• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمدیہ پاکٹ بک

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
ضروری گذارش لائق توجہ گورنمنٹ
'' مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے خبر ملی کہ ایک زلزلہ اور آنے والا ہے جو قیامت کا نمونہ ہوگا۔ میں اس بات کی طرف متوجہ ہوں کہ یا تو خدا تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس گھڑی کو ٹال دے اور مجھے اطلاع دے یا پورے طور پر بقید تاریخ اور روز اور وقت اس آنے والے حادثہ سے مطلع فرما دے کیونکہ وہ ہر ایک بات پر قادر ہے اب تک قریباً ایک ماہ سے میرے خیمے باغ میں لگے ہوئے ہیں۔ میں واپس قادیان میں نہیں گیا کیونکہ مجھے معلوم نہیں کہ وقت کب آنے والا ہے میں نے اپنے مریدوں کو بھی نصیحت کی کہ جس کی مقدرت ہو اسے ضروری ہے کہ کچھ مدت خیموں میں باہر جنگل میں رہے (حاشیہ میں لکھا ہے) اس کے واسطے کوئی تاریخ معین نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے کوئی تاریخ میرے پر ظاہر نہیں فرمائی۔ ایسی پیش گوئیوں میں یہی سنت اللہ کی ہے چنانچہ انجیل میں بھی صرف یہ لکھا ہے کہ زلزلے آویں گے مگر تاریخ مقرر نہیں مجھے اب تک قطعی طور پر یہ بھی معلوم نہیں کہ اس زلزلہ سے در حقیقت ظاہری زلزلہ مراد ہے یا کوئی اور شدید آفت ہے جو زلزلہ کا رنگ اپنے اندر رکھتی ہے، اس خوف کو لازم سمجھ کر میں خیموں میں گزارہ کرتا ہوں۔ ایک ہزار روپیہ کے قریب خرچ ہوچکا ہے۔ اس قدر خرچ کون اٹھا سکتا ہے بجز اس کے کہ سچے دل سے آنے والے حادثہ پر یقین رکھتا ہے مجھے بعد میں زلزلہ کی نسبت یہ بھی الہام ہوا تھا۔ '' پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی۔'' اجتہادی طور پر خیال گزرتا ہے کہ ظاہر الفاظ وحی کے چاہتے ہیں کہ یہ پیشگوئی بہار کے ایام میں پوری ہوگی۔'' (۲۰۱)
اس جگہ پھر وہی چالاکی اختیار کی ہے کہ ایک طرف زلزلہ کی بار بار تصریح دوسری طرف احتمال و اہمال بہرحال جو کچھ ہو اس زلزلہ ''یا کوئی اور آفت شدیدہ'' کے جلد نازل و وارد ہونے پر مرزا صاحب کو یقین تھا۔ جو بہ تمام و کمال جھوٹا، خیالی اور وہمی ثابت ہوا۔ آخر انتظار بسیار کے بعد مرزا صاحب اپنا سا منہ لے کر چپکے سے قادیان میں آگئے اور غریب و محنتی مریدوں سے بطور چندہ اکٹھا کیا ہوا ہزار روپیہ کے قریب روپیہ مفت میں خیموں وغیرہ پر برباد ہوا۔ آگے ملاحظہ ہو ضمیمہ نصرۃ الحق ۹۷ اول کے حاشیہ پر لکھا ہے:
'' خدا تعالیٰ کا ایک الہام یہ بھی ہے کہ پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زلزلہ موعودہ کے وقت بہار کے دن ہوں گے اور جیسا کہ بعض الہامات سے سمجھا جاتا غالباً صبح کا وقت ہوگا یا اس کے قریب اور غالباً وہ وقت نزدیک ہے جبکہ وہ پیشگوئی ظہور میں آجائے اور ممکن ہے کہ خدا اس میں کچھ تاخیر ڈال دے ۔ (اس تاخیر کی تعیین اسی صفحہ کے متن میں یہ کی گئی ہے)'' بار بار وحی الٰہی نے مجھے اطلاع دی ہے کہ وہ پیشگوئی میری زندگی میں اور میرے ہی ملک اور میرے ہی فائدے کے لیے ظہو رمیں آئے گی۔ اگر خدا تعالیٰ نے بہت ہی تاخیر ڈال دی تو زیادہ سے زیادہ سولہ سال میں۔ ضرور ہے کہ یہ میری زندگی میں ظہور میں آجائے۔'' (۲۰۲)
با انصاف و باخدا ناظرین! دیکھیے کہاں تو یہ ہما ہمی تھی کہ آسمان سر پر اٹھا لیا تھا کہ زلزلہ آیا کہ آیا حتیٰ کہ مریدوں کے نام سر کلر جاری کردیا کہ مکانوں کو چھوڑ کر باہر ڈیرے لگاؤ اور خود بھی مہینہ بھر باغ میں رہے اور کہاں یہ بے بسی کہ زیادہ سے زیادہ سولہ سال کی تاخیر ہے۔
بھائیو! کیا آپ نے آج تک کوئی راول یا منجم بھی سنایا دیکھا ہے کہ وہ ہر بات میں مغالطہ اور دھوکہ کو ہی دین و ایمان سمجھے؟ یقینا نہیں دیکھا ہوگا مگر ہمارے ''حضرت مرزا صاحب'' ان سے بھی بڑھ چڑھ کر ہیں۔
بہرحال اس تحریر میں اتنا تو ہے کہ اس ملک کی تخصیص اور زندگی کی تعیین کی گئی ہے (شکریہ) اب سوال یہ ہوگا کہ ایسا زلزلہ ملک پنجاب میں مرزا صاحب کی زندگی میں کب آیا؟ اس کا جواب مرزائی یہ دیتے ہیں کہ ۲۸؍ فروری ۶ء کو آیا تھا (۲۰۳)۔ اس کے جواب میں ہم اپنے ناظرین کے انصاف پر فیصلہ چھوڑتے ہیں کہ وہ خدا کو حاضر ناظر سمجھ کر گواہی دیں کہ کیا زلزلہ عظیم اپریل ۱۹۰۵ء کے بعد کا زلزلہ کسی وہم و خیال میں بھی ہے؟ کسی کو یاد ہے؟ ہرگز نہیں حالانکہ زلزلہ موعودہ ایسا زلزلہ تھا کہ:
'' جو پہلے زلزلہ سے بھی بڑھ چڑھ کر، قیامت خیز، ہوش ربا حادثہ محشر کو یاد دلانے والا جو نہ کسی آنکھ نے اس سے پہلے دیکھا نہ کسی نے سنا بلکہ کسی کے وہم میں بھی نہ گزرا ہو، کہاں وہ زلزلہ جو پرندوں کے ہوش و حواس کھو دے، جنوں کو بیخود کردے سمندروں، دریاؤں، شہروں، دیہاتوں کو چکرا ڈالے جس میں اتنے آدمی مریں کی ندیاں خون کی رواں ہوں۔''
پس ہمارے ناظرین خود اندازہ لگا لیں کہ مرزائی اس جواب میں کہاں تک راست گو اور ایماندار ہیں۔ اوہو میں دور چلا گیا۔ ساری دنیا بھی گواہی دیدے تب بھی مرزائی ایمان نہ لائیں گے۔ مجھے تو لازم ہے کہ خود مرزا صاحب کی تحریر سے دکھاؤں کہ ۲۸؍ فروری ۶ء والا زلزلہ بہت ہی معمولی تھا ، احمدی دوستو! سنو اور کان کے پردے کھول کر بے ایمانی، ضدوتعصب کو چھوڑ کر سنو! مرزا صاحب راقم ہیں:
'' وحی الٰہی سے معلوم ہوتا ہے کہ پانچ زلزلے آئیں گے اور پہلے چار کسی قدر ہلکے اور خفیف ہوں گے اور دنیا ان کو معمولی سمجھے گی۔ پھر پانچواں زلزلہ قیامت کا نمونہ ہوگا کہ لوگوں کو سو دائی اور دیوانہ کردے گا یہاں تک وہ تمنا کریں گے کہ اس دن سے پہلے مر جاتے اب یاد رہے کہ اس وقت تک جو ۲۲؍ جولائی ۱۹۰۶ء ہے اس ملک میں تین زلزلے آچکے ہیں یعنی ۲۸؍ فروری ۶ء اور ۲۰ مئی ۶ء اور ۲۱؍ جولائی ۶ء مگر غالباً خدا کے نزدیک یہ زلزلوں میں داخل نہیں کیونکہ بہت ہی خفیف ہیں۔'' الخ (۲۰۴)
ظاہر ہے کہ ۲۸؍ فروری ۶ء والا زلزلہ وہ زلزلہ نہیں جو قیامت کا نمونہ تھا۔ خلاصہ یہ کہ مرزا صاحب کی یہ پیشگوئیاں بھی غلط ہوئیں۔
مرزائی عذر:
اس زلزلہ والی پیشگوئی پر مرزائی ایک عذر یہ کرتے ہیں کہ ۱۹۰۶ء میں مرزا صاحب کو یہ الہاماً بتایا گیا تھا کہ وہ زلزلہ تاخیر میں پڑ گیا۔ لہٰذا زندگی میں نہ آنا قابل اعتراض نہیں۔ (۲۰۵)
الجواب:
تاخیر والا الہام مجمل ہے اس میں کہیں مذکور نہیں کہ بعد زندگی کے آئے گا بخلاف اس کے ہم جو تحریرات مرزا نقل کر آئے ہیں ان میں بالفاظ اصرح ''وحی'' سے بتایا گیا ہے کہ '' وہ زندگی میں آئے گا بڑی سے بڑی تاخیر زندگی تک ہے۔'' اس سے زیادہ نہیں۔ پس یہ عذر سراسر غلط ہے۔
-----------------------------------------------------
(۱۹۱) اشتہار مرزا مورخہ ۸؍ اپریل ۱۹۰۵ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۵۲۲،ج۳ والحکم جلد ۹ نمبر ۱۲ مورخہ ۱۰؍ اپریل ۱۹۰۵ء ص۲ وتذکرہ ص۵۳۴ و تبلیغ رسالت ص۸۰،ج۱۹
(۱۹۲) بدر جلد اول نمبر ۳ مورخہ ۲۰؍اپریل ۱۹۰۵ء ص۱ والحکم جلد۹ نمبر۱۳ مورخہ ۱۷؍اپریل ۱۹۰۵ء ص۲ وتذکرہ ص۵۳۸ ومکاشفات مرزا ص۳۹
(۱۹۳) براھین احمدیہ ص۱۲۰ حصہ پنجم وروحانی ص۱۵۰،ج۲۱ وتذکرہ ص۵۳۹
(۱۹۴) ایضاً
(۱۹۵) ضرورت الامام ص۱۳ و روحانی ص۴۸۳، ج۱۳
(۱۹۶) ملخصًا ، ازالہ اوہام ص۶۰۹طبع ثانیہ
(۱۹۷) اشتہارمرزا مورخہ ۲۱؍اپریل ۱۹۰۵ء مندرجہ ، مجموعہ اشتہارات ص۵۲۶،ج۳ والحکم جلد ۹ نمبر ۱۴ مورخہ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۵ء ص۵ و تذکرہ ص۵۳۵ وریویو ص۲۳۸،ج۴ نمبر۶
(۱۹۸) سیرت المھدی ص۲۶،ج۱ و تاریخ احمدیت ص۳۹۸، ج۳ وحیات طیبہ ص۳۶۸ و مجدد اعظم ص۱۰۱۰،ج۲ و سلسلہ احمدیہ ص۱۴۷
(۱۹۹) اشتہار مرزا ، مورخہ ۲۹؍ اپریل ۱۹۰۵ء مندرجہ ، مجموعہ اشتہارات ص۵۳۵،ج۳ والحکم جلد ۹ نمبر ۵ مورخہ ۳۰؍ اپریل ۱۹۰۵ء ص۹ وتذکرہ ص۵۴۴
(۲۰۰) یہ اشتہار مرزا نے ۱۱؍ مئی ۱۹۰۵ء کو لکھا اور ۲۲؍ مئی کو شائع ہوا، مجموعہ اشتہارات ص۵۴۳، ج۳
(۲۰۱) اشتہار مرزا مورخہ ۲۲؍ مئی ۱۹۰۵ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۵۳۸،ج۳
(۲۰۲) ضمیمہ براھین احمدیہ ص۹۷،ج۵ و روحانی ص۲۵۸، ج۲۱
(۲۰۳) تفہیمات ربانیہ ص۱۱۷
(۲۰۴) حقیقت الوحی ص۹۳ و روحانی ص۹۶، ج۲۲ و حاشیہ تذکرہ ص۶۴۸
(۲۰۵) تاریخ احمدیت ص۴۰۳،ج۳ و تفہیمات ربانیہ ص۱۱۴
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
پیشگوئیوں کے متعلق مرزائیوں کے چند ایک خود ساختہ معیار اور اخبار انبیاء پر اعتراضات کا جواب

از تفہیمات ربانیہ مصنفہ مولوی اللہ دتہ احمدی و دیگر کتب مرزائیہ​
معیار اول:
پیشگوئی کی غرض ایمان پیدا کرنا ہے ایمان وہی مقبول ہے جو ''یومنون بالغیب'' کا مصداق ہو۔ کوئی پیش گوئی ایسے طور پر پوری نہیں ہوسکتی ہو ''یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ'' سے باہر لے جائے نہ ہی کسی کا حق ہے کہ حضرت مسیح موعود (مرزا) کے متعلق ایسا مطالبہ کرے۔ (۲۰۶)
الجواب:
آیت یومنون بالغیب سے مراد پیش گوئی لینا، تحریف فی القرآن ہے۔ غیب سے مراد ذاتِ الٰہی، عالم برزخ ملائکتہ اللہ، دوزخ، جنت، وغیرہ ہیں۔ مرزا صاحب خود راقم ہیں:
'' یومنون بالغیب متقی وہ ہیں جو خدا پر جو مخفی در مخفی ہے ایمان لاتے ہیں۔'' (۲۰۷)
علاوہ ازیں غیب سے مراد پیشگوئی نہ ہونے پر مرزا صاحب کے اقوالِ ذیل بھی دال ہیں:
(۱)'' پیشگوئی سے صرف یہ مقصود ہوتا ہے کہ وہ دوسرے کے لیے بطور دلیل کام آسکے لیکن جب ایک پیشگوئی خود (پردہ غیب میں ہونے کی وجہ سے۔ ناقل) دلیل کی محتاج ہے تو کس کام کی (۲۰۸)پیشگوئی میں تو وہ امور پیش کرنے چاہییں جن کو کھلے کھلے طور پر دنیا دیکھ سکے۔'' (۲۰۹)
پس جن پیشگوئیوں کو خود مرزا صاحب نے بطور دلیل صداقت مخالفین کے سامنے پیش کیا ہے ان کے متعلق یہ معیار مقرر کرنا مرزائیت کی انتہائی کمزوری کا ثبوت دینا ہے۔
-------------------------------------------------------------------------------------------
(۲۰۶) تفہیمات ربانیہ ص۵۶۳ طبعہ اول
(۲۰۷) حقیقت الوحی ص۱۳۲ و روحانی ص۱۳۵،ج۲۲ و تفسیر مرزا جلد دوم
(۲۰۸) ضمیمہ تحفہ گولڈویہ ص۱۲۱ و روحانی ص۳۰۱، ج۱۱۷
(۲۰۹) ایضاً
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
معیار دوم:
'' وعدہ ہو یا وعید ہر دو قسم کی پیشگوئیوں مرکزی نقطہ ایمان پیدا کرنے کے گرد چکر لگاتی ہیں۔ یہ غرض پوری ہو جائے تو وعید کا ٹل جانا ہی سنت الٰہی ہے۔'' (۲۱۰)
الجواب:
ہمارا بھی اس پر صاد ہے کہ جو پیشگوئی وعید کی مشروط بہ ایمان ہو اگر منکر ایمان لے آئے تو پیشگوئی ٹل نہیں جاتی بلکہ پوری ہو جاتی ہے۔
