• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محدث ابن حبان اور قبروں سے فیض

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
بھائی میں زیادہ بحث میں تو نہیں جاتا لیکن کچھ کام ایسے ہوتے جو انبیاء صرف اور صرف اپنی لوگوں کے لئے کردیتے ہین گر ورنہ انہیں تو خدا کی حمایت و نصرت ہوتی ہے ، مثال کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کے ظلم و ستم سہ لیتے تھے لیکن جب ہجرت کا حکم ہوا تو آپ ایک غار مین جا چھپے اب جو اللہ تعالی کافروں کو اندہاکر کہ یا انہیں نیند مین ڈال کہ کر آپ کو نکال سکتا ہے وہ اللہ تعالی آپ کو بحفاظت مدینہ بھی پھنچا سکتا ہے لیکن آپ غار مین چھپے کیوں ، اور وہی معاملہ ابراہیم علیہ االسلام اور بادشام کے متعلق ہے۔ ہاں اگر آپ غار ثور کے واقعے کو ہی نہیں مانتے تو پھر میں کچھ نہین کہ سکتا ۔
اللہ تعالی آپ کا بھلا کرے
آپ نے مجھے منکرِ حدیث ہونےکا طعنہ تو نہیں دیا اور یہی بات میرے لیے کافی ہے۔ ورنہ یہاں تو ایک صاحب علماء کی ویڈیوز اور فتوے کی بھر مار کر کرکے پتہ نہیں کیا ثابت کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس بات کا فیصلہ قارئین پر چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ کس کی بات میں وزن دیکھتے ہیں کیونکہ طبقہء اہلِ حدیث نے اپنے دلائل بیان کیے ہیں اور ہم نے بھی اپنی معروضات پیش کر دیں ہیں بشرطیکہ ہم دونوں کے دلائل کا غیر جاندارانہ مطالعہ کرے۔ بہر حال جس طرح آپ اپنے موقف کو صحیح سمجھتے ہیں ، اسی طرح ہم بھی اپنے معروضات کو غلط نہیں سمجھتے ۔
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
"
جو جلیل القدر پیغمبر اپنے بیٹے کو بلا چون و چرا قربان کرنے کرنے کا جذبہ رکھتا ہو، اپنی بیوی کو جنگل بیا بان میں اللہ تعالٰی کے بھروسے چھوڑ آنے کےلیے تیار ہو، فقط محبتِ الہیٰ میں بے خوف و خطر بھڑکتی ہوئی آگ میں کود جائے، ظالم وجابر نمرود کے سامنے جس کے قدم نہ لڑکھڑائیں تو
وہ بھلا اایک بادشاہ کے ڈر سے توریہ کیونکر کرنے لگا ؟"

آپ کی اسی پوسٹ کے جواب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت و غار میں چھپنے کا واقعہ زکر کیا ، معاذ اللہ رسول اللہ ڈرتے تو نہیں تھے بس ان کا غار میں چھپ جانا امت کے لئے اپنے اندر فلسفہ رکھتا ہے ، اور یہی معاملہ ابراہیم علیہ السلام کا ہے وہ ڈر سے نہیں بلکہ مصلحت کی ہی خاطر ایسا کہا۔

پتا نہیں آپ کو یہ با ت غیر متعلق کیوں لگی ،
بحر حال اگر گنجائش حد تک احادیث کی تشریح ممکن ہے تو ہم پھر اس حدیث کاانکار نہیں کرتے اور ہمارے نظر میں اس حدیث کی تشریح ممکن ہے ۔اللہ تعالی آپ کو امن و عافیت سے رکھے ۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
"
جو جلیل القدر پیغمبر اپنے بیٹے کو بلا چون و چرا قربان کرنے کرنے کا جذبہ رکھتا ہو، اپنی بیوی کو جنگل بیا بان میں اللہ تعالٰی کے بھروسے چھوڑ آنے کےلیے تیار ہو، فقط محبتِ الہیٰ میں بے خوف و خطر بھڑکتی ہوئی آگ میں کود جائے، ظالم وجابر نمرود کے سامنے جس کے قدم نہ لڑکھڑائیں تو
وہ بھلا اایک بادشاہ کے ڈر سے توریہ کیونکر کرنے لگا ؟"
آپ کی اسی پوسٹ کے جواب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت و غار میں چھپنے کا واقعہ زکر کیا ، معاذ اللہ رسول اللہ ڈرتے تو نہیں تھے بس ان کا غار میں چھپ جانا امت کے لئے اپنے اندر فلسفہ رکھتا ہے ، اور یہی معاملہ ابراہیم علیہ السلام کا ہے وہ ڈر سے نہیں بلکہ مصلحت کی ہی خاطر ایسا کہا۔

پتا نہیں آپ کو یہ با ت غیر متعلق کیوں لگی ،
بحر حال اگر گنجائش حد تک احادیث کی تشریح ممکن ہے تو ہم پھر اس حدیث کاانکار نہیں کرتے اور ہمارے نظر میں اس حدیث کی تشریح ممکن ہے ۔اللہ تعالی آپ کو امن و عافیت سے رکھے ۔
میرے محترم ! قرآن کے لفظ ”صدیق“ سے یہ تشریح میل نہیں کھاتی۔ جب میں اس روایت کو صحیح نہیں سمجھتا تو پھر ”مزید“ دلائل دینے کی کیا ضرورت ہے ؟ یہ تشریح آپ ان لوگوں کو بتائیں جو ”صدیق“ کا مطلب زندگی میں کم از کم تین بار جھوٹ بولنے یا بقول آپکے ”توریہ کرنا“ کے ساتھ لیتے ہیں۔میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ
آپ کی نظر اس روایت پر ہے اور ہماری نظر قرآن کی آیت پر ہے
اگر آپ اس کی تشریح میں علماء کے اقوال دیکھ لیتے تو سر پیٹ لیتے ، مگر پھر آپ لوگ نئے سے نیا شوشہ نکالتے جا رہے ہیں۔ جہاں تک بات ہے ”گنجائش کی حد “کی تو آپ حضرات کے لیے تواس میں ”گنجائش ہی گنجائش “ ہے مگر جن لوگوں کی نظر میں قرآن کی آیت ہے ان کے لیے اس میں ”کوئی گنجائش“نہیں ۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
میرے محترم ! قرآن کے لفظ ”صدیق“ سے یہ تشریح میل نہیں کھاتی۔ جب میں اس روایت کو صحیح نہیں سمجھتا تو پھر ”مزید“ دلائل دینے کی کیا ضرورت ہے ؟ یہ تشریح آپ ان لوگوں کو بتائیں جو ”صدیق“ کا مطلب زندگی میں کم از کم تین بار جھوٹ بولنے یا بقول آپکے ”توریہ کرنا“ کے ساتھ لیتے ہیں۔میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ
آپ کی نظر اس روایت پر ہے اور ہماری نظر قرآن کی آیت پر ہے
اگر آپ اس کی تشریح میں علماء کے اقوال دیکھ لیتے تو سر پیٹ لیتے ، مگر پھر آپ لوگ نئے سے نیا شوشہ نکالتے جا رہے ہیں۔ جہاں تک بات ہے ”گنجائش کی حد “کی تو آپ حضرات کے لیے تواس میں ”گنجائش ہی گنجائش “ ہے مگر جن لوگوں کی نظر میں قرآن کی آیت ہے ان کے لیے اس میں ”کوئی گنجائش“نہیں ۔

ابن القيسراني (المتوفى: 507هـ) کتاب ذخيرة الحفاظ (من الكامل لابن عدي) میں ایک روایت پر لکھتے ہیں

حَدِيث: مثل الَّذِي يحجّ من أمتِي عَن أمتِي كَمثل أم مُوسَى كَانَت ترْضِعه، وَتَأْخُذ الْكِرَاء من فِرْعَوْن. رَوَاهُ إِسْمَاعِيل بن عَيَّاش: عَن صَفْوَان بن عَمْرو، عَن عبد الرَّحْمَن بن جُبَير بن نفير، عَن أَبِيه، عَن معَاذ.

