• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمدیہ پاکٹ بک

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
مسلمانوں سے انتہائی دشمنی کے ثبوت میں حسب ذیل حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں:

مخالفین کو موت کے گھاٹ اتارنا:
انتقام لینے کا زمانہ اب زمانہ بدل گیا ہے دیکھو پہلے جو مسیح آیا تھا اسے دشمنوں نے صلیب پر چڑھایا مگر اب مسیح اس لیے آیا کہ اپنے مخالفین کو موت کے گھاٹ اتارے۔ حضرت مسیح موعود نے مجھے یوسف قرار دیا ہے میں کہتا ہوں مجھے یہ نام دینے کی کیا ضرورت تھی۔ یہی کہ پہلے یوسف کی جو ہتک کی گئی ہے اس کا میرے ذریعہ ازالہ کردیا جائے پس وہ تو ایسا یوسف تھا جسے بھائیوں نے گھر سے نکالا تھا۔ مگر اس یوسف نے اپنے دشمن بھائیوں کو گھر سے نکال دیا۔ پس میرا مقابلہ آسان نہیں۔(۱۱۴۲)
مخالفین کو سولی پر لٹکانا:
'' خدا تعالیٰ نے آپ (مرزا غلام احمد) کا نام عیسیٰ رکھا ہے تاکہ آپ سے پہلے عیسیٰ کو تو یہودیوں نے سولی پر لٹکایا تھا مگر آپ زمانہ کے یہودی صفت لوگوں کو سولی پر لٹکائیں۔''(۱۱۴۳)
----------------------------------
(۱۱۴۲) عرفان الٰہی ص۹۴، ۹۵
(۱۱۴۳) تقدیر الٰہی ص۲۹
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
بشارت اسمہ احمد

وَاِِذْ قَالَ عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ یَابَنِیْ اِِسْرَآئِیلَ اِِنِّی رَسُوْلُ اللّٰہِ اِِلَیْکُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَاْتِی مِنْ بَعْدِی اسْمُہُ اَحْمَدُ فَلَمَّا جَائَ ہُمْ بِالْبَیِّنَاتِ قَالُوْا ہٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ ۔(سورۂ الصف: رکوع۱)
'' اور جس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اے بنی اسرائیل تحقیق میں تمہاری طرف خدا کا رسول ہوں ماننے والا اس چیز کو کہ آگے میرے ہے توریت سے اور خوشخبری دینے والا ساتھ ایک رسول کے کہ میرے بعد آے گا نام اس کا احمد ہے۔ پس جب وہ ان لوگوں کے پاس کھلی کھلی دلیلوں کے ساتھ آیا، تو انہوں نے کہا یہ تو کھلا کھلا جادو ہے۔''
ناظرین کرام! اس آیت مقدسہ میں ایک رسول کی آمد کا ذکر ہے جس کا نام احمد ہے اور اس کی تعیین ہم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر کرتے ہیں۔ مگر قادیانی آپ کو اسمہ احمد والی پیشگوئی کا مصداق نہیں مانتے بلکہ ان کے نزدیک اس آیت کا مصداق مرزا غلام احمد قادیانی ہے۔ مگر دراصل بات اور ہے۔ یہ لوگ نہ قرآن کو مانتے ہیں نہ حدیث نبوی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس بات کی تشریح کردی ہے کہ میں اس کا مصداق ہوں۔
(۱) عن جبیر بن مطعم قال سمعت النبی ﷺ یقول ان لی اسماء انا محمد وانا احمد وانا الما حی الذی یمحو اللّٰہ بالکفر وانا الحاشر الذی یحشر الناس علیٰ قدمی وانا العاقب الذی لیس بعدی نبی۔(۱۱۴۴)
''حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کہا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے تھے کہ میرے لیے نام ہیں میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں، اور میں ماحی ہوں مٹاوے گا اللہ میرے ساتھ کفر کو اور میں حاشر ہوں کہ اٹھائے جائیں گے لوگ میرے قدم پر، اور میں عاقب ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔''
