• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح بخاری - زین العابدین احمد بن عبداللطیف - حصہ سوم (یونیکوڈ)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب: غزوہ ذات قرد کا بیان۔
(۱۶۴۳)۔ سیدنا سلمہ بن اکو عؓ کہتے ہیں کہ میں صبح کی اذان سے پہلے (مدینہ سے غابہ کی طرف) چلا۔ ذی قرد میں رسول اللہﷺ کی دودھ والی اونٹنیاں چر رہی تھیں ، راہ میں مجھے سید نا عبدالرحمن بن عوفؓ کا غلام ملا اور اس نے بتایا کہ رسول اللہﷺ کی اونٹنیاں پکڑی گئیں۔۔۔ اور طویل حدیث ذکر کر کی جو کہ پہلے گزر چکی ہے (دیکھیے :۳۰۰)اور اس حدیث کے آخر میں سیدنا سلمہؓ کہتے ہیں کہ پھر ہم سب واپس آ گئے اور رسول اللہﷺ مدینہ پہنچنے تک مجھے اپنی اونٹنی پر بٹھا کر لائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
جنگ خیبر کا بیان۔
(۱۶۳۳)۔ سیدنا بن اکوعؓ کہتے ہیں کہ ہم جنگ خیبر میں رات کے وقت رسول اللہﷺ کے ساتھ نکلے کسی نے سیدنا عامرؓ سے کہا کہ اے عامر ! تو ہمیں اپنے شعر کیوں نہیں سناتا؟ سیدنا عامرؓ شاعر تھے وہ (اپنی سواری سے) اتر کر قوم کو شعر سنانے لگے اور یہ پڑھتے تھے :'' اے اللہ ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہرگز ہدایت نہ پاتے ، نہ صدقہ دیتے اور نہ نماز پڑھتے ، معاف کر جو تیر ی اطاعت میں ہم سے کوتاہی ہو ، ہم تجھ پر قربان ہوں اور اگر ہم لڑیں تو ہمارے قدم ثابت رکھ اور ہم پر سکونت نازل فرما ، جب کوئی ہمیں ناحق کی طرف بلائے گا تو ہم انکار کر دیں گے ، کفار کے شور و غل مچا کر ہم پر مدد بلائی ہے۔ '' تو رسول اللہﷺ نے فرمایا :'' یہ کون ہے جو اونٹوں کے چلانے کے لیے شعر پڑھ رہا ہے ؟ لوگوں نے عرض کی کہ عامر بن اکوعؓ ہیں تو آپﷺ نے فرمایا :'' اللہ اس پر رحم فرمائے۔ '' ایک شخص (سیدنا عمرؓ) نے کہا کہ یا نبی اللہ (عامر کے و اسطے جنت یا شہادت) واجب ہو گئی ، اس سے آپ نے ہمیں بھی فائدہ کیوں نہیں اٹھا نے دیا ؟ پھر ہم خیبر پہنچے اور خیبر والوں کو گھیر لیا اسی اثنا میں ہمیں سخت بھوگ لگی پھر اللہ نے خیبر پر مسلمانوں کو فتح دی۔ فتح کے روز مسلمانوں نے شام کو آگ سلگائی (ہر ایک کھانے پکانے لگا) تو آپﷺ نے پوچھا :'' یہ کیسی آگ ہے اور کس چیز نے نیچے تم آگ جلا رہے ہو ؟'' لوگوں نے عرض کی کہ گوشت کے نیچے۔ آپﷺ نے پوچھا :'' گوشت کس جانور کا ہے ؟ '' انھوں نے جواب دیا گھر یلو گدھوں کا تو آپﷺ نے فرمایا :'' اسے گرا دو اور ہانڈیاں توڑ دو۔ '' کسی نے عرض کی کیا ہم اسے گرا دیں اور ہانڈیاں کو دھولیں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا :'' ایسا ہی کر لو۔ '' پھر جب دشمنوں کے مقابل صف بندی ہوئی تو سیدنا عامرؓ کی تلوار چھوٹی تھی ، وہ ایک یہودی کی پنڈلی پر مارنے لگے تو اس کی نوک پلٹ کر سیدنا عامر ہی کے گھٹنے پر لگی اور سیدنا عامرؓ اسی زخم سے شہید ہو گئے۔ (راوی) کہتے ہیں کہ جب سب واپس آئے تو رسول اللہﷺ نے مجھے مغموم دیکھا تو آپﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کر پوچھا :'' تیرا کیا حال ہے ؟ '' میں نے عرض کی میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں لو گ بیان کرتے ہیں کہ عامرؓ کے عمل چھن گئے (کیونکہ انھیں نے خود کشی کی ہے) تو آپﷺ نے فرمایا :'' جس نے یہ کہا وہ جھوٹا ہے ، عامرؓ کو تو دو ہرا اجر ملے گا۔ '' اور اپنی دونوں انگلیاں ملا کر فرمایا :'' عامر (رضی اللہ عنہ) کو شش کر نے والا اور لڑنے والا تھا۔ کوئی بھی عربی زمین پر عامر کی طرح نہیں چلا ، اس جیسے عربی جو مدینے میں رہتے ہوں بہت کم ہیں۔ '' اور ایک روایت میں یوں ہے :'' کوئی عربی مدینہ میں عامر کی مثل پیدا نہیں ہوا۔ ''

