• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح مسلم - (اردو ترجمہ) یونیکوڈ

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نبیﷺ کا انبیاء علیہم السلام کو نماز پڑھانا۔
80: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں نے اپنے آپ کو حطیم میں دیکھا اور (دیکھا کہ) قریش مجھ سے میری سیر (معراج) کا حال پوچھ رہے تھے ، تو انہوں نے بیت المقدس کی کئی چیزیں پوچھیں جن کو میں ذہن میں محفوظ نہیں رکھتا تھا۔ مجھے بڑا رنج ہوا، ایسا رنج کبھی نہیں ہوا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو اٹھا کر میرے سامنے کر دیا، میں اس کو دیکھنے لگا اور اب جو بات وہ پوچھتے تو میں بتا دیتا تھا۔ اور میں نے اپنے آپ کو پیغمبروں کی جماعت میں پایا، دیکھا کہ موسیٰؑ کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں، وہ ایک درمیانہ قداور گٹھے ہوئے جسم کے شخص ہیں جیسے کہ (قبیلہ) شنؤۃ کے لوگ ہوتے ہیں۔ اور عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو بھی دیکھا کہ وہ بھی کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں، اور میں ان کے سب سے زیادہ مشابہ عروہ ابن مسعود ثقفیؓ کو پاتا ہوں۔ اور دیکھا کہ ابراہیمؑ بھی کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں، ان کے سب سے زیادہ مشابہ تمہارے صاحب (یعنی اپنے آپ کو مراد لیا) ہیں۔ اور پھر نماز کا وقت آیا تو میں نے امامت کی اور سب پیغمبروں نے میرے پیچھے نماز پڑھی۔ جب میں نماز سے فارغ ہوا تو ایک بولنے والا بولا کہ اے محمدﷺ! یہ جہنم کا داروغہ "مالک" ہے اس کو سلام کرو۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس نے خود پہلے مجھے سلام کیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : معراج (والی رات )میں نبیﷺ کا سدرۃ المنتہی تک پہنچنا۔
81: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ کو معراج کرائی گئی تو آپﷺ سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا اور وہ چھٹے آسمان میں ہے۔ زمین سے جو چڑھتا ہے ، وہ یہیں آ کر ٹھہر جاتا ہے پھر لے لیا جاتا ہے۔ اور جو اوپر سے اترتا ہے ، وہ بھی یہیں ٹھہرتا ہے پھر لے لیا جاتا ہے۔ اللہ عزوجل نے فرمایا کہ "جب کہ سدرہ (بیری) کو چھپائے لیتی تھی وہ چیز جو اس پر چھا رہی تھی" (النجم : 16) سیدنا عبد اللہؓ نے کہا کہ یعنی سونے کے پتنگے۔ پھر رسول اللہﷺ کو وہاں تین چیزیں دی گئیں۔ ایک تو پانچ نمازیں، دوسری سورۂ بقرہ کی آخری آیتیں اور تیسرے اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی امت میں سے اس شخص کو بخش دیا جو اللہ کے ساتھ شرک نہ کرے گا ، (باقی تمام تباہ کرنے والے گناہوں کو معاف کر دیا جاتا ہے سوائے شرک کے )۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنَ اَوْ اَدْنیٰ﴾ کا مطلب
82: شیبانی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے زِرّ بن حبیشؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول "پس وہ دو کمانوں کے بقدر فاصلہ رہ گیا بلکہ اس سے بھی کم" (النجم : 9) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے جبرائیلؑ کو دیکھا تھا ، ان کے چھ سو پر تھے۔
83: سیدنا ابن عباسؓ اللہ تعالیٰ کے قول "دل نے جھوٹ نہیں کہا جسے (پیغمبر نے )دیکھا ... اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا" (النجم : 11,13) کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل سے دو بار دیکھا۔ (سیدنا ابن عباسؓ کا یہ اپنا نقطہ نظر ہے ) (م۔ع)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اللہ تعالیٰ کے دیدار کے بیان میں۔
84: مسروق سے روایت ہے کہ میں اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تکیہ لگائے ہوئے بیٹھا تھا تو انہوں نے کہا کہ اے ابو عائشہ! (یہ مسروق کی کنیت ہے ) تین باتیں ایسی ہیں کہ جو کوئی ان کا قائل ہو، اس نے اللہ تعالیٰ پر بڑا جھوٹ باندھا۔ میں نے کہا کہ وہ تین باتیں کونسی ہیں؟ انہوں نے کہا کہ (ایک یہ ہے کہ) جو کوئی سمجھے کہ محمدﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے ، اس نے اللہ پر بڑا جھوٹ باندھا۔ مسروق نے کہا کہ میں تکیہ لگائے ہوئے تھا، یہ سن کر میں بیٹھ گیا اور کہا کہ اے اُمّ المؤمنین! ذرا مجھے بات کرنے دو اور جلدی مت کرو۔ کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا کہ "اس نے اس کو آسمان کے کھلے کنارے پر دیکھا بھی ہے " (التکویر: 23) "اسے ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا" (النجم : 13)۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اس امت میں سب سے پہلے میں نے ان آیتوں کے متعلق رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ ان آیتوں سے مراد جبرائیلؑ ہیں۔ میں نے ان کو ان کی اصلی صورت پر نہیں دیکھا سوا دو بار کے جن کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔ میں نے ان کو دیکھا کہ وہ آسمان سے اتر رہے تھے اور ان کے جسم کی بڑائی نے آسمان سے زمین تک کے فاصلہ کو بھر دیا تھا۔ پھر اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ کیا تو نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ "اس (اللہ) کو تو کسی کی نگاہ نہیں دیکھ سکتی اور وہ سب نگاہوں کو دیکھ سکتا ہے اور وہی بڑا باریک بین باخبر ہے " (الانعام: 103) کیا تو نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ "نا ممکن ہے کہ کسی بندہ سے اللہ تعالیٰ کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ یا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتہ کو بھیجے اور وہ اللہ کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کرے بیشک وہ برتر ہے حکمت والا ہے " (الشوریٰ: 51)؟ (دوسری یہ ہے کہ) جو کوئی خیال کرے کہ رسول اللہﷺ نے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں سے کچھ چھپا لیا، تو اس نے (بھی)اللہ تعالیٰ پر بڑا جھوٹ باندھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ "اے رسولﷺ! جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے ، پہنچا دیجئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی" (المائدہ : 67)۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اور جو کوئی کہے کہ رسول اللہﷺ کل ہونے والی بات جانتے تھے (یعنی آئندہ کا حال) تو اس نے (بھی) اللہ تعالیٰ پر بڑا جھوٹ باندھا۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ "(اے محمدﷺ!) کہہ دیجئے کہ آسمانوں اور زمین میں اللہ کے سوا کوئی غیب کی بات نہیں جانتا"۔ اور داؤد نے اتنا زیادہ کیا ہے کہ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اگر رسول اللہﷺ اس (یعنی قرآن) میں سے کچھ چھپانے والے ہوتے جو کہ ان پر نازل کیا گیا ہے ، (یعنی قرآن) تو اس آیت کو چھپاتے کہ (یاد کرو) جب کہ تو اس شخص سے کہہ رہا تھا، جس پر اللہ نے بھی انعام کیا اور تو نے بھی کہ تو اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ اور اللہ سے ڈر اور تو اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھا، جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور تو لوگوں سے خوف کھاتا تھا حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ حق دار تھا کہ تو اس سے ڈرے " (الاحزاب: 37)۔

85: سیدنا ابو موسیٰؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے کھڑے ہو کر ایسی پانچ باتیں سنائیں۔ آپﷺ نے فرمایا: 1۔ اللہ جل جلالہ سوتا نہیں اور سونا اس کے لائق ہی نہیں (کیونکہ سونا عضلات اور اعضائے بدن کی تھکاوٹ سے ہوتا اور اللہ تعالیٰ تھکن سے پاک ہے ، دوسرے یہ کہ سونا غفلت ہے اور موت کے مثل ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے )۔2۔ اور وہی ترازو کو جھکاتا اور اس کو اونچا کرتا ہے۔ 3۔ اسی کی طرف رات کا عمل دن کے عمل سے پہلے اور دن کا عمل رات کے عمل سے پہلے اٹھایا جاتا ہے۔4۔ اس کا پردہ نور ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ اس کا پردہ آگ ہے۔ 5۔ اگر وہ اس پردے کو کھول دے تو اس کے منہ کی شعاعیں، جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے مخلوقات کو جلا دیں۔

86: سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ کیا قیامت کے روز ہم اپنے پروردگار کو دیکھیں گے ؟ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا تم چودھویں رات کا چاند دیکھنے میں ایک دوسرے کو تکلیف دیتے ہو؟ (یعنی اژدحام اور ہجوم کی وجہ سے )۔ یا تمہیں چودھویں رات کا چاند دیکھنے میں کچھ تکلیف ہوتی ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم! آپﷺ نے فرمایا کہ بھلا تمہیں سورج کے دیکھنے میں، جس وقت کہ بادل نہ ہو (اور آسمان صاف ہو) کچھ مشقت ہوتی ہے یا ایک دوسرے کو صدمہ پہنچاتے ہو ؟ لوگوں نے کہا نہیں یا رسول اللہﷺ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ پھر اسی طرح (یعنی بغیر تکلیف، مشقت، زحمت اور اژدحام کے ) تم اپنے پروردگار کو دیکھو گے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو قیامت کے دن جمع کرے گا تو فرمائے گا کہ جو کوئی جس کو پوجتا تھا اسی کے ساتھ ہو جائے۔ پھر جو شخص سورج کو پوجتا تھا وہ سورج کے ساتھ ہو جائے گا اور جو چاند کو پوجتا تھا وہ چاند کے ساتھ اور جو طاغوت کو پوجتا تھا وہ طاغوت کے ساتھ ہو جائے گا۔ بس یہ امت محمدﷺ باقی رہ جائے گی جس میں منافق لوگ بھی ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کے پاس ایسی صورت میں آئے گا کہ جس کو وہ نہ پہچانیں گے اور کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں۔ وہ کہیں گے کہ ہم تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں اور ہم اسی جگہ ٹھہرے رہیں گے یہاں تک کہ ہمارا پروردگار آئے گا تو ہم اس کو پہچان لیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کے پاس اس صورت میں آئے گا جس کو وہ پہچانتے ہوں گے اور کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں، تو وہ کہیں گے کہ تو ہمارا رب ہے۔ پھر وہ اس کے ساتھ ہو جائیں گے اور دوزخ کی پشت پر پُل رکھا جائے گا تو میں اور میری امت سب سے پہلے پار ہوں گے اور سوائے پیغمبروں کے اور کوئی اس دن بات نہ کر سکے گا۔اور پیغمبروں کا بول اس وقت یہ ہو گا کہ یا اللہ بچائیو! (یہ شفقت کی وجہ سے کہیں گے مخلوق پر) اور دوزخ میں کڑے ہیں (لوہے کے ، جن کا سر ٹیڑھا ہوتا ہے اور تنور میں جب گوشت ڈالتے ہیں تو کڑوں میں لگا کر ڈالتے ہیں) جیسے سعدان جھاڑی کے کانٹے (سعدان ایک کانٹوں دار جھاڑ ی ہے ) نبیﷺ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ کیا تم نے سعدان جھاڑی دیکھی ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں دیکھی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ پس وہ سعدان کے آنکڑے کانٹوں کی شکل پر ہوں گے لیکن سوائے اللہ تعالیٰ کے یہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کڑے کتنے بڑے بڑے ہوں گے۔ وہ لوگوں کو دوزخ میں گھسیٹیں گے (یعنی فرشتے ان کڑوں سے دوزخیوں کو گھسیٹ لیں گے ) ان کے بد عملوں کی وجہ سے۔ اب بعض ان میں برباد ہوں گے جو اپنے بد عمل کے سبب سے برباد ہو جائیں گے اور بعض ان میں سے اپنے اعمال کا بدلہ دئیے جائیں گے یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ بندوں کے فیصلے سے فراغت پائے گا اور چاہے گا کہ دوزخ والوں میں سے جس کو چاہے اپنی رحمت سے نکالے ، تو فرشتوں کو حکم دے گا دوزخ سے اس شخص کو نکالیں جس نے اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیا ہو، جس پر اللہ نے رحمت کرنی چاہی ہو، جو کہ لا الٰہ الا اللہ کہتا ہو گا، تو فرشتے دوزخ میں ایسے لوگوں کو پہچان لیں گے اور وہ انہیں سجدوں کے نشان سے پہچانیں گے۔ آگ آدمی کو جلا ڈالے گی سوائے سجدے کے نشان کی جگہ کے (کیونکہ) اللہ تعالیٰ نے آگ پر اس جگہ کا جلانا حرام کیا ہے۔ پھر وہ دوزخ سے جلے بھنے نکالے جائیں گے ، تب ان پر آبِ حیات چھڑکا جائے گا تو وہ تازہ ہو کر ایسے جم اٹھیں گے جیسے دانہ پانی کے بہاؤ میں جم اٹھتا ہے (پانی جہاں پر کوڑا کچرا مٹی بہا کر لاتا ہے وہاں دانہ خوب اگتا ہے اور جلد شاداب اور سرسبز ہو جاتا ہے اسی طرح وہ جہنمی بھی آبِ حیات ڈالتے ہی تازے ہو جائیں گے اور جلن کے نشان بالکل جاتے رہیں گے ) پھر جب اللہ تعالیٰ بندوں کے فیصلے سے فارغ ہو گا اور ایک مرد باقی رہ جائے گا جس کا منہ دوزخ کی طرف ہو گا اور یہ جنت میں داخل ہونے والا آخری شخص ہو گا ، وہ کہے گا کہ اے رب! میرا منہ جہنم کی طرف سے پھیر دے کیونکہ اس کی بو مجھے ایذا میں ڈالنے والی اور اس کی گرمی مجھے جلائے دے رہی ہے۔ پھر اللہ سے دعا کرے گا جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہو گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اگر میں تیرا سوال پورا کروں تو تو اور سوال کرے گا؟ وہ کہے گا کہ نہیں، پھر میں کچھ سوال نہ کروں گا اور جیسے جیسے اللہ کو منظور ہوں گے وہ قول اقرار کرے گا، تب اللہ تعالیٰ اس کا منہ دوزخ کی طرف سے (جنت کی طرف) پھیر دے گا۔ جب جنت کی طرف اس کا منہ ہو گا تو جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہو گا چپ رہے گا، پھر کہے گا کہ اے رب مجھے جنت کے دروازے تک پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو کیا کیا قول اور اقرار کر چکا ہے کہ پھر میں دوسرا سوال نہ کروں گا، برا ہو تیرا، اے آدمی تو کیسا دغا باز ہے ؟ وہ کہے گا کہ اے رب! اور دعا کرے گا یہاں تک کہ اللہ تعالی فرمائے گا کہ اچھا اگر میں تیرا یہ سوال پورا کر دوں تو پھر تو اور کچھ مانگے گا؟ وہ کہے گا کہ نہیں قسم تیری عزت کی اور کیا کیا قول اور اقرار کرے گا جیسے اللہ کو منظور ہو گا، آخر اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے دروازے تک پہنچا دے گا۔ جب وہاں کھڑا ہو گا تو ساری جنت اس کو دکھلائی دے گی اور جو کچھ اس میں نعمت یا خوشی اور فرحت ہے وہ سب۔ پھر ایک مدت تک جب تک اللہ کو منظور ہو گا وہ چپ رہے گا۔ اس کے بعد عرض کرے گا کہ اے رب! مجھے جنت کے اندر لے جا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ کیا تو نے کیا پختہ وعدہ اور اقرار نہیں کیا تھا کہ اب میں کچھ سوال نہ کروں گا؟ بُرا ہو تیرا اے آدم کے بیٹے ! تو کیسا دھوکہ باز ہے۔ وہ عرض کرے گا کہ اے میرے رب میں تیری مخلوق میں بدنصیب نہیں ہوں گا اور دعا کرتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ جل شانہ ہنس دے گا اور جب اللہ تعالیٰ کو ہنسی آ جائے گی تو فرمائے گا کہ اچھا، جا جنت میں چلا جا۔ جب وہ جنت کے اندر جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ اب تو کوئی اور آرزو کر۔ وہ کرے گا اور مانگے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو یاد دلائے گا کہ فلاں چیز مانگ، فلاں چیز مانگ۔ جب اس کی آرزوئیں ختم ہو جائیں گی تو حق تعالیٰ فرمائے گا کہ ہم نے یہ سب چیزیں تجھے دیں اور ان کے ساتھ اتنی ہی اور دیں۔ (یعنی اپنی خواہشوں سے دو گنا لے۔ سبحان اللہ ! کیا کرم اور رحمت ہے اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر اور اگر وہ کرم نہ کرے تو اور کون کرے ؟ وہی مالک ہے وہی خالق ہے ، وہی رازق ہے ، وہ پالنے والا ہے ) عطاء بن یزید نے کہا جو اس حدیث کے راوی ہیں کہ سیدنا ابو سعید خدریؓ بھی اس حدیث کی روایت کرنے میں سیدنا ابو ہریرہؓ کے موافق تھے کہیں خلاف نہ تھے۔ لیکن جب سیدنا ابو ہریرہؓ نے یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ ہم نے یہ سب تجھے دیں اور اتنی ہی اور دیں تو سیدنا ابو سعید خدریؓ نے کہا کہ اے ابو ہریرہ! اس کے مثل دس گنا اور بھی۔ تو سیدنا ابو ہریرہؓ نے کہا کہ مجھے تو یہی بات یاد ہے کہ رسول اللہﷺ نے یوں فرمایا کہ ہم نے یہ سب تجھے دیں اور اتنی ہی اور دیں۔ سیدنا ابو سعید خدریؓ نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہﷺ نے یوں فرمایا کہ ہم نے یہ سب تجھے دیں اور دس حصے زیادہ دیں۔ سیدنا ابو ہریرہؓ نے کہا کہ یہ وہ شخص ہے جو سب سے آخر میں جنت میں جائے گا (تو اور جنتیوں کو معلوم نہیں کیا کیا نعمتیں ملیں گی)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اللہ کی توحید کا اقرار کرنے والوں کا جہنم سے نکلنا۔
87: سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: وہ لوگ جو جہنم والے ہیں (یعنی ہمیشہ وہاں رہنے کے لئے ہیں جیسے کافر اور مشرک) وہ تو نہ مریں گے نہ جئیں گے لیکن کچھ لوگ جو گناہوں کی وجہ سے دوزخ میں جائیں گے ، اللہ تعالیٰ ان پر موت طاری کرے گا یہاں تک کہ وہ جل کر کوئلہ ہو جائیں گے تو ان کے لئے شفاعت کی اجازت ہو گی اور یہ لوگ گروہ در گروہ لائے جائیں گے اور جنت کی نہروں پر پھیلائے جائیں گے اور حکم ہو گا کہ اے جنت کے لوگو! ان پر پانی ڈالو۔ تب وہ اس طرح سے اُگیں گے جیسے دانہ اس مٹی میں اگتا ہے جس کو پانی بہا کر لاتا ہے۔ (یہ سن کر) ایک شخص بولا کہ گویا رسول اللہﷺ! (معلوم ہوتا ہے ) آپﷺ جنگل میں رہے ہیں (جبھی تو آپ کو یہ معلوم ہے کہ بہاؤ میں جو مٹی جمع ہوتی ہے اس میں دانہ خوب اگتا ہے )۔

88: سیدنا انسؓ اور سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سب سے آخر میں جو شخص جنت میں جائے گا، وہ ایک ایسا شخص ہو گا جو چلے گا، پھر اوندھا گرے گا اور جہنم کی آگ اس کو جلاتی جائے گی۔ جب دوزخ سے پار ہو جائے گا، تو پیٹھ موڑ کر اس کو دیکھے گا اور کہے گا کہ بڑی برکت والی ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ (جہنم) سے نجات دی۔ بیشک جتنا اللہ تعالیٰ نے مجھے دیا ہے اتنا اگلوں پچھلوں میں سے کسی کو نہیں دیا۔ پھر اس کو ایک درخت دکھلائی دے گا، وہ کہے گا کہ اے رب، مجھے اس درخت کے نزدیک کر دے تاکہ میں اس کے سایہ میں رہوں اور اس کا پانی پیوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے آدم کے بیٹے ! اگر میں نے تیرا یہ سوال پورا کر دیا تو تو اور بھی سوال کرے گا؟ وہ کہے گا کہ نہیں اے میرے رب! اور عہد کرے گا کہ پھر میں کوئی سوال نہ کروں گا۔ اور اللہ تعالیٰ اس کا عذر قبول کر لے گا اس لئے کہ وہ ایسی نعمت کو دیکھے گا جس پر اس سے صبر نہیں ہو سکتا (یعنی انسان بے صبر ہے جب وہ تکلیف میں مبتلا ہو اور عیش کی بات دیکھے تو بے اختیار اس کی خواہش کرتا ہے )۔ آخر اللہ تعالیٰ اس کو اس درخت کے نزدیک کر دے گا اور وہ اس کے سایہ میں رہے گا اور وہاں کا پانی پئے گا۔ پھر اس کو ایک اور درخت دکھلائی دے گا، جو اس سے بھی اچھا ہو گا۔ وہ کہے گا کہ اے پروردگار مجھے اس درخت کے نزدیک پہنچا دے تاکہ میں اس کے سائے میں جاؤں اور اس کا پانی پیوں اور میں اور کچھ سوال نہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے آدم کے بیٹے ! کیا تو نے عہد نہیں کیا تھا کہ میں پھر سوال نہ کروں گا؟ اور اگر میں تجھے اس درخت تک پہنچا دوں، تو پھر تو اور سوال کرے گا۔ وہ اقرار کرے گا کہ نہیں پھر میں اور کچھ سوال نہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو معذور رکھے گا اس لئے کہ اس کو اس نعمت پر، جو وہ (شخص) دیکھتا ہے ، صبر نہیں۔ تب اللہ تعالیٰ اس کو اس درخت کے نزدیک کر دے گا، وہ اس کے سائے میں رہے گا اور وہاں کا پانی پئے گا۔ پھر اس کو ایک درخت دکھائی دے گا جو جنت کے دروازے پر ہو گا اور وہ پہلے کے دونوں درختوں سے بہتر ہو گا۔ وہ کہے گا کہ اے میرے رب! مجھے اس درخت کے پاس پہنچا دے تاکہ میں اس کے نیچے سایہ میں رہوں اور وہاں کا پانی پیوں، اب میں اور کچھ سوال نہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے آدم کے بیٹے ! کیا تو اقرار نہ کر چکا تھا کہ اب میں اور کچھ سوال نہ کروں گا؟ وہ کہے گا کہ بیشک میں اقرار کر چکا تھا، لیکن اب میرا یہ سوال پورا کر دے ، پھر میں اور کچھ سوال نہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو معذور رکھے گا اس لئے کہ وہ ان نعمتوں کو دیکھے گا جن پر وہ صبر نہیں کر سکتا۔آخر اللہ تعالیٰ اس کو اس درخت کے پاس کر دے گا۔ جب وہ اس درخت کے پاس جائے گا تو جنت والوں کی آوازیں سنے گا اور کہے گا کہ اے میرے رب! مجھے جنت کے اندر پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے آدم کے بیٹے ! تیرے سوال کو کون سی چیز پورا کرے گی؟ (یعنی تیری خواہش کب موقوف ہو گی اور یہ بار بار سوال کرنا کیسے بند ہو گا) بھلا تو اس پر راضی ہے کہ میں تجھے ساری دنیا کے برابر دے کر اتنا ہی اور دوں؟ وہ کہے گا کہ اے میرے رب! تو سارے جہاں کا مالک ہو کر مجھ سے مذاق کرتا ہے ؟ پھر سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ ہنسنے لگے اور لوگوں سے کہا کہ تم مجھ سے پوچھتے نہیں کہ میں کیوں ہنستا ہوں؟ لوگوں نے پوچھا کہ تم کیوں ہنستے ہو؟ تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ بھی (اس حدیث کو بیان کر کے ) اسی طرح ہنسے تھے۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ کیوں ہنستے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ رب العالمین کے ہنسنے سے ، میں بھی ہنستا ہوں جب وہ بندہ یہ کہے گا کہ تو سارے جہان کا مالک ہو کر مجھ سے مذاق کرتا ہے ؟ تو پروردگار ہنس دے گا (اس کی نادانی اور بیوقوفی پر) اور اللہ فرمائے گا کہ میں تجھ سے مذاق نہیں کرتا (مذاق کرنا میرے لائق نہیں وہ بندوں کے لائق ہے ) بلکہ میں جو چاہتا ہوں کر سکتا ہوں۔

89: ابو الزبیر نے سیدنا جابر بن عبد اللہؓ سے روایت کی ہے کہ سیدنا جابر بن عبد اللہؓ سے قیامت کے دن لوگوں کے آنے کے حال کے بارے میں پوچھا گیا؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم قیامت کے دن اس طرح سے آئیں گے یعنی یہ اوپر سب آدمیوں کے۔ پھر سب امتیں اپنے اپنے بتوں اور معبودوں کے ساتھ پکاری جائیں گی۔ پہلی امت، پھر دوسری امت۔ اس کے بعد ہمارا پروردگار آئے گا اور فرمائے گا کہ تم کس کا انتظار کر رہے ہو؟ (یعنی امتِ محمدیﷺ سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمائے گا) وہ کہیں گے کہ ہم اپنے پروردگار کا انتظار کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں تمہارا مالک ہوں، وہ کہیں گے ہم تجھ کو دیکھیں گے تو تب(معلوم ہو گا) پھر اللہ ان کو ہنستا ہوا دکھائی دے گا اور ان کے ساتھ چلے گا اور سب لوگ اس کے پیچھے ہوں گے اور ہرا یک آدمی کو خواہ وہ منافق ہو یا مومن، ایک نور ملے گا۔ لوگ اس کے ساتھ ہوں گے اور جہنم کے پل پر آنکڑے اور کانٹے ہوں گے ، وہ پکڑ لیں گے جن کو اللہ چاہے گا۔ اس کے بعد منافقوں کا نور بجھ جائے گا اور مومن نجات پائیں گے۔ تو پہلا گروہ مومنوں کا (جو ہو گا) ان کے منہ چودھویں رات کے چاند کے سے ہوں گے (وہ گروہ) ستر ہزار آدمیوں کا ہو گا جن سے حساب و کتاب نہ ہو گا۔ ان کے بعد گروہ خوب چمکتے ستارے کی طرح ہوں گے۔ پھر ان کے بعد کا ان سے کم، یہاں تک کہ شفاعت کا وقت آ جائے گا اور لوگ شفاعت کریں گے اور جہنم سے وہ شخص بھی نکالا جائے گا جس نے لا الٰہ الا اللہ کہا تھا اور اس کے دل میں ایک جو کے برابر بھی نیکی اور بہتری تھی۔ یہ لوگ جنت کے صحن میں ڈال دئیے جائیں گے اور جنتی لوگ ان پر پانی چھڑکیں گے (جس سے ) وہ اس طرح اگیں گے جیسے جھاڑ پانی کے بہاؤ میں اگتا ہے۔ اور ان کی سوز جلن بالکل جاتی رہے گی۔ پھر وہ اللہ سے سوال کریں گے اور ہر ایک کو اتنا ملے گا جیسے ساری دنیا بلکہ اس کے ساتھ دس گنا اور بھی۔