مندرجہ بالا حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پانچ نام بتائے ہیں۔ مگر پہلے دو ناموں کی تشریح نہیں کی کیونکہ وہ ذاتی نام ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور احمد صلی اللہ علیہ وسلم مگر دوسرے نام صفاتی ہیں لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تشریح کردی۔
(۲) مشکوٰۃ المصابیح باب فضائل سید المرسلین میں ایک مرفوع روایت کے الفاظ یوں ہیں:
وَسَاُخْبِرُکُمْ بِاَوَّلِ اَمْرِیْ دَعْوَۃُ اِبْرَاھِیْمَ وَبَشَارَۃَ عِیْسٰی اور اب خبر دوں تم کو ساتھ اول امر اپنے کے کہ وہ دعا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہے اور خوشخبری دینا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وَدَعْوَۃُ اِبْرَاھِیْمَ فرما کر اس دعائے خلیل کی طرف اشارہ کیا ہے جو پارہ اول سورہ البقر کے رکوع میں یوں مذکور ہے رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوَلاً مِّنْھمٌاے ہمارے رب بھیج ان عربوں میں ایک رسول ان میں سے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت عیسیٰ کے متعلق (وبشارۃ عیسیٰ) فرما کر اس نوید مسیحا کی طرف اشارہ کیا جو سورۃ الصف میں ہے۔
اِسْمِیْ فِی الْقُرَانِ مُحَمَّد وَفِی الانجیل اَحْمَدُ میرا نام قرآن میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور انجیل میں احمد ہے۔ (خصائص الکبریٰ جلد اول ص۷۸۔ شرح الشفا جلد اول ص۴۸۹۔ مواہب اللّدنیّہ جلد اول ص۱۹۴)
خود مرزا غلام احمد قادیانی نے اس بات کو لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام احمد تھا۔
۱۔ مسیح علیہ السلام کی گواہی قرآن کریم میں اس طرح پر لکھی ہے کہ مبشرا برسول یاتی من بعد اسمہ احمد الخ یعنی میں ایک رسول کی بشارت دیتا ہوں جو میرے بعد یعنی میرے مرنے کے بعد آئے گا اور نام اس کا احمد ہوگا۔ پس اگر مسیح اب تک اس عالم جسمانی سے گزر نہیں گیا تو اس سے لازم آتا ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اب تک اس عالم میں تشریف فرما نہیں ہوئے کیونکہ نص اپنے کھلے کھلے الفاظ سے بتلا رہی ہے کہ جب مسیح اس عالم جسمانی سے رخصت ہو جائے گا۔ تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس عالم جسمانی میں تشریف لائیں گے۔(۱۱۴۷)
۲۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام احمد وہ ہے جس کا ذکر حضرت مسیح نے کیا۔ یَاتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہٗ اَحْمَدُ کا لفظ ظاہر کرتا ہے کہ وہ نبی میرے بعد بلا فصل آئے گا۔ یعنی میرے اور اس کے درمیان اور کوئی نبی نہ ہوگا۔(۱۱۴۸)
۳۔ اور اس فرقہ کا نام فرقہ احمدیہ اس لیے رکھا گیا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو نام تھے ایک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، دوسرا احمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ (۱۱۴۹)
۴۔ رسالہ اربعین مطبوعہ ۱۹۰۲ء نمبر ۴ ص۱۵ پر لکھا ہے: '' تم سن چکے ہو کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو نام ہیں (۱) ایک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور یہ نام تورایت میں لکھا ہے دوسرا نام احمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور یہ نام انجیل میں ہے جو ایک اجمالی رنگ میں تعلیم الٰہی ہے جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہے:
وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہٗ اَحَمَدُ۔(۱۱۵۰)
نکتہ(۱): ویَّاتِیْ مِنْ بَعْدِیْ کہ وہ میرے بعد آئے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ایک اپنے مثیل نبی کے آنے کی خبر دی ہے مگر یہ نہیں کہا کہ وہ میرے بعد آئے گا۔ اگر یہ ہوتا کہ قیامت تک کبھی آجائے۔ تو ان الفاظ (یَّاتِیْ مِنْ بَعْدِیْ) کی کوئی تعیین نہیں ہوتی بلکہ یہ بے معنی بات نعوذ باللہ قرآن نے کہہ دی اتنا کافی تھا مبشرا برسول اسمہ احمد۔
نکتہ(۲): فلما جاء میں جاء ماضی کا صیغہ ہے اگر کوئی کہے کہ ماضی کے معنی مستقبل کے بھی ہوتے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب تک کوئی قرینہ صارفہ نہ ہو۔ تب تک ماضی کے معنی مستقبل ہرگز نہیں ہوسکتے۔ پھر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو اس کا مصداق ٹھہراتے ہیں۔ پھر ہم کون ہیں۔ نیز جاء کا اطلاق عام طور پر فعل ماضی پر ہوتا ہے۔ بخلاف لفظ اتیٰ کے کہ یہ مضارع کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
نکتہ (۳): قالوا ھٰذا سحر مبین میں قالوا ماضی کا صیغہ ہے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جادوگر کہتے تھے وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْھِمْ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍ ... وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ لِلْحَقِّ لَمَّا جَائَ ھُْ انْ ھٰذَا اِلاَّ سِحْرٌ مبین(سورۃ سبا پارہ۲۲) مگر مرزا صاحب کو تو کوئی ہندو یا عیسائی جادوگر نہیں کہتا۔ بلکہ دوسرے القاب سے یاد کرتے ہیں مثلاً دجال کذاب، مفتری علی اللہ وغیرہ وغیرہ۔(۱۱۵۱)
نوٹ: مرزا صاحب کا نام غلام احمد تھا نہ کہ احمد، مرزا جی لکھتے ہیں کہ '' میرا نام غلام احمد میرے والد صاحب کا نام غلام مرتضیٰ'' (۱۱۵۲) اس چیز کی تصدیق مندرجہ ذیل کتاب سے ہوتی ہے۔(۱۱۵۳)
----------------------
(۱۱۴۴) ترمذی مع تحفہ ص۳۰، ج۴ باب ماجاء فی اسماء النبی صلی اللہ علیہ وسلم و فتح الباری ص۴۳۵، ج۶ باب ماجاء فی اسماء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
(۱۱۴۵) اخرجہ احمد فی مسندہٖ ص۱۲۷، ۱۲۸،ج۴ والبدار فی مسندہٖ اوردہ الھیثمی فی کشف الاستار ص۱۱۳،۳ کتاب علامات النبوۃ باب قدم نبوتہ وابن حبان فی صحیحہٖ رقم الحدیث ۶۳۷۰ ص۱۰۶،ج۹ والطبرانی فی المعجم الکبیر ص۲۵۲ج۱۸ الحدیث ۶۲۹ والحاکم فی المستدرک ص۶۰۰، ج۲ کتاب التاریخ باب زکر اخبار سید المرسلین وقال صحیح الاسناد وأقرہ الذھبی وابو نعیم فی حلیۃ الاولیاء ص۸۹، ج۹ فی ترجمۃ ابوبکر الفسانی والبیھقی فی دلائل النبوۃ ص۱۳۰، ج۲ جماع ابواب المبعث باب الوقت الذی کتب فیہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبیا، والبغوی فی شرح السنۃ ص۲۰۷،ج۱۳ کتاب الفضائل باب فضائل سید الاولین والاخرین محمد صلی اللہ علیہ وسلم الحدیث نمبر ۳۶۲۶ واوردہ مرزا محمود فی تفسیرہ ص۱۹۵، ج۲ الکبیر۔
