محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
٭مکالمہ ، مفہوم اور پس منظر
لغوی اور اصطلاحی معنی
مکالمہ ایک خاص اصطلاح ہے جوعربی زبان کے سہ حرفی لفظ ک ل م سے مشتق ہے جس کا مطلب لفظ ، بات ،جملہ،قصیدہ یا خطبہ ہو سکتا ہے اور کلام کے معنی بات کے ہیں(۱) ۔
اس سہ حرفی لفظ کے معانی مشہور لغوی ابن الفارس نے’’ بات کرنا‘‘ اور’’ زخمی کرنا‘‘ بیان کیے ہیں(۲)
گویا کہ بات کرنے والا اپنی بات سے دوسرے کو مجروح کرتا ہے ۔جبکہ نواب صدیق حسن خان نے کہا کہ ک۔ل۔م کی خاصیت شدت اور قوت ہے(۳)
اس سے ثلاثی مزید کالمہ یکالمہ مکالمۃ جس سے مراد گفتگو کرنا ہے اس کا سب سے اہم مترادف جو قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے وہ ’’حوار ـ‘‘ ہے جو ایک جامع اصطلاح ہے جس کا تذکرہ آئندہ سطور میں کیا جائے گا۔
مکالمہ جیسا کہ لفظ سے ظاہر ہے کہ دو یا دو سے زیادہ باتوں سے وجود میں آتا ہے لہذا مکالمہ کے مختلف پہلوؤں کی مناسبت سے جائزہ لینا اہم ہے کہ مکالمہ صرف باہمی بات چیت کا نام ہے یا اس میں گفتگو کے علاوہ اور بھی مظاہر ہو سکتے ہیں توعمومی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اس کے مختلف مظاہر میں اشارہ(۴) خاموشی (۵)خطبہ(۶) وغیرہ بھی شامل کیے جا سکتے ہیںکیونکہ گفتگو کے جو اھداف مقرر کیے جا سکتے ہیں وہی اھداف ان تین مظاہر سے بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں گو کہ اس میں کمی بیشی ممکن ہے ۔کہا جاسکتا ہے کہ مکالمہ اوراس کے مظاہرمیں افکار وآراء کا منطقی اور مفید تبادلہ ہوتا ہے کیوں کہ اس میں سننے اور کہنے کی دونوں کیفیات پائی جا رہی ہیں اور ان دونوں کی اہمیت کم نہیں کیوں کہ تبادلہ افکار صرف کہنے سے نہیں ہوتا بلکہ اس میں سننے کی کیفیت کا پایا جانا بنیادی اہمیت کا حامل ہے
یعنی تبادلہ افکار صرف ایک فریق کی جہود کا نام نہیں بلکہ جتنے بھی فریق موجود ہیں ان سب کی عملی شرکت کا مظہر ہے خواہ وہ کہنے کی کیفیت میں ہو یا سننے کی کیفیت دونوں میں بہت ضروری ہے بصورت دیگرنہ تو اس کی کوئی منطقی بنیاد ہو گی اور نہ ہی اس کے اھداف حاصل ہو سکیں گے اور یہ عمل محض ایک تکلف ثابت ہو گا ۔مزید برآنکہ تبادلہ افکار صرف بات چیت کا نام نہیں کیونکہ اس کے علاوہ بھی بہت سے مظاہر ہیں جن کا بیان دوسرے باب میں کیا جائے گا
مکالمہ خواہ وہ بین المذاہب ہو یا عمومی، اگر ایک فریق زیادہ طاقت اور وسائل رکھتا ہے تو وہ اس مرحلے میں دوسرے کے افکار سننے کی زحمت نہیں کرتابلکہ صرف اپنی بات کہنے کوترجیح دیتاہے اور سننے کی ذمہ داری مقابل فریق پر ڈال دیتا ہے یہ عمل مکالمہ نہیں صرف اپنی گفتگو سنانے کا نام ہے۔ قرآن مجید نے مکالمہ کے ان دو بنیادی عناصر کو بیان کرتے ہوئے کہا :فبشر عبادی الذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ اولئک ھداھم اللہ و اولئک ھم اولوالالباب(۷)
پس میرے بندوں کو بشارت دے دو جو بات سنتے ہیں اور پھر اس میں بہترین کو چن لیتے ہیں اور اس کی پیروی کرتے ہیں ۔
مکالمہ کے مفہوم کے بارے میں سطور سابقہ کا خلاصہ اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے
۱۔ مکالمہ کا مفہوم افکار و آراء کا منطقی و مفید تبادلہ ہے
۲۔ افکار کے منطقی تبادلے کی حقیقی بنیاد دو عناصر رہے اول کہنا اور دوم سننا
۳۔ تہذیب و تمدن کی بنیاد دو امور پر ہے اول مفہوم حیات اور دوم بہتر حیات کی اقدار و مقاصد
ان نقاط کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ دو فریق کے مابین گفت و شنید کے لیے نکتہ سوم بنیاد بن سکتا ہے یعنی مطلوبہ اقدار و مقاصد کے بارے میں مختلف مذاہب اور اقوام کے مابین مشترک تصورات اس کی بہترین اساس بن سکتے ہیں ۔کیوں کہ یہ امر متفق ہے کہ مکالمہ ہمیشہ متفق پہلوؤں اور مشترک نقاط کے تعین کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے ۔
