• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح مسلم - (اردو ترجمہ) یونیکوڈ

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جب تم میں سے کسی کا اسلام اچھا ہو تو ہر نیکی، جسے وہ کرتا ہے ، دس گنا لکھی جاتی ہے۔
67: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے فرمایا کہ جب میرا بندہ دل میں نیک کام کرنے کی نیت کرتا ہے تو میں اس کے لئے ایک نیکی لکھ لیتا ہوں، جب تک کہ اس نے وہ نیکی نہیں کی۔ پھر اگر وہ نیکی کی تو اس کو میں اس کے لئے دس نیکیاں (ایک کے بدلے ) لکھتا ہوں اور جب دل میں برائی کرنے کی نیت کرتا ہے تو میں اس کو بخش دیتا ہوں جب تک کہ وہ بُرائی (پر عمل) نہ کرے۔ اور پھر جب وہ برائی (پر عمل) کرے تو اس کے لئے ایک ہی بُرائی لکھتا ہوں اور رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ فرشتے کہتے ہیں کہ اے پروردگار یہ تیرا بندہ ہے ، بُرائی کرنا چاہتا ہے ، حالانکہ اللہ تعالیٰ ان سے زیادہ اپنے بندے کو دیکھ رہا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھتے رہو! اگر وہ بُرائی کرے تو ایک بُرائی ویسی ہی لکھ لو اور اگر نہ کرے (اور اس بُرائی کے ارادے سے باز رہے ) تو اس کے لئے ایک نیکی لکھ لو کیونکہ اس نے میرے ڈر سے اس بُرائی کو چھوڑ دیا اور رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کا اسلام بہتر ہوتا ہے (یعنی خالص اور سچا، نفاق سے خالی) تو پھر وہ جو نیکی کرتا ہے اس کے لئے ایک کے بدلے دس نیکیاں سات سو گنا تک لکھی جاتی ہیں اور جو بُرائی کرتا ہے تو اس کے لئے ایک ہی بُرائی لکھی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مل جاتا ہے۔

68: سیدنا ابو ہریرہؓ نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ نے میری امت سے (گناہ کے ) ان خیالات سے درگزر کیا جو دل میں آئیں جب تک کہ ان کو زبان سے نہ نکالیں یا ان پر عمل نہ کریں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مسلمان وہی ہے جس سے دیگر مسلمان محفوظ ہوں۔
69: سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ کونسا مسلمان بہتر ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ مسلمان جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان بچے رہیں (یعنی نہ زبان سے کسی مسلمان کی بُرائی کرے اور نہ ہاتھ سے کسی کو ایذا دے )۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جس نے جاہلیت میں کوئی نیک عمل کیا پھر وہ مسلمان ہو گیا۔
70: عروہ بن زبیر سے روایت ہے اور انہیں سیدنا حکیم بن حزامؓ نے بتایا کہ انہوں (سیدنا حکیم) نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ کیا سمجھتے ہیں کہ جو نیک کام میں نے جاہلیت کے زمانہ میں کئے تھے جیسے صدقہ یا غلام کا آزاد کرنا یا ناتا ملانا، ان کا ثواب مجھے ملے گا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ تو اسی نیکی پر اسلام لایا ہے جو کہ پہلے کر چکا ہے۔ (یعنی وہ نیکی قائم ہے ، اب اس پر اسلام زیادہ ہوا)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033

باب : آزمائش سے ڈرانا۔

71: سیدنا حذیفہؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے ، آپﷺ نے فرمایا کہ گنو کتنے آدمی اسلام کے قائل ہیں؟ پھر ہم نے کہا کہ یا رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم! کیا آپﷺ ہم پر (دشمنوں کی وجہ سے کوئی آفت آنے سے ) ڈرتے ہیں؟ اور بیشک ہم چھ سو آدمیوں سے لیکر سات سو تک ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم نہیں جانتے شاید مصیبت میں پڑ جاؤ۔ سیدنا حذیفہؓ نے کہا کہ پھر ایسا ہی ہوا کہ ہم مصیبت میں پڑ گئے یہاں تک کہ بعض ہم میں سے نماز بھی چپکے سے (چھپ کر) پڑھتے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اسلام کی ابتداء غربت سے ہوئی (اور) عنقریب اسلام پہلی حالت میں لوٹ آئے گا اور وہ دو مسجدوں (مکہ و مدینہ) میں سمٹ کر رہ جائے گا۔