(۱۱۴۶) اے امام ابن عدی نے، الکامل میں روایت کیا ہے مگر اس میں ایک راوی اسحاق بن بشر بخاری کذاب ہے، دیکھئے میزان الاعتدال ص۱۸۴، ج۱ علامہ شوکانی فرماتے ہیں۔ فی اسنادہ وضاع، یعنی اس کی سند میں ایسے راوی ہیں جو کہ احادیث گھڑ لیا کرتے تھے، الفوائد المجموعہ ص۳۲۶ جب صحیح حدیث موجود ہے کہ میرا نام احمد بھی ہے، جیسا کہ ۱۱۴۴، ۱۱۴۵ میں یہ حدیث گذر چکی ہے تو پھر ایسی من گھڑت حدیث بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ ابوصہیب
(۱۱۴۷) آئینہ کمالات اسلام ص۴۲ و تفسیر مرزا ص۱۰۹، ج۸
(۱۱۴۸) الحکم جلد ۵ نمبر ۴ مورخہ ۳۱؍ جنوری ۱۹۰۱، ص۱۱ و ملفوظات مرزا ص۴۴۲، ج۱
(۱۱۴۹) اشتہار مرزا مورخہ ۴؍ نومبر ۱۹۰۰ مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۳۶۵، ج۳
(۱۱۵۰) اربعین ۴ ص۱۳ و روحانی ص۴۴۳، ج۱۷
(۱۱۵۱) پ۲۲ سبا آیت نمبر ۴۴
(۱۱۵۲) کتاب البریہ ص۱۴۲ و روحانی ص۱۶۲ ج ۱۳
(۱۱۵۳) تحفہ شہزادہ ویلز ص۲۹ مؤلفہ مرزا محمود ، وکشف الغطاء ص۲ و روحانی ص ۷۹، ج۴ اور دافع البلاء ص۱۳ و روحانی ص۲۳۳، ج۱۸ ، و تاریخ احمدیت ص۶۷، ج۱ و حیات طیبہ ص۱۱ و مجدد اعظم ص۱،ج۱ و سلسلہ احمدیہ ص۹ و حیات احمدص ۱۰۲، ج۴ و ذکر حبیب ص۳۴۰ و تذکرۃ المھدی ص۲۸۷، ج۱ و گلزار احمد ص۲۱، ج۱ و سیرۃ المھدی ص۱، ج۱ وغیرہ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
ڈاکٹر عبدالحکیم خاں:
'' ہاں آخری دشمن اب ایک اور پیدا ہوا ہے جس کا نام عبدالحکیم خاں ہے اور وہ ڈاکٹر ہے اور ریاست پٹیالہ کا رہنے والا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ میں اس کی زندگی میں ہی ۴؍ اگست ۱۹۰۸ء تک ہلاک ہو جاؤں گا۔ مگر خدا نے اس کی پیشگوئی کے مقابل پر مجھے خبر دی کہ وہ خود عذاب میں مبتلا کیا جاوے گا اور خدا اس کو ہلا ک کرے گا اور میں اس کے شر سے محفوظ رہوں گا۔ سو یہ وہ مقدمہ ہے جس کا فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے بلاشبہ یہ سچ بات ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی نظر میں صادق ہے خدا اس کی مدد کرے گا۔'' (۱۱۵۴)
'' اور دشمن ڈاکٹر عبدالحکیم جو میری موت چاہتا ہے وہ خود میری آنکھوں کے رو برو اصحاب الفیل کی طرح نابود اور تباہ ہوگا۔'' (۱۱۵۵)
مندرجہ بالا تحریرات میں مرزا صاحب نے بالہام خود ڈاکٹر عبدالحکیم خاں مرحوم کی ہلاکت اپنی زندگی میں بتائی ہے۔ حالانکہ ڈاکٹر صاحب مرحوم مرزا صاحب سے کئی سال بعد فوت ہوئے۔
اعتراض:
ڈاکٹر عبدالحکیم اپنی پیش گوئی کو منسوخ کرچکا تھا۔ (۱۱۵۶)
الجواب:
ڈاکٹر صاحب کی پیش گوئی کا ذکر نہیں ۔ بلکہ مرزا صاحب کی الہامی پیش گوئی پیش کی ہے:
جن کا دعویٰ ہے کہ:
'' میں امام الزمان ہوں۔ـ'' (۱۱۵۷) اور '' امام الزمان کی الہامی پیش گوئیاں اظہار علی الغیب کا مرتبہ رکھتی ہیں یعنی غیب کو ہر ایک پہلو سے اپنے قبضہ میں کرلیتے۔ جیسا کہ چابک سوار گھوڑے کو۔'' (۱۱۵۸)
کہ '' خدا اس کو میری زندگی میں ہلاک کرے گا اور میں اس کے شر سے محفوظ رہوں گا۔''
اور یہ پیشگوئی از سر تا پا جھوٹی نکلی۔
----------------------
(۱۱۵۴) چشمہ معرفت ص۳۲۱ تا ۳۲۲ و روحانی ص۳۳۷ اشتہارات مرزا ص۵۹۱، ج۳
(۱۱۵۶) حاشیہ تذکرہ ص۷۳۹ و احمدیہ پاکٹ بک ص۸۱۵
(۱۱۵۷) ضرورت الامام ص۲۴ و روحانی ص۴۹۵ ج ۱۳
(۱۱۵۸) ایضاً ص۱۳ و روحان ص۴۸۳ج۱۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
باب دوم
ختم نبوت
مرزا صاحب کے کاذب ہونے پر گیارہوں دلیل

