• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الخصومات
باب : حرم میں کسی کو باندھنا اور قید کرنا

واشترى نافع بن عبد الحارث دارا للسجن بمكة من صفوان بن أمية، على أن عمر إن رضي فالبيع بيعه، وإن لم يرض عمر فلصفوان أربعمائة‏.‏ وسجن ابن الزبير بمكة‏.
اور نافع بن عبدالحارث نے مکہ میں صفوان بن امیہ سے ایک مکان جیل خانہ بنانے کے لیے ا س شرط پر خریدا کہ اگر عمر رضی اللہ عنہ اس خریداری کو منطور کریں گے تو بیع پوری ہوگی، ورنہ صفوان کو جواب آنے تک چار سو دینار تک کرایہ دیا جائے گا۔ ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے مکہ میں لوگوں کو قید کیا۔

مکۃ المکرمہ یہ سارا ہی حرم میں داخل ہے۔ لہٰذاحرم میں جیل خانہ بنانا اور مجرموں کا قید کرنا ثابت ہوا۔ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے اثر کو ابن سعد وغیرہ نے نکالا ہے کہ ابن زبیر نے حسن بن محمد بن حنفیہ کو دار الندوہ میں سجن عارم میں قید کیا۔ وہ وہاں سے نکل کر بھاگ گئے۔

حدیث نمبر : 2423
حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، قال حدثني سعيد بن أبي سعيد، سمع أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال بعث النبي صلى الله عليه وسلم خيلا قبل نجد، فجاءت برجل من بني حنيفة يقال له ثمامة بن أثال فربطوه بسارية من سواري المسجد‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سواروں کا ایک لشکر نجد کی طرف بھیجاجو بنوحنیفہ کے ایک شخص ثمامہ بن اثال کو پکڑ لائے۔ اور مسجد کے ایک ستون سے اس کو باندھ دیا۔

مدینہ بھی حرم ہے تو حرم میں قید کرنے کا جواز ثابت ہوا۔ یہ باب لا کر امام بخاری نے رد کیا ہے جو ابن ابی شیبہ نے طاؤس سے روایت کیا کہ وہ مکہ میں کسی کو قید کرنا برا جانتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الخصومات
باب : قرض داروں کے ساتھ رہنے کا بیان

اس طرح کہ قرض خواہ ارادہ کرے کہ جب تک مقروض میرا روپیہ ادا نہ کرے میں اس کے ساتھ چمٹا ہی رہوں گا اور اس کا پیچھا کبھی نہ چھوڑوں گا۔

حدیث نمبر : 2424
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، حدثنا جعفر بن ربيعة،‏.‏ وقال غيره حدثني الليث، قال حدثني جعفر بن ربيعة، عن عبد الرحمن بن هرمز، عن عبد الله بن كعب بن مالك الأنصاري، عن كعب بن مالك ـ رضى الله عنه ـ أنه كان له على عبد الله بن أبي حدرد الأسلمي دين، فلقيه فلزمه، فتكلما حتى ارتفعت أصواتهما، فمر بهما النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏يا كعب‏"‏‏. ‏ وأشار بيده كأنه يقول النصف، فأخذ نصف ما عليه وترك نصفا‏.‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا، اور یحییٰ بن بکیر کے علاوہ نے بیان کیا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن ہرمز نے، ان سے عبداللہ بن کعب بن مالک انصاری نے، اور ان سے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ عبداللہ بن ابی حدرد اسلمی رضی اللہ عنہ پر ان کا قرض تھا، ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ان کا پیچھا کیا۔ پھر دونوں کی گفتگو تیز ہونے لگی۔ اور آواز بلند ہو گئی۔ اتنے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر سے گزر ہوا۔ اور آپ نے فرمایا، اے کعب ! اور آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرکے گویا یہ فرمایا کہ آدھے قرض کی کمی کردے۔ چنانچہ انہوں نے آدھا لے لیا اور آدھا قرض معاف کر دیا۔

لفظ حدیث فلزمہ سے ترجمہ باب نکلا کہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ اپنا قرض وصول کرنے کے لیے عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے چمٹے اور کہا کہ جب تک میرا قرض ادا نہ کر دے گا میں تیرا پیچھا نہ چھوڑوں گا، اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھا اور اس طرح چمٹنے سے منع نہیں فرمایا تو اس سے چمٹنے کا جواز نکلا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آدھا قرض معاف کرنے کی سفارش فرمائی، اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مقروض اگر تنگ دست ہے تو قرض خواہ کو چاہے کہ کچھ معاف کردے، نیک کام کے لیے سفارش کرنا بھی ثابت ہوا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الخصومات
باب : تقاضا کرنے کا بیان

حدیث نمبر : 2425
حدثنا إسحاق، حدثنا وهب بن جرير بن حازم، أخبرنا شعبة، عن الأعمش، عن أبي الضحى، عن مسروق، عن خباب، قال كنت قينا في الجاهلية وكان لي على العاص بن وائل دراهم، فأتيته أتقاضاه فقال لا أقضيك حتى تكفر بمحمد، فقلت لا والله لا أكفر بمحمد صلى الله عليه وسلم حتى يميتك الله ثم يبعثك‏.‏ قال فدعني حتى أموت ثم أبعث فأوتى مالا وولدا، ثم أقضيك‏.‏ فنزلت ‏{‏أفرأيت الذي كفر بآياتنا وقال لأوتين مالا وولدا‏}‏ الآية‏.
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہب بن جریر بن حازم نے بیان کیا، انہیں شعبہ نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں ابوالضحیٰ نے، انہیں مسروق نے، اور ان سے خباب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں جاہلیت کے زمانہ میں لوہے کا کام کرتا تھا اور عاص بن وائل ( کافر ) پر میرے کچھ روپے قرض تھے۔ میں اس کے پاس تقاضا کرنے گیا تو اس نے مجھ سے کہا کہ جب تک تو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا انکار نہیں کرے گا میں تیرا قرض ادا نہیں کروں گا۔ میں نے کہا ہرگز نہیں، اللہ کی قسم ! میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کبھی نہیں کرسکتا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہیں مارے اور پھر تم کو اٹھائے۔ وہ کہنے لگا کہ پھر مجھ سے بھی تقاضا نہ کر۔ میں جب مر کے دوبارہ زندہ ہوں گا تو مجھے ( دوسری زندگی میں ) مال اور اولاد دی جائے گی تو تمہارا قرض بھی ادا کر دوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ” تم نے ا س شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں کا انکار کیا اور کہا کہ مجھے مال اور اولاد ضرور دی جائے گی۔ “ آخر آیت تک۔

