• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلم ممالک کے حکمرانوں کو طاغوت کہنا اور علماء کے خلاف بولنا

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
وعليكم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

آپ ایک ایسے معاشرے میں جھاں ابھی توحید کے ایک ستون یعنی ایمان باللہ، کو دیمک تیزی سے کھا رہی، طاغوت یا کفر بالطاغوت سے کیسے متعارف کروائیں گے کہ وہ طاغوت کی پہچان کر سکیں؟
الولاء البراء کا لفظ کبھی نہیں سنا کسی سے.... آپ کو لگتا ہے کہ منبر و محراب اپنا حق ادا کر رہے ہیں؟

مسلم نیٹو ارتداد جیسے کفر اکبر کی مرتکب ہیں. دشمن کے بموں سے بچنے کے لیے انکے تہذیبی تحفے بھوکی عوام پر گرائے جا رھے ہیں، بے حیائی کی لہر گھروں کی دہلیزیں پھاڑ کر اندر داخل ہو رہی،،،،، آپ ایسی عوام کے کندھے پر علماء کرام کی ذمہ داری بھی کیسے ڈال سکتے ہیں؟
جھادی قیادتیں خونِ مسلم کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنے اہداف میں صرف اس لیے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں کہ دشمن عوام الناس میں گھل مل گیا ہے. محافظین کا دعوی کرنے والے اپنی ہی بہن بیٹیوں کو جیلوں سے بھر رہے.... آپ کیسے اس عوام پر مزید ذمہ داری ڈال سکتے ہیں؟

درباری علماء کی پہچان کرنے کی کسوٹی، عامی کو سکھائیں. میں یہاں بار بار اسی لیے تو الجھ رہی ہوں.
نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا فرمان ہے:-

إني قد خلفت فیکم شیئین لن تضلوا بعدھما: کتاب اﷲ وسنتي

'' میں تمھارے لیے اپنے پیچھے دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں۔ (اگر اُن پر عمل پیرا رہے تو )ہر گز گمراہ نہیں ہو گے۔ (وہ دو چیزیں) اللہ کی کتاب اور میری سنت ہیں۔''

مندرج بالا حدیث رسول صرف علماء وقت کے لئے ہی نہیں ہر عامی مسلمان مرد و عورت کے لئے عمل کے لحاظ سے وجوب کی حیثیت رکھتی ہے- یہی وہ کسوٹی ہے جس کی بنیاد پر آپ کھرے اور کھوٹے کو پرکھ سکتے ہیں-
 
Last edited:

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مندرجہ بالا مراسلات میں ''درباری علماء'' کی وضاحت تو نہیں، ہاں ''علماء سوء'' کی وضاحت ہے!
بہر حال، اس نکتہ کو سمجھ لیں کہ علماء کا حکمرانوں کے ساتھ تعاون اور ان کی خیر خواہی کوئی معیوب فعل نہیں، بلکہ شریعت کا مطلوب فعل ہے!
امام مالک، امام شافعی و دیگر علماء و فقہاء کا یہ عمل رہا ہے!
بس یہ بعض مفسدین فی الارض کی قبیل کے افراد حکمرانوں کی مخالفت میں ہر اس عالم کو بھی ''درباری علماء'' کہہ کر مطعون کیا کرتے ہیں، جو ان مفسدین کے فساد کے خلاف احکام شریعت بیان کرتے ہیں!
مختصراً کہ کسی بھی عالم کے استدلال و فتاوی کو محض ''درباری علماء'' کہہ کر رد کرنے کا بزعم خویش آسان طریقہ تراشا گیا ہے!
و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ-

جن علماء حق کی آپ بات کررہے ہیں وہ آٹے میں نمک کے برار ہیں- علماء جو حکمرانوں کے ساتھ تعاون اور ان کی خیر خواہی کے ساتھ خالص اسلامی عقائد و نظریات میں توازن رکھے ہوے ہیں، ہمارے معاشرے میں تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں- مشہور مقولہ ہے کہ چکی کے ساتھ گھن بھی پستا ہے-اس لئے جب حالات و واقعیات اور حکمرانوں پر تنقید ہوتی ہے تو یہ بیچارے علماء حق بھی رگڑے جاتے ہیں-

بدقسمتی سے آج امّت محمّدیہ اس قرانی آیت کے موافق چل رہی ہے- جو کبھی قوم بنی اسرئیل و یہود و نصاریٰ کا خاصہ تھا-

لَوْلَا يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ عَن قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَصْنَعُونَ سوره المائدہ ٦٣
بھلا ان کے مشائخ اور علماء انہیں گناہ کی باتوں اور حرام کھانے سے منع کیوں نہیں کرتے؟ بلاشبہ وہ بہت ہی برا کرتے ہیں