وَهَذَا الحَدِيث وَإِن كَانَ مُسْتَقِيم الْإِسْنَاد؛ فَإِنَّهُ مُنكر الْمَتْن، لَا أعلم رَوَاهُ عَن ابْن عَيَّاش غير سُلَيْمَان بن أَيُّوب الْحِمصِي.


اور یہ حدیث اگر اس کی اسناد مستقیم بھی ہوں تو یہ منکر المتن ہے اس کو ابْن عَيَّاش سے سوائے سُلَيْمَان بن أَيُّوب الْحِمصِي کے کوئی روایت نہیں کرتا


عام طور سے ثقہ کی صحیح سند روایت اگر اپنے اپ سے بہتر ثقہ کی مخالف ہو تو شاذ ہوتی ہے اور قبول نہیں کی جاتی

محدثین کی کتب العلل میں بھی ایسی روایات پر بحث ملتی ہے

ایک روایت ہے

لا تحل الصدقة لمن كان عنده خمسون درهماً

صدقه واجب نہیں ہوتا الا کہ پچاس درہم ہوں

اس کو یحیی ابن معین منکر کہتے ہیں
جبکہ راوی ثقہ ہیں

تاريخ ابن معين (رواية الدوري)

سَمِعت يحيى وَسَأَلته عَن حَدِيث حَكِيم بن جُبَير حَدِيث بن مَسْعُود لَا تحل الصَّدَقَة لمن كَانَ عِنْده خَمْسُونَ درهما يرويهِ أحد غير حَكِيم فَقَالَ يحيى بن معِين نعم يرويهِ يحيى بن آدم عَن سُفْيَان عَن زبيد وَلَا نعلم أحدا يرويهِ إِلَّا يحيى بن آدم وَهَذَا وهم لَو كَانَ هَذَا هَكَذَا لحَدث بِهِ النَّاس جَمِيعًا عَن سُفْيَان وَلكنه حَدِيث مُنكر هَذَا الْكَلَام قَالَه يحيى أَو نَحوه


ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

أَخْبَرَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ الْفَضْلِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَيَّةَ مُحَمَّدَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ يَقُولُ: سَمِعْتُ فِي حَلْقَةٍ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ وَيَحْيَى بْنَ مَعِينٍ وَأَبَا خَيْثَمَةَ وَالْمُعَيْطِيَّ ذَكَرُوا: «يَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» فَقَالُوا: مَا فِيهِ حَدِيثٌ صَحِيحٌ


محمّد بن ابراہیم کہتے ہیں میں نے ایک حلقہ میں سنا جس میں احمد بن حنبل ، یحیی بن معین ابو خَيْثَمَةَ اور وَالْمُعَيْطِيَّ تھے اور روایت يَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَة عمار تجھے ایک باغی گروہ قتل کرے گا -


ذکر ہوا سب نے کہا اس سلسلے میں ایک بھی حدیث صحیح نہیں


اسی کتاب میں یہ بات بھی لکھی ہے

سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، يَقُولُ: رُوِيَ فِي: «تَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» ثَمَانِيَةٌ وَعِشْرُونَ حَدِيثًا، لَيْسَ فِيهَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ


میں نے محمّد بن عبد الله بن ابراہیم سے سنا کہا میں نے اپنے باپ سے سنا کہتے تھے میں نے امام احمد بن حنبل سے سنا


عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا کو ٢٨ حدیثوں سے روایت کیا ایک بھی صحیح نہیں


اس روایت کی ١٨ اسناد تو مسند احمد میں موجود ہیں اور امام احمد کے نزدیک صحیح مسلم کی اس روایت کی سند بھی معلول ہے
محدثین کا اپس میں بعض حدیث کی تصحیح پر اختلاف رہا ہے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
میرے محترم ! یہ کوئی مذہبی اکھاڑا نہیں ہے جہاں جنگ و جدال کی کیفیت پیدا کرنا ضروری ہے۔ میں نے قرآن کی آیت پیش کر کےحضرت ابراہیم ؑ کی صدیقیت کو ثابت کیا ہے مگر آپ حضرات ابھی تک لَمْ يَکْذِبْ إِبْرَاهِيمُ إِلَّا ثَلَاثًا کی مہمل کہانی کو لیے بیٹھے ہیں۔ اس روایت میں لفظ ”کذب“ ہی ایک جلیل القدر پیغمبر کے خلاف بہت بڑی جسارت ہے قطع نظر اس کے کہ اس کا مطلب ”ذو معنی بات“ ہو یا ”توریہ“ یا ”جھوٹ“۔قرآن مجید میں حضرت ابراہیم ؑ کی دو باتوں کے متعلق لفظ ”کذب“ استعمال نہیں ہوا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ پھر ان دو باتوں اور ایک اسرائیلی کہانی کے متعلق لفظ” کذب“ روایت میں کہاں سے آ گیا ؟
نبیﷺایسی بات حضرت ابراہیم ؑ کے متعلق ہرگز نہیں کہہ سکتے ۔ اس لیے اس روایت میں ایسی غلطی نبیﷺسے منسوب کرنا جو بلا واسطہ قرآن سے ٹکراتی ہو اور لوگوں کو اس پر ایمان لانے کی دعوت دینا کہاں تک درست ہو سکتا ہے ؟
حضرت ابراہیم ؑ کی شان پر غور کروکہ ان کو صادق نہیں بلکہ صدیق کہا گیا ہے مزید برآں درود میں سوائے حضرت ابراہیم ؑ کے اور کوئی پیغمبر شامل نہیں۔
میں نے اسی لیے کہا تھا کہ آپ لوگوں کی نظر میں یہ روایت ہے اور میری نظر میں قرآن کی آیت ہے۔ آپ کی نظر راوی کی ثقاہت پہ ہے تو مری نظر اللہ تعالٰی کی بات پر ہے۔ راوی چاہے بخاری کا ہو یا مسلم کا غیر معصوم ہے ،غلطی کر سکتا ہے ، انسان ہے خدا نہیں ہے۔جبکہ قرآن انسانی تصرف سے پاک ہے ، باطل اس میں اپنی ملاوٹ نہیں کر سکتا۔ جیسے آپ کو بخاری کے راوی کی ثقاہت محبوب ہے ہمیں حضرت ابراہیم ؑ کی صدیقیت ۔ حضرت ابراہیم ؑ کی صدیقیت پہ صرف اس مہمل روایت کی کیا حیثیت اگر تمام کتبِ احادیث کو بھی غلط کہنا پڑا تو انہیں غلط کہیں گے ۔
جن کم سواد لوگوں کو رسول کے ”قول“ اور ”حدیث“ میں فرق کا پتہ نہ ہو ان کے لیے تو دونوں چیزیں یقینا ً ایک ہی درجے میں ہونی چاہیے۔
شیعہ حضرات نے بھی اسی روایت کی بناء پر اہلِ سُنت کو طعنہ دیا تھا کہ جب حضرت ابراہیم ؑ صدیق ہوتے ہوئے العیاذ باللہ تین جھوٹ بول سکتے ہیں تو سوچو صدیقِ اکبر ؓ نے کتنے جھوٹ بولے ہونگے ۔
امام رازی نے اس روایت کے متعلق کیا کہا ہے وہ بھی سلفی حضرات سے پوچھ لیں۔

جو جلیل القدر پیغمبر اپنے بیٹے کو بلا چون و چرا قربان کرنے کرنے کا جذبہ رکھتا ہو، اپنی بیوی کو جنگل بیا بان میں اللہ تعالٰی کے بھروسے چھوڑ آنے کےلیے تیار ہو، فقط محبتِ الہیٰ میں بے خوف و خطر بھڑکتی ہوئی آگ میں کود جائے، ظالم وجابر نمرود کے سامنے جس کے قدم نہ لڑکھڑائیں تو وہ بھلا اایک بادشاہ کے ڈر سے توریہ کیونکر کرنے لگا ؟
محترم T H K بھائی -