-------------------------------------------------------------------------
(۲۱۰) تفہیمات ربانیہ ص۵۶۴ طبعہ اول
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
معیار سوم:
انذاری پیشگوئیاں سب کی سب شرط توبہ کے ساتھ مشروط ہوتی ہیں۔ (۲۱۱)
جواب:
ہر ایک انذاری پیشگوئی مشروط نہیں ہوتی۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں:
'' گو بظاہر کوئی وعید شرط سے خالی ہو مگر پوشیدہ طور پر ارادہ الٰہی میں مشروط ہوتی ہیں۔ بجز ایسے الہام کے جس میںظاہر کیا جائے کہ اس کے ساتھ شروط نہیں۔ ایسی صورت میں وہ قطعی فیصلہ ہو جاتا ہے اور تقدیر مبرم قرار پاتا ہے۔'' (۲۱۲)
اس سے ظاہر ہے کہ تقدیر مبرم میں شرط نہیں ہوتی۔ یہ مرزا صاحب کا مذہب ہے جو مرزائیوں پر حجت ہے۔ باقی رہیں دیگر پیشگوئیاں جن میں تقدیر مبرم کا ذکر نہ بھی ہو ان کے متعلق بھی جب تک خود ملہم کی تصریح نہ ہو کہ یہ توبہ سے ٹل سکتی ہیں۔ ان کا بالفاظ ظاہر پورا نہ ہو نا یا ٹل جانا ملہم کی صداقت پر حرف لاتا ہے۔ گو وہ در پردہ مشروط ہی کیوں نہ ہو۔ اور ایسی پیشگوئی مخالف کے سامنے بطور دلیل نہیں پیش کی جاسکتی۔ دیکھیے بخاری شریف کتاب المغازی میں جو حدیث امیہ بن خلف کے موت کے بارے میں ہے۔ اس میں تقدیر مبرم کا کوئی ذکر نہیں مگر وہ باوجود امیہ کے پیشگوئی کی عظمت سے ڈرنے کے بھی ہو بہو پوری ہوئی۔ (۲۱۳)
------------------------------------
(۲۱۱) ایضاً ص۵۶۵
(۲۱۲) حاشیہ انجام آتھم ص۱۰ و روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ایضاً
(۲۱۳) صحیح بخاری ص۵۶۳،ج۲ کتاب المغازی باب ذکر النبیﷺ من یقتل ببدر،
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
معیار چہارم :
'' پیشگوئی یا امر غیب کا ظہور سے قبل پورے طور پر سمجھ میں آنا ضروری نہیں۔
مثال اوّل:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت گاہ وہ زمین ہوگی جس میں کھجوروں کے باغ ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال زمین کے متعلق یمامہ کی طرف گیا۔ بعد میں مدینہ ثابت ہوا۔ (۲۱۴)
جواب:
پیش روئی کو پیش گوئی کہنا آپ جیسے داناؤں کا ہی کام ہے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں غلطی نہیں کھائی جتنا کچھ اس ''پیشگوئی'' میں دکھایا گیا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خوب سمجھا تھا۔ کون کہتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وحی الٰہی کو نہیں سمجھا۔ باقی رہا یہ اعتراض کہ باغوں والی زمین سے مراد یمامہ نہ تھی مدینہ تھی۔ میں کہتا ہوں وحی الٰہی میں مدینہ کا ذکر کہاں ہے؟
آپ کا دعویٰ یہ ہے کہ ''پیشگوئی قبل از ظہور سمجھ میں نہیں آتی'' اور دلیل یہ ہے کہ مدینہ کا ذکر پیشگوئی میں نہیں تھا جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں سمجھا۔ العجب یا للعجب!
حضرات! یمامہ اور حجر میں بھی باغ تھے اور مدینہ میں بھی۔ چونکہ الہام الٰہی میں کوئی تعیین نہ کی گئی تھی اس لیے حضور نے اس کا اظہار کسی پر نہیں کیا چنانچہ مرزا صاحب راقم ہیں:
'' جب تک خدا تعالیٰ نے خاص طور پر تمام مراتب کسی پیشگوئی کے آپ پر نہ کھولے تب تک آپ نے اس کی کسی خاص شق کا کبھی دعویٰ نہ کیا۔'' (۲۱۵)
اس کے بعد جب حضور علیہ السلام مدینہ تشریف لے گئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر کھول دیا کہ باغوں والی زمین یہ ہے۔ تب حضور علیہ السلام نے اس کو لوگوں پر ظاہر کیا۔ (۲۱۶)
بخلاف اس کے تم مرزا صاحب کی جن جھوٹی پیشگوئیوں کی مدافعت میں یہ اعتراض کرتے ہو وہ ایسی ہیں کہ بقول مرزا صاحب خدا فرماتا ہے کہ اے مرزا:
'' تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ بات سچ ہے؟ (کہ محمدی بیگم تمہاری آسمانی منکوحہ ہے) کہہ ہاں مجھے اپنے رب کی قسم یہ سچ ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے نہیں روک سکتے۔ ہم نے خود اس سے تیرا نکاح باندھ دیا ہے۔ میری باتوں کو کوئی بدلا نہیں سکتا۔'' (۲۱۷)
دوسری مثال جو اس مدعا پر پیش کی جاتی ہے وہ مرزا صاحب کے الفاظ میں یہ ہے:
'' بخاری و مسلم میں درج ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے پہلے وہ فوت ہوگی جس کے لمبے ہاتھ ہونگے۔ انہوں (یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) نے (بعد وفات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے) زینب رضی اللہ عنہا کی وفات کے وقت یقین کرلیا کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی حالانکہ یہ بات اجماعی طور پر تسلیم ہوچکی تھی کہ سودہ کے لمبے ہاتھ ہیں۔ وہی پہلے فوت ہوگی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھوں کو ناپتے دیکھ کر بھی منع نہیں فرمایا۔ ثابت ہوا کہ اصل حقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی معلوم نہ تھی۔ ملخص'' (۲۱۸)
الجواب:
پہلا اور ڈبل جھوٹ تو مرزا صاحب نے یہ بولا ہے کہ لمبے ہاتھوں کی پیشگوئی سن کر بیویوں نے آپ کے رو برو ہاتھ ناپنا شروع کئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کر خاموش رہے۔