90: یزید بن صہیب فقیر سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میرے دل میں خارجیوں کی ایک بات کھب گئی تھی (اور وہ یہ کہ کبیرہ گناہ کرنے والا ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور جو جہنم میں جائے گا وہ پھر وہاں سے نہ نکلے گا)، تو ہم ایک بڑی جماعت کے ساتھ اس ارادے سے نکلے کہ حج کریں۔ پھر خارجیوں کا مذہب پھیلائیں گے۔ جب ہم مدینے میں پہنچے تو دیکھا کہ سیدنا جابر بن عبد اللہؓ ایک ستون کے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کو رسول اللہﷺ کی حدیثیں سنا رہے ہیں۔ یکایک انہوں نے دوزخیوں کا ذکر کیا تو میں نے کہا کہ اے صحابی رسول اللہﷺ ! تم کیا حدیث بیان کرتے ہو؟ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ "اے ہمارے پالنے والے ! تو جسے جہنم میں ڈالے ، یقیناً تو نے اسے رسوا کیا" ( آلِ عمران: 192) نیز "جب کبھی اس سے باہر نکلنا چاہیں گے تو اسی میں لوٹا دئیے جائیں گے " (السجدہ : 20)۔ اور اب یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟انہوں نے کہا کہ تو نے قرآن پڑھا ہے ؟ میں نے کہا ہاں۔ انہوں نے پھر کہا کہ کیا تو نے رسول اللہﷺ کا مقام سنا ہے (یعنی وہ مقام جو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز عنایت فرمائے گا)؟ میں نے کہا جی ہاں! میں نے سنا ہے۔ انہوں نے کہا یہ ہی محمدﷺ کے لئے ہے ، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جنہیں چاہے گا، جہنم سے نکالے گا۔ پھر انہوں نے پل صراط کا حال اور اس پل پر سے لوگوں کے گزرنے کا حال بیان کیا اور اور مجھے ڈر ہے کہ شاید مجھے یاد نہ رہا ہو مگر انہوں نے یہ کہا کہ کچھ لوگ دوزخ میں جانے کے بعد اس میں سے نکالے جائیں گے اور وہ اس طرح نکلیں گے جیسے آبنوس کی لکڑیاں (سیاہ جل بھن کر)۔ پھر جنت کی ایک نہر میں جائیں گے اور وہاں غسل کریں گے اور کاغذ کی طرح سفید ہو کر نکلیں گے۔ یہ سن کر ہم لوٹے اور ہم نے کہا کہ تمہاری خرابی ہو! کیا یہ بوڑھا رسول اللہﷺ پر جھوٹ باندھتا ہے ؟ (یعنی وہ ہرگز جھوٹ نہیں بولتا، پھر تمہارا مذہب غلط نکلا)۔ اور ہم سب اپنے مذہب سے پھر گئے مگر ایک شخص نہ پھرا۔ یا جیسا ابو نعیم فضل بن دکین (امام مسلم کے استاذ کے استاذ) نے بیان کیا۔

91: سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: دوزخ سے چار آدمی نکالے جائیں گے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے کئے جائیں گے۔ ان میں سے ایک جہنم کی طرف دیکھ کر کہے گا کہ اے میرے مالک! جب تو نے مجھے اس (جہنم) سے نجات دی ہے ، تو اب پھر اس میں مت لے جانا۔ اللہ تعالیٰ اس کو جہنم سے نجات دیدے گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : شفاعت کا بیان۔
92: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہﷺ کے پاس گوشت لایا گیا تو دستی کا گوشت آپﷺ کو دیا گیا، وہ آپﷺ کو بہت پسند تھا۔ آپﷺ نے اس کو دانتوں سے نوچا اور فرمانے لگے کہ میں قیامت کے دن سب آدمیوں کا سردار ہوں گا۔اور کیا تم جانتے ہو کہ کس وجہ سے ؟ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام اگلوں پچھلوں کو ایک ہی میدان میں اکٹھا کرے گا، یہاں تک کہ پکارنے والے کی آواز ان سب کو سنائی دے گی اور دیکھنے والے کی نگاہ ان سب پر پہنچے گی، اور سورج قریب ہو جائے گا، اور لوگوں پر ایسی مصیبت اور سختی ہو گی کہ اس کو وہ سہہ نہ سکیں گے۔ آخر آپس میں ایک دوسرے سے کہیں گے کہ دیکھو کیسی تکلیف ہو رہی ہے ؟ کیا کوئی سفارشی ، شفیع نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کے پاس تمہاری کچھ سفارش کرے ؟ بعض کہیں گے کہ آدمؑ کے پاس چلو، تو سب کے سب آدمؑ کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ آپ تمام آدمیوں کے باپ ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، اپنی طرف سے روح آپ میں پھونکی اور فرشتوں کو حکم کیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا، آپ پروردگار سے ہماری شفاعت کیجئے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ ہم کس حال میں ہیں؟ اور کس قدر تکلیف میں ہیں۔ آدمؑ کہیں گے کہ آج میرا رب اپنے غصہ میں ہے کہ نہ تو اس سے پہلے کبھی ایسا غصہ ہوا تھا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا اور اس نے مجھے اس درخت (کے پھل) سے منع کیا تھا، لیکن میں نے (کھا لیا اور) اب مجھے خود اپنی فکر ہے ، تم کسی اور کے پاس جاؤ، نوحؑ کے پاس جاؤ۔ پھر لوگ نوحؑ کے پاس جائیں گے اور کہیں گے کہ اے نوح!ؑ تم سب پیغمبروں سے پہلے زمین پر آئے ، اللہ نے تمہارا نام عبداً شکوراً (شکر گزار بندہ) رکھا ہے ، تم اپنے رب کے پاس ہماری سفارش کرو، کیا تم نہیں دیکھتے ہم جس حال میں ہیں؟ اور جو مصیبت ہم پر آئی ہے ؟ وہ کہیں گے کہ آج اللہ تعالیٰ اتنا غصے میں ہے کہ نہ تو ایسا پہلے کبھی ہوا اور نہ اس کے بعد ہو گا اور میرے واسطے ایک دعا کا حکم تھا (کہ وہ مقبول ہو گی)، وہ میں اپنی امت کے خلاف مانگ چکا ( وہ مقبول دعا اپنی قوم پر بددعا کی شکل میں کر چکا ہوں جس سے وہ ہلاک ہو گئی تھی)، اس لئے مجھے اپنی فکر ہے ، تم ابراہیمؑ کے پاس جاؤ۔ پھر سب ابراہیمؑ کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ آپ اللہ کے نبی اور ساری زمین والوں میں اس کے دوست ہیں، آپ اپنے پروردگار کے ہاں ہماری سفارش کیجئے ، کیا آپ نہیں دیکھتے جس حال میں ہم ہیں؟ اور جو مصیبت ہم پر پڑی ہے ؟ وہ کہیں گے کہ میرا پروردگار آج بہت غصے میں ہے اتنا غصے میں کہ نہ تو اس سے پہلے کبھی ایسا ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا اور وہ اپنی جھوٹ باتوں کو بیان کریں گے (جو انہوں نے تین بار جھوٹ بولا تھا جو کہ دراصل توریہ تھا) اس لئے مجھے خود اپنی فکر ہے ، تم میرے علاوہ کسی دوسرے کے پاس جاؤ، موسیٰ کے پاس جاؤ۔ وہ لوگ موسیٰؑ کے پاس جائیں گے اور کہیں گے کہ اے موسیٰؑ ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پیام (رسالت) اور کلام سے تمام لوگوں پر فضیلت و بزرگی دی ہے ، آپ اپنے پروردگار سے ہماری سفارش کیجئے ، کیا آپ نہیں دیکھتے ہم جس حال میں ہیں؟ اور جو مصیبت ہم پر پڑی ہے ؟ موسیٰؑ ان سے کہیں گے کہ آج میرا رب ایسے غصے میں ہے کہ اتنا غصے میں نہ اس سے پہلے کبھی ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا، اور میں نے دنیا میں ایک شخص کو قتل کیا تھا، جس کا مجھے حکم نہ تھا، اس لئے مجھے اپنی فکر پڑی ہے ، تم عیسیٰؑ کے پاس جاؤ۔ وہ عیسیٰؑ کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے عیسیٰ! آپ اللہ کے رسول ہیں آپ نے (ماں کی) گود میں لوگوں سے باتیں کیں، اور اس کا وہ کلمہ ہیں جس کو اس نے مریم کی طرف ڈالا تھا اور اس کی طرف سے روح ہیں، آپ اپنے رب سے ہماری سفارش کیجئے کیا آپ نہیں دیکھتے ہم جس حال میں ہیں اور جو مصیبت ہم پر پڑی ہے ؟ عیسیٰؑ ان سے کہیں گے کہ آج میرا رب بہت غصے میں ہے ، اتنا غصے میں کہ نہ اس سے پہلے کبھی ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا (اور ان کا کوئی گناہ بیان نہیں کیا) مجھے تو خود اپنی فکر ہے تم اور کسی کے پاس جاؤ ، محمدﷺ کے پاس جاؤ۔ تو وہ لوگ میرے (محمدﷺ) کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے کہ اے محمدﷺ! آپ اللہ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ بخش دئیے ہیں، آپ اپنے رب سے ہماری سفارش کیجئے ، کیا آپ ہمارا حال نہیں دیکھتے کیا آپ نہیں دیکھتے کہ ہم کس مصیبت میں ہیں؟ پس میں یہ سنتے ہی (میدانِ حشر سے ) چلوں گا اور عرش کے نیچے آ کر اپنے پروردگار کو سجدہ کروں گا، پھر اللہ تعالیٰ میرا دل کھول دے گا اور اپنی وہ وہ تعریفیں اور خوبیاں بتلائے گا، جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں بتلائیں، (میں اس کی خوب تعریف اور حمد کروں گا) پھر (اللہ تعالیٰ) کہے گا کہ اے محمدﷺ ! سر اٹھا اور مانگ، جو مانگے گا، دیا جائے گا، سفارش کر، قبول کی جائے گی۔ میں سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا اے میرے رب میری امت پر رحم فرما، اے میرے رب میری امت پر رحم فرما۔ حکم ہو گا کہ اے محمدﷺ! اپنی امت میں سے جن لوگوں سے کوئی حساب کتاب نہیں ہو گا ان کو جنت کے داہنے دروازے سے داخل کرو اور وہ جنت کے باقی دوسرے دروازوں میں بھی دوسرے لوگوں کے شریک ہیں (یعنی ان دروازوں میں سے بھی جا سکتے ہیں لیکن یہ دروازہ ان کے لئے مخصوص ہے ) (آپ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ) قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے ! کہ جنت کے ایک دروازے کی چوڑائی ایسی ہے ، جیسے مکہ اور حجر(بحرین کے ایک شہر کا نام ہے ) کے درمیان کا فاصلہ یا مکہ اور بصریٰ (ملک شام کا شہر) کے درمیان کا فاصلہ۔ (راوی کو شک ہے )۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نبیﷺ کا فرمان کہ میں سب سے پہلے جنت کے متعلق سفارش کروں گا اور دیگر انبیاء سے میرے متبعین زیادہ ہوں گے۔