(۱۶۴۵)۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ خیبر میں رات کو پہنچے (یہ حدیث کتاب الصلوٰۃ میں حدیث : ۲۴۳کے تحت گزر چکی ہے) اس روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے ان میں جو لڑنے والے تھے ان کو قتل کیا اور ان کی عورتوں اور بچوں کو قید کیا۔

(۱۶۴۶)۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ نے خیبر میں چڑھائی کی تو (راستے میں) لو گ ایک بلند جگہ پر چڑھے اور پکا رپکار کر اللہ اکبر اللہ اکبر ، لا الہٰ الا اللہ کہنے لگے۔ تو آپﷺ نے فرمایا :'' اپنے نفسوں پر نرمی کرو (اور چیخو نہیں) کیونکہ تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکارتے ہو ، بلکہ تم سننے والے کو اور جو بہت نزدیک ہے اسے پکارتے ہو اور وہ تمہارے ساتھ ہے۔ '' (اور اس وقت) میں رسول اللہﷺ کی سواری کے پیچھے ہی تھا۔ آپﷺ نے مجھے لا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ الَّا بِااﷲِ پڑھتے ہوئے سنا پھر فرمایا :'' اے عبداللہ بن قیس ! (یہ سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ کا اصل نام ہے)۔ '' میں نے کہا لبیک یا رسول اللہ ! (کہ اے اللہ کے رسول ! میں حاضر ہوں) تو آپﷺ نے فرمایا :'' کیا میں تجھے ایسا کلمہ نہ بتاؤں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے ؟'' میں نے عرض کی کہ ضرور یا رسول اللہ ! ضرور بتایے ، آپﷺ پر میرے ماں باپ قربان ہوں تو آپﷺ نے فرمایا :'' (وہ کلمہ) لاحَوْل وَ لَا قُوَّۃَ اِ لَّا بِا اﷲِ (ہے)۔

(۱۶۴۷)۔ سیدنا سہل بن سعد ساعدیؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ اور مشرکین کا (خیبر کے دن) مقابلہ ہوا اور دونوں طرف کے لوگ لڑے۔ جب رسول اللہﷺ اپنی فوج کی طرف لوٹے اور کافر اپنی فوج کی طرف تو رسول اللہﷺ کے اصحاب میں سے ایک شخص تھا جو کسی اکیلے مشرک کو نہ چھوڑتا تھا بلکہ اس کے پیچھے جا کر اسے اپنی تلوار سے مار دیتا۔ لوگوں نے کہا کہ اس نے تو آج وہ کام کیا ہے جو ہم میں سے کوئی نہ کر سکا (بہت سے کافروں کو مار ڈالا) رسول اللہﷺ نے فرمایا :'' وہ تو جہنمی ہے۔ '' مسلمانوں میں سے ایک شخص نے کہا کہ میں اس کے ساتھ رہوں گا ، پس وہ اس کے ساتھ رہا ، جہاں وہ ٹھہرتا یہ بھی ٹھہر جاتا ، جب وہ دوڑتا یہ بھی دوڑ کر اس کے ساتھ جاتا۔ (راوی نے) کہا کہ آخر وہ شخص سخت زخمی ہو گیا اور اس نے مرنے میں جلدی کی ، (اور) اپنی تلوار کا قبضہ زمین پر رکھا اور تلوار کی نوک اپنی دونوں چھاتیوں کے درمیان رکھ کر اس پر اپنا سارا بوجھ ڈال دیا اور اپنے آپ کو قتل کر ڈالا تو وہ دوسرا شخص نبیﷺ کے پاس آیا اور بولا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول اللہ ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا :'' وہ کیسے ؟ اس نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! ابھی ابھی آپ نے جس شخص کو دوزخی فرمایا تھا اور لوگوں پر آپ کا یہ کہنا شاق گزرا تھا ، تو میں نے سوچا کہ چل کر اس کا حال دیکھوں اور لوگوں سے اس کی کیفیت بیان کروں۔ چنانچہ میں اس کے پیچھے نکلا ، پھر وہ شخص بہت زخمی ہو گیا تو جلد مرنے کے لیے اس نے اپنی تلوار کا قبضہ زمین پر رکھا اور نوک اپنی چھاتی سے لگائی پھر اپنا سارا بوجھ اس پر ڈال دیا اور اپنے آپ کو ہلاک کر دیا۔ رسول اللہﷺ نے یہ سن کر فرمایا :'' کوئی شخص لوگوں کی نظر میں اہل جنت کے سے عمل کرتا ہے حالانکہ وہ دوزخی ہوتا ہے اور کوئی شخص لوگوں کی نگاہ میں دوزخیوں کے سے کام کرتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہو تا ہے۔ ''

(۱۶۴۸)۔ اور ایک روایت میں کہا '' پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا :'' اے فلاں ! کھڑے ہو کر آواز لگا دے کہ جنت میں ایماندار کے سوا کوئی نہ جائے گا اور اللہ تعالیٰ بد کار سے بھی دین کی مدد کرا لیتا ہے۔ ''

