• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منهج سلف صالحين اور اس سے انحراف

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
تبلیغی جماعت
یہ لوگ اپنی فکر کی تائید میں شیخ عبدالعزیز بن باز اور محمد العثیمین وغیرہ کے قدیم اقوال نقل کرتے ہیں جن سے خود انہوں نے بعد میں رجوع کرلیا تھا۔ شیخ سلطان العید نے اپنی کتاب میں ان مشائخ کے دیگر اقوال درج کئے ہیں ۔ ان کے علاوہ ان علماء کے اقوال ذکر کئے ہیں جنہوں نے ان تبلیغیوں سے ڈرایا اور خبردار کیا ہے۔ ہم بھی ان شاء اللہ کتاب کے آخر میں ان کے متعلق علماء کے اقوال کو ذکر کریں گے۔
ان کی دعوت ہند میں سلسلہ چشتیہ، نقشبندیہ، سہروردیہ اور قادریہ سے منسلک لوگوں کے ہاتھوں پروان چڑھی ، جن کے رؤساء کسی ایک کی بیعت کو لازمی قرار دیتے ہیں۔اپنے اجتماعات میں تبلیغی نصاب کی کتب پڑھاتے ہیں جو کہ شرکیہ عقائد و امور سے تعبیر ہیں اور اسی طرح انہوں نے حیاۃ الصحابہ کو بھی بطور نصاب مقرر کیا ہوا ہے جس کے جھوٹے قصے میں ان کی خواہشات کے موافق ہیں۔ اور یہ بات قابل غور ہے کہ خطہ عرب کے لیے حیاۃ الصحابہ اور غیر عرب خطوں میں اپنا وضع کردہ تبلیغی نصاب پڑھاتے ہیں ۔ اور ان کی ایک عام پہچان دنیا سے کلیتا بے رغبتی برتنا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ رَبَّنَآ ءَاتِنَا فِى
ٱلدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِى ٱلْءَاخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ ٱلنَّارِ ﴿٢٠١﴾ البقرۃ
ترجمہ: اور بعضے ایسے ہیں کہ دعا کرتے ہیں کہ پروردگار ہم کو دنیا میں بھی نعمت عطا فرما اور آخرت میں بھی نعمت بخشیو اور دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھیو۔
ہر کسی کے کام کاج کو ان لوگوں نے معطل کیا ہوا ہے اورنہ ہی معاشرے میں کسی اخبار، مدرسہ، چینل وغیرہ میں شریک ہوتے ہیں بلکہ ان کی دعوت مسجد میں بیٹھنے اور ذکر کرنے تک محدود ہے۔ علم شرعی کی سمجھ بوجھ رکھنے والے اور علماء سے نفرت کرتے ہیں اورصاحب علم شرعی اور علماء کو ناپسند اور گفتگو میں جہلاء کو ان پر ترجیح دیتے ہیں۔
ان کے نزدیک جو بلند مقام تک پہنچ جائے تو اس کی بیعت کرتے ہیں۔ اس کا کئی لوگوں نے مطالبہ کیا۔ آپ شیخ سعد حصین سے پوچھ لیں جنہوں نے ان کے ساتھ سکونت اختیار کی، ان کا دفاع کیا اور ایک طویل عرصے تک ان کے رفیق سفر بھی رہے۔ پھر انہوں نے تبلیغیوں کو چھوڑ دیا اور ان سے بچنے کی تنبیہ کرتے رہے۔ اسی طرح مدینہ کے شیخ شرقاوی سے پوچھ لیں جو کہتے ہیں کہ ان سے بھی بیعت کا مطالبہ کیا گیا جو غالباً عرب لوگوں سے پوشیدہ رکھتے ہیں۔ لوگوں کا تین دن ، چالیس دن یا چھ ماہ کی دعوت کے خاص طریقہ کو لازم کرنا یہ ایک بدعتی عمل ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ اور بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ یہ لوگ نوجوانوںمیں ایسی تاثیر پیدا کرتے ہیں جس سے وہ راست باز بن جاتے ہیں تویہ ان کے عمل کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں ہے کیونکہ ایسے کتنے ہی رافضی، بوذی اور صوفی وغیرہ ہیں جن میں یہ خوبی پائی جاتی ہے یہاں تک کہ جزاوی طور پر تو راہب اور عیسائی پوپ کی بھی تاثیر ہے۔ جبکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ صحت کی دلیل صرف اس امر میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے طریقہ کی طرف دعوت دیتے ہوئے اُس کی اتباع کی جائے ۔
عقیدہ سلیم کے حامل لوگوں کے علاوہ اگر ان کے ساتھ دس سال بھی رہو تو بھی علم شرعی سے کورے کے کورے ہی رہوگے۔ ان کا خواب، خیالی کرامات، نام نہاد حالات پر ہی اعتماد ہے جو کہ سبیل شرعی کے خلاف ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان میں اہل حدیث کی مساجد کو مسمار کردیا ۔ یہ اہل استعمار کے آلہ کار ہیں اس وجہ سے ان کو چین میں اور یہود و نصاریٰ کے پاس آنے جانے کی کھلی چھٹی ہے۔
ان کو ماننے والے اکثر و بیشتر جاہل ہی ہوتے ہیں جو سلف صالحین کے منہج سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ عالم تو شاذ و نادر ہی کوئی ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ اورصرف توحید ربوبیت کا ہی اہتمام کرتے ہیں جس کے مشرکین بلکہ اکثر لوگ اقراری ہوتے ہیں۔ توحید الوہیت کی دعوت کو انہوں نے ترک کیا ہوا ہے جس کا تمام رسولوں نے اہتمام کیا اور جس کے لئے اللہ کی کتابوں کا نزول ہوا۔ توحید الوہیت کے تذکرے کو تو وہ لوگوں میں اختلاف اور تفریق پیدا کرنے والے اسباب میں سے گرادانتے ہیں ، باوجود اس کے کہ رسول، قران و حدیث حق و باطل میں تفریق کرتے ہیں ۔
اپنی اولاد کو بغیر کسی توجہ اور خیال کے لمبی مدت کے لئے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں جو چار ماہ سے زیادہ ہوتی ہے بلکہ کچھ تو اپنی بیویوں کو طلاق دے دیتے ہیں تاکہ اس نام نہاد دعوت کے لئے مکمل فارغ ہوجائیں اور ہر وقت سفر میں ہی رہتے ہیں ۔ ان میں سے جس نے بھی حق کو دلیل کے ساتھ تلاش کرنا شروع کیا وہ ان سے نکل گیا اور ان کے خوب پول کھولے۔ ان میں شمری، سبیعی، سعد الحصین اور شرقاوی وغیرہ جیسے کئی مشائخ قابل ذکر ہیں۔
جہاد کی ترغیب وتشجیع توتقریباً نصف قرآن نے دی ہے جبکہ ان لوگوں کا خیال ہے کہ ہمارے ساتھ تبلیغ میں نکلنا ہی اصل جہاد ہے۔ یہ بات تو دشمنان اسلام کی تائید کرتی ہے۔ جو آدمی اس کی مخالفت کرے گا تو جماعت تبلیغ سے بڑھ کر بداخلاق کوئی جماعت نہیں ہوگی، اگرچہ بظاہر اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ صحیح دعوت کی ابتداء علم سے ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَ
ٱعْلَمْ أَنَّهُۥ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا ٱللَّهُ وَٱسْتَغْفِرْ لِذَنۢبِكَ ﴿١٩﴾ محمد
ترجمہ: پس جان رکھو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو ۔
چنانچہ قول و عمل سے پہلے علم کے ساتھ ابتداء کی ہے اور یہ لوگ اخلاقیات ، خواب، آراء اور جھوٹے قصوں سے ابتدا کرتے ہیں۔
حکومت سعودیہ ان کو اجازت نہیں دیتی بلکہ اس کو مخفی یا ظاہری خروج سے تعبیر کرتی ہے۔ ان کے ساتھ اکٹھا ہونا، ان کی جماعت بندی میں شریک ہونا ولی الامر کی مخالفت کرنا ہے۔ کیونکہ الحمدللہ ہماری حکومت دو اماموں محمد بن سعود اور محمد بن عبدالوہاب سے لے کر اب تک سلفی عقیدہ سلیم جو کہ اعتدال اور عدل پر مبنی ہے اور ان گمراہ کن لوگوں کے افکار و نظریات پھیلانا اللہ کی راہ سے روکنے سے مترادف ہے۔
جو لوگ علماء کے ایسے اقوال کو پھیلا رہے ہیں جن سے انہوں نے بعد میں رجوع بھی کرلیا تو یہ تو ان علماء حق پر تہمت ہے جس کا حساب اللہ تعالیٰ ان سے لے گا۔ان کے پاس جزوی سچائی کے پائے جانے کا مطلب یہ نہیں کہ ان کا مکمل طریقہ بھی درست ہے۔ چنانچہ شیطان نے بھی آیت الکرسی سکھائی تھی جو کہ حق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَمِنْ أَهْلِ
ٱلْكِتَٰبِ مَنْ إِن تَأْمَنْهُ بِقِنطَارٍ يُؤَدِّهِۦٓ إِلَيْكَ وَمِنْهُم مَّنْ إِن تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍ لَّا يُؤَدِّهِۦٓ إِلَيْكَ إِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَآئِمًا ۗ ﴿٧٥﴾ آل عمران
اور اہلِ کتاب میں سے کوئی تو ایسا ہے کہ اگر تم اس کے پاس (روپوں کا) ڈھیر امانت رکھ دو تو تم کو (فوراً) واپس دے دے اور کوئی اس طرح کا ہے کہ اگر اس کے پاس ایک دینار بھی امانت رکھو تو جب تک اس کے سر پر ہر وقت کھڑے نہ رہو تمہیں دے ہی نہیں ۔
اور آپ ﷺ کا فرمان (شیطان کے متعلق) : " اس نے تجھ سے سچ کہا وہ ہے جھوٹا۔"
اور اس طرح توکئی غیر مسلم ممالک کے پاس مفید حقائق موجود ہوتے ہیں تو یہ ان کے لئے کارگر نہیں ہوتے بلکہ ان کو جھوٹے، ظالم ، منافق اور کافر ہی کہا جائےگا۔ چنانچہ جزوی سچائی کا تبلیغی جماعت کے پاس پایا جانا ہم کو پابند نہیں کرتا کہ ہم ان کی تائید کرتے پھریں۔
یہ فضائل اعمال اور ذکر کا ہی اہتمام کرتے ہیں صحیح عقیدہ کی ان کو مطلقا پرواہ نہیں ہے ۔ ان کی ساری دعوت قصص اور خواب پر مبنی ہوتی ہے۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ تو قصہ گو کو پتھر مارا کرتے تھے۔
آپ کو ایسا کوئی آدمی نہیں ملے گا جو سلفیت کو چھوڑ کر ان کی طرف گیا۔ بلکہ یہاں ایسے کتنے ہیں جو اس جماعت کو چھوڑ کر سلفیت کو اختیار کرچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہےکہ:
قُلْ هَٰذِهِ
ۦ سَبِيلِىٓ أَدْعُوٓا۟ إِلَى ٱللَّهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا۠ وَمَنِ ٱتَّبَعَنِى ﴿١٠٨﴾ یوسف
ترجمہ: کہہ دو میرا رستہ تو یہ ہے میں خدا کی طرف بلاتا ہوں (از روئے یقین وبرہان) سمجھ بوجھ کر میں بھی (لوگوں کو خدا کی طرف بلاتا ہوں) اور میرے پیرو بھی۔
کیا یہ تبلیغی بھی اللہ کی طرف علم و بصیرت کے ساتھ بلاتے ہیں؟
ہمیں ایک معتبر آدمی نے بتایا کہ ان کی بعض مساجد میں قبریں ہیں ۔ اپنے زعم کے مطابق ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں۔ ان سے رہنمائی حاصل ہوتی ہے ، کافی دیر تک ان قبروں کے سامنے خاموش کھڑے رہتے ہیں۔ تو یہ شرک کی اقسام میں سے ہے۔ بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ کچھ تو یہ کام جمعرات کو کرتے ہیں اور اس کا نام "روحانیت کا الہام " رکھتے ہیں کہ اس عقیدے کے ساتھ وہ ان کو نفع دیں گے۔ یہ ہی اصل شرک ہے۔
ان کے باطل منہج کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ کتنے ہی لوگ جو ان کے ساتھ تھے، چھوڑگئے۔ لیکن اس کے برعکس آپ نے کسی ایک کو بھی نہیں دیکھا ہوگا جس نے سلفی منہج یعنی احکام کا استنباط کرنے والے کبار علماء کے منہج کو خیر باد کہا ہو۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
تبلیغیوں کے اوصاف
ان کی واضح علامات میں سے ایک علامت یہ بھی ہے کہ توحید اسماء و صفات کو بیان کرنے سے کتراتے ہیں اور توحید ربوبیت میں صرف کلمہ توحید کو بیان کرنا ہی کافی سمجھتے ہیں۔جبکہ توحید کے منافی امور یعنی شرکیات، بدعات و خرافات میں تساہل اختیار کرتے ہیں اوراپنے اس رویے کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ ان امور کے بیان کرنے سے اتحاد و اتفاق ختم ہوتا ہے۔ المختصر توحید الوہیت کی کوئی ان کے نزدیک کوئی اہمیت ہی نہیں ہے اور نہ ہی قبر پرستی، شرک و بدعات ، فوت شدگان سے مانگنے کے بارے میں فکرمند ہوتے ہیں علم حدیث اور دیگر علوم شریعت کا قطعا کوئی اہتمام نہیں پایا جاتا۔ ان کا مذہب بزرگوں کےخوابوں اور اقوال پر تعمیر ہے ۔اور حیران کن امر تو یہ ہے کہ نہی عن المنکرسے کنارہ کشی کرتے ہوئے صرف امر بالمعروف پر اکتفا کرتے ہیں۔ ان کے خیال کے مطابق نہی عن المنکر کے بیان کرنا ان کی صفوں میں افتراق کا سبب بنتا ہے ۔ شرکیات ، بدعات و خرافات ، ضعیف اور جھوٹی روایات پر مشتمل کتابوں پر اعتماد کرتے ہیں جیسا کہ کتاب تبلیغی نصاب اور حیاۃ الصحابہ وغیرہ ہے۔
اوریہ لوگ تصوف کے سلاسل اربعہ نقشبندی، قادری، سہروردی اور چشتی کے قائل ہیں اور اس پر مستزاد ان کا یہ زعم باطل کہ تصوف اور بدعت معاصی اور نافرمانی کی نسبت کم خطرناک ہیں اور یہ کہ دنیاوی اغراض کے ساتھ تعلق شرک ہے اور اولیاء کے ساتھ تعلق شرک نہیں ہے اور اپنے بیانات میں خوابوں کا ذکراور ان کی لذت و مخفی چیزوں کو کثرت سے بیان کرتے ہیں گویا کہ یہی دین ہے ۔ جبکہ دیوبندیت کے لئے تعصب کرنا اور کتاب و سنت کے دلائل اور اقوال سلف کی طرف سے صرف نظر کرنا یہ ان کا منھج ہے ۔علماء اس دعوت کے ساتھ ان کے مابین تقیہ کے بغیر رہ نہیں سکتے کیونکہ یہ جاہل اور دینی بصیرت سے کوسوں دور ہیں۔ موضوع احادیث، من گھڑت قصے، خواب، ان کی لذت، کبار صوفیہ کے اقوال نقل کرتے رہتے ہیں۔ اورنہ تو ان قبورکا انکارکرتے ہیں جو ان کی بعض مساجد میں پائی جاتی ہیں۔ تعویذ گنڈہ اور ان طلاسم کا اہتمام کرتے ہیں جن پر ان کے مخبوط الحواس مشائخ کی جانب سے ارقام درج ہوتے ہیں اور عوام بے علم لوگ اور جو عقیدہ صحیح میں تساہل برتنے والے لوگوں میں جتنے بھی ان کے ماننے والے ہیں ، ان پر صرف عام لوگوں کو ہی امیر بناتے ہیں کیونکہ وہی ان کے صاحب دروس اور بیانات ہوئے ہیں۔اور کہتے ہیں صوفیہ کے بعض مشائخ تو اس عالی منزلت پر فائز تھے کہ بیت اللہ بھی ان کی زیارت کے متوجہ ہوتا ہے ۔ یہ لوگوں کو دلیل کے بجائے تقلید کی دعوت دیتے ہیں اورانہوں نے تو نبیﷺ پر درود کا بھی نیا انداز ایجاد کر لیا ہے کہتے ہیں :

اے بارِ الٰہ! رحمتیں نازل فرما ہمارے مولا وسید‘‘محمد’’ رسول اللہ پر جوکہ :