خدا کی قسم یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر افترا ہے۔ بہتان ہے۔ اتہام ہے۔ کذب ہے دروغ بے ثبوت ''لَعَنۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ'' ہرگز ہرگز اس حدیث میں یہ نہیں لکھا۔
دوسرا جھوٹ یہ بولا ہے کہ ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا کا پہلے وفات پانا اجماعی طور پر تسلیم کیا گیا تھا حالانکہ سوائے چند ایک امہات المومنین کے اور کسی کا یہ خیال نہ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کا ایسا خیال بھی استنباطاً سمجھا جاتا ہے۔ ورنہ اس بارے میں ان سے بھی کوئی شہادت لفظی موجود نہیں۔
تیسرا جھوٹ مرزا صاحب نے یہ بولا ہے کہ الفاظ ''اَطولکن یدا'' کے معنی لمبے ہاتھ کئے ہیں حالانکہ ''لمبے ہاتھ'' تثنیہ یا جمع کے صیغوں میں بولا جاتا ہے ورنہ حدیث میں '' یَدًا'' کا لفظ ہے جو واحد کا صیغہ ہے، کل اہل عرب بلکہ ساری دنیا کا محاورہ ہے کہ جب کسی انسان کے متعلق ایک ''لمبا ہاتھ'' بولتے ہیں (بشرطیکہ شخص مذکور واقعی لنجانہ ہو) تو اس سے سخاوت، کرم بخشی، حکومت قبضۂ تام۔ غلبۂ قدرت وغیرہ مراد ہوتی ہے۔ (۲۱۹)
قرآن پاک سے مثال سنو! ''بیدہ ملکوت کل شی'' اس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے تمام اشیاء کی۔ اب آئیے الفاظ ''اَطْوَلُکُن یَدًا'' کے اصلی معنی مرزا صاحب کی زبان سے سنیے:
'' دراصل لمبے ہاتھوں سے مراد سخاوت تھی۔'' (۲۲۰)
پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی یہی تھی کہ تم میں سے پہلے وہ فوت ہوگی جو زیادہ سخی ہے۔ چنانچہ وہی ہوا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ صدق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باقی رہا کہ بیویوں نے از خود لمبے ہاتھ سے مراد ظاہری ہاتھ لیے تھے سو ان کا خیال ہے جو وحی الٰہی نہیں تھا۔ بحث طلب بات یہ ہے کہ نبی پیشگوئی کے وقوع سے پہلے کوئی غلط مفہوم قائم کرسکتا ہے جس کی بعد میں جا کر تردید ہو جائے اور وہ الفاظ ملہم کے خلاف ہو یا نہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ انبیاء پیشگوئی کا جو مفہوم متعین کرتے ہیں۔ وہ الفاظِ ملہم کے عین مطابق ہوتا ہے لیکن مرزا صاحب کی پیشگوئیاں اس قبیل کی نہیں ہوتیں۔
مزید برآں مرزا صاحب کی متحدیانہ پیشگوئیاں بھی پوری نہیں ہوئیں جو انہوں نے اپنی صداقت میں پیش کیں۔ اور جن کے الفاظ جہاں تک واضح ہونے کا تعلق ہے قطعاً کسی تاویل کے متحمل نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
تیسری مثال
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ''سَارِیْکُمْ اٰیَاتِیْ فتعر فونھا'' میں تم کو اپنے نشان دکھاؤں گا۔ تب تم (بعد دیکھنے کے) ان کو پہچان سکو گے اس آیت سے بھی ظاہر ہے کہ قبل ظہور پیشگوئی کی پوری معرفت نہیں ہوا کرتی۔ (۲۲۱)
الجواب:
آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے گا۔ جو تم دیکھ لو گے اور واقع ہو جانے کے بعد ان نشانوں کے تم اسلام کی صداقت کے قائل ہو جاؤ گے (۲۲۲)۔ جیسے قیامت کے متعلق فرمایا۔
''کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ثُمَ کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ''(۲۲۳) اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ تمہیں جو اس وقت بتایا جا رہا ہے اُس کا تمہیں علم نہیں اگر معنی یہ ہوں تو پھر ان کو بتایا کیا گیا؟ مقصد یہ ہے کہ وقوع میں تمہیں شک ہے۔ جب ان نشانوں کو واقع ہوتے ہوئے دیکھ لو گے تو تمہیں خود بخود یقین ہو جائے گا۔
چوتھی مثال
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی۔ حرم کعبہ میں ایک مینڈھا ذبح کیا جائے گا (بعد وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ) جب حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو سمجھ لیا (گیا) کہ یہی مینڈھا ہے۔ (۲۲۴)
الجواب:
اس پیشگوئی کا پتہ نہیں دیا کہ کس کتاب میں ہے۔ صحیح ہے یا غلط، خواب ہے یا بیداری۔ اگر روایت صحیح اور واقعہ خواب کا ہے تو جواب خود ہی ہوگیا۔ دنیا کا ہر فرد و بشر جانتا ہے:
'' خوابیں تعبیر طلب ہوتی ہیں، کبھی موت سے مراد صحت اور کبھی صحت سے مراد موت، کئی مرتبہ خواب میں ایک شخص کی موت دیکھی جاتی ہے اس کی تعبیر زیادت عمر ہوتی ہے۔'' (۲۲۵)
ہاں اگر خواب میں خدا کا نبی ہو یا عام ملہم من اللہ اور وہ خود اس خواب کی تعبیر متعین الفاظ میں کردے جو پیشگوئی پر مبنی ہو مگر بعد کو پوری نہ ہو تو یقینا قابل اعتراض ہے۔ مثلاً مرزا صاحب نے مولوی عبدالکریم کی صحت کے بعض خواب سنائے اور انہیں لوگوں کے رو برو ظاہری معنوں میں پیش کئے جو صریح جھوٹے ثابت ہوئے۔
اگر یہ روایت صحیح ہے اور خواب نہیں۔ بیداری کی وحی ہے تو بھی مینڈھوں سے مراد ''انسان'' ہوسکتے ہیں۔ دیکھئے خود مرزا صاحب کی وحی '' دو بکریاں ذبح ہوں گی'' جس کے معنی خود مرزا اور مرزائی ''احمد بیگ ہوشیارپوری اور اس کا داماد سلطان محمد'' لیتے رہے (۲۲۶) ضمیمہ انجام آتھم مگر جب پیشگوئی صریح جھوٹی نکلی اور سلطان محمد نہ مرا تو اس کو ''مولوی عبداللطیف اور اس کے شاگرد عبدالرحمن'' کی موت پر لگا دیا۔ (۲۲۷)
