باب : سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کی فضیلت کا بیان۔
1647: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات (کسی جنگ سے واپس آتے ہوئے ) مدینہ کے راستے میں رسول اللہﷺ کی آنکھ کھل گئی اور نیند اچاٹ ہو گئی، تو آپﷺ نے فرمایا کہ کاش میرے اصحاب میں سے کوئی نیک بخت رات بھر میری حفاظت کرے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اتنے میں ہمیں ہتھیاروں کی آواز معلوم ہوئی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کون ہے ؟ آواز آئی کہ یا رسول اللہﷺ ، سعد بن ابی وقاص ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم کیوں آئے ؟ وہ بولے کہ مجھے رسول اللہﷺ پر اپنے نفس میں ڈر ہوا تو میں آپﷺ کی حفاظت کرنے کو آیا ہوں۔ پس رسول اللہﷺ نے ان کے لئے دعا کی اور پھر سو رہے۔
1648: سیدنا عامر بن سعد اپنے والدؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے اُحد کے دن اپنے والدین کو ان کے لئے جمع کیا۔ سیدنا سعدؓ نے کہا کہ مشرکوں میں سے ایک شخص تھا جس نے بہت سے مسلمانوں کو جلا دیا تھا (یعنی بہت سے مسلمانوں کو شہید کر دیا تھا)۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا "اے سعد تیر چلاؤ تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں" میں نے اس کے لئے ایک تیر نکالا جس میں پیکان نہ تھا وہ اس کی پسلی میں لگا اور وہ (مشرک) گر گیا تو اس کی شرمگاہ کھل گئی۔ رسول اللہﷺ دیکھ کر ہنسے ، یہاں تک کہ میں نے آپﷺ کے دندان مبارک کو دیکھا۔
1649: مصعب بن سعد اپنے والدؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے بارے میں قرآن کی کئی آیتیں اتریں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی ماں نے قسم کھائی تھی کہ ان سے کبھی بات نہ کرے گی جب تک وہ اپنا دین (یعنی اسلام کو) نہ چھوڑیں گے۔ اور نہ کھائے گی نہ پئے گی۔ وہ کہنے لگی کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے ماں باپ کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور میں تیری ماں ہوں اور تجھے اس بات کا حکم کرتی ہوں۔ پھر تین دن تک یوں ہی رہی کچھ کھایا نہ پیا، یہاں تک کہ اس کو غش آگیا۔ آخر اس کا ایک بیٹا جس کا نام عمارہ تھا، کھڑا ہوا اور اس کو پانی پلایا۔ پس وہ سیدنا سعد کے لئے بددعا کرنے لگی تو اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں یہ آیات اتاریں کہ "اور ہم نے آدمی کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا" (العنکبوت:8) لیکن اگر وہ تجھ پر اس بات کا زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کا شریک کرے جس کا تجھے علم نہیں، تو ان کی بات مت مان (یعنی شرک مت کر) اور ان کے ساتھ دنیا میں دستور کے موافق رہ"۔ (لقمان:5)۔ اور ایک بار رسول اللہﷺ کو بہت سا مالِ غنیمت ہاتھ آیا اور اس میں ایک تلوار بھی تھی, وہ میں نے لے لی اور رسول اللہﷺ کے پاس لا کر عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! یہ تلوار مجھے انعام دے دیجئے جبکہ میرا حال آپﷺ جانتے ہی ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اس کو وہیں رکھ دے جہاں سے تو نے اٹھائی ہے۔ میں گیا اور میں نے قصد کیا کہ پھر اس کو مال غنیمت کے ڈھیر میں ڈال دوں، لیکن میرے دل نے مجھے ملامت کی اور میں پھر آپﷺ کے پاس لوٹا اور عرض کیا کہ یہ تلوار مجھے دے دیجئے۔ آپﷺ نے سختی سے فرمایا کہ اس کو اسی جگہ رکھ دے جہاں سے تو نے اٹھائی ہے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ "وہ تجھ سے مالِ غنیمت کے بارے میں پوچھتے ہیں" (انفال:1)۔ سیدنا سعدؓ نے کہا کہ میں بیمار ہوا تو میں نے رسول اللہﷺ کو بلا بھیجا۔ آپﷺ تشریف لائے تو میں نے کہا کہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اپنا مال جس کو چاہوں بانٹ دوں۔ آپﷺ نے نہ مانا۔ میں نے کہا کہ اچھا آدھا مال بانٹ دوں؟آپﷺ نہ مانے۔ میں نے کہا کہ اچھا تہائی مال بانٹ دوں؟ آپﷺ چپ ہو رہے۔ پھر یہی حکم ہوا کہ تہائی مال بانٹنا درست ہے۔ سیدنا سعدؓ نے کہا کہ ایک بار میں انصار اور مہاجرین کے کچھ لوگوں کے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ آؤ ہم تمہیں کھانا کھلائیں گے اور شراب پلائیں گے اور اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی۔میں ان کے ساتھ ایک باغ میں گیا، وہاں ایک اونٹ کے سر کا گوشت بھونا گیا تھا اور شراب کی ایک مشک رکھی تھی، میں نے ان کے ساتھ گوشت کھایا اور شراب پی۔ وہاں مہاجرین اور انصار کا ذکر آیا تو میں نے کہا کہ مہاجرین انصار سے بہتر ہیں۔ ایک شخص نے جبڑے کی ایک ہڈی لی اور مجھے مارا۔ میرے ناک میں زخم لگا تو میں نے رسول اللہﷺ سے بیان کیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے یہ آیت اتاری کہ "شراب، جُوا، تھان اور پانسے یہ سب نجاست ہیں اور شیطان کے کام ہیں" (المائدہ: 90)
1650: سیدنا سعدؓ کہتے ہیں کہ ہم چھ آدمی رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے۔ مشرکوں نے کہا کہ آپ ان لوگوں کو اپنے پاس سے ہانک دیجئے ، یہ ہم پر جرأت نہ کریں گے۔ ان لوگوں میں مَیں تھا، ابن مسعود تھے اور ایک شخص ہذیل کا تھا اور بلال اور دو شخص اور تھے جن کا نام میں نہیں لیتا۔ آپ کے دل جو اللہ نے چاہا وہ آیا۔ پس آپﷺ نے دل ہی دل میں باتیں کیں، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ "مت بھگا ان لوگوں کو جو اپنے رب کو صبح اور شام کو پکارتے ہیں اور اس کی رضامندی چاہتے ہیں" (الانعام: 52)۔