• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح مسلم - (اردو ترجمہ) یونیکوڈ

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : دنیا (کے مال) کے ذریعہ آزمائش کے متعلق اور (انسان) کیسے عمل کرے ؟
2083: سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ بنی اسرائیل کے لوگوں میں تین آدمی تھے ، ایک کوڑھی سفید داغ والا، دوسرا گنجا اور تیسرا اندھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمانا چاہا کہ تو ان کے پاس فرشتہ بھیجا۔ پس وہ سفید داغ والے کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ تجھے کون سی چیز بہت پیاری ہے ؟ اس نے کہا کہ اچھا رنگ اچھی کھال اور مجھ سے یہ بیماری دُور ہو جائے جس کے سبب سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا۔ پس اس کی بدصورتی دُور ہو گئی اور اس کو اچھا رنگ اور اچھی کھال دی گئی۔ فرشتے نے کہا کہ تجھے کون سا مال بہت پسند ہے ؟ اس نے کہا کہ اونٹ یا گائے۔ (راوئ حدیث اسحاق بن عبد اللہ کو شک ہے کہ اس نے اونٹ مانگا یا گائے لیکن سفید داغ والے یا گنجے نے ان میں سے ایک نے اونٹ کہا اور دوسرے نے گائے )۔ پس اس کو دس مہینے کی گابھن اونٹنی دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ تیرے واسطے اس میں برکت دے۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا پس کہا کہ تجھے کون سی چیز بہت پسند ہے ؟ اس نے کہا کہ اچھے بال اور یہ بیماری جاتی رہے جس کے سبب سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ پھر اس نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری دُور ہو گئی اور اس کو اچھے بال ملے۔ فرشتے نے کہا کہ تجھے کونسا مال بہت پسند ہے ؟ اس نے کہا کہ گائے۔ پس اس کو گابھن گائے دے دی گئی۔ فرشتے نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تیرے مال میں برکت دے۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ پھر فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور کہا کہ تجھے کونسی چیز بہت پسند ہے ؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آنکھ میں بینائی کر دے تو میں اس کے سبب سے لوگوں کو دیکھوں۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ پھر فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اللہ نے اس کو بینائی دے دی۔ فرشتے نے کہا کہ تجھے کونسا مال بہت پسند ہے ؟ اس نے کہا کہ بھیڑ بکری۔ تو اس کو گابھن بکری ملی۔ پھر ان دونوں (اونٹنی اور گائے ) اور اس (بکری) نے بچے دئیے۔ پھر ہوتے ہوتے سفید داغ والے کے جنگل بھر اونٹ ہو گئے اور گنجے کے جنگل بھر گائے بیل ہو گئے اور اندھے کے جنگل بھر بکریاں ہو گئیں۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ مدت کے بعد وہی فرشتہ سفید داغ والے کے پاس اس کی پہلی صورت اور شکل میں آیا، اور کہا کہ میں محتاج آدمی ہوں، سفر میں میرے تمام اسباب کٹ گئے (یعنی تدبیریں جاتی رہیں اور مال اور اسباب نہ رہا)، پس آج میرے لئے اللہ کی مدد کے سوا اور اس کے بعد تیری مدد کے بغیر منزل پر پہنچنا ممکن نہیں ہے ، میں تجھ سے اس کے نام پر جس نے تجھے ستھرا رنگ اور ستھری کھال دی اور مال اونٹ دئیے ، ایک اونٹ مانگتا ہوں جو میرے سفر میں کام آئے۔ اس نے کہا کہ مجھ پر لوگوں کے بہت حق ہیں (یعنی قرضدار ہوں یا گھربار کے خرچ سے زیادہ مال نہیں جو تجھے دوں)۔ پھر فرشتہ نے کہا کہ البتہ میں تجھے پہچانتا ہوں بھلا کیا تو محتاج کوڑھی نہ تھا؟ کہ لوگ تجھ سے نفرت کرتے تھے ، پھر اللہ نے اپنے فضل سے تجھے یہ مال دیا۔ اس نے جواب دیا کہ میں نے تو یہ مال اپنے باپ دادا سے پایا ہے جو کئی پشت سے نقل ہو کر آیا ہے۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تو جھوٹا ہو تو اللہ تجھے ویسا ہی کر ڈالے جیسا تو پہلے تھا۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ پھر فرشتہ گنجے کے پاس اس کی پہلی صورت اور شکل میں آیا اور اس سے ویسا ہی کہا جیسا سفید داغ والے سے کہا تھا اور اس نے بھی وہی جواب دیا جو سفید داغ والے نے دیا تھا۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تو جھوٹا ہو تو اللہ تجھے ویسا ہی کر ڈالے جیسا تو تھا۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ پھر فرشتہ اندھے کے پاس اس کی پہلی شکل و صورت میں گیا، اور کہا کہ میں محتاج آدمی ہوں اور مسافر ہوں، میرے سفر میں میرے سب وسیلے اور تدبیریں کٹ گئیں، پس مجھے آج منزل پر اللہ کی مدد اور اس کے بعد تیری مدد کے بغیر پہنچنا مشکل ہے۔ پس میں تجھ سے اس اللہ کے نام پر، جس نے تجھے بینائی دی، ایک بکری مانگتا ہوں تاکہ وہ میرے سفر میں کام آئے۔ اس نے کہا کہ بیشک میں اندھا تھا تو اللہ نے مجھے (بینائی والی) آنکھ دی، تو ان بکریوں میں سے جتنی چاہو لے جاؤ اور جتنی چاہو چھوڑ جاؤ۔ اللہ کی قسم! آج جو چیز تو اللہ کی راہ میں لے گا، میں تجھے مشکل میں نہ ڈالوں گا (یعنی تیرا ہاتھ نہ پکڑوں گا)۔ پس فرشتے نے کہا کہ اپنا مال اپنے پاس رکھو، تم تینوں آدمی صرف آزمائے گئے تھے۔ پس تجھ سے تو اللہ تعالیٰ راضی ہوا اور تیرے دونوں ساتھیوں سے ناخوش ہوا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : دنیا (کے مال) کی کمی، اس پر صبر کرنے اور درختوں کے پتے کھانے کے متعلق۔
2084: سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے اللہ کی راہ میں تیر مارا اور ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ جہاد کرتے تھے اور ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہ ہوتامگر جلے ہوئے پتے اور ببول (یہ دونوں جنگلی درخت ہیں)، یہاں تک کہ ہم میں سے کوئی ایسا پاخانہ کرتا جیسے بکری کرتی ہے۔ پھر آج بنو اسد کے لوگ (یعنی سیدنا زبیرؓ کی اولاد) مجھے دین کے لئے تنبیہ کرتے ہیں یا سزا دینا چاہتے ہیں، ایسا ہو تومیں بالکل خسارے میں پڑا اور میری محنت ضائع ہو گئی۔

2085: سیدنا خالد بن عمیر عدوی کہتے ہیں کہ (امیرِ بصرہ) عتبہ بن غزوانؓ نے ہمیں خطبہ دیا تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد کہا کہ بعد حمدو صلوٰۃ کے معلوم ہو کہ دنیا نے ختم ہونے کی خبر دی؟ اور دنیا میں سے کچھ باقی نہ رہا مگر جیسے برتن میں کچھ بچا ہوا پانی رہ جاتا ہے جس کو اس کا صاحب پیتا ہے۔ اور تم دنیا سے ایسے گھر کو جانے والے ہو جس کو زوال نہیں، پس اپنی زندگی میں نیک عمل کر کے جاؤ، اس لئے کہ ہم سے بیان کیا گیا کہ پتھر جہنم کے اوپر کے کنارے سے ڈالا جائے گا اور ستر برس تک اس میں اترتا جائے گا اور اس کی تہہ کو نہ پہنچے گا۔ اللہ کی قسم! جہنم بھری جائے گی۔ کیا تم تعجب کرتے ہو؟ اور ہم سے بیان کیا گیا کہ جنت کے دروازے کی ایک طرف سے لے کر دوسری طرف کنارے تک چالیس برس کی راہ ہے اور ایک دن ایسا آئے گا کہ دروازہ لوگوں کے ہجوم سے بھرا ہوا ہو گا اور میں اپنے آپ کو دیکھ رہا ہوں کہ میں سات شخصوں میں سے ساتواں شخص تھا جو رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے اور ہمارا کھانا درخت کے پتوں کے سوا کچھ نہ تھا یہاں تک کہ ہماری باچھیں زخمی ہو گئیں (بوجہ پتوں کی حرارت اور سختی کے )۔ میں نے ایک چادر پائی اور اس کو پھاڑ کر دو ٹکڑے کئے ، ایک ٹکڑے کا میں نے تہبند بنایا اور دوسرے ٹکڑے کا سعد بن مالک نے۔ اب آج کے روز کوئی ہم میں سے ایسا نہیں ہے کہ کسی شہر کا حاکم نہ ہو اور میں اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں اپنے آپ کو بڑا سمجھوں، لیکن اللہ کے نزدیک چھوٹا ہوں اور بیشک کسی پیغمبر کی نبوت (دنیا میں) ہمیشہ نہیں رہی بلکہ نبوت کا اثر (تھوڑی مدت میں) جاتا رہا؟ یہاں تک کہ اس کا آخری انجام یہ ہوا کہ وہ سلطنت ہو گئی۔ پس عنقریب تم ہمارے بعد آنے والے امراء کو دیکھو گے اور تجربہ کرو گے ان امیروں کا جو ہمارے بعد آئیں گے (کہ ان میں دین کی باتیں جو نبوت کا اثر ہے ، نہ رہیں گی اور وہ بالکل دنیا دار ہو جائیں گے )۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : میت (کے پاس) سے اس کے اہل و عیال اور مال واپس آ جاتے ہیں اور اس کا عمل اس کے پاس رہ جاتا ہی۔
2086: سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مُردے کے ساتھ تین چیزیں (قبرستان میں) جاتی ہیں۔ پھر دو لوٹ آتی ہیں اور ایک رہ جاتی ہے۔ اس کے ساتھ اس کے گھر والے اور مال اور عمل جاتے ہیں، سو گھر والے اور مال تو لوٹ آتے ہیں اور عمل اس کے ساتھ رہ جاتا ہے (پس عمل پوری رفاقت کرتا ہے اسی کے لئے انسان کو کوشش کرنی چاہئیے۔ بال بچے مال دولت یہ سب جینے تک کے ساتھ ہیں مرنے کے بعد کچھ کام کے نہیں اور ان میں دل لگانا بے عقلی ہے )۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس کی طرف دیکھو جو تم سے (دنیاوی مال و اسباب میں) کم ہو۔
2087: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس شخص کو دیکھو جو تم سے (مال اور دولت میں اور حسن و جمال میں اور بال بچوں میں) کم ہے اور اس کو مت دیکھو جو (ان چیزوں میں) تم سے زیادہ ہے۔ اگر ایسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی نعمت کو اپنے اوپر حقیر نہ سمجھو گے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اللہ تعالیٰ اس بندے کو پسند کرتا ہے جو پرہیزگار، دولت مند اور ایک کونہ میں رہنے والا ہو۔
