مصاحف میں قرآن کی کتابت کا سبب یہ تھا کہ حضرت عثمانؓ کو یہ بات پہنچی کہ اہل حمص، اہل دمشق، اہل کوفہ اور اہل بصرہ میں سے ہر ایک اپنی قراء ت کو دوسرے کی قراء ت سے بہتر قرار دیتے تھے تو حضرت عثمانؓ نے۱۲ صحابہ کو جمع کیا۔ حضرت عثمانؓ نے جب انہیں خبر دی تو انہوں نے اسے بہت بڑا فتنہ سمجھا اور حضرت عثمانؓ سے پوچھا کہ آپ کی کیا رائے ہے تو حضرت عثمانؓ نے کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ لوگوں کوایک مصحف پر جمع کردوں تاکہ تفرقہ باقی نہ رہے تو صحابہ ؓ نے کہا : کیا ہی خوب رائے ہے۔
اس کے بعد حضرت عثمانؓ نے خلافت ابی بکر میں جمع شدہ مصحف منگوایا جوکہ حضرت حفصہؓ کے پاس تھا۔ آپ نے حضرت زید بن ثابتؓ وغیرہ کو مصاحف کی کتابت کا حکم دیا تو حضرت زیدؓ نے ان مصاحف کو عرضہ أخیرہ کے مطابق لکھا؛ یعنی آخری بار جب اللہ کے رسولﷺ نے حضرت جبرئیل ؑ کو اپنی وفات والے سال قرآن سنایا تھا۔ پھر حضرت عثمانؓ نے ایک ایک مصحف مکہ، مدینہ، کوفہ اور بصرہ بھیجا۔ ایک مدینہ میں روک لیا اور ایک مصحف اپنے پاس رکھ لیا، جسے انہوں نے مصحف امام کا نام دیا۔
حضرت عثمانؓ نے ان تمام مصاحف کے ساتھ ایک ایک قاری بھی بھیجا، جو اس شہر والوں کو اس مصحف کے رسم کے مطابق صحیح اور متواتر قراء ات کی تعلیم دے۔ حضرت زید بن ثابتؓ کو حکم دیاگیا کہ وہ اہل مدینہ کو مدنی مصحف کے مطابق قرآن پڑھائیں۔ عبداللہ بن السائب کو اس کام کے لئے مکہ بھیجا گیا۔ مغیرہ بن ابی شہاب کو شام، ابوعبدالرحمن السلمی کو کوفہ اور حضرت عامر کوبصرہ روانہ کیا گیا۔
ان شہروں میں اس وقت تابعین میں سے حفاظِ قرآن کریم کا ایک جم غفیر تھا۔ ہر شہر کے لوگوں نے اپنے شہر کے تیار کردہ مصحف کے مطابق مذکورہ بالا قراء سے قرآن پڑھا اور اپنے شہر کے مصحف کی تمام قراء ات کو صحابہ سے نقل کیا، وہ قراء ات جو صحابہ نے آپؐ سے لیں تھیں۔
یہ بات اہم ہے کہ حضرت عثمانؓ نے مصاحف کے لکھنے اور ان کو مختلف اسلامی شہروں کی طرف بھیجنے کی جو مہم چلائی تھی اس کا مقصد قرآن کی ایک نص پر لوگوں کواکٹھا کرنا نہیں تھا بلکہ اس سے مطلوب صرف یہ تھا کہ اللہ کے رسول ا سے ثابت متواتر قراء ات کو جمع کر دیا جائے اور جو قراء ات شروع میں امت کی آسانی کے لئے نازل کی گئی تھیں بعد میں عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہوگئی تھیں اور اکثر لوگ جن کو ان کے نسخ کا علم نہ تھا، کا سد ِ باب کیا جائے، جو ان کو برابر پڑھتے چلے آرہے تھے۔ مصاحف عثمانیہ کو حرکات اور نقاط سے خالی اس لئے رکھا گیا، کیونکہ مصاحف کا حرکات اور نقاط سے خالی ہوناحضرت عثمانؓ کے ہاں اس لحاظ سے مفید تھا کہ وہ ان لوگوں کو منسوخ اور شاذہ کی بجائے متواتر قرا ء ات پر جمع کرسکیں۔