اگر یہ روایت صحیح ہے اور بیداری کا الہام ہے جس سے مراد حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہے تو کون کہہ سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ضرور ظاہری مینڈھا سمجھا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
پانچویں مثال
مرزائی یہ دیتے ہیں کہ آنحضرت کو خواب میں جناب عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی تصویر دکھائی گئی کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اِنْ یَّکُنْ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ یُمْضہ'' اگر یہ خواب خدا کی طرف سے ہے تو وہ اسے پورا کردے گا، معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس پیشگوئی کی حقیقت پہلے پہل معلوم نہ تھی۔ (۲۲۸)
الجواب:
یہ کہاں لکھا ہے کہ مجھے معلوم نہیں اس کے کیا معنی ہیں؟ معنی معلوم ہوتے ہوئے کہا یہ ہے کہ اگر یہ خواب خدا کی طرف سے ہے تو پورا ہو کر رہے گا۔ معلوم ہوا کہ پیشگوئی کے معنے معلوم تھے۔ باقی رہا یہ امر کہ پھر ''اگر'' کا لفظ کیوں استعمال کیا جو شک پر دلالت کرتا ہے۔ تو جواب ہے کہ بفرضِ محال ''اگر'' کے معنی شک بھی ہوں۔ تو بھی اس سے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ پیشگوئی کے معنوں میں کوئی شک تھا۔ شک اگر ہے تو اس پیشگوئی کے خدا کی طرف سے ہونے میں ہے نہ کہ پیشگوئی کے معنوں میں مگر یاد رکھو '' ان'' کا لفظ ہمیشہ شک کے معنوں میں ہی استعمال نہیں ہوتا کبھی '' ان'' اس لیے آتا ہے کہ یقین دلایا جائے چونکہ دوسرا پہلو محال ہے، اس لیے جو پیش کیا گیا ہے، وہ درست ہے یعنی ''ان'' ''تشکیک'' کے لیے نہیں بلکہ تحقیق کے لیے بھی کبھی استعمال ہوتا ہے جیسے ہم کہتے ہیں اگر میں حق پر ہوں تو ضرور کامیابی ہوگی۔ یعنی چونکہ میں یقینی طور پر حق پر ہوں اس لیے کامیابی بھی قطعی ہے۔ یا جیسے مسیح علیہ السلام قیامت کے دن فرمائیں گے ''اِنْ کنت قُلْتُہ فَقَدْ عَلِمْتَہٗ'' (۲۲۹) میں نے چونکہ ہرگز نہیں کہا اس لیے یہ آپ کے (اللہ کے) علم میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مسیح علیہ السلام کو شک ہے۔
اب حدیث کا مطلب صاف ہے کہ چونکہ ''رؤیاء الانبیاء حق'' کے ماتحت یہ خواب قطعی اور حتمی طور پر خدا کی طرف سے ہے اس لیے اس کا پورا ہونا بھی ضروری ہے۔ ''فاندفع ما قیل''
نوٹ: مرزا صاحب نے بھی اس واقعہ میں یہی جھوٹ بولا ہے جو مولوی اللہ دتا نے بولا ہے۔(۲۳۰)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
چھٹی مثال
مرزائی یہ دیتے ہیں کہ نوح علیہ السلام سے وعدہ تھا، میں تیرے اہل کو بچاؤں گا اور خدا کے نزدیک ان کا بیٹا اہل کے لفظ میں داخل نہ تھا مگر جناب نوح علیہ السلام اسے معلوم نہ کرسکے۔ (۲۳۱)
الجواب:
حضرت نوح علیہ السلام کے اہل کو بچانے کا وعدہ تھا۔ قرآن پاک شاہد ہے کہ عام وعدہ نہ تھا ایمان داروں سے مخصوص تھا۔ سنیے حکم ہوتا ہے اے نوح علیہ السلام ہمارے حکم سے کشتی بنا اور ظالم کفار (حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا بھی کافر تھا) کے حق میں مجھ سے کلام نہ کر اور ہر ایک چیز کا جوڑا جوڑا کشتی میں سوار کرلے واھلک اور اپنے اہل کو بھی اِلاَّ مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوَلُ مگر اپنے اہل میں سے کافروں کو ساتھ مت بٹھانا (کیونکہ میرا وعدہ ظالموں کو شامل نہیں) ''وَمَنْ اٰمَنَ'' اور جو ایماندار ہیں ان کو بھی ساتھ چڑھا لے۔ (۲۳۲)
صاف ظاہر ہے کہ بیٹے کو بچانے کا وعدہ نہ تھا جسے حضرت نوح علیہ السلام خوب جانتے تھے۔
سوال:... باوجود معلوم ہونے کے بیٹے کو کشتی پر چڑھنے کو کہا؟ (۲۳۳)
جواب:... مومنوں کو بچانے کا وعدہ تھا اور حضرت نوح علیہ السلام بیٹے کو ایمان لانے کی ترغیب دیتے تھے ''یَا بُنیَّ اَرْکَبْ مَعَنَا وَلَا تَکُنْ مَّعَ الْکٰفِرِیْنَ'' (۲۳۴) اے بیٹے کافروں سے مت ہو (ایمان لا) اور ہمارے ساتھ سوار ہو جا، مگر اس نے نہ ماننا تھا نہ مانا۔
سوال:... جب وہ اہل میں داخل نہ تھا تو پھر کیوں کہا کہ خدایا تیرا وعدہ میرے اہل کو بچانے کا ہے اور میرا بیٹا میرے اہل میں ہے اس سے معلوم ہوا کہ نوح علیہ السلام بیٹے کو وعدہ میں داخل سمجھتے تھے۔
جواب:... حضرت نوح علیہ السلام کی دونوں باتیں سچ ہیں جو نتیجہ نکالا جاتا ہے وہ غلط ہے حضرت نوح علیہ السلام کہتے ہیں خدا یا تیرا وعدہ میرے اہل کو بچانے کا ہے (سچ) مگر جانتے ہیں کہ یہ اس وعدہ سے بوجہ کافر ہونے کے خارج ہے اس لیے یہ تو نہیں کہتے کہ تیرا وعدہ اس کو بھی بچانے کا ہے۔ بطرز دیگر اپنے پدری جذبات کو ظاہر کرتے ہوئے سچ بولتے ہیں کہ مالک الملک یہ بیٹا ہونے کی وجہ سے میرے اہل میں تو ضرور داخل ہے (یہ بھی سچ) اے جناب بحث اس میں نہیں کہ وہ حضرت نوح علیہ السلام کا اہل تھا یا نہیں بحث یہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام اسے وعدہ میں شامل جانتے تھے یا نہیں؟ سو قرآن شاہد ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام وعدہ الٰہی میں بیٹے کو داخل نہیں جانتے تھے کیونکہ اس بارے میں صریح وحی الٰہی ہوچکی تھی ''وَلَا تُخاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا انَّھُمْ مغرقون'' (۲۳۵) ظالم ضرور ہلاک کئے جائیں گے۔