تشریح : حضرت خباب رضی اللہ عنہ، عاص بن وائل غیر مسلم کے ہاں اپنی مزدوری وصول کرنے کا تقاضا کرنے گئے۔ اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔ عاص نے جو جواب دیا وہ انتہائی نامعقول جواب تھا۔ جس پر قرآن مجید میں نوٹس لیا گیا۔ ا س حدیث سے مجتہد مطلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کئی ایک مسائل کا استنباط فرمایا ہے۔ ا س لیے متعدد مقامات پر یہ حدیث نقل کی گئی ہے جو حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے تفقہ و قوت اجتہاد کی بین دلیل ہے۔ ہزار افسوس ان اہل جبہ و دستار پر جو حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جیسے فقیہ امت کی شان میں تنقیص کرتے اورآپ کی فہم و درایت سے منکر ہو کر خود اپنی نافہمی کا ثبوت دیتے ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ ان ابواب کے خاتمہ پر فرماتے ہیں : اشتمل کتاب الاستقراض و ما معہ من الحجر و التفلیس و ما اتصل بہ من الاشخاص و الملازمۃ علی خمسین حدیثا المعلق منہا ستۃ المکرر منہا فیہ و فیما مضی ثمانیۃ و ثلاثون حدیثا و البقیۃ خالصۃ وافقہ مسلم علی جمیعہا سوی حدیث ابی ہریرۃ ( من اخذ اموال الناس یرید اتلافہا ) وحدیث ( اما ما احب ان لی احدا ذہبا ) و حدیث ( لی الواجد ) و حدیث ابن مسعود فی القراۃ و فیہ من الاثار عن الصحابۃ و من بعدہم اثنا عشر اثراً و اللہ اعلم ( فتح الباری ) یعنی یہ کتاب الاستقراض و الملازمہ پچاس احادیث پر مشتمل ہے۔ جن میں احادیث معلقہ صرف چھ ہیں۔ مکرر احادیث اڑتیس ہیں اور باقی خاصل ہیں۔ امام مسلم نے بجز چند احادیث کے جویہاں مذکور ہیں سب میں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے موافقت کی ہے اور ان ابواب میں صحابہ و تابعین کے بارہ آثار مذکور ہوئے ہیں۔

سند میں مذکورہ بزرگ حضرت مسروق ابن الاجداع ہیں۔ جو ہمدانی اور کوفی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے قبل مشرف بہ اسلام ہوئے۔ صحابہ کے صدر اول جیسے ابوبکر، عمر، عثمان، علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کا زمانہ پایا۔ سرکردہ علماءاور فقہاءمیں سے تھے۔ مرہ بن شرحبیل نے فرمایا کہ کسی ہمدانی عورت نے مسروق جیسا نیک سپوت نہیں جنا۔
شعبی نے فرمایا اگر کسی گھرانے کے لوگ جنت کے لیے پیدا کئے گئے ہیں تو یہ ہیں اسود، علقمہ اور مسروق
محمد بن منتشر نے فرمایا کہ خالد بن عبداللہ بصرہ کے عامل ( گورنر ) تھے۔ انہوں نے بطور ہدیہ تیس ہزار روپوں کی رقم حضرت مسروق کی خدمت میں پیش کی۔ یہ ان کے فقر کا زمانہ تھا۔ پھر بھی انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
کہا جاتا ہے کہ بچپن میں ان کو چرا لیا گیا تھا، پھر مل گئے تو ان کانام مسروق ہو گیا۔ ان سے بہت سے لوگوں نے روایت کی ہے۔ 62ھ میں بمقام کوفہ وفات پائی۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ
شہر کوفہ کی بنیاد حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے رکھی تھی۔ اس وقت آپ نے وہاں فرمایا تھا : تکوفوا فی ہذا الموضع یہاں پر جمع ہوجاؤ۔ اسی روز اس شہر کا نام کوفہ پڑ گیا۔ بعض نے اس کا کا پرانا نام کوفان بتایا ہے۔ یہ شہر عرا ق میں واقع ہے۔ عرصہ تک علوم و فنون کا مرکز رہا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب اللقطۃ


صحیح بخاری -> کتاب اللقطۃ
باب : اور جب لقطہ کا مالک اس کی صحیح نشانی بتا دے تو اسے اس کے حوالہ کر دے

تشریح : لفظ لقطۃ کا مصدر لقط ہے جس کے معنی چن لینا، زمین پر سے اٹھا لینا، سینا، رفو کرنا، انتخاب کرنا، چونچ سے اٹھانا ہے۔ اسی سے لفظ ملاقطۃ اور التقاط ہیں۔ جن کے معانی برابر ہونا ہیں۔ اور تلقط اور التقاط کے معنی ادھر ادھر سے جمع کرنا چننا ہیں۔ آیات قرآنی اور احادیث نبوی میں یہ لفظ کئی جگہ استعمال ہوا ہے۔ جن کی تشریحات اپنے اپنے مقامات پر ہوں گی۔