72: سیدنا ابن عمرؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ اسلام غربت میں شروع ہوا اور پھر غریب ہو جائے گا جیسے کہ شروع ہوا تھا اور وہ سمٹ کر دونوں مسجدوں (مکہ مدینہ) کے درمیان میں آ جائے گا، جیسے کہ سانپ سمٹ کر اپنے سوراخ (بل) میں چلا جاتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : رسول اللہﷺ کی طرف وحی کی ابتداء۔
73: عروہ بن زبیر سے روایت ہے اور انہیں اُمّ المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی،انہوں نے کہا کہ پہلے پہل جو وحی رسول اللہﷺ پر شروع ہوئی وہ یہ تھی کہ آپﷺ کا خواب سچا ہونے لگا۔ آپﷺ جب کوئی خواب دیکھتے تو وہ صبح کی روشنی کی طرح نمودار ہوتا۔ پھر آپﷺ کو تنہائی کا شوق ہوا۔ آپﷺ غارِ حرا میں اکیلے تشریف رکھتے ، کئی کئی راتوں تک وہاں عبادت کیا کرتے اور گھر میں نہ آتے ، اپنا توشہ ساتھ لے جاتے۔ پھر اُمّ المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس لوٹ کر آتے اور وہ اتنا ہی اور توشہ تیار کر دیتیں یہاں تک کہ اچانک آپﷺ پر وحی اتری (اور آپﷺ کو وحی کی توقع نہ تھی) آپﷺ اسی غارِ حرا میں تھے کہ فرشتہ آپﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ پڑھو! آپﷺ نے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں۔ (آپﷺ نے فرمایا کہ) اس فرشتے نے مجھے پکڑ کر دبوچا، اتنا کہ وہ تھک گیا یا میں تھک گیا، پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھ! میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں۔ اس نے پھر مجھے پکڑا اور دبوچا یہاں تک کہ تھک گیا، پھر چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھ! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں۔ اس نے پھر مجھے پکڑا اور دبوچا یہاں تک کہ تھک گیا، پھر چھوڑ دیا اور کہا کہ "پڑھ! اپنے رب کے نام سے ، جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ تو پڑھتا رہ، تیرا رب بڑے کرم والا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا۔ جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا"۔ یہ سن کر رسول اللہﷺ لوٹے اور آپﷺ کے کندھے اور گردن کے بیچ کا گوشت (ڈر اور خوف سے ) پھڑک رہا تھا (چونکہ یہ وحی کا پہلا مرحلہ تھا اور آپﷺ کو عادت نہ تھی، اس واسطے ہیبت چھا گئی) یہاں تک کہ آپﷺ اُمّ المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے اور فرمایا کہ مجھے (کپڑوں سے ) ڈھانپ دو، ڈھانپ دو۔ انہوں ڈھانپ دیا یہاں تک کہ آپﷺ کا ڈر جاتا رہا اس وقت اُمّ المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اے خدیجہ مجھے کیا ہو گیا اور سب حال بیان کیا اور کہا کہ مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔ اُمّ المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہرگز نہیں آپ خوش رہیں۔ اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہ کرے گا یا کبھی رنجیدہ نہ کرے گا۔ اللہ کی قسم آپ ناتے کو جوڑتے ہیں، سچ بولتے ہیں اور بوجھ اٹھاتے ہیں (یعنی عیال اور اطفال اور یتیم اور مسکین کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، ان کا بار اٹھاتے ہیں) اور نادار کے لئے کمائی کرتے ہیں اور مہمان کی خاطرداری کرتے ہیں اور سچی آفتوں (جیسے کوئی قرض دار یا مفلس ہو گیا یا اور کسی تباہی )میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ پھر اُمّ المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا آپﷺ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں اور وہ اُمّ المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچازاد بھائی تھے (کیونکہ ورقہ نوفل کے بیٹے تھے اور نوفل اسد کے بیٹے ، اور اُمّ المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا خویلد کی بیٹی تھیں اور خویلد اسد کے بیٹے تھے تو ورقہ اور خدیجہ کے باپ بھائی بھائی تھے ) اور جاہلیت کے زمانہ میں وہ نصرانی ہو گئے تھے اور عربی لکھنا جانتے تھے ، تو جتنا اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا انجیل کو عربی زبان میں لکھتے تھے اور بہت بوڑھے تھے ، ان کی بینائی (بڑھاپے کی وجہ سے ) جاتی رہی تھی۔ اُمّ المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا کہ اے چچا! (وہ چچا کے بیٹے تھے لیکن بزرگی کے لئے ان کو چچا کہا اور ایک روایت میں چچا کے بیٹے ہیں) اپنے بھتیجے کی سنو۔ ورقہ نے کہا کہ اے میرے بھتیجے ! تم نے کیا دیکھا؟ رسول اللہﷺ نے جو کچھ کیفیت دیکھی تھی سب بیان کی تو ورقہ نے کہا کہ یہ تو وہ ناموس ہے جو موسیٰؑ پر اتری تھی۔(ناموس سے مراد جبریلؑ ہیں) کاش میں اس زمانہ میں جوان ہوتا، کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب تمہاری قوم تمہیں نکال دے گی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کیا وہ مجھے نکال دیں گے ؟ ورقہ نے کہا ہاں! جب کوئی شخص دنیا میں وہ لے کر آیا، جسے تم لائے ہو (یعنی شریعت اور دین) تو لوگ اس کے دشمن ہو گئے اور اگر میں اس دن کو پاؤں گا تو اچھی طرح تمہاری مدد کروں گا

74: یحییٰ کہتے ہیں کہ میں نے ابو سلمہ سے پوچھا کہ سب سے پہلے قرآن میں سے کیا اترا؟ انہوں نے کہا کہ ﴿یَآیُّہَ الْمُدَثِّرُ﴾ میں نے کہا کہ یا ﴿اِقْرَأْ﴾ (سب سے پہلے اتری؟) انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا جابر بن عبد اللہؓ سے پوچھا کہ قرآن میں سب سے پہلے کیا اترا تو انہوں نے کہا کہ ﴿یَآیُّہَ الْمُدَثِّرُ﴾میں نے کہا کہ یا ﴿اِقْرَأْ﴾ (سب سے پہلے اتری؟)سیدنا جابرؓ نے کہا کہ میں تم سے وہ حدیث بیان کرتا ہوں جو رسول اللہﷺ نے ہم سے بیان کی تھی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں (غار) حرا میں ایک مہینے تک رہا۔ جب میری رہنے کی مدت پوری ہو گئی تو میں اترا اور وادی کے اندر چلا، کسی نے مجھے آواز دی، میں نے سامنے اور پیچھے اور دائیں اور بائیں دیکھا، کوئی نظر نہ آیا۔ پھر مجھے کسی نے آواز دی، میں نے دیکھا مگر کسی کو نہ پایا۔ پھر کسی نے مجھے آواز دی تو میں نے سر اوپر اٹھا کر دیکھا تو وہ ہوا میں ایک تخت پر ہیں یعنی جبریلؑ۔ مجھے یہ دیکھ کر سخت (ہیبت کے مارے ) لرزہ چڑھ آیا۔ تب میں خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور میں نے کہا کہ مجھے کپڑا اڑھا دو! انہوں نے کپڑا اُڑھا دیا اور پانی (ہیبت دور کرنے کے لئے ) میرے اوپر ڈالا۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں اتاریں۔ "اے کپڑا اوڑھنے والے۔ کھڑا ہو جا اور آگاہ کر دے۔ اور اپنے رب ہی کی بڑائیاں بیان کر۔ اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھ ......" (المدثر 1,4)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : وحی کا کثرت سے اور لگاتار نازل ہونا۔
75: سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ بے شک اللہ عزوجل نے رسول اللہﷺ پر آپﷺ کی وفات سے قبل پے درپے وحی اتاری حتی کہ آپﷺ نے وفات پائی۔ اور سب سے زیادہ وحی آپﷺ کی وفات کے دن نازل ہوئی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : رسول اللہﷺ کا آسمانوں پر تشریف لے جانا (یعنی معراج) اور نمازوں کا فرض ہونا۔