(۱۶۴۹)۔ سیدنا سلمہ بن اکوعؓ سے روایت ہے کہ خیبر کے دن میری پنڈلی پر ایک چوٹ لگی تھی پس میں نبیﷺ کے پاس آیا تو آپﷺ نے اس پر تین دفعہ دم کر دیا مجھے آج تک اس کی تکلیف نہیں ہو ئی۔ ''

(۱۶۵۰)۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ مدینہ سے خیبر کے درمیان تین شب ٹھہرے ان میں ام المومنین صفیہؓ سے شب عروسی گزاری پھر میں نے لوگوں کو رسول اللہﷺ کے ولیمہ کے لیے بلایا ، اس میں روٹی تھی اور نہ گوشت تھا ، اس میں صرف یہ تھا کہ سیدنا بلالؓ کو رسول اللہﷺ نے دستر خوان بچھانے کا حکم دیا۔ دستر خوان بچھا دیا گیا پھر اس پر کھجوریں اور پنیر اور گھی ڈال دیا گیا۔ پھر مسلمانوں نے باہم گفتگو کی کہ صفیہ امہات المومنین میں سے ایک ہیں یا لونڈی ہیں ؟ پھر خود ہی کہنے لگے کہ اگر رسول اللہﷺ نے انھیں حجاب کرایا تو امہات المومنین میں سے ہوں گی اور اگر حجاب نہ کرایا تو لونڈی رہیں گی۔ چنانچہ جب آپﷺ نے کوچ کیا تو ام المومنینؓ کے واسطے اپنے پیچھے بیٹھنے کی جگہ بنائی اور پردہ کھینچ دیا۔

(۱۶۵۱)۔ امیر المومنین سیدنا علی بن ابی طالبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے خیبر کے دن عورتوں کے ساتھ متعہ کرنے اور گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا تھا۔

(۱۶۵۲)۔ سیدنا ابو موسیٰ کہتے ہیں کہ جب ہم یمن میں تھے تو رسول اللہﷺ کی مکہ سے نکلنے کی خبر پہنچی تو ہم بھی آپﷺ کی طرف ہجرت کر کے روانہ ہوئے ، میں اور میرے دو بھائی ابو بردہ ابو رہم تھے ، میں ان سے چھوٹا تھا اور ترپن (۵۳) آدمی میری قوم میں سے ہمارے ساتھ آئے۔ خیر ہم سب جہاز میں سوار ہوئے۔ اتفاق سے یہ جہاز حبش کے ملک نجاشی بادشاہ کے پاس پہنچا۔ وہاں ہمیں سیدنا جعفر بن ابی طالبؓ ملے۔ ہم نے ان کے پاس قیام کیا ، پھر ہم سب اکٹھے روانہ ہوئے اور ہم نبیﷺ کے پاس اس وقت پہنچے جب آپﷺ خیبر فتح کر چکے تھے اور دیگر لوگ ہم اہل سفینہ سے کہنے لگے کہ ہجرت میں ہم لوگ تم پر سبقت لے گئے۔ اور سیدہ اسماء بنت عمیسؓ جو ہمارے ساتھ آئی تھیں ، ام المومنین حفصہؓ کے ہاں مہمان گئیں اور انھوں نے بھی نجاشی کے ملک میں مہاجرین کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ سیدنا عمرؓ ام المومنین حفصہؓ کے پاس آئے سیدہ اسماء بنت عمیسؓ ان کے پاس موجود تھیں، سیدنا عمرؓ نے اسماء کو دیکھ کر پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ ام المومنین حفصہؓ نے جواب دیا کہ اسماء بنت عمیس (رضی اللہ عنہ) ہے۔ تو انھوں نے کہا کہ جو حبش کے ملک میں گئی تھیں اور اب سمند ر کا سفر کر کے آئی ہیں ؟ اسماءؓ بولیں جی ہاں میں وہی ہوں۔ سیدنا عمرؓ نے کہا کہ ہم ہجرت میں تم سے سبقت لے گئے لہٰذا رسول اللہﷺ پر تم سے زیادہ ہمارا حق ہے ، یہ سن کر انھیں غصہ آگیا اور کہنے لگیں :'' اللہ کی قسم ! ہر گز نہیں ، تم تو رسول اللہﷺ کے پاس موجود تھے ، آپﷺ تم میں سے بھوکے کو کھانا کھلاتے ہیں اور تمہارے جاہل کو نصیحت کرتے ہیں اور ہم اجنبیوں اور دشمنوں کی زمین میں تھے جو حبش میں واقع ہے اور ہماری یہ سب تکالیف اللہ اور اس کے رسول اللہﷺ کی راہ میں تھیں ، اللہ کی قسم ! مجھ پر کھانا پینا حرام ہے جب تک رسول اللہﷺ سے تمہاری بات کا ذکر نہ کر لوں اور ہم کو ایذا دی جاتی تھی اور ہمیں ہر وقت خوف رہتا تھا۔ عنقریب میں نبی کریمﷺ سے ذکر کروں گی اور ان سے پوچھو گی۔ ''اللہ کی قسم ! نہ میں جھوٹ بولوں گی نہ میں کجروی اختیار کروں گی اور نہ میں اس سے زیادہ کہوں گی۔ '' جب نبیﷺ تشریف لائے سیدہ اسماءؓ نے عرض کی کہ یا نبی اللہ ! عمرؓ نے اس اس طرح کہا ہے تو آپﷺ نے پوچھا :'' تو نے انھیں کیا جواب دیا ؟'' تو وہ بولیں کہ میں نے انھیں اس طرح جواب دیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا :''تم سے زیادہ کسی کا حق نہیں ہے کیونکہ تم عمر (رضی اللہ عنہ) اور ان کے ساتھیوں کی ایک ہجرت ہے اور تم کشتی والوں کی تو دو ہجرتیں ہوئیں۔ ''