2088: سیدنا عامر بن سعد کہتے ہیں کہ سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ اپنے اونٹوں میں تھے کہ ان کا بیٹا عمر آیا (یہ عمر بن سعد وہی ہے جو سیدنا حسینؓ سے لڑا اور جس نے دنیا کے لئے اپنی آخرت برباد کی) جب سیدنا سعدؓ نے اس کو دیکھا تو کہا کہ میں اس سوار کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں۔ پھر وہ اترا اور بولا کہ تم اپنے اونٹوں اور بکریوں میں اترے ہو اور لوگوں کو چھوڑ دیا وہ سلطنت کے لئے لڑ رہے ہیں؟ (یعنی خلافت اور حکومت کے لئے ) سیدنا سعدؓ نے اس کے سینہ پر مارا اور کہا کہ چپ رہ۔ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ اللہ اس بندے کو دوست رکھتا ہے جو پرہیز گار ہے ، مالدار ہے اور (فتنے فساد کے وقت) ایک کونے میں چھپا بیٹھا ہے۔(اوراپنا ایمان نہیں بگاڑتا۔ افسوس ہے کہ عمر بن سعد نے اپنے باپ کی نصیحت کو فراموش کیا)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جس نے اپنے عمل میں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو شریک کر لیا۔
2089: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اور شریکوں کی نسبت شرک سے بہت زیادہ بے پروا ہوں۔ جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس میں میرے ساتھ میرے غیر کو بھی ملایا اور ساجھی کیا تو میں اس کو اور اس کے ساجھی کے کام کو چھوڑ دیتا ہوں۔ (یعنی جو عبادت اور عمل دکھانے اور شہرت کے واسطے ہو وہ اللہ کے نزدیک مقبول نہیں مردود ہے۔ اللہ اسی عبادت اور عمل کو قبول کرتا ہے جو اللہ ہی کے واسطے خالص ہو دوسرے کا اس میں کچھ حصہ نہ ہو)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جو (اپنا نیک عمل لوگوں کو) سنائے اور اپنے عمل میں ریاکاری کرے
2090: سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص لوگوں کو سنانے کے لئے نیک کام کرے گا، اللہ تعالیٰ بھی قیامت کے دن اس کی ذلت لوگوں کو سنائے گا اور جو شخص ریاکاری کرے گا اللہ تعالیٰ بھی اسکو (صرف ثواب) دکھلائے گا (مگر دے گا نہیں تاکہ اسے صرف حسرت ہی حسرت ہو)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : ایک کلمہ (کفر) کہہ دینا جہنم میں اتر جانے کا سبب بن جاتا ہے۔
2091: سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بندہ ایسی بات کہہ بیٹھتا ہے جس کی بڑائی کا اسے اندازہ نہیں ہوتا اور اس کی وجہ سے آگ میں اتنا اتر جاتا ہے جیسے مشرق سے مغرب تک (جیسے کسی مسلمان کی شکایت یا مخبری حکمرانوں کے سامنے یا تہمت یا گالی یا کفر کا کلمہ یا رسول اللہﷺ یا قرآن یا شریعت کے ساتھ مذاق، پس انسان کو چاہئیے کہ زبان کو قابو میں رکھے اور بغیر ضرورت بات نہ کرے )۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مومن کے ہر معاملے میں بھلائی ہوتی ہے۔
2092: سیدنا صہیبؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مومن کا بھی عجب حال ہے ، اس کے ہر معاملے میں بھلائی ہی بھلائی ہے۔ اور یہ بات سوائے مومن کے کسی کو حاصل نہیں ہے۔ اگر اس کو خوشی حاصل ہوئی اور اس نے شکر ادا کیا تو اس میں بھی ثواب ہے اور جو اس کو نقصان پہنچا اور اس پر صبر کیا، تو اس میں بھی ثواب ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : دینی معاملات میں آزمائش پر صبر کرنے اور اصحاب الاخدود کے قصہ کے متعلق۔
