• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مصاحف ِعثمانیہ اور مستشرقین کے اعتراضات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٧) بعض لوگوں نے مصحف عثمانی کے بارے میں ابہام پیش کیا ہے کہ حضرت عثمان﷜ نے ایک طرف فرمایا کہ لکھنے والوں میں رسم الخط کے بارے میں کہیں اختلاف ہو تو قریش کے رسم الخط کو ترجیح دی جائے۔( سیوطی،جلال الدین،حوالہ مذکورہ:۱؍۶۲)
اور دوسری طرف یہ کہا گیا کہ انہوں نے اپنے ساتوں حروف کوباقی رکھا تو پھر قریش کے رسم الخط کوباقی رکھنے کا کیا مطلب ہوا؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کیا مصحف عثمانی لغت ِقریش کے مطابق لکھا گیا؟
اس ابہام کا ازالہ اس طرح ہوسکتا ہے کہ ’’حضرت عثمان﷜کے اس جملہ سے حافظ ابن جریر﷫ اور بعض دوسرے علماء نے بھی یہ سمجھا ہے کہ حضرت عثمان﷜ نے چھ حروف ختم کر کے صرف ایک حرف یعنی حرف قریش کوباقی رکھا‘‘ ۔ لیکن در حقیقت اگر حضرت عثمان﷜ کے اس ارشاد پر اچھی طرح سے غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس سے یہ سمجھنا درست نہیں کہ انہوں نے حرف قریش کے علاوہ باقی چھ حروف کو ختم کروا دیا تھا بلکہ مجموعی طور پر تمام روایات کے مطالعے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ارشاد سے حضرت عثمان﷜کا مطلب یہ تھا :
’’اگر قرآن مجید کی کتابت کے دوران ’رسم الخط‘ کے طریقے میں کوئی اختلاف ہو تو قریش کے ’رسم الخط‘ کو اختیار کیا جائے۔ اس مفہوم کو اخذ کر نے کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عثمان﷜ کی ہدایت کے بعد صحابہ کرام﷢نے جب کتابت قرآن مجید کاکام شروع کیاتو پورے قرآن کریم کے دوران ان میں صر ف ایک اختلاف پیش آیا اس اختلاف کا ذکر امام زہری﷫ نے یوں فرمایا ہے ۔ حضرت زید بن ثابت﷜ اور باقی اراکین کمیٹی کے درمیان یہ اختلاف ہوا کہ تابوت کو ’تابوۃ‘ لکھا جائے یا ’تابوت‘ لکھا جائے چنانچہ اسے قریش کے رسم الخط کے مطابق’’ تابوۃ‘‘ لکھا گیا۔( ایضا:۱؍۶۱)
اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت عثمان﷜نے حضرت زید بن ثابت﷜اور قریشی صحابہ کے درمیان جس اختلاف کا ذکر فرمایا اس سے رسم الخط کا اختلاف مراد تھا نہ کہ لغات کا۔ اس سلسلے میں امام طحاوی﷫ سے بھی کافی تفصیلات موجود ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٨) مصحف عثمانی پر ایک اعتراض یہ کیا گیا کہ حضرت عثمان﷜ کے سامنے جب ان کا لکھوایا ہوا نسخہ پیش کیاگیا تو آپ﷜ نے فرمایا:
’’إن في ہذا القرآن لحنا ستقیمہ العرب بألسنتہم۔‘‘ (آلوسی ،محمود سید، علامہ، روح المعانی تفسیر القرآن والسبع المثانی:۱؍۲۸)
اس اعتراض اورحضرت عثمان﷜کے ان الفاظ کے بارے میں علامہ آلوسی﷫ فرماتے ہیں:
’’لم یصحّ عن عثمان أصلا‘‘ یعنی یہ روایت حضرت عثمان﷜ سے بالکل ثابت نہیں ہوئی ہے۔اس سلسلے میں دوسرا جواب یہ ہے:
مصحف عثمانی پر صحابہ کرام﷢ کااجماع تھا ، ’رسم‘ پر بھی اجماع ثابت ہے جبکہ امت کا غلطی پر اجماع (حدیث کی رو سے) نہیں ہو سکتا۔
اس روایت کے آغازمیں بھی مذکور ہے کہ حضرت عثمان﷜نے جمع قرآن کمیٹی کے ارکان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’أحسنتم وأجملتم‘ تم نے اچھا اورعمدہ کا م کیا۔ اس مجموعہ میں اگر غلطی ہوتی تو آپ﷜ غلطی کی کس طرح تحسین فرماتے۔
