• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح بخاری - زین العابدین احمد بن عبداللطیف - حصہ سوم (یونیکوڈ)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ اے پیغمبر ! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں ، اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کی توبہ قبول کرے یا عذاب دے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔ ''
(۱۶۲۱)۔ سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کا سر مبارک احد کے دن زخمی ہو گیا آپﷺ نے فرمایا :'' بھلا وہ قوم کیسے فلاں پائے گی جس نے اپنے پیغمبر کو زخمی کیا '' تو یہ آیت اتری '' اے پیغمبر ! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں۔ ''(سورۂ آل عمران :۱۲۸)

(۱۶۲۲)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ فجر کی نماز میں آخری رکعت میں رکوع کے بعد یوں دعا کرتے تھے '' اے اللہ ! فلاں اور فلاں اور فلاں پر لعنت فرما۔ '' اس وقت اللہ نے یہ آیت اتاری :'' اے پیغمبر ! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں ، اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کی توبہ قبول کرے یا عذاب دے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔ '' (سورۂ آل عمران :۱۲۸)
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سید الشہداء حمزہؓ کی شہادت کا بیان۔
(۱۶۲۳)۔ عبید اللہ بن عدی بن خیارؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے وحشی سے کہا کیا تم ہمیں قتل (شہادت) حمزہؓ کی خبر نہیں بتاؤ گے ؟ اس نے کہا ہاں (کیوں نہ بتاؤں گا۔ قتل حمزہؓ کا قصہ یوں ہے) کہ سیدنا حمزہؓ نے بدر کے دن طعیمہ بن عدی بن خیار کو قتل کیا تھا ، مجھ سے میرے آقا جبیر بن مطعمؓ نے کہا اگر تو میرے چچا کے عوض حمزہؓ کو مار ڈالے تو ،تو آزاد ہے۔ وحشی نے کہا جب قریش کے لوگ کوہ عنیین کی لڑائی کے سال نکلے اور عنیین احد کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے۔ احد کے اور اس کے درمیان ایک نالہ ہے۔ اس وقت میں بھی لڑنے والوں کے ساتھ نکلا جب لوگ لڑائی کی صفیں باندھ چکے ، تو سباع (بن عبدالعزیٰ) نے (صف سے) نکل کر کہا کہ کیا کوئی لڑنے والا ہے ؟ وحشی کہتے ہیں کہ سید الشہدا ء حمزہ بن عبد المطلبؓ نے اس کے مقابل نکل کر کہا اے سباع! اے ام انمار کے بیٹے ! جو عورتوں کا ختنہ کرتی تھی ، کیا تو اللہ اور اس کے رسول اللہﷺ کی مخالفت کرتا ہے ؟ وحشی نے کہا پھر انھوں نے سباع پر حملہ کیا اور سبا ع گزشتہ کل کی کی طرح مٹ گیا۔ وحشی نے کہا پھر میں قتل حمزہؓ کے واسطے ایک پتھر کی آڑ میں گھات لگا کر بیٹھ گیا۔ جب وہ میرے قریب آئے تو میں نے اپنا ہتھیار پھینک مارا ، وہ اُن کو زیر ناف اس طرح لگا کہ وہ ان کے دونوں سرین کے پار ہو گیا۔ وحشی نے کہا کہ یہی ان کا آخری وقت تھا۔ جب سب قریش مکہ میں واپس آئے تو میں بھی ان کے ساتھ واپس آ کر مکہ میں مقیم ہو گیا۔ جب (فتح مکہ کے بعد) مکہ میں اسلام پھیل گیا تو میں طائف چلا گیا۔ جب طائف والوں نے رسول اللہﷺ کی طرف قاصد بھیجے تو مجھ سے کہا کہ وہ قاصدوں کو نہیں ستاتے۔ چنانچہ میں ان کے ساتھ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپﷺ نے جب مجھے دیکھا تو فرمایا :'' کیا وحشی تو ہی ہے ؟'' میں نے عرض کی جی ہاں آپﷺ نے فرمایا :'' حمزہؓ کو تو نے ہی شہید کیا تھا ؟'' میں نے عرض کی جی ہاں ، جو کچھ آپ سے لوگوں نے بیان کیا ، وہی ماجرا ہے (یعنی میں نے اپنے آقا کے حکم سے مارا تھا) آپﷺ نے فرمایا کیا تو مجھ سے اپنا منہ چھپا سکتا ہے ؟ وحشی کہتے ہیں کہ میں (آپﷺ کے پاس سے اٹھ کر) باہر آگیا۔ رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد جب مسیلمہ کذاب نے خروج (یعنی دعویٰ نبوت) کیا تو میں نے سوچا کہ میں بھی مسلمانوں کے پاس چلوں ، شاید مسیلمہ کو مار کر حمزہؓ کا بدلہ اتار سکوں۔ وحشی نے کہا کہ میں (ان) کو لوگوں کے ساتھ (جو سیدنا ابو بکرؓ نے روانہ کیے تھے) نکلا اور مسیلمہ کا حال جو تھا سو تھا (یعنی اس کے ساتھ ایک بڑی جماعت تھی) وحشی کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہی میں نے دیکھا کہ مسیلمہ ایک دیوار کے شگاف میں کھڑا ہے ، گویا کہ خاکستر ی رنگ کا اونٹ ہے اور پریشان سر ہے۔ میں نے وہی حربہ (جس سے حمزؓ ہ کو شہید کیا تھا) اس کی چھاتی کے درمیان مارا اور اس کے دونوں کندھوں کے آر پار کر دیا پھر مسیلمہ کی طرف ایک انصاری نے دوڑ کر اس کی کھوپڑی پر تلوار ماردی(یعنی گردن جدا کر دی)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ احد کے دن جو زخم رسول اللہﷺ کے لگے ان کا بیان۔
(۱۶۲۴)۔ سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اپنے چاروں دانتوں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : '' اللہ کا غصہ اس قوم پر ہے جنہوں نے اپنے نبی کے ساتھ یہ معاملہ کیا ہوا اور نیز اس قوم پر ہے جنہیں رسول اللہﷺ (بغیر حد اور قصاص کے) اللہ کی راہ میں مارا ہو۔ ''
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ اللہ عزوجل کا یہ قول '' جن لوگوں نے اللہ اور رسول اللہﷺ کا حکم قبول کر لیا۔ ''
(۱۶۲۵)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ جب غزوۂ احد کے دن نبیﷺ کو جو صدمہ پہنچنا تھا پہنچ چکا اور مشرک واپس چلے گئے تو آپﷺ نے ان کے دوبارہ آ جانے کے ڈر سے فرمایا :'' کون ہے جو ان کفار کے پیچھے جائے ؟'' یہ سن کر ستر صحابہ کرام نے نبیﷺ کا فرمان قبول کیا۔ (راویِ حدیث عروہ) کہتے ہیں کہ ان میں سیدنا ابو بکر اور سیدنا زبیرؓ شامل تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ غزوۂ خندق کا بیان ، اسی کا نام غزوہ احزاب ہے۔
(۱۶۲۶)۔ سیدنا جابرؓ کہتے ہیں کہ ہم خندق کے دن زمین کھود رہے تھے کہ اتفاقاً ایک زمین سخت نکل آئی۔ سب نبیﷺ سے جا کر عرض کی یا رسول اللہﷺ ! ایک بہت سخت زمین خندق میں درپیش آ گئی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا :'' میں خود آ کر اسے دور کر دیتا ہوں۔ '' پھر آپﷺ چلے اور آپﷺ کے پیٹ سے پتھر بندھے ہوئے تھے۔ تین روز تک ہم بھوکے پیاسے ہی رہے۔ آپﷺ نے آ کر زین پر کدال ماری۔ کدال مارتے ہی وہ زمین نرم ہو گئی۔