76: سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: میرے سامنے ایک سفید براق لایا گیا، اور وہ ایک جانور ہے سفید رنگ کا، لمبا، گدھے سے اونچا اور خچر سے چھوٹا، اپنے سم وہاں رکھتا ہے جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے (تو ایک لمحہ میں آسمان تک جا سکتا ہے )۔ فرمایا: میں اس پر سوار ہوا اور بیت المقدس تک آیا۔ فرمایا: وہاں میں نے اس جانور کو اس حلقہ سے باندھ دیا، جس سے اور پیغمبر اپنے اپنے جانوروں کو باندھا کرتے تھے (یہ حلقہ مسجد کے دروازے پر ہے اور باندھ دینے سے یہ معلوم ہوا کہ انسان کو اپنی چیزوں کی احتیاط اور حفاظت ضروری ہے اور یہ توکل کے خلاف نہیں) پھر میں مسجد کے اندر گیا اور دو رکعت نماز پڑھی پھر باہر نکلا تو جبریلؑ دو برتن لے کر آئے ، ایک میں شراب اور دوسرے میں دودھ تھا۔ میں نے دودھ پسند کیا تو جبریل نے کہا، آپ نے فطرت کو پسند کیا۔ پھر جبریلؑ مجھے آسمان پر لے کر گئے ، (جب وہاں پہنچے ) تو فرشتوں سے دروازہ کھولنے کے لئے کہا، انہوں نے پوچھا کون ہے ؟ جبریل نے کہا کہ جبریل ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمہارے ساتھ دوسرا کون ہے ؟ جبریلؑ نے کہا کہ محمدﷺ ہیں۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کیا وہ بلائے گئے تھے ؟ جبریلؑ نے کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں۔ پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا اور میں نے آدمؑ کو دیکھا تو انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لئے بہتری کی دعا کی۔ پھر جبریلؑ ہمارے ساتھ دوسرے آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کون ہے ؟ انہوں نے کہا کہ جبریل۔ فرشتوں نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ دوسرا کون شخص ہے ؟ انہوں نے کہا کہ محمدﷺ ہیں۔ فرشتوں نے کہا کہ ان کو بلانے کا حکم ہوا تھا؟ جبریلؑ نے کہا کہ ہاں حکم ہوا ہے۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے دونوں خالہ زاد بھائیوں کو دیکھا یعنی عیسیٰ بن مریم اور یحییٰ بن زکریا علیہما السلام کو۔ ان دونوں نے مرحبا کہا اور میرے لئے بہتری کی دعا کی۔ پھر جبریلؑ ہمارے ساتھ تیسرے آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا، تو فرشتوں نے کہا کہ کون ہے ؟ جبریلؑ نے کہا کہ جبریل۔ فرشتوں نے کہا کہ تمہارے ساتھ دوسرا کون ہے ؟ جبریلؑ نے کہا کہ محمدﷺ ہیں۔ فرشتوں نے کہا کہ کیا ان کو بلانے کے لئے پیغام گیا تھا؟ جبریلؑ نے کہا کہ ہاں پیغام گیا تھا۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے یوسفؑ کو دیکھا۔ اللہ نے حسن (خوبصورتی) کا آدھا حصہ ان کو دیا تھا۔ انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور نیک دعا کی۔ پھر جبریلؑ ہمیں لے کر چوتھے آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا تو فرشتوں نے پوچھا کہ کون ہے ؟جبریلؑ نے کہا کہ جبریل۔ انہوں نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ دوسرا کون ہے ؟ جبریلؑ نے کہا کہ محمدﷺ ہیں۔ فرشتوں نے کہا کہ کہ وہ بلوائے گئے ہیں؟ جبریلؑ نے کہا کہ ہاں بلوائے گئے ہیں۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے ادریسؑ کو دیکھا۔ انہوں نے مرحبا کہا اور مجھے اچھی دعا دی۔ اللہ جل جلالہ نے فرمایا ہے کہ "ہم نے ادریس کو اونچی جگہ پر اٹھا لیا" (تو اونچی جگہ سے یہی چوتھا آسمان مراد ہے )۔ پھر جبریلؑ ہمارے ساتھ پانچویں آسمان پر چڑھے اور انہوں نے دروازہ کھلوایا۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کون؟ کہا کہ جبریل۔ فرشتوں نے پوچھا کہ تمہارے سا تھ کون ہے ؟ جبریلؑ نے کہا کہ محمدﷺ ہیں۔ فرشتوں نے کہا کہ کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ جبریلؑ نے کہا کہ ہاں بلوائے گئے ہیں۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے ہارونؑ کو دیکھا۔ انہوں نے مرحبا کہا اور مجھے نیک دعا دی۔ پھر جبریلؑ ہمارے ساتھ چھٹے آسمان پر پہنچے اور دروازہ کھلوایا۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کون ہے ؟ جبریلؑ نے کہا کہ جبریل۔ فرشتوں نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ اور کون ہے ؟ انہوں نے کہا کہ محمدﷺ ہیں۔ فرشتوں نے کہا کہ اللہ نے ان کو لے کر آنے کے لئے پیغام بھیجا تھا؟ جبریلؑ نے کہا، ہاں! بھیجا تھا۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے موسیٰؑ کو دیکھا، انہوں نے مرحبا کہا اور مجھے اچھی دعا دی۔ پھر جبریلؑ ہمارے ساتھ ساتویں آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کون ہے ؟ جبریلؑ نے کہا کہ جبریل ہوں۔ پوچھا کہ تمہارے ساتھ اور کون ہے ؟ جبریلؑ نے کہا کہ محمدﷺ ہیں۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کیا وہ بلوائے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں بلوائے گئے ہیں۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے ابراہیمؑ کو دیکھا کہ وہ بیت المعمور سے اپنی پیٹھ کا تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے تھے۔ (اس سے معلوم ہوا کہ قبلہ کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھنا گناہ نہیں) اور اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے جاتے ہیں کہ پھر کبھی ان کی باری نہیں آئے گی۔ پھر جبریلؑ مجھے سدرۃ المنتہیٰ کے پاس لے گئے۔ اس کے پتے اتنے بڑے تھے جیسے ہاتھی کے کان اور اس کے بیر قلہ جیسے۔ (ایک بڑا گھڑا جس میں دو مشک یا زیادہ پانی آتا ہے ) پھر جب اس درخت کو اللہ تعالیٰ کے حکم نے ڈھانکا تو اس کا حال ایسا ہو گیا کہ کوئی مخلوق اس کی خوبصورتی بیان نہیں کر سکتی۔ پھر اللہ جل جلالہ نے میرے دل میں القاء کیا جو کچھ القاء کیا اور پچاس نمازیں رات اور دن میں مجھ پر فرض کیں۔ جب میں وہاں سے اترا اور موسیٰؑ تک پہنچا تو انہوں نے پوچھا کہ تمہارے پروردگار نے تمہاری امت پر کیا فرض کیا؟ میں نے کہا کہ پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پھر اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جاؤ اور تخفیف چاہو، کیونکہ تمہاری امت کو اتنی طاقت نہ ہو گی اور میں نے بنی اسرائیل کو آزمایا اور ان کا امتحان لیا ہے۔ میں اپنے پروردگار کے پاس لوٹ گیا اور عرض کیا کہ اے پروردگار! میری امت پر تخفیف کر۔ اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں گھٹا دیں۔ میں لوٹ کر موسیٰؑ کے پاس آیا اور کہا کہ پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے مجھے معاف کر دیں۔ انہوں نے کہا تمہاری امت کو اتنی طاقت نہ ہو گی ، تم پھر اپنے رب کے پاس جاؤ اور تخفیف کراؤ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں اس طرح برابر اپنے پروردگار کے درمیان آتا جاتا رہا، یہاں تک کہ اللہ جل جلالہ نے فرمایا کہ اے محمدﷺ! ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں ہیں ، اور ہر ایک نماز میں دس نمازوں کا ثواب ہے۔ تو وہی پچاس نمازیں ہوئیں (سبحان اللہ! مالک کی اپنے بندوں پر کیسی عنایت ہے کہ پڑھیں تو پانچ نمازیں اور ثواب پچاس نمازوں کا ملے ) اور جو کوئی شخص نیک کام کرنے کی نیت کرے اور پھر اس کو نہ کر سکے تو اس کو ایک نیکی کا ثواب ملے گا اور جو کرے تو اس کو دس نیکیوں کا اور جو شخص برائی کرنے کی نیت کرے اور پھر اس کو نہ کرے ، تو کچھ نہ لکھا جائے گا اور اگر کر لے تو ایک ہی بُرائی لکھی جائے گی۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ میں اترا اور موسیٰؑ کے پاس آیا تو انہوں نے کہا کہ پھر اپنے رب کے پاس لوٹ جاؤ اور تخفیف چاہو۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں اپنے رب کے پاس بار بار گیا یہاں تک کہ میں اس سے شرما گیا ہوں۔ (یعنی اب جانے سے شرماتا ہوں)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نبیﷺ کا انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ کرنا۔