(۱۶۵۴)۔ سیدنا ابوموسیٰؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا :'' میں اشعری لوگوں کی آواز پہچانتا ہوں جب وہ رات کو مدینہ میں اپنے گھروں میں قرآن پڑھا کرتے ہیں اور میں ان کے رات کو قرآن پڑھنے کی آواز سے ان کے ٹھکانے پہنچان لیتا ہوں ، اگر چہ میں ان کے اترنے کی جگہ نہیں دیکھتا ، جہاں وہ دن میں اترے تھے اور انہی میں سے ایک شخص حکیم ہے کہ جب وہ کافروں کے سواروں یا دشمن سے ملتا ہے تو ان سے کہتا ہے کہ میرے ساتھی تمہیں حکم دیتے ہیں کہ (لڑنے کے لیے) ان کا انتظار کرو۔

(۱۶۵۵)۔ سیدنا ابو موسیٰؓ کہتے ہیں کہ ہم فتح خیبر کے بعد رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوئے تو آپﷺ نے (غنیمت خیبر سے) ہمیں حصہ دیا اور ہمارے علاوہ کسی اورکو جو بوقت فتح حاضر نہ تھا حصہ نہیں دیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ عمر ۂ قضا کا بیان۔
(۱۶۵۶)۔ سیدنا ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ام المومنین میمونہؓ سے حالت احرام میں نکاح کیا اور احرام کھولنے کے بعد ان سے صحبت کی اور ام المومنین میمونہؓ سرف ہی میں (جہاں نکاح ہوا تھا) فوت ہوئیں۔
فائدہ : ام المومنین میمونہؓ خود اپنے نکاح کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ آپﷺ اس وقت احرام میں نہیں تھے۔ (صحیح مسلم) سیدنا ابن عباسؓ کو شاید خبر بعد میں ملی ہو گی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ غزوۂ موتہ کا بیان جو ملک شام میں ہے۔
(۱۶۵۷)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے غزوۂ موتہ میں سیدنا زید بن حارثہؓ کو امیر بنایا پھر فرمایا :'' اگر زیدؔ شہید ہو جائیں تو جعفرؔ امیر ہیں اور اگر جعفرؔ شہید ہو جائیں تو عبدؔاللہ رواحہ امیر ہیں (رضی اللہ عنہ) سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں اس لڑائی میں موجود تھا جب ہم نے سیدنا جعفر بن ابی طالبؓ کو تلاش کیا تو انھیں شہیدوں میں پایا اور ہم نے نوے سے کچھ اوپر نیزے اور تلوار کے زخم ان کے جسم پر دیکھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ نبیﷺ کا سیدنا اسامہ بن زیدؓ کو قوم حرقات (جہینہ قبیلہ کی ایک شاخ) کی طرف روانہ کرنا۔
(۱۶۵۸)۔ سیدنا اسامہ بن زیدؓ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہﷺ نے قبیلہ حرقہ کی طرف بھیجا ، بو قت صبح ہم نے اس قوم پر حملہ کیا اور ان کو شکست دی۔ پھر میں اور ایک انصار مرد کفار کے ایک شخص سے ملے جب ہم نے اسے گھیر لیا تو اس نے کہا لا الہٰ الا اللہ۔ انصاری رک گیا اور میں نے اسے نیزہ سے مار ڈالا۔ جب ہم مدینہ آئے اور نبیﷺ کو یہ خبر پہنچی تو آپﷺ نے کہا :'' اسامہ ! کیا تو نے اسے لا الہٰ الا اللہ کہنے کے بعد مار ڈالا ؟'' میں نے عرض کی کہ وہ تو پناہ کے واسطے کہہ رہا تھا (سچے دل سے نہیں کہہ رہا تھا) آپﷺ بار بار یہی کہتے رہے ، یہاں تک کہ میں نے یہ خواہش کی کہ کاش ! میں اس دن سے پہلے اسلام نہ لایا ہوتا (بلکہ اس کے بعد لاتا میرا یہ گناہ معاف ہو جاتا)۔