(۱۶۲۷)۔ سیدنا سلیمان بن صردؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے غزوۂ احزاب کے دن فرمایا :'' اب ہم کافروں پر چڑھائی کریں گے اور وہ ہم پر چڑھائی نہ کر سکیں گے۔ ''

(۱۶۲۸)۔ سیدنا ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ فرماتے تھے :'' اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ، وہ اکیلا ہے ، جس نے اپنی فوج (مسلمانوں) کو غالب کیا اور اپنے بندے (محمدﷺ) کی مدد فرمائی اور کفار کو اس اکیلے نے مغلوب کیا ، اللہ کے بعد کوئی چیز نہیں (یعنی سب کو فنا ہے اور صرف اللہ ہی '' الا ول والآخر'' ذات ہے)۔ ''
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ رسول اللہﷺ کا جنگ احزاب سے واپس آنا اور بنی قریظہ پر چڑھائی کرنا اور محاصرہ کرنا۔
(۱۶۲۹)۔ سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے تھے کہ بنی قریظہ سید نا سعد بن معاذؓ کے فیصلے پر راضی ہو کر قلعے سے نیچے اتر آئے۔ رسول اللہﷺ نے کسی کو سعدؓ کے پاس بھیجا۔ وہ گدھے پر بیٹھے ہوئے تشریف لائے ، جب مسجد کے قریب پہنچے تو رسول اللہﷺ نے انصار سے کہا کہ اپنے سر دار اپنے بزرگ کو لو (یعنی اتارو) پھر آپﷺ نے (سعدؓ سے) کہا کہ یہ کافر تمہارے فیصلے پر اترے ہیں (تم کیا فیصلہ کرتے ہو ؟) سیدنا سعدؓ نے جواب دیا کہ جو کافر لڑائی کے قابل ہیں انھیں قتل کر دیا جائے اور ان کی اولاد اور عورتیں قید کی جائیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا :'' تو نے ہی فیصلہ کیا جیسے اللہ کا حکم تھا یا جیسے بادشاہ (یعنی اللہ) کا حکم تھا۔ ''
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ ذات الرقاع کی جنگ کا بیان۔
(۱۶۳۰)۔ سیدنا جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنے اصحاب کو خوف کی نماز اپنے ساتویں غزوۂ، یعنی غزوہ ذات الرقاع میں پڑھائی۔

