• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلم ممالک کے حکمرانوں کو طاغوت کہنا اور علماء کے خلاف بولنا

شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
پاکستان بنگلہ دیش، مصر اور فہرست لمبی ہے.
اہل علم سے جب جیلیں بھری جائیں گی تو عامی ہی اختیارات سنبھال لے گا.

ایک معمولی سے معاملہ میں عدل نہ رکھا جائے تو اتنا فساد برپا ہوتا ہے. اور یہ امت مسلمہ کے معاملات تو چوٹی کے ہیں.

إنتقام، غیرت اور درد امت کے جوش مارتے عامی کی تسلی کیسے کریں گے؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
کیا اس پر تنقید کافی ہے.
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1940464732924840&id=100008839956233&anchor_composer=false


یہاں کمی بیشی ہو رہی ہے. کیونکہ عامی میزان تھامے بیٹھا ہے جب وہ یہ دیکھتا ہے تو20981 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
السلام و علیکم و رحمت الله -

ہمارے ہاں حمکرانوں و علماء کی تکفیر و اور ان کو طاغوت قرار دینے کا موضوع اس وقت سے گردش سخن میں ہے جب سے نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا اس سے پہلے اس قسم کی موضوعات پر گفت و شنید اور بحث و مباحثے عوام میں شاز و نادر تھے -شومئی قسمت کے یہی وہ دور تھا جب سوشل میڈیا کا سورج اپنی آب تاب سے چمکا -اور طاغوت اور کفر کے فیصلے اب میڈیا کے ہاتھ میں آ گئے- مسلم حکمران تو پہلے ہی ان کفریہ طاقتوں کے سامنے سجدہ ریز تھے - ایسی صورت میں ان کو بچانے کے لئے چند ایسے اشخاص کی ضرورت پڑی جن پر "جید علماء" کا لیبل لگا ہو-اور پھر کفر کی طاقت نے اپنے اس ہتھیار کو بڑی کامیابی سے استمال کیا- درباری علما ء تیار کیے گئے جو ان ان نام نہاد مسلمان حکمرانوں کو "تکفیر" کے لیبل سے بچا سکیں- اور جو ان درباری علماء کے خلاف بولے تو اس کو دہشت گرد تنظیم کا ساتھی قرار دیا جائے- جب کہ اگر یہ نوآموز علماء اپنے فتووں میں انصاف سے کام لیتے تو دہشت گردی اور شدت پسندی کی نوبت ہی نہ آتی- آج لوگ عامی و علما ء کی بحث میں الجھے ہیں کہ فاسق فاجر قرار دینے کا حق صرف علماء وقت کو ہے- جب کہ ہر مسلمان چاہے عامی یا عالم ہو -اس پر یہ واجب ہے کہ وہ یہ جانے کہ کون طاغوت ہے اور کون غیر طاغوت ہے ورنہ وہ حقیقی مسلمان نہیں ہے- اور نہ ہی وہ اس قابل ہوگا کہ طاغوت کا انکار کرسکے -اسلام میں طاغوت کا انکار کلمہ طیبہ کا پہلا اور سب سے اہم جزو ہے-

الله سب کو ہدایت دے (آمین)
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
السلام و علیکم و رحمت الله -

ہمارے ہاں حمکرانوں و علماء کی تکفیر و اور ان کو طاغوت قرار دینے کا موضوع اس وقت سے گردش سخن میں ہے جب سے نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا اس سے پہلے اس قسم کی موضوعات پر گفت و شنید اور بحث و مباحثے عوام میں شاز و نادر تھے -شومئی قسمت کے یہی وہ دور تھا جب سوشل میڈیا کا سورج اپنی آب تاب سے چمکا -اور طاغوت اور کفر کے فیصلے اب میڈیا کے ہاتھ میں آ گئے- مسلم حکمران تو پہلے ہی ان کفریہ طاقتوں کے سامنے سجدہ ریز تھے - ایسی صورت میں ان کو بچانے کے لئے چند ایسے اشخاص کی ضرورت پڑی جن پر "جید علماء" کا لیبل لگا ہو-اور پھر کفر کی طاقت نے اپنے اس ہتھیار کو بڑی کامیابی سے استمال کیا- درباری علما ء تیار کیے گئے جو ان ان نام نہاد مسلمان حکمرانوں کو "تکفیر" کے لیبل سے بچا سکیں- اور جو ان درباری علماء کے خلاف بولے تو اس کو دہشت گرد تنظیم کا ساتھی قرار دیا جائے- جب کہ اگر یہ نوآموز علماء اپنے فتووں میں انصاف سے کام لیتے تو دہشت گردی اور شدت پسندی کی نوبت ہی نہ آتی- آج لوگ عامی و علما ء کی بحث میں الجھے ہیں کہ فاسق فاجر قرار دینے کا حق صرف علماء وقت کو ہے- جب کہ ہر مسلمان چاہے عامی یا عالم ہو -اس پر یہ واجب ہے کہ وہ یہ جانے کہ کون طاغوت ہے اور کون غیر طاغوت ہے ورنہ وہ حقیقی مسلمان نہیں ہے- اور نہ ہی وہ اس قابل ہوگا کہ طاغوت کا انکار کرسکے -اسلام میں طاغوت کا انکار کلمہ طیبہ کا پہلا اور سب سے اہم جزو ہے-