'' دنیا میں جو غرض انبیاء و رسل کی بعثت کی اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی تھی وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ذات میں اپنے کمال کو پہنچ کر پوری ہوگئی اور جب غرض پوری ہوگئی تو اس کے بعد اب کسی نبی کے آنے کی حاجت باقی نہ رہی۔ ہدایت کے تمام پہلوؤں کو کمال بسط کے ساتھ اور تمام ضروری تفصیلات کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں روشن کردیا۔ جتنی روشنی مکانی طور پر انسان سرچشمۂ الوہیت سے حاصل کرسکتا ہے ، وہ سب حاصل کرلی جو کوئی ہدایت دنیا کی کسی قوم کے لیے آئندہ آنے والے کسی زمانہ کے لیے ایک قوم، ایک ملک یا ایک فرد کے ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ سے اعلیٰ حالت تک تزکیہ اور تکمیل نفس کا کام دے سکتی ہے اس کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں پہنچا دیا، نبوت اپنے کمال کو پہنچ گئی۔ نبی کی ضرورت دنیا میں تکمیل انسانی کے کسی نئے پہلو کو واضح کرنے کے لیے ہوتی تھی لیکن قرآن نے چونکہ تکمیل انسانی کے سارے پہلوؤں کو کمال تک پہنچا دیا اس لیے کسی نئے نبی کی ضرورت بھی نہ رہی۔ نبوت کے ختم ہونے سے مراد یہ نہیں کہ ایک نعمت جو پہلے انسانوں کو ملتی تھی، اب اس کا ملنا بند ہوگیا ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ نعمت اپنے پورے کمال کے ساتھ انسانوں کو پہنچا دی گئی۔ ہم نعمت نبوت سے محروم نہیں بلکہ وہ نعمت اپنی اعلیٰ ترین صورت میں ہمارے پاس موجود ہے، جس طرح آفتاب کے بعد چراغ کی ضرورت نہیں رہتی اس لیے کہ اس کی روشنی انسانوں کو چراغ کا محتاج نہیں چھوڑتی۔ اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے آفتاب کے طلوع ہونے کے بعد کسی چراغ نبوت کی انسانوں کو ضرورت نہیں۔'' (۱)
------------------------------------------
تخریج باب دوم
(۱) النبوۃ فی الاسلام ص۷۴ مؤلفہ محمد علی مرزائی طبعہ ۱۹۷۴
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
ختم نبوت کا ثبوت از قرآن:
۱۔ مَاکَان مُحمدا بااحد من رجالکم ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین۔(۲) محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی مرد کا باپ نہیں مگر وہ رسول اللہ ہیں ختم کرنے والے نبیوں کے۔ یہ آیت صاف دلالت کر رہی ہے کہ بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی رسول دنیا میں نہیں آئے گا۔(۳)
وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ اَلاَ تَعْلَمُ اَنَّ رَبَّ الرَّحِیْمَ المتفضل سَمّٰی نَبِیَّا ﷺ وَخاتِمَ الْاَنَبِیَائِ بَغَیَر اسْتَثَنَاء وفسرہ نبیاء ﷺ فی قولہٖ لا نَبِی بعدی ببیان واضح للطالبین۔(۴)
کیا تم نہیں جانتے (اے بے سمجھ مرزائیو!) کہ خدا رحیم و کریم نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر کسی استثناء کے خاتم الانبیاء قرار دیا ہے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خاتم النبیین کی تفسیر لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ کے ساتھ فرمائی ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا اور طالبین حق کے لیے یہ بات واضح ہے:
'' حدیث لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ میں بھی (لَا) نفی عام ہے۔'' (۵)