ابوعبیدۃ﷜ سے عبد الرحمان بن ہانی﷜ نے نقل کیا ہے کہ میں حضرت عثمان﷜کے پاس تھا کہ کاتبان نے حضرت عثمان﷜ کے سامنے مصاحف پیش کیے جن میں ’لم یتسن‘، ’لا تبدیل للخلق‘ اور ’وأمہل الکافرین‘ لکھا ہوا تھا۔ آپ نے قلم دوات منگوا کر تینوں جگہوں پر غلطی کی اصلاح کر دی اس روایت سے اس شبہ کی نفی ہوتی ہے کہ آپ نے احتیاط سے کام نہ لیا ۔ بلکہ آپ نے تو کتاب کی معمولی سی غلطی بھی نہ رہنے دی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٩) بعض مستشرقین کا کہنا ہے کہ ابن مسعود﷜ مصحف عثمانی سے متفق نہ تھے۔
اس سلسلے میں ترمذی شریف میں ایک روایت ہے جس میں امام زہری﷜ سے منقول ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜ کی شکایت تھی کہ کتاب کا کام ان کے سپرد کیوں نہ کیاگیا جبکہ حضرت زید بن ثابت﷜ کے مقابلے میں انہوں نے زیادہ طویل عرصے تک حضورﷺ کی صحبت سے فیض حاصل کیا تھا۔(ترمذی، محمد بن عیسی، جامع الترمذی:۴؍۲۲۹)
اس سلسلے میں حافظ ابن حجر عسقلانی﷫ نے ’’فتح الباری ‘‘ میں بھی اس نقطہ نگاہ کا رد کیا ہے ۔ آپ فرماتے ہیں:
حضرت عثمان﷜ کا موقف یہ تھا کہ انہوں نے یہ کام مدینہ طیبہ میں شروع کیا تھا اور ابن مسعود﷜ اس وقت کوفے میں تھے او رحضرت عثمان﷜ ان کے انتظار میں اس کا م کو مؤخر نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ حضرت ابوبکر صدیق﷜ نے بھی حضرت زید بن ثابت﷜ کو یہ کام سونپا تھا انہوں نے یہی مناسب سمجھا کہ یہ مرحلہ بھی انہی کے ہاتھ سے تکمیل کو پہنچے۔ حافظ ابن حجر﷫ کی اس توجیہ کے علاوہ اس نقطہ نگاہ کی تردید یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ حضرت عثمان﷜ کو اس وقت جو مسئلہ درپیش تھا اس میں صحابہ کے مقام مرتبے کا عمل دخل کم تھا بلکہ اس کے مقابلے میں اس مسئلے کا تعلق تجربے سے زیادہ تھا۔ (ابن حجر، عسقلانی، حوالہ مذکور:؍۱۳،۱۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضور نے جن صحابہ کرام﷢ کو ’علمائے قرآن‘ سے موسوم کیا تھا اور قراء ارشاد فرمایاتھا ان میں عبد اللہ بن مسعود﷜ بھی تھے۔ لیکن عہد عثمانی کا معاملہ اس سے کچھ مختلف تھا۔ کیا زید بن ثابت﷜کے لئے یہ اعزاز کم تھا کہ حضرت ابن مسعود﷜ پر فوقیت رکھنے والے حضرت ابوبکر صدیق﷜ اور حضرت عمر﷜ نے حضرت عثمان﷜ سے پہلے ’جمع القرآن‘ کے نام پر حضرت زید بن ثابت﷜ کو ہی مامور فرمایا۔ اس وقت توحضرت عبد اللہ بن مسعود﷜ مدینہ کے اندر موجود تھے اور ان کی موجودگی کے باوجود حضرت زید بن ثابت﷜ کو منتخب فرمایا۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ حضرت زید بن ثابت﷜ کو مصحف کی تیاری پر پہلی مرتبہ متعین نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس سے پہلے عہد شیخین میں بھی ان کو اس کام کے لئے موزوں ترین قرار دیا گیا تھا۔ حضرت عثمان﷜ نے اپنے متقدمین ہی کی اقتداء میں انہیں تعینات کیا تھا۔ دونوں مواقع پر حضرت زید﷜ کا انتخاب اس سبب سے تھا کہ انہیں عرضۂ اخیرہ تک حضورﷺ کا ساتھ نصیب رہا۔(ایضا:۱۳،۱۵)