آپ کی یہ بات اپنی جگہ بلکل درست اورحق ہے کہ قرآن کریم انسانی تصرف سے پاک ہے اوراس بنا پر انسانی روایات کو قرآن کریم کی صریح نص پر فوقیت دینا یقیناً ایک بدعتی عمل ہے اور گمراہی کی طرف لے جانے والا عمل ہے - ہم انسان کی بیان کردہ روایات کا مقابلہ قرآن کریم کی نازل کردہ وحی سے نہیں کرسکتے- لیکن یہ بھی ایک امر ہے کہ جب قرآن کی صریح نص خود ایک جلیل القدر نبی کے فعل کو ثابت کررہی ہے اور احادیث نبوی سے واضح طور پر متعارض بھی نہیں- تو اس روایت کو قبول کرنے میں کون سا امر مانع ہے ؟؟

پہلی بات یہ ہے کہ بالفرض ہم یہ مان لیں کہ "کذب" کے لفظی معنی حقیقی جھوٹ کے ہیں اور قرآن کی صریح نص حضرت ابراہیم علیہ سلام کے بارے میں قطعی طور پر یہ کہہ رہی ہے کہ وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ﴿٤١﴾ کہ وہ صدیقیت کے مرتبے پر فائز تھے - تو سوال ہے کہ جو قرآن میں جو دو افعال حضرت ابرہیم کے بخاری و مسلم کی روایات کے مطابق "کذب " سے منسوب ہیں- انہیں اگر کذب لفظ نہیں دیا جائے گا تو متبادل کے طور پر کون سا لفظ روایت میں استمعال ہونا چاہیے تھا؟؟؟

دوسری بات یہ ہے کہ خود قرآن کریم میں اکثر انبیاء کے کچھ افعال ایسے ذکر کیے گئے ہیں جو بظاہر ایسے محسوس ہوتے ہیں کہ جس سے ان کی شان گھٹتی ہے- لیکن یہ افعال ان سے ایک بشری تقاضے کے تحت سرانجام دیے گئے - اس سے ان کی مجموعی شخصیت پر کوئی حرف نہیں آتا - مثال کے طور پر-

حضرت یونس کے بارے میں قرآن نے فرمایا کہ:
وَذَا النُّونِ إِذْ ذَهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَنْ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ سوره انبیاء ٨٧

اور مچھلی والا جب غصہ ہو کر چل دیا اور گمان کیا کہ ہم اسے نہیں پکڑسکیں گے-پس اس نے اندھیروں میں ہمیں پکارا کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے تو بے عیب ہے بے شک میں ہی ظالموں میں سے تھا-

اب سوال ہے کہ کیا کوئی نبی الله کیا بارے میں غلط گمان کرسکتا ہے ؟؟ کہ الله اس کو نہیں پکڑ سکے گا-؟؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے- یہ حضرت یونس علیہ سلام کی وقتی کفیت تھی- اس سے یہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ الله کیا بارے میں غلط گمان رکھتے تھے -اور اس واقعہ سے ان کی مجموعی شان میں کوئی کمی نہیں ہوتی-

اسی طرح حضرت آدم علیہ سلام کے متعلق الله کا فرمان ہے کہ:
اور ہم نے آدم کے اندرعزم کی کمی دیکھی -

سوال ہے کہ کیا ایک نبی میں عزم کی کمی ہو سکتی ہے؟؟؟ - اصل بات یہ ہے کہ یہ آدم علیہ سلام میں عزم کی کمی وقتی تھی جس کی بنا پور وہ شیطان کے بہکاوے میں آ کر جنّت کے ایک ممنوعہ درخت کا پھل کھا بیٹھے- اس سے ان کی مجموعی شان میں کوئی کمی نہیں ہوتی-

اسی طرح جب الله تبارک وتعالیٰ نے نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کو وحی کے ذریے خبر دی کہ آپ کا نکاح آپ کے مونه بولے بیٹے حضرت زید بن حارث رضی الله عنہ کی مطلقہ زوجہ سے کردیا جائے گا - جس پر آپ صل الله علیہ و آ له وسلم پریشان ہوگئے کہ قریش کا لوگ اس بات کا خوب بتنگڑ بنائیں گے کہ محمّد بن عبدللہ ایک طرف نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے اور دوسری طرف اپنے منه بولے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے نکاح کررہا ہے - اس پر الله نے وحی نازل کی کہ:

وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ سوره الاحزاب ٣٧

اور جب تم نے (اے نبی) اس شخص سے کہا جس پر الله نے احسان کیا اور تو نے احسان کیا کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ الله سے ڈر اور تو اپنے دل میں ایک چیز چھپاتا تھا جسے الله ظاہر کرنے والا تھا اور تو لوگوں سے ڈرتا تھا حالانکہ الله زیادہ حق رکھتا ہے کہ تو اس سے ڈرے-

اب سوال ہے کہ کیا نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم سے بڑھ کر الله سے ڈرنے والا کوئی ہو گا؟؟ - لیکن مذکورہ آیات میں الله نے نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی وقتی پریشانی کو بیان کیا ہے کہ وہ اس وقت قریش کے لوگوں اور سرداروں کی استہزا سے ڈر رہے تھے جو حضرت زینب بنت جحش رضیہ الله عنہ سے نکاح کی صورت میں ممکن تھا -یہ آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم کا وقتی فعل تھا- ظاہر ہے اس سے آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی مجموعی شان میں کوئی فرق نہیں آتا -

یہی معامله حضرت ابرھیم علیہ سلام کے ساتھ ہے کہ آپ کا توریہ کے طور پر تین مرتبہ کذب کرنا محض ایک بشری فعل تھا - اس سے آپ علیہ سلام کی "صدیقیت" پر کوئی حرف نہیں آتا -(واللہ اعلم)

الله آپ کی جزاے خیر دے- (آمین )
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
آپ نے مجھے منکرِ حدیث ہونےکا طعنہ تو نہیں دیا اور یہی بات میرے لیے کافی ہے۔ ورنہ یہاں تو ایک صاحب علماء کی ویڈیوز اور فتوے کی بھر مار کر کرکے پتہ نہیں کیا ثابت کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس بات کا فیصلہ قارئین پر چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ کس کی بات میں وزن دیکھتے ہیں کیونکہ طبقہء اہلِ حدیث نے اپنے دلائل بیان کیے ہیں اور ہم نے بھی اپنی معروضات پیش کر دیں ہیں بشرطیکہ ہم دونوں کے دلائل کا غیر جاندارانہ مطالعہ کرے۔ بہر حال جس طرح آپ اپنے موقف کو صحیح سمجھتے ہیں ، اسی طرح ہم بھی اپنے معروضات کو غلط نہیں سمجھتے ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ!



پروفیسر محمد ابو زہرہ کلیہ اصول الدین الازہر یونیوسٹی نے اپنی کتاب ”الحدیث والمحدثون“ میں حضرت الامام محقق اسلام حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا ایک مناظرہ جو کہ ایک منکر حدیث سے ہوا ،نقل کیا ہے ۔ جس کا ترجمہ پروفیسر غلام احمد حریری مرحوم نے کیا ۔۔۔۔ اور یہ مناظرہ ماہنامہ بینات(ربیع الثانی1428ھ مئی2007ء, جلد 70, شمارہ 4)میں شایع ہوا ۔۔۔۔*افادہٴ عام کی غرض سے قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے ۔