'' ہست او خیر الرسل خیر الانام
ہر نبوت رابرو شد اختتام (۶)
'' آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرما دیا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور حدیث لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ ایسی مشہور تھی کہ کسی کو اس کی صحت میں کلام نہ تھا اور قرآن شریف جس کا لفظ لفظ قطعی ہے اپنی آیۂ کریمہ ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین سے بھی اس کی تصدیق کرتا ہے کہ فی الحقیقت ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہوچکی ہے۔'' (کتاب البریت مصنفہ مرزا ص۱۸۴) (۷)
مرزا صاحب نے اس آیت کی تفسیر میں جس حدیث کا حوالہ دیا ہے وہ یہ ہے اَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ لَا نَبِیِّ بَعدِیْ (مشکوٰۃ الفتن) میں نبیوں کا ختم کرنے والا ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
----------------------------------
(۲) پ۲۳ الاحزاب آیت نمبر ۴۱
(۳) ازالہ اوہام ص۶۱۴ و روحانی ص۴۳۱، ج۳ و تفسیر مرزا ص۵۲،ج۷
(۴) حمامۃ البشرٰی الٰی اھل مکۃ و صلحاء ام القریٰ ص۲۰ و روحانی ص۲۰۰، ج۷
(۵) ایام الصلح ص۱۴۶ و روحانی ص۳۹۳، ج۱۴
(۶) سراج منیر ص۹۳ و روحانی ص۹۵ ج۱۲
(۷) کتاب البریہ ص۱۸۴ و روحانی ص۲۱۸، ج۱۳ و تفسیر مرزا ص۵۸، ج۷
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
دوسری آیت:
۱۔ الْیَوْمَ اکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنکُمْ واتممت عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا یعنی آج میں نے قرآن کے اتارنے اور تکمیل نفوس سے تمہارا دین تمہارے لیے کامل کردیا اور اپنی (نبوت کی) نعمت تم پر پوری کردی اور تمہارے لیے دین اسلام پسند کرلیا۔ حاصل مطلب کہ قرآن کریم جس قدر نازل ہونا تھا ہوچکا اور مستعد دلوں میں نہایت حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا کرچکا اور تربیت کو کمال تک پہنچا دیا اور اپنی نعمت کو ان پر پورا کردیا۔''(۹)
۲۔ قرآن شریف جیسا کہ آیت اَلْیَوْمَ اکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ اور آیت ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین میں صریح نبوت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کرچکا ہے اور صریح لفظوں میں فرما چکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں۔(۱۰)
۳۔ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو مخاطب کیا کہ میں نے تمہارے دین کو کامل کیا اور تم اپنی نعمت پوری کی اور اس آیت کو اس طور سے نہ فرمایا کہ آج میں نے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کے دین کو کامل کردیا۔ اس میں حکمت یہ ہے تاکہ ظاہر ہو کہ صرف قرآن کی تکمیل نہیں ہوئی بلکہ ان کی بھی تکمیل ہوگئی جن کو قرآن پہنچایا گیا اور رسالت کی علت غائی کمال تک پہنچ گئی۔ (حاشیہ نور القرآن نمبر۱، ص۱۹) (۱۱)
