• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محدث ابن حبان اور قبروں سے فیض

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
کاش آپ نے کوئی نئی اور معقول بات کہی ہوتی ۔
اب آپ کا کیا مطالبہ ہے۔؟کیا ان تمام علماء(محدثین ) کو درایت کے اصول نہیں آتے تھے
اس لیے کہا تھا ۔کہ اس کا جواب دینے سے پہلے اپنے علماء کے نام ضرور بتادیں۔تاکہ ہمارے علم
میں بھی اضافہ ہو۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
اب آپ کا کیا مطالبہ ہے۔؟کیا ان تمام علماء(محدثین ) کو درایت کے اصول نہیں آتے تھے
اس لیے کہا تھا ۔کہ اس کا جواب دینے سے پہلے اپنے علماء کے نام ضرور بتادیں۔تاکہ ہمارے علم
میں بھی اضافہ ہو۔
میرے محترم ! آپ شائد سمجھتے ہیں کہ ہم احادیث کو چنداں اہمیت نہیں دیتے یا محدثینؒ کی کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ۔ میرے محترم ایسا ہر گز نہیں ہے آپ میرے اس فورم پر پیش کیے گئے مواد کو ملاحظہ کر لیں میں نے زیادہ تر قرآنی آیات پر مبنی موضوعات کو پیش کیا ہے۔شائد اسی وجہ سے کچھ حضرات نے یہ تاثر لےلیا کہ میں منکرِ حدیث ہوں یا احادیث کو نا قابل ِاعتبار سمجھتا ہوں ۔ حالانکہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میری پہلی پوسٹ صحیح مسلم کی حدیثِ جبرائیل کے ایک پہلو”احسان کیا ہے ؟ “کے متعلق تھی ۔ اس کے علاوہ میں نے مختلف موضوعات میں احادیث کو پیش بھی کیا ہے مگر نہ جانے پھر بھی کچھ حضرات میرے پیچھے کیوں پڑے رہتے ہیں؟ اور جبراً میرے ڈانڈے ”منکرینِ حدیث“ سے جوڑنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ جہاں تک علماء کا تعلق ہے میرے محترم ،میں تمام علماء سے بلا امتیازِ مسلک استفادہ کرنے کا قائل ہوں۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
میرے محترم ! آپ شائد سمجھتے ہیں کہ ہم احادیث کو چنداں اہمیت نہیں دیتے یا محدثینؒ کی کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ۔ میرے محترم ایسا ہر گز نہیں ہے آپ میرے اس فورم پر پیش کیے گئے مواد کو ملاحظہ کر لیں میں نے زیادہ تر قرآنی آیات پر مبنی موضوعات کو پیش کیا ہے۔شائد اسی وجہ سے کچھ حضرات نے یہ تاثر لےلیا کہ میں منکرِ حدیث ہوں یا احادیث کو نا قابل ِاعتبار سمجھتا ہوں ۔ حالانکہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میری پہلی پوسٹ صحیح مسلم کی حدیثِ جبرائیل کے ایک پہلو”احسان کیا ہے ؟ “کے متعلق تھی ۔ اس کے علاوہ میں نے مختلف موضوعات میں احادیث کو پیش بھی کیا ہے مگر نہ جانے پھر بھی کچھ حضرات میرے پیچھے کیوں پڑے رہتے ہیں؟ اور جبراً میرے ڈانڈے ”منکرینِ حدیث“ سے جوڑنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ جہاں تک علماء کا تعلق ہے میرے محترم ،میں تمام علماء سے بلا امتیازِ مسلک استفادہ کرنے کا قائل ہوں۔
کیا آپ ًمحدیث ہیں۔اورخود تحقیق کی صلاحیت ر کھتے ہیں۔اگر نہیں رکھتے بخاری ومسلم پر امت
کا اجماع ہے ۔کہ اس کی تمام احادیث صحیح ہیں۔اگر آپ کو بخاری کی کسی حدیث میں پریشانی ہے تو
تحقیق حدیث سے متعلق سوالات وجوابات

میں پوسٹ کریں
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
میرے محترم ! آپ شائد سمجھتے ہیں کہ ہم احادیث کو چنداں اہمیت نہیں دیتے یا محدثینؒ کی کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ۔ میرے محترم ایسا ہر گز نہیں ہے آپ میرے اس فورم پر پیش کیے گئے مواد کو ملاحظہ کر لیں میں نے زیادہ تر قرآنی آیات پر مبنی موضوعات کو پیش کیا ہے۔شائد اسی وجہ سے کچھ حضرات نے یہ تاثر لےلیا کہ میں منکرِ حدیث ہوں یا احادیث کو نا قابل ِاعتبار سمجھتا ہوں ۔ حالانکہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میری پہلی پوسٹ صحیح مسلم کی حدیثِ جبرائیل کے ایک پہلو”احسان کیا ہے ؟ “کے متعلق تھی ۔ اس کے علاوہ میں نے مختلف موضوعات میں احادیث کو پیش بھی کیا ہے مگر نہ جانے پھر بھی کچھ حضرات میرے پیچھے کیوں پڑے رہتے ہیں؟ اور جبراً میرے ڈانڈے ”منکرینِ حدیث“ سے جوڑنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ جہاں تک علماء کا تعلق ہے میرے محترم ،میں تمام علماء سے بلا امتیازِ مسلک استفادہ کرنے کا قائل ہوں۔
جلال الدین سیوطی، جعلی احادیث کا ذکر کرتے ہوئے ابوبکر بن طیب کا قول نقل کرتے ہیں۔
أن من جملة دلائل الوضع أن يكون مخالفاً للعقل بحيث لا يقبل التأويل ، ويلتحق به ما يدفعه الحس والمشاهدة ، أو يكون منافياً لدلالة الكتاب القطعية أو السنة المتواترة أو الإِجماع القطعي ، أما المعارضة مع إمكان الجمع فلا ، ومنها ما يصرح بتكذيب رواة جميع المتواتر ، أو يكون خبراً عن أمر جسيم تتوفر الدواعي على نقله بمحضر الجمع ثم لا ينقله منهم إلا واحد ، ومنها الإِفراط بالوعيد الشديد على الأمر الصغير ، أو الوعد العظيم على الفعل الحقير ، وهذا كثير في حديث القصاص۔
حدیث کے جعلی ہونے کے دلائل میں سے یہ بات شامل ہے کہ یہ عقل کے اس طرح خلاف ہو کہ اس کی توجیہ ممکن ہی نہ ہو۔ اسی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ حدیث میں کوئی ایسی بات کہی گئی ہو جو حس و مشاہدے کے خلاف ہو۔ اسی طرح حدیث اگر قرآن مجید کی قطعی دلالت یا سنت متواترہ یا اجماع قطعی کے منافی ہو (تو وہ بھی جعلی حدیث ہو گی۔) اگر تضاد کو دور کرنا ممکن ہو تو پھر ایسا نہ ہو گا۔ (جعلی احادیث) میں سے بعض ایسی ہوتی ہیں جن کے جھوٹ ہونے کی گواہی تمام راوی تواتر سے دیتے ہیں۔ بعض ایسی ہوتی ہیں جن میں کوئی ایسا بہت عظیم واقعہ بیان کیا گیا ہوتا ہے جسے کثیر تعداد میں لوگوں کو بیان کرنا چاہیے لیکن اسے صرف ایک ہی شخص نقل کر رہا ہوتا ہے۔ بعض ایسی احادیث ہوتی ہیں جن میں چھوٹی سی غلطی پر بہت بڑے عذاب کی وعید سنائی گئی ہوتی ہے یا چھوٹی سی نیکی پر بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا گیا ہوتا ہے۔ قصے کہانیاں بیان کرنے والوں کی اکثر احادیث ایسی ہی ہوا کرتی ہیں۔ (تدریب الراوی، موضوع حدیث کی بحث)
ا
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
میرے محترم ! آپ شائد سمجھتے ہیں کہ ہم احادیث کو چنداں اہمیت نہیں دیتے یا محدثینؒ کی کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ۔ میرے محترم ایسا ہر گز نہیں ہے آپ میرے اس فورم پر پیش کیے گئے مواد کو ملاحظہ کر لیں میں نے زیادہ تر قرآنی آیات پر مبنی موضوعات کو پیش کیا ہے۔شائد اسی وجہ سے کچھ حضرات نے یہ تاثر لےلیا کہ میں منکرِ حدیث ہوں یا احادیث کو نا قابل ِاعتبار سمجھتا ہوں ۔ حالانکہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میری پہلی پوسٹ صحیح مسلم کی حدیثِ جبرائیل کے ایک پہلو”احسان کیا ہے ؟ “کے متعلق تھی ۔ اس کے علاوہ میں نے مختلف موضوعات میں احادیث کو پیش بھی کیا ہے مگر نہ جانے پھر بھی کچھ حضرات میرے پیچھے کیوں پڑے رہتے ہیں؟ اور جبراً میرے ڈانڈے ”منکرینِ حدیث“ سے جوڑنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ جہاں تک علماء کا تعلق ہے میرے محترم ،میں تمام علماء سے بلا امتیازِ مسلک استفادہ کرنے کا قائل ہوں۔
متفق
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
بھائی حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالی کے سچے نبی تھے اور معاذاللہ کوئی نہیں کہتا کہ وہ جھوٹے تھے یا جھوٹ بولتے تھے بس بعض جگہوں پر آپ علیہ السلام نے خلاف حیقیت بات کہی ہے تو اس مین صرف اور صرف کفار کو سبق سکھانے کا ارادہ کیا ہے جیسا کہ بت تورنے کا واقعہ، بظاہر تو آپ علیہ السلام نے کافروں کو یہی کہا کہ میں نے بت نہین توڑے بلکہ ان کے بڑے سے پوچھو اس نے تو ڑے ہیں بظاہر تو یہ بات خلاف حقیقیت لگتی ہے لیکن اس میں ایک خاص پہلو موجود ہے جو ہے کفار کو یہ باور کروانا کہ بت نہ تو بول سکتے ہیں ، نہ تو کچھ اور کرسکتے ہیں۔
اور پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بت توڑنے کا واقعہ تو قرآن کریم نے خود ہی بیان کیا ہے آپ قرآن کریم کی آیات کیوں نہیں پیش کردیتے جو بت توڑنے کے متعلق ہیں ۔۔۔
متفق
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
محترم T H K بھائی -