تفسیر: جب خدا کسی قوم کو تباہ کرتا ہے تو اس کے عوام گناہوں اور نافرمانیوں میں غرق ہو جاتے ہیں اور اس کے خواص یعنی درویش اور علماء گونگے شیطان بن جاتے ہیں۔ بنی اسرائیل کا حال یہ ہی ہوا کہ لوگ عمومًا دنیوی لذات و شہوات میں منہمک ہو کر خدا تعالیٰ کی عظمت و جلال اور اس کے قوانین اور احکام کو بھلا بیٹھے۔ اور جو مشائخ اور علماء کہلاتے تھے انہوں نے "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کا فریضہ ترک کر دیا۔ کیونکہ دنیا کی حرص اور اتباع شہوات میں وہ اپنے عوام سے بھی آگے تھے۔ مخلوق کا خوف یا دنیا کا لالچ حق کی آواز بلند کرنے سے مانع ہوتا تھا۔ اسی سکوت اور مداہنت سے پہلی قومیں تباہ ہوئیں۔ اسی لئے امت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ و التسلیم کو قرآن و حدیث کی بےشمار نصوص میں بہت ہی سخت تاکید و تہدید کی گئ ہے کہ کسی وقت اور کسی شخص کے مقابلہ میں اس "فرض امر بالمعروف" کے ادا کرنے سے تغافل نہ برتیں۔

الله سب کو ہدایت دے (آمین)
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
بحث کی طوالت کا خیال کرتے ہوئے میں نے جواب نہیں لکھا. ورنہ علماء کے سوء ہونے کی اولین وجہ ہی انکا درباری ہونا ہے.
حکمرانوں سے تعاون شرعی امور میں کیا جاتا ہے. ورنہ آج کل تو پورا نظام ہی طاغوت ہے، حکمران، خبثاء کی ایسی قبیل سے ہیں کہ الفاظ نہیں بیان کرنے کو.

مفتی ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں، مفتی تو ہارون الرشید کے پاس بھی بہت بیٹھے تھے اتنی تعداد میں مفتی کہہ رہے تھے کہ قرآن مخلوق ہے، لیکن ان کی بات کی کوئی اہمیت نہیں تھی،
ہاں ایک شخص کو کوڑے مارے جا رہے تھے، وہ شخص احمد بن حنبل اس کفریہ عقیدے کا انکاری تھا،
لیکن لوگوں کی نظر اس شخص کے فتویٰ پر ہی تھی،
کیونکہ

"وہ درباری نہیں تھا"
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ-

جن علماء حق کی آپ بات کررہے ہیں وہ آٹے میں نمک کے برار ہیں- علماء جو حکمرانوں کے ساتھ تعاون اور ان کی خیر خواہی کے ساتھ خالص اسلامی عقائد و نظریات میں توازن رکھے ہوے ہیں، ہمارے معاشرے میں تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں- مشہور مقولہ ہے کہ چکی کے ساتھ گھن بھی پستا ہے-اس لئے جب حالات و واقعیات اور حکمرانوں پر تنقید ہوتی ہے تو یہ بیچارے علماء حق بھی رگڑے جاتے ہیں-

بدقسمتی سے آج امّت محمّدیہ اس قرانی آیت کے موافق چل رہی ہے- جو کبھی قوم بنی اسرئیل و یہود و نصاریٰ کا خاصہ تھا-

لَوْلَا يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ عَن قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَصْنَعُونَ سوره المائدہ ٦٣
بھلا ان کے مشائخ اور علماء انہیں گناہ کی باتوں اور حرام کھانے سے منع کیوں نہیں کرتے؟ بلاشبہ وہ بہت ہی برا کرتے ہیں

تفسیر: جب خدا کسی قوم کو تباہ کرتا ہے تو اس کے عوام گناہوں اور نافرمانیوں میں غرق ہو جاتے ہیں اور اس کے خواص یعنی درویش اور علماء گونگے شیطان بن جاتے ہیں۔ بنی اسرائیل کا حال یہ ہی ہوا کہ لوگ عمومًا دنیوی لذات و شہوات میں منہمک ہو کر خدا تعالیٰ کی عظمت و جلال اور اس کے قوانین اور احکام کو بھلا بیٹھے۔ اور جو مشائخ اور علماء کہلاتے تھے انہوں نے "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کا فریضہ ترک کر دیا۔ کیونکہ دنیا کی حرص اور اتباع شہوات میں وہ اپنے عوام سے بھی آگے تھے۔ مخلوق کا خوف یا دنیا کا لالچ حق کی آواز بلند کرنے سے مانع ہوتا تھا۔ اسی سکوت اور مداہنت سے پہلی قومیں تباہ ہوئیں۔ اسی لئے امت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ و التسلیم کو قرآن و حدیث کی بےشمار نصوص میں بہت ہی سخت تاکید و تہدید کی گئ ہے کہ کسی وقت اور کسی شخص کے مقابلہ میں اس "فرض امر بالمعروف" کے ادا کرنے سے تغافل نہ برتیں۔