تیری تجلیاتِ نور کا بحرِ بے کراں ہے ، تیرے اسرار ورموز کا تصدیق کنندہ ہے، تیرے ادلہ وبراہین کا ترجمان ہے ، جو تیری ساری خدائی کا دولہا ہے ، تیرے حضور امام ومقتدیٰ ہے ، جو اندازِ جہاں بانی ہے، جو تیرے رحمت کی موج رواں ہے ، جو تیری مہربانیوں تک پہنچنے کا راستہ ہے ، جو تیری وحدانیت سے لطف اندوز رہتا ہے ، حقیقت موجودات کا انسان کامل ہے ، وجودِ کائنات کا سرِّ بگانہ ہے ، خلق کے سرداروں کا سردار ہے ، تیرے نور کی ضیاپاشیوں سے بھی آگے ہے ،اے رسولِ خدا! میں تیری شفاعت کا سائل ہوں ۔
تبلیغی نصاب ‘‘فضائل حج’’ صفحہ نمبر ۱۷ پر ہے :
‘‘جب مدینہ پاک میں محبوب کی منزل کے آثار نظر آنے لگے،تو انہوں نے محبت کو بھڑکا دیا اور جب وہاں کی مٹی کو آنکھوں کا سرمہ بنایا تو ساری بیماریوں سے شفا ہوگئی کہ اب نہ کسی قسم کا مرض ہے نہ تکلیف ’’
مادی قوت کی طلب کو شرک تصور کرتے ہیں ایسا شرک جو بت پرستی کے
مساوی ہے۔ اور جہاں تک جہاد فی سبیل اللہ کی بات ہے تو وہ اس نام نہاد دعوت میں نکلنے مسجدوں میں راتیں بسر کرنے اور چار ماہ اپنے اہل و عیال کو چھوڑنے کو ہی کہتے ہیں۔ اور ان میں کچھ تو قبروں کے نزدیک خصوصاً بروزجمعرات کو " نفس کی رہنمائی" کے لیےمراقبہ کرتے ہیں اور اسے الہام روحانی کہتے ہیں۔
شہادت لاالہ الااللہ کے معنی کو مقصد، فضیلت اور طریق حصول کے ساتھ مقید اور محصور کرتے ہیں۔ چنانچہ قصد سے مراد یہ یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ ہی خالق، رازق ، مدبر، زندہ کرنے والا، مارنے والا ہے اور فضیلت یہ ہے کہ جس آدمی کا مرتے وقت آخری کلمہ لا الہ الا اللہ ہوگا وہ جنت میں جائے گا اور اس کا طریقہ حصول یہ کہ لفظ جلالہ یعنی " اللہ، اللہ، اللہ" یا " ھو، ھو، ھو" کو سو مرتبہ دہرانا ہے۔ کچھ تو ہر جمعرات کی شام کو سورۃ یٰس پڑھنے کا حکم دیتے ہیں اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد آپﷺ سے شفاعت طلب کرتے ہیں اور ان سے استغاثہ کرتے ہیں۔ احمد رفاعی کی خرافات اور مکذوبات کی تصدیق کرتے ہیں ۔ جس کا خیال یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ اس کو پکڑایا تاکہ وہ دست بوسی کرے۔ یہ بدعتی لوگوں کو علماء موحدین پر فوقیت دیتے ہیں اور جو آدمی شرک و بدعت اور اس صوفیت کے خلاف کھڑا ہو تو یہ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ اپنے پیرومرشد کی وفات کے وقت قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ علم اور علماء سے محتاط رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ علماء کے علم کو علم المسائل ( مسائل کا علم) اور صوفیہ کے علم کو علم الحقائق ( حقائق کا علم) کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ اور یہ زعم باطل رکھتے ہیں کہ سلفی حضرات لوگوں میں تفرقہ ڈالتے ہیں۔
اور اللہ تعالیٰ کی کئی صفات کا انکار کرتے ہیں اور کچھ تو اپنے علماء کے معصوم ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں۔ اور رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس اور اہل بیت کے بارے میں حد سے زیادہ غلو کرتے ہیں۔ خرافات ، شرکیات اور بدعات کے بدولت اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں (دعویٰ کرتے ہیں)۔ بغیر کسی دلیل و برہان کے لوگوں کو دنیا سے بے رغبتی ، سختی، پستی و عاجزی، فقیری اور حقیرانہ زندگی گزارنے کی محبت پیدا کرتے ہیں۔
یہ چند صفات اخوان المسلمین اور تبلیغیوں کی تھیں۔ سروری بھی اخوان المسلمین کی طرح ہی ہیں ۔ بغض نظر کہ ان کا یہ خیال کہ وہ صحیح عقیدہ کے حریص ہیں۔ حقیقت میں وہ ایسے امور سرانجام دیتے ہیں جو کہ عقیدہ توحید اور صحیح سلفی مناہج کے منافی ہیں۔ جیسا کہ حکام کے خلاف بغاوت، ان کی عدم اطاعت، نوجوانوں میں اشتعال، مظاہرات، سلفیوں سے بغض ، اہل توحید کے علاوہ دوستی و دشمنی اور فتنہ پردازی وغیرہ کرنا ہے۔
برادر عزیز! اب آپ کے سامنے منحرفہ جماعۃ التبلیغ کے منہج کے متعلق سلفی علماء اور ائمہ دعوۃ کے فتاویٰ اور اقوال کو درج کرتے ہیں، یہاں تک کہ آپ بھی دلیل و برہان پر ہوں ۔
شیخ محمد بن ابراہیم فرماتے ہیں:
"ان کی کتب اور تبلیغی مواد اور خطابات کو پرھنے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آجا تی ہے کہ یہ جماعت بدعات ، گمراہی پر مشتمل تعلیمات کی طرف دعوت دیتی ہے جس میں شرک و بدعات پر سکوت اختیار کرنا کسی بھی سچے داعی کے لیے ممکن نہیں ہے ۔ اس لیے ہم ان شاء اللہ ان کا رد کریں گے جس سے ان کی گمراہی کا پردہ چاک ہو جائے گا۔ "

شیخ عبدالعزیز بن باز ؒ فرماتے ہیں:
" بلاشبہ تبلیغی جماعت کو عقیدہ کے مسائل میں کوئی بصیرت نہیں ، ان کے ساتھ نکلنا جائز نہیں ہے ہاں مگر جس آدمی کے پاس اہل سنت و جماعت کا صحیح عقیدہ ہو تاکہ ان کو نصیحت اور رہنمائی کرتا رہے۔ اس شرط کے ساتھ کہ وہ لوگ اس کی بات اور رجحان سے موافقت رکھیں۔"

شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
" الحمدللہ ہمارے پیارے وطن میں اس چیز کی ضرورت تو نہیں کہ مختلف مناہج کو یہاں وہاں سے اکٹھا کیا جائے۔ بلکہ اس ملک کے باشندوں پر تو یہ لازم ہے وہ جس سچی دعوت پر ہیں اس کو مضبوطی سے تھامے رکھیں۔ اور کوئی بھی جماعت اس کی مخالف ہو اس کو دور پھینکیں، چاہے وہ جماعت تبلیغ ہو یا اس کے علاوہ کوئی مشتبہ قسم کی دعوت ہو۔ ان کے متعلق بہت کچھ کہا جا چکا ہے اور ان کے کئی اختلافات اور بدعات بھی ہیں جس کی وضاحت ان لوگوں نے کی ہے جنہوں نے ان کے ساتھ سکونت اختیار کی، ان کی محبت میں رہے اور جو کچھ ان کے پاس ہے، کی معرفت حاصل کی۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ان کی دعوت اللہ اور رسولﷺ کی دعوت کے منہج کے سراسر خلاف ہے۔ یہ ایک صوفیانہ بدعتی دعوت ہے ، اگر معاملہ بالکل ایسا ہی ہے تو ان سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ خصوصاً اس ملک سعودیہ میں جس پر اللہ تعالیٰ نے سلفی دعوت کے ساتھ احسان فرمایا، ایسی دعوت جو اپنے منہج اور مقاصد میں مستقیم ہے۔"
شیخ محترم ایک مرتبہ پھر اس نووارد جماعت کی تبلیغ کے دعوتی منہج اور اس کی خرابی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
" یہ جماعت شرک کے علاوہ نافرمانی کے کام چھوڑنے اور نیکی کے کام کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ اور توحید کی طرف دعوت دینے اور شرک کا انکار کرنے کو ترک کرتے ہیں۔ یہ بعض فرعی اعمال کی مشق کرنے، نفلی عبادات اور اذکار تک ہی محدود ہیں ۔ یا یہ دعوت میں بدعتی طریقوں کو اپناتے ہیں جیسا کہ خروج کرنا، محدود مدت کے لئے سفر کرنا، علم نافع سیکھنے میں بے رغبتی اختیار کرنا ، وہ علم جس سے صحیح عقیدہ، شرعی عبادات، جائز امور کی پہچان حاصل ہوتی ہے۔ اور اس سے جو اس عقیدہ کے منافی اور متضاد چیزیں ہیں ان کی معرفت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس یہ مواعظ، اذکار، ورد اور فضائل اعمال کا ہی مطالعہ کرتے ہیں۔"
شیخ محترم نے اپنی اس نصیحت کو اس جماعت کے ساتھ منسلک ہونے کے حکم کے ساتھ ختم کرتے ہوئے فرمایا " یہ ناقص دعوت ہے جو کسی قسم کا فائدہ نہیں دیتی۔ کسی مسلمان کے لئے ان سے منسلک ہونا یا ان کا ہم رکاب ہونا جائز نہیں کیونکہ یہ دینی بصیرت اور عقیدے کی معرفت کے اعتبار سے بے سود ہے۔"

شیخ محمد بن عثیمینؒ فرماتے ہیں :
" یقیناً دین وہی ہے جو محمدﷺ لیکر آئے ہیں جس کی بنیادی تعلیمات حدیث عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ میں بیان کر دی گئی ہیں ۔ یعنی جب آپ ﷺ کے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور اسلام ، ایمان اور احسان کے متعلق سوالات کئے۔ ان بھائیوں سے میری نصیحت ہے کہ جنہوں نے یہ پانچ اصول وضع کئے ہیں اور ان پر کاربند ہیں کہ اس فکر و سوچ سے دور رہیں اور حدیث کی طرف متوجہ ہوں جس میں خود نبی ﷺ نے وضاحت کردی ہے کہ یہ دین ہے۔"
شیخ محمد ناصر الدین البانیؒ فرماتے ہیں:
"یہ کہتے ہیں کہ ان کی دعوت کتاب و سنت پر مبنی ہے ۔ لیکن یہ صرف ان کی خام خیالی ہے ، ان کا کوئی ایک عقیدہ ہی نہیں جس پر جمع ہوسکیں۔ چنانچہ یہ ماتریدی ہے ، یہ اشعری ہے، یہ صوفی ہے اور اس کا تو کوئی دین مذہب ہی نہیں۔ کیونکہ ان کی دعوت کا قیام ہی اس اصول پر ہے کہ جمع کرنا، اکٹھا کرنا، پھر مہذب بنانا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی کوئی ثقافت نہیں، نصف صدی سے زیادہ زمانہ گزرنے کے باوجود کوئی ماہر عالم پیدا نہیں ہو سکا۔"
اس کے بعد شیخ رحمۃ اللہ نے ان کے عقائد کی گمراہی ، صوفیانہ بدعات اور مومنین کے ساتھ مکر کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
" تبلیغی جماعت کی دعوت جدید صوفیانہ دعوت ہے۔ اخلاقیات کی دعوت دیتے ہیں لیکن معاشرے کی اصلاح عقیدہ کے بارے میں خاموش دیوار ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے تفرقہ پیدا ہوتا ہے۔"
اس کے بعد شیخ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:
" تبلیغی جماعت کا کوئی علمی منہج نہیں ہے۔ بلکہ ان کا منہج اس جگہ کے مطابق ہوتا ہے جہاں وہ ہوتے ہیں، وہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے رہتے ہیں۔"
شیخ عبدالرزاق عفیفی ؒ فرماتے ہیں:
" میں تبلیغی جماعت کو قدیم زمانے سے جانتا ہوں۔ مصر، اسرائیل ، امریکا اور سعودیہ کسی جگہ بھی ہوں یہ بدعتی ہیں۔ یہ سارے اپنے پیرو مرشد الیاس کے ساتھ مرتبط ہیں۔" ( فتاویٰ الشیخ 1/174)
چنانچہ شیخ عبدالعزیز راجحی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
" تبلیغی جماعت کے متعلق تو معروف ہے کہ وہ صوفی ہیں۔ ان کے ساتھ نکلنے کی میں نصیحت نہیں کرتا کیونکہ یہ لوگ توحید کی دعوت نہیں دیتے اور نہ ہی یہ معروف (اچھائی) کا حکم دیتے ہیں اور نہ ہی یہ منکر (برائی) سے روکتے ہیں۔ سب نکلنے کی ہی بات کرتے ہیں کہ ۔۔۔ نکلو ، نکلو۔" اس کے بعد شیخ حفظہ اللہ فرماتے ہیں " تبلیغی جماعت جب توحید کا حکم دے تو ممکن نہیں کہ وہ تجھے چھوڑ دیں، وہ کہیں گے کہ توحید کی دعوت مت دے، اور نہ ہی منکر سے روک بلکہ فلاں فلاں کی طرف دعوت دے اور کسی کے بارے میں گفتگو نہ کر۔ چنانچہ سلفی تو طلبہ کو علم ، فقہ اور دینی بصیرت حاصل کرنے اس کے بعد سمجھ بوجھ کے ساتھ دعوت الی اللہ کرنے کی نصیحت کرتے ہیں۔"
الحمدللہ اس نووارد جماعت کی تحذیر کے حوالے سے ہمارے پاس مضبوط علمی آثار موجود ہیں ۔ اس وجہ سے فتویٰ کمیٹی اللجنہ الدائمہ للافتاء سعودی عرب نے تبلیغی جماعت کے بارے میں ایک فتویٰ صادر فرمایا کہ:
" بلاشبہ تبلیغی جماعت ........ نے مسالمت اور سلبیت سے خود کو روک رکھا ہے ان کی دعوت میں اجمال ہے یہاں تک کہ انہوں نے عقیدہ توحید کی تفصیلی گفتگو کرنے کو ترک کردیا ہے جو کہ اصل اسلام ہے۔ جس سے انبیاء و رسل علیہم الصلاۃ السلام نے اپنی دعوت کی ابتداء کی تھی۔ دعوتی میدان میں تفصیل شرعی یعنی اصول و فروع کو بیان کرنے میں تبلیغی جماعت انبیاء رسل کے مؤقف پر کھڑی نہیں ہے۔ ان کے پاس تو صرف یہ ہی ہے کہ بس نکلو اور مجمل قسم کی دعوت ہے۔ جو آدمی ان کے ساتھ نکلے گا وہ شعور اسلامی تک نہیں پہنچ پائے گا اور نہ ہی وہ تفصیلات دین کی معرفت حاصل کرے گا۔ علماء امت کے ڈرانے اور تنبیہ کرنے کے بعد اس دعوتی جماعت کے اصحاب ان ملکوں سے جماعت سازی کرکے کیا چاہتے ہیں۔ جن جماعتوں نے اس امت کو فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھا دیا، اس کی جمعیت کو توڑ ڈالا ان فارغ قسم کے دعووں اور آراستہ و پیراستہ قسم کی سرگرمیوں سے جو کئی قسم کے پوشیدہ لباس زیب تن ہیں ۔ تنظیمی دھڑے بندیاں، تبلیغی رحلات و سفر میں مخفی بیعت لینا وغیرہ ہے۔
الحمدللہ یہ وطن عزیز صحیح سلفی منہج پر قائم ہے تو اس ملک اور خاص طور پر نوجوانوں پر زور کیوں دیتے ہیں؟ کیایہ ہمیں کافی نہیں ہے کہ ہم آج کوئی گروہوں ، فرقوں اور جماعتوں میں بٹے ہوئے ہیں اور اس پر مستزاد کہ ان لوگوں نے ہمارے نوجوانوں کو بگاڑنے اور خطرات کے سامنے لا کھڑا کیا بجائے اس کے کہ وہ ایک ہی جماعت اور ایک ہی راہ کے راہی بنتے ان لوگوں نے ان نوجوانوں کو مزید کئی جماعتوں میں تقسیم کر دیا جس سے فرقہ واریت کو مزدی تقویت ملی اور ان نوجوانوں کو علماء اور اولی الامر سے پھیر کر ان سے دور کر دیا ۔ ان کے دلوں اور شعور کو ان گمراہ کن جماعتوں کے لئے نرم کردیا۔ جو کہ پیچیدہ وسائل اور طرق پر قائم ہیں جن کے ظاہر میں زھد ، وعظ اور نصیحت ہے اور باطن میں تفرقہ بازی، بیعت کا لینا، چلہ کشی اور کئی دن اور مہینے کے خروج کے بعد اپنے بیانات کو جاری رکھنا وغیرہ ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس جماعت کے پاس کئی بدعت اور خرافات ہیں جو ان سے دور رہنے کے لئے کافی ہیں۔
قارئین کرام! ان میں کچھ کا ذکر درج ذیل سطور میں ملاحظہ فرمائیں۔
1۔ لاالہ الا اللہ کی تفسیر یوں کرتے ہیں کہ فاسد یقین کو نکال کر صحیح یقین کو داخل کرنا۔