آپ کی یہ بات اپنی جگہ بلکل درست اورحق ہے کہ قرآن کریم انسانی تصرف سے پاک ہے اوراس بنا پر انسانی روایات کو قرآن کریم کی صریح نص پر فوقیت دینا یقیناً ایک بدعتی عمل ہے اور گمراہی کی طرف لے جانے والا عمل ہے - ہم انسان کی بیان کردہ روایات کا مقابلہ قرآن کریم کی نازل کردہ وحی سے نہیں کرسکتے- لیکن یہ بھی ایک امر ہے کہ جب قرآن کی صریح نص خود ایک جلیل القدر نبی کے فعل کو ثابت کررہی ہے اور احادیث نبوی سے واضح طور پر متعارض بھی نہیں- تو اس روایت کو قبول کرنے میں کون سا امر مانع ہے ؟؟

پہلی بات یہ ہے کہ بالفرض ہم یہ مان لیں کہ "کذب" کے لفظی معنی حقیقی جھوٹ کے ہیں اور قرآن کی صریح نص حضرت ابراہیم علیہ سلام کے بارے میں قطعی طور پر یہ کہہ رہی ہے کہ وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ﴿٤١﴾ کہ وہ صدیقیت کے مرتبے پر فائز تھے - تو سوال ہے کہ جو قرآن میں جو دو افعال حضرت ابرہیم کے بخاری و مسلم کی روایات کے مطابق "کذب " سے منسوب ہیں- انہیں اگر کذب لفظ نہیں دیا جائے گا تو متبادل کے طور پر کون سا لفظ روایت میں استمعال ہونا چاہیے تھا؟؟؟

دوسری بات یہ ہے کہ خود قرآن کریم میں اکثر انبیاء کے کچھ افعال ایسے ذکر کیے گئے ہیں جو بظاہر ایسے محسوس ہوتے ہیں کہ جس سے ان کی شان گھٹتی ہے- لیکن یہ افعال ان سے ایک بشری تقاضے کے تحت سرانجام دیے گئے - اس سے ان کی مجموعی شخصیت پر کوئی حرف نہیں آتا - مثال کے طور پر-