منکر حدیث: امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کو مخاطب کرتے ہوئے
آپ عربی ہیں اور قرآن آپ کی زبان میں اترا ہے‘ آپ جانتے ہیں کہ یہ محفوظ کتاب ہے‘ اس میں خداوندی فرائض بیان کئے گئے ہیں‘ اگر کوئی شخص اس کے کسی حرف میں بھی شک وشبہ کا اظہار کرے تو آپ اس سے توبہ کا مطالبہ کریں گے‘ اگر توبہ کرے تو فبہا‘ ورنہ (مرتد سمجھ کر) اسے قتل کردیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے بارے میں فرمایا:
”تبیاناً لکل شئ“
اس میں ہر چیز کا بیان ہے۔ جب یہ بات ہے تو تمہارا یہ قول کیسے درست ہے کہ فرض عام بھی ہوتا ہے اور خاص بھی؟ نیز یہ بھی کہ امر وجوب کے لئے بھی ہوتا ہے اور اباحت کے لئے بھی؟ دوسری طرف آپ ایک شخص سے ایک یا دو تین احادیث روایت کرتے ہیں ،پھر وہ شخص دوسرے شخص سے‘ یہاں تک کہ راویوں کا سلسلہ نبی اکرم اتک پہنچ جاتاہے‘ مجھے معلوم ہے کہ آپ برملا کہا کرتے ہیں کہ: فلاں شخص سے فلاں حدیث کے نقل کرنے میں غلطی سرزد ہوئی ۔ میں جانتاہوں کہ اگر آپ ایک حدیث کی بناء پر کسی چیز کو حلال یا حرام ٹھہرائیں اور کوئی شخص اس حدیث کے بارے میں یہ کہہ دے کہ: نبی کریم ا نے ایسا نہیں فرمایا‘ بلکہ تم سے یا اس شخص سے غلطی سرزد ہوئی ہے جس سے آپ نے یہ حدیث سنی ،تو تم اس سے توبہ کا مطالبہ نہیں کروگے‘ تم اسے صرف یہ بات کہو گے کہ تم نے بہت بری بات کہی‘ یہ بات کیوں کر درست ہے کہ احادیث کی بناء پر قرآن کے ظاہری احکام میں تفریق کی جائے؟ جب تم حدیث کو وہی اہمیت دیتے ہو جو قرآن کو حاصل ہے تو اس حدیث کا انکار کرنے والے کے خلاف تم کونسی حجت قائم کر سکو گے؟
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ :- جو شخص اس زبان سے واقف ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا‘ وہ اس حقیقت سے باخبر ہے کہ احادیث رسول اللہ ا پر عمل کرنا ضروری ہے۔
منکر حدیث: اس کی کوئی دلیل آپ کو یاد ہو تو پیش کیجئے!
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ :- اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے:
”هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ الخ (الجمعہ 2)
ترجمہ:۔”وہ اللہ ہی کی ذات ہے جس نے ان پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کو اس کی آیات سناتا اور ان کو پاک کرتا اور کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے“۔
منکر حدیث: کتاب سے تو کتاب الٰہی مراد ہے، مگر حکمت کیا چیز ہے؟
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ :حکمت سے حدیث رسول مراد ہے۔
منکر حدیث: کیا اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ رسول کریم ا اجمالاً بھی قرآن کی تعلیم دیتے تھے اور حکمت یعنی مذکورہ احکام بھی بیان فرماتے تھے؟
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ :غالباً آپ کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم میں جو فرائض مذکور ہیں، مثلاً: نماز‘ زکوٰة‘ حج وغیرہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم ان کی کیفیت اور تفصیل بیان فرمادیا کرتے تھے۔
منکر حدیث:جی ہاں ! میرا یہی مطلب ہے۔
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ:- تو میں بھی آپ سے یہی کہہ رہا ہوں کہ فرائض کی تفصیل حدیث رسول ا سے معلوم ہوتی ہے۔
منکر حدیث:اس امر کا بھی احتمال ہے کہ کتاب اور حکمت دونوں سے ایک ہی چیز مراد ہو، اور کلام کو تکرار واعادہ پر محمول کیا جائے؟
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: آپ ہی بتایئے کہ دونوں سے ایک چیز مراد لینا بہتر ہے یا دونوں؟
منکر حدیث: ہوسکتا ہے کہ کتاب وحکمت سے دو چیزیں یعنی کتاب وسنت مراد لی جائیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک ہی چیز یعنی قرآن مراد ہو۔
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: ہر دو احتمالات میں سے جو واضح تر ہے وہی افضل ہے اور جو بات ہم نے کہی ہے‘ قرآن کریم میں اس کی دلیل موجود ہے۔
منکر حدیث: وہ دلیل کیا اور کہاں ہے؟
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
”وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَىٰ فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّـهِ وَالْحِكْمَةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا الخ (الاحزاب:34)
ترجمہ:۔”اور تمہارے گھروں میں خدا کی آیات اور جس حکمت کی تلاوت کی جاتی ہے‘ اس کو یاد کرتی رہو‘ بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر نرمی کرنے والا اور آگاہ ہے“۔
اس آیت سے مستفاد ہوتا ہے کہ امہات المؤمنین کے گھروں میں دو چیزوں کی تلاوت کی جاتی تھی۔
منکر حدیث: قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے ،مگر حکمت کی تلاوت کا کیا مطلب ہے؟
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: تلاوت کے معنی یہ ہیں کہ: جس طرح قرآن کے ساتھ نطق کیا جاتاہے‘ اسی طرح سنت کا اظہار بھی قوت گویائی ہی کے ذریعے کیا جاتاہے۔
منکر حدیث: بے شک اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکمت‘ قرآن کے علاوہ کوئی اور چیز ہے۔
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: اللہ تعالیٰ نے ہم پر رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو فرض ٹھہرایا ہے۔
منکر حدیث:اس کی کیا دلیل ہے ؟
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ :اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
1- ”فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا الخ۔ (النساء:65)
ترجمہ:۔”اور تیرے رب کی قسم! لوگ مومن نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ اپنے جھگڑوں میں آپ کو فیصل نہ بنائیں اور پھر جو فیصلہ آپ صادر کردیں‘ اس کے بارے میں اپنے جی میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور اپنا سرتسلیم خم کردیں“۔
2-”مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ الخ (النساء:80)
ترجمہ:۔”جس نے رسول کی اطاعت کی ،اس نے اللہ کی اطاعت کی“۔
3-”فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ الخ(النور:63)
ترجمہ:”جو لوگ رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں انہیں ڈرنا چاہیے کہ کہیں وہ فتنہ میں مبتلا ہوجائیں یا دردناک عذاب میں گرفتار ہوجائیں“۔
منکر حدیث: یہ درست ہے کہ حکمت سے سنت رسول مراد ہے ،اگر میرے ہم خیال لوگوں کی یہ بات صحیح ہوتی کہ ان آیات میں رسول کے احکام کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور رسول کا حکم وہی ہے جو اللہ نے قرآن کریم میں نازل کیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو شخص رسول کے احکام کی اطاعت نہیں کرتا‘ اس کو احکام خداوندی کا تسلیم نہ کرنے والا قرار دینا چاہئے‘ نہ کہ صرف احکام رسول کا باغی۔
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: اللہ تعالیٰ نے رسول کے احکام کا اتباع ہم پر فرض قرار دیا ہے۔ قرآنِ کریم میں فرمایا:
”وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا الخ۔ (الحشر:7)
ترجمہ:۔”رسول جو کچھ تم کو دے، وہ لے لو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو“۔
قرآن سے بوضاحت یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کرنا اور جس بات سے منع کریں، اس سے باز رہنا ہم پر فرض ہے۔
منکر حدیث: جو بات ہم پر فرض ہے وہ ہم سے پہلوں اور پچھلوں سب پر فرض ہے؟
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: جی ہاں!
منکر حدیث: اگر رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے دیئے ہوئے احکام کی اطاعت ہم پر فرض ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ ا ہم پر کسی بات کو فرض ٹھہرا تے ہیں تو آپ ایک ایسے امر کی جانب ہماری رہنمائی کرتے ہیں جس کی اطاعت ہمارے لئے ضروری ہے؟
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: جی ہاں!