(۱۶۵۹)۔ سیدنا سلمہ بن اکوعؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کے ہمراہ سات بار جہاد کیا اور نو مرتبہ آپﷺ کے لشکر کے ساتھ جو آپﷺ روانہ کرتے تھے لڑا ہوں۔ ایک دفعہ ہمارے امیر سیدنا ابو بکر صدیقؓ اور ایک بار سیدنا اسامہؓ تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ غزوۂ فتح مکہ کا بیان جو رمضان میں ہوا۔
(۱۶۶۰)۔ سیدنا ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ رمضان کے مہینہ میں مدینہ سے دس ہزار صحابہ کے ساتھ (مکہ کی طرف) روانہ ہوئے اور یہ مدینہ میں آنے سے ساڑھے آٹھ برس بعد کا ذکر ہے۔ مسلمان اور آپﷺ مکہ کی طرف روانہ ہوئے تو آپﷺ کے ساتھ کچھ صحابہ بھی روزے رکھتے رہے۔ جب مقام کدید پر جو کہ عسفان و قدیر کے درمیان ایک چشمہ ہے ، پہنچے تو آپﷺ نے اور آپﷺ کے ہمراہیوں نے روزہ کھول لیا۔ (روزہ افطار کر لیا)۔

(۱۶۶۱)۔ سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ رمضان کے مہینے میں حنین کی طرف نکلے۔ تو آپﷺ کے ساتھ والے لوگوں کا ایک حال نہ تھا ، بعض لوگوں روزہ اور بعض بغیر روزہ کے تھے۔ چنانچہ جب آپﷺ اپنی سواری پر بیٹھ گئے تو ایک برتن میں پانی یا دودھ منگوا کر اپنی ہتھیلی یا سواری پر رکھا پھر اسے پیا۔ پھر لوگوں کی طرف نظر کی تو جنہوں نے نہ رکھا تھا تو انہوں نے روزہ داروں سے کہا کہ تم بھی افطار کر لو (کیونکہ نبیﷺ افطار کر چکے)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ فتح مکہ کے دن رسول اللہﷺ نے جھنڈا کہاں کھڑا کیا ؟
(۱۶۶۲)۔ سیدنا عروہ زینؓ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ فتح مکہ کے سال روانہ ہوئے تو یہ خبر قریش کو پہنچی۔ ابو سفیان بن حرب اور حکیم بن احزام اور بدیل بن ورقاء رسول اللہﷺ کے بارے میں خبر لینے کو نکلے۔ چلتے چلتے جب موضع مر الظہران میں (جو مکہ کے قریب ہے) پہنچے تو وہ کیا دیکھتے ہیں کہ آگ بکثرت روشن ہے جیسا کہ عرفہ میں ہوتی ہے۔ ابو سفیان نے کہا کہ یہ کیسی آگ ہے ، یہ جگہ جگہ آگ تو میدان عرفات کا منظر پیش کر رہی ہے۔ بدیل بن ورقاء نے کہا بنی عمرو (خزاعہ) کی آگ ہو گی۔ ابو سفیان نے کہا بنی عمر و کے اتنے آدمی نہیں ہیں۔ اتنے میں رسول اللہﷺ کے چوکیداروں نے انھیں دیکھ لیا اور انھیں پکڑ کر رسول اللہﷺ کے پاس لے آئے۔ ابو سفیان مسلمان ہو گیا۔ جب رسول اللہﷺ چلے تو سیدنا عباس بن عبداالمطلبؓ سے کہا کہ ابو سفیان کو پہاڑ کی گھاٹی پر کھڑا کرو تاکہ وہ مسلمانوں کی فوج دیکھ لے۔ سیدنا عباسؓ نے اسے کھڑا کر دیا ، اب جو قبیلے رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے گزرنا شروع ہوئے ، وہ قبیلہ قبیلہ ہو کر ابو سفیان کے پاس سے گزرے ، ایک لشکر گزرا تو ابو سفیان بولا اے عباس ! یہ کون لوگ ہیں ؟ وہ بولے کہ یہ قبیلہ غفار ہے۔ ابو سفیانؓ نے کہا کہ میری اور غفار کی لڑائی تو نہ تھی (پھر یہ رسول اللہﷺ کے ہمراہ مجھ پر کیوں چڑھ آئے ہیں ؟) پھر قبیلہ جہینہ گزرا تو ابو سفیان نے مثل اول گفتگو کی۔ پھر قبیلہ سعد بن ہزیم گزرا تو بھی ابو سفیان نے ایسا ہی کہا اور قبیلہ سلیم گزرا تو بھی ابو سفیان نے یہی بات کی پھر ایک ایسا قبیلہ گزرا کہ اس جیسا ، ابو سفیانؓ نے نہیں دیکھا تھا تو اس نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ تو سیدنا عباسؓ نے جواب دیا کہ یہ انصار ہیں ، ان کے امیر سیدنا سعد بن عبادہؓ ہیں ، انہی کے پاس جھنڈا ہے ، پھر سیدنا سعد بن عبادہؓ نے کہا کہ اے ابو سفیان ! آج کا دن کفار کے قتل کا دن ہے ، آج کے دن کعبہ حلال ہو جائے گا (یعنی کفار کا قتل اس میں ناجائز ہو جائے گا)۔ ابو سفیانؓ نے کہا کہ اے عباس ! اچھا تباہی کا دن آیا ہے۔ پھر ایک لشکر آیا جو سب لشکروں سے چھوٹا تھا انہی میں رسول اللہﷺ اور آپﷺ کے صحابہ تھے اور نبیﷺ کا جھنڈا سیدنا زبیر بن عوامؓ کے پاس تھا۔ جب رسول اللہﷺ ابو سفیانؓ کے پاس سے گزرے تو ابو سفیانؓ نے کہا کہ آپﷺ کو نہیں معلوم کہ سعد بن عبادہؓ نے کیا کہا ہے ؟ آپﷺ نے پوچھا :'' اس نے کیا کہا ؟ '' ابو سفیانؓ بولے کہ اس نے ایسا ایسا کہا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا :'' سعد نے غلط کہا ہے ، بلکہ یہ دن وہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کعبہ کو بزرگی دے گا اور وہ دن ہے کہ کعبہ کو غلاف پہنایا جائے گا۔ ''(عروہ) کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے موضع حجون میں جھنڈا گاڑنے کا حکم دیا۔ پس سیدنا عباسؓ نے سیدنا زبیر بن عوامؓ سے کہا کہ ابو عبداللہ ! کیا رسول اللہﷺ نے تمہیں اس جگہ جھنڈا گاڑنے کا حکم دیا تھا ؟ (سیدنا زبیرؓ نے کہا کہ) رسول اللہﷺ نے سیدنا خالد بن ولیدؓ کو حکم دیا کہ کدا (کاف کی زبر کے ساتھ) بلندیِ مکہ کی جانب سے جانا اور خود نبیﷺ کا کدا (کاف کی پیش کے ساتھ) (نشیبی علاقے) کی طرف سے تشریف لائے۔ سیدنا خالدؓ کی فوج میں سے دو سوار حبیش بن اشعر اور کر زبن جابر فہریؓ اس دن شہید ہوئے۔