شیخ عثیمین ؒ فرماتے ہیں:
" یہ تفسیر درست نہیں ہے کیونکہ اس سے صرف توحید کی ایک قسم الربوبیت کا اثبات ہوتا ہے ۔ یہ بات معلوم ہے توحید ربوبیت سے انسان اسلام میں داخل نہیں ہوتا۔"
پھر مزید فرمایا کہ:
" ہر آدمی پر واجب ہے کہ لاالہ الا اللہ کی غلط تفسیر کرنے سے وہ اللہ کے حضور توبہ تائب ہو۔"
2۔ شیخ حمد التویجری ؒ اپنی معروف کتاب " القول البلیغ فی التحذیر من جماعت التبلیغ" کے صفحہ 10 پر ان کے ایک امیر کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
اس کا کہنا ہے: " اگر میرے بس کی بات ہوتی تو ابن تیمیہ، ابن قیم اور محمد بن عبدالوہاب کی کتب کو جلا ڈالتا، اور ان میں کچھ نہ چھوڑتا۔"
اسی طرح صفحہ 335 پر حسین احمد جو تبلیغیوں کے شیخ ہیں اور " الشہاب الثاقب" نامی کتاب کے مؤلف ہیں کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
" وہ محمد بن عبدالوہاب کو برا بھلا کہتے تھے۔"
اسی طرح صفحہ 336 پر انور شاہ کشمیری جو تبلیغیوں کے کبار مشائخ میں سے ہیں ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
وہ بھی محمد بن عبدالوہاب پر طعن و تشنیع کرتا تھا۔"
3۔ یہ ایسی جماعت ہے جو صوفیت کے ان طریقوں چشتیہ، قادریہ ، سہروردیہ اور نقشبندیہ پر قائم ہے۔
شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ اس جماعت کے متعلق ایک جواب میں فرماتے ہیں:
" یہ ایسی جماعت ہے جس میں خیر نام کی کوئی چیز نہیں ہے، کیونکہ وہ بدعت و گمراہی کی جماعت ہے۔ ان کے خط سے منسلک کتابچوں کا مطالعہ کیا جو بدعت و گمراہی ، قبر پرستی اور شرکیہ دعوت پر مشتمل ہیں۔ یہ ایسا معاملہ ہے جس پر سکوت اختیار نہیں کیا جاسکتا۔"
4۔ نوجوانوں کی تربیت اس بات پر کرنا کہ وہ حکماء کی اطاعت سے پہلو تہی کرکے اس جماعت کے امراء کی عقد بیعت میں شامل ہو جائیں اور حکام کی اس بیعت کو ترک کرنے کو بیان کریں کہ اس میں کوئی حرج نہیں ۔شریعت اسلامیہ سے یہ معلوم شدہ ہے اور اس پر اہل سنت و جماعت متفق ہے کہ بیعت تو صرف مسلمانوں کے امیر کے لئے ہی ہوتی ہے جس کی اہل حل و عقد نے بیعت کی ہے تو اسی کی شرعی بیعت کرنی ہے۔
حکام کے خلاف خروج اور ان کی عدم اطاعت کے اعتبار سے تبلیغی جماعت اپنے ماننے والوں کی ایک خاص طریقے سے تربیت کرتے ہیں۔ ان کو امراء اور منتظمین کے حوالے کردیتے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنے ماننے والوں کو کئی گروپ میں تقسیم کردیتے ہیں اور ہر گروپ کا ایک امیر ہوتا ہے جس کی وہ بیعت کرتے ہیں۔ جب دھیرے دھیرے معاملہ آگے بڑھتا ہے تو پھر اپنے پیروکاروں کی یہ تربیت کرتے ہیں کہ لوگ بگاڑ، معصیت، شہوات، دنیاوی محبت اور اس کی لذت میں غوطہ زن ہیں۔
ان کے متعلق " جماعۃ التبلیغ فی شبہ القارۃ الہندیۃ" کے مصنف فرماتے ہیں کہ:
یہ لوگ بت پرستی کی پانچ اقسام بیان کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے " دنیاوی معاملات میں مشغول رہنا، اور رزق کی تلاش میں سرگرداں رہنا" بھی ہے۔اس کے باطل ہونے میں کوئی شک نہیں کہ یہ روزگار کی تلاش کو اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ پھر ان کے کئی ماننے والے کام کاج، روزگار کی تلاش اور تجارت کے شغل کو ترک کردیتے ہیں۔ چنانچہ اس کے بعد ان نوجوانوں میں نا اُمیدی کی لہر پیدا ہوتی ہے اور اپنے ارد گرد کے معاشرے کو حقیر نظروں سے دیکھتے ہیں۔
5۔ ہفتی وار اعتکاف بروز جمعرات کرنا ،
شیخ عثیمینؒ فرماتے ہیں:
ہر جمعرات اور جمعہ کی شب اعتکاف کرنا بدعتی عمل ہے ۔ نبی اکرمﷺ سے قطعاً ثابت نہیں کہ خاص وہ جمعرات کو اعتکاف میں بیٹھتے تھے۔ (کشف الستار)
6۔ " خروج فی سبیل اللہ" کے معنی کی تحریف کرنا۔
شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
" اللہ کی راہ میں نکلنے سے مراد وہ نکلنا نہیں جس کے معنی یہ لوگ کرتے ہیں۔ بلکہ اس سے مراد جہاد و قتال کے لئے نکلتا ہے۔ آج کل جو ان تبلیغیوں نے خروج کا نام رکھا ہے وہ تو بدعت ہے جو سلف سے منقول ہی نہیں ۔" (کشف الستار)
7۔ علم کا نہ سیکھنا اور علماء پر طعن و تشنیع کرنا۔ ان کے کئی راستے ہیں جن کے ذریعے وہ نوجوانوں کو پھسلاتے ہیں۔ چنانچہ جو طالب علم علماء کی مجلس کو چھوڑ کر ان کے ساتھ جائے تو ان کو کہتے ہیں کہ آپ داعی ہیں اور داعی تو اس بادل کی مانند ہوتا ہے جو لوگوں پر ان کی زمین میں آتا ہے اور ان کو سیراب کرتا ہے، برخلاف ان علماء کے جو کنویں کی مانند ہیں ۔ اگر آپ کو پیاس لگے اور میلوں کی مسافت پر دور ہوں تو شدت پیاس تو ان کنوؤں تک پہنچنے سے پہلے ہی تجھے ہلاک کردے گی۔ اگر وہاں پہنچ بھی جائے تب بھی پانی نہیں پی سکتا۔ ہوسکتا ہے وہ ڈول ہی نہ ہو جس سے آپ پانی نکالیں۔ اس کے بعد جب نوجوان علماء کی مجلس میں جاتا ہے تو جس چیز کو اس کے دل میں بوئی گئی ہے ، اسی کو یاد کرتا رہتا ہے کہ وہ تو بادل کی مانند داعی ہے اور یہ تو کنویں ہیں تو وہ طلب ترک کرکے چلا جاتا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ وہ بادل کی مانند ہو۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے " اللہ تعالیٰ جس آدمی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اس کو دین کی سمجھ عطاکرتا ہے۔" (بخاری)
8۔ منکر کام سے منع کرنے کو چھوڑ دینا۔
یہ اس جماعت کا اصل اصول ہے۔ چنانچہ یہ ایسی دعوت ہے جو منکر کاانکار نہیں کرتی یہ دلیل پکڑتے ہوئے کہ لوگ اس سے متنفر ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں یہ دعوت ناقص اور باطل ہے۔ یہ ایسا منظر ہے جو قریب جائے گا وہ ہی پہچانے گا۔ حقیقت میں جس اصول پر اس جماعت کا قیام ہے یہ اس کی مخالف ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہےاور ہمارے نبی اکرم ﷺ نے احادیث میں بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِ
ٱلْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ ﴿١١٠﴾ آل عمران
ترجمہ: (مومنو) جتنی امتیں (یعنی قومیں) لوگوں میں پیدا ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو کہ نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو ۔
آپﷺ کا فرما ن ہے " تم میں سے جو برائی کو دیکھے تو اس کو چاہے کہ اس کو اپنے ہاتھ سے ختم کرے .............."
اس وجہ سے ان کا خیال ہے کہ وہ لوگوں کو فضائل کی دعوت دیتے ہیں اور بغیر علم کے دعوتی محنت و کاوش وہ "احباب" کی تربیت کرتے ہیں۔ بلکہ وہ تو دعوت کے کام کو طلب علم پر فوقیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں " طلب علم تو لمبے وقت کا تقاضہ کرتا ہے جب کہ عمر تھوڑی ہے اور آپﷺ کے اس فرمان " میری طرف تبلیغ کرو چاہے ایک آیت ہو" کو دلیل بناتے ہیں۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ یہ منہج سلف کو سمجھنے میں خلل واقع ہے۔ وہ منہج جس کو دعوتی میدان میں رسول اللہ ﷺ، علماء اسلام اور اہل السنۃ کے اصلاح پسند لوگوں نے اختیار کیاتھا۔ امام بخاری نے تو" قول و عمل سے پہلے علم" کا باب باندھا ہے۔ آج کے دور میں امت کو اس کی شدید ضرورت ہے کہ وہ دعوت الی اللہ میں انبیاء کے منہج کی پہچان حاصل کرے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
گروہ بندی کے خطرات اور مروجہ جماعتوں کے نقصانات کے بارے میں معاصرین علماء کے اقوال
شیخ ابن بازؒ سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ ان دعاۃ کو کیا نصیحت فرماتے ہیں جو اہل بدعات کے مقابل کھڑے ہیں؟
اور آپ سے گذارش بھی ہے کہ نوجوانوں کو بھی خاص نصیحت فرمائیے جو مختلف دینی ناموں سے موسوم جماعتوں سے اپنا تعلق استوار کرتے ہیں ۔
الجواب:
ہم اپنے تمام بھائیوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ اللہ کی طرف حکمت، اچھی نصیحت اور احسن طریقے سے جدال کے ساتھ دعوت دے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے۔

· تمام لوگوں کے ساتھ اور تمام اہل بدعات کے ساتھ، جب وہ اپنی بدعت کا اظہار کریں اور ان کا پر حکمت رد کریں خواہ وہ شیعہ ہو یا کوئی اور ہو۔
· کسی بھی بدعت کو جب مومن دیکھ لے تو اس پر واجب ہے کہ شرعی طریقہ کے ساتھ اپنی قوت وبساطت کے مطابق اس کا رد کرے۔
· چنانچہ یہ ضروری اور واجب ہے کہ ان نئی جماعتوں سے تعلقات کو ختم کیا جائے۔
· اور سارے کتاب و سنت کے ساتھ وابستہ ہوجائیں ۔
· اور اس میں سچائی اور اخلاص کے ساتھ تعاون کریں
· ایسا کرنے سے ایک اللہ کی جماعت میں سے ہوجائیں گے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المجادلۃ کے آخر میں فرمایا ہے : " اور سُن لو کہ اللہ تعالیٰ ہی کا لشکر فلاح پانے والا ہے" پہلے ان کی عظیم صفات کو ذکر کرنے کے بعد ہی یہ فرمایا تھا " جو لوگ اللہ پر اور روز ِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں تم ان کو اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی کرتے ہوئے نہ دیکھوگے۔" ( المجادلۃ -22) ( مجموعہ فتاویٰ ابن باز 7/176)
الشیخ محمد بن صالح عثیمین رحمۃ اللہ :
سوال: شیخ یہ اس جگہ کئی جماعتوں کا وجود آپ سے مخفی نہیں ہے تو اس کے بارے میں آپ کی کیا توجیہات ہیں ؟ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔
جواب: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ،،،،، وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان کئی متفرق اور ایک دوسرے کی مخالف جماعتوں کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں اور امت مسلمہ کا یہ طرز عمل شریعت اسلامیہ کے اس تصور کے خلاف ہےجس میں اتحاد و اتفاق کا تقاضہ کیا جاتا ہے اور مسلمانوں کے مابین جس تحریش اور اشتعال کا شیطان ارادہ رکھتا ہے اسکے موافق ہے۔ جو ان کے درمیان نفرت و عداوت ڈالتا ہے اور ان کو اللہ کے ذکر اور نماز سے روکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: إِنَّ هَٰذِهِ
ۦٓ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَٰحِدَةً وَأَنَا۠ رَبُّكُمْ فَٱعْبُدُونِ ﴿٩٢﴾ الانبیاء
ترجمہ: یہ تمہاری جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں تو میری ہی عبادت کیا کرو۔
دوسرے مقام پر فرمایا: وَإِنَّ هَٰذِهِ
ۦٓ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَٰحِدَةً وَأَنَا۠ رَبُّكُمْ فَٱتَّقُونِ ﴿٥٢﴾ المؤمنون
ترجمہ: اور یہ تمہاری جماعت (حقیقت میں) ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں تو مجھ سے ڈرو۔
ارشاد ربانی ہے: وَ
ٱعْتَصِمُوا۟ بِحَبْلِ ٱللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا۟ ۚ ﴿١٠٣﴾ آل عمران
ترجمہ: اور سب مل کر خدا کی (ہدایت کی رسی) کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَلَا تَكُونُوا
۟ كَٱلَّذِينَ تَفَرَّقُوا۟ وَٱخْتَلَفُوا۟ مِنۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ ٱلْبَيِّنَٰتُ ۚ ﴿١٠٥﴾ آل عمران
ترجمہ: اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو متفرق ہو گئے اور احکام بین آنے کے بعد ایک دوسرےسے (خلاف و) اختلاف کرنے لگے ۔
چنانچہ متحد ہونے میں کوشاں رہو۔ باہمی اختلاف اور تفرقہ بازی کو ترک کردو۔ بلاشبہ یہ اختلاف اور تفرقہ بازی ، ناکامی اور نامرادی کا سبب بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دست بدعا ہوں کہ وہ مسلمانوں کے معاملات اصلاح فرمائے۔ ان کو کلمہ حق پر جمع کرے۔ یقیناً وہ ہر چیز پر قادر ہے۔"
( کتب و رسائل العثیمین)
شیخ رحمۃ اللہ سے یہ پوچھا گیا کہ " عصر حاضر کی رائج اسلامی جماعتوں سے منسلک ہونے کا کیا حکم ہے؟ ان سے معاملات استوار کرنے کے بارے میں واضح حکم درکار ہے ۔
جواب:
عزیز بھائی ! پہلی بات تو یہ ہے کہ میں دین کے نام پر ہونے والی جماعت بند ی کو نا تو جائز کہتا ہوں اور نہ ہی اس کی موافقت کرتا ہوں کیونکہ ہر جماعت خو د کو دوسروں سے منفردسمجھتی ہےاور یہ فکر تو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے تحت آجاتی ہے کہ: إِنَّ
ٱلَّذِينَ فَرَّقُوا۟ دِينَهُمْ وَكَانُوا۟ شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِى شَىْءٍ ۚ إِنَّمَآ أَمْرُهُمْ إِلَى ٱللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا۟ يَفْعَلُونَ ﴿١٥٩﴾ الانعام
ترجمہ: جن لوگوں نے اپنے دین میں (بہت سے)رستے نکالے اور کئی کئی فرقے ہو گئے ان سے تم کو کچھ کام نہیں ان کا کام خدا کے حوالے پھر جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں وہ ان کو (سب) بتائے گا۔