سوال:... جب حکم یہ تھا تو پھر حضرت نوح علیہ السلام نے کافر بیٹے کے بارے میں خدا سے خطاب کیوں کیا؟
جواب:... خدا ارحم الراحمین۔ انسان ضعیف البنیان۔ خدا کی رحیمی، انسان کی کمزوری بیٹے کی فطری محبت مجبور کر رہی تھی۔ لیکن وعدہ الٰہی ٹل نہیں سکتا۔ تمنا پوری نہ کی گئی۔ یہاں تو بیٹے کا سوال ہے۔ مرزا صاحب تو غیروں کے لیے اس سے بھی بڑھ کر اپنی '' شانِ رحیمی'' کا مظاہرہ کرنے کو ڈینگ مار گئے ہوئے ہیں۔ ایڈیٹر ''بدر'' لکھتا ہے:
'' ہمارے مکرم نواب محمد علی کا لڑکا عبدالرحیم بیمار ہوگیا۔ حضرت کی خدمت میں عرض کی گئی۔ حضرت رؤف الرحیم تہجد میں اس کے لیے دعا کر رہے تھے خدا کی وحی سے آپ پر کھلا ''تقدیر مبرم ہے ہلاکت مقدر'' میرے آقا نے فرمایا کہ '' خدا تعالیٰ کی یہ قہری وحی نازل ہوئی تو مجھ پر حد سے زیادہ حزن طاری ہوا بے اختیار منہ سے نکل گیا یا الٰہی اگر دعا کا موقع نہیں تو میں شفاعت کرتا ہوں۔ اس پر معاً وحی ''مَنْ ذَالَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلاَّ بِاِذْنِہٖ'' ( نازل ہوئی) اس جلالی وحی سے میرا بدن کانپ گیا دو منٹ کے بعد پھر وحی ہوئی ''اِنَّکَ اَنْتَ المجاز'' اس کے بعد حالاً بعد حالٍ عبدالرحیم کی صحت ترقی کرنے لگی (۲۳۶)۔ اسی واقعہ کو مرزا صاحب نے بالاختصار حقیقۃ الوحی میں لکھا ہے۔ (۲۳۷)
برادران! دیکھیے باوجودیکہ مرزا صاحب کا ملہم کہہ چکا ہے کہ تقدیر مبرم ہے۔ مرزا صاحب باز نہیں آئے۔ دوسرا حیلہ سفارش کا پیدا کیا جس پر جھڑکی ملی۔ مرزا صاحب مایوس و مغموم ہوئے تو ملہم صاحب تقدیر مبرم بھی الٹ دینے پر اُتر آئے اور الٹ ہی دی۔ واہ کیا ہی کہنے ہیں اس تلون مزاجی کے حالانکہ انہی مرزا صاحب کا مذہب محض رسمی نہیں بلکہ بہ تمسک قرآن مجید یہ ہے:
'' اس آیت کا مدعا تو یہ ہے کہ جب تقدیر مبرم آجاتی ہے تو ٹل نہیں سکتی۔'' (۲۳۸)
اور حقیقۃ الوحی ص ۱۶،۱۷ پر لکھا ہے کہ:
'' تقدیر مبرم ان لوگوں کی دعا سے بھی نہیں ٹلتی جن کی زبان ہر وقت خدا کی زبان ہے۔''(۲۳۶)
خلاصہ کلام یہ کہ حضرت نوح علیہ السلام نے وحی سمجھنے میں قطعاً ایک ذرہ بھر غلطی نہیں کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
ساتویں مثال
احمدیوں کی طرف سے یہ پیش کی جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر دجال کی حقیقت ہو بہو منکشف نہ تھی۔ چنانچہ ابن صیاد کے معاملہ میں حضور کو تردد تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رو برو قسم کھا کر کہا کہ ابن صیاد دجال ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر انکار نہ کیا۔ (۲۴۵)
الجواب (۱):
گو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بوجہ عدم انکشاف تام حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قسم پر سکوت فرمایا ہو مگر خود آپ نے ہرگز دعویٰ نہیں کیا کہ ابن صیاد دجال ہے کیونکہ نبی قبل از انکشاف تام پیشگوئی کی تعیین کا دعویٰ نہیں کرتا۔ (۲۴۱)
جواب (۲):
بحث اس وقت اس امر پر نہیں ہے کہ ملہم کو ایک ہی وقت میں ہر ایک پیشگوئی کا تمام و کمال حال معلوم ہو جاتا ہے یا نہیں ۔ گفتگو اس بات پر ہے کہ قبل از ظہور پیشگوئی مکمل حال معلوم ہوتا ہے یا تھوڑا لہٰذا آپ کی پیش کردہ مثال آپ کے دعویٰ کی مثبت نہیں کیونکہ گو ابتدا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر دجال کی کیفیت مجملاً منکشف کی گئی تھی مگر جب ابن صیاد کا معاملہ درپیش ہوا اور بعض صحابہ کو شک پڑا تو اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی کی جملہ تفصیلات آپ پر کھول دیں۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کی جائے خروج مشرق خراسان (۲۴۲) جائے قتل باب لد (جو بیت المقدس کے دیہات میں سے ایک گاؤں ہے) (۲۴۳) اس کا قاتل '' حضرت ابن مریم'' (۲۴۴) وقت خروج مسلمانوں کے جنگ عظیم میں مشغول ہونے کے ساتویں سال میں (۲۴۵) اس کا حلیہ ''اعورعین الیمنی کان عینہ عنبۃ طافیۃ'' (۲۴۶) داہنی آنکھ سے کانا۔ آنکھ میں ٹینٹ ''مکتوب علی حبیبنہٖ ک ف ر'' (۲۴۷) پیشانی پر کافر لکھا ہوا ''مَعَہٗ بِمِثْلِ الْجنۃ والنار فالتی یَقْولُ انھا الجنۃ ھی النَّارُ''(۲۴۸) اس کے ساتھ جنت و دوزخ کی مثال جسے وہ جنت کہے گا وہ حقیقت میں شعلہ نار ہوگا ''جِفَال الشعر'' بہت سے بالوں کا جوڑا کسے ہوئے (۲۴۹) ''کَانِّیْ اشبہ بعبد العزی''(۲۵۰) گویا عبدالعزیٰ بن قطن کافر کی شبیہ ''یتبع الدجال من یھود اصفھان سبعون الفا'' (۲۵۱) اصفہان کے ستر ہزار یہود دجال کے ساتھ ہوں گے۔'' (ص ۳۴۱ احمدیہ پاکٹ بک، طبعہ ۱۹۳۲ء۔
احادیث بالا شاہد ہیں کہ اس پیشگوئی کے متعلق حضور علیہ السلام پر کوئی بات مخفی نہ تھی فہذا ہو المطلوب۔
پس مرزائیوں کا یہ کہنا کہ ملہم پر قبل از ظہور پیشگوئی کا ظاہر ہونا ضروری نہیں قطعاً مغالطہ ہے کیونکہ بقول مرزا صاحب:
'' تورات اور قرآن نے بڑا ثبوت نبوت کا صرف پیشگوئیوں کو قرار دیا ہے۔'' (۲۵۲)
پس جو چیز نبوت کی سب سے بڑی اور واحد دلیل ہے اس میں جہالت کا ہونا ناممکن ہے:
'' دلیل تو وہ ہوتی ہے جس کے مقدمات ایسے بدیہی الثبوت ہوں جو فریقین کو ماننے پڑیں۔'' (۲۵۳)