(۱۶۶۳)۔ سیدنا عبداللہ بن مغفلؓ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن میں نے رسول اللہﷺ کو اونٹنی پر سوار دیکھا اور آپﷺ سورۂ فتح خوش الحانی سے پڑ ھ رہے تھے۔ (سیدنا عبداللہ بن مغفلؓ کے شاگرد معاملہ بن قرۃ) کہتے ہیں کہ اگر مجھے ڈر نہ ہوتا کہ لوگ میرے گرد جمع ہو جائیں گے تو میں اس طرح خوش الحانی سے پڑھتا جیسے سیدنا عبداللہ بن مغفلؓ نے پڑھ کر سنایا تھا۔

(۱۶۶۴)۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ فتح مکہ کے دن مکہ میں گئے اور اس وقت خانہ کعبہ کے گرد تین سو ساٹھ بت تھے۔ آپﷺ اپنے ہاتھ کی لکڑی سے ان بتوں کو مارتے اور یہ فرماتے جاتے تھے :'' حق (یعنی اسلامی تعلیمات یا قرآن یا جہا د) آیا اور باطل چلا گیا۔ '' حق آیا ، اب باطل نہ نیا ہو گا اور نہ دوبارہ آئے گا۔

(۱۶۶۵)۔ سیدنا عمر وبن سلمہؓ کہتے ہیں کہ ہم ایک چشمہ پر رہتے تھے جو گزر گاہ عوام تھا اور ہمارے پاس سے سوار گزرتے تھے ، ہم ان سواروں سے پوچھے تھے کہ لوگوں کا کیا حال ہے اور یہ کون شخص ہے ؟ (جو مدعی نبوت ہے) لوگ جواب دیتے تھے کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے اور میرے پاس وحی آتی ہے یا اللہ نے یہ یہ وحی نازل کی ہے ، پس میں (عمرو بن سلمہ) اس وحی یعنی قرآنی آیات کو اس طرح یاد کر لیتا گویا کہ کوئی میرے سینے میں جما دیتا ہے اور عرب مسلمان ہونے کے واسطے فتح مکہ کا انتظار کر رہے تھے اور کہتے تھے کہ محمد (ﷺ) اور اس کی قوم (یعنی قریش) کو چھوڑ دو۔ اگر محمد (ﷺ) ان پر غالب آگیا تو وہ سچا نبی ہے۔ پھر جب مکہ فتح ہو گیا توہر قوم اسلام لانے میں جلدی کرنے لگی اور میرے باپ نے مسلمان ہو نے میں اپنی قوم پر سبقت کی۔ جب میرا باپ مسلمان ہو کر آیا تو اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی قسم ! میں تمہارے پاس سچے نبی کے پاس سے آیا ہوں ، آپﷺ نے فرمایا ہے :'' تم فلاں وقت یہ نماز اور فلاں وقت فلاں نماز پڑھا کرو اور جب نماز کا وقت ہو تو کوئی تم میں سے اذان کہے اور جو تم میں زیادہ قرآن جانتا ہو وہ نماز پڑھا دے۔ '' قبیلہ والوں نے غور کیا تو کسی کو مجھ سے زیادہ قرآن جاننے والا نہ پایا کیونکہ میں سواروں سے مل مل کر بہت زیادہ یادکر چکا تھا چنانچہ سب نے مجھے اپنا امام بنا لیا ، حالانکہ میں چھ یا ساتھ سال کا تھا اور میں صرف ایک چادر اوڑھے ہوئے تھا جب میں سجدہ کرتا تو وہ سکڑ جاتی تھی (یعنی میرا ستر کھل جاتا تھا)۔ قبیلہ کی ایک عورت نے کہا کہ تم اپنے قاری کا ستر ہم سے کیوں نہیں چھپاتے ؟ انھوں نے کپڑا خرید کر میرا کرتا بنایا ، میں جتنا اس کرتا سے خوش ہوا کسی چیز سے خوش نہیں ہوا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ اللہ تعالیٰ کے قول '' حنین کی لڑائی والے دن ، جب کہ تمہیں اپنی کثرت پر ناز ہو گیا تھا۔۔۔ معاف کرنے والا مہربان ہے۔ ''تک (التوبہ۔ :۲۵۔۔۔ ۲۷) کے بیان میں
(۱۶۶۶)۔ سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیؓ سے روایت ہے کہ ان کے ہاتھ میں تلوار کا) ایک نشان تھا ، انھوں نے کہا کہ مجھے یہ چوٹ حنین کے دن رسول اللہﷺ کے ہمراہ لگی تھی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ جنگ اوطاس کا بیان۔