اسی لیے آپ کو یہ نظر آئے گا کہ مختلف دھڑوں میں بٹے ہوئے لوگ ایک دوسرے سے ان فاسقوں سے بھی بڑھ کر نفرت کرتے ہیں جو اعلانیہ فسق و فجور کے کام کرتے ہیں ( جیسا کہ ہم سنتے ہیں) ۔ یہاں تک ان میں سے ایک دوسرے کو گمراہ اور بغیر کسی تکفیری سبب کے کافر کہتا ہے۔ میں اس دینی گروپ بندی اور جماعت سازی کو بالکل جائز نہیں کہتا۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ ان تنظیموں کو ختم کیا جائے۔ ہم ایسے ہی ہوجائیں جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے۔ اگر ہم میں سے کسی سے قولی ، فعلی یا عقیدہ میں غلطی کا ارتکاب ہو جائے تو اس کو نصیحت کرنا بہت ضروری ہے کہ اس طرح ہم اس کی حق کی طرف رھنمائی کر سکتے ہیں اگر وہ ہدایت کو قبول کرلے تو یہ ہی مقصود ہے اور اگر وہ حق پر ہے تو ہم کو اس کی طرف رجوع کرنا چاہیئے ۔ اورایسی کیفیت میں کہ حق ہمارے ساتھ ہو اور وہ اپنی بات پر بغیر صحیح دلیل کے مُصر رہے تو ہمیں چاہیے کہ اس کی رائے سے اجتناب کریں، لیکن اس میں بھی اس امر کا خیال رہے کہ یہ فکر نہ پائی جائے کہ وہ الگ جماعت میں ہے اور میں الگ جماعت میں ہوں کیونکہ اگر ہم بھی یہی سوچ رکھیں گے تو ہم افتراق امت کا سبب بن سکتے ہیں ۔ ہمارے لئے یہ بات لائق ہے بلکہ واجب ہے کہ ہم ان جماعتوں کی مخالفت کریں۔ والحمدللہ( لقاءات الباب المفتوح)

شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ
شیخ محترم سے سوال کیا گیا کہ کیا علماء پر یہ واجب ہے کہ وہ نوجوان نسل اور عامۃ الناس کو جماعت بندی، تفرقہ بازی اور دھڑے بازی کے خطرات سے متنبہ کریں ؟
جواب: جی ہاں! جماعت بندی ،تفرقہ بازی کے خطرات کو بیان کرنا واجب ہے تاکہ لوگوں کو بھی علم ہو تاکہ کوئی دھوکہ نہ کھائے کیونکہ آجکل کتنے ہی ایسے عام لوگ ہیں جو ان جماعتوں کی حقیقت کے بارے میں دھوکے میں ہیں اور یہ گمان رکھتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں۔ چنانچہ ہم پر ضروری ہے کہ طلباء اور عوام کے لئے ان جماعتوں اور فرقہ واریت کے خطرات سے آگاہ کریں۔ اگر علماء خاموشی اختیار کریں گے تو لوگ کہیں گے کہ علماء تو اس کے متعلق جانتے تھے پھر بھی وہ خاموش تھےاس طرح گمراہی کا پھیلنا آسان ہو جاتا ہے تو ضروری ہے کہ جب آپ اس جیسے معاملات پر گفتگو کریں تو ان کے نقصانات بھی بیان کریں۔اور اس جماعت بندی کا نقصان طلباء کی نسبت عوام کو بہت زیادہ ہوا ہے کیونکہ اگر علماء سکوت اختیار کریں تو یہ عوام سمجھتے ہیں کہ جماعتیں درست ہیں اور یہ ہی حق ہے۔" ( الاجوبۃ المفیدۃ)

سوال: ایک اور شیخ محترم سے سوال کیا گیا کہ کیا جماعت بندی سے ملنا ٹھیک ہے؟ اور وہ کون سا صحیح منہج ہے جس پر اکٹھا ہونا واجب ہے؟
جواب: فرقہ واریت کی وجہ سے اکٹھا ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ جماعتیں ایک دوسرے کی مخالف ہیں، اور دو متضاد چیزوں کا اکٹھا ہونا محال ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان: وَٱعْتَصِمُوا۟ بِحَبْلِ ٱللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا۟ ۚ ﴿١٠٣﴾ آل عمران
" اور سب مل کر اللہ کی (ہدایت کی) رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا۔"
اللہ تعالیٰ نے تفرقہ بازی سے منع فرمایا اور ایک جماعت ہونے کا حکم فرمایا اور وہ اللہ کی جماعت ہے۔
إِنَّ حِزْبَ
ٱللَّهِ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ ﴿٢٢﴾ المجادلہ
" (اور) سن رکھو کہ اللہ ہی کا لشکر فلاح پانے والا ہے۔"
وَإِنَّ هَٰذِهِ
ۦٓ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَٰحِدَةً ﴿٥٢﴾ المؤمنون
اور " اور یہ تمہاری جماعت (حقیقت میں ) ایک ہی جماعت ہے۔"
چنانچہ ان فرقوں، جماعتوں، مختلف گروہوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ انعام میں فرمایا ہے کہ:
إِنَّ
ٱلَّذِينَ فَرَّقُوا۟ دِينَهُمْ وَكَانُوا۟ شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِى شَىْءٍ ۚ إِنَّمَآ أَمْرُهُمْ إِلَى ٱللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا۟ يَفْعَلُونَ ﴿١٥٩﴾
" جن لوگوں نے اپنے دین میں بہت سے رستے نکالے اور کئی کئی فرقے ہوگئے ان سے تم کو کچھ کام نہیں ۔ ان کا کام اللہ کے حوالے پھر جو جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں وہ ان کو (سب) بتائے گا۔"
اور جب رسول اللہ ﷺ نے امت کے تہتر فرقوں میں تقسیم کا ذکر کیا تھا تو فرمایاتھا:
" ایک علاوہ سارے ہی جہنم میں جائیں گے۔"
اور فرمایا:
" آج کے دن جس پر میں اور میرے صحابہ کار بند ہیں۔ چنانچہ اس ایک جماعت کے سوا کوئی فرقہ ناجیہ نہیں کیونکہ منہج وہی ہے جس پر رسول اللہﷺ اور ان کے صحابہ عامل تھے۔ اس کے علاوہ باقی سب تفریق ہی پیدا کرنے والے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَّإِن تَوَلَّوْا
۟ فَإِنَّمَا هُمْ فِى شِقَاقٍ ۖ ﴿١٣٧﴾ البقرۃ
" اور اگر منہ پھیر لیں ( اور نہ مانیں) تو وہ (تمہارے) مخالف ہیں۔"
امام مالک ؒ فرماتے ہیں اس امت کے متاخرین کی اصلاح اسی میں پوشیدہ ہے جس میں امت کے پہلے لوگوں کی تھی۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَ
ٱلسَّٰبِقُونَ ٱلْأَوَّلُونَ مِنَ ٱلْمُهَٰجِرِينَ وَٱلْأَنصَارِ وَٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوهُم بِإِحْسَٰنٍ رَّضِىَ ٱللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا۟ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّٰتٍ تَجْرِى تَحْتَهَا ٱلْأَنْهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ ﴿١٠٠﴾ التوبۃ
"جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے) پہلے (ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی۔ اور جنہوں نے نیکو کاری کے ساتھ ان کی پیروی کی خدا ان سے خوش ہے اور وہ خدا سے خوش ہیں اور اس نے ان کے لیے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اور ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہ بڑی کامیابی ہے"
پس یہ ہی ہے کہ ہم سلف صالحین کے منہج پر جمع ہوجائیں۔ ( الاجوبۃ المفیدۃ عن اسئلہ المناہج الجدیدۃ ص122-124)
شیخ محمد ناصر الدین البانیؒ فرماتے ہیں:
" صرف سلفی دعوت ہی ان تمام جماعتوں کی ہر لحاظ سے مخالفت کرتی رہتی ہیں اور اس کا سبب بھی بالکل واضح ہے کیونکہ اس کی کی نسبت رسول اللہﷺ کی طرف ہے تو جو اس دعوت سے انحراف کرے گا ہم اس کو سلفی نہیں کہیں گے اور جہاں تک باقی جماعتوں کی بات ہے تو ان کی نسبت ان لوگوں کی طرف ہے جو غیر معصوم ہیں اور جو شخص سلفیت کا دعویٰ کرتا ہو اور یہ واضھ رہے کہ سلفیت کتاب و سنت کی اتباع کا نام ہے تو اس کو چاہیئے کہ وہ سلفی لوگوں کے نقش قدم پر چلے صرف نام رکھنا کوئی فائدہ مند نہیں ہے۔" ( فتاویٰ العلماء الاکابر)
الشیخ بکر ابو زیدؒ اپنی کتاب " حکم الانتماء" میں فرماتے ہیں":
یہ آج کل کی اسلامی جماعتوں اور مختلف گروہوں کا حال ہے کہ انہوں نے کئی لوگوں کو اپنا قائد بنایا ہوا ہے جو کہ ایسے لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ان کی حمایت کرتے ہیں اور اس کے مخالفین سے عداوت رکھتے ہیں اور کتاب و سنت کی طرف رجوع کئے بغیر ان کے ہر فتویٰ کی پیروی کرتے ہیں یہ بھی نہیں پوچھتے کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں یا جوفتویٰ دے رہے ہیں اس کی بنیاد کس دلیل پر ہے ۔"
"حلیۃ طالب العلم" کے صفحہ 65 پر اسی عنوان کہ ایسی کوئی جماعت اور گروہ نہیں جس پر عقیدہ الولاء و البراء کی بنیاد رکھی جائے، کے تحت فرماتے ہیں:
" مسلمانوں کی پہچان صرف اسلام اور سلامتی میں ہے۔ اے علم کے متلاشی! اللہ تجھے اور تیرے علم کو بابرکت بنائے، علم و عمل دونوں کے لئے جستجو کر اور طریقہ سلف پر گامزن رہنے کے لئے اپنے اللہ سے دعائیں کر۔ اور ان جماعتوں میں داخل اور خارج ہونے والا نہ ہو کہ فراخی سے تنگی اور سختی کو آجاؤ۔ اسلام سارے کا سارا تیرے لئے منہج اور جادہ حق ہے۔ اور سارے مسلمان ایک جماعت ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نصرت وتائید کا ہاتھ بھی جماعت پر ہے۔ چنانچہ اس جماعت سازی اور گروہ بندی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں متعدد نقطۂ نظر اور نت نئے ڈھانچوں میں ڈھلی گروہ بندیاں ..... جو ہمارے اسلاف میں نہ تھیں یہ اتحاد کو پارہ پارہ کرنے اور علم کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔
چنانچہ ایسی کتنی ہی جماعتیں ہیں جن کی بنیاد علم حق نہیں بلکہ تفریق اور افتراق سازی پر ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ان جماعتوں نے اسلامی وحدانیت کو پارہ پارہ کردیا ہے اور ان کی وجہ سے مسلمان کتنے مصائب سے دوچار ہوئے ہیں۔
الشیخ محمد بشیر ابراہیمی ؒ فرماتے ہیں:
" میں آپ لوگوں کو ان جماعتوں سے دور رہنے کی نصیحت کرتا ہوں جو کہ شرکو پیدا کرتی ہیں اور علم و خیر پر حملہ آور ہوتی ہیں اس کے ساتھ ساتھ ارض عزیز کو نمکین پانی میں ڈبونا چاہتی ہیں بلاشبہ یہ جماعتیں اس پرنالے کی مانند ہیں جو پانی اور کچرے کو جمع کرتا ہے۔
مزید فرماتے ہیں:
" اہل استعمار کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ لوازمات زندگی اور ضروریات کو کمزور بلکہ ختم کردیتے ہیں تو یہ جماعتیں بھی عمومی طور پر ان بنیادی ضروریات کی طرف توجہ نہیں دیتی۔ چنانچہ صاحب عقل و بصیرت یہ فیصلہ دیں کہ مشرق پر مغربی استعمار کی نسبت ان جماعتوں کا نقصان اور شر زیادہ ہے تو کیا ان کے حکماء پر ملامت کی جائے گی ....؟ ( یہ عبرت آمیز باتیں ہیں)
حسن بصری بیان کرتے ہیں کہ:
انہوں نے ام المؤمنین امّ سلمہ رضی اللہ عنہا کو فتنہ عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرماتے سنا کہ:
" رسول اللہ ﷺ اس سے بری ہیں جس نے دین میں تفرقہ بازی کی اور جماعت بندی کی ۔ پھر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان تلاوت کرنے لگیں :
إِنَّ
ٱلَّذِينَ فَرَّقُوا۟ دِينَهُمْ وَكَانُوا۟ شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِى شَىْءٍ ۚ إِنَّمَآ أَمْرُهُمْ إِلَى ٱللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا۟ يَفْعَلُونَ ﴿١٥٩﴾ الانعام
"جن لوگوں نے اپنے دین میں (بہت سے) رستے نکالے اور کئی کئی فرقے ہو گئے ان سے تم کو کچھ کام نہیں ان کا کام خدا کے حوالے پھر جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں وہ ان کو (سب) بتائے گا۔"(الاعتصام – والعلل لامام احمد)
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
" ایک مومن دوسرے مومن کے لئے دو ہاتھوں کی مانند ہیں کہ ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کو دھوتا ہے۔ اور کبھی تو میل کچیل کو تھوڑی سی سختی سے ختم کیا جاتا ہے لیکن یہ سختی تو نظافت و نرمی کی موجب ہے۔"(الفتاوی 28/53)
ابن قیمؒ فرماتے ہیں:
" اہل سنت اور اہل حدیث کا کیا قصور ہے کہ وہ تو وہی بات کرتے ہیں جو کتاب و سنت میں موجود ہے اور جو نصوص میں نہیں اس پر سکوت اختیار کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے لئے اُن اوصاف کو مانتے ہیں جن سے خود اللہ تعالیٰ نے متصف ٹھہرایا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے بھی ان اوصاف کو اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت فرمایا ہے اور جاہل لوگوں کی تاویل اور مبطلین کے انتساب کو رد کیا جنہوں نے فتنہ پردازی کے جھنڈے گاڑے اور جو اللہ تعالیٰ پر بغیر علم بہتان لگاتے ہیں۔ چنانچہ اہل حدیث نے ان کے باطلان کا رد کیا ان کی کجی کو بیان کیا ان کے جھوٹ کا پردہ چاک کیا اور اللہ اور اس کے رسول کا دفاع کیا۔"(الصواعق المرسلۃ 1/262-263)
شیخ بکر ابو زیدؒ فرماتے ہیں:
" وہ لوگ جو باطل کی تردید کرنے والوں کے لیے اپنی زبانوں کو مروڑتے ہیں اگرچہ بعض میں خیر و بھلائی کا عنصر بھی ہو لیکن وہ جز وقتی وکمزور اور ضعیف ہوتا ہے اور بعض اوقات وہ حق و سچائی کے شعور کو پانے میں عجز و کمزوری کا اظہار کرتا ہے حقیقت میں یہ ایسے ہی ہے جیسے میدان جہاد میں دین کی حفاظت اور اس کا دفاع کرنے میں پیٹھ دکھا کربھاگنا۔ ایسی گھڑی میں حق بات کرنے سے سکوت اختیار کرنا، اور باطل گوئی کرنےوالاہو، گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔
ابو علی الدّقاق فرماتے ہیں:
" حق کے بارے میں خاموش رہنے والا گونگا شیطان اور باطل گوئی کرنے والا بولنے والا شیطان ہے۔"
اور رسول اللہ ﷺ نے اس امت کے تہتر فرقوں میں بٹنے اور ان میں نبوی منہج پر گامزن ایک نجات دہندہ جماعت کی پیشن گوئی فرمائی۔
کیا اس کے بعد بھی یہ لوگ اس امت کا ایک فرقے یا جماعت میں اختصار چاہتے ہیں۔ جبکہ ان عقائد میں زمین و آسمان کا فرق موجود ہے؟ یا ان کی دعوت ایسی وحدت کی طرف جو حق سے دور کرنے والی ہے۔
خبردار !
کذب بیانی کے علاوہ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے
مسلمانوں کے صفوں میں اندر سے دراڑ مت ڈالو!
مسلمانوں پر خارج سے یلغار نہ کرو!
مسلمانوں میں اختلاف کو ہوا نہ دو !