(۱۶۳۱)۔ سیدنا ابو موسیٰؓ کہتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے ہمراہ ایک لڑائی میں نکلے اور ہم چھ آدمیوں کے پاس صرف ایک اونٹ تھا۔ ہم آگے پیچھے باری باری اس پر سوار ہوتے تھے ، ہمارے قدم چھلنی ہو گئے تھے اور میرے دونوں پاؤں پھٹ گئے اور ناخن بھی گر پڑے تو ہم اپنے پاؤں پر پٹیاں باندھتے تھے ، اس لڑائی کا نام ذات الرقاع بھی اسی وجہ سے رکھا گیا (یعنی پٹیوں دھجیوں والی لڑائی) کیونکہ ہم پاؤں پھٹ جانے کی وجہ سے ان پر پٹیاں باندھتے تھے۔

(۱۶۳۲)۔ سیدنا سہل بن ابی حثمہؓ نے جو رسول اللہﷺ کے ساتھ جنگ ذات الرقاع میں حاضر تھے ، صلوٰ ۃ خوف (یعنی خوف کی نماز پڑھنے) کا بیان کیا کہ ایک گروہ نے رسول اللہﷺ کے ہمراہ صف باندھی اور ایک گروہ دشمن کے مقابل رہا۔ رسول اللہﷺ نے اپنے ساتھ والوں کو ایک رکعت پڑھائی پھر آپﷺ کھڑے رہے اور وہ (مقتدی) اپنی نماز پوری کرکے چلے گئے اور دشمن کے مد مقابل ہو گئے) پھر دوسرا گروہ آیا ، آپﷺ نے انھیں دوسری رکعت جو آپﷺ کی باقی رہ گئی پڑھائی ، پھر (بیٹھے) ٹھہر رہے اور انہوں نے اپنی اپنی نماز پوری کر لی پھر آپﷺ نے ان کے ساتھ سلام پھیرا۔