(۱۶۶۷)۔ سیدنا ابو موسیٰ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ غزوۂ حنین سے فارغ ہوئے تو سیدنا ابو عامرؓ کو امیر لشکر بنا کر اوطاس کی طرف روانہ فرمایا (جہاں پر قبیلۂ ہوازن جمع تھا) سیدنا ابو عامر کا درید بن صمہ سے مقابلہ ہوا ، درید مارا گیا اور اللہ نے اس کے ساتھیوں کو شکست دی۔ پھر کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا ابو عامرؓ کے ہمراہ مجھے بھی بھیجا تھا۔ اتفاق سے ان کے گھٹنے پر زخم آیا ، ایک جشمی مرد نے ان کو تیر مارا جو ان کے گھٹنے میں اتار دیا۔ میں ان کے پاس گیا اور کہا کہ اے چچا ! تمہیں کس نے تیر ماراَ؟ انھوں نے مجھے اشارے سے بتایا کہ فلاں میرا قاتل ہے ، جس نے مجھے تیر مارا ہے۔ میں ارادہ کر کے اس کے پاس پہنچا۔ جب اس نے مجھے دیکھا تو بھاگا۔ میں اس کے پیچھے جاتا تھا اور یہ کہتا تھا (او بے حیا !) تجھے شرم نہیں آتی ، تو ٹھہر تا کیوں نہیں ؟ پھر وہ ٹھہر گیا۔ میرے اور اس کے درمیان تلوار کے دو وار ہوئے ، پھر میں نے اسے مار ڈالا۔ پھر میں نے آ کر ابو عامرؓ سے کہا کہ اللہ نے تمہارے قاتل کو ہلاک کر وا دیا۔ وہ بولے کہ یہ تیر تو نکال لے۔ میں نے وہ تیر نکالا تو اس زخم سے پانی بہنے لگا۔ پھر وہ بولے کہ اے میر ے بھائی کے بیٹے ! تو نبیﷺ کو میر ی طرف سے سلام عرض کرنا اور کہنا کہ وہ ابو عامر (رضی اللہ عنہ) کے لیے استغفار کریں۔ پھر ابو عامرؓ نے مجھے لوگوں پر اپنا قائم مقام بنا دیا۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد وہ شہید ہو گئے۔ جب میں جنگ سے لوٹا تو نبیﷺ کے پاس آیا ، آپﷺ کھجور کی رسی سے بنی ہوئی چار پائی پر لیٹے تھے اور پہلو مبارک میں رسی کے نشان پڑ گئے تھے۔ میں نے آپﷺ سے اپنا اور ابو عامرؓ کا حال بیان کیا اور کہا کہ ابو عامرؓ نے آپﷺ سے مغفرت کی دعا کرنے کی درخواست کی ہے۔ پھر آپﷺ نے پانی منگوا کر وضو کیا ، پھر ہاتھ اٹھا کر دعا کی :'' اے اللہ ! عبید ابو عامر (رضی اللہ عنہ) کو بخش دے۔ '' آپﷺ نے اتنے ہاتھ اٹھائے کہ میں نے آپﷺ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی۔ پھر یوں دعا فرمائی '' اے اللہ ! ابو عامر کا قیامت کے روز بہت سی مخلوق نوع انسانی پر درجہ بلند کرنا۔ '' میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! میرے لیے بھی دعائے مغفرت کیجیے۔ آپﷺ نے کہا :'' اے اللہ ! عبداللہ بن قیس (ابو موسیٰؓ) کے گناہ معاف فرما دے اور قیامت کے دن اچھی جگہ (جنت میں) داخل فرما۔ ''
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ غزوۂ طائف کا بیان جو شوال ۸ہجری میں ہوا۔
(۱۶۶۸)۔ ام المومنین ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ نبیﷺ میرے ہاں تشریف لائے ، اس وقت میرے پاس ایک ہیجڑا بیٹھا تھا۔ میں نے سنا کہ وہ عبداللہ بن ابی امیہ سے کہہ رہا تھا :'' اے عبداللہ! اگر کل اللہ تعالیٰ طائف فتح کر ادے تو غیلان کی بیٹی کو لے کہنا کیونکہ (وہ اس قدر فربہ ہے کہ) جب وہ سامنے سے آتی ہے تو (اس کے پیٹ میں) چار بل پڑتے ہیں اور پیٹھ پھیرتی ہے تو آٹھ۔ '' (یہ سن کر) نبیﷺ نے فرمایا :'' یہ ہیجڑے آئندہ تمہارے پاس (اے ام سلمہ !) ہر گز نہ آنے پائیں۔ ''