( ہم متفقہ باتوں پر جمع ہونگے اور جو چیز ہم میں مختلف فیہ ہے اس میں ایک دوسرے کو معذور سمجھیں ) اسی طرح کی باتیں ہیں۔ دشمنوں کی فریب کاری، گہما گہمی کا پردہ چاک کرنا اور اور مسلمانوں کی صف کا بیداری کے ساتھ ان باطل اقدامات سے حفاظت کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَ
ٱضْرِبُوا۟ مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ ﴿١٢﴾ الانفال
ترجمہ: تو ان کے سر مار (کر)اڑا دو اور ان کا پور پور مار (کر توڑ) دو۔
ہر مسلمان پر لازم ہے کہ حسب استطاعت اس شرعی حق کو ادا کرے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَ
ٱلَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ ﴿٧٩﴾ التوبۃ
ترجمہ: جن کے پاس (راہ خدا میں دینے کے لیے) اُس کے سوا کچھ نہیں ہے جو وہ اپنے اوپر مشقت برداشت کر کے دیتے ہیں ۔
نبوی وعدہ ہی ہر مسلمان کے لئے نصیحت ہے۔ ( الرد علی المخالف – ص 75-76)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
جزیرہ عرب میں سلفی دعوت
آل سعود اور امام محمد بن عبد الوہاب کی دعوت دراصل رسول اللہﷺ کی بتائی ہوئی اساس پر ہی قائم ہے جس کی بنیاد خالص توحید کی دعوت ہے۔ یہ ایسی واضح دعوت ہے کہ اپنے ہر عمل کو شریعت محمدیہ کے ترازو میں تولتی ہے۔ ملک محمد بن سعود اور امام محمد بن عبدالوہاب ؒ نے سیاسی فکری قیادت کی طرف نظر التفات بھی نہیں کیا بلکہ شریعت اور نبی ﷺ کی اطاعت کو ہی اصل میزان اور ترازو قرار دیا۔ اور کہنے والے نے کیا خوب کہا کہ " سیاست ایسا جھوٹ ہے جو معروف انداز میں پیش کیا جائے ۔" بلاشبہ رسول اللہ ﷺ کی دعوت اکیلے اللہ کی عبادت کرنے کی ہے جس کے لئے تمام انسانوں کو تخلیق ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَمَا خَلَقْتُ
ٱلْجِنَّ وَٱلْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ الذاریات
ترجمہ: میں نے جن اور انسانوں کو اِس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا :
" دعا ہی عبادت ہے۔"( رواہ ابو داؤد ، الترمذی عن ابو ھریرۃ )
چنانچہ نیکی کے سارے ہی کام اللہ کی عبادت ہیں اور ان کی چوٹی دعا ہے۔ الحمدللہ امام محمد بن عبدالوہاب اور امام محمد بن سعود کی یہ دعوت مملکۃ العربیہ السعودیۃ کے گردو نواح میں دشمنان دین، لبرل، سیکولرز، روشن خیال، دھڑے بندیوں کے مکرو فریب کے باوجود آج تک جاری و ساری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَدُّوا
۟ لَوْ تَكْفُرُونَ كَمَا كَفَرُوا۟ فَتَكُونُونَ سَوَآءً ﴿٨٩﴾ النساء
ترجمہ: وہ تو یہی چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ خود کافر ہیں (اسی طرح) تم بھی کافر ہو کر (سب) برابر ہوجاؤ ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
سلفی ایک شرعی نام
اخوان المسلمون، تبلیغی اور سروری وغیرہ خود کو ان ناموں سے موسوم کرتے ہیں تو سلفی لوگ کیوں نہ یہ نام رکھیں تاکہ دوسروں سے ممتاز ہوسکیں۔ چنانچہ یہ سلفی، صحیح عقیدہ اور منہج سلیم کے حامل لوگوں کا امتیازی نام ہے۔
فتنوں کے ظہور کے بعد ابن سیرین کہتے ہیں:
" جب فتنوں کا ظہور ہوا تو راوی حدیث کو کہا جاتا کہ اپنے لوگوں کے نام ذکر کرو۔ چنانچہ اگر وہ اہل حدیث میں سے ہوتے تو اس سے حدیث لی جاتی تھی۔"
اصول اہل سنت کے نام سے اصطلاح وجود میں آئی ۔ اس کے بعد اہل لحدیث یا اہل اثر کے نام سے امام احمد بن حنبلؒ کے زمانے میں اصطلاح وجود میں آئی۔
پھر شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کے زمانہ میں سلفیت کے نام کی اصطلاح وجود میں آئی۔ ان جملہ مصطلحات کے معانی صحیح و درست ہیں جو بھی اس کی طرف نسبت کرے اس پر کوئی نکیر نہیں ہے۔
جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے فرمایا:
" جو شخص طریق سلف کا اظہار کرتا ہے اور اس کی طرف نسبت کرتا ہے تو اس پر کوئی قدغن نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ متفقہ طور پر اسے قبول کیا جائے۔ کیونکہ منہج سلف ہی حق و صداقت پر مبنی ہے۔ اہل بدعات کی تو یہ علامت ہے کہ وہ سلف صالحین سے اپنی نسبت توڑتے ہیں۔"( الفتاویٰ : 4/155)
بلاشبہ جب یہ گمراہ کن جماعتیں اشعری، ماتریدی، دیوبندی وغیرہ خود کو اپنے مذہب کے مطابق موسوم کرنے لگیں تو اہلسنت نے بھی ان سے فرق کرنے کے لئے اپنا امتیازی نام سلفیہ رکھا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کے تمام رسائل و کتب اور فتوے سلفیت کی نصرت و تائید میں بھرے ہوئے ہیں۔ چنانچہ آپ ؒ فرماتے ہیں:
" جو بھی سلفی، نبوی، شرعی طریقے سے انحراف کرے گا وہ گمراہی اور باہمی تضاد کا شکار ہوگا اور وہ جہل مرکب یا جہل بسیط کے دلدل میں پھنسا رہے گا۔" (درء تعارض العقل و النقل 1/265)
پھر فرماتے ہیں:
" نبوی، سنی، سلفی، محمدی شرعی طریقہ کی معرفت اور ان گمراہ لوگوں کے متضاداقوال کا علم رکھنے والا جب ان لوگوں سے مناظرہ کرے گا تو نقل صحیح کے تابع عقل صحیح کے ذریعے ان کے اقوال کے باطل ہونے کو جان لے گا۔" ( درء تعارض العقل و النقل 1/164)
مزید فرماتے ہیں:
" میں اس بات کو بخوبی جانتا ہوں کہ نہ تو عقل صریح اور نہ نقل صریح میں کوئی ایسی چیز ہے جو طریق سلف کی مخالفت کو واجب قرار دیتی ہو۔" (الحمویہ مجموع الفتاویٰ 5/28)
سلف صالحین کی طرف نسبت کرنا تو باعث شرف و فخر ہے اور اس سے بڑھ کر کیا فخر و شرف ہے کہ سلفیت تو اہل السنۃ کی مدح و تعریف ہے۔ اور سلفیہ تو اہل السنۃ و الجماعۃ ، اہل الحدیث ، اہل الاثر ، فرقہ ناجیہ ، طائفہ منصور اور اہل اتباع کے مترادف و ہم معنی ہے۔
چنانچہ یہ گذشتہ جماعت اور نبی ﷺ کے ورثاء یعنی انصار و مہاجر ، ان کے متبعین اور ائمہ دین کی طرف منسوب ہے۔ اور ان کے فہم کے مطابق کتاب و سنت پر عمل کرنا ہی ان کی میراث ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَ
ٱلَّذِينَ جَآءُو مِنۢ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا ٱغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَٰنِنَا ٱلَّذِينَ سَبَقُونَا بِٱلْإِيمَٰنِ وَلَا تَجْعَلْ فِى قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ رَبَّنَآ إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿١٠﴾ الحشر
ترجمہ: اور جو لوگ ان کے بعد آئے اور ان کا کہنا یہ ہے کہ خدایا ہمیں معاف کردے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جنہوں نے ایمان میں ہم پر سبقت کی ہے اور ہمارے دلوں میں صاحبانِ ایمان کے لئے کسی طرح کا کینہ نہ قرار دینا کہ تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔
رسول اللہﷺ نے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو فرمایا کہ" میں تیرے لئے بہتر سلف ہوں۔" (مسلم 2482)
راشد بن سعد کہتے ہیں کہ سلف تو گھوڑے کی سواری کو پسند کیا کرتے تھے اور نر گھوڑے کی سواری کرنا۔
حافظ ابن حجر کلمہ " سلف" کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں " اس سے مراد صحابہ اور جو ان کے بعد آنے والے ہیں۔" ( فتح الباری 6/66)
ایک باب باندھا " سلف کا اپنے گھروں اور دوران سفر طعام اور گوشت وغیرہ جمع کرنا" (5/2068)
امام زھری مردہ جانور کی ہڈیوں جیسے ہاتھی وغیرہ کے بارے میں فرماتے ہیں " میں نے علماء سلف کی ایک جماعت کو پایا جو ان ہڈیوں کے ساتھ کنگی کرنے اور روغن ملنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتی تھی۔" ( فتح الباری ۔ 1/342)
عبداللہ بن مبارک فرمایا کرتے تھے کہ " عمر بن ثابت کی حدیث کو مت لو کیونکہ وہ سلف کو گالی بکتا تھا۔" ( مقدمہ صحیح مسلم ص6)
امام اوزاعی فرماتے ہیں کہ :"
سنت کی ضیا پاشیوں کے ساتھ خود کو مربوط کردو اور وہیں ٹھہر جاؤ ، جہاں ہر سلف و صالحین ٹھہرے، اور جس سے وہ رُکے تم بھی رُک جاؤ اور اپنے سلف صالحین کی راہ کو اختیار کرو کیونکہ جو ان کے لئے کافی تھا وہ تمہارے لئے بھی کافی ہوجائے گا۔" ( الشریعہ للآجری ص58)
سلف کی طرف نسبت کرنے پر تو امت کا اجماع ہے۔ جس کو شیخ الاسلام نے اپنے فتاویٰ 1/89 اور عز بن عبدالسلام کے اس قول " اور وہ دوسرا شخص جو خود مذہب سلف کے لباس میں چھپتا ہے (اور دوسرا وہ شخص جو مذہب سلف کی آڑ بناتا ہے) کی تردید میں ذکر کیا ہے۔ پھر فرماتے ہیں " جو مذہب سلف کا اظہار کرے ، اس کی طرف نسبت کرے تو اس پر کوئی عیب نہیں بلکہ ضروری ہے کہ بالاتفاق اس سے یہ قبول کیا جائے کیونکہ مذہب سلف تو حق و سچ ہی ہے۔ چنانچہ جو بھی اس سے ظاہری و باطنی موافقت کا اظہار کرے گا وہ مومن ہے اور جو صرف ظاہری موافقت کرے گا وہ منافق کے درجے پر ہے۔ اس سے ظاہری اعمال تو قبول کیا جائے گا اور اس کا باطن اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا جائے۔ کیونکہ ہمیں لوگوں کے سینوں کو شق کرکے ان کی حقیقت کو جاننے کا حکم نہیں دیا گیا۔"
اہل بدعات کی تو یہ علامت ہے کہ وہ سلف کی طرف نسبت کرنے کو ناپسند سمجھتے ہیں ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اپنے فتاویٰ میں ذکر کرتے ہیں کہ " مبتدعین کا تو یہ شعار رہا ہے کہ وہ سلف صالحین کی نسبت کو ترک کرتے ہیں۔"
میں تو یہ کہتا ہوں کہ: ان نووارد ظاہری دعوت کی حامل اور اہل سنت کی مخالفت کرنے والی جماعتوں سے منسلک لوگوں کو دیکھیں یہ کہ سلف اور سلفیت کی طرف نسبت کو نا پسند سمجھتے ہیں جیسے یہ اخوان اور تبلیغی ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ بیان تلبیس الجھمیۃ صفحہ 1/122 میں فرماتے ہیں:
" ابو عبداللہ الرازی میں جھمیت کا بڑا مادہ پایا جاتا ہے اسی لئے ان میں سلفیت کی نسبت دہریت کی طرف رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔"
"فتاویٰ" 12/349 میں فرماتے ہیں:
" اسی وجہ سے یہ نبوی سلفی طریقہ رہا ہے کہ علوم الٰہیہ میں قیاس الاولیٰ کو استعمال کیاجائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَلِلَّهِ
ٱلْمَثَلُ ٱلْأَعْلَىٰ ﴿٦٠﴾ النحل
ترجمہ: " اللہ کے لئے تو بہت ہی بلند صفت ہے"
فتاویٰ 16/481 میں فرماتے ہیں:
" اشعری اور ان کی مثل تو سلفیت اور جھمیہ کے مابین برزخ ہے"
اسی طرح فتاویٰ 33/177 میں فرماتے ہیں:
" سلفیت تو یہ ہے کہ جس کے متعلق خطابی اورابوبکر خطیب وغیرہ فرماتے ہیں کہ سلف کا طریقہ کار تو یہ ہے کہ صفات کے متعلق آیات اور احادیث کو بغیر کسی کیفیت اور تشبیہ کے اپنے ظاہر کے مطابق جاری کرتے ہیں۔"
درء التعارض 1/246 میں فرماتے ہیں:
" یہ بات معلوم ہوئی کہ جو لوگ رؤیت، صفات، علو علی عرش اور اللہ تعالیٰ کے کلام کرنے کی نفی اس لئے کرتے ہیں کہ اس سے تجسیم کا اثبات ہوتا تو یہ کتاب و سنت اور اجماع سلف کے سراسر خلاف ہے۔"
امام ذھبیؒ نے تراجم اور سیر کی کتابوں میں کئی ایک راویوں کے متعلق فرمایا کہ " وہ منہج سلف پر کاربند تھا۔" (سیر العلام النبلاء 6/21)
فسوی کے ترجمہ میں لکھتے ہیں " میں یعقوب فسوی کو جانتا ہوں وہ سلفی تھا۔" ( سیر 13/183)
محمد بن البھرانی کے ترجمہ میں لکھتے ہیں " وہ متدین ، صاحب خیر اور سلفی تھا۔" ( معجم الشیوخ 2/280)
احمد بن احمد بن نعمۃ المقدسی کے ترجمہ میں لکھتے ہیں " وہ عقیدہ سلف کا حامل تھا۔" ( معجم الشیوخ 1/34) (سیر 16/457)
اسی طرح امام دارقطنی نے بھی فرمایا کہ :
" میرے نزدیک علم کلام سے زیادہ ناپسندیدہ چیز کوئی نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ جو آدمی علم کلام اور علم جدال کی دلدل میں داخل نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے بحر ظلمات میں غوطہ زنی کرتا ہے تو یقیناً وہ سلفی ہوتا ہے"
"ابن اصلاح" کے ترجمہ میں فرماتے ہیں " وہ سلفی متکلمین کی تاویل سے مبرا اچھے عقیدہ کا حامل تھا۔ (تذکرہ الحفاظ 4/1431)
عثمان بن بنخرزاذ الطبری کے ترجمہ میں فرماتے ہیں :" حافظ کو اس کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ متقی، زکی، نحوی، لغوی، نیک ، زندہ دل اور سلفی ہو۔" (السیر13/380)
الزبیدی کے ترجمہ میں فرماتے ہیں: " وہ حنفی سلفی تھا۔" ( السیر 20/317)
ابن ھبیرہ کے ترجمہ میں فرماتے ہیں: " وہ مذہب عربی اور عروض کا عالم سلفی اثری تھا۔" ( السیر 20/426)
ابن المجد کے ترجمہ میں فرماتے ہیں " وہ ثقہ، ثابت، زکی، سلفی اور متقی انسان تھا۔" (السیر 23/118)
یحیی بن اسحاق کے ترجمہ میں کہا " وہ مذاہب کا علم رکھنے والا صاحب خیر، تواضع اختیار کرنے والا سلفی اور احکام کو بیان کرنے والے ہیں " ( معجم الشیوخ رقم: 957)
سمعانی ( متوفی 562ھ) اپنی کتاب " الانساب 3/273" میں لکھتے ہیں:
" السلفی: سین اور لام کے فتحہ کے ساتھ آخر میں فاء : یہ سلف کی طرف نسبت ہے۔ اور جیسا کہ میں نے سنا ہے یہ ان کے مذہب کی طرف نسبت ہے۔"
اسی طرح سمعانی اپنی کتاب " الانساب 1/136" پر فرماتے ہیں:
" یہ الاثر کی طرف نسبت ہے یعنی اہل الحدیث، اس کا طالب اور اس کا پیروکار۔"
ابن اثیر (متوفی 630ھ) سمعانی کے گذشتہ کلام کے بعد فرماتے ہیں " اور اس نام سے ایک جماعت معروف ہے۔"
حافظ عراقی (متوفی 806ھ) اپنی معروف و مشہور " الالفیہ الحدیثیۃ" کے ابتدائی ابیات میں فرماتے ہیں:
" اپنے قادر رب سے پُر امید عبدالرحیم بن حسین الاثری کہتا ہے۔"
حافظ سخاوی (متوفی 902ھ) نے " فتح المغیث " 1/3 میں اس کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں " یہ الاثر کی طرف نسبت ہے۔ ایک جماعت بھی اس نام سے موسوم ہے اور کیا خوب انتساب ہے اس کا جو اس فن میں تصنیف کرتا ہے۔"

 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
عصر حاضر کے علماء
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن ابن بازؒ سے جب یہ سوال کیا گیا کہ آپ سلفی اور اثری نام کے متعلق کیا فرماتے ہیں ، کیا یہ خود کی پاکیزگی اور ستائش نہیں ہے؟ تو جواب میں شیخ نے فرمایا:
" اگر وہ اپنے اس دعویٰ اثری اور سلفی میں سچا ہے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ سلف بھی کہا کرتے تھے کہ فلاں سلفی ہے ، فلاں اثری ہے۔ اس سے تو لازمی تزکیہ ہوتا ہے اور یہ تزکیہ واجب ہے۔" ( ایک درس بعنوان " حق المسلم" سے ماخوذ ہے)
اسی طرح طائف میں شیخ ربیع مدخلی کی تقریر بعنوان " التمسک بالمنہج السفی" کے بعد فرماتے ہیں کہ " جو محترم شیخ ربیع نے شیخ محمد بن عبدالوہاب کی دعوت کے متعلق ذکر کیا، وہی حقیقت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ملک پر اس مبارک دعوت کے ذریعے بڑا احسان فرمایا ہے۔ یہ ایک سلفی دعوت ہے لیکن دشمنان خدا نے اس عظیم دعوت کی صورت مسخ کردی اور کہنے لگے یہ بدعتی وہابی ہیں جنہوں نے یہ کیا وہ کیا، وہ بدعتی اور گمراہ ہیں۔ وہ یا تو جاہل ہیں یا کسی جاہل کے مقلد ہیں، یا تیسرا یہ کہ جو خواہشات نفس کا پیروکار ہے جو سمجھ بوجھ کے باوجود اللہ کی نافرمانی کرتا ہے۔ یہ سلفی دعوت کے دشمن ہیں یا جاہل یا جاہل کا مقلد، ورنہ خواہشات کا پیروکار جو کھانے کا متلاشی ہے اور لوگوں کو بھی اپنے کھانے اور خواہشات کے مطابق راضی کرنا چاہتا ہے۔ " ( نسأل الله العافيه)
شیخ رحمہ اللہ نے بعض طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا " میں تمہیں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے ساتھ ملحق رہنے کی نصیحت کرتا ہوں کیونکہ یہ سلفی یونیورسٹی ہے جو اپنے طلبہ کو عقیدہ اہل السنۃ والجماعۃ کی تعلیم دیتی ہے۔" (فتاویٰ 1/98)