الله سب کو ہدایت دے (آمین)

وعليكم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

آپ ایک ایسے معاشرے میں جھاں ابھی توحید کے ایک ستون یعنی ایمان باللہ، کو دیمک تیزی سے کھا رہی، طاغوت یا کفر بالطاغوت سے کیسے متعارف کروائیں گے کہ وہ طاغوت کی پہچان کر سکیں؟
الولاء البراء کا لفظ کبھی نہیں سنا کسی سے.... آپ کو لگتا ہے کہ منبر و محراب اپنا حق ادا کر رہے ہیں؟

مسلم نیٹو ارتداد جیسے کفر اکبر کی مرتکب ہیں. دشمن کے بموں سے بچنے کے لیے انکے تہذیبی تحفے بھوکی عوام پر گرائے جا رھے ہیں، بے حیائی کی لہر گھروں کی دہلیزیں پھاڑ کر اندر داخل ہو رہی،،،،، آپ ایسی عوام کے کندھے پر علماء کرام کی ذمہ داری بھی کیسے ڈال سکتے ہیں؟
جھادی قیادتیں خونِ مسلم کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنے اہداف میں صرف اس لیے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں کہ دشمن عوام الناس میں گھل مل گیا ہے. محافظین کا دعوی کرنے والے اپنی ہی بہن بیٹیوں کو جیلوں سے بھر رہے.... آپ کیسے اس عوام پر مزید ذمہ داری ڈال سکتے ہیں؟

درباری علماء کی پہچان کرنے کی کسوٹی، عامی کو سکھائیں. میں یہاں بار بار اسی لیے تو الجھ رہی ہوں.
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

درباری علماء ؟
ذرا اسے واضح کیجیئے!

وعليكم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ،

درباری علما ء تیار کیے گئے جو ان ان نام نہاد مسلمان حکمرانوں کو "تکفیر" کے لیبل سے بچا سکیں- اور جو ان درباری علماء کے خلاف بولے تو اس کو دہشت گرد تنظیم کا ساتھی قرار دیا جائے-
سب سے خطرناک فتنہ، علماء( سوء) کا فتنہ ہے. لوگ کافر کے بارے میں تو جان لیتے ہیں کہ یہ کافر ہے لیکن علم رکھنے والا ایک منافق بہت ہی خطرناک ہے.
▪ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مجھے اپنی امت میں سب سے زیادہ خوف اس منافق کا ہے جو چرب زبان ہو. "
مسند احمد 143

جو لفظوں کا کھیل جانتا ہے. پس، جب ایک عالم گمراہ ہوتا ہے، تو وہ اپنے ساتھ اکثریت کو گمراہ کرتا ہے.

یہی وجہ ہے کہ جب امام احمد بن حنبل کو انکے ایک ہم عصر نے مشورہ دیا کہ آپ پر یہ جائز ہے کہ آپ بحالت مجبوری حکومتی مطالبہ مان سکتے ہیں. تو امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ "اگر میں انکا یہ خود ساختہ باطل عقیدہ تسلیم کر لوں کہ قرآن مخلوق ہے تو تمام مسلمان گمراہ ہو جائیں گے." تو انہوں نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا.

اسی طرح بنی اسرائیل کے احبار( علماء ) نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی دعوت کو ٹھکرایا. جب ان علماء نے دعوتِ حق قبول کرنے سے انکار کیا تو لوگ بھی حضرت عیسٰی علیہ السلام پر یقین نہیں لائے. ان لوگوں نے بھی یہی کہا کہ ہمارے علماء نے ہمیں فتوی نہیں دیا کہ ہم آپ ( حضرت عیسٰی علیہ السلام ) کی پیروی کریں. حضرت عیسٰی علیہ السلام پر ایمان لانے والے صرف اور صرف نوجوان اور مچھیرے تھے. اور لوگوں کی اکثریت اپنے گمراہ علماء کے پیچھے دھوکے میں رھی.