علامہ قسطلانی فرماتے ہیں : ( فی اللقطۃ ) بضم اللام و فتح القاف و یجوز اسکانہا و المشہور عند المحدثین فتحہا قال الازہری وہو الذی سمع من العرب و اجمع علیہ اہل اللغۃ و الحدیث ویقال لقاطۃ بضم اللام و لقط بفتحہا بلا ہاءو ہی فی اللغۃ الشی الملقوط و شرعا ما وجد من حق ضائع محترم غیر محرز و لا ممتنع بقوتہ و لا یعرف الواجد مستحقہ و فی الالتقاط معنی الامانۃ و الولایۃ من حیث ان الملتقط امین فیما التقطہ و الشرع ولاہ حفطہ کالولی فی مال الطفل و فیہ معنی الاکتساب من حیث ان لہ التملک بعد التعریف ( القسطلانی )

مختصر یہ کہ لفظ لقطہ لام کے ضمہ اور قاف کے فتحہ کے ساتھ ہے اور اس کو ساکن پڑھنا بھی جائز ہے مگر محدثین اور لغت والوں کے ہاں فتحہ کے ساتھ ہی مشہور ہے۔ عرب کی زبانوں سے ایسا ہی سنا گیا ہے۔ لغت میں لقطہ کسی گری پڑی چیز کو کہتے ہیں۔ اور شریعت میں ایسی چیز جو پڑی ہوئی پائے جائے اور وہ کسی بھی آدمی کے حق ضائع سے متعلق ہو اور پانے والا اس کے مالک کو نہ پائے۔ اور لفظ التقاط میں امانت اور روایت کے معانی بھی مشتمل ہیں۔ ا س لیے کہ ملتقط امین ہے اس مال کا جو اس نے پایا ہے اور شرعاً وہ ا س مال کی حفاظت کا ذمہ دار ہے جیسے بچے کے مال کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اور اس میں اکتساب کے معانی بھی ہیں کہ پہچنوانے کے بعد اگر اس کا مالک نہ ملے تو اس چیز میں اس کا حق ملکیت ثابت ہوجاتاہے۔

حدیث نمبر : 2426
حدثنا آدم، حدثنا شعبة،‏.‏ وحدثني محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن سلمة، سمعت سويد بن غفلة، قال لقيت أبى بن كعب ـ رضى الله عنه ـ فقال أخذت صرة مائة دينار فأتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏عرفها حولا‏"‏‏.‏ فعرفتها حولها فلم أجد من يعرفها، ثم أتيته فقال ‏"‏عرفها حولا ‏"‏فعرفتها فلم أجد، ثم أتيته ثلاثا فقال ‏"‏احفظ وعاءها وعددها ووكاءها، فإن جاء صاحبها، وإلا فاستمتع بها‏"‏‏. ‏ فاستمتعت فلقيته بعد بمكة فقال لا أدري ثلاثة أحوال أو حولا واحدا‏.
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ( دوسری سند ) اور مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، ان سے غندر نے، ان سے شعبہ نے، ان سے سلمہ نے کہ میں نے سوید بن غفلہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی تو انہوں نے کہا کہ میں نے سو دینار کی ایک تھیلی ( کہیں راستے میں پڑی ہوئی ) پائی۔ میں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا تو آپ نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ۔ میں نے ایک سال تک اس کا اعلان کیا، لیکن مجھے کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو اسے پہچان سکتا۔ ا س لیے میں پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کاا علان کرتا رہ۔ میں نے پھر ( سال بھر ) اعلان کیا۔ لیکن ان کا مالک مجھے نہیں ملا۔ تیسری مرتبہ حاضر ہوا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس تھیلی کی بناوٹ، دینار کی تعداد اور تھیلی کے بندھن کو محفوظ رکھ۔ اگر اس کا مالک آجائے تو ( علامت پوچھ کے ) اسے واپس کر دینا، ورنہ اپنے خرچ میں اسے استعمال کرلے چنانچہ میں اسے اپنے اخراجات میں لایا۔ ( شعبہ نے بیان کیا کہ ) پھر میں نے سلمہ سے اس کے بعد مکہ میں ملاقات کی تو انہوں کہا کہ مجھے یاد نہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( حدیث میں ) تین سال تک ( اعلان کرنے کے لیے فرمایا تھا ) یا صرف ایک سال کے لیے۔

تشریح : روایت کے آخری الفاظ تین سال یا ایک سال کے متعلق حضرت علامہ قسطلانی فرماتے ہیں : ولم یقل احد بان اللقطۃ تعرف ثلاثۃ احوال والشک یوجب سقوط المشکوک فیہ و ہو الثلاثۃ فوجب العمل بالجزم و ہو روایۃ العام الواحد الخ ( قسطلانی ) یعنی کسی نے نہیں کہا کہ لقطہ کو تین سال تک پہچنوایا جائے اور شک سے مشکوک فیہ خود ہی ساقط ہو جاتا ہے۔ جو یہاں تین سال ہے پس پختہ چیز پر عمل واجب ہوا اور وہ ایک ہی سال کے لیے ہے۔ بعض اور روایتوں میں بھی تین سال کا ذکر آیا ہے۔ مگر وہ مزید احتیاط اور تورع پر مبنی ہے۔

