باب : صدقات کی وصولی پر آل نبیﷺ کو مقرر کرنے کی کراہت۔
516: عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث کہتے ہیں کہ ربیعہؓ بن حارث اور عباسؓ بن عبدالمطلب دونوں جمع ہوئے اور کہا کہ اللہ کی قسم ہم ان دونوں لڑکوں (یعنی مجھے اور فضل بن عباس) کو رسول اللہﷺ کے پاس بھیج دیں، اور یہ دونوں جا کر عرض کریں کہ رسول اللہﷺ ان کو زکوٰۃ پر تحصیلدار بنا دیں۔ اور یہ دونوں رسول اللہﷺ کو لا کر ادا کر دیں جیسے اور لوگ ادا کرتے ہیں اور ان کو کچھ مل جائے جیسے اور لوگوں کو ملتا ہے۔ غرض یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ سیدنا علیؓ بن ابی طالبؓ بھی آ کر ان کے پاس کھڑے ہو گئے تو ان دونوں نے سیدنا علیؓ سے اس کا ذکر کیا۔ سیدنا علیؓ نے کہا کہ انہیں مت بھیجو، کہ اللہ کی قسم! رسول اللہﷺ ایسا نہیں کریں گے۔ (اس لئے کہ آپ کو معلوم تھا کہ زکوٰۃ سیدوں کو حرام ہے ) پس ربیعہ بن حارث سیدنا علیؓ کو بُرا کہنے لگے اور کہا کہ اللہ کی قسم تم ہمارے ساتھ حسد سے ایسا کرتے ہو۔ اور اللہ کی قسم کہ تم نے جو شرف رسول اللہﷺ کی دامادی کا پایا ہے تو اس کا ہم تو تم سے کچھ حسد نہیں کرتے۔ تب سیدنا علیؓ نے کہا کہ اچھا ان دونوں کو بھیج دو۔ تو ہم دونوں گئے اور سیدنا علیؓ لیٹ رہے۔ پھر جب رسول اللہﷺ ظہر کی نماز پڑھ چکے تو ہم دونوں جلدی سے حجرے میں آپﷺ سے پہلے جا پہنچے اور حجرے کے پاس کھڑے ہو گئے یہاں تک کہ آپﷺ تشریف لائے اور ہم دونوں کے کان پکڑے (یہ آپﷺ کی شفقت اور ملاعبت تھی کہ لڑکے اس سے خوش ہوتے ہیں) اور فرمایا کہ ظاہر کرو جو تم دل میں چھپا کر لائے ہو۔ پھر آپﷺ بھی حجرے میں گئے اور ہم بھی، اور اس دن آپﷺ اُمّ المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا کے پاس تھے۔ پھر ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ تم بیان کرو۔ غرض ایک نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے اور قرابت داروں سے سب سے زیادہ احسان کرنے والے ہیں، اور ہم نکاح (کی عمر) کو پہنچ گئے ہیں۔ پھر ہم اس لئے حاضر ہوئے ہیں کہ آپ ہمیں ان زکوٰتوں پر عامل بنا دیں کہ ہم بھی آپﷺ کو تحصیل لا دیں جیسے اور لوگ لاتے ہیں اور ہمیں بھی کچھ مل جائے جیسے اوروں کو مل جاتا ہے۔ (تاکہ ہمارے نکاح کا خرچ نکل آئے ) پھر رسول اللہﷺ بڑی دیر تک چپ ہو رہے یہاں تک کہ ہم نے چاہا کہ پھر کچھ کہیں،اور اُمّ المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا ہم سے پردہ کی آڑ سے اشارہ فرماتی تھیں کہ اب کچھ نہ کہو۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ زکوٰۃ آلِ محمدﷺ کے لائق نہیں یہ تو لوگوں کا میل ہے۔ (شاید یہ مثل یہیں سے ہے کہ روپیہ پیسہ ہاتھوں کی میل ہے ) تم میرے پاس محمیہؓ (یہ آپﷺ کے خزانچی کا نام تھا) جو خمس پر مقرر تھے اور نوفلؓ بن حارث بن عبدالمطلب کو بلا لاؤ۔ راوی نے کہا کہ پھر یہ دونوں حاضر ہوئے اور آپﷺ نے محمیہؓ سے فرمایا کہ تم اپنی لڑکی اس لڑکے فضل بن عباس کو بیاہ دو تو انہوں نے اپنی لڑکی ان سے بیاہ دی۔ اور نوفل بن حارث سے فرمایا کہ تم اپنی لڑکی اس لڑکے (یعنی عبدالمطلب بن ربیعہ سے ، جو راوی حدیث ہیں) بیاہ دو تو انہوں نے اپنی لڑکی میرے نکاح میں دے دی۔ اور محمیہ سے فرمایا کہ ان دونوں کا مہر خمس سے اتنا اتنا ادا کر دو۔ زہری نے کہا کہ مجھ سے میرے شیخ عبد اللہ بن عبد اللہ نے مہر کی تعداد بیان نہیں کی۔