پس، علماء حق کی صحبت اہم ترین ضرورت ہے. کیونکہ علم کافی نہیں ہے، بلکہ علم رکھنے والے کا تعلق باللہ، حق کا ایک معیار ہے.

ابليس بہت علم والا تھا. اور بھی بنی اسرائیل کے بہت سے اہل علم کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے حق کا انکار کیا.

حضرت موسی علیہ السلام، اپنی قوم کو حضرت ہارون علیہ السلام کی معیت میں چھوڑ کر گئے تھے. لیکن سامری نے لوگوں کو دھوکہ دیا، وہ ایک بہت جادوئی شخصیت رکھنے والا چرب زبان آدمی تھا. اس نے اللہ کے ایک نبی کو پیچھے دھکیل کر انکی قوم کو اپنے زیر کیا، لوگوں نے حضرت ہارون علیہ السلام کو چھوڑ کر سامری کی پیروی کی.

تو حق پر ہونے کی دلیل مقبولیت نہیں ہے.
آج اگر آپ ہارون علیہ السلام اور سامری کو الیکشن میں کھڑا کریں تو سامری جیت جائے گا کیونکہ سامری جانتا تھا کہ لوگوں کو کیسے بے وقوف بنانا ہے.

--- شیخ انور العولقی رحمہ اللہ.
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
علماء سوء ( گمراہ )حکمرانوں کے گرد منڈلاتے رہتے ہیں اور بدترین گمراہ حکمران تو علماء حق سے کوسوں دور ہوتے ہیں.
[إبن عبدالبرّ ،جامع بيان العلم ٧٢٧]
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
اَئِمَّة مُضِلِّیْنَ

▪ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا:
((وَاِنَّ مِمَّا اَتَخَوَّفُ عَلٰی اُمَّتِیْ اَئِمَّة مُضِلِّیْنَ))
’’مجھے سب سے زیادہ خوف اپنی امت کے بارے میں گمراہ کرنے والے قائدین سے ہے‘‘۔
رواہ ابن ماجہ ،کتاب الفتن, عن ثوبان ؓواسنادہ صحیح۔

▪ حضرت ابو ذر غفاری نے فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جارہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اپنی امت کے اوپر دجال کے علاوہ ایک اور چیز سے ڈرتا ہوں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین دفعہ دہرائی ۔میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ !دجال کے علاوہ وہ کون سی چیز ہے جس کے تعلق سے اپنی امت کے بارے میں آپ ڈرتے ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آئمة المضلّین‘‘ گمراہ کرنے والے قائدین۔‘‘
رواہ ابو ذر غفاری ؓ،مسند احمد جلد:۵،صفحہ ۱۴۴۔

▪ میں اپنی امت کے بارے میں جس چیز سے سب سے زیادہ ڈرتا ہوں وہ گمراہ کرنے والے قائدین ہیں ‘‘۔ مسند احمدج:۵ص:۱۴۵۔


▪ ((أَیُّ شَیْئٍ اَخْوَفُ عَلیٰ اُمَّتِکَ مِنَ الدَّجَّالِ؟قَالَ:الَأَ ئِمَّة الْمُضلِّیْنَ))
’’(کسی نے پوچھا )دجال سے بھی زیادہ آپ کواپنی امت پرکس چیز کا ڈر ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "گمراہ کرنے والے اماموں کا‘‘۔

شیخ ابو قتادہ الفلسطینی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد اس بات کو واجب کرتا ہے کہ’’آئمة المضلّین‘‘ کو ظاہر کیا جائے جیسے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے معاملے کو واضح کیا اس کے تمام فتنو ں کے ساتھ، جبکہ دجال دنیا میں واقع ہونے والا سب سے بڑا فتنہ ہے جیسے کہ بعض احادیث میں آیا ہے۔ تو یہ حدیث ظاہر کرتی ہے کہ’’آئمة المضلّین‘‘ اس دجال سے بھی زیادہ بُرے اور امت کے لئے فساد کا باعث ہیں ‘‘۔
سلسلہ مقالات بین منھجین لأبی قتادہ الفلسطینی :۱۰۔