93: سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں سب سے پہلے جنت (کے بارے ) میں سفارش کروں گا اور کسی پیغمبر کو اتنے لوگوں نے نہیں مانا (پیروی نہیں کی) جتنے لوگوں نے مجھے مانا (میری پیروی کی) اور کوئی پیغمبر تو ایسا ہے کہ اس کا ماننے والا (ایمان لانے والا) ایک ہی شخص تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نبیﷺ کا جنت کا دروازہ کھلوانا۔
94: سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : میں قیامت کے دن جنت کے دروازے پر آؤں گا اور دروازہ کھلواؤں گا۔ چوکیدار پوچھے گا کہ تم کون ہو؟ میں کہوں گا کہ میں محمدﷺ ہوں۔ وہ کہے گا کہ مجھے آپ ہی کے واسطے حکم ہوا تھا کہ آپ سے پہلے کسی کے لئے دروازہ نہ کھولوں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نبیﷺ کا فرمان کہ ہر نبی کی ایک دعا قبول کی گئی ہے۔
95: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ہر نبی کی ایک دعا ہے جو ضرور قبول ہوتی ہے اور ہر نبی نے جلدی کر کے وہ دعا (دنیا ہی میں) مانگ لی اور میں اپنی دعا کو قیامت کے دن کے لئے ، اپنی امت کی شفاعت کے لئے چھپا کر رکھتا ہوں اور اللہ کے حکم سے (میری) شفاعت ہر اس امتی کے لئے ہو گی جو حال میں فوت ہوا کہ اس نے اللہ کے ساتھ شرک نہیں کیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نبیﷺ کا اپنی امت کے لئے دعا فرمانا۔
96: سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے ابراہیمؑ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تلاوت فرمائی کہ "اے میرے پالنے والے (معبود) انہوں نے بہت سے لوگوں کو راہ سے بھٹکا دیا ہے ، پس میری تابعداری کرنے والا میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے ، تو تو بہت ہی معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے " (ابراہیم: 36) اور عیسیٰؑ کا قول (جو کہ قرآن پاک میں منقول ہے ) کہ "اگر تو ان کو سزا دے ، تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو معاف فرما دے ، تو تو زبردست ہے حکمت والا ہے "۔ پھر نبیﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور کہا کہ اے میرے رب! میری امت ، میری امت۔ اور رونے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے جبرئیل! تم محمدﷺ کے پاس جاؤ اور تیرا رب خوب جانتا ہے لیکن تم جا کر ان سے پوچھو کہ وہ کیوں روتے ہیں؟ جبرئیلؑ آپﷺ کے پاس آئے اور پوچھا کہ آپ کیوں روتے ہیں؟ آپﷺ نے سب حال بیان کیا۔ جبرئیل نے اللہ تعالیٰ سے جا کر عرض کیا، حالانکہ وہ تو خود خوب جانتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے جبرئیل! محمدﷺ کے پاس جا اور کہہ کہ ہم تمہیں تمہاری امت کے بارے میں خوش کر دیں گے اور ناراض نہیں کریں گے۔

97: سیدنا جابرؓ سے روایت ہے کہ طفیل بن عمرو دوسیؓ رسول اللہﷺ کے پاس آئے (مکہ میں ہجرت سے پہلے ) اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ ایک مضبوط قلعہ اور لشکر چاہتے ہیں؟ (اس قلعہ کے لئے کہا جو کہ جاہلیت کے زمانہ میں دوس کا تھا) آپﷺ نے اس وجہ سے قبول نہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انصار کے حصے میں یہ بات لکھ دی تھی کہ (رسول اللہﷺ ان کے پاس ان کی حمایت اور حفاظت میں رہیں گے ) پھر جب رسول اللہﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی، تو سیدنا طفیل بن عمروؓ نے بھی ہجرت کی اور ان کے ساتھ ان کی قوم کے ایک شخص نے بھی ہجرت کی۔ پھر مدینہ کی ہوا ان کو ناموافق ہوئی (اور ان کے پیٹ میں عارضہ پیدا ہوا) تو وہ شخص جو سیدنا طفیلؓ کے ساتھ آیا تھا، بیمار ہو گیا اور تکلیف کے مارے اس نے اپنی انگلیوں کے جوڑ کاٹ ڈالے تو اس کے دونوں ہاتھوں سے خون بہنا شروع ہو گیا۔ دونوں ہاتھوں سے ، یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ پھر سیدنا طفیلؓ نے اسے خواب میں دیکھا اور اُس کی حالت اچھی تھی مگر اپنے دونوں ہاتھوں کو چھپائے ہوئے تھا۔ سیدنا طفیلؓ نے پوچھا کہ تیرے رب نے تیرے ساتھ کیا سلوک کیا؟ اس نے کہا :مجھے اس لئے بخش دیا کہ میں نے اس کے پیغمبر کی طرف ہجرت کی تھی۔ سیدنا طفیلؓ نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ تو اپنے دونوں ہاتھ چھپائے ہوئے ہے ؟ وہ بولا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ ہم اس کو نہیں سنواریں گے جس کو تو نے خود بخود بگاڑا ہے۔ پھر یہ خواب سیدنا طفیلؓ نے رسول اللہﷺ سے بیان کیا، تو آپﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ! اس کے دونوں ہاتھوں کو بھی بخش دے جیسے تو نے اس کے سارے بدن پر کرم کیا ہے (اس کے دونوں ہاتھوں کو بھی درست کر دے )۔
 
Top