اگر پانے والا غریب اور محتاج ہے تو مقررہ مدت تک اعلان کے بعد مالک کو نہ پانے کی صورت میں اسے وہ اپنی ضروریات پر خرچ کرسکتا ہے۔ اور اگر کسی محتاج کو بطور صدقہ دے دے تو اور بھی بہتر ہوگا۔ ا س پر سب کا اتفاق ہے کہ جب مالک مل جائے تو بہر صورت اسے وہ چیز واپس لوٹانی پڑے گی، خواہ ایک مدت تک اعلان کرتے رہنے کے بعد اسے اپنی ضروریات میں خرچ ہی کیوں نہ کرچکا ہو۔ امانت و دیانت سے متعلق اسلام کی یہ وہ پاک ہدایات ہیں جن پر بجا طور پر فخر کیا جاسکتا ہے۔ آج بھی ارض حرم میں ایسی مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں کہ ایک چیز لقطہ ہے مگر دیکھنے والے ہاتھ تک نہیں لگاتے بلکہ وہ چیز اپنی جگہ پڑی رہتی ہے۔ خود 1389ھ کے حج میں میں نے اپنی آنکھوں سے ایسے واقعات دیکھے۔ کیوں کہ اٹھانے والا سوچ رہا تھا کہ کہاں پہچنواتا پھرے گا۔ بہتر ہے کہ اس کو ہاتھ ہی نہ لگائے۔ اللہ پاک آج کے نوجوانوں کو توفیق دے کہ وہ حقائق اسلام کو سمجھ کر اسلام جیسی نعمت سے بہرہ ور ہونے کی کوشش کریں اور بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے راستے کو اپنائیں۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ انصاری خزرجی ہیں۔ یہ کاتب وحی تھے۔ اور ان چھ خوش نصیب اصحاب میں سے ہیں جنہوں نے عہد رسالت ہی میں پورا قرآن شریف حفظ کر لیا تھا، اور ان فقہائے اسلام میں سے ہیں جو آپ کے عہد مبارک میں فتوی دینے کے مجاز تھے۔ صحابہ میں قرآن شریف کے اچھے قاری کی حیثیت سے مشہور تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سید الانصار کا خطاب بخشا۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سید المسلمین کے خطاب سے نوازا تھا۔ آپ کی وفات مدینہ طیبہ ہی میں 19ھ میں واقع ہوئی۔ آپ سے کثیر مخلوق نے روایات نقل کی ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب اللقطۃ

باب : بھولے بھٹکے اونٹ کا بیان

حدیث نمبر : 2427
حدثنا عمرو بن عباس، حدثنا عبد الرحمن، حدثنا سفيان، عن ربيعة، حدثني يزيد، مولى المنبعث عن زيد بن خالد الجهني ـ رضى الله عنه ـ قال جاء أعرابي النبي صلى الله عليه وسلم فسأله عما يلتقطه فقال ‏"‏عرفها سنة، ثم احفظ عفاصها ووكاءها، فإن جاء أحد يخبرك بها، وإلا فاستنفقها‏"‏‏. ‏ قال يا رسول الله فضالة الغنم قال ‏"‏لك أو لأخيك أو للذئب‏"‏‏. ‏ قال ضالة الإبل فتمعر وجه النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ فقال ‏"‏ما لك ولها، معها حذاؤها وسقاؤها، ترد الماء وتأكل الشجر‏"‏‏. ‏
ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرحمن بن مہدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، ان سے ربیعہ نے، ان سے منبعث کے غلام یزید نے، اور انس ے زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دیہاتی حاضر ہوا۔ اور راستے میں پڑی ہوئی کسی چیز کو اٹھانے کے بارے میں آپ سے سوال کیا۔ آپ نے ان سے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ۔ پھر اس کے برتن کی بناوٹ اور اس کے بندھن کو ذہن میں بند رکھ۔ اگر کوئی ایسا شخص آئے جو اس کی نشانیاں ٹھیک ٹھیک بتا دے ( تو اسے اس کا مال واپس کر دے ) ورنہ اپنی ضروریات میں خرچ کر۔ صحابی نے پوچھا، یا رسول اللہ ! ایسی بکری کا کیا کیا جائے جس کے مالک کا پتہ نہ ہو؟ آپ نے فرمایا کہ وہ یا تو تمہاری ہوگی یا تمہارے بھائی ( مالک ) کو مل جائے گی یا پھر بھیڑئیے کا لقمہ بنے گی۔ صحابہ نے پھر پوچھا اور اس اونٹ کا کیا کیا جائے جو راستہ بھول گیاہو؟ اس پر رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا۔ آپ نے فرمایا، تمہیں اس سے کیا مطلب؟ اس کے ساتھ خود اس کے کھر ہیں۔ ( جن سے وہ چلے گا ) اس کا مشکیزہ ہے، پانی پر وہ خود پہنچ جائے گا۔ اور درخت کے پتے وہ خود کھا لے گا۔

تشریح : عرب میں اونٹوں کو ریگستان کا جہاز کہا جاتا تھا۔ راستوں کے جاننے میں وہ خود بہت ماہر ہوا کرتے تھے۔ گم ہونے کی صورت میں عام طور پر کسی نہ کسی دن خود گھر پہنچ جاتے۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا۔ یعنی اونٹ کو پکڑنے کی حاجت نہیں۔ اس کو بھیڑئیے وغیرہ کا ڈر نہیں، نہ چارے پانی کے لیے اس کو چرواہے کی ضرورت ہے۔ وہ آپ پانی پر جا کر پانی پی لیتا ہے۔ بلکہ آٹھ آٹھ روز کا پانی اپنے پیٹ میں بیک وقت جمع کر لیتا ہے۔ بعض نے کہا کہ یہ حکم جنگل کے لیے ہے۔ اگر بستی میں اونٹ ملے تو اسے پکڑ لینا چاہئے تاکہ مسلمان کا مال ضائع نہ ہو۔ ایسا نہ ہو وہ کسی چور ڈاکو کے ہاتھ لگ جائے۔ اونٹ کے حکم میں وہ جانور بھی ہیں جو اپنی حفاظت آپ کر سکتے ہیں۔ جیسے گھوڑا، بیل وغیرہ۔

