• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح مسلم - (اردو ترجمہ) یونیکوڈ

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا ابراہیمؑ کی فضیلت میں۔
1606: سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے خیر البریہ ! یعنی بہترین خلق۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ تو سیدنا ابراہیمؑ (کا مقام) ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا ابراہیمؑ کا ختنہ کرنا۔
1607: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سیدنا ابراہیمؑ نے بسولے سے ختنہ کیا اور اس وقت ان کی عمر اسی برس کی تھی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا ابراہیمؑ کے قول (رب ارنی ... الایة) کے بارے میں اور سیدنا لوطؑ اور یوسفؑ کا ذکر۔
1608: سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہم ابراہیمؑ سے شک کرنے کا زیادہ حق رکھتے ہیں، جب انہوں نے کہا کہ "اے میرے رب! مجھے دکھلا دے کہ تو مُردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا تجھے یقین نہیں ہے ؟سیدنا ابراہیمؑ بولے کہ کیوں نہیں؟ مجھے یقین ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ میرے دل کو تشفی ہو جائے " (علم الییقن سے عین الیقین کا مرتبہ حاصل ہو جائے (۔ (البقرة:260) اور اللہ تعالیٰ لوطؑ پر رحم کرے ، وہ مضبوط اور سخت چیز کی پناہ چاہتے تھے اور(یعنی نبی تو اللہ سے مانگتا ہے جبکہ لوطؑ مضبوط رکن کی خواہش کر رہے تھے )۔ اور اگر میں قید خانے میں اتنی مدت رہتا جتنی مدت سیدنا یوسفؑ رہے ، تو فوراً بلانے والے کے ساتھ چلا آتا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا ابراہیمؑ کے قول کہ "میں بیمار ہوں" اور اس قول کہ "بلکہ کیا ہے اس کو ان کے بڑے نے " اور سارہ کے متعلق کہ "یہ میری بہن ہے "۔
1609: سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سیدنا ابراہیمؑ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا مگر، تین دفعہ (بولا) (یہ اصطلاحاً جھوٹ کہے گئے ہیں، حقیقت میں جھوٹ نہیں ہیں بلکہ یہ توریہ کی ایک شکل ہیں) ان میں سے دو جھوٹ اللہ کے لئے تھے ، ایک تو ان کا یہ قول کہ "میں بیمار ہوں" اور دوسرا یہ کہ "ان بتوں کو بڑے بت نے توڑا ہو گا" تیسرا جھوٹ سیدہ سارہ علیہا السلام کے بارے میں تھا۔ اس کا قصہ یہ ہے کہ سیدنا ابراہیمؑ ایک ظالم بادشاہ کے ملک میں پہنچے ان کے ساتھ ان کی بیوی سیدہ سارہ بھی تھیں اور وہ بڑی خوبصورت تھیں۔ انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اس ظالم بادشاہ کو اگر معلوم ہو گا کہ تو میری بیوی ہے تو مجھ سے چھین لے گا، اس لئے اگر وہ پوچھے تو یہ کہنا کہ میں اس شخص کی بہن ہوں اور تو اسلام کے رشتہ سے میری بہن ہے۔ (یہ بھی کچھ جھوٹ نہ تھا) اس لئے کہ ساری دنیا میں آج میرے اور تیرے سوا کوئی مسلمان معلوم نہیں ہوتا جب سیدنا ابراہیمؑ اس کی قلم رو (اس کے علاقہ) سے گزر رہے تھے تو اس ظالم بادشاہ کے کارندے اس کے پاس گئے اور بیان کیا کہ تیرے ملک میں ایک ایسی عورت آئی ہے جو تیرے سوا کسی کے لائق نہیں ہے۔ اس نے سیدہ سارہ کو بلا بھیجا۔ وہ گئیں تو سیدنا ابراہیمؑ نماز کے لئے کھڑے ہو گئے (اللہ سے دعا کرنے لگے اس کے شر سے بچنے کے لئے ) جب سیدہ سارہ اس ظالم کے پاس پہنچیں تو اس نے بے اختیار اپنا ہاتھ ان کی طرف دراز کیا، لیکن فورا اس کا ہاتھ سوکھ گیا وہ بولا کہ تو اللہ سے دعا کر کہ میرا ہاتھ کھل جائے ، میں تجھے نہیں ستاؤں گا۔ انہوں نے دعا کی اس مردود نے پھر ہاتھ دراز کیا، پھر پہلے سے بڑھ کر سوکھ گیا۔ اس نے دعا کے لئے کہا تو انہوں نے دعا کی۔ پھر اس مردود نے دست درازی کی، پھر پہلی دونوں دفعہ سے بڑھ کر سوکھ گیا۔ تب وہ بولا کہ اللہ سے دعا کر کہ میرا ہاتھ کھل جائے ، اللہ کی قسم اب میں تجھ کو نہ ستاؤں گا۔ سیدہ سارہ نے پھر دعا کی، اس کا ہاتھ کھل گیا۔ تب اس نے اس شخص کو بلایا جو سیدہ سارہ کو لے کر آیا تھا اور اس سے بولا کہ تو میرے پاس شیطاننی کو لے کر آیا، یہ انسان نہیں ہے اس کو میرے ملک سے باہر نکال دے اور ایک لونڈی ہاجرہ اس کے حوالے کر دے سیدہ سارہ ہاجرہ کو لے کر لوٹ آئیں جب سیدنا ابراہیمؑ نے دیکھا تو نمازوں سے فارغ ہوئے اور کہا کیا ہوا ؟سارہ نے کہا بس کہ سب خیریت رہی، اللہ تعالیٰ نے اس بدکار کا ہاتھ مجھ سے روک دیا اور ایک لونڈی بھی دی۔ سیدنا ابو ہریرہؓ نے کہا کہ پھر یہی لونڈی یعنی ہاجرہ تمہاری ماں ہے اے بارش کے بچو!
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا موسیٰؑ اور اللہ تعالی کے فرمان"فبراہ الله مما" ... کے متعلق۔
1610: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ موسیٰؑ بڑے حیا دار مرد تھے ، ان کو کبھی کسی نے ننگا نہیں دیکھا تھا۔ آخر بنی اسرائیل کہنے لگے کہ ان کو فتق (خصیئے پھول جانے ) کی بیماری ہے۔ ایک بار انہوں نے کسی پانی کے مقام پر غسل کیا اور اپنا کپڑا پتھر پر رکھا، تو وہ بھاگتا ہوا چلا اور سیدنا موسیٰؑ پنا عصا لئے اس کے پیچھے چلے ، اس کو مارتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ اے پتھر! میرا کپڑا دے۔ یہاں تک کہ وہ پتھر جہاں بنی اسرائیل کے لوگ جمع تھے وہاں جا رکا۔ اور اسی کے متعلق یہ آیت اتری کہ "اے ایمان والو! تم ان لوگوں کی طرح مت ہو جنہوں نے موسیٰؑ کو ستایا (ان پر تہمت لگائی) پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو اس بات سے پاک کیا جو لوگوں نے کہی تھی اور وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عزت والے تھے "۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا موسیٰؑ کا قصہ ، خضرؑ کے ساتھ۔
1611: سیدنا سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباسؓ سے کہا کہ نوف بکالی کہتا ہے کہ سیدنا موسیٰؑ جو بنی اسرائیل کے پیغمبر تھے ، وہ اور ہیں اور جو موسیٰ خضرؑ کے پاس گئے تھے وہ اَور ہیں انہوں نے کہا کہ اللہ کا دشمن جھوٹ بولتا ہے۔ میں نے سیدنا ابی بن کعبؓ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ سیدنا موسیٰؑ اپنی قوم بنی اسرائیل پر خطبہ پڑھنے کو کھڑے ہوئے ، ان سے پوچھا گیا کہ سب لوگوں میں زیادہ علم کس کو ہے ؟ انہوں نے کہا کہ مجھ کو ہے (یہ بات اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہوئی) پس اللہ تعالیٰ نے ان پر اس وجہ سے ناراضگی کا اظہار کیا کہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو وحی بھیجی کہ دو دریاؤں کے ملاپ پر میرا ایک بندہ ہے ، وہ تجھ سے زیادہ عالم ہے سیدنا موسیٰؑ نے عرض کیا کہ اے پروردگار! میں اس سے کیسے ملوں؟ حکم ہوا کہ ایک مچھلی زنبیل (ٹوکرے ) میں رکھ، جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے ، وہیں وہ بندہ ملے گا۔ یہ سن کر سیدنا موسیٰؑ اپنے ساتھی یوشع بن نونؑ کو ساتھ لے کر چلے اور انہوں نے ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لی۔ دونوں چلتے چلتے صخرہ (ایک مقام ہے ) کے پاس پہنچے تو سیدنا موسیٰؑ اور ان کے ساتھی سو گئے۔ مچھلی تڑپی یہاں تک کہ زنبیل سے نکل کر دریا میں جا پڑی اور اللہ تعالیٰ نے پانی کا بہنا اس پر سے روک دیا، یہاں تک کہ پانی کھڑا ہو کر طاق کی طرح ہو گیا اور مچھلی کے لئے خشک راستہ بن گیا۔ سیدنا موسیٰؑ اور ان کے ساتھی کے لئے تعجب ہوا پھر دونوں چلے دن بھر اور رات بھر اور موسیٰؑ کے ساتھی مچھلی کا حال ان سے کہنا بھول گئے جب صبح ہوئی تو موسیٰؑ نے اپنے ساتھی سے کہا کہ ہمارا ناشتہ لاؤ، ہم تو اس سفر سے تھک گئے ہیں اور تھکاوٹ اسی وقت ہوئی جب اس جگہ سے آگے بڑھے جہاں جانے کا حکم ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ جب ہم (مقامِ) صخرہ پر اترے تو میں مچھلی بھول گیا اور شیطان نے مجھے بھلایا اور تعجب ہے کہ اس مچھلی نے دریا میں جانے کی راہ لی۔ سیدنا موسیٰؑ نے کہا کہ ہم تو اسی مقام کو ڈھونڈھتے تھے ، پھر دونوں اپنے پاؤں کے نشانوں پر لوٹے یہاں تک کہ صخرہ پر پہنچے۔ وہاں ایک شخص کو کپڑا اوڑھے ہوئے دیکھا تو سیدنا موسیٰؑ نے ان کو سلام کیا تو انہوں نے کہا کہ تمہارے ملک میں سلام کہاں سے ہے ؟ سیدنا موسیٰؑ نے کہا کہ میں موسیٰ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ سیدنا موسیٰ نے کہا کہ ہاں۔ سیدنا خضرؑ نے کہا کہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے وہ علم دیا ہے جو میں نہیں جانتا۔ اور مجھے وہ علم دیا ہے جو تم نہیں جانتے سیدنا موسیٰؑ نے کہا کہ میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتا ہوں اس لئے کہ مجھے وہ علم سکھلاؤ جو تمہیں دیا گیا ہے۔ سیدنا خضرؑ نے کہا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے اور تم سے اس بات پر کیسے صبر ہو سکے گا جس کو تم نہیں جانتے ہو۔ سیدنا موسیٰؑ نے کہا کہ اگر اللہ نے چاہا تو تم مجھے صابر پاؤ گے اور میں کسی بات میں تمہاری نافرمانی نہیں کروں گا۔ سیدنا خضرؑ نے کہا کہ اچھا اگر میرے ساتھ ہوتے ہو تومجھ سے کوئی بات نہ پوچھنا جب تک میں خود اس کا ذکر نہ کروں۔ سیدنا موسیٰؑ نے کہا کہ بہت اچھا۔ پس خضرؑ اور سیدنا موسیٰؑ دونوں سمندر کے کنارے چلے جاتے تھے کہ ایک کشتی سامنے سے نکلی، دونوں نے کشتی والوں سے کہا کہ ہمیں بٹھا لو، انہوں نے سیدنا خضرؑ کو پہچان لیا اور دونوں کو بغیر کرایہ چڑھا لیا۔ سیدنا خضرؑ نے اس کشتی کا ایک تختہ اکھاڑ ڈالا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ان لوگوں نے تو ہمیں بغیر کرایہ کے چڑھایا اور تم نے ان کی کشتی کو توڑ ڈالا تاکہ کشتی والوں کو ڈبو دو، یہ تم نے بڑا بھاری کام کیا۔ سیدنا خضرؑ نے کہا کہ کیا میں نہیں کہتا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے ؟ سیدنا موسیٰؑ نے کہا کہ بھول چوک پر مت پکڑو اور مجھ پر تنگی مت کرو۔ پھر دونوں کشتی سے باہر نکلے اور سمندر کے کنارے چلے جاتے تھے کہ ایک لڑکا ملا جو اور لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، سیدنا خضرؑ نے اس کا سر پکڑ کر اکھیڑ لیا اور مار ڈالا۔ سیدنا موسیٰؑ نے کہا کہ تم نے ایک بے گناہ کو ناحق مار ڈالا، یہ تو بہت بُرا کام کیا۔ سیدنا خضرؑ نے کہا کہ کیا میں نہ کہتا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے ؟ اور یہ کام پہلے کام سے بھی زیادہ سخت تھا۔ سیدنا موسیٰؑ نے کہا کہ اب میں تم سے کسی بات پر اعتراض کروں تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا بیشک تمہارا اعتراض بجا ہو گا۔ پھر دونوں چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں میں پہنچے ، گاؤں والوں سے کھانا مانگا تو انہوں نے انکار کیا، پھر ایک دیوار ملی جو گرنے کے قریب تھی اور جھک گئی تھی، سیدنا خضرؑ نے اس کو اپنے ہاتھ سے سیدھا کر دیا۔ سیدنا موسیٰؑ نے کہا کہ ان گاؤں والوں سے ہم نے کھانا مانگا اور انہوں نے انکار کیا اور کھانا نہ کھلایا (ایسے لوگوں کا کام مفت کرنا کیا ضروری تھا؟) اگر تم چاہتے تو اس کی مزدوری لے سکتے تھے۔ سیدنا خضرؑ نے کہا کہ بس، اب میرے اور تمہارے درمیان جدائی ہے ، اب میں تم سے ان باتوں کا مطلب کہے دیتا ہوں جن پر تم سے صبر نہ ہو سکا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ موسیٰؑ پر رحم کرے ، مجھے آرزو ہے کہ کاش وہ صبر کرتے اور ہمیں ان کی اور باتیں معلوم ہوتیں۔ اور آپﷺ نے فرمایا کہ پہلی بات سیدنا موسیٰؑ نے بھولے سے کی۔ پھر ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھی اور اس نے سمندر میں چونچ ڈالی، سیدنا خضرؑ نے کہا کہ میں نے اور تم نے اللہ تعالیٰ کے علم میں سے اتنا ہی علم سیکھا ہے جتنا اس چڑیا نے سمندر میں سے پانی کم کیا ہے۔ سیدنا سعید بن جبیر نے کہا کہ سیدنا ابن عباسؓ اس طرح پڑھتے تھے کہ "ان کشتی والوں کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ثابت کشتی کو ناحق جبر سے چھین لیتا تھا" اور پڑھتے تھے کہ "وہ لڑکا کافر تھا"۔ (آخری دونوں جملوں سے مراد یہ ہے کہ قرآن پاک کی آیات تو اس طرح نہیں ہیں لیکن سیدنا ابن عباسؓ گویا بطور تفسیر اس طرح پڑھتے تھے )۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نبیﷺ کا فرمان "لا تفضلوا بین" ... کے متعلق۔
1612: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ ایک یہودی کچھ مال بیچ رہا تھا، اس کو قیمت دی گئی تو وہ راضی نہ ہوا یا اُس نے بُرا جانا تو بولا کہ نہیں قسم اس کی جس نے سیدنا موسیٰؑ کو آدمیوں میں سے چنا۔ یہ لفظ ایک انصاری نے سنا تو اس کے منہ پر طمانچہ مارا اور کہا کہ تو کہتا ہے کہ سیدنا موسیٰؑ کو آدمیوں میں سے چنا اور رسول اللہﷺ ہم لوگوں میں موجود ہیں؟ وہ یہودی رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ! میں ذمی ہوں اور امان میں ہوں اور مجھے فلاں شخص نے طمانچہ مارا ہے۔ آپﷺ نے اس شخص سے پوچھا کہ تو نے اس شخص کو کیوں طمانچہ مارا؟ وہ بولا کہ یا رسول اللہﷺ ! اس نے کہا کہ قسم اس کی جس نے موسیٰؑ کو تمام آدمیوں میں چن لیا اور آپﷺ ہم لوگوں میں تشریف رکھتے ہیں (اور سیدنا موسیٰؑ سے آپﷺ کا رتبہ زیادہ ہے اس لئے میں نے اس کو مارا)۔ یہ سن کر آپﷺ غصے ہوئے ، یہاں تک کہ غصہ آپﷺ کے چہرہ مبارک پر معلوم ہونے لگا، پھر فرمایا کہ ایک پیغمبر کو دوسرے پیغمبر پر فضیلت مت دو (اس طرح سے کہ دوسرے پیغمبر کی شان گھٹے ) کیونکہ قیامت کے دن جب صور پھونکا جائے گا تو آسمانوں اور زمین میں جتنے لوگ ہیں سب بیہوش ہو جائیں گے مگر جن کو اللہ تعالیٰ چاہے گا (وہ بیہوش نہ ہوں گے ) پھر دوسری بار پھونکا جائے گا تو سب سے پہلے میں اٹھوں گا اور کیا دیکھوں گا کہ سیدنا موسیٰؑ عرش تھامے ہوئے ہیں۔ اب معلوم نہیں کہ طُور پہاڑ پر جو ان کو بیہوشی ہوئی تھی وہ اس کا بدلہ ہے (کہ وہ اس بار بیہوش نہ ہوں گے ) یا مجھ سے پہلے ہوشیار ہو جائیں گے اور میں یوں نہیں کہتا کہ کوئی پیغمبر سیدنا یونس بن متیؑ سے افضل ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا موسیٰؑ کی وفات کے متعلق۔
1613: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: موت کے فرشتے (عزرائیل ں) سیدنا موسیٰؑ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ اے موسیٰ! اپنے پروردگار کی پکار پر لبیک کہو (یعنی موت کا وقت ہے ) تو سیدنا موسیٰؑ نے ان کی آنکھ پر ایک طمانچہ مارا، جس سے ان کی آنکھ پھوٹ گئی۔ وہ لوٹ کر اللہ تعالیٰ کے پاس گئے اور عرض کیا کہ اے مالک! تو نے مجھے ایسے بندے کے پاس بھیجا کہ وہ مرنا نہیں چاہتا، اس نے میری آنکھ پھوڑ دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھ پھر درست کر دی اور فرمایا کہ پھر میرے بندے کے پاس جا اور کہہ کہ اگر تو جینا چاہتا ہے تو اپنا ہاتھ ایک بیل کی پیٹھ پر رکھ، اور جتنے بالوں کو تیرا ہاتھ ڈھانپ لے گا، اتنے برس تو اور زندہ رہے گا۔ سیدنا موسیٰؑ نے عرض کیا کہ اے پروردگار! اس کے بعد کیا ہو گا؟ فرمایا کہ اس کے بعد پھر مرنا ہو گا۔ سیدنا موسیٰؑ نے عرض کیا کہ پھر تو ابھی مرنا بہتر ہے۔ اے میرے مالک مجھے مقدس زمین سے ایک پتھر کی مار کے فاصلہ پر موت دے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم اگر میں وہاں ہوتا تو میں تمہیں سیدنا موسیٰؑ کی قبر بتا دیتا جو کہ راستہ کے ایک جانب سرخ ریت کے ٹیلے کے پاس ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نبیﷺ کے فرمان "مر رت علی موسیٰ ... " کے متعلق۔
1614: سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: معراج کی رات میں موسیٰؑ کے پاس سے گزرا تو ان کو سرخ ٹیلے کے پاس دیکھا کہ وہ اپنی قبر میں وہ کھڑے ہوئے پڑھ رہے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا یوسفؑ کے متعلق۔
1615: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے کہا گیا کہ یا رسول اللہﷺ ! لوگوں میں سب سے بزرگی والا کون ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ جو اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ نہیں پوچھتے آپﷺ نے فرمایا کہ تو سب میں بزرگ سیدنا یوسفؑ ہیں اللہ کے نبی بن نبی بن نبی اور خلیل اللہؑ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ نہیں پوچھتے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم عرب قبیلوں کو پوچھتے ہو؟ تو عرب کے بہتر وہ لوگ ہیں جو زمانہ جاہلیت میں بہتر تھے اور اسلام کے زمانے میں بھی بہتر ہیں، جب وہ دین میں سمجھ حاصل کریں۔
 
Top