------------------------------------------------------
(۲۱۴) تفہیمات ربانیہ ص۵۶۶
(۲۱۵) ازالہ اوہام ص۴۰۶ و روحانی ص۳۱۰، ج۳
(۲۱۶) بخاری باب ہجرت النبی ﷺ واصحابہ الی المدینۃ وضمیمہ براھین احمدیہ ص۱۵، ج۵ و روحانی ص۱۶۹، ج۲۱
(۲۱۷) اشتہار مرزا ، مورخ ۲۷؍ دسمبر ۱۸۹۱ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۳۰۱، ج۱ و آسمانی فیصلہ ص۴۰ و روحانی ص۳۵۰، ج۴ وتذکرہ ص۱۶۱وتبلیغ رسالت ص۸۵، ج۲
(۲۱۸) ازالہ اوہام ص۷۳۴ تا ۷۳۶ و روحانی ص۴۹۵، ج۳ تا ۴۹۶
(۲۱۹) پ۲۳ سورۂ یٰسین آیت نمبر ۸۴ مرزا اس آیت کا حسب ذیل معنٰی کرتے ہیں جس کے ہاتھ میں ہے ہر ایک کی چیز کی بادشاہی، جنگ مقدس ۲۹ و روحانی ص۱۰۱، ج۶ و تفسیر مرزا ص۱۴۸، ج۷۔ ابو صہیب
(۲۲۰) ایام الصلح ص۴۴ و روحانی ص۲۷۶، ج۱۴
(۲۲۱) تفہیمات ربانیہ ص۵۶۷، نوٹ: فاضل جالندھری نے قرآنی آیت غلط لکھی ہے اصل الفاظ یہ ہیں۔ سَیْرِیْکُمْ اٰیتِہٖ فَتعْرِ فُوْنَھَا پ۲۰ نمل آیت ۹۴
(۲۲۲) دیکھئے تفسیر کبیر ص۴۵۸،ج۷ مؤلفہ مرزا محمود اور بیان القران ص۱۴۲۸،ج۳ مؤلفہ مرزائی محمد علی لاھوری مرزائی
(۲۲۳) پ۳۰ التکاثر آیت ۴،۵
(۲۲۴) ازالہ اوہام ص۷۳۴ و روحانی ص۴۹۵، ج۳
(۲۲۵) تتممہ حقیقت الوحی ص۲۶ و روحانی ص۴۵۹، ج۲۲
(۲۲۶) ضمیمہ انجام آتھم ص۵۷ و روحانی ص۳۴۱، ج۱۱
(۲۲۷) تذکرۃ الشھادتین ص۷۰ و روحانی ص۷۲،ج۲۰، مرزا حاشیہ تذکرہ الشھادتین ص۷۰ میں لکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی کتابوں میں محاورہ ہے کہ بے گناہ اور معصوم کو بکرے بکری سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ انتھی (ابوصہیب)
(۲۲۸) مفہوم ازالہ اوہام ص۴۰۶ و روحانی ص۳۱۰، ج۳
(۲۲۹) پ۷ المائدہ آیت ۱۱۷
(۲۳۰) دیکھئے ازالہ اوہام ص۴۰۶ و روحانی ص۳۱۰، ج۳
(۲۳۱) احمدیہ پاکٹ بک ص۷۵۲ طبعہ ۱۹۴۵ء
(۲۳۲) پ۱۲ ھود رکوع نمبر ۴
(۲۳۳) لم اجدہ
(۲۳۴) پ۱۲ ھود آیت نمبر ۴۳
(۶۳۵) ایضاً آیت ۳۸، نوٹ: مرزے محمود نے اپنی تفسیر کبیر ص۱۹۵، ج۳ میں اقرار کیا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی نظر میں اس (بیٹے) کے اعمال پوشیدہ تھے (انتھی بلفظہٖ) گویا مرزے محمود نے اُلٹے کان پکڑ کر اعتراف کرلیا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے وحی الٰہی کو سمجھنے میں غلطی نہیں کی بلکہ بیٹے کے کفر سے عدم علم کی بناء دعاء تھی۔ ابو صہیب
(۲۳۶) البدر جلد ۲ نمبر ۴۱،۴۲ مورخہ ۲۹؍ اکتوبر ۸؍نومبر ۱۹۰۳ء ص۳۲۱ وتذکرہ ص۴۹۵ و آئینہ احمدیت ص۱۳۶ تا ۱۳۷ حصہ اول طبعہ ۱۹۳۳ء ملخصًا
(۲۳۷) حقیقت الوحی ص۲۱۹ و روحانی ص۲۲۹، ج۲۲
(۲۳۸) اشتہار مرزا، مورخہ ۵؍اکتوبر ۱۸۹۴ء مندرجہ ، مجموعہ اشتہارات ص۷۴،ج۲ وضمیمہ انوار الاسلام ص۱۰ و روحانی ص۸۰، ج۹ و تفسیر مرزا ص۱۵۵، ج۸
(۲۳۹) مفہوم، حقیقت الوحی ص۱۷ و روحانی ص۲۰ ج ۲۲
(۲۴۰) ازالہ اوہام ص۲۲۱ و روحانی ص۲۱۰، ج۳
(۲۴۱) ایضاً ص۴۰۶ و روحانی ص۳۱۰، ج۳
(۲۴۲) ترمذی مع تحفہ ص۲۳۴، ج۳ وابن ماجہ ص۳۰۵ عن ابی بکر صدیق وابن حبان ص۲۸۰، ج۹ رقم الحدیث ۶۷۵۴، عن ابی ھریرۃؓ
(۲۴۳) ازالہ اوہام ص۲۲۰ و روحانی ص۲۰۹، ج۳ بحوالہ صحیح مسلم من روایت النواس بن السمان انظر صحیح مسلم ص۴۰۱، ج۲
(۲۴۴) ایضاً
(۲۴۵) ابوداؤد ص۲۳۴، ج۲ فی الملاحم باب تواتر الملاحم وابن ماجہ ص۳۱۰ فی الفتن باب الملاحم و مسند امام احمد ص۱۸۹، ج۴ عن عبداللہ بن بُسر
(۲۴۶) بخاری ص۱۱۰۱،ج۲ فی التوحید باب قول اللّٰہ تعالٰی، ولتصنع علی عینی ومسلم ص۳۹۹، ج۲ فی الفتن باب زکر الدجال و مشکوٰۃ ص۴۷۲ باب العلامات بین یدی الساعۃ وزکر الدجال عن عبداللہ بن عمر
(۲۴۷) بخاری ص۱۰۵۶،ج۲ فی الفتن باب زکر الدجال و مسلم ص۴۰۰،ج۲ فی الفتن باب ذکر الدجال و مشکوٰۃ ص۴۷۳ باب السابق عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ
(۲۴۹) مسلم ص۴۰۰، ج۲ المصدر السابق و مشکوٰۃ ص۴۷۳ عن حذیفۃ رضی اللہ عنھا
(۲۵۰) صحیح مسلم ص۴۰۱ ،ج۲ المصدر السابق و مشکوٰۃ ص۴۷۳ عن نواس بن سمعان رضی اللّٰہ عنہ
(۲۵۱) صحیح مسلم ص۴۰۵، ج۲ فی الفتن باب فی بقیۃ احادیث الدجال ومشکوٰۃ ص۴۷۵ عن انس رضی اللّٰہ عنہ
(۲۵۲) استفتاء ص۳ و روحانی ص۱۱۱، ج۱۲
(۲۵۳) شحنہ حق ص۷۴ و روحانی ص۴۲۷، ج۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
مرزائیوں کا پانچواں معیار:
پانچوں معیار یہ ہے کہ وعید کے التوا کے لیے حقیقی اور کامل ایمان ہی لازمی نہیں بلکہ بسا اوقات ناقص اور عارضی ایمان سے بھی التوا ہوا ہے اور ہوسکتا ہے (۲۵۴) اس اصول کی تائید میں حقیقی ایمان سے عذاب کے التوا پر قوم یونس علیہ السلام کا واقعہ اور عارضی ایمان سے التوا عذاب پر سورۂ دخان کی آیت اور سورۂ زخرف کی آیت پیش کی گئی ہے۔
الجواب:
حضرت یونس علیہ السلام نے عذاب کی کوئی پیشگوئی نہیں کی بلکہ اللہ کی سنت بتائی تھی کہ جو قوم خدا کی نافرمانی کرتی ہے ہلاک ہو جاتی ہے دیکھو آیات قطع نظر اس کے کہ حضرت یونس علیہ السلام نے کوئی پیشگوئی کی تھی یا ان کی قوم پر جو عذاب آنے والا تھا وہ محض ان کے کفر سرکشی اور طغیانی کے باعث تھا۔ ہم مانتے ہیں کہ جو پیشگوئی شرط ایمان سے مشروط ہوگی ، ایمان لانے کے بعد اس کا بصورت شرط پورا ہونا ہی پیشگوئی کی صداقت ہے۔