حضرت یونس کے بارے میں قرآن نے فرمایا کہ:
وَذَا النُّونِ إِذْ ذَهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَنْ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ سوره انبیاء ٨٧

اور مچھلی والا جب غصہ ہو کر چل دیا اور گمان کیا کہ ہم اسے نہیں پکڑسکیں گے-پس اس نے اندھیروں میں ہمیں پکارا کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے تو بے عیب ہے بے شک میں ہی ظالموں میں سے تھا-

اب سوال ہے کہ کیا کوئی نبی الله کیا بارے میں غلط گمان کرسکتا ہے ؟؟ کہ الله اس کو نہیں پکڑ سکے گا-؟؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے- یہ حضرت یونس علیہ سلام کی وقتی کفیت تھی- اس سے یہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ الله کیا بارے میں غلط گمان رکھتے تھے -اور اس واقعہ سے ان کی مجموعی شان میں کوئی کمی نہیں ہوتی-

اسی طرح حضرت آدم علیہ سلام کے متعلق الله کا فرمان ہے کہ:
اور ہم نے آدم کے اندرعزم کی کمی دیکھی -

سوال ہے کہ کیا ایک نبی میں عزم کی کمی ہو سکتی ہے؟؟؟ - اصل بات یہ ہے کہ یہ آدم علیہ سلام میں عزم کی کمی وقتی تھی جس کی بنا پور وہ شیطان کے بہکاوے میں آ کر جنّت کے ایک ممنوعہ درخت کا پھل کھا بیٹھے- اس سے ان کی مجموعی شان میں کوئی کمی نہیں ہوتی-

اسی طرح جب الله تبارک وتعالیٰ نے نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کو وحی کے ذریے خبر دی کہ آپ کا نکاح آپ کے مونه بولے بیٹے حضرت زید بن حارث رضی الله عنہ کی مطلقہ زوجہ سے کردیا جائے گا - جس پر آپ صل الله علیہ و آ له وسلم پریشان ہوگئے کہ قریش کا لوگ اس بات کا خوب بتنگڑ بنائیں گے کہ محمّد بن عبدللہ ایک طرف نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے اور دوسری طرف اپنے منه بولے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے نکاح کررہا ہے - اس پر الله نے وحی نازل کی کہ:

وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ سوره الاحزاب ٣٧

اور جب تم نے (اے نبی) اس شخص سے کہا جس پر الله نے احسان کیا اور تو نے احسان کیا کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ الله سے ڈر اور تو اپنے دل میں ایک چیز چھپاتا تھا جسے الله ظاہر کرنے والا تھا اور تو لوگوں سے ڈرتا تھا حالانکہ الله زیادہ حق رکھتا ہے کہ تو اس سے ڈرے-

اب سوال ہے کہ کیا نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم سے بڑھ کر الله سے ڈرنے والا کوئی ہو گا؟؟ - لیکن مذکورہ آیات میں الله نے نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی وقتی پریشانی کو بیان کیا ہے کہ وہ اس وقت قریش کے لوگوں اور سرداروں کی استہزا سے ڈر رہے تھے جو حضرت زینب بنت جحش رضیہ الله عنہ سے نکاح کی صورت میں ممکن تھا -یہ آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم کا وقتی فعل تھا- ظاہر ہے اس سے آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی مجموعی شان میں کوئی فرق نہیں آتا -

یہی معامله حضرت ابرھیم علیہ سلام کے ساتھ ہے کہ آپ کا توریہ کے طور پر تین مرتبہ کذب کرنا محض ایک بشری فعل تھا - اس سے آپ علیہ سلام کی "صدیقیت" پر کوئی حرف نہیں آتا -(واللہ اعلم)