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: اللہ تعالیٰ نے اطاعت رسول کا جو حکم دیا ہے‘ کیا آپ یا آپ سے پہلے اور آپ کے بعد کوئی شخص جس نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا ہو‘ احادیث نبویہ کے بغیر اس کی تعمیل کرسکتا ہے؟ اور حدیث نبوی کو نظر انداز کرکے احکام رسول کی تعمیل ممکن ہے؟ علاوہ ازیں حدیث نبوی قرآن کے ناسخ ومنسوخ پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔
منکر حدیث: اس کی کوئی مثال ذکر کیجئے؟
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: قرآن میں فرمایا:
”كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ“۔ (ابقرۃ :180)
ترجمہ:۔”جب تم میں سے کسی کا آخری وقت آجائے اور اس نے مال چھوڑا ہو تو تم پر والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لئے وصیت فرض کی گئی ہے“۔
ترکہ کی تقسیم سے متعلق قرآن میں ہے:
”وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ․․․ الخ (النساء:11)
ترجمہ:․․․”اور اگر میت کی اولاد بھی ہو تو اس کے ترکہ میں سے والدین میں سے ہرایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔ پھر اگر نہ ہو اس کی اولاد اور وارث بن رہے ہوں اس کے ماں باپ ہی تو اس کی ماں کا ایک تہائی حصہ ہے پھر اگر ہوں میت کے بھائی بہن تو اس کی ماں کا چھٹا حصہ ۔۔۔۔۔۔“۔
حدیث نبوی کے ذریعے ہمیں معلوم ہوا کہ ترکہ کی تقسیم سے متعلق آیت نے وصیت پر مشتمل آیت کو منسوخ کردیا‘ اگر ہم حدیث نبوی کو تسلیم نہ کرتے ہوتے اور ایک شخص ہمیں کہتا کہ وصیت پر مشتمل آیت نے تقسیم ورثہ سے متعلق آیت کو منسوخ کردیا او راس پر حجت صرف حدیث ہی کے ذریعے سے قائم کی جاسکتی ہے۔
منکر حدیث: آپ نے مجھ پر حجت تمام کردی ہے اور میں تسلیم کرتاہوں کہ حدیث نبوی کو قبول کرنا سب مسلمانوں پر فرض ہے‘ حق کے ظاہر ہوجانے کے بعد میں اس بات میں عار محسوس نہیں کرتا کہ حدیث نبوی کے بارے میں اپنا موقف چھوڑ کر اپنا زاویہ نگاہ اختیار کرلوں‘ بلکہ مجھے اس حقیقت کا اعتراف کرنے سے کوئی چیز مانع نہیں کہ ظہور حق کے بعد اس کو تسلیم کرنا میرے لئے ضروری تھا‘ مگر بتایئے کہ: اس کا کیا مطلب کہ قرآن کے بعض عام احکام اپنے عموم پر رہتے ہیں اور بعض دفعہ ان میں تحصیص پیدا ہوجاتی ہے؟
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے اس کے جواب میں متعدد مثالیں ذکر کیں ،پھر اپنے حریف کو مخاطب کرکے فرمایا: اب آپ پر یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم کی اطاعت کو قرآن کریم میں فرض قرار دیا اور اس کے ساتھ ساتھ آپ صلیٰ*اللہ علیہ وسلم کو قرآن کے عام وخاص اور ناسخ ومنسوخ کا شارح وترجمان ٹھہرایا ہے۔
منکر حدیث: جی ہاں ! آپ کا ارشاد بجا ہے‘ مگر میں تو ہمیشہ اس کی مخالفت کرتا رہا‘ یہاں تک کہ اس نقطہٴ نظر کی غلطی مجھ پر واضح ہوگئی۔ اس ضمن میں منکر حدیث دو فرقوں میں بٹ گئے ہیں: ایک فریق کا کہنا یہ ہے کہ حدیث نبوی مطلقاً حجت نہیں ہے اور قرآن کریم میں ہر چیز کی وضاحت وصراحت موجود ہے۔
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: حدیث نبوی سے صاف انکار کا نتیجہ کیا نکلا؟
منکر حدیث:بہت برا نتیجہ برآمد ہوا۔
اس لئے کہ انکار حدیث کا عقیدہ رکھنے والے یہ کہتے ہیں کہ :جو شخص کم از کم ایسا کام کرے جس کو صلوٰة یا زکوٰة کہہ سکتے ہیں‘ اس نے صلوٰة وزکوٰة کا حق ادا کردیا‘ اس میں وقت کی پابندی نہیں، اگر کوئی شخص ہر روز یا کئی دنوں میں دو رکعت نماز ادا کرلے تو اس نے صلوٰة کا فریضہ ادا کردیا‘ وہ کہتے ہیں کہ: جو حکم قرآن میں نہ وارد ہو‘ وہ کسی پر فرض نہیں۔ منکر حدیث کا دوسرا فرقہ کہتا ہے کہ جو حکم قرآن میں مذکور ہے، اس کے بارے میں حدیث کو قبول کیا جاسکتا ہے اور جس ضمن میں قرآن وارد نہیں ہوا‘ اس میں حدیث کو قبول نہیں کیا جاسکتا‘ نتیجہ اس کا بھی وہی ہوا جو پہلے فرقہ کا ہوا تھا۔ اس فرقہ نے پہلے حدیث کو رد کیا اور پھر اس کو قبول بھی کرنے لگے‘ یہ لوگ کسی خاص وعام یا ناسخ ومنسوخ کو تسلیم نہیں کرتے،ان دونوں کا گمراہ ہونا واضح ہے۔ اور میں ان میں سے کسی کو بھی حق نہیں سمجھتا‘ مگر میں آپ سے یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ: آپ ایک حرام چیز کو بلاد لیل کیسے حلال سمجھنے لگے ہیں؟ کیا آپ کے پاس اس کی کوئی دلیل موجود ہے؟
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ:دلیل موجود ہے۔
منکر حدیث: کونسی دلیل؟
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: میرے پاس جو شخص بیٹھا ہے‘ اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا اس کا خون اور مال حرام ہے یا نہیں؟
منکر حدیث: اس کا خون اور مال حرام ہے۔
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: اگر وہ شخص شہادت دے کہ اس فلاں شخص کو قتل کیا اور اس کا مال لے لیا اور وہ مال آپ کے پاس موجود ہے تو اس کے بارے میں آپ کا کیا رویہ ہوگا؟ (آپ کیا رویہ اختیار کریں گے؟)
منکر حدیث: میں اس کو فوراً قتل کردوں گا اور اس سے مال لے کر وارثوں کو لوٹا دوں گا۔
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: کیا یہ ممکن نہیں کہ گواہوں نے جھوٹی اور غلط گواہی دی ہو؟
منکر حدیث:ایسا ہوسکتا ہے۔
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: پھر آپ نے جھوٹی گواہی کی بناء پر اس شخص کے مال اور خون کو کیسے مباح قرار دیا‘ حالانکہ وہ خون اور مال حرام تھا؟
منکر حدیث:اس لئے کہ شہادت قبول کرنا ضروری امر ہے۔
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ:اگر تم گواہوں کی گواہی کو ظاہری صداقت کی بنا پر قبول کرنا ضروری سمجھتے ہو اور باطن کا علم تو صرف ذات خداوندی ہی کو ہے تو ہم راوی کے لئے جو شرائط عائد کرتے ہیں‘ وہ گواہ کی شرائط سے زیادہ کڑی ہیں‘ چنانچہ جن لوگوں کی شہادت کو قبول کرتے ہیں‘ ضروری نہیں کہ ان کی روایت کردہ حدیث کو بھی صحیح سمجھ لیں ۔راوی کی صداقت اور غلطی کا پتہ تو ان رواة ورجال سے بھی چل جاتاہے جو روایت حدیث میں اس کے ساتھ شریک ہوتے ہیں‘ علاوہ ازیں کتاب وسنت سے بھی راوی کی غلطی واضح ہوجاتی ہے‘ مگر شہادت میں ان باتوں میں سے کوئی بات بھی نہیں پائی جاتی۔
منکر حدیث: میں تسلیم کرتاہوں کہ حدیث نبوی دین میں حجت ہے اور رسول کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ نے فرض ٹھہرایا ہے‘ جب میں نے رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث کو قبول کیا تو گویا خدا کے حکم کو قبول کیا۔ حدیث ِ رسول کی حجیت پر سب مسلمانوں کا اجماع منعقد ہوچکا ہے اور اس میں کسی کا بھی اختلاف نہیں‘ آپ کے بتانے سے مجھ پر یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ مسلمان ہمیشہ حق پر ہوتے ہیں ۔
برادران اسلام!آپ نے مناظرہ پڑھا‘ یہ مناظرہ ان لوگوں کو پڑھوائیں جو اس فتنے کے جال میں پھنس گئے۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ تمام مسلمانوں کو علمائے حق کے دامن سے وابستہ رکھے اور صحابہ کرام واہل بیت عظام کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین ثم آمین ۔
(کتاب الام ج:7 ص:250 بحوالہ: ”الحدیث والمحدثون“ اردو ترجمہ: ص:362تا368 مترجم پروفیسر غلام احمد حریری مرحوم)
ماہنامہ بینات, ربیع الثانی1428ھ مئی2007ء, جلد 70, شمارہ
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
آپ نے مجھے منکرِ حدیث ہونےکا طعنہ تو نہیں دیا اور یہی بات میرے لیے کافی ہے۔ ورنہ یہاں تو ایک صاحب علماء کی ویڈیوز اور فتوے کی بھر مار کر کرکے پتہ نہیں کیا ثابت کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس بات کا فیصلہ قارئین پر چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ کس کی بات میں وزن دیکھتے ہیں کیونکہ طبقہء اہلِ حدیث نے اپنے دلائل بیان کیے ہیں اور ہم نے بھی اپنی معروضات پیش کر دیں ہیں بشرطیکہ ہم دونوں کے دلائل کا غیر جاندارانہ مطالعہ کرے۔ بہر حال جس طرح آپ اپنے موقف کو صحیح سمجھتے ہیں ، اسی طرح ہم بھی اپنے معروضات کو غلط نہیں سمجھتے ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ!