❕ یہاں یہ امر واضح رہے اور عامۃ الناس بھی اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ یہ’’آئمة المضلّین‘‘ ’’گمراہ کرنے والے آئمہ‘‘سے صرف وہ رہنما ،قائدین اور دانشور مراد نہیں جوکہ کھلم کھلا اور واضح طور پر اسلام سے بیزار ہوں اور اسلام کے احکام و قوانین سے اور اس کے نفاذ سے شدید بغض و عناد رکھتے ہوں ،کیونکہ ایسے لوگوں کی اسلام دشمنی عوام الناس پر واضح ہوتی ہے اور ان سے بہت کم ہی لوگ گمراہی کی طرف جاتے ہیں،بلکہ ان سے مراد وہ رہنما ،قائدین ،دانشور ،اسکالر ،محققین اور وارثین انبیاء کے دعوے دار وہ علماء سوء ہیں جو بظاہر تو اپنا ناطہ و رشتہ قرآن وحدیث سے جوڑنے کے دعوے دار ہوتے ہیں ،اس کے ساتھ عقل ودانش ،فصاحت و بلاغت اور خطیبانہ انداز میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے، مگر شریعت اسلامی کے وہ احکام و قوانین جن پر امت کے عروج و زوال بلکہ موت و زندگی کا سوال ہے اور جن کے بارے میں قرآن و حدیث کے نصوص بالکل واضح و مبین ہیں اورجن میں کسی کلام یا رائے کی گنجائش نہیں۔اُن کو بھی :
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
کس قدر بے توفیق ہوئے فقیہانِ حرم

کے مصداق علمائے یہود کی طرح :

یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ
’’وہ کلمات(شریعت)کو اپنے مقامات سے پھیر دیتے ہیں ‘‘۔

اور ان تمام افعال سے ان کا مقصود و مطلوب صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ دنیا کی تمام مادّی و مالی فوائد سے مستفیذ ہو سکیں،اور اپنی جاہ و مسند کو بچانے کی خاطر اُن حکمرانوں کے مسلمان ہونے اور ان کی حکمرانی کے جائز ہونے کے جھوٹے اور گمراہ کن دلائل ڈھونڈیں جو اللہ کی نازل کردہ شریعت کے خلاف اپنا حکم نافذ کر رہے ہوں اور جن کی اسلام و مسلمان دشمنی اور یہود و نصاریٰ سے دوستی کسی سے پوشیدہ نہ ہو ۔اس کے باوجود وہ اسلام اور مسلمانوں کے سب سے بڑے ہمدرد اور غم خوار کے طور پر اپنی عظیم الشان مسندوں اور عہدوں پر قائم رہیں۔ایسے’’آئمة المضلّین‘‘ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے امت کو پہلے ہی خبردار کردیا تھا ۔

▪ امام ابن ماجہ ثقہ راویوں کی وساطت سے حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا :
’’میری امت میں سے کچھ لوگ دین میں تفقہ (سمجھ بوجھ)حاصل کریں گے ، قرآن پڑھیں گے اور کہیں گے ہم امراء(حکام )کے ہاں جاتے ہیں تاکہ ان کی دنیا میں سے بھی کچھ لے لیں اور اپنے دین کو بھی بچا رکھیں ، حالانکہ یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں،جس طرح ببول کے درخت سے کانٹوں کے سوا کچھ نہیں ملتا ، اسی طرح ان امراء کی قربت سے بھی خطاؤں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا‘‘۔

▪ امام ابن عساکر نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
’’میرے بعد میری امت میں ایک ایسا گروہ پیدا ہوگا جو قرآن پڑھے گا اور دین میں تفقہ حاصل کرے گا ۔ شیطان ان کے پاس آئے گا اور ان سے کہے گا کہ کیسا ہو اگر تم لوگ حاکم کے پاس جاؤ؟ وہ تمہاری دنیا کا بھی کچھ بھلا کر دے گا اور تم لوگ اپنے دین کو اس سے بچائے رکھنا !جبکہ ایسا ہو نہیں سکتا، کیونکہ جس طرح ببول کے درخت سے کانٹوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ، اسی طرح ان کی قربت سے خطاؤں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ‘‘۔