الله آپ کی جزاے خیر دے- (آمین )
محترمی و مکرمی محمد علی جواد بھائی ! ہمارےلیےبس اتنی ہی بات کافی ہے کہ لفظ”کذب“ کی نسبت حضرت ابراہیم ؑ کے متعلق قرآن میں کہیں بیان نہیں ہوئی۔ اس ”کذب“ کا استعمال صرف اور صرف ”روایت“ میں آیا ہے جس نے نہ صرف حضرت ابراہیم ؑ کے متعلق دو باتوں کو ”کذب“ کہا بلکہ ایک اور ”کذب“ کا اضافہ بھی کر دیا۔ قطع نظر اس کے کہ ”کذب“ کا مطلب ”ذو معنی بات“ ہو یا ”توریہ“۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایک شخص قرآن کی یہ آیت پڑھے تو اسکے ذہن میں ”صدیقیت “ کا وہی تصور ہوگا جو قرآن اسے دیگا۔اس کے برعکس جب وہی شخص اس روایت پر نظر ڈالے گا تو یقیناً الجھن میں پڑے گا۔”کذب“ کی نسبت ایک عا م شخص کی طرف نہیں بلکہ خلیل اللہ حضرت ابراہیم ؑ کے متعلق کی جا رہی ہے، وہ بھی قرآن میں نہیں بلکہ روایت میں۔
ایک شخص جب اس طرح کی بات دیکھے گا تو وہ یہی رائے قائم کریگا کہ یہ روایت صحیح سند سے مروی ہونے کے باوجود اسکے متن میں خامی ہے تو وہ اسی بات کو زیادہ ترجیح دے گا کہ محدثین کی چھانٹ پھٹک میں یا راوی کے سہو کی بناء پر بات صحیح طرح نقل نہیں ہوئی بجائے اسکے کہ اسکی صحت پر اصرار کرے۔ اب بتائیں کہ اسے محدثین کی چھانٹ پھٹک یا راوی کی ثقاہت پیاری ہو گی یا اللہ تعالٰی کی گواہی ؟
اس سے کچھ حضرات نے میرے متعلق ”حدیث دشمنی“ کا تاثر لیا ہے جو زیادتی ہے۔ اگر کوئی ہماری رائے سے متفق نہیں ہوتا تو کوئی بات نہیں ،لیکن کسی کو ”منکرِ حدیث“ یا ”ناصبی“ کہنا یقیناً صحیح نہیں ہے۔
باقی جو باتیں دیگر انبیاء کے متعلق قرآن میں بیان ہوئیں ہیں ان سے تو کسی کو بھی انکار نہیں ہے۔
اللہ پاک آپ کےاور ہمارے علم و عمل میں اضافہ فرمائے ! آمین یا رب العالمین!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ابن القيسراني (المتوفى: 507هـ) کتاب ذخيرة الحفاظ (من الكامل لابن عدي) میں ایک روایت پر لکھتے ہیں
حَدِيث: مثل الَّذِي يحجّ من أمتِي عَن أمتِي كَمثل أم مُوسَى كَانَت ترْضِعه، وَتَأْخُذ الْكِرَاء من فِرْعَوْن. رَوَاهُ إِسْمَاعِيل بن عَيَّاش: عَن صَفْوَان بن عَمْرو، عَن عبد الرَّحْمَن بن جُبَير بن نفير، عَن أَبِيه، عَن معَاذ.
وَهَذَا الحَدِيث وَإِن كَانَ مُسْتَقِيم الْإِسْنَاد؛ فَإِنَّهُ مُنكر الْمَتْن، لَا أعلم رَوَاهُ عَن ابْن عَيَّاش غير سُلَيْمَان بن أَيُّوب الْحِمصِي.

اور یہ حدیث اگر اس کی اسناد مستقیم بھی ہوں تو یہ منکر المتن ہے اس کو ابْن عَيَّاش سے سوائے سُلَيْمَان بن أَيُّوب الْحِمصِي کے کوئی روایت نہیں کرتا
عام طور سے ثقہ کی صحیح سند روایت اگر اپنے اپ سے بہتر ثقہ کی مخالف ہو تو شاذ ہوتی ہے اور قبول نہیں کی جاتی
’’ منکر ‘‘ سے مراد حدیث کا ’’ غریب ‘‘ ہونا ہے ۔ گویا امام ابن عدی (القیسرانی ناقل ہیں) اس روایت کو تفرد کی وجہ سے ضعیف قرار دے رہے ہیں ۔ (الکامل ج1ص436)
اور یہ کوئی عجیب یا انوکھی بات نہیں بعض راویوں کے اندر اس قدر اہلیت نہیں ہوتی کہ ان کی تفرد والی روایات قبول کی جائیں ۔
ابن الجوزی کے مطابق یہ حدیث بیان کرنے میں ’’ اسماعیل بن عیاش ‘‘ سے غلطی ہوئی ہے ۔(تلخیص الموضوعات ص 212) کیونکہ یہ سچے تھے لیکن بعض دفعہ روایات بیان کرنے میں ان کو وہم ہو جاتا تھا ۔
بہرصورت خلاصہ یہ ہے کہ جن احادیث کے متن پر علماء نے کلام کیا ہے ان کی اسانید میں بھی ضعف ہے ، اسانید بالکل ٹھیک ہوں اور متن کو محدثین نہ مانیں یہ مثال پیش نہیں کی جاسکتی ۔