پروفیسر محمد ابو زہرہ کلیہ اصول الدین الازہر یونیوسٹی نے اپنی کتاب ”الحدیث والمحدثون“ میں حضرت الامام محقق اسلام حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا ایک مناظرہ جو کہ ایک منکر حدیث سے ہوا ،نقل کیا ہے ۔ جس کا ترجمہ پروفیسر غلام احمد حریری مرحوم نے کیا ۔۔۔۔ اور یہ مناظرہ ماہنامہ بینات(ربیع الثانی1428ھ مئی2007ء, جلد 70, شمارہ 4)میں شایع ہوا ۔۔۔۔*افادہٴ عام کی غرض سے قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے ۔

منکر حدیث: امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کو مخاطب کرتے ہوئے
آپ عربی ہیں اور قرآن آپ کی زبان میں اترا ہے‘ آپ جانتے ہیں کہ یہ محفوظ کتاب ہے‘ اس میں خداوندی فرائض بیان کئے گئے ہیں‘ اگر کوئی شخص اس کے کسی حرف میں بھی شک وشبہ کا اظہار کرے تو آپ اس سے توبہ کا مطالبہ کریں گے‘ اگر توبہ کرے تو فبہا‘ ورنہ (مرتد سمجھ کر) اسے قتل کردیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے بارے میں فرمایا:
”تبیاناً لکل شئ“
اس میں ہر چیز کا بیان ہے۔ جب یہ بات ہے تو تمہارا یہ قول کیسے درست ہے کہ فرض عام بھی ہوتا ہے اور خاص بھی؟ نیز یہ بھی کہ امر وجوب کے لئے بھی ہوتا ہے اور اباحت کے لئے بھی؟ دوسری طرف آپ ایک شخص سے ایک یا دو تین احادیث روایت کرتے ہیں ،پھر وہ شخص دوسرے شخص سے‘ یہاں تک کہ راویوں کا سلسلہ نبی اکرم اتک پہنچ جاتاہے‘ مجھے معلوم ہے کہ آپ برملا کہا کرتے ہیں کہ: فلاں شخص سے فلاں حدیث کے نقل کرنے میں غلطی سرزد ہوئی ۔ میں جانتاہوں کہ اگر آپ ایک حدیث کی بناء پر کسی چیز کو حلال یا حرام ٹھہرائیں اور کوئی شخص اس حدیث کے بارے میں یہ کہہ دے کہ: نبی کریم ا نے ایسا نہیں فرمایا‘ بلکہ تم سے یا اس شخص سے غلطی سرزد ہوئی ہے جس سے آپ نے یہ حدیث سنی ،تو تم اس سے توبہ کا مطالبہ نہیں کروگے‘ تم اسے صرف یہ بات کہو گے کہ تم نے بہت بری بات کہی‘ یہ بات کیوں کر درست ہے کہ احادیث کی بناء پر قرآن کے ظاہری احکام میں تفریق کی جائے؟ جب تم حدیث کو وہی اہمیت دیتے ہو جو قرآن کو حاصل ہے تو اس حدیث کا انکار کرنے والے کے خلاف تم کونسی حجت قائم کر سکو گے؟
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ :- جو شخص اس زبان سے واقف ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا‘ وہ اس حقیقت سے باخبر ہے کہ احادیث رسول اللہ ا پر عمل کرنا ضروری ہے۔
منکر حدیث: اس کی کوئی دلیل آپ کو یاد ہو تو پیش کیجئے!
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ :- اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے:
”هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ الخ (الجمعہ 2)
ترجمہ:۔”وہ اللہ ہی کی ذات ہے جس نے ان پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کو اس کی آیات سناتا اور ان کو پاک کرتا اور کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے“۔
منکر حدیث: کتاب سے تو کتاب الٰہی مراد ہے، مگر حکمت کیا چیز ہے؟
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ :حکمت سے حدیث رسول مراد ہے۔
منکر حدیث: کیا اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ رسول کریم ا اجمالاً بھی قرآن کی تعلیم دیتے تھے اور حکمت یعنی مذکورہ احکام بھی بیان فرماتے تھے؟
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ :غالباً آپ کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم میں جو فرائض مذکور ہیں، مثلاً: نماز‘ زکوٰة‘ حج وغیرہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم ان کی کیفیت اور تفصیل بیان فرمادیا کرتے تھے۔
منکر حدیث:جی ہاں ! میرا یہی مطلب ہے۔
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ:- تو میں بھی آپ سے یہی کہہ رہا ہوں کہ فرائض کی تفصیل حدیث رسول ا سے معلوم ہوتی ہے۔
منکر حدیث:اس امر کا بھی احتمال ہے کہ کتاب اور حکمت دونوں سے ایک ہی چیز مراد ہو، اور کلام کو تکرار واعادہ پر محمول کیا جائے؟
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: آپ ہی بتایئے کہ دونوں سے ایک چیز مراد لینا بہتر ہے یا دونوں؟
منکر حدیث: ہوسکتا ہے کہ کتاب وحکمت سے دو چیزیں یعنی کتاب وسنت مراد لی جائیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک ہی چیز یعنی قرآن مراد ہو۔
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: ہر دو احتمالات میں سے جو واضح تر ہے وہی افضل ہے اور جو بات ہم نے کہی ہے‘ قرآن کریم میں اس کی دلیل موجود ہے۔
منکر حدیث: وہ دلیل کیا اور کہاں ہے؟
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
”وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَىٰ فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّـهِ وَالْحِكْمَةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا الخ (الاحزاب:34)
ترجمہ:۔”اور تمہارے گھروں میں خدا کی آیات اور جس حکمت کی تلاوت کی جاتی ہے‘ اس کو یاد کرتی رہو‘ بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر نرمی کرنے والا اور آگاہ ہے“۔
اس آیت سے مستفاد ہوتا ہے کہ امہات المؤمنین کے گھروں میں دو چیزوں کی تلاوت کی جاتی تھی۔
منکر حدیث: قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے ،مگر حکمت کی تلاوت کا کیا مطلب ہے؟
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: تلاوت کے معنی یہ ہیں کہ: جس طرح قرآن کے ساتھ نطق کیا جاتاہے‘ اسی طرح سنت کا اظہار بھی قوت گویائی ہی کے ذریعے کیا جاتاہے۔
منکر حدیث: بے شک اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکمت‘ قرآن کے علاوہ کوئی اور چیز ہے۔
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: اللہ تعالیٰ نے ہم پر رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو فرض ٹھہرایا ہے۔
منکر حدیث:اس کی کیا دلیل ہے ؟
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ :اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
1- ”فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا الخ۔ (النساء:65)
ترجمہ:۔”اور تیرے رب کی قسم! لوگ مومن نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ اپنے جھگڑوں میں آپ کو فیصل نہ بنائیں اور پھر جو فیصلہ آپ صادر کردیں‘ اس کے بارے میں اپنے جی میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور اپنا سرتسلیم خم کردیں“۔
2-”مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ الخ (النساء:80)
ترجمہ:۔”جس نے رسول کی اطاعت کی ،اس نے اللہ کی اطاعت کی“۔
3-”فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ الخ(النور:63)
ترجمہ:”جو لوگ رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں انہیں ڈرنا چاہیے کہ کہیں وہ فتنہ میں مبتلا ہوجائیں یا دردناک عذاب میں گرفتار ہوجائیں“۔
منکر حدیث: یہ درست ہے کہ حکمت سے سنت رسول مراد ہے ،اگر میرے ہم خیال لوگوں کی یہ بات صحیح ہوتی کہ ان آیات میں رسول کے احکام کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور رسول کا حکم وہی ہے جو اللہ نے قرآن کریم میں نازل کیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو شخص رسول کے احکام کی اطاعت نہیں کرتا‘ اس کو احکام خداوندی کا تسلیم نہ کرنے والا قرار دینا چاہئے‘ نہ کہ صرف احکام رسول کا باغی۔
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: اللہ تعالیٰ نے رسول کے احکام کا اتباع ہم پر فرض قرار دیا ہے۔ قرآنِ کریم میں فرمایا:
”وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا الخ۔ (الحشر:7)
ترجمہ:۔”رسول جو کچھ تم کو دے، وہ لے لو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو“۔
قرآن سے بوضاحت یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کرنا اور جس بات سے منع کریں، اس سے باز رہنا ہم پر فرض ہے۔
منکر حدیث: جو بات ہم پر فرض ہے وہ ہم سے پہلوں اور پچھلوں سب پر فرض ہے؟
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: جی ہاں!
منکر حدیث: اگر رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے دیئے ہوئے احکام کی اطاعت ہم پر فرض ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ ا ہم پر کسی بات کو فرض ٹھہرا تے ہیں تو آپ ایک ایسے امر کی جانب ہماری رہنمائی کرتے ہیں جس کی اطاعت ہمارے لئے ضروری ہے؟
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: جی ہاں!