(۱۶۶۹)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ نے طائف کا محاصرہ کیا اور ان کا کچھ نقصان نہ کیا (بلکہ الٹا مسلمانوں کا نقصان ہوا) آخر آپﷺ نے فرمایا :'' ہم ان شاء اللہ (اب) مدینہ کو لوٹ چلیں گے۔ '' صحابہؓ کو یہ شاق معلوم ہوا اور کہنے لگے کہ ہم بغیر فتح کیونکر لوٹ چلیں ؟'' ایک دفعہ آپﷺ نے فرمایا :'' ہم لوٹ جائیں گے۔ '' پھر آپﷺ نے فرمایا :'' ( اچھا) کل صبح لڑو۔ '' صبح ہوئی تو وہ سب لڑے اور زخمی ہو گئے۔ آپﷺ نے فرمایا :'' کل ان شاء اللہ ہم واپس چلیں گے۔ '' اس وقت انھیں یہ بات اچھی معلوم ہو ئی۔ پس نبیﷺ مسکرادیے۔

(۱۶۷۰)۔ سیدنا سعد اور سیدنا ابو بکرؓ دونوں کہتے ہیں کہ ہم نے نبیﷺ سے سنا کہ آپﷺ نے فرمایا :'' جو کوئی اپنے اصلی باپ کے سوا جان بوجھ کر اور کسی کا بیٹا بنے تو اس پر جنت حرام ہے۔ ''

(۱۶۷۱)۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ان دونوں (راویوں) میں سے ایک (سیدنا سعدؓ) وہ ہیں کہ جنہوں نے اللہ کی راہ میں پہلا تیر چلایا اور دوسرے (سیدنا ابو بکرؓ) وہ ہیں کہ جو ان لوگوں میں سے ۲۳ویں آدمی تھے جو طائف کے قلعہ سے اتر کر نبیﷺ کے پاس آئے تھے۔

(۱۶۷۲)۔ سیدنا ابو موسیٰؓ کہتے ہیں کہ میں نبیﷺ کے پاس تھا جب آپﷺ جعرانہ میں ٹھہرے تھے جو کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے اور آپﷺ کے ہمراہ سیدنا بلالؓ بھی تھے۔ نبیﷺ کے پاس ایک اعرابی نے آ کر کہا کہ کیا تم اپنا وعدہ پورا نہ کرو گے جو تم نے مجھ سے کیا ہے ؟ آپﷺ نے اس سے فرمایا :'' تیرے لیے ثواب عظیم کی بشارت ہے۔ ''(خوش ہو جا) وہ بولا کہ آپﷺ اکثر یہی فرماتے رہتے ہیں کہ خوش ہو جا (میں اس بشارت کو اوڑھوں یا بچھاؤں ؟)پھر نبیﷺ سیدنا ابو موسیٰ اور سیدنا بلالؓ کے پاس غصہ کی حالت میں تشریف لائے اور فرمایا :'' اس اعرابی نے بشارت کو قبول نہیں کیا تم دونوں قبول کر لو۔ '' وہ دونوں بولے کہ ہمیں قبول ہے۔ پھر آپﷺ نے ایک پیالے میں پانی منگوا کر اس میں اپنے دونوں ہاتھوں اور منہ کو دھویا اور اسی میں کلی کی پھر فرمایا :'' اس میں سے تم دونوں پیو اور اپنے منہ اور سینوں پر چھڑک لو اور خوش ہو۔ '' ان دونوں نے لے لیا اور ایساہی کیا۔ ام المومنین ام سلمہؓ نے پردہ کے پیچھے سے پکار کر کہا کہ کچھ اپنی ماں کے لیے بھی چھوڑ دو۔ انھوں نے کچھ پانی بچا کر انھیں بھی دے دیا۔

(۱۶۷۳)۔ سیدنا انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ نبیﷺ نے انصار کو جمع کر کے فرمایا :'' قریش کے لوگ ابھی دور جاہلیت اور قتل و قید کی مصیبتوں سے نکلے ہیں ، تو میں چاہتا ہوں کہ انھیں کچھ مال غنیمت دے کر ان کی مدد اور دل جوئی کر دوں۔ تو کیا تم خوش نہیں ہو کہ لوگ دنیا لے جائیں اور تم رسول اللہﷺ کو اپنے گھروں کی طرف لے جاؤ ؟ انھوں نے جواب دیا '' جی ہاں ہم راضی ہیں۔ '' پھر آپﷺ نے فرمایا :'' اگر اور لوگ وادی کے اندر چلیں اور انصار پہاڑ کی گھاٹی پر چلیں تو میں بھی انصار کی وادی یا گھاٹی اختیار کروں گا۔ ''
 
Top