باقی رہا عارضی ایمان سے پیشگوئی کا ٹل جانا۔ یہ یقینا غلط ہے، عذاب کی پیشگوئی تبھی کی جاتی ہے جب کہ ہر طور پر منکرین کو سمجھایا جاتا ہے۔ وہ باز نہیں آتے پس محض عارضی ایمان سے عذاب کی پیشگوئی نہیں ٹلی اور نہ ہی کسی آیت و حدیث سے یہ ثابت ہے ہاں اگر خود پیشگوئی کنندہ قبل از وقت کہہ دے کہ محض عارضی ایمان سے بھی عذاب ہٹا لوںگا تو یہ بھی ہوسکتا ہے پہلی مثال جو سورۂ زخرف کی پیش کی گئی ہے اس میں کسی ایسے عذاب کا ذکر نہیں جس کے متعلق پیشگوئی کی گئی تھی بلکہ وہ عذاب عام تھا جو ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے محض ان پر اتمام حجت اور ان کی ہدایت کے لیے بطور نشان بھیجا گیا تھا۔ پس جونہی وہ ہدایت کا اقرار کرتے عذاب اٹھا لیا جاتا پھر اڑ جاتے تو پہلے سے سخت عذاب بھیجا جاتا۔ ملاحظہ ہو فرمان الٰہی ''فَلَمَّا جَائَ ھُمْ بایتنا اِذَا ھُمْ مِنْھَا یَضْحَکُوْنَ'' جب موسیٰ علیہ السلام رسول لایا ان پر نشانیاں وہ اس پر مضحکہ کرنے لگے ''وَمَا یُریھم مِنْ اٰیَۃٍ اِلاَّ ھِیَ اکبر مِنْ اخُتِھَا'' جو دکھاتے گئے ہم ان کو نشانی سو دوسری سے بڑی ''وَاَخَذْنَا ھُمْ بِالْعَذَابِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ'' اور پکڑا ہم نے ان کو عذاب میں تاکہ وہ رجوع کریں۔ ان فوری اور پے در پے عذابوں کو دیکھ کر بجائے موسیٰ علیہ السلام کو سچا نبی سمجھنے کے وہ انہیں جادوگر کہنے لگے ''وقالوا یَاَیُّھَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَھِدَ عِنْدَکَ اِنَنَا لَمُھْتَدُوْنَ'' اے ساحر تو نے جو اپنے رب سے عہد کر رکھا ہے کہ وہ تیری بات مان لیتا ہے۔ تحقیق ہم ایمان لے آویں گے اگر اب کے اس نے تیری بات کو ہمارے حق میں قبول کرلیا خدا فرماتا ہے:
''فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْھُمُ الْعَذَابِ اِذَا ھُمْ ینکثون''۔ (۲۵۵)
''جب اٹھا لیا ہم نے وہ عذاب، توڑ ڈالا انہوں نے وعدہ۔''
اسی مضمون کو دوسری جگہ یوں ادا کیا گیا کہ '' ہم نے فرعونیوں کو قحط اور میووں کے نقصان میں مبتلا کیا شاید وہ نصیحت پکڑیں۔ جب بھلائی پہنچے ان کو ''قَالُوا لنا ھٰذِہٖ'' یہ ہے ہمارے واسطے اگر پہنچے برائی۔ موسیٰ کی نحوست گردانتے (آخر یہاں تک سرکشی کی کہ) جو تو لائے گا نشانی ہمیں مسحور کرنے کو ہم نہ مانیں گے (خدا فرماتا ہے) پھر ہم نے بھیجا ان پر طوفان اور ٹڈی اور چچڑی اور مینڈک اور لہو کتنی نشانیاں مفصل مگر وہ استکبار میں رہے جب ان پر عذاب رجز پڑا کہنے لگے اے موسیٰ علیہ السلام پکار ہمارے لیے رب کو جیسا کہ سکھا رکھا ہے تجھ کو ''لٰئنْ کشفت عنا الرجز لنؤمنن لک'' اگر اب کی بار اٹھا دیا تو نے یہ عذاب ضرور ایمان لائیں گے ہم۔ پھر جب اٹھایا گیا عذاب ایک وقت تک جو مقرر تھا تو بھی منکر ہوگئے۔ (۲۵۶)
آیات ہذا صاف مظہر ہیں کہ یہ عذاب جو قوم موسیٰ پر بھیجے گئے کسی پیش گوئی کی بنا پر نہیں تھے محض فرعونیوں کے لیے بطور نشان تھے جو ایک وقت تک کے لیے تھے۔ آخر جب ہر طرح ان پر اتمام حجت ہوچکی، وہ باز نہ آئے تو بطور پیشگوئی فرمایا گیا: ''قَالَ عَسیٰ رَبُّکُمْ اَنْ یُّھْلِکَ عَدُوَّکُمْ ویستخفلکم فی الارض'' (۲۵۷) فرمایا قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے دشمنوں کو ہلاک کردے اور تمہیں زمین کی حکومت بخش دے۔
احمدی دوستو! دیکھو یہ پیشگوئی ہے عذاب کی اور وعدہ ہے بنی اسرائیل سے، کیا اس میں کچھ تخلف ہوا؟ ہرگز نہیں۔ فرعونی غرق کئے گئے اور جناب موسیٰ علیہ السلام اس کی حکومت پر قابض ہوئے والحمد للہ۔
دوسری مثال جو پیش کی گئی ہے۔ سورۂ دخان سے اس میں کسی ایسے عذاب کا ذکر نہیں جو خدا نے نبی کریم علیہ السلام کی صداقت پر بطور دلیل پیشگوئی کی ہے۔ بلکہ وہ بھی محض بد اعمال کی بنا پر ہے جو عارضی ہے چنانچہ الفاظ ''اِنَّا کَاشِفُوْا الْعَذَابِ قَلِیْلاً اِنَّکُمْ عَائِدُوْنَ'' (سورۂ دخان ع) ''ہم عذاب تو ضرور کچھ عرصہ کے لیے ٹال دیں گے۔ مگر یہ غلط ہے کہ تم مومن (ہی رہو گے اس پر دلیل ہیں)۔ (۲۵۸)
ناظرین کرام! چونکہ خدا رحیم و کریم ہے۔ اس لیے اس کی رحمت کا تقاضا یہی ہے کہ اپنے بھولے ہوئے بندوں کو سمجھانے کے لیے معمولی معمولی سرزنش کرے جو نہی وہ جھکیں ان پر برکات کی بارش نازل فرمائے یہ بات دیگر ہے کہ بدقسمت انسان قدر نہ کرے اور دن بدن شوخی میں بڑھ کر خود ہلاکت کا سامان مہیا کرلے۔ پس ان عذابوں کا جو محض وقتی اور عارضی بطور نشان ہدایت آتے ہیں اٹھا دیا جانا خدا کی شان کے منافی نہیں بلکہ عین مناسب ہے بخلاف اس کے اگر خدا تعالیٰ بطور پیشگوئی عذاب کی خبر دیدے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قوم میں ہدایت کی کوئی صلاحیت باقی نہیں رہی اور آئندہ کبھی وہ رجوع نہ کریں گے۔ اس لیے عذاب آنا چاہیے ورنہ خدا عالم الغیب نہیں رہتا۔
----------------------------------------------------------------
(۲۵۴) تفہیمات ربانیہ ص۵۷۱
(۲۵۵) پ۲۵ الزخرف آیت نمبر ۴۸ تا ۵۱
(۲۵۶) پ۹ الاعراف، ترجمہ آیت نمبر ۱۳۱ تا ۱۳۵
(۲۵۷) پ۹ الاعراف آیت ۱۳۰
(۲۵۸) تفہیمات ربانیہ ص۵۷۱ و انوار الاسلام ص۴۱،۸۵ و انجام آتھم ص۷ و تفسیر مرزا ص۳۱۶، ج۷
 
Top