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: اللہ تعالیٰ نے اطاعت رسول کا جو حکم دیا ہے‘ کیا آپ یا آپ سے پہلے اور آپ کے بعد کوئی شخص جس نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا ہو‘ احادیث نبویہ کے بغیر اس کی تعمیل کرسکتا ہے؟ اور حدیث نبوی کو نظر انداز کرکے احکام رسول کی تعمیل ممکن ہے؟ علاوہ ازیں حدیث نبوی قرآن کے ناسخ ومنسوخ پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔
منکر حدیث: اس کی کوئی مثال ذکر کیجئے؟
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: قرآن میں فرمایا:
”كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ“۔ (ابقرۃ :180)
ترجمہ:۔”جب تم میں سے کسی کا آخری وقت آجائے اور اس نے مال چھوڑا ہو تو تم پر والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لئے وصیت فرض کی گئی ہے“۔
ترکہ کی تقسیم سے متعلق قرآن میں ہے:
”وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ․․․ الخ (النساء:11)
ترجمہ:․․․”اور اگر میت کی اولاد بھی ہو تو اس کے ترکہ میں سے والدین میں سے ہرایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔ پھر اگر نہ ہو اس کی اولاد اور وارث بن رہے ہوں اس کے ماں باپ ہی تو اس کی ماں کا ایک تہائی حصہ ہے پھر اگر ہوں میت کے بھائی بہن تو اس کی ماں کا چھٹا حصہ ۔۔۔۔۔۔“۔
حدیث نبوی کے ذریعے ہمیں معلوم ہوا کہ ترکہ کی تقسیم سے متعلق آیت نے وصیت پر مشتمل آیت کو منسوخ کردیا‘ اگر ہم حدیث نبوی کو تسلیم نہ کرتے ہوتے اور ایک شخص ہمیں کہتا کہ وصیت پر مشتمل آیت نے تقسیم ورثہ سے متعلق آیت کو منسوخ کردیا او راس پر حجت صرف حدیث ہی کے ذریعے سے قائم کی جاسکتی ہے۔
منکر حدیث: آپ نے مجھ پر حجت تمام کردی ہے اور میں تسلیم کرتاہوں کہ حدیث نبوی کو قبول کرنا سب مسلمانوں پر فرض ہے‘ حق کے ظاہر ہوجانے کے بعد میں اس بات میں عار محسوس نہیں کرتا کہ حدیث نبوی کے بارے میں اپنا موقف چھوڑ کر اپنا زاویہ نگاہ اختیار کرلوں‘ بلکہ مجھے اس حقیقت کا اعتراف کرنے سے کوئی چیز مانع نہیں کہ ظہور حق کے بعد اس کو تسلیم کرنا میرے لئے ضروری تھا‘ مگر بتایئے کہ: اس کا کیا مطلب کہ قرآن کے بعض عام احکام اپنے عموم پر رہتے ہیں اور بعض دفعہ ان میں تحصیص پیدا ہوجاتی ہے؟
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے اس کے جواب میں متعدد مثالیں ذکر کیں ،پھر اپنے حریف کو مخاطب کرکے فرمایا: اب آپ پر یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم کی اطاعت کو قرآن کریم میں فرض قرار دیا اور اس کے ساتھ ساتھ آپ صلیٰ*اللہ علیہ وسلم کو قرآن کے عام وخاص اور ناسخ ومنسوخ کا شارح وترجمان ٹھہرایا ہے۔
منکر حدیث: جی ہاں ! آپ کا ارشاد بجا ہے‘ مگر میں تو ہمیشہ اس کی مخالفت کرتا رہا‘ یہاں تک کہ اس نقطہٴ نظر کی غلطی مجھ پر واضح ہوگئی۔ اس ضمن میں منکر حدیث دو فرقوں میں بٹ گئے ہیں: ایک فریق کا کہنا یہ ہے کہ حدیث نبوی مطلقاً حجت نہیں ہے اور قرآن کریم میں ہر چیز کی وضاحت وصراحت موجود ہے۔
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: حدیث نبوی سے صاف انکار کا نتیجہ کیا نکلا؟
منکر حدیث:بہت برا نتیجہ برآمد ہوا۔
اس لئے کہ انکار حدیث کا عقیدہ رکھنے والے یہ کہتے ہیں کہ :جو شخص کم از کم ایسا کام کرے جس کو صلوٰة یا زکوٰة کہہ سکتے ہیں‘ اس نے صلوٰة وزکوٰة کا حق ادا کردیا‘ اس میں وقت کی پابندی نہیں، اگر کوئی شخص ہر روز یا کئی دنوں میں دو رکعت نماز ادا کرلے تو اس نے صلوٰة کا فریضہ ادا کردیا‘ وہ کہتے ہیں کہ: جو حکم قرآن میں نہ وارد ہو‘ وہ کسی پر فرض نہیں۔ منکر حدیث کا دوسرا فرقہ کہتا ہے کہ جو حکم قرآن میں مذکور ہے، اس کے بارے میں حدیث کو قبول کیا جاسکتا ہے اور جس ضمن میں قرآن وارد نہیں ہوا‘ اس میں حدیث کو قبول نہیں کیا جاسکتا‘ نتیجہ اس کا بھی وہی ہوا جو پہلے فرقہ کا ہوا تھا۔ اس فرقہ نے پہلے حدیث کو رد کیا اور پھر اس کو قبول بھی کرنے لگے‘ یہ لوگ کسی خاص وعام یا ناسخ ومنسوخ کو تسلیم نہیں کرتے،ان دونوں کا گمراہ ہونا واضح ہے۔ اور میں ان میں سے کسی کو بھی حق نہیں سمجھتا‘ مگر میں آپ سے یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ: آپ ایک حرام چیز کو بلاد لیل کیسے حلال سمجھنے لگے ہیں؟ کیا آپ کے پاس اس کی کوئی دلیل موجود ہے؟
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ:دلیل موجود ہے۔
منکر حدیث: کونسی دلیل؟
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: میرے پاس جو شخص بیٹھا ہے‘ اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا اس کا خون اور مال حرام ہے یا نہیں؟
منکر حدیث: اس کا خون اور مال حرام ہے۔
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: اگر وہ شخص شہادت دے کہ اس فلاں شخص کو قتل کیا اور اس کا مال لے لیا اور وہ مال آپ کے پاس موجود ہے تو اس کے بارے میں آپ کا کیا رویہ ہوگا؟ (آپ کیا رویہ اختیار کریں گے؟)
منکر حدیث: میں اس کو فوراً قتل کردوں گا اور اس سے مال لے کر وارثوں کو لوٹا دوں گا۔
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: کیا یہ ممکن نہیں کہ گواہوں نے جھوٹی اور غلط گواہی دی ہو؟
منکر حدیث:ایسا ہوسکتا ہے۔
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ: پھر آپ نے جھوٹی گواہی کی بناء پر اس شخص کے مال اور خون کو کیسے مباح قرار دیا‘ حالانکہ وہ خون اور مال حرام تھا؟
منکر حدیث:اس لئے کہ شہادت قبول کرنا ضروری امر ہے۔
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ:اگر تم گواہوں کی گواہی کو ظاہری صداقت کی بنا پر قبول کرنا ضروری سمجھتے ہو اور باطن کا علم تو صرف ذات خداوندی ہی کو ہے تو ہم راوی کے لئے جو شرائط عائد کرتے ہیں‘ وہ گواہ کی شرائط سے زیادہ کڑی ہیں‘ چنانچہ جن لوگوں کی شہادت کو قبول کرتے ہیں‘ ضروری نہیں کہ ان کی روایت کردہ حدیث کو بھی صحیح سمجھ لیں ۔راوی کی صداقت اور غلطی کا پتہ تو ان رواة ورجال سے بھی چل جاتاہے جو روایت حدیث میں اس کے ساتھ شریک ہوتے ہیں‘ علاوہ ازیں کتاب وسنت سے بھی راوی کی غلطی واضح ہوجاتی ہے‘ مگر شہادت میں ان باتوں میں سے کوئی بات بھی نہیں پائی جاتی۔
منکر حدیث: میں تسلیم کرتاہوں کہ حدیث نبوی دین میں حجت ہے اور رسول کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ نے فرض ٹھہرایا ہے‘ جب میں نے رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث کو قبول کیا تو گویا خدا کے حکم کو قبول کیا۔ حدیث ِ رسول کی حجیت پر سب مسلمانوں کا اجماع منعقد ہوچکا ہے اور اس میں کسی کا بھی اختلاف نہیں‘ آپ کے بتانے سے مجھ پر یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ مسلمان ہمیشہ حق پر ہوتے ہیں ۔
برادران اسلام!آپ نے مناظرہ پڑھا‘ یہ مناظرہ ان لوگوں کو پڑھوائیں جو اس فتنے کے جال میں پھنس گئے۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ تمام مسلمانوں کو علمائے حق کے دامن سے وابستہ رکھے اور صحابہ کرام واہل بیت عظام کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین ثم آمین ۔
(کتاب الام ج:7 ص:250 بحوالہ: ”الحدیث والمحدثون“ اردو ترجمہ: ص:362تا368 مترجم پروفیسر غلام احمد حریری مرحوم)
ماہنامہ بینات, ربیع الثانی1428ھ مئی2007ء, جلد 70, شمارہ
آپ نے مجھے منکرِ حدیث ہونےکا طعنہ تو نہیں دیا اور یہی بات میرے لیے کافی ہے۔ ورنہ یہاں تو ایک صاحب علماء کی ویڈیوز اور فتوے کی بھر مار کر کرکے پتہ نہیں کیا ثابت کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس بات کا فیصلہ قارئین پر چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ کس کی بات میں وزن دیکھتے ہیں کیونکہ طبقہء اہلِ حدیث نے اپنے دلائل بیان کیے ہیں اور ہم نے بھی اپنی معروضات پیش کر دیں ہیں بشرطیکہ ہم دونوں کے دلائل کا غیر جاندارانہ مطالعہ کرے۔ بہر حال جس طرح آپ اپنے موقف کو صحیح سمجھتے ہیں ، اسی طرح ہم بھی اپنے معروضات کو غلط نہیں سمجھتے ۔
123.png
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
میرے محترم ! قرآن کے لفظ ”صدیق“ سے یہ تشریح میل نہیں کھاتی۔ جب میں اس روایت کو صحیح نہیں سمجھتا تو پھر ”مزید“ دلائل دینے کی کیا ضرورت ہے ؟ یہ تشریح آپ ان لوگوں کو بتائیں جو ”صدیق“ کا مطلب زندگی میں کم از کم تین بار جھوٹ بولنے یا بقول آپکے ”توریہ کرنا“ کے ساتھ لیتے ہیں۔میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ
آپ کی نظر اس روایت پر ہے اور ہماری نظر قرآن کی آیت پر ہے
اگر آپ اس کی تشریح میں علماء کے اقوال دیکھ لیتے تو سر پیٹ لیتے ، مگر پھر آپ لوگ نئے سے نیا شوشہ نکالتے جا رہے ہیں۔ جہاں تک بات ہے ”گنجائش کی حد “کی تو آپ حضرات کے لیے تواس میں ”گنجائش ہی گنجائش “ ہے مگر جن لوگوں کی نظر میں قرآن کی آیت ہے ان کے لیے اس میں ”کوئی گنجائش“نہیں ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی نے شرح مسلم کے مقدمہ میں فرمایا ہے کہ :