مترجم کہتا ہے کہ آج کے حالات میں جنگل اور بستی کہیں بھی امن نہیں ہے۔ ہر جگہ چور ڈاکوؤں کا خطرہ ہے۔ لہٰذا جہاں بھی کسی بھاائی کو گم شدہ اونٹ، گھوڑا نظر آئے بہتر ہے کہ حفاظت کے خیال سے اسے پکڑ لیا جائے اور جب اس کا مالک آئے تو اس کے حوالہ کیا جائے۔ آج عرب اور عجم ہر جگہ چوروں، ڈاکوؤں، لٹیروں کی کثرت ہے۔ ایک اونٹ ان کے لیے بڑی قیمت رکھتا ہے۔ جب کہ معمولی اونٹ کی قیمت آج چار پانچ سو سے کم نہیں ہے۔

عہد رسالت میں عرب کا ماحول جو تھاوہ اور تھا۔ اس ماحول کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ آج کا ماحول دوسرا ہے۔ پس بہتر ہے کہ کسی گم شدہ اونٹ، گھوڑے وغیرہ کو بھی پکڑ کر بحفاظت رکھا جائے۔ یہاں تک کہ اس کا مالک آئے اور اسے لے جائے۔
الحمد للہ1390ھ کو کعبہ شریف میں اس پارے کا متن بعد فجر یہاں تک لفظ بہ لفظ غور و تدبر کے ساتھ ان دعاؤں سے پڑھتا گیا کہ اللہ پاک اس اہم ذخیرہ حدیث کو سمجھنے کے لیے توفیق بخشے۔ اور ہر مشکل مقام کے حل کے لیے اپنی رحمت سے رہ نمائی فرمائے۔ اور اس خدمت کو قبول فرما کر قبول عام عطا کرے۔ اور سارے قدر دان حضرات کو شفاعت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے بہرہ ور فرمائے۔ آمین۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب اللقطۃ
باب : گمشدہ بکری کے بارے میں بیان

حدیث نمبر : 2428
حدثنا إسماعيل بن عبد الله، قال حدثني سليمان، عن يحيى، عن يزيد، مولى المنبعث أنه سمع زيد بن خالد ـ رضى الله عنه ـ يقول سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن اللقطة فزعم أنه قال ‏"‏اعرف عفاصها ووكاءها، ثم عرفها سنة‏"‏‏. ‏ يقول يزيد إن لم تعترف استنفق بها صاحبها وكانت وديعة، عنده‏.‏ قال يحيى فهذا الذي لا أدري أفي حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم هو أم شىء من عنده ـ ثم قال كيف ترى في ضالة الغنم قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏خذها فإنما هي لك أو لأخيك أو للذئب‏"‏‏. ‏ قال يزيد وهى تعرف أيضا‏.‏ ثم قال كيف ترى في ضالة الإبل قال فقال ‏"‏دعها فإن معها حذاءها وسقاءها، ترد الماء وتأكل الشجر، حتى يجدها ربها‏"‏‏. ‏
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سلیمان تیمی نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید انصاری نے، ان سے منبعث کے غلام یزید نے، انہوں نے زید بن خالد سے سنا، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہ کے متعلق پوچھا گیا۔ وہ یقین رکھتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے برتن کی بناوٹ اور اس کے بندھن کو ذہن میں رکھ، پھر ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ۔ یزید بیان کرتے تھے کہ اگر اسے پہچاننے والا ( اس عرصہ میں ) نہ ملے تو پانے والے کو اپنی ضروریات میں خرچ کر لینا چاہئے۔ اور یہ اس کے پاس امانت کے طور پر ہوگا۔ اس آخری ٹکڑے ( کہ اس کے پا س امانت کے طور پر ہو گا ) کے متعلق مجھے معلوم نہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے یا خود انہوں نے اپنی طرف سے یہ بات کہی ہے۔ پھر پوچھا، راستہ بھولی ہوئی بکری کے متعلق آپ کا کیا ارشاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے پکڑ لو۔ وہ یا تمہاری ہوگی ( جب کہ اصل مالک نہ ملے ) یا تمہارے بھائی ( مالک ) کے پاس پہنچ جائے گی، یا پھر اسے بھیڑیا اٹھا لے جائے گا۔ یزید نے بیان کیا کہ اس کا بھی اعلان کیا جائے گا۔ پھر صحابی نے پوچھا، راستہ بھولے ہوئے اونٹ کے بارے میں آپ کا کیا ارشاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے آزاد رہنے دو، اس کے ساتھ اس کے کھر بھی ہیں اور اس کا مشکیزہ بھی، خود پانی پر پہنچ جائے گا اور خود ہی درخت کے پتے کھا لے گا اور اس طرح وہ اپنے مالک تک پہنچ جائے گا۔

یحییٰ کی دوسری روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ فقرہ کہ اس کے پاس امانت کے طور پر ہوگا۔ حدیث میں داخل ہے۔ اس کو امام مسلم اور اسماعیلی نے نکالا۔ امانت کا مطلب یہ ہے کہ جب اس کا مالک آجائے تو پانے والے کو یہ مال ادا کرنا لازم ہوگا۔ بکری اگر مل جائے تو اس کے بارے میں بھی اس کے مالک کا تلاش کرنا ضروری ہے۔ جب تک مالک نہ ملے پانے والا اپنے پاس رکھے اور اس کا دودھ پئے کیوں کہ ا س پر وہ کھلانے پر خرچ بھی کرے گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب اللقطۃ
باب : پکڑی ہوئی چیز کا مالک اگر ایک سال تک نہ ملے تو وہ پانے والے کی ہو جائے گی