▪ امام دیلمی نے حضرت ابودرداء سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
’’ جو شخص ظالم حکمران کے پاس خود اپنی مرضی سے گیا،اس کی خوشامد کرنے کے لیے، اس سے ملاقات کی اور اسے سلام کیا تو وہ اس راہ میں اٹھائے گئے قدموں کے برابر جہنم میں گھستا چلاجائے گا ، یہاں تک کہ وہ وہاں سے اٹھ کر اپنے گھر لوٹ آئے،اور اگر وہ شخص حکمران کی خواہشات کی طرف مائل ہوا یا اس کا دستِ بازو بنا تو جیسی لعنت اللہ کی طرف سے اس (حاکم )پر پڑے گی ویسی ہی لعنت اس پر بھی پڑے گی ،اور جیسا عذاب دوزخ اُسے ملے گا ویسا ہی اِسے بھی ملے گا‘‘۔

▪ امام حاکم نے اپنی کتاب تاریخ میں اور امام دیلمی نے حضرت معاذ بن جبل سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا :
’’جو عالم بھی صاحب اقتدار کے پاس اپنی مرضی سے گیا (اور اس کی ظلم میں معاونت کی) تو وہ اسے جہنم میں دیئے جانے والے ہر قسم کے عذاب میں شریک ہوگا‘‘۔

▪ امام حسن بن سفیان نے اپنی ’’مسند‘‘میں ، امام حاکم نے اپنی کتابِ تاریخ میں ،نیز امام ابو نعیم اور امام دیلمی نے حضرت انس بن مالک سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((العلماء امناء الرسل علی عباداللّٰہ مالم یخالطوالسلطان ،فاذا خالطو السلطان فقد خانو الرسل، فاحذروھم ،واعتزلوھم))

’’علماء اللہ کے بندوں کے درمیان رسولوں کے (ورثے کے)امین ہوتے ہیں ،جب تک وہ حاکم کے ساتھ نہ گھلیں ملیں۔ پس اگر وہ حاکم کے ساتھ گھلے ملے تو بلا شبہ انہوں نے رسولوں سے خیانت کی ۔تو (جو علماء ایسا کریں) تم ان سے خبردار رہنا اور ان سے علیحدہ ہوجانا‘‘۔

✍ لہٰذا امت مسلمہ کو اب جاننے کی اشد ضرورت ہے کہ’’آئمة المضلّین‘‘ کی وہ کیا اوصاف اور نشانیاں ہیں جن کے ذریعے ان کو بے نقاب کیا جاسکے تاکہ عوام الناس ان کی فریب کاریوں اور گمراہ کن نظریات سے واقف ہو کر ان سے برأت کر سکیں ۔
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
علماء کرام کی غیبت سے کیا مراد ہے؟

جیسے،،،،، قاری صہیب میر کے بارے میں،،،، یہ سعودی طاغوت کے غلام ہیں، 14 لاکھ کے سیٹ اپ والے ہوٹل میں تقوی کا درس دے رہے جبکہ امت بھوکی مر رہی،، مداخلہ ہیں،، ،،،،،

بدزبانی کی یہ کون سی قسم کہلائے گی؟ اور اسکے مرتکب کو کیسے سمجھایا جائے گا؟
http://forum.mohaddis.com/threads/غیبت-اور-چغلی-میں-کیا-فرق-ہے؟.32494/#post-253771

درباری علماء ؟
ذرا اسے واضح کیجیئے!
مجھے بھی ان سب کی وضاحت درکار ہے. اگرچہ مندرجہ بالا مضمون مدلل نظر آ رھا.
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مندرجہ بالا مراسلات میں ''درباری علماء'' کی وضاحت تو نہیں، ہاں ''علماء سوء'' کی وضاحت ہے!
بہر حال، اس نکتہ کو سمجھ لیں کہ علماء کا حکمرانوں کے ساتھ تعاون اور ان کی خیر خواہی کوئی معیوب فعل نہیں، بلکہ شریعت کا مطلوب فعل ہے!
امام مالک، امام شافعی و دیگر علماء و فقہاء کا یہ عمل رہا ہے!
بس یہ بعض مفسدین فی الارض کی قبیل کے افراد حکمرانوں کی مخالفت میں ہر اس عالم کو بھی ''درباری علماء'' کہہ کر مطعون کیا کرتے ہیں، جو ان مفسدین کے فساد کے خلاف احکام شریعت بیان کرتے ہیں!
مختصراً کہ کسی بھی عالم کے استدلال و فتاوی کو محض ''درباری علماء'' کہہ کر رد کرنے کا بزعم خویش آسان طریقہ تراشا گیا ہے!
 
Last edited:
Top