ان سے سوال کیا گیا کہ " کلمہ سلف کی کیا تفسیر ہیے جس سے سلفی ہیں ؟ جواباً فرمایا " سلف تو اہل السنۃ و الجماعۃ ہے ۔ محمدﷺ کی اتباع کرنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم اور قیامت تک آنے والے لوگ جو ان کے نقش قدم پر چلیں گے۔ کیونکہ جب نبیﷺ سے فرقہ ناجیہ کے متعلق پوچھا گیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ وہ اس چیز پر کاربند ہوں گے جس پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں ۔۔۔۔۔
اسی طرح اللجنہ الدائمہ نے اپنے ایک فتویٰ میں فرمایا کہ " سلف سے مراد اہل السنۃ و الجماعۃ نبیﷺ کی متبعین ہیں ۔" الفتویٰ رقم (1361) (1/165)
سوال : سلفیت کیا ہے اور اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: سلفیت ، سلف کی طرف نسبت ہے اور سلف سے مراد صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اور قرون ثلاثہ اولی کے ائمہ ھدیٰ مراد ہیں ۔ جن کی گواہی خود رسول اللہ ﷺنے دی۔ (جس کو احمد، بخاری اور مسلم نے ذکر کیا ہے) اور سلفیون، سلفی کی جمع ہے جو کہ سلف کی طرف منسوب ہے۔ ( اللجنہ الدائمہ للبحوث العلمیہ و الافتاء: اراکین۔( عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان ) نائب رئیس ۔ (عبدالرزاق عفیفی) رئیس۔ (عبدالعزیز بن باز)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
سلفیت عربی لغت میں معروف ہے
محدث العصر علامہ البانیؒ سے جب سلفیت کے نام کے متعلق پوچھا گیا کہ کیا یہ گروہی دعوت ہے یا مذہبی یا یہ اسلام میں ایک نیا فرقہ ہے؟
جواب: کلمۃ سلف عربی لغت اور لغت شرعی میں معروف اور مشہور ہے۔ ہم یہاں شرعی اعتبار سے ذکر کئے دیتے ہیں۔ صحیح سند کے ساتھ نبی ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے مرض الموت میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو فرمایا " اللہ سے ڈرتی رہو اور صبر سے کام لو اور میں تمہارے لئے بہترین سلف ہوں ۔"
علماء اس کلمہ "سلف" کو اس کثرت سے استعمال کرتے ہیں جو کہ شمار سے باہر ہے۔ یہ ایک مثال ہمارے لئے کافی ہے۔ بدعت کی مخالفت میں اس کلمہ سے حجت لی جاتی ہے۔ جیسے تمام خیر سلف کی اتباع میں ہے اور سارا شر خلف کی ایجاد کردہ میں ہے۔
لیکن یہاں پر کچھ ایسے مدعیان علم ہیں جو اس نسبت کا انکار کرتے ہیں یہ گمان کرتے ہوئے کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ اور یہ کہتے ہیں کہ " کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ یہ کہے کہ میں سلفی ہوں۔" گویا کہ وہ تو یہ کہہ رہا ہے کہ " کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ یہ کہے کہ میں سلف صالحین کا پیروکار ہوں جس عقیدہ و عبادت پر وہ تھے۔"
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے انکار سے صحیح اسلام سے برات کا مفہوم ظاہر ہوتا ہے وہ اسلام جس پر ہمارے سلف صالحین تھے اور ان میں سرفہرست نبیﷺ ہیں ۔ جیسا صحیحین میں موجود متواتر حدیث اشارہ کررہی ہے۔
آپﷺ نے فرمایا :
" بہترین لوگ میرے زمانہ کے ہیں پھر وہ لوگ جو ان کے ساتھ متصل ہیں، پھر وہ لوگ جو ان سے ملے ہوئے ہیں۔ "
کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ سلف صالحین کی نسبت سے بیزاری کا اظہار کرے جبکہ اس کے علاوہ کسی اور نسبت سے اگر کوئی بیزاری کا اظہار کرتا ہے تو اہل علم میں سے کسی نے اس کو کافر یا فاسق نہیں کہا ۔ اور جو شخص بذات خود اس تسمیہ کا انکار کرتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ کسی مذہب کی طرف بھی نسبت نہ کرے۔ خواہ وہ مذاہب عقیدہ یا فقہ رکھتے ہوں۔
چنانچہ وہ یا تو اشعری ہوں گے یا ماتریدی ہوں گے یا وہ اہل الحدیث، حنفی ، شافعی، مالکی یا حنبلی ہوں گے جو اہل السنۃ و الجماعۃ کے مسمی میں داخل ہوتے ہیں۔ باوجود اس کے جو لوگ مذہب اشعری یا مذاہب اربعہ کی طرف نسبت کرتے ہیں ، حقیقت میں وہ تو غیر معصوم لوگوں کی طرف نسبت ہے ۔ اگرچہ ان میں کچھ وہ علماء ہیں جنہوں نے صواب کے دستے کو پایا ہے۔ ہائے کاش کیوں نہیں ان غیر معصوم اشخاص کی طرف نسبت کا انکار کرتے؟
چنانچہ جو سلف صالحین کی طرف منسوب ہیں وہ عمومی طور پر عصمت کی طرف منسوب ہے ۔ بلاشبہ رسول اللہﷺ نے فرقہ ناجیہ کی علامات ذکر فرمائیں کہ وہ اس چیز کو مضبوطی سے تھامیں گے جس پر رسول اللہﷺ اور ان کے صحابہ رضوان اللہ اجمعین تھے۔ پس جس شخص نے اس کو تھام لیا وہ اللہ کی طرف سے ہدایت پر ہے۔ چنانچہ آپ کہہ سکتے ہیں میں مسلمان ہوں، میں اپنے سلف صالحین کے منہج پر ہوں یا آپ کہیں کہ " میں سلفی ہوں"۔
علامہ محمد بن صالح عثیمین ؒ فرماتے ہیں:
" اس بندے کو غلطی لگی جو یہ کہتا ہے کہ اہل السنۃ و الجماعۃ کے تین گروہ ہیں ، سلفی ، اشعری اور ماتریدی، یہ درست نہیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ سب اہل السنۃ کیسے ہوسکتے ہیں باوجود اس کے وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں !! (حق کے سوا تو صرف گمراہی ہے) یہ سارے اہلسنت کیسے ہوسکتے ہیں جب کہ ان میں ہر ایک دوسرے کی تردید کرتا ہے؟ یہ تب ہی ممکن ہے جب دو متضاد چیزوں کاجمع ہونا ممکن ہو۔ جی ہاں! اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں سے ایک صاحب سنت ہے ، تو وہ کون ہے؟ اشعری؟ ماتریدی؟ یا وہ سلفی ہے؟ ہم کہتے ہیں جو بھی سنت کی موافقت کرے گا وہ سنی ہے اور جو سنت کی مخالفت کرے گا وہ سنی نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں کہ سلف تو اہل السنۃ و الجماعۃ ہے اور یہ وصف ان کے علاوہ کسی اور پر صادق نہیں آتا۔ اور کلمات کا اعتبار ان کے معنی کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہمیں دیکھنا چاہئیے کہ جو سنت کا مخالف ہو ہم اس کا نام اہلسنت کیسے رکھتے ہیں ، یہ ممکن نہیں۔ اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم تین مختلف جماعتوں کے متعلق کہیں کہ وہ ایک ہیں۔ تو یہ اجتماعیت کہاں ہے؟ چنانچہ اہل السنۃ و الجماعۃ ہی سلف ہے اور جو قیامت تک یہ عقیدہ رکھتا ہے ۔ اگر وہ نبی ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے طریقہ پر ہوگا ، تو وہ سلفی ہے۔"
شیخ رحمۃ اللہ شرح عقیدہ سفارینیہ کی کیسٹ اول میں فرماتے ہیں:
" اہل الاثر کون ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو آثار ، کتاب و سنت اور اقوال صحابہ رضوان اللہ اجمعین کی اتباع کرتے ہیں۔ یہ سلفیوں کے علاوہ کسی فرقے پر صادق نہیں آتا ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو طریق سلف کو اختیار کرتے ہیں " اور کیسٹ " اتحاف الکرام" میں ( یہ کیسٹ عنیزہ میں شیخ ربیع مدخلی کی تقریر بعنوان " الاعتصام بالکتاب و السنۃ" کے بعد ریکارڈ ہوئی) فرماتے ہیں " ہم اللہ تعالیٰ کے لئے حمد بجا لاتے ہیں کہ اس نے ہمارے محترم بھائی ربیع بن ھادی المدخلی کو اس علاقے کی زیارت کا موقعہ فراہم کیا۔ یہاں تک کہ ان کو کئی مخفی امور کا علم ہوا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہمارے محترم بھائی کو طریق سلف اختیار کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ سلفیت سے مراد وہ لوگ ہیں جو منہج میں اور خاص طور پر اثبات توحید میں اور اس کی ضد کی مخالفت کرنے میں طریق سلف پر عمل درآمد ہوں۔"
علامہ شیخ صالح فوزان اپنی کتاب البیان کے صفحہ 130 پر فرماتے ہیں:
" یہ دونوں احادیث افتراق اور علیحدگی کے وجود اور سلف و متبعین سلف اور ان کے علاوہ دوسروں کے مابین تمیز و فرق پر دلالت کرتی ہیں۔ سلف اور سلفی نہج پر چلنے والے ہمیشہ اہل السنۃ اور ان کے علاوہ مبتدعہ و فرقہ ضالہ کے مابین فرق و تمیز بیان کرتے رہے ہیں۔ اور ان کا نام اہل السنۃ و الجماعۃ اور سلف صالحین کا اتباع رکھا ہے۔ اس سے ان کی کتب بھری ہوئی ہیں اس لحاظ سے کہ اہل السنۃ اور اتباع سلف کے مخالف گروہوں کی تردید کرتے رہتے ہیں۔"
صفحہ 156 پر فرماتے ہیں:
" سلفیت کا مذہب اختیار کرنا بدعت کیسے ہوسکتا ہے ، بدعت تو گمراہی کا نام ہے۔ ان کے مذہب کی اتباع کرنا بدعت کیسے ہوسکتا ہے، کتاب و سنت سے ان کے مذہب کی اتباع کرنا واجب ہے اور وہ حق ہ ھدایت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَ
ٱلسَّٰبِقُونَ ٱلْأَوَّلُونَ مِنَ ٱلْمُهَٰجِرِينَ وَٱلْأَنصَارِ وَٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوهُم بِإِحْسَٰنٍ رَّضِىَ ٱللَّهُ ﴿١٠٠﴾ التوبۃ
ترجمہ: جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے) پہلے (ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی۔ اور جنہوں نے نیکو کاری کے ساتھ ان کی پیروی کی اللہ ان سے خوش ہے ۔
اور نبیﷺ نے فرمایا کہ:
" میری اور خلفاء راشدین کی سنت کو لازمی پکڑو۔"
چنانچہ مذہب سلف کو اختیار کرنا سنت ہے نہ کہ بدعت اور اس کے علاوہ کسی اور مذہب کو اختیار کرنا بدعت ہے۔
البوطی کے قول پر رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
" اس کا یہ تفسیر کرنا کہ سلفیت ایک وقتی چیز تھی ، باقاعدہ کوئی جماعت نہیں تھی، یہ تفسیر تو بالکل عجیب و باطل ہے۔ کیا کسی وقتی تحریک کو سلفیت کہا جاتا ہے؟ یہ بات تو کسی انسان نے نہیں کہی۔ بلاشبہ سلفیت کا اطلاق تو اس مومن جماعت جس نے اسلام کا ابتدائی دور پایا اور کتاب و سنت کو تھامے رکھا، یعنی مہاجر و انصار اور وہ لوگ جو اخلاص کے ساتھ ان کی اتباع کرتے ہیں۔ جن کے اوصاف رسول اللہ ﷺ نے بیان کئے کہ " تم میں سے بہترین وہ لوگ ہیں جنہوں نے میرا زمانہ پایا ، پھر وہ لوگ جو ان سے ملے ، پھر وہ لوگ جو اُن سے ملے۔" یہ جماعت کا وصف ہے نہ کہ کسی وقتی چیز کی۔ اور جب رسول اللہﷺ نے افتراق امت کا ذکر کیا تو اس میں تمام کے متعلق فرمایا کہ " ایک کے سوا باقی سارے آگ میں جائیں گے۔"
یہ وہی جماعت ہے جو منہج سلف کی متلاشی اور اس پر گامزن ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
" یہ لوگ اس چیز پر قائم ہوں گے جس پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں ..."
یہ حدیث اس دلالت کرتی ہے کہ سابقہ سلفی جماعت ایک تھی اور ایک بعد میں آنے والی جماعت اس کے طریقہ کو اپنائے گی۔ اس کے علاوہ اس کی مخالفت میں کئی جماعتیں ہوں گی جن سے آگ کا وعدہ کیا گیا ہے۔
شیخ حفظہ اللہ حوطہ سدیر کے مقام پر 1416ھ میں اپنی ایک تقریر بعنوان " التحذیر من البدع" میں فرماتے ہیں کہ:
" سلفیت ہی فرقہ ناجیہ ہے ۔ وہ اہل السنۃ و الجماعۃ ہے ۔ یہ موجودہ گروہوں میں سے کوئی گروہ نہیں بلکہ وہ جماعت ہے جو سنت و دین پر قائم ہے، وہ اہل السنۃ و الجماعۃ ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے " میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر رہے گی ، مخالفین کی مخالفت اور دست کشی کچھ نقصان نہیں دے گی۔" اور فرمایا " عنقریب یہ امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، ایک کے سوا سارے جہنمی ہیں۔" صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول وہ ایک فرقہ کون سا ہوگا تو آپﷺ نے فرمایا " یہ اس چیز پر کاربند ہوں گے جس پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں۔"
سلفیت مذہب سلف کی پیروکار ہے جو رسول اللہﷺ اور آپ کے جاں نثار صحابہ کا طریقہ ہے۔ یہ عصر حاضر کے بدعتی گروہوں میں سے نہیں ہے بلکہ ایک قدیم جماعت ہے جو عہد رسالت سے چلی آرہی ہے۔ اگر حقیقت میں بھی سلفی ہو تو سلفیت کے نام رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ محض دعویٰ کسی کام کا نہیں۔ مذہب اہل السنۃ و الجماعۃ پر ہونے کا مدعی ہے تو اس کو پھر ان کا طریقہ بھی اپنانا ہوگا اور مخالفین کو چھوڑنا پڑے گا۔ اور جو شخص عصر حاضر کی تمام ضلالت و گمراہی کو منہج السنۃ و الجماعۃ کے ساتھ ملانا چاہتا ہے تو اس کو ذہن نشین ہونا چاہیئے کہ اس امت کے پچھلے لوگوں کی اصلاح اس چیز میں ممکن ، جس میں پہلے لوگوں کی اصلاح ممکن تھی۔ ( الاجوبہ المفیدہ عن اسئلہ المنہج الجدید ص 16)
پھر فرمایا کہ سلفی منہج سے مراد وہ طریقہ ہے جس پر اس امت کے گذشتہ لوگ کاربند تھے یعنی صحابہ تابعین اور ائمہ جن کا عقیدہ صحیح منہج سلیم صادق ایمان اور اسلام کو عقیدے، شریعت، ادب اور سلوک کے لحاظ سے تھامے ہوئے تھے، برخلاف اس کے جس پر بدعتی اور منحرف قسم کے لوگ عامل ہیں۔
مذہب سلف کی دعوت دینے والوں میں مشہور ائمہ اربعہ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ ان کے تلامذہ، شیخ محمد بن عبدالوہاب اور ان کے تلامذہ وغیرہ ہیں۔ یہ نام تو اہل باطل اور ان کے درمیان تمیز کرتے ہیں۔

شیخ محمد بن امان الجامیؒ " الصفات الالھیۃ" کے صفحہ 64 اور 65 پر فرماتے ہیں:
" سابقہ کلام سے واضح ہوا کہ سلفیت ایک معروف اصطلاح ہے جس کااطلاق پہلی جماعت (صحابہ) اور اس شخص پر ہوتا ہے جو تلقی علم ، طریق فہم اور اس کی دعوت دینے میں ان کی موافقت کرے گا۔ چنانچہ اس کو کسی معین تاریخی دور میں محصور کرنا درست نہیں بلکہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سلفیت کا مدلول انسانی زندگی کی طرح جاری و ساری ہے اور فرقہ ناجیہ کو علماء الحدیث میں محصور کرنا ضروری ہے اور یہ ہی لوگ اس منہج کا حامل ہیں اور یہ قیامت تک زندہ جاویداں رہیں گے۔ آپﷺ کا فرمان ہے " میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر رہے، مخالفین کی مخالفت ان کو کچھ نقصان نہ دے گی۔"
شیخ بکر ابو زیدؒ اپنی معروف کتاب " حکم الانتماء" میں فرماتے ہیں:
" جب سلف یا سلفیوں کے متعلق پوچھا جائے تو سلف کی طرف نسبت تمام صحابہ اور خواہشات نفسانی سے ہٹ کر اخلاص سے ان کی اتباع کرنے والے مراد ہیں۔ نبوی منہج پر ثابت قدم رہنے والوں کو سلف صالحین کی طرف منسوب کیا گیا۔ ان کو سلف، سلفیون کہا گیا ، ان کی طرف نسبت سے وہ سلفی کہلائےگئےاور اس لفظ کا اپنے اطلاق ہر اس آدمی پر ہوتا ہے جو صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی اقتداء کرتا ہو، چاہے وہ ہمارے اس دور کا ہی کیوں نہ ہو۔ یہ تو ایسے ہی جیسے کلمہ اہل علم کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہ ایسی عظیم نسبت ہے جس کے طور طریقہ کتاب و سنت کے مقتضی سے باہر نہیں ۔ یہ ایسی نسبت ہے جس کا ابتدائی دور سے ایک لحظہ بھی تعلق نہیں ٹوٹتا ۔ بلکہ یہ اُن سے شروع ہوتی ہے اور اُن پر ہی ختم ہوتی ہے۔ اور جو شخص ان سے نام اور طور طریقہ میں مخالفت کرے گا وہ کبھی بھی سلفی نہیں ہوگا چاہے ان کے زمانہ میں بقید حیات ہو۔" (حکم الانتماء – صفحہ 36)
سعودی حکومت اللہ اسکی حفاظت فرمائے، سلفی حکومت ہے ، اس کی دعوت سلفی ہے۔
امام عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن آل سعود ؒ نے فرمایا تھا کہ
" میں ایک سلفی آدمی ہوں، میرا عقیدہ اس سلفیت کے مطابق ہے جو کہ کتاب و سنّت کے تقاضہ کے مطابق ہے۔"
اپنے ایک خطاب میں انہوں نے فرمایا:
" کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم وہابی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم تو سلفی ہیں، اپنے دین کے محافظ ہیں ، کتاب و سنّت کے پیروکار ہیں ۔ ہمارے اور مسلمانوں کے مابین کتاب اللہ اور سنّت رسول اللہﷺ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ (المصحف و السیف ۔ صفحہ 135)
ان کے متعلق محدّث شیخ احمد شاکر عمدۃ التفسیر کے مقدمہ میں فرماتے ہیں:
