس، حضرت اسود بن یزید، حضرت عبیدہ بن عمرو، حضرت عمرو بن شرجیل، حضرت مسروق بن اجدع، حضرت عاصم بن ضمرہ سلولی، حضرت زید بن وہب، حضرت حارث بن قیس، حضرت حارث بن عبداللہ الاعور ہمدانی، حضرت ربیع بن خثیم، حضرت عمرو بن میمون، حضرت ابوعبدالرحمن سلمی، حضرت زر بن حبیش، حضرت سعد بن الیاس، حضرت عبید بن نضیلہ، حضرت ابوزرعہ بن عمرو بن جریر، حضرت سعید جبیر والبی، حضرت ابراہیم بن یزید بن قیس، حصرت عامر شعبی، حضرت حمران بن اعین، حضرت ابواسحق سبیعی، حضرت طلحہ بن مصرف، حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ، حضرت محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ، حضرت منصور بن معتمر بن مقسم ضبی ضریر، حضرت زائدہ بن قدامہ ، حضرت منہال بن عمرواسدی رحمہم اللہ وغیرہ۔
بصرہ میں حضرت عامر بن عبدقیس، حضرت ابوالعالیہ، حضرت ابوالرجاء، حضرت نصر ابن عاصم، حضرت قتادہ، حضرت ابوالاسود دولی، حضرت عطان بن عبداللہ رقاشی رحمہم اللہ وغیرہ۔
دمشق میں حضرت مغیرہ بن ابی شہاب رحمہ اللہ اور حضرت خلیدبن سعدرحمہ اللہ وغیرہ۔
ان میں سے بعض نے حضرات صحابہ کرامؓ سے براہ راست اور بعض نے تابعین کے واسطہ سے قرآن پڑھا تھا اور ہر حرف کو ضبط کیا تھا پھر بعض نے اپنا تمام وقت اور بعض نے اکثر اور بعض نے ایک حصہ خدمت قرآن کے لئے وقف کررکھا تھا۔‘‘ ( کتاب القراء ات لإبی عبید )
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
صاحب اختیار ائمہ قراء ات

امام جزری رحمہ اللہ (متوفی ۸۳۳ھ) فرماتے ہیں:
’’پھر ان مذکورین کے بعد بکثرت قراء کرام پیدا ہوئے جو مختلف شہروں اور علاقوں میں پھیل گئے، پھر ان کے جانشین نسل در نسل چلتے رہے، جن کے طبقات کو جانا گیاتو ان کی صفات مختلف ٹھہریں۔ ان میں سے کچھ تو ایسے تھے جو روایت ودرایت کے اعتبار سے مشہور ومتقن(پختہ)ثابت ہوئے اورکچھ متوسط درجہ کے لوگ تھے، جن میں ان (پہلوؤں)کی سی صفات کا فقدان تھا،جس کی وجہ سے ان کے مابین بکثرت اختلاف رونماہوا ضبط و مہارت میں کمی واقع ہوئی۔ قریب تھا کہ حق و باطل خلط ملط ہوجائیں تو علماء کی ایک جماعت اٹھ کھڑی ہوئی، جنہوں نے زبردست کوشش کرکے حق کو واضح کیا۔ انہوں نے نہ صرف حروف و قراء ات کو جمع کیا، بلکہ وجوہ وروایات (جن پرقراء ات کا مدار تھا) کی نسبتوں کی بھی وضاحت فرمائی۔ انہوں نے ایسے اصول و ارکان وضع کئے جن کی بنا پر انہوں نے صحیح، مشہور اور شاذ روایات کو الگ الگ کر دیا۔‘‘ (النشر: ۱؍ ۹)