قاضی ابوبکر بن ابی طیب نے لکھا ہے کہ حضرت عثمانؓ کا مقصد حضرت ابوبکرؓ کی طرح دو تختیوں کے درمیان قرآن کو جمع کرنا نہیں تھا، بلکہ ان کا اصل مطلوب قراء ات ثابتہ متواترہ پر لوگوں کو اکٹھا کرنا اور ان کو ان کے ماسواء قراء ات سے جداکرناتھا۔
حافظ ابوعمروالدانی فرماتے ہیں۔ حضرت عثمانؓ اور صحابہ کی جماعت نے کچھ حروف اور باطل قراء ات جو غیر معروف اورغیر ثابت تھیں کو الگ کر دیا۔یہ قراء ات نبی مکرمؐ سے نقل ِاحادیث کے طریقے سے روایت کی گئیں تھیں، جبکہ اس طرح نقل شدہ قرا ء ات سے قرآن ثابت نہیں ہوتا۔
حافظ ابوعمروالدانی ؒ ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی طرح دو تختیوں میں قرآن جمع کرنے کا ارادہ نہ کیا، بلکہ انہوں نے تو صحابہ کو آپؐ سے ثابت معروف قراء ات پر جمع کیا تھا اور ان کے علاوہ دیگر قراء ات کو الگ کر دیا، لیکن آپ سے مروی اور ثابت کوئی بھی صحیح قراء ات ان سے ضائع نہ ہوئی۔ جو کچھ اوپر ہم نے بیان کیا ہے اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ خلیفہ عثمانؓ نے جن مصاحف کی کتابت کا حکم دیا تھا وہ ان میں بہت سے مقامات پر رسم کا اختلاف تھا، تاکہ ان مقامات پر قراء ات کا اختلاف معلوم ہوسکے۔ جیسا کہ قراء ات اور رسم القرآن کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔( بلکہ رسم کا یہ اختلاف مختلف مصاحف میں بہت کم مقامات پر تھا۔)
اگر حضرت عثمان نے قرآن کی ایک نص پر لوگوں کو جمع کرنے کا ارادہ کیا ہوتا، تو تمام مصاحف کو ایک ہی صورت میں لکھا جاتا اور ان میں کسی قسم کا بھی اختلاف نہ ہوتا، لیکن مصاحف عثمانیہ کی مختلف صورتوں اور متعدد کیفیات میںکتابت اس با ت کی واضح دلیل ہے کہ حضرت عثمانؓ نے ایک نص کے حصول کا ارادہ نہ کیا تھا بلکہ ان کا اصل مقصود لوگوںکو غیر متواتر قراء ات کے بالمقابل متواتر قراء ات پر جمع کرنا تھا۔
جب یہ بات واضح ہوگئی تو اب کسی کو بھی پروپیگنڈا کرنے والوں کی یہ بات پریشان نہ کرے کہ جب حضرت عثمانؓ نے مسلمانوں میں قراء ات کے اختلافات محسوس کئے تو ان کو ایک ایک مصحف پر جمع کردیا اور وہ مصحف وہی ہے جو بلادِمشرق میں پایا جاتا ہے( جیسا کہ بعض متجددین کہتے ہیں۔ یاد رہے کہ بلادِ مشرق، مشرق میںموجود مسلمان ممالک کوکہتے ہیں اور مسلمانوں کا بلادِ مغرب پانچ ممالک پر مشتمل ہے۔ تیونس، الجزائر، مراکش، لیبیا اور موریطانیہ)
ان لوگوں کا یہ قول سلف و خلف میں سے کسی ایک کا بھی نہیں ہے اور اس قول کے قائلین کے پاس دلیل تو کجا اس سے مشابہ عقل و نقل کی بھی کوئی چیز ایسی نہیں ہے، جس کو وہ اس قول کی بنیاد بنا سکیں، بلکہ یہ من گھڑت باتوں کی طرح ایک بات ہے اور ایسے لوگوں کا قول ہے، جو قرآن، علوم قرآن اور قراء ات قرآنیہ سے بالکل جاہل اور ناواقف لوگ ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