بشارت اسمہ احمد
وَاِِذْ قَالَ عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ یَابَنِیْ اِِسْرَآئِیلَ اِِنِّی رَسُوْلُ اللّٰہِ اِِلَیْکُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَاْتِی مِنْ بَعْدِی اسْمُہُ اَحْمَدُ فَلَمَّا جَائَ ہُمْ بِالْبَیِّنَاتِ قَالُوْا ہٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ ۔(سورۂ الصف: رکوع۱)
'' اور جس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اے بنی اسرائیل تحقیق میں تمہاری طرف خدا کا رسول ہوں ماننے والا اس چیز کو کہ آگے میرے ہے توریت سے اور خوشخبری دینے والا ساتھ ایک رسول کے کہ میرے بعد آے گا نام اس کا احمد ہے۔ پس جب وہ ان لوگوں کے پاس کھلی کھلی دلیلوں کے ساتھ آیا، تو انہوں نے کہا یہ تو کھلا کھلا جادو ہے۔''
ناظرین کرام! اس آیت مقدسہ میں ایک رسول کی آمد کا ذکر ہے جس کا نام احمد ہے اور اس کی تعیین ہم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر کرتے ہیں۔ مگر قادیانی آپ کو اسمہ احمد والی پیشگوئی کا مصداق نہیں مانتے بلکہ ان کے نزدیک اس آیت کا مصداق مرزا غلام احمد قادیانی ہے۔ مگر دراصل بات اور ہے۔ یہ لوگ نہ قرآن کو مانتے ہیں نہ حدیث نبوی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس بات کی تشریح کردی ہے کہ میں اس کا مصداق ہوں۔
(۱)
عن جبیر بن مطعم قال سمعت النبی ﷺ یقول ان لی اسماء انا محمد وانا احمد وانا الما حی الذی یمحو اللّٰہ بالکفر وانا الحاشر الذی یحشر الناس علیٰ قدمی وانا العاقب الذی لیس بعدی نبی۔(۱۱۴۴)
''حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کہا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے تھے کہ میرے لیے نام ہیں میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں، اور میں ماحی ہوں مٹاوے گا اللہ میرے ساتھ کفر کو اور میں حاشر ہوں کہ اٹھائے جائیں گے لوگ میرے قدم پر، اور میں عاقب ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔''
مندرجہ بالا حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پانچ نام بتائے ہیں۔ مگر پہلے دو ناموں کی تشریح نہیں کی کیونکہ وہ ذاتی نام ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور احمد صلی اللہ علیہ وسلم مگر دوسرے نام صفاتی ہیں لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تشریح کردی۔
(۲) مشکوٰۃ المصابیح باب فضائل سید المرسلین میں ایک مرفوع روایت کے الفاظ یوں ہیں:
وَسَاُخْبِرُکُمْ بِاَوَّلِ اَمْرِیْ دَعْوَۃُ اِبْرَاھِیْمَ وَبَشَارَۃَ عِیْسٰی اور اب خبر دوں تم کو ساتھ اول امر اپنے کے کہ وہ دعا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہے اور خوشخبری دینا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے
وَدَعْوَۃُ اِبْرَاھِیْمَ فرما کر اس دعائے خلیل کی طرف اشارہ کیا ہے جو پارہ اول سورہ البقر کے رکوع میں یوں مذکور ہے رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوَلاً مِّنْھمٌاے ہمارے رب بھیج ان عربوں میں ایک رسول ان میں سے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت عیسیٰ کے متعلق (وبشارۃ عیسیٰ) فرما کر اس نوید مسیحا کی طرف اشارہ کیا جو سورۃ الصف میں ہے۔