انہیں تابعین اور تبع تابعین میں سے وہ حضرات ہیں، جنہوں نے سب کچھ چھوڑ کر اپنے آپ کو خدمت قرآن کے لئے وقف کردیا۔ حصول قراء ات اور ان کے ضبط و حفظ میں انتہائی جدوجہد کی حتیٰ کہ مقتدائے روزگار ائمہ بن گئے۔ ان میں سے بعض نے کئی کئی صحابہ کرامؓ سے اور بعض نے صحابہ کرامؓ اور تابعین ؒ سے اور بعض نے صرف تابعینؒ سے اور بعض نے تابعین اور تبع تابعینؒ سے قرآن پڑھا۔ ان ائمہ میں سے ہر ایک نے اپنے اساتذہ کی تعلیم کردہ وجوہ قراء ات میں سے عربیت میں اقویٰ اور موافق رسم وجوہ سے اپنے لئے جدا جدا قراء ات اختیار کرلیں اور عمر بھر انہی کو پڑھتے پڑھاتے رہے۔ تمام مفسرین و محدثین اور جملہ فقہاء و مجتہدین ان کی اختیار کردہ قراء توں کو بلا عذر قبول کرتے تھے اور مذکورہ بالا اسلامی مرکزوں میں سے کوئی شخص ان کے ایک حرف کا بھی انکار نہیں کرتا تھابلکہ دوسری صدی سے دنیائے اسلام میں وہی پڑھی اور پڑھائی جانے لگیں۔ اسلامی ممالک کے بعید ترین علاقوں سے اورہر شہر وقصبہ سے طلباء سفر کرکے ان سے پڑھنے آتے تھے اور ان قراء توں کو ان کے نام سے منسوب کرتے تھے جو آج تک انہی کے نام سے معنون چلی آتی ہیں۔ ان صاحب اختیار حضرات میں سے مختلف علاقوں میں درج ذیل اشخاص نمایاں ہوکر سامنے آئے:
مدینہ منورہ میں امام ابوجعفر یزید بن القعقاع قاری رحمہ اللہ، امام شیبہ بن النصاح قاضی رحمہ اللہ او ران کے بعد امام نافع بن عبدالرحمن رحمہ اللہ تھے۔
مکہ معظمہ میں امام عبداللہ بن کثیررحمہ اللہ، امام حمید بن قیس الاعرج رحمہ اللہ اورامام محمد بن عبدالرحمن بن محیصن سہمی رحمہ اللہ نمایا ں شخصیتیں تھیں۔
کوفہ میں امام یحییٰ بن وثاب اسدی رحمہ اللہ، امام عاصم بن ابی النجودرحمہ اللہ، امام سلیمان بن مہران الاعمش رحمہ اللہ اور ان کے بعد امام حمزہ بن حبیب الزیات رحمہ اللہ، پھر امام ابوالحسن علی الکسائی رحمہ اللہ، پھر امام خلف بن ہشام رحمہ اللہ نمایاں تھے۔
بصرہ میں امام عبداللہ بن ابی اسحق حضرمی رحمہ اللہ، امام عیسیٰ بن عمرو ہمدانی ضریررحمہ اللہ، امام ابوعمرو بن العلاء رحمہ اللہ اور ان کے بعد امام عاصم بن حجاج حجدری رحمہ اللہ تھے اور پھر امام یعقوب بن اسحق حضرمی رحمہ اللہ تھے۔
دمشق میں امام عبداللہ بن عامررحمہ اللہ، امام عطیہ بن قیس کلابی رحمہ اللہ، امام اسماعیل بن عبداللہ بن مہاجررحمہ اللہ اور ان کے بعد امام یحییٰ بن حارث ذماری رحمہ اللہ اور امام شریح بن زید حضرمی رحمہ اللہ مشہور صاحب اختیار ائمہ تھے۔
اختیار قراء ات کا یہ سلسلہ بے حد وسیع تھا جو صدیوں جاری رہا اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کتنے صاحب اختیار ائمہ پیدا ہوئے۔ امام ابومحمد مکی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’کتابوں میں ان ستر صاحب اختیار ائمہ کی قراء ات مذکور ہیں جوقراء سبعہ سے مقدم تھے۔ ‘‘ اس سے قیاس کریں کہ ان کے ہم مرتبہ او ران سے کم اور کم تر کتنے ائمہ ہوں گے۔ائمہ کے تلامذہ اور رواۃ ان گنت تھے اور پھر ان میں سے ہر ایک کی جانشین ایک قوم بنی جن کی تعداد اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور نہ کسی مصنف کی یہ طاقت ہے کہ ان کا پورا شمار کرسکے۔‘‘ (النشر:۱؍۳۷)
