بَابُ دُعَائِ النَّبِيِّ ﷺ اجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ
نبی ﷺ کا بددعا دینا کہ یا اللہ !ان پر ایسی قحط سالی ڈال جیسی یوسف (کے عہد) کی قحط سالی (تھی)
(548)عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدِيْثُ دُعَائِ النَّبِيِّ ﷺ لِلْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ و عَلَى مُضَرَ تَقَدَّمَ وَ قَالَ فِي آخِرِ هَذِهِ الرِّوَايَةِ إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ غِفَارُ غَفَرَ اللَّهُ لَهَا وَ أَسْلَمُ سَالَمَهَا اللَّهُ قَالَ ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ أَبِيهِ هَذَا كُلُّهُ فِي الصُّبْحِ *
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کہ نبی ﷺ غریب مسلمانوں کے لیے دعائے نجات مانگتے اور (قبیلہ) مضر (کے کافروں) پر بددعا کرتے … پہلے گزر چکی ہے (دیکھیے حدیث :۵۴۵) اوراس روایت میں کہتے ہیں کہ آخر میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”(اے اللہ!) قبیلہ ٔغفار کو معاف فرما دے اور (قبیلہ) اسلم کو سلامت رکھ ۔”ابن ابوالزناد نے اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے کہا یہ سب صبح کی نماز میں تھا۔
(549) عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَمَّا رَأَى مِنَ النَّاسِ إِدْبَارًا قَالَ اللَّهُمَّ سَبْعًا كَسَبْعِ يُوسُفَ فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ حَصَّتْ كُلَّ شَيْئٍ حَتَّى أَكَلُوا الْجُلُودَ وَالْمَيْتَةَ وَالْجِيَفَ وَ يَنْظُرُ أَحَدُهُمْ إِلَى السَّمَائِ فَيَرَى الدُّخَانَ مِنَ الْجُوعِ فَأَتَاهُ أَبُو سُفْيَانَ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّكَ تَأْمُرُ بِطَاعَةِ اللَّهِ وَ بِصِلَةِ الرَّحِمِ وَ إِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا فَادْعُ اللَّهَ لَهُمْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى { فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَائُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ} إِلَى قَوْلِهِ { إِنَّكُمْ عَائِدُونَ يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ } فَالْبَطْشَةُ يَوْمَ بَدْرٍ وَ قَدْ مَضَتِ الدُّخَانُ وَالْبَطْشَةُ وَاللِّزَامُ وَآيَةُ الرُّومِ *
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی ﷺ نے جب (قبول دعوت اسلام سے) لوگوں کو پیچھے ہٹتے دیکھا تو (اللہ سے) دعا کی :” اے اللہ! (ان پر) سات برس (قحط ڈال دے) جیسا کہ یوسف علیہ السلام کے (عہد میں) سات برس تک (مسلسل قحط رہا تھا)۔” پس قحط نے انھیں آ لیا، جس نے ہر قسم کی روئیدگی کو نیست و نابود کر دیا حتیٰ کہ لوگوں نے کھالیں اور مردار اور سڑے جانور کھانا شروع کر دیئے اور بھوک کی وجہ سے (ضعف اس قدر ہو گیا کہ) جب کوئی ان میں سے آسمان کی طرف دیکھتا تو اس کو دھواں (سا) دکھائی دیتا ۔ پس ابو سفیان (جو اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے) آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اے محمد ! آپ تو اللہ کی بندگی اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں اور بے شک یہ آپ ﷺ کی قوم کے لوگ (ہیں جو مارے بھوک کے) مرے جاتے ہیں۔آپ ﷺ اللہ سے ان کے لیے دعا کیجئے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
“اے نبی! تم اس دن کا انتظار کرو جس دن آسمان ایک صریح دھواں ظاہر کرے گا اگر ہم ان کافروں سے عذاب دور کر دیں تو یہ پھر (بھی) کفر کریں گے اس کی سزا ان کو اسی دن ملے گی جس دن ہم ایک سخت گرفت میں ان کو پکڑیں گے” (الدخان : ۱۰۔۱۶)
ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بطشہ (یعنی پکڑ) بدر کے دن ہوئی اور بے شک (سورئہ دخان میں) دخان (دھواں) اور بطشہ (پکڑ) اور (سورئہ فرقان میں) لزام (قید) اور سورۂ روم کی آیت میں جو ذکر ہے سب واقع ہو چکے ہیں ۔
(550) عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَال رُبَّمَا ذَكَرْتُ قَوْلَ الشَّاعِرِ وَ أَنَا أَنْظُرُ إِلَى وَجْهِ النَّبِيِّ ﷺ يَسْتَسْقِي فَمَا يَنْزِلُ حَتَّى يَجِيشَ كُلُّ مِيزَابٍ وَ هُوَ قَوْلُ أَبِي طَالِبٍ :
وَ أَبْيَضَ يُسْتَسْقَى الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ
ثِمَالُ الْيَتَامَى عِصْمَةٌ لِلأَرَامِلِ
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اکثر میں شاعر کے قول کو یاد کر کے نبی ﷺ کے چہرۂ (مبارک) کی طرف دیکھتا تھا جب کہ آپ ﷺ (دعائے) استسقاء مانگتے ہوتے تھے پس آپ ﷺ (منبر سے) نہ اترنے پاتے تھے کہ تمام پرنالے بہنے لگتے تھے (وہ قول شاعر کا یہ ہے ) : “ گورا ان کا رنگ ، وہ حامی یتیموں بیواؤں کے۔ لوگ پانی مانگتے ہیں ان کے منہ کے صدقے سے” اور یہ ابو طالبؔ کا کلام ہے ۔
(551) عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا وَ إِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا قَالَ فَيُسْقَوْنَ *
سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب لوگ قحط زدہ ہوتے تو امیر المومنین عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے ذریعے سے بارش برسنے کی دعا مانگتے۔ کہتے کہ اے اللہ! (پہلے) ہم اپنے نبی ﷺ کے کے ذریعے سے دعائے استسقاء کیا کرتے تھے اور تو بارش برسا دیتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی ﷺ کے چچا کے ذریعے سے دعا کرتے ہیں پس (اب بھی) بارش برسا دے۔ (سیدنا انس رضی اللہ عنہ ) کہتے ہیں کہ بارش برسنے لگتی تھی۔