اِسْمِیْ فِی الْقُرَانِ مُحَمَّد وَفِی الانجیل اَحْمَدُ میرا نام قرآن میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور انجیل میں احمد ہے۔ (خصائص الکبریٰ جلد اول ص۷۸۔ شرح الشفا جلد اول ص۴۸۹۔ مواہب اللّدنیّہ جلد اول ص۱۹۴)
خود مرزا غلام احمد قادیانی نے اس بات کو لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام احمد تھا۔
۱۔ مسیح علیہ السلام کی گواہی قرآن کریم میں اس طرح پر لکھی ہے کہ مبشرا برسول یاتی من بعد اسمہ احمد الخ یعنی میں ایک رسول کی بشارت دیتا ہوں جو میرے بعد یعنی میرے مرنے کے بعد آئے گا اور نام اس کا احمد ہوگا۔ پس اگر مسیح اب تک اس عالم جسمانی سے گزر نہیں گیا تو اس سے لازم آتا ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اب تک اس عالم میں تشریف فرما نہیں ہوئے کیونکہ نص اپنے کھلے کھلے الفاظ سے بتلا رہی ہے کہ جب مسیح اس عالم جسمانی سے رخصت ہو جائے گا۔ تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس عالم جسمانی میں تشریف لائیں گے۔(۱۱۴۷)
۲۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام احمد وہ ہے جس کا ذکر حضرت مسیح نے کیا۔
یَاتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہٗ اَحْمَدُ کا لفظ ظاہر کرتا ہے کہ وہ نبی میرے بعد بلا فصل آئے گا۔ یعنی میرے اور اس کے درمیان اور کوئی نبی نہ ہوگا۔(۱۱۴۸)
۳۔ اور اس فرقہ کا نام فرقہ احمدیہ اس لیے رکھا گیا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو نام تھے ایک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، دوسرا احمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ (۱۱۴۹)
۴۔ رسالہ اربعین مطبوعہ ۱۹۰۲ء نمبر ۴ ص۱۵ پر لکھا ہے: '' تم سن چکے ہو کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو نام ہیں (۱) ایک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور یہ نام تورایت میں لکھا ہے دوسرا نام احمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور یہ نام انجیل میں ہے جو ایک اجمالی رنگ میں تعلیم الٰہی ہے جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہے:
وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہٗ اَحَمَدُ۔(۱۱۵۰)
نکتہ(۱): ویَّاتِیْ مِنْ بَعْدِیْ کہ وہ میرے بعد آئے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ایک اپنے مثیل نبی کے آنے کی خبر دی ہے مگر یہ نہیں کہا کہ وہ میرے بعد آئے گا۔ اگر یہ ہوتا کہ قیامت تک کبھی آجائے۔ تو ان الفاظ
(یَّاتِیْ مِنْ بَعْدِیْ) کی کوئی تعیین نہیں ہوتی بلکہ یہ بے معنی بات نعوذ باللہ قرآن نے کہہ دی اتنا کافی تھا مبشرا برسول اسمہ احمد۔
نکتہ(۲): فلما جاء میں جاء ماضی کا صیغہ ہے اگر کوئی کہے کہ ماضی کے معنی مستقبل کے بھی ہوتے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب تک کوئی قرینہ صارفہ نہ ہو۔ تب تک ماضی کے معنی مستقبل ہرگز نہیں ہوسکتے۔ پھر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو اس کا مصداق ٹھہراتے ہیں۔ پھر ہم کون ہیں۔ نیز جاء کا اطلاق عام طور پر فعل ماضی پر ہوتا ہے۔ بخلاف لفظ اتیٰ کے کہ یہ مضارع کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