اس لیے حضرت زید بن ثابت﷜ او رحضرت عبد اللہ بن مسعود﷜ کے منصب میں موازنہ کرتے ہوئے ہمیں ان مذکورہ بالا حقائق کو ذہن میں رکھنا ہو گا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١٠) ’احراقِ مصحف‘ کے بارے میں ولیم میور کہتا ہے کہ یہ ایک ناانصافی کہی جا سکتی ہے کہ انہوں نے مجمع علیہ نسخہ کے علاوہ تمام مصاحف تلف کروا دیئے ۔ اس کاجواب یہ ہے کہ در اصل اس میں ان کامقصد فقط حفاظت ِکتابِ الٰہی تھا، وہ اس سے کسی ممکنہ تحریف کے مرتکب نہیں ہوئے تھے لہٰذا اس دور میں کسی نے بھی حضر ت عثمان﷜ پر یہ الزام نہیں لگایا کہ انہوں نے قرآن مجید میں تحریف کی ہے۔ اگر بفرضِ محال حضرت عثمان﷜ ایسا ہی کرتے تو یہ راز ضرور آشکار ہو کر رہتا۔ حقیقت میں حضرت عثمان﷜ پر یہ اتہام متاخرین شیعہ نے اپنے اعتراض کے لئے وضع کر لیا ہے۔
[Mior,William,Op.Cit.vii]
اس سلسلے میں مزید تفصیلات کے لئے تفسیر ’روح المعانی‘ کامطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ حضرت عثمان﷜ کے مصحف پر اعتراضات کے جواب کے سلسلے میں ہم ولیم میور کا ایک اقتباس نقل کرتے ہیں۔ جس میں وہ لکھتا ہے :
’’قرآن مجید کی ترتیب خود اس کی شاہد ہے کہ جامعین نے اس میں پوری دقتِ نظرکا لحاظ رکھا اس کی مختلف سورتیں اس سادگی سے ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کر دی گئیں ہیں جن کی ترتیب دیکھ کر کسی تصنیفاتی تکلف کا شائبہ تک نہیں رہتا، جو اس امر کا بین ثبوت ہے کہ جامعین قرآن میں تصنیف کی شوخی سے زیادہ ایمان واخلاص کا جذبہ کار فرما تھا اور اس ایمانی ولولہ میں وہ نہ صرف سورتوں بلکہ آیات کی ترتیب ٭میں بھی تصنع سے اپنا دامن بچائے ہوئے نکل گئے۔
[Ibid,xxi]
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پھر ولیم میورآخری نتائج اخذ کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں:
’’ہم پورے شرح صدر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ عہد عثمانی میں زید بن ثابت﷜نے قرآن کی جس صورت میں نظر ثانی کی وہ نہ صرف حرفاً حرفاً درست ہے بلکہ اس کے جمع کرنے کے موقع پر جو اتفاقات یکجا ہو گئے ان کی رو سے بھی یہ نسخہ اس قدر صحیح ہے کہ نہ تواس میں کوئی آیت اصل وحی الٰہی سے اوجھل ہوئی اور نہ اس قسم کے کسی شائبہ کی گنجائش ہے ، نہ وہی جانبین نے ازخود کسی آیت کو قلم سے اندازکیا ہے۔[Ibid,xxi]
پس! یہی وہ قرآن ہے جسے حضرت محمدﷺنے پوری دیانت سے وامانت کے ساتھ دوسروں کوسنایا۔[Ibid,xxi]
مذکورہ بالا عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مستشرقین درحقیقت ’مصحف عثمانی‘ پر بے جا اعتراضات کر کے مسلمانوں کو بد ظن کرنا چاہتے تھے ۔ لیکن یہ بد گمان کرنا تو دور رہا خود ان کے اقوال ہی باہم اس قدر مختلف ہوگئے کہ جن میں ایک جگہ اگر مصحف کی تنقیص کی گئی تو دوسرے مقام پر خود اسی ہی قلم سے توصیف وتحمید کے الفاظ بھی نکلے ہیں اور وہ مسلمانوں کو بدظن کرتے کرتے خود اپنے جال میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ اس مصحف کو جھٹلانا تو درکنار! خود اس اس ’حفاظت قرآن‘ سے متاثر ہو کر ان کے قدم ڈگمگا گئے ہیں۔ تویہ ہے قرآن کا اعجاز! کہ کوئی حملے کی نیت بھی کرے تو اپنی ہی ہستی کو جھٹلابیٹھتا ہے۔ لیکن افسوس کہ ان مستشرقین کو یہ باتیں بھی دین حق کی جانب راغب نہیں کرتیں۔ اللہ نے کس قدر صحیح فرمایا ہے :
’’ وَمَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰہُ لَــہٗ نُوْرًا فَمَا لَــہٗ مِنْ نُّوْرٍ٭۹ ‘‘(النور:۴۰)
’’جس کیلئے اللہ تعالی ہدایت کا سامان نہ کریں اسے کون ہدایت دے سکتا ہے۔‘‘(بشکریہ ماہنامہ محدث لاہور، ۱۹۹۳، جنور ی)

٭_____٭_____٭
 
Top