کلام مذکور سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ قراء عشرہ کی تمام اسناد میں تواتر موجود نہیں ہے،بلکہ بعض اخبار آحاد بھی ہیں، لیکن صحابہ کرام،تابعین عظام اور تبع تابعین کے دور میں قراء ت پڑھنے پڑھانے والوں کی اتنی کثیر تعداد موجود تھی جو قراء ات کے تواتر کے لئے کافی ہے۔ گویا کہ تمام قراء ات قرآنیہ کے ہر طبقہ میں تواتر موجود ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
کیا علم قراء ت خبر واحد کے قبیل سے ہے؟

اعتراض: بعض حضرات کا یہ فرمانا کہ علم قراء ت خبرواحد کے قبیل سے ہے لہٰذا اس میں تواتر نہیں ہے۔
جواب: اس سلسلہ میں ہم محقق فن علامہ ابن جزری رحمہ اللہ کے اس جواب پر ہی اکتفا کریں گے جو انہوں اس ضمن میں تفصیلا اپنی کتاب منجد المقرئین ومرشد الطالبین میں پیش فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ اس اعتراض کو میں نے اپنے شیخ شمس الدین محمد بن احمدخطیب یبرود شافعی رحمہ اللہ، جو اپنے زمانہ کے یگانۂ روزگار امام تھے، کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے فرمایا:
’’اعتراض کرنے والے حضرات نے قراء ات کی تخریج کو احادیث کی تخریج کی طرح سمجھ لیا اور یہ خیال کرلیاکہ جس طرح احادیث میں جب کسی حدیث کا مدار ایک ناقل پر ہو، تو اس کو خبر واحد کہتے ہیں او ران کے خیال کے مطابق اسی طرح قراء ات میں بھی جب کسی قراء ت و روایت کی نسبت ایک ہی امام کی طرف ہو تو اس کو بھی خبر واحد ہی کہیں گے، ناکہ متواتر! اور ان حضرات پر یہ بات مخفی رہی کہ خاص اُس ایک امام کی طرف قراء ات و روایت کی نسبت فقط اصطلاح وعرف کی بناء پر ہے، ورنہ ہر زمانہ میں پورے شہر والے اس قراء ات وروایت کو پڑھتے پڑھاتے، جس کو انہوں نے جماعت در جماعت پہلے لوگوں سے حاصل کیا تھا اور اگر اس قراء ت و روایت کا ناقل ایک ہی ہوتا اور دوسرے اہل شہر میں اس کا چرچا و شہرہ اور رواج نہ ہوتا تو اس پرکوئی بھی اس ایک امام کی موافقت نہ کرتا۔ سب کے سب اس قراء ت و روایت سے بچتے اور دوسرے کو بھی اس سے بچنے کا حکم کردیتے، حالانکہ ایسا نہیں۔‘‘
علامہ ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں کہتاہوں شیخ نے سچ فرمایا، چنانچہ مندرجہ ذیل اقوال واِرشادات اس کی صداقت کی واضح دلیل ہیں:
١ ابن مجاہدرحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھے قنبل رحمہ اللہ نے بتایا کہ ۲۳۷ھ میں مجھ سے قواس رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’ اِس آدمی یعنی بزی رحمہ اللہ سے ملو اور ان سے کہو کہ یہ حرف یعنی وما ھو بمیت (مخفف) ہماری قراء ت میں سے نہیں ہے اور روایت کی رو سے میِّت کا وہی لفظ تخفیف ِیاء سے پڑھا جاتاہے، جو مصداق کی رُو سے مرچکا ہو اور جو ابھی مرا نہ ہو وہ مشدد ہی ہے۔ پس میں سیدنا بزی رحمہ اللہ سے ملا اور انہیں اس بات کی خبر دی تو انہوں نے فرمایا: قد رجعت عنہ یعنی میں نے اس سے رجوع کرلیا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