علماء کرام رحمہم اللہ تعالی کا اس پراتفاق ہے کہ قرآن مجید کے بعدکتابوں میں سب سے صحیح کتاب صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہے ، اور امت نے اسے قبول کیا ہے اوران دونو‎ں میں صحیح ترین کتا ب صحیح بخاری ہے جس میں صحیح مسلم سے زیادہ فوائد پاۓ جاتے ہیں ۔ اس کا جواب دینے سے پہلے اپنے علماء کے نام ضرور بتادیں
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
امام نووی رحمہ اللہ تعالی نے شرح مسلم کے مقدمہ میں فرمایا ہے کہ :

علماء کرام رحمہم اللہ تعالی کا اس پراتفاق ہے کہ قرآن مجید کے بعدکتابوں میں سب سے صحیح کتاب صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہے ، اور امت نے اسے قبول کیا ہے اوران دونو‎ں میں صحیح ترین کتا ب صحیح بخاری ہے جس میں صحیح مسلم سے زیادہ فوائد پاۓ جاتے ہیں ۔ اس کا جواب دینے سے پہلے اپنے علماء کے نام ضرور بتادیں
اس کے 1تا10 صفہ ملاخط کریں
http://kitabosunnat.com/kutub-library/sahee-bukhari-par-munkirin-e-hadeeth-k-hamlay-aur-un-ka-mudallil-jawab.html
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
امام نووی رحمہ اللہ تعالی نے شرح مسلم کے مقدمہ میں فرمایا ہے کہ :

علماء کرام رحمہم اللہ تعالی کا اس پراتفاق ہے کہ قرآن مجید کے بعدکتابوں میں سب سے صحیح کتاب صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہے ، اور امت نے اسے قبول کیا ہے اوران دونو‎ں میں صحیح ترین کتا ب صحیح بخاری ہے جس میں صحیح مسلم سے زیادہ فوائد پاۓ جاتے ہیں ۔ اس کا جواب دینے سے پہلے اپنے علماء کے نام ضرور بتادیں
کاش آپ نے کوئی نئی اور معقول بات کہی ہوتی ۔
 
Top