تشریح : جمہور علماءیہ کہتے ہیں کہ مالک ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس کو تصرف کرنا جائز ہوگا، لیکن جب مالک آجائے تو وہ چیز یا اس کا بدل دینا لازم ہوگا۔ حنفیہ کہتے ہیں اگر پانے والا محتاج ہے۔ تو اس میں تصرف کر سکتا ہے اگر مالدار ہے تو اس کو خیرات کر دے۔ پھر اگر اس کا مالک آئے تو اس کو اختیار ہے کہ خواہ ا س خیرات کو جائز رکھے خواہ اس سے تاوان لے۔

جہاں تک غور و فکر کا تعلق ہے اسلام نے گرے پڑے اموال کی بڑی حفاظت کی ہے اور ان کے اٹھانے والوں کو اسی حالت میں اٹھانے کی اجازت دی ہے کہ وہ خود ہضم کرجانے کی نیت سے ہرگز ہرگز ان کو نہ اٹھائیں۔ بلکہ ان کے اصل مالکوں تک پہنچانے کی نیت سے ان کو اٹھا سکتے ہیں۔ اگر مالک فوری طور پر نہ مل سکے تو موقع بہ موقع سال بھر اس مال کا اعلان کرتے رہیں۔ آج کل اعلان کے ذرائع بہت وسیع ہو چکے ہیں، اخبارات اور ریڈیو کے ذرائع سے اعلانات ہر کس و ناکس تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس طرح متواتر اعلانات پر سال گزر جائے اور کوئی اس کا مالک نہ مل سکے تو پانے والا اپنے مصرف میں اسے لے سکتا ہے۔ مگر یہ شرط اب بھی ضروری ہے کہ اگر کسی دن بھی اس کا اصل مالک آگیا تو وہ مال اسے مع تاوان ادا کرناہوگا۔ اگر اصل مال وہ ختم کر چکا ہے تو ا س کی جنس بالمثل ادا کرنی ہوگی۔ یا پھر جوبھی بازاری قیمت ہو ادا کرنی ضروری ہوگی۔ ان تفصیلات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لقطہ کے متعلق اسلام کا قانونی نظریہ کس قدر ٹھوس اور کتنا نفع بخش ہے۔ کاش اسلام کے معاندین ان قوانین اسلامی کا بغور مطالعہ کریں اور اپنے دلوں کو عناد سے پاک کرکے قلب سلیم کے ساتھ صداقت کو تسلیم کر سکیں۔

حدیث نمبر : 2429
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن ربيعة بن أبي عبد الرحمن، عن يزيد، مولى المنبعث عن زيد بن خالد ـ رضى الله عنه ـ قال جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فسأله عن اللقطة‏.‏ فقال ‏"‏اعرف عفاصها ووكاءها، ثم عرفها سنة، فإن جاء صاحبها، وإلا فشأنك بها‏"‏‏. ‏ قال فضالة الغنم قال ‏"‏هي لك أو لأخيك أو للذئب‏"‏‏. ‏ قال فضالة الإبل قال ‏"‏ما لك ولها، معها سقاؤها وحذاؤها، ترد الماء وتأكل الشجر، حتى يلقاها ربها‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ربیعہ بن ابی عبدالرحمن نے، انہیں منبعث کے غلام یزید نے اور ان سے زید بن خالد رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہ کے بارے میں سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے برتن کی بناوٹ اور ا س کے بندھن کو ذہن میں یاد رکھ کر ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ۔ اگر مالک مل جائے ( تو اسے دے دے ) و رنہ اپنی ضرورت میں خرچ کر۔ انہوں نے پوچھا اور اگر راستہ بھولی ہوئی بکری ملے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تمہاری ہوگی یا تمہارے بھائی کی ہوگی۔ ورنہ پھر بھیڑیا اسے اٹھا لے جائے گا صحابی نے پوچھا اور اونٹ جو راستہ بھول جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں اس سے کیا مطلب؟ اس کے ساتھ خود اس کا مشکیزہ ہے، اس کے کھر ہیں، پانی پر وہ خود ہی پہنچ جائے گا اور خود ہی درخت کے پتے کھا لے گا۔ اور ا س طرح کسی نہ کسی دن اس کا مالک اسے خود پالے گا۔

تشریح : فان جاءصاحبہا یعنی اگر اس کا مالک آجائے تو اس کے حوالے کر دے۔ جیسے ا مام احمد اور ترمذی اور نسائی کی ایک روایت میں اس کی صراحت ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص آئے جو اس کی گنتی اور تھیلی اور سر بندھن کو ٹھیک ٹھیک بتلا دے تو اس کو دے دے۔ معلوم ہوا کہ صحیح طور پر اسے پہچان لینے والے کو وہ مال دے دینا چاہئے۔ گواہ شاہد کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔ اس روایت میں دو سال تک بتلانے کا ذکر ہے۔ اور آگے والی احادیث میں صرف ایک سال تک کا بیان ہوا ہے۔ اور تمام علماءنے اب اسی کو اختیار کیا ہے اور دو سال والی روایت کے حکم کو ورع اور احتیاط پر محمول کیا۔ یوں محتاط حضرات اگر ساری عمر بھی اسے اپنے استعمال میں نہ لائیں اور آخر میں چل کر بطور صدقہ خیرات دے کر اسے ختم کر دیں تو اسے نور علی نور ہی کہنا مناسب ہوگا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب اللقطۃ
باب : اگر کوئی سمندر میں لکڑی یا ڈنڈا یا اور کوئی ایسی ہی چیز پائے تو کیا حکم ہے؟