٢ محمد بن صالح رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں امام ابوعمرو بصری رحمہ اللہ سے ملا اور ان سے کہا:
’’آپ فیومئذ لا یُعَذِّب عذابہ أحد ولا یوثِق و ثاقہ أحد کو کس طرح پڑھتے ہیں؟امام ابوعمرو بصری رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’لا یعذب ولا یوثق‘‘ کسرہ سے۔ اس شخص نے کہا آنحضرتﷺ تو (لا یعذَّب ولا یوثَق) فتحہ سے پڑھتے تھے، پھر آپ کسرہ کیوں پڑھتے ہیں؟ امام ابوعمرو بصری رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’لو سمعت الرجل الذی قال سمعت النبی ! ما أخذتہ عنہ ودری ما ذاک لأنی أنھم الواحد الشاذ إذا کان علی خلاف ما جاء ت بہ العامۃ‘‘
’’یعنی میں اگر خود بھی کسی سے کوئی ایسی قراء ت سن لوں جس کو اس نے آنحضرتﷺ سے بلاواسطہ سنا ہو اور وہ قراء ت عام و متواتر قراء ت کے خلاف ہو۔ تب بھی اس شخص سے اس قراء ت کو اخذ نہیں کروں گا کیونکہ میں کسی واحد شاذ روایت کو متہم جانتا ہوں جب کہ وہ اکثر ناقلین کی روایت کے خلاف ہو۔‘‘
شیخ ابوالحسن سخاوی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ
’’ فتحہ والی قراء ت بھی تواتر سے ثابت ہے۔‘‘
علامہ جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’میں کہتاہوں کہ سچ فرمایا کیونکہ یہ امام کسائی رحمہ اللہ او رامام یعقوب رحمہ اللہ کی بھی قراء ت ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ کبھی ایساہوتا ہے کہ ایک روایت ایک قوم کے یہاں تو متواتر ہوتی ہے اور دوسری جماعت کی رائے پر غیر متواتر اور امام ابوعمرو بصری رحمہ اللہ نے فتحہ والی قراء ت کا انکار اسی بنا پر کیاہے کہ وہ آپ کو تواتر کے طریق پرنہیں پہنچی تھی۔‘‘
علامہ ابن جزری رحمہ اللہ مزید فرماتے کہ’’ میں کہتا ہوں کہ متقدمین حضرات کی یہی عادت تھی کہ جو قراء ت ان کے یہاں بطریق تواتر ثابت نہیں ہوتی تھی اس کاانکار فرما دیتے تھے اور خاص خاص قراء و رواۃ کی طرف منسوب ہونے کے باوجود قراء ات و روایات متواتر اس بنا پر ہیں کہ ان قراء کی تعیین و تخصیص لازم نہیں، بلکہ اگر ان کے بجائے دوسرے قراء معین و مخصوص کرلئے جائیں تو اس میں بھی کچھ حرج نہیں اور خاص ان قراء کی تعیین کا سبب یہ ہے کہ بہ نسبت دوسرے لوگوں کے یہ حضرات قراء ات کے پڑھنے پڑھانے کی طرف خصوصی توجہ دیتے تھے یا یہ کہ یہ حضرات تعیین و انتخاب کا کام سرانجام دینے والے لوگوں کے مشائخ و اساتذہ ہیں۔ اسی بناء پر انہوں نے اپنے اساتذہ ہی کوخاص کرلیا، یہی وجہ ہے کہ اسلاف ومتقدمین میں سے کئی حضرات نے قراء ت و روایت کے خاص ایک امام کی طرف منسوب کرنے کو مکروہ جانا ہے، چنانچہ ابن ابی داؤدرحمہ اللہ نے ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ متقدمین ’فلاں کی سند‘، ’فلاں کی قراء ت‘ کہنے کو ناپسند سمجھتے تھے۔‘‘
