نقد، قسطوں اور ادھار پر خریدی جانے والی اشیاء کی قیمتوں میں فرق تو جائز ہے۔ جیسے اگر کوئی دکاندار ایک مشین نقد سو روپے کی فروخت کرے، قسطوں پر ایک سو دس روپے کی اور مطلقاً ادھار پر ایک سو بیس روپے کی تو یہ جائز ہے۔ (تصحیح کیجئے، اگر میں غلط ہوں)
خریداری صرف اشیاء کی نہیں بلکہ خدمات (سروسز) کی بھی ہوتی ہیں۔ جیسے ایک مزدور اپنی خدمات فروخت کرتا ہے۔ بیع کے مندرجہ بالا اصول پر وہ بھی اپنی سروسز کے مختلف ریٹ مقرر کرسکتا ہے۔ جیسے اگر روز کے روز مزدوری کی اجرت سو روپے مقررہو۔ لیکن اگر مزدوری کرانے والا یہ کہے کہ میں تمہاری اجرت ایک ہفتہ یا ایک مہینہ کے بعد دوں گا تو مزدور اپنی یومیہ مزدوری کی اجرت ایک سو دس روپے روزانہ طلب کرسکتا ہے (پیشگی معاہدہ کرکے) ۔
موبائل کمپنی سے ہم ”ٹاک ٹائم“ خریدتے ہیں۔ مثلاً ہم دس روپے دے کر دس منٹ بات کرنے کا ٹائم ”نقد“ خریدتے ہیں۔ اب اگر ہمارے پاس نقدی نہ ہو اور موبائل کمپنی ہمیں ” ٹاک ٹائم“ ادھار فروخت کرے تو وہ دس منٹ کی قیمت ساڑھے دس روپے یا اس سے زائد بھی لے سکتی ہے۔ (پیشگی طے کر کے)
واضح رہے کہ سود کا اطلاق ”یکساں شئے“ کے تبادلہ پر لاگو ہوتا ہے، مختلف اشیاء کے تبادلہ پر نہیں۔ جیسے ایک کلو کھجور کے بدلہ سوا کلو کھجور لینا۔ سو روپے کرنسی نوٹ کے بدلہ ایک سو دس روپے کرنسی نوٹ لینا یہ سب سود کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن ایک کلو گوشت کے بدلہ دو کلو گندم لینا، ایک گرام سونے کے بدلہ دس گرام چاندی لینا یا ایک ڈالر کے نوٹ کے بدلہ میں سو روپے کے نوٹ لینا سود نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
انس
خضر حیات