2093: سیدنا صہیبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم سے پہلے لوگوں میں ایک بادشاہ تھا اور اس کا ایک جادوگر تھا۔ جب وہ جادوگر بوڑھا ہو گیا تو بادشاہ سے بولا کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں، میرے پاس کوئی لڑکا بھیج کہ میں اس کو جادو سکھلاؤں۔ بادشاہ نے اس کے پاس ایک لڑکا بھیجا، وہ اس کو جادو سکھلاتا تھا۔ اس لڑکے کی آمدورفت کی راہ میں ایک راہب تھا (عیسائی درویش یعنی پادری تارک الدنیا)، وہ لڑکا اس کے پاس بیٹھا اور اسکا کلام سنا تو اسے اس کی باتیں اچھی لگیں۔ اب جادوگر کے پاس جاتا تو راہب کی طرف سے ہو کر نکلتا اور اسکے پاس بیٹھتا، پھر جب جادوگر کے پاس جاتا تو جادوگر اس کو (دیر سے آنے کی وجہ سے ) مارتا۔ آخر لڑکے نے جادوگر کے مارنے کا راہب سے گلہ کیا تو راہب نے کہا کہ جب تو جادوگر سے ڈرے ، تو یہ کہہ دیا کر کہ میرے گھر والوں نے مجھ کو روک رکھا تھا اور جب تو اپنے گھر والوں سے ڈرے ، تو کہہ دیا کر کہ جادوگر نے مجھے روک رکھا تھا۔ اسی حالت میں وہ لڑکا رہا کہ اچانک ایک بڑے درندے پر گزرا کہ جس نے لوگوں کو آمد و رفت سے روک رکھا تھا۔ لڑکے نے کہا کہ آج میں معلوم کرتا ہوں کہ جادوگر افضل ہے یا راہب افضل ہے۔ اس نے ایک پتھر لیا اور کہا کہ الٰہی اگر راہب کا طریقہ تجھے جادوگر کے طریقے سے زیادہ پسند ہو، تو اس جانور کو قتل کر تاکہ لوگ گزر جائیں۔ پھر اس کو پتھر سے مارا تو وہ جانور مر گیا اور لوگ گزرنے لگے۔ پھر وہ لڑکا راہب کے پاس آیا اس سے یہ حال کہا تو وہ بولا کہ بیٹا تو مجھ سے بڑھ گیا ہے ، یقیناً تیرا رتبہ یہاں تک پہنچا جو میں دیکھتا ہوں اور تو عنقریب آزمایا جائے گا۔ پھر اگر تو آزمایا جائے تو میرا نام نہ بتلانا۔ اس لڑکے کا یہ حال تھا کہ اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرتا اور ہر قسم کی بیماری کا علاج کرتا تھا۔ یہ حال جب بادشاہ کے مصاحب جو کہ اندھا ہو گیا تھا سنا تو اس لڑکے کے پاس بہت سے تحفے لایا اور کہنے لگا کہ یہ سب مال تیرا ہے اگر تو مجھے اچھا کر دے۔ لڑکے نے کہا کہ میں کسی کو اچھا نہیں کرتا، اچھا کرنا تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے ، اگر تو اللہ پر ایمان لائے تو میں اللہ سے دعا کروں گا تو وہ تجھے اچھا کر دے گا۔ وہ وزیر اللہ پر ایمان لایا تو اللہ نے اس کو اچھا کر دیا۔ وہ بادشاہ کے پاس گیا اور اس کے پاس بیٹھا جیسا کہ بیٹھا کرتا تھا۔ بادشاہ نے کہا کہ تیری آنکھ کس نے روشن کی؟ وزیر بولا کہ میرے مالک نے۔ بادشاہ نے کہا کہ میرے سوا تیرا مالک کون ہے ؟ وزیر نے کہا کہ میرا اور تیرا مالک اللہ ہے۔ بادشاہ نے اس کو پکڑا اور عذاب شروع کیا، یہاں تک کہ اس نے لڑکے کا نام لے لیا۔ وہ لڑکا بلایا گیا۔ بادشاہ نے اس سے کہا کہ اے بیٹا تو جادو میں اس درجہ پر پہنچا کہ اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرتا ہے اور بڑے بڑے کام کرتا ہے ؟ وہ بولا کہ میں تو کسی کو اچھا نہیں کرتا بلکہ اللہ اچھا کرتا ہے۔ بادشاہ نے اس کو پکڑا اور اور مارتا رہا، یہاں تک کہ اس نے راہب کا نام بتلایا۔ راہب پکڑ لیا گیا۔ اس سے کہا گیا کہ اپنے دین سے پھر جا۔ اس کے نہ ماننے پر بادشاہ نے ایک آرہ منگوایا اور راہب کی مانگ پر رکھ کر اس کو چیر ڈالا، یہاں تک کہ دو ٹکڑے ہو کر گر پڑا۔ پھر وہ وزیر بلایا گیا، اس سے کہا گیا کہ تو اپنے دین سے پھر جا، اس نے بھی نہ مانا اس کی مانگ پر بھی آرہ رکھا گیا اور چیر ڈالا یہاں تک کہ دو ٹکڑے ہو کر گر پڑا۔ پھر وہ لڑکا بلایا گیا، اس سے کہا کہ اپنے دین سے پلٹ جا، اس نے بھی نہ انکار کیا۔ نے اس کو اپنے چند ساتھیوں کے حوالے کیا اور کہا کہ اس کو فلاں پہاڑ پر لے جا کر چوٹی پر چڑھاؤ، جب تم چوٹی پر پہنچو تو اس لڑکے سے پوچھو، اگر وہ اپنے دین سے پھر جائے تو خیر، نہیں تو اس کو دھکیل دو۔وہ اس کو لے گئے اور پہاڑ پر چڑھایا۔ لڑکے نے دعا کی کہ الٰہی جس طرح تو چاہے مجھے ان کے شر سے بچا۔ پہاڑ ہلا اور وہ لوگ گر پڑے۔ وہ لڑکا بادشاہ کے پاس چلا آیا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ تیرے ساتھی کہاں گئے ؟ اس نے کہا کہ اللہ نے مجھے ان کے شر سے بچا لیا۔ پھر بادشاہ نے اس کو اپنے چند ساتھیوں کے حوالے کیا اور کہا کہ اس کو ایک کشتی میں دریا کے اندر لے جاؤ، اگر اپنے دین سے پھر جائے تو خیر، ورنہ اسکو دریا میں دھکیل دینا۔ وہ لوگ اس کو لے گئے۔ لڑکے نے کہا کہ الٰہی! تو مجھے جس طرح چاہے ان کے شر سے بچا لے۔وہ کشتی اوندھی ہو گئی اور لڑکے کے سوا سب ساتھی ڈوب گئے اور لڑکا زندہ بچ کر بادشاہ کے پاس آگیا۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ تیرے ساتھی کہاں گئے ؟ وہ بولا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کے شر سے بچا لیا۔ پھر لڑکے نے بادشاہ سے کہا کہ تو مجھے اس وقت تک نہ مار سکے گا، جب تک کہ جو طریقہ میں بتلاؤں وہ نہ کرے۔ بادشاہ نے کہا کہ وہ کیا؟ اس نے کہا کہ تو سب لوگوں کو ایک میدان میں جمع کر کے مجھے ایک لکڑی پر سولی دے ، پھر میرے ترکش سے ایک تیر لے کر کمان کے اندر رکھ، پھر کہہ کہ اس اللہ کے نام سے مارتا ہوں جو اس لڑکا کا مالک ہے۔ پھر تیر مار۔ اگر تو ایسا کرے گا تو مجھے قتل کرے گا۔ بادشاہ نے سب لوگوں کو ایک میدان میں جمع کیا، اس لڑکے کو درخت کے تنے پر لٹکایا، پھر اس کے ترکش میں سے ایک تیر لیا اور تیرکو کمان کے اندر رکھ کر یہ کہتے ہوئے مارا کہ اللہ کے نام سے مارتا ہوں جو اس لڑکے کا مالک ہے۔ وہ تیر لڑکے کی کنپٹی پر لگا۔ اس نے اپنا ہاتھ تیر کے مقام پر رکھا اور مر گیا۔ لوگوں نے یہ حال دیکھ کر کہا کہ ہم تو اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے ، ہم اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے ، ہم اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے۔ کسی نے بادشاہ سے کہا کہ اللہ کی قسم! جس سے تو ڈرتا تھا وہی ہوا یعنی لوگ ایمان لے آئے۔ بادشاہ نے راستوں کے نالوں پر خندقیں کھودنے کا حکم دیا۔ پھر خندقیں کھودی گئیں اور ان میں خوب آگ بھڑکائی گئی اور کہا کہ جو شخص اس دین سے (یعنی لڑکے کے دین سے ) نہ پھرے ، اسے ان خندقوں میں دھکیل دو، یا اس سے کہا جائے کہ ان خندقوں میں گرے۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا، یہاں تک کہ ایک عورت آئی جس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا، وہ عورت آگ میں گرنے سے جھجھکی (پیچھے ہٹی) تو بچے نے کہا کہ اے ماں! صبر کر تو سچے دین پر ہے (مرنے کے بعد پھر چین ہی چین ہے ، پھر تو دنیا کی مصیبت سے کیوں ڈرتی ہے ؟ نووی رحمۃ اللہ نے کہا کہ اس حدیث سے اولیاء کی کرامات ثابت ہوتی ہیں اور یہ بھی نکلتا ہے کہ ضرورت کے وقت جھوٹ بولنا درست ہے اور اسی طرح مصلحت کے لئے )۔
 
Top