نکتہ (۳): قالوا ھٰذا سحر مبین میں قالوا ماضی کا صیغہ ہے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جادوگر کہتے تھے
وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْھِمْ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍ ... وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ لِلْحَقِّ لَمَّا جَائَ ھُْ انْ ھٰذَا اِلاَّ سِحْرٌ مبین(سورۃ سبا پارہ۲۲) مگر مرزا صاحب کو تو کوئی ہندو یا عیسائی جادوگر نہیں کہتا۔ بلکہ دوسرے القاب سے یاد کرتے ہیں مثلاً دجال کذاب، مفتری علی اللہ وغیرہ وغیرہ۔(۱۱۵۱)
نوٹ: مرزا صاحب کا نام غلام احمد تھا نہ کہ احمد، مرزا جی لکھتے ہیں کہ '' میرا نام غلام احمد میرے والد صاحب کا نام غلام مرتضیٰ'' (۱۱۵۲) اس چیز کی تصدیق مندرجہ ذیل کتاب سے ہوتی ہے۔(۱۱۵۳)
----------------------
(۱۱۴۴) ترمذی مع تحفہ ص۳۰، ج۴ باب ماجاء فی اسماء النبی صلی اللہ علیہ وسلم و فتح الباری ص۴۳۵، ج۶ باب ماجاء فی اسماء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
(۱۱۴۵) اخرجہ احمد فی مسندہٖ ص۱۲۷، ۱۲۸،ج۴ والبدار فی مسندہٖ اوردہ الھیثمی فی کشف الاستار ص۱۱۳،۳ کتاب علامات النبوۃ باب قدم نبوتہ وابن حبان فی صحیحہٖ رقم الحدیث ۶۳۷۰ ص۱۰۶،ج۹ والطبرانی فی المعجم الکبیر ص۲۵۲ج۱۸ الحدیث ۶۲۹ والحاکم فی المستدرک ص۶۰۰، ج۲ کتاب التاریخ باب زکر اخبار سید المرسلین وقال صحیح الاسناد وأقرہ الذھبی وابو نعیم فی حلیۃ الاولیاء ص۸۹، ج۹ فی ترجمۃ ابوبکر الفسانی والبیھقی فی دلائل النبوۃ ص۱۳۰، ج۲ جماع ابواب المبعث باب الوقت الذی کتب فیہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبیا، والبغوی فی شرح السنۃ ص۲۰۷،ج۱۳ کتاب الفضائل باب فضائل سید الاولین والاخرین محمد صلی اللہ علیہ وسلم الحدیث نمبر ۳۶۲۶ واوردہ مرزا محمود فی تفسیرہ ص۱۹۵، ج۲ الکبیر۔
(۱۱۴۶) اے امام ابن عدی نے، الکامل میں روایت کیا ہے مگر اس میں ایک راوی اسحاق بن بشر بخاری کذاب ہے، دیکھئے میزان الاعتدال ص۱۸۴، ج۱ علامہ شوکانی فرماتے ہیں۔ فی اسنادہ وضاع، یعنی اس کی سند میں ایسے راوی ہیں جو کہ احادیث گھڑ لیا کرتے تھے، الفوائد المجموعہ ص۳۲۶ جب صحیح حدیث موجود ہے کہ میرا نام احمد بھی ہے، جیسا کہ ۱۱۴۴، ۱۱۴۵ میں یہ حدیث گذر چکی ہے تو پھر ایسی من گھڑت حدیث بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ ابوصہیب
(۱۱۴۷) آئینہ کمالات اسلام ص۴۲ و تفسیر مرزا ص۱۰۹، ج۸
(۱۱۴۸) الحکم جلد ۵ نمبر ۴ مورخہ ۳۱؍ جنوری ۱۹۰۱، ص۱۱ و ملفوظات مرزا ص۴۴۲، ج۱
(۱۱۴۹) اشتہار مرزا مورخہ ۴؍ نومبر ۱۹۰۰ مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۳۶۵، ج۳
(۱۱۵۰) اربعین ۴ ص۱۳ و روحانی ص۴۴۳، ج۱۷
(۱۱۵۱) پ۲۲ سبا آیت نمبر ۴۴
(۱۱۵۲) کتاب البریہ ص۱۴۲ و روحانی ص۱۶۲ ج ۱۳
(۱۱۵۳) تحفہ شہزادہ ویلز ص۲۹ مؤلفہ مرزا محمود ، وکشف الغطاء ص۲ و روحانی ص ۷۹، ج۴ اور دافع البلاء ص۱۳ و روحانی ص۲۳۳، ج۱۸ ، و تاریخ احمدیت ص۶۷، ج۱ و حیات طیبہ ص۱۱ و مجدد اعظم ص۱،ج۱ و سلسلہ احمدیہ ص۹ و حیات احمدص ۱۰۲، ج۴ و ذکر حبیب ص۳۴۰ و تذکرۃ المھدی ص۲۸۷، ج۱ و گلزار احمد ص۲۱، ج۱ و سیرۃ المھدی ص۱، ج۱ وغیرہ