" امام اہلسنت ، مذہب سلف کو جِلا بخشنے والا، اسلامی ترقی کا باعث "
بلاشبہ اس مبارک حکومت کے سارے امراء و حکمران اسی طریقہ پر چلتے رہے ۔ اسی طرح خادم الحرمین الشریفین ملک عبداللہ بن عبدالعزیز حفظہ اللہ اور ولی العہد امیر سلمان حفظہ اللہ اور ان کے بھائی اور ساتھی یہ اعلان کرتے رہے ہیں کہ یہ سلفی حکومت ہے اور وہ بھی سلفی ہیں۔ اور سلفیت ہی محمد بن سعود اور محمد بن عبدالوہابؒ کے دور سعید اختیار شدہ ہے جس کی صراحت امیر نایف بن عبدالعزیز حفظہ اللہ نے کئی مرتبہ فرمائی۔
شیخ صالح فوزان فرماتے ہیں:
" ہاں ہم سلفی ہیں اور سلفی رہیں گے۔"
جامعہ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ ریاض میں ایک کمیٹی بعنوان " السلفیہ منہج شرعی و مطلب وطنی" کے افتتاح کے موقع پر جو صاحب السمو الملکی امیر نایف بن عبدالعزیز حفظہ اللہ ، ولی العہد ، نائب رئیس مجلس الوزراء اور وزیر داخلہ کی گفتگو ہم نے سنی اور پڑھی۔ یہ ایسی صاف ستھری اور سچی گفتگو تھی جو اس بات کی متقاضی ہے کہ الحمد للہ ملک سعودی عرب پہلے اور آج بھی منہج سلف پر قائم ہے اور یہ حقیقت ہے صرف خام دعویٰ نہیں ہے۔ بحمدللہ جو اس کے بقاء اور استمرار کو متضمن ہے باوجود اس کے تطہیر و تمحیص کے مسائل سے بھی دو چار ہوئے۔ جیسا کہ رسول اللہﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو غزوہ احد، احزاب اور حنین میں پیش آئے۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں میں یہ قانون رہتا ہے تاکہ کھوٹے کھرے میں فرق کرے، مومنوں کو مضبوط اور منافقین کو کمزور کرے۔
موصوف حفظہ اللہ نے بیان کیا کہ:
حقیقی سلفیت وہ منہج ہے جو اپنے کتاب و سنت سے اخذ کرتا ہے۔ اس منہج کے ذریعے ہر تہمت سے مبراء ہوتے ہیں اور مدعیان سے بھی علیحدہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ آج کل سلفیت کا دعویٰ کرنے والےحضرات بہت ہیں لیکن یہ دعویٰ تو سچائی کے ساتھ ہی ثابت ہوتا ہے اور یہ تب ہی ہوسکتا ہے کہ پہلے منہج سلف کی معرفت حاصل ہو، دوسرا اس کے مطابق عمل بھی ہو۔ جب کوئی دلیل نہ ہو تو پھر یہ کھوکھلے دعوے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَ
ٱلسَّٰبِقُونَ ٱلْأَوَّلُونَ مِنَ ٱلْمُهَٰجِرِينَ وَٱلْأَنصَارِ وَٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوهُم بِإِحْسَٰنٍ رَّضِىَ ٱللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا۟ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّٰتٍ تَجْرِى تَحْتَهَا ٱلْأَنْهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ ﴿١٠٠﴾ التوبۃ
ترجمہ: اور مہاجرین و انصار میں سے سبقت کرنے والے اور جن لوگوں نے نیکی میں ان کا اتباع کیا ہے ان سب سے خدا راضی ہوگیا ہے اور یہ سب خدا سے راضی ہیں اور خدا نے ان کے لئے وہ باغات مہیا کئے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور یہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔
چنانچہ سلف صالح تو مہاجر و انصار صحابہ اور جو اخلاص کے ساتھ ان کی پیروی کرتا ہے۔ یعنی ان کی اتباع جب پختہ اور مضبوط ہوکہ ان کے منہج کی تشہیر کرے کسی جہالت کا شکار نہ ہو اور اس منہج کو مضبوطی سے تھامے اور بدلے میں جب تکلیفیں اور رکاوٹیں آئیں ان پر صبر و استقامت کا مظاہرہ کرے۔ خلف کی عقائد و عبادات میں ایجاد کردہ نئی بدعات سے برأت کا اعلان کرے۔ جیسا کہ نبیﷺ کا فرمان ہے " تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا۔ تو تم پر لازم ہے میرے بعد میری اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنّت کو اختیار کرو۔ اور اس کو مضبوطی سے تھامے رکھنا اور دین میں نئے امور سے بچنا کیونکہ دین میں ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔"
حقیقی سلفیت ہر قسم کے غلو ، زیادتی، تساہل اور سستی سے بری ہے۔ اور ہر اس شخص سے بری ہے جوکسی جماعت کی بنیاد رکھتا ہے اور اسکی دعوت دیتا ہے کبھی یہ جماعت تدین و تمسک کے نام سے اور کبھی تیسیر و نرمی کے نام سے موسوم ہوتی ہے ۔
ہر کوئی لیلیٰ سے مل چکنے کا مدعی ہے اور لیلیٰ تو ان کی اس بات کو تسلیم ہی نہیں کرتی
بلاشبہ یہ حکومت امام محمد بن سعود اور امام محمد بن عبدالوہاب کی تاسیس سے لے کر آج تک منہج سلف پر ہے۔ اور اسی وجہ سے سر بلند ہے۔ یقیناً یہ ملک پسماندگی، فقر اور دینی اور دنیاوی انتشار کا شکار تھا۔ عقیدہ و عبادت اور حکم میں مذہب خلف پر تھاجس کا نہ کوئی ڈھانچہ تھا اور نہ ہی کوئی امن و استقرار تھا۔اُس وقت کے علماء اکثر طور عقیدہ میں منہج خلف پر تھے۔ان کی عبادت میں شرکیات و خرافات پھیلی ہوئی تھیں اور لاقانونیت کا دور دورہ تھا ۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے امام مجدد محمد بن عبدالوہاب اور ان کے ناصر و مؤید امام محمد بن سعود کے ذریعے اس ملک پر دعوت توحید کے ساتھ احسان فرمایا اور اس مبارک حکومت کا قیام کتاب و سنّت کے منہج پر ہوا۔ بات وہی ہے جو امیر نایف حفظہ اللہ نے فرمائی۔ یہ حکومت اسی پر رہی ہے اور بحمدللہ اسی پر رہے گی جب اس کو تھامے رکھے گی۔
پھر موصوف حفظہ اللہ نے فرمایا:
" اس بات کو بخوبی جان لو کہ جو آدمی اس کے منہج پر طعن کرتا ہے یا شبہات پیدا کرتا ہے وہ توجاہل ہے اس کی حقیقت کا جاننا اس پر لازم ہے۔ "
میں کہتا ہوں کہ جب سے اس حکومت کا قیام ہوا ہے اس منہج کے بارے میں ان کو کئی اتہام اور شبہات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ کوئی عجیب نہیں کیونکہ خود نبیﷺ نے یہودی ، نصاریٰ اور مشرکین کے ان شبہات اور اتہام کا سامنا کیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اُن کی جس چیز کا اپنے قران میں کثرت سے ذکر کیا ہے اور اسکی تردید فرمائی۔
جب سے اس حکومت کی تاسیس ہوئی ہے اس کے منہج کے بارے میں دشمنان، حاسدین، منافقین، مبتدعین اور منحرفین کی طرف سے وہی چیز درپیش آئی ہے جس کی گواہی تاریخ اور اس منہج کے علماء کی کتب شیخ محمد بن عبدالوہاب سے لےکر آج تک دے رہی ہیں۔ اس لئے ہمیں شیخ محمد بن عبدالوہاب کی کتاب کشف الشبہات کا مطالعہ کرنا چاہیئے ۔ اس کے علاوہ اُن کتب کا مطالعہ کرنا چاہیئے جو اس شبہات کی تردید میں لکھی گئی ہیں۔
پھر موصوف حفظہ اللہ نے فرمایا کہ:
اور یہ کمیٹی اس اضافہ کے ساتھ کہ اس جامعہ کے قیام کا مقصد بھی منہج قدیم کو بیان کرتے ہوئے حقائق کی توضیح کرنا ہے جو کسی جھوٹ، افتراء پردازی اور غلط مفاہیم کی متحمل نہیں ہے۔ جیسا کہ تکفیر ، غلو اور ارھاب وغیرہ کا اسلوب ہوتا ہے۔ اور ہم سب کو ان کے خلاف صف بستہ ہوکر ان شبہات اور بے بنیاد باتوں کا مقابلہ کریں جس سے ان کی بیخ کنی اور بے سروپائی ظاہر ہوجائے۔
میں کہتا ہوں الحمدللہ اس دعوت کے علمبردار ساری دنیا کے علماء نے اپنی کتب میں ان شبہات کی تردید کی ہے جو کہ طباعت سے آراستہ ہو چکی ہیں اور متداول ہیں۔
موصوف حفظہ اللہ نے کہا کہ:
"میں جامعہ الامام کو مشورہ دوں گا کہ ان کتب کی طباعت دوبارہ سے کرے اور ان کو تقسیم کرے۔ جیسا کہ اس مبارک منصوبے کو مکمل کیا ہے۔ اور جو بھی اس دعوت کے مقابلے میں آیا وہ ناکام وہ نامراد ہی لوٹا ہے ، بلاشبہ ساری دنیا جیسے شام، مصر، ہند ، سوڈان اور یمن وغیرہ کے کبار علماء کی تائید اور معاونت اس دعوت کو حاصل رہی ہے۔
اس عظیم دعوت کے منہج پر کئی جماعتوں کا قیام ہوا جو توحید کی طرف دعوت دیتی ہیں۔ جیسے ہند میں جماعت اہل حدیث ، مصر و سوڈان وغیرہ میں انصار السنۃ اور یمن میں جماعۃ اہل السنۃ و التوحید ہیں۔ اور اس طرح مکاروں کی مکاری ناکام ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ (٣٢)
یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو
میرے عزیز بھائیو ! ہم اس چیز کی تاکید کئے دیتے ہیں ۔ باذن اللہ یہ حکومت سلفی منہج کی ہی پیروکار رہے گی۔ یہ ہی اس کی عظمت ، شرافت اور رفعت کی اصل ہے۔ جیسا کہ اس کی ترقی اور خوشحالی کی اصل بھی یہ ہی ہے گویا کہ اس دین اور دنیا کو جمع کردیا ہے جیسے یہ دینی منہج ہے ویسے ہی یہ دنیاوی منہج بھی ہے جو ترقی و کامیابی کے اسباب کو لینے اور پُر امن بقائے باہم اور دوسروں کے حقوق کا احترام کرنے کی داعی بھی ہے۔"
میں کہتا ہوں یہ امیر محترم کی جانب سے تمام اہلسنت کے لئے وعدہ ہے کہ اللہ کی توفیق سے سعودی حکومت سلف صالحین کے منہج پر کاربند ہے اور اس گفتگو میں اس حکومت کے دشمنوں کے لئے مایوسی اور ناامیدی ہے جو سر توڑ یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ اس کو منہج سلف صالحین سے ہٹا کر منحرف مناہج کی طرف پھیر دیں۔ ان پارٹیوں میں سے وہ بھی ہیں جو حکومت کو چھیننا چاہتے ہیں۔ اس ملک عظیم میں صوفی اور گمراہ قسم کی جماعتیں سنت کو مٹانے اور صوفیت و بدعات کو رائج کرنا چاہتی ہیں اور جاہل و متشددین قسم کی جماعتیں اور لبرل قسم کے لوگ چاہتے ہیں کہ یہ حکومت حد اعتدال سے نکل کرغلو و زیادتی پر آجائے یا تساہل اور نرمی کا برتاؤ کرے۔
موصوف حفظہ اللہ نے اپنی گفتگو میں یہ فرمایا کہ:
" یہ وہی منہج ہے جس پر حکومت کا قیام ہے یہ ہی اس کی عزت، شرافت اور رفعت کی اصل و جڑ ہے۔"
میں کہتا ہوں کہ :
اس بات کے شاہد یہ علاقے ہیں جو اس مبارک حکومت سے قبل انتشار ، تفرقہ، فقر و تنگی کی مصیبت سے دو چار تھے۔ اور موصوف حفظہ اللہ کہ یہ کہنا کہ اس منہج نے اصل اور معاصرت دونوں کو ہی جمع کردیا ہے، میں کہتا ہوں کہ اس لئے کہ یہ دین ہر زمان ومکان کے لئے مناسب ہے۔ جیسا کہ امام مالکؒ کا قول ہے " اس امت کے متاخرین کی اصلاح اس میں ممکن ہے جس میں پہلے لوگوں کی ممکن تھی۔"
موصوف حفظہ اللہ نے فرمایا کہ " یہ ایک دینی شرعی منہج ایسے ہی یہ دنیاوی منہج بھی ہے جو ترقی و کامیابی کے اسباب اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "
میں کہتا ہوں یہ بات تو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مصداق ہے : " آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا۔" اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : " اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔"
موصوف حفظہ اللہ کا یہ کہنا کہ " یہ منہج قدیم ہمیں باہمی امن اور دوسروں کے حقوق کا احترام کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے ان فرامین کے مطابق ہے :
وَلَا تَعْتَدُوٓا
۟ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلْمُعْتَدِينَ ﴿١٩٠﴾ البقرۃ
ترجمہ: مگر زیادتی نہ کرنا کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:

ۖ فَمَا ٱسْتَقَٰمُوا۟ لَكُمْ فَٱسْتَقِيمُوا۟ لَهُمْ ﴿٧﴾ التوبۃ
ترجمہ: جب تک وہ لوگ اپنے عہد پر قائم رہیں تم بھی قائم رہو ۔
اور یہ کہ:

ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَـَٔانُ قَوْمٍ عَلَىٰٓ أَلَّا تَعْدِلُوا۟ ۚ ٱعْدِلُوا۟ هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ ﴿٨﴾ المائدۃ
ترجمہ: کسی قوم کی عداوت تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ انصاف کو ترک کردو -انصاف کرو کہ یہی تقوٰی سے قریب تر ہے ۔
اور:
لَّا يَنْهَىٰكُمُ
ٱللَّهُ عَنِ ٱلَّذِينَ لَمْ يُقَٰتِلُوكُمْ فِى ٱلدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَٰرِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوٓا۟ إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُقْسِطِينَ ﴿٨﴾ الممتحنۃ
ترجمہ: جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے اللہ تم کو منع نہیں کرتا۔ اللہ تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ امیر محترم پر برکتوں کی برکھا برسائے اور اس گفتگو کو ان کی نیکی کے پلڑے میں ڈال دے۔ آمین
وصلی اللہ وسلم علی نبینا محمد و صحبہ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
سلفی منہج میں خلل بننے والی باتیں
جو لوگ اپنے مال کو بدعتی اور منحرف لوگوں پر خرچ کرتے ہیں اور موحدین کو اس میں سے کچھ نہیں دیتے اور نہ ان کی کسی قسم کی معاونت کرتے ہیں۔ صرف ان جماعتوں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں یا ان جماعتوں اور سلفی دونوں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں اس حجت کی بناء پر کہ ہم اختلاف اور تفریق نہیں بلکہ آپس میں ملانا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگ منافقین سے مشابہت رکھتے ہیں جن کی حالت زار کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
إِنْ أَرَدْنَآ إِلَّآ إِحْسَٰنًا وَتَوْفِيقًا ﴿٦٢﴾ النساء
ترجمہ: کہ ہمارا مقصد صرف نیکی کرنا اور اتحاد پیدا کرنا تھا۔
چنانچہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اسکی نکیر کرے یہاں تک کہ وہ سچا سلفی بن جائے، شرک کے طوق کو اتار پھینکے اور مشرکین سے برأت اختیار کرے۔ بلکہ ان کی مخالفت کا سراسر اعلان کرے پھر اس راہ میں جو مصائب و تکالیف آئیں کو صبر سے جھیلے۔ شرک اور مشرکین و منحرفین کی برأت کے بغیر صرف ایمان ہی ہوتا تو نبی اکرمﷺ کے چچا ابو طالب کو بھی نفع ہوتا جو یہ کہتا تھا کہ " بلاشبہ مجھے یقین ہے میرے بھتیجے محمدﷺ کا دین دنیا کے تمام ادیان سے بہتر ہے، اگر یہ ملامت یا عار نہ بنتی تو میں کھلے عام اس کو قبول کرتا۔"
ایمان سے پہلے ضروری ہے کہ طاغوت کا انکار کیا جائے۔ ابن قیمؒ فرماتے ہیں:
" کسی جگہ کوئی چیز رکھنے سے پہلے اس کی متضاد چیزوں کو نکالنا مشروط ہے جس طرح یہ ذات اور اعیان میں ہوتا ہے۔ ویسے ہی یہ اعتقاد میں جاری ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر دل غلط عقیدہ و محبت سے لبریز ہوگا تو سچے عقیدے اور اس کی محبت کے لئے تو جگہ ہی نہیں ہوگی۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: فَمَن يَكْفُرْ بِ
ٱلطَّٰغُوتِ وَيُؤْمِنۢ بِٱللَّهِ فَقَدِ ٱسْتَمْسَكَ بِٱلْعُرْوَةِ ٱلْوُثْقَىٰ لَا ٱنفِصَامَ لَهَا ۗ ﴿٢٥٦﴾ البقرۃ
ترجمہ: جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے معبودوں کا انکار کر کے اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا، جو کبھی نہ ٹوٹے گا۔
سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِىٓ إِبْرَٰهِيمَ وَ
ٱلَّذِينَ مَعَهُۥٓ إِذْ قَالُوا۟ لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَءَٰٓؤُا۟ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ ٱلْعَدَٰوَةُ وَٱلْبَغْضَآءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا۟ بِٱللَّهِ وَحْدَهُ ﴿٤﴾ الممتحنۃ
ترجمہ: تم لوگوں کے لیے ابراہیمؑ اور اُس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا ہم تم سے اور تمہارے اِن معبودوں سے جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں، ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہو گئی اور دشمنی پڑ گئی جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ ۔
ایک سلفی کے لئے ضروری ہے کہ دل و جان سے ان کو چھوڑ دے محرمات ترک کردے واجبات کو ادا کرے، اس پر آنے والے مصائب کو برداشت کرے، جب قتال واجب ہو تو دشمنان دین سے قتال کرے اور ان مبتدعین و منحرفین سے نفرت کرے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِ
ٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ يُوَآدُّونَ مَنْ حَآدَّ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَلَوْ كَانُوٓا۟ ءَابَآءَهُمْ أَوْ أَبْنَآءَهُمْ أَوْ إِخْوَٰنَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ كَتَبَ فِى قُلُوبِهِمُ ٱلْإِيمَٰنَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ ۖ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَا ۚ رَضِىَ ٱللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا۟ عَنْهُ ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ حِزْبُ ٱللَّهِ ۚ أَلَآ إِنَّ حِزْبَ ٱللَّهِ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ ﴿٢٢﴾ المجادلۃ
ترجمہ: جو لوگ اللہ پر اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہیں تم ان کواللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی کرتے ہوئے نہ دیکھو گے۔ خواہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا خاندان ہی کے لوگ ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان (پتھر پر لکیر کی طرح)تحریر کردیا ہے اور فیض غیبی سے ان کی مدد کی ہے۔ اور وہ ان کو بہشتوں میں جن کے تلے نہریں بہہ رہی ہیں داخل کرے گا ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ اللہ ان سے خوش اور وہ اللہ سے خوش۔ یہی گروہ اللہ کا لشکر ہے۔ (اور)سن رکھو کہ اللہ ہی کا لشکر مراد حاصل کرنے والا ہے۔
مصائب پر بھی لازم صبر کرنا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
أَحَسِبَ
ٱلنَّاسُ أَن يُتْرَكُوٓا۟ أَن يَقُولُوٓا۟ ءَامَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ ﴿٢﴾ العنکبوت
ترجمہ: کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ صرف یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے چھوڑ دیئے جائیں گے اور اُن کی آزمائش نہیں کی جائے گی۔
دین سے استہزاء کرنے والوں کی مجلس سے دور رہنا ضروری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِى
ٱلْكِتَٰبِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ ءَايَٰتِ ٱللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا۟ مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا۟ فِى حَدِيثٍ غَيْرِهِۦٓ ۚ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ ﴿١٤٠﴾ النساء
ترجمہ: اور اللہ نے تم (مومنوں) پر اپنی کتاب میں (یہ حکم) نازل فرمایا ہے کہ جب تم (کہیں) سنو کہ اللہ کی آیتوں سے انکار ہورہا ہے اور ان کی ہنسی اڑائی جاتی ہے تو جب تک وہ لوگ اور باتیں (نہ) کرنے لگیں۔ ان کے پاس مت بیٹھو۔ ورنہ تم بھی انہیں جیسے ہوجاؤ گے۔
اور ان کی خواہشات نفسانی کی اتباع سے منہ پھیرنا ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَلَئِنِ
ٱتَّبَعْتَ أَهْوَآءَهُم بَعْدَ ٱلَّذِى جَآءَكَ مِنَ ٱلْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ ٱللَّهِ مِن وَلِىٍّ وَلَا نَصِيرٍ ﴿١٢٠﴾ البقرۃ
ترجمہ: اور اگر آپ نے باوجود اپنے پاس علم آجانے کے، پھر ان کی خواہشوں کی پیروی کی تو اللہ کے پاس آپ کا نہ تو کوئی ولی ہوگا اور نہ مددگار۔
کفار کی طرف میلان اور ان کی معاونت کے بغیر سلفی لوگوں کی تائید و اعانت کرنا واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَا تَرْكَنُوٓا
۟ إِلَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُوا۟ فَتَمَسَّكُمُ ٱلنَّارُ ﴿١١٣﴾ ھود
ترجمہ: دیکھو ظالموں کی طرف ہرگز نہ جھکناورنہ تمہیں بھی ( دوزخ کی) آگ لگ جائے گی۔
ان کے ساتھ سکونت پذیر ہونا، ان کی اطاعت و تائید کرنا، ان کے دستور و قانون کے مطابق فیصلہ کرنا قطعاً جائز نہیں ۔ مسلمانوں کا دستور قران ہی ہے۔ مؤمنین کی سبیل کی اتباع کرنا اور عقیدہ الولاء و البراء کو استوار کرنا لازم ہے۔
ہر قسم کی قومیت ، وطنیت ، لسّانیت کو ترک کردے۔ کتاب و سنّت کی تمام نصوص کے ساتھ مطلقاً اللہ تعالیٰ کی اطاعت بجا لانا ، اس کی شرعیت کے مطابق فیصلہ کرنا، دین اور اہل دین سے محبت کرنا، دنیا کو ایمان و آخرت پر فوقیت نہ دینا، رسول اللہﷺ کا ادب کرنا، ارکان ستہ پر ایمان واجب ہے۔ تکفیر ذہن اور اس کے افکار و خیالات سے دور رہنا ، عقیدہ ، عبادات، شرعی معاملات اور نظام حیات کے مابین احکام کی تفریق نہ کرنا لازم ہے۔ اللہ و رسولﷺ کے فیصلے پر راضی رہنا ، کفار سے مشابہت نہ کرنا، اختلاف و تفرقہ بازی سے دور رہنا، ارکان اسلام کا اہتمام کرنا، اور جاہلی دعووں سے اجتناب برتنا انتہائی ضروری ہے۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے " وہ آدمی ہم میں سے نہیں جو اپنے رخسار کو پیٹتا ہے، گریبان چاک کرتا ہے اور جاہلیت کی پکار پکارتا ہے۔" ( بخاری 1297 و مسلم 103)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آسانی کو اختیار کرنا سلف کے اصول میں سے ہے
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : فَإِنَّ مَعَ ٱلْعُسْرِ يُسْرًا ﴿٥﴾ إِنَّ مَعَ ٱلْعُسْرِ يُسْرًا ﴿٦﴾ الشرح
ترجمہ: ہاں مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے (اور) بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
اور رسول اللہﷺ کا طریقہ یہ تھا کہ : جب ان کو دو چیزوں میں اختیار دیا جاتا تو اس میں سے جو زیادہ آسان ہوتی ، اس کو اختیار کرتے تھے جب تک کہ اس میں کسی قسم کا گناہ یا قطع تعلقی نہ ہوتی۔
چنانچہ اسلام تو سارے کا سارا آسانی اور خیر کا دین ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَدْعُونَ إِلَى
ٱلْخَيْرِ ﴿١٠٤﴾ آل عمران
ترجمہ: وہ تو خیر کی طرف بلاتے ہیں۔
اور یہ معروف اچھائی کا دین ہے۔ ارشاد ہے: وَيَأْمُرُونَ بِ
ٱلْمَعْرُوفِ ﴿١٠٤﴾ آل عمران
ترجمہ: وہ اچھائی کا حکم دیتے ہیں۔
یہ صلہ رحمی ، نیکی ،احسان ، اچھے اخلاق اور سختی ، تنگی کو ختم کرنے کا دین ہے۔ بلاشبہ یہ اخوت و مؤدت اور سب کے ساتھ حسن معاملہ کرنے کا دین ہے۔ کسی کو بھی ایمان لانے پر مجبور نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَمَن شَآءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَآءَ فَلْيَكْفُرْ
ۚ ﴿٢٩﴾ الکہف
ترجمہ: اب جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔
جو کسی ذمی کو ایذاء پہنچائے گا تو قیامت کے دن خود رسول اللہ ﷺ اُس سے جھگڑا کریں گے۔ یہ دین کافروں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَّا يَنْهَىٰكُمُ
ٱللَّهُ عَنِ ٱلَّذِينَ لَمْ يُقَٰتِلُوكُمْ فِى ٱلدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَٰرِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوٓا۟ إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُقْسِطِينَ ﴿٨﴾ الممتحنۃ
ترجمہ: جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے اللہ تم کو منع نہیں کرتا۔ اللہ تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
ایک اور جگہ فرمایا:
قُلْ يَٰٓأَهْلَ
ٱلْكِتَٰبِ تَعَالَوْا۟ إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَآءٍۭ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا ٱللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِۦ شَيْـًٔا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ ٱللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا۟ فَقُولُوا۟ ٱشْهَدُوا۟ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ ﴿٦٤﴾ آل عمران
ترجمہ: کہہ دو کہ اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں (تسلیم کی گئی) ہے اس کی طرف آؤ وہ یہ کہ اللہ کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا کار ساز نہ سمجھے اگر یہ لوگ (اس بات کو) نہ مانیں تو (ان سے) کہہ دو کہ تم گواہ رہو کہ ہم (اللہ کے) فرماں بردار ہیں۔
فرمایا کہ:
لَآ إِكْرَاهَ فِى
ٱلدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ ٱلرُّشْدُ مِنَ ٱلْغَىِّ ۚ ﴿٢٥٦﴾ البقرۃ
ترجمہ: دین (اسلام) میں زبردستی نہیں ہے ہدایت (صاف طور پر ظاہر اور) گمراہی سے الگ ہو چکی ہے ۔
بلاشبہ یہود و نصاری جب تک انہوں نے خود جنگ شروع نہیں کی وہ بغیر کسی ایذاء کےاسلام اور مسلمانوں کے زیر سایہ رہے ہیں۔ چنانچہ جو مسلمانوں سے لڑائی کرتا ہے تو مسلمان اس سے لڑتے ہیں:
إِنَّمَا يَنْهَىٰكُمُ
ٱللَّهُ عَنِ ٱلَّذِينَ قَٰتَلُوكُمْ فِى ٱلدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَٰرِكُمْ وَظَٰهَرُوا۟ عَلَىٰٓ إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلظَّٰلِمُونَ ﴿٩﴾ الممتحنۃ
ترجمہ: اللہ ان ہی لوگوں کے ساتھ تم کو دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں اوروں کی مدد کی۔ تو جو لوگ ایسوں سے دوستی کریں گے وہی ظالم ہیں۔
پھر فرمایا:
فَإِن قَٰتَلُوكُمْ فَ
ٱقْتُلُوهُمْ ۗ كَذَٰلِكَ جَزَآءُ ٱلْكَٰفِرِينَ ﴿١٩١﴾ البقرۃ
ترجمہ: اگر یہ تم سے لڑیں تو تم بھی انہیں مارو کافروں کا بدلہ یہی ہے۔
چنانچہ یہ دین لوگوں کو آگ سے دور ہوئے اور جنت میں جانے کی دعوت دیتا ہے۔ اور ان کو نیکی و بھلائی کا حکم اور برائی سے روکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ
ۥ ﴿٧﴾ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُۥ ﴿٨﴾ الزلزلۃ
ترجمہ: تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔
اور فرمایاکہ:
فَأَمَّا مَنْ أَعْطَىٰ وَ
ٱتَّقَىٰ ﴿٥﴾ وَصَدَّقَ بِٱلْحُسْنَىٰ ﴿٦﴾ فَسَنُيَسِّرُهُۥ لِلْيُسْرَىٰ ﴿٧﴾ اللیل
ترجمہ: تو جس نے (اللہ کے رستے میں مال) دیا اور پرہیز گاری کی اور نیک بات کو سچ جانا اس کو ہم آسان طریقے کی توفیق دیں گے۔
مزید فرمایا:
فَ
ٱعْفُوا۟ وَٱصْفَحُوا۟ حَتَّىٰ يَأْتِىَ ٱللَّهُ بِأَمْرِهِۦٓ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ ﴿١٠٩﴾ البقرۃ
ترجمہ: تو تم معاف کردو اور درگزر کرو۔ یہاں تک کہ اللہ اپنا (دوسرا) حکم بھیجے۔ بے شک خدا ہر بات پر قادر ہے۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : " اللہ تعالیٰ ایسے شخص پر رحم کرے جو بیچتے وقت اور خریدتے وقت اور تقاضہ کرتے وقت فیاض اور نرمی سے کام لیتا ہے۔" (بخاری 7076)
اسلام تو نرمی ، سہولت، جودو سخا ، کرم اور لوگوں کو فاسق نہ کہنے یا ان پر تشدد نہ کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ اور حقیقت کو جاننے ، لوگوں کے عذر قبول کرنے ، اچھا گمان رکھنے، لوگوں کے بارے میں شرح صدر رکھنے ، ان سے خندہ پیشانی سے پیش آنے اور قضاء و قدر کے مطابق جو ہوا ، اس پر مطمئن اور راضی رہنے اور اور لوگوں کو خندہ پیشانی سے استقبال کرنے ، سلام کو عام کرنے ، اچھے استقبال ، گفتگو اور مصافحہ کرنے ، بڑوں کا احترام، چھوٹے اور ضعیف پر شفقت کرنے، لوگوں کے ساتھ اچھی میل جول رکھنے اور جو برا سلوک کرے تو اس کے ساتھ عدل ، درگذر ، نرمی، حکمت و سچائی کے ساتھ پیش آنے، مخلوق کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنے کا بارہا حکم دیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
لَآ إِكْرَاهَ فِى
ٱلدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ ٱلرُّشْدُ مِنَ ٱلْغَىِّ ۚ ﴿٢٥٦﴾ البقرۃ
ترجمہ: دین (اسلام) میں زبردستی نہیں ہے ہدایت (صاف طور پر ظاہر اور) گمراہی سے الگ ہو چکی ہے ۔
جو آدمی کوئی غلط بات اپنے بھائی کی طرف منسوب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن یہ اُس کی طرف منسوب کرے گا۔
امام شافعیؒ نے کیا خوب فرمایا :
"اگر تو چاہتا ہے کہ تو صحیح سلامت رہے ، تجھے تیرا حصہ مکمل ملے ، تیری عزت محفوظ رہے تو اپنی زبان سے کسی کی عیب جوئی نہ کر، ورنہ تیری عیب جوئی کرنے کے لئے لوگوں کے پاس زبانیں ہیں۔
اگر تیری آنکھ کے سامنے کوئی معیوب چیز آئے تو اپنی آنکھ کو یہ کہتے ہوئے چھپا دے کہ لوگوں کی بھی آنکھیں ہیں۔
اچھائی کے ساتھ گذر سفر کرے جو زیادتی کرے اس سے درگذر کر ورنہ احسن طریقے سے جدائی اختیار کر۔"
ملاحظہ فرمائیں کہ یہ تمام گروہ جیسے اخوان، سروری وغیر ہ ہیں ان فتنوں ، مظاہروں ، دھشتگردی ، انقلاب ، حکام اور کبار علماء کے بغاوت کا سبب ہیں۔
اور سلفی لوگ اس چیز سے کوسوں دور ہیں۔ کیونکہ ان کا یہ اصول ہے کہ ہر دکھ سکھ میں صاحب امر کی اطاعت کرنا چاہئیے۔ وہ تیرا مال چھین لے یا تیری پشت پر مارے جیسا کہ اس کے مطابق نصوص وارد ہوئی ہیں۔ کیونکہ حکام کے خلاف خروج میں اور نوجوانوں میں اشتعال پیدا کرنے میں بہت بڑا نقصان ہے ، عظیم فتنہ ہے۔ بلاد اسلامیہ میں ان ہی جماعتوں کے سبب فتنہ و فساد برپا ہے۔ کھیتی کو تباہ و برباد، نسل کُشی اور اللہ کی زمین پر فساد برپا کر رکھا ہے اور اللہ فساد یوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔حکام کے خلاف خروج عوام لوگوں کا کام نہیں ہے بلکہ یہ تو اہل الحل و العقد، اصحاب شوریٰ، مصالح عباد کا تجربہ کرنے والے، بہترین خیر اور برے شر کی معرفت رکھنے والے علماء کا کام ہے۔مقصد و ہدف صرف اللہ کے دین کی سربلندی ہو، شریعت کا فیصلہ ہو اور دنیا تو اس کے تابع ہے اس وقت جو گوشہ اسلامی میں شور و غل ہے اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔
اور سلفی حضرات اس فتنہ پردازی سے کوسوں دور رہے وہی امن و امان خیر و امان کا سبب ہیں۔ یہ ایسے نہیں جیسے یہ جھوٹے ان کے خلاف کہیں کہ یہ " بادشاہوں کے چمچے ہیں" یہ بہت بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے ۔ یہ صرف جھوٹ ہی بکتے ہیں ۔ چنانچہ وہ بھولے پن کا شکار نہیں بلکہ ان کے لئے تو سلف ہے ۔ جس کے بارے میں عقیدہ رکھتے ہیں اور ان کو علم و عمل سے مقدم کرتے ہیں۔
لہذا ضروری ہے کہ سلفیوں کو رغبت دلائی جائے اور مسلمانوں میں سلفیت کو عام کیا جائے تاکہ بندے سعادت پاسکیں اور اسلام ملکوں میں پھیل جائے اور فتنے زائل ہوجائیں۔ چانچہ ہم پر واجب ہے اپنے علماء کے شانہ بشانہ رہیں اور تمام گروہ بندیوں کو ترک کردیں۔
اور ہم اپنے بھائیوں کے رجوعات اور ان کی اخطاء کی تصحیح کو قبول کریں ۔ ہم اہل السنۃ و الجماعۃ الفت و محبت والے ہیں۔ ہم کوئی بدعتی فرقہ نہیں ہے۔
میں نے اپنی اس صغیر الحجم اور کبیر الفائدہ کتاب میں کسی مصلح داعی کے بارے میں غلط بیانی نہیں کی ہے صرف ان جماعتوں کے رؤوساء ، امراء کی اخطاء کی نشاندہی ان کے اقوال سے کی ہے۔ جن کو ان کی کتب ، مقالات اور تقاریر سے نقل کیا ہے۔
إِنْ أُرِيدُ إِلَّا
ٱلْإِصْلَٰحَ مَا ٱسْتَطَعْتُ ۚ وَمَا تَوْفِيقِىٓ إِلَّا بِٱللَّهِ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ ﴿٨٨﴾ ھود
ترجمہ: تو صرف اصلاح چاہتا ہوں جہاں تک میرے امکان میں ہو -میری توفیق صرف اللہ سے وابستہ ہے اسی پر میرا اعتماد ہے اور اسی کی طرف میں توجہ کررہا ہوں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں قول و عمل میں اخلاص نصیب فرمائے ۔ ہمیں حق دکھانے کے بعد اُس پر عمل کی توفیق مرحمت فرمائے۔ باطل دیکھ چکنے کے بعد اس اجتناب برتنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ باطل کو ہم پر ملتبس نہ کرے کہ ہم ہلاک ہو جائیں۔
وصلی اللہ علی نبینا محمد و علی آلہ و صحبہ أجمعین
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
یہ عربی کی ایک کتاب ہے جس کا مفہوم عام اردو زبان میں پیش کیا جا رہا ہے اور اس کتاب کا لنک تلاش کر کےیہاں پوسٹ کرتا ہوں ان شاء الله
 
Top