تہذیبوں کے مابین مشترکہ نقاط پرکم سے کم اتفاق بہتر زندگی کی ضمانت بن سکتاہے۔
لغوی اور اصطلاحی معنی
مکالمہ ایک خاص اصطلاح ہے جوعربی زبان کے سہ حرفی لفظ ک ل م سے مشتق ہے جس کا مطلب لفظ ، بات ،جملہ،قصیدہ یا خطبہ ہو سکتا ہے اور کلام کے معنی بات کے ہیں(۱) ۔
اس سہ حرفی لفظ کے معانی مشہور لغوی ابن الفارس نے’’ بات کرنا‘‘ اور’’ زخمی کرنا‘‘ بیان کیے ہیں(۲)
گویا کہ بات کرنے والا اپنی بات سے دوسرے کو مجروح کرتا ہے ۔جبکہ نواب صدیق حسن خان نے کہا کہ ک۔ل۔م کی خاصیت شدت اور قوت ہے(۳)
اس سے ثلاثی مزید کالمہ یکالمہ مکالمۃ جس سے مراد گفتگو کرنا ہے اس کا سب سے اہم مترادف جو قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے وہ ’’حوار ـ‘‘ ہے جو ایک جامع اصطلاح ہے جس کا تذکرہ آئندہ سطور میں کیا جائے گا۔
مکالمہ جیسا کہ لفظ سے ظاہر ہے کہ دو یا دو سے زیادہ باتوں سے وجود میں آتا ہے لہذا مکالمہ کے مختلف پہلوؤں کی مناسبت سے جائزہ لینا اہم ہے کہ مکالمہ صرف باہمی بات چیت کا نام ہے یا اس میں گفتگو کے علاوہ اور بھی مظاہر ہو سکتے ہیں توعمومی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اس کے مختلف مظاہر میں اشارہ(۴) خاموشی (۵)خطبہ(۶) وغیرہ بھی شامل کیے جا سکتے ہیںکیونکہ گفتگو کے جو اھداف مقرر کیے جا سکتے ہیں وہی اھداف ان تین مظاہر سے بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں گو کہ اس میں کمی بیشی ممکن ہے ۔کہا جاسکتا ہے کہ مکالمہ اوراس کے مظاہرمیں افکار وآراء کا منطقی اور مفید تبادلہ ہوتا ہے کیوں کہ اس میں سننے اور کہنے کی دونوں کیفیات پائی جا رہی ہیں اور ان دونوں کی اہمیت کم نہیں کیوں کہ تبادلہ افکار صرف کہنے سے نہیں ہوتا بلکہ اس میں سننے کی کیفیت کا پایا جانا بنیادی اہمیت کا حامل ہے
یعنی تبادلہ افکار صرف ایک فریق کی جہود کا نام نہیں بلکہ جتنے بھی فریق موجود ہیں ان سب کی عملی شرکت کا مظہر ہے خواہ وہ کہنے کی کیفیت میں ہو یا سننے کی کیفیت دونوں میں بہت ضروری ہے بصورت دیگرنہ تو اس کی کوئی منطقی بنیاد ہو گی اور نہ ہی اس کے اھداف حاصل ہو سکیں گے اور یہ عمل محض ایک تکلف ثابت ہو گا ۔مزید برآنکہ تبادلہ افکار صرف بات چیت کا نام نہیں کیونکہ اس کے علاوہ بھی بہت سے مظاہر ہیں جن کا بیان دوسرے باب میں کیا جائے گا
مکالمہ خواہ وہ بین المذاہب ہو یا عمومی، اگر ایک فریق زیادہ طاقت اور وسائل رکھتا ہے تو وہ اس مرحلے میں دوسرے کے افکار سننے کی زحمت نہیں کرتابلکہ صرف اپنی بات کہنے کوترجیح دیتاہے اور سننے کی ذمہ داری مقابل فریق پر ڈال دیتا ہے یہ عمل مکالمہ نہیں صرف اپنی گفتگو سنانے کا نام ہے۔ قرآن مجید نے مکالمہ کے ان دو بنیادی عناصر کو بیان کرتے ہوئے کہا :فبشر عبادی الذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ اولئک ھداھم اللہ و اولئک ھم اولوالالباب(۷)
پس میرے بندوں کو بشارت دے دو جو بات سنتے ہیں اور پھر اس میں بہترین کو چن لیتے ہیں اور اس کی پیروی کرتے ہیں ۔
مکالمہ کے مفہوم کے بارے میں سطور سابقہ کا خلاصہ اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے
۱۔ مکالمہ کا مفہوم افکار و آراء کا منطقی و مفید تبادلہ ہے
۲۔ افکار کے منطقی تبادلے کی حقیقی بنیاد دو عناصر رہے اول کہنا اور دوم سننا
۳۔ تہذیب و تمدن کی بنیاد دو امور پر ہے اول مفہوم حیات اور دوم بہتر حیات کی اقدار و مقاصد
ان نقاط کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ دو فریق کے مابین گفت و شنید کے لیے نکتہ سوم بنیاد بن سکتا ہے یعنی مطلوبہ اقدار و مقاصد کے بارے میں مختلف مذاہب اور اقوام کے مابین مشترک تصورات اس کی بہترین اساس بن سکتے ہیں ۔کیوں کہ یہ امر متفق ہے کہ مکالمہ ہمیشہ متفق پہلوؤں اور مشترک نقاط کے تعین کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے ۔
تہذیبوں کے مابین مشترکہ نقاط پرکم سے کم اتفاق بہتر زندگی کی ضمانت بن سکتاہے۔