حدیث نمبر : 2430
وقال الليث حدثني جعفر بن ربيعة، عن عبد الرحمن بن هرمز، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه ذكر رجلا من بني إسرائيل ـ وساق الحديث ـ ‏"‏فخرج ينظر لعل مركبا قد جاء بماله، فإذا هو بالخشبة فأخذها لأهله حطبا، فلما نشرها وجد المال والصحيفة‏"‏‏. ‏
اور لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن ہرمز نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک مرد کا ذکر کیا۔ پھر پوری حدیث بیان کی ( جو اس سے پہلے گز رچکی ہے ) کہ ( قرض دینے والا ) باہر یہ دیکھنے کے لیے نکلا کہ ممکن ہے کوئی جہاز اس کا روپیہ لے کر آیا ہو۔ ( دریا کے کنارے پر جب وہ پہنچا ) تو اسے ایک لکڑی ملی جسے اس نے اپنے گھر کے ایندھن کے لیے اٹھا لیا۔ لیکن جب اسے چیرا تو اس میں روپیہ اور خط پایا۔

تشریح : ثابت ہوا کہ دریا میں سے ایسی چیزوں کو اٹھایا جاسکتا ہے بعد میں جو کیفیت سامنے آئے اس کے مطابق عمل کیا جائے۔ اسرائیلی مرد کی حسن نیت کا ثمرہ تھا کہ پائی ہوئی لکڑی کو چیرا تو اسے اس کے اندر اپنی امانت کی رقم مل گئی۔ اسے ہر دو نیک دل اسرائیلوں کی کرامت ہی کہنا چاہئے۔ ورنہ عام حالات میں یہ معاملہ بے حد نازک ہے۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ کچھ بندگان خدا ادائیگی امانت اور عہد کی پاسداری کا کس حد تک خیال رکھتے ہیں اور یہ بہت ہی کم ہیں۔

علامہ قسطلانی فرماتے ہیں : و موضع الترجمۃ قولہ فاخذہا و ہو مبنی علی ان شرع من قبلنا شرع لنا ما لم یات فی شرعنا ما یخالفہ لا سیما اذا ورد بصوۃ الثناءعلی فاعلہ یعنی یہاں مقام ترجمۃ الباب راوی کے یہ الفاظ ہیں۔ فاخذہا یعنی اس کو اس نے لے لیا۔ اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔ کیوں کہ ہمارے پہلے والوں کی شریعت بھی ہمارے لیے شریعت ہے۔ جب تک وہ ہماری شریعت کے خلاف نہ ہو۔ خاص طور پر جب کہ اس کے فاعل پر ہماری شریعت میں تعریف کی گئی ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہر دو اسرائیلیوں کی تعریف فرمائی۔ ان کا عمل اس وجہ سے ہمارے لیے قابل اقتداءبن گیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب اللقطۃ
باب : کوئی شخص راستے میں کھجور پائے؟

حدیث نمبر : 2431
حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن منصور، عن طلحة، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال مر النبي صلى الله عليه وسلم بتمرة في الطريق قال ‏"‏لولا أني أخاف أن تكون من الصدقة لأكلتها‏"‏‏. ‏ وقال يحيى حدثنا سفيان حدثني منصور وقال زائدة عن منصور عن طلحة حدثنا أنس‏.‏
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے منصور بن معتمر نے، ان سے طلحہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی راستے میں ایک کھجور پر نظر پڑی۔ تو آپ نے فرمایا کہ اگر اس کا ڈر نہ ہوتا کہ صدقہ کی ہے تو میں خو داسے کھا لیتا۔

حدیث نمبر : 2432
وقال يحيى: حدثنا سفيان: حدثني منصور. وقال زائدة، عن منصور، عن طلحة: حدثنا أنس. وحدثنا محمد بن مقاتل: أخبرنا عبد الله: أخبرنا معمر، عن همام بن منبه، عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (إني لأنقلب إلى أهلي، فأجد التمرة ساقطة على فراشي، فأرفعها لآكلها، ثم أخشى أن تكون صدقة فألقيها).
اور یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا مجھ سے منصور نے بیان کیا، اور زائدہ بن قدامہ نے بھی منصور سے بیان کیا، اور ان سے طلحہ نے، کہا کہ ہم سے انس رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی ( دوسری سند ) اور ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں ہمام بن منبہ نے اورانہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اپنے گھر جاتا ہوں، وہاں مجھے میرے بستر پر کھجور پڑی ہوئی ملتی ہے۔ میں اسے کھانے کے لیے اٹھا لیتا ہوں۔ لیکن پھر یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں صدقہ کی کھجور نہ ہو۔ تو میں اسے پھینک دیتا ہوں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شاید یہ خیال آتا ہوگا کہ شاید صدقہ کی کھجور جس کو آپ تقسیم کیا کرتے تھے، باہر سے کپڑے میں لگ کر چلی آئی ہوگی۔ ان حدیثوں سے یہ نکلا کہ کھانے پینے کی کم قیمت چیز اگر راستے میں یا گھر میں ملے تو اس کا کھا لینا درست ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اس سے پرہیز کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ صدقہ آپ پر اور سب بنی ہاشم پر حرام تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ایسی حقیر چھوٹی چیزوں کے لیے مالک کا ڈھونڈھنا اور اس کا اعلان کرانا ضروری نہیں ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب اللقطۃ
باب : اہل مکہ کے لقطہ کا کیا حکم ہے؟