ابن القيسراني (المتوفى: 507هـ) کتاب ذخيرة الحفاظ (من الكامل لابن عدي) میں ایک روایت پر لکھتے ہیں
حَدِيث: مثل الَّذِي يحجّ من أمتِي عَن أمتِي كَمثل أم مُوسَى كَانَت ترْضِعه، وَتَأْخُذ الْكِرَاء من فِرْعَوْن. رَوَاهُ إِسْمَاعِيل بن عَيَّاش: عَن صَفْوَان بن عَمْرو، عَن عبد الرَّحْمَن بن جُبَير بن نفير، عَن أَبِيه، عَن معَاذ.
وَهَذَا الحَدِيث وَإِن كَانَ مُسْتَقِيم الْإِسْنَاد؛ فَإِنَّهُ مُنكر الْمَتْن، لَا أعلم رَوَاهُ عَن ابْن عَيَّاش غير سُلَيْمَان بن أَيُّوب الْحِمصِي.

اور یہ حدیث اگر اس کی اسناد مستقیم بھی ہوں تو یہ منکر المتن ہے اس کو ابْن عَيَّاش سے سوائے سُلَيْمَان بن أَيُّوب الْحِمصِي کے کوئی روایت نہیں کرتا
عام طور سے ثقہ کی صحیح سند روایت اگر اپنے اپ سے بہتر ثقہ کی مخالف ہو تو شاذ ہوتی ہے اور قبول نہیں کی جاتی
محدثین کی کتب العلل میں بھی ایسی روایات پر بحث ملتی ہے
ایک روایت ہے
لا تحل الصدقة لمن كان عنده خمسون درهماً
صدقه واجب نہیں ہوتا الا کہ پچاس درہم ہوں
اس کو یحیی ابن معین منکر کہتے ہیں
جبکہ راوی ثقہ ہیں
تاريخ ابن معين (رواية الدوري)
سَمِعت يحيى وَسَأَلته عَن حَدِيث حَكِيم بن جُبَير حَدِيث بن مَسْعُود لَا تحل الصَّدَقَة لمن كَانَ عِنْده خَمْسُونَ درهما يرويهِ أحد غير حَكِيم فَقَالَ يحيى بن معِين نعم يرويهِ يحيى بن آدم عَن سُفْيَان عَن زبيد وَلَا نعلم أحدا يرويهِ إِلَّا يحيى بن آدم وَهَذَا وهم لَو كَانَ هَذَا هَكَذَا لحَدث بِهِ النَّاس جَمِيعًا عَن سُفْيَان وَلكنه حَدِيث مُنكر هَذَا الْكَلَام قَالَه يحيى أَو نَحوه
ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں
أَخْبَرَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ الْفَضْلِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَيَّةَ مُحَمَّدَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ يَقُولُ: سَمِعْتُ فِي حَلْقَةٍ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ وَيَحْيَى بْنَ مَعِينٍ وَأَبَا خَيْثَمَةَ وَالْمُعَيْطِيَّ ذَكَرُوا: «يَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» فَقَالُوا: مَا فِيهِ حَدِيثٌ صَحِيحٌ
محمّد بن ابراہیم کہتے ہیں میں نے ایک حلقہ میں سنا جس میں احمد بن حنبل ، یحیی بن معین ابو خَيْثَمَةَ اور وَالْمُعَيْطِيَّ تھے اور روایت يَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَة عمار تجھے ایک باغی گروہ قتل کرے گا -
ذکر ہوا سب نے کہا اس سلسلے میں ایک بھی حدیث صحیح نہیں
اسی کتاب میں یہ بات بھی لکھی ہے
سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، يَقُولُ: رُوِيَ فِي: «تَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» ثَمَانِيَةٌ وَعِشْرُونَ حَدِيثًا، لَيْسَ فِيهَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ
میں نے محمّد بن عبد الله بن ابراہیم سے سنا کہا میں نے اپنے باپ سے سنا کہتے تھے میں نے امام احمد بن حنبل سے سنا
عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا کو ٢٨ حدیثوں سے روایت کیا ایک بھی صحیح نہیں
اس روایت کی ١٨ اسناد تو مسند احمد میں موجود ہیں اور امام احمد کے نزدیک صحیح مسلم کی اس روایت کی سند بھی معلول ہے
محدثین کا اپس میں بعض حدیث کی تصحیح پر اختلاف رہا ہے
راویوں کے ثقہ ہونے سے روایت کی صحت لازم نہیں آتی ، اسی طرح کسی سند میں راوی ضعیف ہیں تو ضروری متن بھی ضعیف ہوگا یہ ضروری نہیں ۔
محدثین کے نزدیک حدیث ضعیف کی اقسام میں سے ایک قسم ہے ’’ شاذ ‘‘ اس کے راوی ثقہ ہوتے ہیں لیکن حدیث ضعیف ہوتی ہے ۔ حدیث حسن لغیرہ ہے اس کے راوی ضعیف ہوتے ہیں لیکن حدیث مقبول ہوتی ہے ۔
اس لیے ہم کہتے ہیں کہ محدثین صرف سند کو ہی نہیں بلکہ متن کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
’’ منکر ‘‘ سے مراد حدیث کا ’’ غریب ‘‘ ہونا ہے ۔ گویا امام ابن عدی (القیسرانی ناقل ہیں) اس روایت کو تفرد کی وجہ سے ضعیف قرار دے رہے ہیں ۔ (الکامل ج1ص436)
اور یہ کوئی عجیب یا انوکھی بات نہیں بعض راویوں کے اندر اس قدر اہلیت نہیں ہوتی کہ ان کی تفرد والی روایات قبول کی جائیں ۔
ابن الجوزی کے مطابق یہ حدیث بیان کرنے میں ’’ اسماعیل بن عیاش ‘‘ سے غلطی ہوئی ہے ۔(تلخیص الموضوعات ص 212) کیونکہ یہ سچے تھے لیکن بعض دفعہ روایات بیان کرنے میں ان کو وہم ہو جاتا تھا ۔
بہرصورت خلاصہ یہ ہے کہ جن احادیث کے متن پر علماء نے کلام کیا ہے ان کی اسانید میں بھی ضعف ہے ، اسانید بالکل ٹھیک ہوں اور متن کو محدثین نہ مانیں یہ مثال پیش نہیں کی جاسکتی ۔


راویوں کے ثقہ ہونے سے روایت کی صحت لازم نہیں آتی ، اسی طرح کسی سند میں راوی ضعیف ہیں تو ضروری متن بھی ضعیف ہوگا یہ ضروری نہیں ۔
محدثین کے نزدیک حدیث ضعیف کی اقسام میں سے ایک قسم ہے ’’ شاذ ‘‘ اس کے راوی ثقہ ہوتے ہیں لیکن حدیث ضعیف ہوتی ہے ۔ حدیث حسن لغیرہ ہے اس کے راوی ضعیف ہوتے ہیں لیکن حدیث مقبول ہوتی ہے ۔
اس لیے ہم کہتے ہیں کہ محدثین صرف سند کو ہی نہیں بلکہ متن کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔

بن القیسرانی یا ابن عدی نے کہا ہے کہ اگر اسناد مستقیم بھی ہوں تو یہ منکر المتن ہے
شاذ روایات ثقہ راویوں کی اپنے سے زیادہ ثقہ کی مخالفت میں ہوتی ہیں
شاذ روایات کی سند صحیح ہوتی ہے لیکن پھر بھی قبول نہیں کی جاتیں تو ظاہر ہے سند صحیح ہے لیکن متن قبول نہیں کیا جاتا
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
آپ نے میر ی پوسٹ کا جواب کیو ں نہیں دیا
 
Top