(۱۶۳۳)۔ سیدنا جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ نجد کی طرف جہاد کیا ، جب رسول اللہﷺ واپس آئے تو وہ بھی آپﷺ کے ساتھ واپس آ گئے اور ایک ایسے جنگل میں دوپہر ہو گئی جس میں کانٹے بکثرت تھے پس رسول اللہﷺ (وہیں) اتر گئے اور لوگ جنگل میں جا بجا پھیل گئے اور درختوں کے سائے میں ٹھہرے۔ رسول اللہﷺ کیکر کے ایک گھنے درخت کے نیچے ٹھہرے اور اپنی تلوار اس پر لٹکا دی۔ سیدنا جابرؓ کہتے ہیں کہ ہم تھوڑی ہی دیر سوئے تھے کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں آواز دی۔ ہم آپﷺ کے پاس آئے تو دیکھا کہ ایک دیہاتی آپﷺ کے پاس بیٹھا ہے آپﷺ نے فرمایا :'' اس نے میرے سونے کی حالت میں میری تلوار کھینچ لی ، اسی اثنا میں میں اٹھ بیٹھا تو ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں دیکھی۔ یہ مجھ سے کہنے لگا کہ اب بتا تجھے میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے ؟ میں نے جواب دیا کہ اللہ بچا سکتا ہے پس یہ ہے وہ جواب بیٹھا ہوا ہے۔ '' لیکن پھر آپﷺ نے اسے کچھ سزا نہ دی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ بنی مصطلق جو بنی خزاعہ کی ایک شاخ ہیں ، ان کی لڑائی کا بیان اور اسی کو جنگ مریسیع کہتے ہیں۔
(۱۶۳۴)۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کے ہمراہ جنگ بنی مصطلق میں نکلے اور ہمیں عرب کی باندیاں اچھی لگیں اور ہمیں عورتوں کی خواہش ہوئی، عورتوں کے بغیر رہنا مشکل ہو گیا۔ ہم نے عزل کرنا اچھا جانا اور عزل کرنے کا ارادہ کیا پھر ہم نے سوچا کہ جب رسول اللہﷺ ہم میں موجود ہیں تو پھر ہم ان سے بغیر پوچھے کیوں عزل کریں ؟ ہم نے آپﷺ سے سوال کیا تو آپﷺ نے جواب دیا :''عزل کرنے میں تمہارا کچھ فائدہ ہے اور نہ تم پر کوئی خوف ہے۔ کوئی جان پیدا ہونے والی قیامت تک بغیر پیدا ہوئے نہ رہے گی (ضرور پیدا ہو گی)''۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جنگ بنی انمار کا بیان۔
(۱۶۳۵)۔ سیدنا جابر بن عبداللہ انصاریؓ کہتے ہیں میں نے رسول اللہﷺ جو جنگ انمار میں سواری پر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا،آپﷺ کا منہ مشرق کی طرف تھا، (اور) آپﷺ نفل نماز پڑھ رہے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ جنگ حدیبیہ کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول ''یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے راضی ہو گیا جبکہ وہ تجھ سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے۔ ''
(۱۶۳۶)۔ سیدنا بر اءؓ کہتے ہیں کہ لوگو!تم تو سورۂ فتح سے مراد فتح مکہ لیتے ہو اور ہم بیعت الرضوان کی جو حدیبیہ کے دن ہوئی ، فتح سمجھتے ہیں (جس کا قصہ یوں ہے) کہ ہم چودہ سو آدمی رسول اللہﷺ کے ہمراہ تھے اور حدیبیہ ایک کنواں ہے ، اس کا پانی ہم نے لینا شروع کیا ، اس قدر) نکالا کہ اس میں اس قطرہ نہ چھوڑا۔ جب یہ خبر نبیﷺ کو معلوم ہوئی تو آپﷺ وہاں تشریف لائے اوراس کے کنارے پر بیٹھ کر ایک برتن میں پانی منگوایا اور وضو کیا پھر کلی کی اور دعا فرمائی اور وہ پانی اس کنویں میں ڈال دیا۔ ہم تھوڑی دیر تک ٹھہرے رہے پھر کنویں میں پانی اس قدر ہو گیا کہ جس سے ہم اور ہمارے جانور ، سب سیراب ہو گئے۔

(۱۶۳۷)۔ سیدنا جابر بن عبداللہؓ فرماتے ہیں کہ حدیبیہ کے دن رسول اللہﷺ نے ہم سے فرمایا :'' آج تم ساری زمین والوں میں سب سے بہتر ہو۔ پھر انھوں نے کہا کہ ہم ایک ہزار چارسو آدمی تھے اور اگر میری بینائی ہوتی تو میں تمہیں اس درخت کی جگہ دکھا دیتا۔

(۱۶۳۸)۔ سیدنا سوید بن نعمانؓ جو کہ اصحاب شجرہ میں سے تھے ، روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اور صحابہ کرامؓ کے پاس (غزوۂ خیبر میں) صرف ستو کھانے کو لائے گئے تو انھوں نے اسی کو چبا لیا۔

(۱۶۳۹)۔ امیر المومنین سیدنا عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ وہ رات کے وقت رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک سفر میں جا رہے تھے تو انھوں نے آپ سے کوئی بات پوچھی لیکن آپﷺ نے انھیں جواب نہ دیا پھر (دوبارہ) پوچھا لیکن آپﷺ نے جواب نہ دیا ، انھوں نے پھر پوچھا لیکن آپﷺ نے پھر کچھ جواب نہ دیا تو سیدنا عمرؓ نے (اپنے آپ سے) کہا اے عمر ! تجھے تیری ماں روئے ، تو نے رسول اللہﷺ سے تین بار پوچھا لیکن آپﷺ نے جواب بھی نہ دیا۔ سیدنا عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے اونٹ کو ایڑ لگائی اور مسلمانوں سے آگے بڑھ گیا۔ میں ڈر رہا تھا کہ کہیں میرے بارے میں کوئی حکم قرآن نہ آ جائے۔ تھوڑی ہی دیر ٹھہرا تھا کہ میں نے ایک پکارنے والے کو سنا جو مجھے پکار رہا تھا ، میں اور ڈرا کہ کہیں میرے بارے میں قرآن نہ اترا ہو۔ پھر میں نے رسول اللہﷺ کے پاس آ کر سلام کیا تو آپﷺ نے فرمایا :'' آج رات مجھ پر ایک سورت اتری ہے جو مجھے ان تمام چیزوں سے زیادہ پسند ہے جن پر سورج طلوع ہوا ، پھر یہ آیت پڑھی '' بے شک (اے نبی !) ہم نے آپ کو ایک کھلم کھلا فتح دی ہے۔ ''(سورۂ فتح :۱)