مکہ کے لقطہ میں اختلاف ہے۔ بعضوں نے کہا مکہ کا لقطہ ہی اٹھانا منع ہے۔ بعض نے کہا اٹھانا تو جائز ہے لیکن ایک سال کے بعد بھی پانے والے کی ملک نہیں بنتا، اور جمہور مالکیہ اور بعض شافعیہ کا قول یہ ہے کہ مکہ کا لقطہ بھی اور ملکوں کے لقطہ کی طرح ہے۔ حافظ نے کہا کہ شاید امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ مکہ کا لقطہ بھی اٹھانا جائز ہے۔ اور یہ باب لاکر انہوں نے اس راویت کی ضعف کی طرف اشارہ کیا جس میں یہ ہے کہ حاجیوں کی پڑی ہوئی چیز اٹھانا منع ہے۔ ( وحیدی )

وقال طاوس عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏لا يلتقط لقطتها إلا من عرفها‏"‏‏. ‏ وقال خالد عن عكرمة عن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏لا تلتقط لقطتها إلا لمعرف‏"‏‏. ‏
اور طاؤس نے کہا، ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مکہ کے لقطہ کو صرف وہی شخص اٹھائے جو اعلان کرلے، اور خالد حذاءنے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے، اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مکہ کے لقطہ کو اٹھانا صرف اسی کے لیے درست ہے جو اس کا اعلان بھی کرے۔

حدیث نمبر : 2433
وقال أحمد بن سعيد حدثنا روح، حدثنا زكرياء، حدثنا عمرو بن دينار، عن عكرمة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏لا يعضد عضاهها، ولا ينفر صيدها، ولا تحل لقطتها إلا لمنشد، ولا يختلى خلاها‏"‏‏. ‏ فقال عباس يا رسول الله إلا الإذخر‏.‏ فقال ‏"‏إلا الإذخر‏"‏‏. ‏
اور احمد بن سعد نے کہا، ان سے روح نے بیان کیا، ان سے زکریا نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مکہ کے درخت نہ کاٹے جائیں، وہاں کے شکار نہ چھیڑے جائیں، اور وہاں کے لقطہ کو صرف وہی اٹھائے جو اعلان کرے، اور اس کی گھاس نہ کاٹی جائے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ ! اذخر کی اجازت دے دیجئے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اذخر کی اجازت دے دی۔

مقصد باب یہ ہے کہ لقطہ کے متعلق مکہ شریف اور دوسرے مقامات میں کوئی فرق نہیں ہے۔

حدیث نمبر : 2434
حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا الوليد بن مسلم، حدثنا الأوزاعي، قال حدثني يحيى بن أبي كثير، قال حدثني أبو سلمة بن عبد الرحمن، قال حدثني أبو هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال لما فتح الله على رسوله صلى الله عليه وسلم مكة قام في الناس، فحمد الله، وأثنى عليه ثم قال ‏"‏إن الله حبس عن مكة الفيل، وسلط عليها رسوله والمؤمنين، فإنها لا تحل لأحد كان قبلي، وإنها أحلت لي ساعة من نهار، وإنها لا تحل لأحد بعدي، فلا ينفر صيدها ولا يختلى شوكها، ولا تحل ساقطتها إلا لمنشد، ومن قتل له قتيل فهو بخير النظرين، إما أن يفدى، وإما أن يقيد‏"‏‏. ‏ فقال العباس إلا الإذخر، فإنا نجعله لقبورنا وبيوتنا‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏إلا الإذخر‏"‏‏. ‏ فقام أبو شاه ـ رجل من أهل اليمن ـ فقال اكتبوا لي يا رسول الله‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏اكتبوا لأبي شاه‏"‏‏. ‏ قلت للأوزاعي ما قوله اكتبوا لي يا رسول الله قال هذه الخطبة التي سمعها من رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، ان سے امام اوزاعی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ جب اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ فتح کرا دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سامنے کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہاتھیوں کے لشکر کو مکہ سے روک دیا تھا، لیکن اپنے رسول اور مسلمانوں کو اسے فتح کرا دیا۔ دیکھو ! یہ مکہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں ہوا تھا ( یعنی وہاں لڑنا ) اور میرے لیے صرف دن کے تھوڑے سے حصے میں درست ہوا۔ اب میرے بعد کسی کے لیے درست نہیں ہوگا۔ پس اس کے شکار نہ چھیڑے جائیں اور نہ اس کے کانٹے کاٹے جائیں۔ یہاں کی گری ہوئی چیز صرف اسی کے لیے حلال ہوگی جو اس کا اعلان کرے۔ جس کا کوئی آدمی قتل کیا گیا ہو اسے دو باتوں کا اختیار ہے یا ( قاتل سے ) فدیہ ( مال ) لے لے، یا جان کے بدلے جان لے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا، یا رسول اللہ ! اذخر کاٹنے کی اجازت ہو، کیوں کہ ہم اسے اپنی قبروں اور گھروں میں استعمال کرتے ہیں۔ تو آپ نے فرمایا کہ اچھا اذخر کاٹنے کی اجاز ت ہے۔ پھر ابوشاہ یمن کے ایک صحابی نے کھڑے ہو کر کہا، یا رسول اللہ ! میرے لیے یہ خطبہ لکھوا دیجئے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم فرمایا کہ ابوشاہ کے لیے یہ خطبہ لکھ دو۔ میں نے امام اوزاعی سے پوچھا کہ اس سے کیا مراد ہے کہ ” میرے لیے اسے لکھوا دیجئے “ تو انہوں نے کہا کہ وہی خطبہ مراد ہے جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ( مکہ میں ) سنا تھا۔

روایت میں ہاتھی والوں سے مراد ابرہہ ہے جو خانہ کعبہ کو ڈھانے کے لیے ہاتھیوں کا لشکر لے کر آیاتھا۔ جس کا سورۃ الم تر کیف الخ میں ذکر ہے۔ اس حدیث سے عہدنبوی میں کتابت حدیث کا بھی ثبوت ملا، جو منکرین حدیث کے ہفوات باطلہ کی تردید کے لیے کافی وافی ہے۔
 
Top