الله سب کو ہدایت دے (آمین)
بحث کی طوالت کا خیال کرتے ہوئے میں نے جواب نہیں لکھا. ورنہ علماء کے سوء ہونے کی اولین وجہ ہی انکا درباری ہونا ہے.
حکمرانوں سے تعاون شرعی امور میں کیا جاتا ہے. ورنہ آج کل تو پورا نظام ہی طاغوت ہے، حکمران، خبثاء کی ایسی قبیل سے ہیں کہ الفاظ نہیں بیان کرنے کو.

مفتی ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں، مفتی تو ہارون الرشید کے پاس بھی بہت بیٹھے تھے اتنی تعداد میں مفتی کہہ رہے تھے کہ قرآن مخلوق ہے، لیکن ان کی بات کی کوئی اہمیت نہیں تھی،
ہاں ایک شخص کو کوڑے مارے جا رہے تھے، وہ شخص احمد بن حنبل اس کفریہ عقیدے کا انکاری تھا،
لیکن لوگوں کی نظر اس شخص کے فتویٰ پر ہی تھی،
کیونکہ

"وہ درباری نہیں تھا"
ان دونوں مراسلہ میں وہی بات ہے، جس کامیں نے ذکر کیا تھا، کہ مفسدین فی الارض کا ''درباری علماء'' کہہ کر علماء کو مطعون کرنا، حالانکہ علماء کا حکمرانوں یعنی کے دربار سے تعلق ہونا کوئی معیوب فعل نہیں، بلکہ شریعت کا مطلوب فعل ہے!
بس معاملہ یہ ہے کہ مفسدین فی الارض کی قبیل کے لوگوں کو شریعت کے بارے علم نہیں ہوتا، اور ان کے نرے جذباتی نعروں سے متاثر لوگ انہیں حق گو سمجھتے ہیں، جبکہ وہ جسے حق سمجھتے ہیں، وہ حق نہیں درحقیقت فساد ہوتا ہے!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میری بنت تسنیم کے دیگر مراسلوں پر تو نظر نہیں مگر اسی تھریڈمیں ان کے دو اقوال پیش خدمت ہیں!
سوشل میڈیا جیسے فتنے نے ہر عامی کو یہ جرات فراہم کر دی ہے کہ وہ مسلم ممالک کے حکمرانوں کو کھلے عام طاغوت کہنے اور علماء کرام پر بہتان باندھنے میں تاخیر نہیں کرتے.
یہاں تو انہوں نے حکمرانوں کو کھلے عام طاغوت کہنے کو سوشل میڈیا کے فتنہ کا اثر سمجھا ہے!
حکمرانوں سے تعاون شرعی امور میں کیا جاتا ہے. ورنہ آج کل تو پورا نظام ہی طاغوت ہے، حکمران، خبثاء کی ایسی قبیل سے ہیں کہ الفاظ نہیں بیان کرنے کو.
اور یہاں شاید وہ خود بھی اس فتنہ کا شکار ہو گئی ہیں اور انہیں خبر بھی نہیں!
 
Last edited:

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!




ان دونوں مراسلہ میں وہی بات ہے، جس کامیں نے ذکر کیا تھا، کہ مفسدین فی الارض کا ''درباری علماء'' کہہ کر علماء کو مطعون کرنا، حالانکہ علماء کا حکمرانوں یعنی کے دربار سے تعلق ہونا کوئی معیوب فعل نہیں، بلکہ شریعت کا مطلوب فعل ہے!
بس معاملہ یہ ہے کہ مفسدین فی الارض کی قبیل کے لوگوں کو شریعت کے بارے علم نہیں ہوتا، اور ان کے نرے جذباتی نعروں سے متاثر لوگ انہیں حق گو سمجھتے ہیں، جبکہ وہ جسے حق سمجھتے ہیں، وہ حق نہیں درحقیقت فساد ہوتا ہے!
و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ-