(۱۶۴۰)۔ سیدنا مسور بن مخرمہؓ کہتے ہیں کہ حدیبیہ کے سال رسول اللہﷺ ایک ہزار سے زیادہ کئی سو صحابہ کے ساتھ نکلے۔ جب ذو الحلیفہ میں پہنچے تو قربانی کے جانوروں کے گلے میں ہار ڈالا اور ان کا کوہان چیز کر نشان دار کر دیا اور وہیں سے عمرہ کا احرام باندھ اور بنی خزاعہ کے ایک جاسوس کو روانہ کیا (کہ قریش کی خبر لائے) اور آپﷺ آگے بڑھتے رہے ، جب آپﷺ موضع غدیر الاشطاط میں پہنچے تو جاسوس نے آپﷺ کے پاس آ کر بتایا کہ قریش نے آپﷺ سے لڑنے کے لیے فوجیں اکٹھی کی ہیں اور یہ فوجیں مختلف قبیلوں سے لی گئی ہیں ، وہ سب آپﷺ سے لڑیں گے اور آپﷺ کو بیت اللہ سے روکیں گے اور وہاں تک جانے نہ دیں گے۔ آپﷺ نے پوچھا :'' اے لوگو! مجھے مشورہ دو (کہ کیا کرنا چاہیے) تمہاری کیا یہ رائے ہے کہ میں کافروں کے اہل و عیال کو غارت کر دوں جو کہ ہمیں بیت اللہ سے روکنے کا ارادہ کرتے ہیں ، اگر وہ ہمارا مقابلہ کریں گے تو اللہ بڑا بزرگ و غالب ہے ، جس نے جاسوس کو مشرکین کے شر سے بچا لیا اور اگر وہ ہمارا مقابلہ نہ کر سکے تو ہم انھیں لوٹے ہوؤں اور بھاگے ہوؤں کی طرح چھوڑ دیں گے۔ '' سیدنا ابو بکرؓ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! ہم تو صرف بیت اللہ کا قصد کر کے آئے ہیں ، ہم کسی کو مارنا یا لوٹنا نہیں چاہتے ، آپ چلیے تو سہی اگر کوئی ہمیں روکے گا تو ہم لڑیں گے تو آپﷺ نے فرمایا :'' اللہ کے نام پر چلو۔ ''

(۱۶۴۱)۔ سیدنا ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد (سیدنا عمرؓ) نے انھیں اپنا گھوڑا لانے کے لیے بھیجا جو ایک انصاری شخص کے پاس تھا ، انھوں (راستہ میں) انھوں نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ درخت کے نیچے لوگوں سے بیعت لے رہے ہیں اور سیدنا عمرؓ کو یہ معلوم نہ تھا ، پس انھوں نے (یعنی عبداللہ بن عمرؓ) رسول اللہﷺ سے بیعت کر لی ، پھر گھوڑا لینے گئے اور اس کو لے کر سیدنا عمرؓ کے پاس آئے ، اور وہ (زرہ پہنے ہوئے تھے) ، ہتھیار پہن رہے تھے تو سیدنا عبداللہؓ نے ان سے بیان کیا کہ لوگ رسول اللہﷺ سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے ہیں۔ (پھر) وہ دونوں چلے یہاں تک کہ سیدنا عمرؓ نے رسول اللہﷺ سے بیعت کی۔ یہ (وہ) قصہ ہے۔ (کہ) جس کی وجہ سے لو گ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمرؓ ، سیدنا عمرؓ سے پہلے اسلام لائے۔

(۱۶۴۲)۔ سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیؓ کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے جب عمرہ ادا فرمایا تو ہم بھی آپﷺ کے ساتھ تھے۔ آپﷺ نے طواف کیا تو ہم نے بھی آپﷺ کے ساتھ طواف کیا۔ پھر آپﷺ نے نماز پڑھی تو ہم نے بھی آپﷺ کے ساتھ نماز پڑھی اور آپﷺ صفا و مروہ کے درمیان دوڑے اور ہم آپﷺ کو اہل مکہ سے پوشیدہ کیے ہوئے تھے تا کہ کوئی آپﷺ کو ایذا نہ پہنچا سکے۔
 
Top