علامہ جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’ میں کہتاہوں کہ یہ اسی بات سے اندیشہ کرنے کی بنا پر تھا کہ ابوشامہ رحمہ اللہ کی طرح کوئی شخص یہ وہم نہ کرلے کہ قراء ت جب ایک خاص شخص کی طرف منسوب ہو تو ’آحاد‘ کے قبیل سے ہوتی ہے اور یہ لوگ اس بات سے ناواقف ہیں کہ ان قراء میں سے ہر ہر قاری کی طرف جوجو قراء ت منسوب ہے۔اس کی تلاوت کرنے والے ہمارے اس زمانہ کی بہ نسبت خود اس قاری کے اوراسی طرح اس سے پہلے کے زمانہ میں کئی گنا زیادہ تھے۔ اگر ہر ہر قراء ت متواتر نہ ہو تو لازم آئے گا کہ قرآن کا بعض حصہ غیر متواتر ہو۔ اس لئے کہ ہم قرآن مجید میں بہت سے حروف و کلمات ایسے پاتے ہیں کہ ان میں قراء کا اختلاف ہے، اس طرح کہ ان قراء کرام میں سے ہر ایک کی قراء ت دوسرے قاری کی قراء ت سے مختلف اور جدا ہے، مثلاً أَرْجِہْ (شعبہ بالخلف ، حفص، حمزہ)، أَرْجِہٖ (ورش، کسائی، خلف، ابن جماز ،ابن وردان بالخلف)، أَرْجِہِ(قالون، ابن وردان کی وجہ ثانی )، أَرْجِئْہٗ (مکی ، ہشام بالخلاف)، أَرْجِئْہُ (ابوعمرو،یعقوب، ہشام اور شعبہ دونوں کی دو وجہ ثانی) أَرْجِئْہِ (ابن ذکوان)۔ اسی طرح مٰلِکِ (عاصم کسائی، خلف،یعقوب)، مَلِکِ (نافع،ابوجعفر، مکی،ابوعمرو، شامی، حمزہ) اور وَمَا یَخٰدِعُوْنَ (نافع، ابن کثیر، ابوعمرو)، وَما یَخْدَعُوْنَ (شامی، عاصم، حمزہ، خلف، ابوجعفر، یعقوب ) وغیرہ وغیرہ۔
پس مندرجہ بالا قول کی رُو سے ان میں سے کوئی قراء ت بھی متواتر نہیں اور اس کی خرابی ظاہر ہے، کیونکہ اس سے لازم آتاہے کہ قرآن کا بہت سا حصہ غیر متواتر ہو، اس لئے کہ دو یا تین سے تواتر ثابت نہیں ہوتا اور یہ صحیح نہیں۔‘‘
چنانچہ امام جعبری رحمہ اللہ اپنے رسالہ میں فرماتے ہیں:
’’اس کلمہ کی اختلافی وجوہ میں سے ہر ہر وجہ اسی طرح متواتر ہے، مگر یہ وجوہ اس کلمہ کے اجزاء میں سے بعض ہیں نہ کہ کل،کیونکہ کل تو پورا کلمہ ہے نہ کہ محض یہ وجوہ۔‘‘
امام جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ پس اس سے اس شخص کے قول کا فساد ظاہر ہوگیا جو یہ کہتا ہے کہ اختلافی کلمات تو متواتر ہیں لیکن اس کی اختلافی وجوہ متواتر نہیں، اور اس قول کے فساد کی وجہ یہ ہے کہ اختلافی کلمہ انہی اختلافی وجوہ کے مجموعہ کا نام ہے، ان سے الگ اور مستقل کوئی چیز نہیں۔ لہٰذا جب آپ الصراط پڑھتے ہیں تو اس کاتلفظ صاد یا سین یااشمام بالزای یا ان تین میں سے کسی ایک وجہ کے مطابق کرتے ہیں، ان سے الگ اور جدا اس کلمہ کا کوئی اور مزید تلفظ نہیں کرسکتے۔ پس ان وجوہ کے عدم تواتر سے خود اس کلمہ کاعدم تواتر لازم آئے گا، جو باطل ہے۔ میں کہتا ہوں کہ جعبری رحمہ اللہ کا مقصود ابوشامہ رحمہ اللہ کے قول کا رد ہے۔ واللہ اعلم‘‘
 
Top