میرے خیال میں آپ شاید سمجھ نہیں پاے -مراسلوں میں جہاں بھی "درباری علماء" کا لفظ آیا ہے تو یہ ایک اصطلاح کے طور پر استعمال ہوا ہے -یعنی جیسے ہم کہتے ہیں کہ فلاں آدمی فلاں کا نور نظر ہے-ظاہر ہے نور نظر ہونا کوئی بری بات نہیں - لیکن جب یہ اصطلاح کے طور پر استمال ہوتا ہے تو عموماً اس کے معنی مثبت نہیں منفی ہی لئے جاتے ہی - 'درباری علماء" وہ علماء وقت ہوتے ہیں جو حکمرانوں کے معیت میں اندھے گونگے بہرے بنے ہوے ہوتے ہیں- جو دین اسلام کی حقیقی اساس سے نا واقف ہیں جاہل ہیں - جن کا مقصد صرف حکمرانوں کی چاپلوسی کرنا ہے - انہیں حرام و حلال کی تمیز نہیں - یہ جانتے ہیں کہ ہمارے حکمران کس طرح کفریہ طاقتوں کے سامنے سجدہ ریز ہیں- لیکن یہ پھر بھی بےغیرتوں کی طرح "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" سے گریز کیے ہوے ہیں -اور ان حکمرانوں کے ظلم اور واضح کفریہ حرکتوں کے باوجود ان کی زبانیں بند ہیں - اگر یہ علماء وقت جن کا تعلق دربار سے ہے معاشرے میں توازن قائم رکھیں اور انصاف پر مبنی فتوے صادر کریں تو "مفسدین فی الارض" پیدا ہی نہ ہوں - یا اگر ہوں بھی تو وہ تو اتنی قلیل تعداد میں ہوں کہ ان کی بحیثیت مجموی کوئی حیثیت ہی نہ ہو اور نہ وہ اسلامی اقدار کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچا سکیں-
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مراسلوں میں جہاں بھی "درباری علماء" کا لفظ آیا ہے تو یہ ایک اصطلاح کے طور پر استعمال ہوا ہے
جی یہی اصطلاحی تعریف بحوالہ مطلوب ہے!

اور میں یہی سمجھتا ہوں کہ یہاں ''درباری علماء'' کو اصطلاح سمجھا گیا ہے!

دوم
بےغیرتوں
کم از کم مجھ سے گفتگو کرتے اس طرح کے الفاظ کا استعمال نہ کیجیئے!
وگرنہ میں نے ان ''با غیرت'' کی ''غیرت کا آئینہ'' سامنے رکھا تو ''غیرت کا جنازہ'' نکل جائے گا!
 

سجاد

رکن
شمولیت
جولائی 04، 2014
پیغامات
160
ری ایکشن اسکور
71
پوائنٹ
76
''درباری علماء'' کی وضاحت تو نہیں، ہاں ''علماء سوء'' کی وضاحت ہے
علماء سُوء کی ھی ایک قبیل درباری علماء ھیں،
یا یوں کہہ لیں کہ
علماء سُوء کا اردو ترجمہ درباری علماء کیا جاتا ھے
 
Last edited:

سجاد

رکن
شمولیت
جولائی 04، 2014
پیغامات
160
ری ایکشن اسکور
71
پوائنٹ
76
ہ مفسدین فی الارض
دین فروش اسلام کے ڈاکو درباری علماء بمعنی علماء سوء درحقیقت مفسدین فی الارض ھیں،
مفسدین فی الارض زمین کی بدترین مخلوق ھیں، اور درباری علماء بد انہی مفسدین کی نسل سے ھوتے ھیں،



''درباری علماء'' کہہ کر علماء کو مطعون کرنا
علماء حق تو امت کا سب سے قیمتی سرمایہ ھیں، انہی علماء حق کے ذریعے ھی تو تعلیمات وحی کا سلسلہ جاری و ساری ھے، اور علماء حق کو غلط الزام کہنے والا یقیناً مفسد ھی ھو سکتا ھے

حالانکہ علماء کا حکمرانوں یعنی کے دربار سے تعلق ہونا کوئی معیوب فعل نہیں، بلکہ شریعت کا مطلوب فعل ہ
علماء کا سیاسۃ الشریعہ سے تعلق بہت اچھی بات ھے، امام مالک رحمہ اللہ سے لیکر خیرالقرون کے اکثریت محدثین دربار سے دور ھی رہتے تھے، درباری حکومتی معاملات سے قدم پیچھے ھی رکھتے تھے، تعلق واسطہ رابطہ محدود رکھتے تھے، جتنی ضرورت محسوس کرتے اتنا ھی رابطہ رکھتے،
اور مطلوب بھی یہی ھے کہ شریعت کی پاسداری کی خاطر علماء حق ھر فورم پر گہری نظر رکھیں اور اصلاح و احکامات الہی کی تنفیذ میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں،

علماء حق ھمارے ماتھے کا تاج جبکہ درباری علماء سوء امت کے لیئے سیاہ کلَک
 
Top