77: سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان چل رہے تھے کہ ایک وادی پر گزرے۔ آپﷺ نے پوچھا کہ یہ کون سی وادی ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ وادی ازرق ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ گویا میں موسیٰؑ کو دیکھ رہا ہوں، (پھر موسیٰؑ کا رنگ اور بالوں کا حال بیان کیا جو (راوی حدیث) داؤد بن ابی ہند کو یاد نہ رہا)۔ جو انگلیاں اپنے کانوں میں رکھے ہوئے ، بلند آواز سے تلبیہ پکارتے ہوئے اس وادی میں سے جا رہے ہیں۔ سیدنا عبد اللہؓ نے کہا کہ ہم پھر چلے یہاں تک کہ ایک ٹیکری پر آئے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ کون سی ٹیکری ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ 'ہرشا' کی یا 'لفت' کی۔ آپﷺ نے فرمایا: گویا کہ میں یونسؑ کو دیکھ رہا ہوں کہ صوف کا ایک جبہ پہنے ہوئے ایک سرخ اونٹنی پر سوار ہیں اور ان کی اونٹنی کی نکیل کھجور کے چھال کی ہے ، وہ اس وادی میں لبیک کہتے ہوئے جا رہے ہیں۔

78: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب مجھے معراج کرائی گئی تو میں موسیٰؑ سے ملا۔ پھر آپﷺ نے ان کی صورت بیان کی۔ میں خیال کرتا ہوں کہ آپﷺ نے یوں فرمایا (یہ شک راوی ہے ) کہ وہ لمبے ، چھریرے بدن والے ، سیاہ بالوں والے جیسے شنؤ ۃ کے لوگ ہوتے تھے۔ اور فرمایا کہ میں عیسیٰؑ سے ملا۔ پھر آپﷺ نے ان کی صورت بیان کی کہ وہ درمیانہ قد والے ، سرخ رنگت والے جیسے کہ ابھی کوئی حمام سے نکلا ہو (یعنی ایسے تر و تازہ اور خوش رنگ) تھے اور آپﷺ نے فرمایا کہ میں ابراہیمؑ کو دیکھا، تو میں ان کی اولاد میں سب سے زیادہ ان سے مشابہ ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ پھر میرے پاس دو برتن لائے گئے۔ ایک میں دودھ تھا اور ایک میں شراب، اور مجھ سے کہا گیا کہ جس کو چاہو پسند کر لو۔میں نے دودھ کا برتن لے لیا اور دودھ پیا تو اس (فرشتے نے جو یہ دونوں برتن لے کر آیا تھا) کہا کہ تم کو فطرت (ہدایت) کی راہ ملی یا تم فطرت (ہدایت) کو پہنچ گئے۔ اور اگر تم شراب کو اختیار کرتے تو تمہاری امت گمراہ ہو جاتی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نبیﷺ کا مسیح عیسیٰ اور دجّال کا تذکرہ فرمانا۔
79: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک دن لوگوں کے درمیان مسیح دجال کا ذکر کیا تو فرمایا: کہ اللہ جل جلالہ کانا نہیں ہے اور مسیح دجال داہنی آنکھ سے کانا ہے۔ اس کی کانی آنکھ ایسی ہے جیسے پھولا ہوا انگور۔ (پس یہی ایک کھلی نشانی ہے اس بات کی کہ وہ مردود اپنے خدائی دعوے میں جھوٹا ہے )۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ایک رات خواب میں میں نے اپنے آپ کو کعبہ کے پاس دیکھا کہ ایک گندمی رنگ کا شخص جیسے کوئی بہت اچھا گندمی رنگ کا شخص ہوتا ہے ، اس کے بال کندھوں تک تھے اور بالوں میں کنگھی کی ہوئی تھی، سر میں سے پانی ٹپک رہا تھا، اور وہ اپنے دونوں ہاتھ دو آدمیوں کے کندھوں پر رکھے ہوئے خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ کون شخص ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ یہ مریم کے بیٹے مسیح علیہ السلام ہیں۔ اور ان کے پیچھے میں نے ایک اور شخص کو دیکھا جو کہ سخت گھونگھریالے بالوں والا، داہنی آنکھ کا کانا تھا۔ میں نے جو لوگ دیکھے ان سب میں ابن قطن اس سے زیادہ مشابہ ہے ، وہ بھی اپنے دونوں ہاتھ دو آدمیوں کے کندھوں پر رکھے ہوئے طواف کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ یہ مسیح دجال ہے۔
 
Top