۴۔ ہم لوگ ختم ہونا وحی کا مانتے ہیں۔ گو کلام الٰہی اپنی ذات میں غیر محدود ہے لیکن چونکہ وہ مفاسد جن کی اصلاح کے لیے کلام الٰہی نازل ہوئی ہے ( یا رسول آتے ہیں۔ ناقل) وہ قدر محدود سے زیادہ نہیں اس لیے کلام الٰہی بھی اسی قدر نازل ہوئی جس قدر نبی آدم کو ضرورت تھی اور قرآن ایسے زمانے میں آیا کہ جس میں ہر طرح کی ضرورتیں جن کا پیش آنا ممکن تھا پیش آگئی تھیں۔ اس لیے قرآن شریف کی تعلیم بھی انتہائی درجہ پر نازل ہوئی پس انہی معنوں میں شریعت فرقانی مختم و مکمل ٹھہری اور پہلی شریعتیں ناقص رہیں۔ اب قرآن اور دوسری کتابوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی کتابیں خلل سے بھی محفوظ رہتیں تاہم بوجہ ناقص ہونے کے تعلیم کے ضرور تھا کہ کسی وقت کامل تعلیم یعنی قرآن ظہور ہوتا مگر قرآن کے لیے اب یہ ضرورت در پیش نہیں کہ بعد کوئی کتاب آوے کمال کے بعد اور کوئی درجہ باقی نہیں۔ ہاں اگر فرض کیا جائے کہ اصول قرآن دید اور انجیل کی طرح مشرکانہ بنائے جائیں گے یا مسلمان شرک اختیار کرلیں گے تو بیشک ایسی صورتوں میں دوسری شریعت اور دوسرے رسول کا آنا ضروری ہے مگر یہ دونوں قسم کے فرض محال ہیں۔ قرآن شریف کا محرف ہونا اس لیے محال ہے کہ خدا نے خود فرمایا ہے: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ یعنی اس کتاب کو ہم نے ہی نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں اور مسلمانوں کا شرک اختیار کرنا اس جہت سے ممتنعات سے ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس بارے میں بھی پیشگوئی کرکے فرما دیا وَمَا یُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا یُعِیْدُیعنی شرک مخلوق پرستی نہ اپنی کوئی شاخ نکالے گی نہ پہلی حالت پر عود کرے گی۔ پس ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حقیقت میں خاتم الرسل ہیں۔ (۱۲)
-----------------------
(۸) المائدہ آیت نمبر ۴
(۹) نور القرآن ص۱۵تا۲۰ نمبر ۱ و روحانی ص۳۴۴ تا ۳۴۹، ج۹ و تفسیر مرزا ص۱۳، ج۴
(۱۰) تحفہ گولڑویہ ص۵۱ و روحانی ص۱۷۴، ج۱۳ و تفسیر مرزا ص۵۴، ج۷
(۱۱) حاشیہ نور القران نمبر۱، ص۱۹ و روحانی ص۳۵۲، ج۹ و تفسیر مرزا ص۱۳ ج۴
(۱۲) براھین احمدیہ ص۱۰۹، تا ۱۱۱،ج۲ حاشیہ نمبر ۹ و روحانی ص۱۰۱،ج۱ و تفسیر مرزا ص۳۲۸، ج۵
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
تیسری آیت:
وَمَآ اَرْسَلْنْکَ اِلاَّ کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَّذِیْرًا۔(۱۳)
'' آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم افضل الانبیاء اور سب رسولوں سے بہتر اور بزرگ تر تھے۔ اور خدا تعالیٰ کو منظور تھا کہ جیسے آنحضرت اپنے ذاتی جوہر سے انبیاء کے سردار ہیں ایسا ظاہری خدمات کی رو سے ان کا سب سے فائق اور برتر ہونا دنیا پر ظاہر ہو جائے اس لیے خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت گو کافۃً بنی آدم کے لیے عام رکھا۔'' (۱۴)
جب دنیا نے اتحاد اور اجتماع کے لیے پلٹا کھایا اور ایک ملک کو دوسرے ملک سے ملاقات کرنے کے سامان پیدا ہوگئے تب وہ وقت آگیا کہ قومی تفرقہ درمیان سے اٹھا دیا جائے اور ایک کتاب کے ماتحت سب کو کیا جائے تب خدا نے سب دنیا کے لیے ایک ہی نبی بھیجا تاکہ وہ سب قوموں کو ایک ہی مذہب پر جمع کرے اور تا جیسا کہ ابتدا میں ایک قوم تھی آخر میں بھی ایک ہی قوم بنا دے۔(۱۵)
معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام بنی نوع آدم کے لیے رسول ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت اور خدا کی اس حکمت کے لیے ہے کہ ابتدا کی طرح انتہا میں بھی ایک ہی قوم اور ایک ہی رسول ہو۔ پس جو شخص اس وحدت میں خلل انداز ہوتا ہے وہ نہ صرف خدا کی حکمت کو باطل کرنا چاہتا ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی سیرت کا دشمن ہے۔
-----------------
(۱۳) پ۲۲ سبا آیت نمبر ۲۸
(۱۴) براھین احمدیہ ص۵۴۵، ج۴ و روحانی ص۶۵۳ج۱
(۱۵) چشمہ معرفت ص۱۳۶ و روحانی ص۱۴۰، ج۲۳ و تفسیر مرزا ص۸۷، ج۶
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
چوتھی و پانچویں آیت:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام انجیل میں فرماتے ہیں کہ مجھے دوسری قوموں سے سروکار نہیں۔ قرآن شریف میں یہ نہیں لکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف قریش کے لیے بھیجے گئے بلکہ لکھا ہے کہ قُلْ یٰأَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا۔میں تمام دنیا کے لیے بھیجا گیا ہوں وَمَآ اَرْسَلْنَکَ اِلاَّ رَحَمَۃً لِلْعَلَمِیْنَ یعنی ہم نے کسی خاص قوم پر رحمت کرنے کے لیے نہیں بھیجا بلکہ اس لیے بھیجا ہے کہ تمام جہان پر رحمت کی جائے پس جیسا کہ خدا تمام جہان کا خدا ہے ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کے لیے رسول ہیں اور تمام دنیا کے لیے رحمت ہیں۔ (۱۶)
پس جس طرح دوسرا خدا ماننے والا مشرک ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مدعی نبوت کو ماننے والا مشرک ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمتِ عامہ میں حائل ہو کر لعنت میں گرفتار ہو رہا ہے۔(۱۷)
----------------
(۱۶) ضمیمہ چشمہ معرفت ص۱۶ و روحانی ص۳۸۸، ج۲۳ و تفسیر مرزا ص۱۰۷، ج۶
(۱۷) الفرقان آیت نمبر ۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
چھٹی آیت:
لِیَکُوْنَ لِلْعَالَمِیْنَ نَّذِیْرًا یعنی ہم نے تجھ کو بھیجا تاکہ تو دنیا کی تمام قوموں کو ڈراوے۔(۱۸)
جبکہ حسب قرآن پاک تمام دنیا کے لیے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نذیر ہیں تو اب کسی دوسرے کا یہ کہنا کہ '' دنیا میں ایک نذیر آیا'' صریح منافی قرآن ہے۔
---------------------------------
(۱۸) نور القران نمبر ۱، ص۵ و روحانی ص۳۳۶، ج۹ و تفسیر مرزا ص۳۳۱، ج۶
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
ساتویں آیت:
وَاِذْا اَخَذَ اللّٰہُ مِِیْثَاقَ النَّبِیِّیْنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِنْ کِتَاب وَّحکمْۃٍ ثُمَّ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرَنَّہٗ۔(۱۹)
اور یاد کر کہ جب خدا نے تمام رسولوں سے عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت دوں، پھر تمہارے پاس آخری زمانہ میں میرا رسول آئے گا جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرے گا تمہیں اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنی ہوگی۔(۲۰)
مطلب ظاہر ہے کہ:
'' خدا نے اور رسول بھیجے اور کتابیں بھیجیں اور سب کے آخر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا جو خاتم الانبیاء اور خیر الرسل ہے۔'' (۲۱)
---------------------------------
(۱۹) پ۳ اٰل عمران آیت ۸۲
(۲۰) حقیقت الوحی ص۱۳۰ و روحانی ص۱۳۳، ج۲۲ وتفسیر مرزا ص۱۲۶، ج۳
(۲۱) ایضاً ص۱۴۱ و روحانی ص۱۴۵، ج۲۲
 
Top