• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب اللقطۃ
باب : کسی جانور کا دودھ اس کے مالک کی اجازت کے بغیر نہ دوہا جائے

حدیث نمبر : 2435
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏لا يحلبن أحد ماشية امرئ بغير إذنه، أيحب أحدكم أن تؤتى مشربته فتكسر خزانته، فينتقل طعامه فإنما تخزن لهم ضروع مواشيهم أطعماتهم، فلا يحلبن أحد ماشية أحد إلا بإذنه‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی نافع سے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کوئی شخص کسی دوسرے کے دودھ کے جانور کو مالک کی اجازت کے بغیر نہ دوہے۔ کیا کوئی شخص یہ پسند کرے گا کہ ایک غیر شخص اس کے گودام میں پہنچ کر اس کا ذخیرہ کھولے اور وہاں سے اس کا غلہ چرا لائے، لوگوں کے مویشی کے تھن بھی ان کے لیے کھانا یعنی ( دودھ کے ) گودا م ہیں۔ اس لیے انہیں بھی مالک کی اجازت کے بغیر نہ دودھا جائے۔

اضطراری حالت میں اگر جنگ میں کوئی ریوڑ مل جائے اور مضطر اپنی جان سے پریشان ہو اور بھوک وپیا س سے قریب المرگ ہو تو وہ اس حالت میں مالک کی اجازت کے بغیر بھی اس ریوڑ میں سے کسی جانور کا دودھ نکال کر اپنی جان بچا سکتا ہے۔ یہ مضمون دوسری جگہ بیان ہوا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب اللقطۃ
باب : پڑی ہوئی چیز کا مالک اگر ایک سال بعد آئے تو اسے اس کا مال واپس کردے کیوں کہ پانے والے کے پاس وہ امانت ہے

حدیث نمبر : 2436
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن ربيعة بن أبي عبد الرحمن، عن يزيد، مولى المنبعث عن زيد بن خالد الجهني ـ رضى الله عنه ـ أن رجلا سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن اللقطة قال ‏"‏عرفها سنة، ثم اعرف وكاءها وعفاصها، ثم استنفق بها، فإن جاء ربها فأدها إليه‏"‏‏. ‏ قالوا يا رسول الله فضالة الغنم قال ‏"‏خذها فإنما هي لك أو لأخيك أو للذئب‏"‏‏. ‏ قال يا رسول الله، فضالة الإبل قال فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى احمرت وجنتاه ـ أو احمر وجهه ـ ثم قال ‏"‏ما لك ولها، معها حذاؤها وسقاؤها، حتى يلقاها ربها‏"‏‏.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے ربیعہ بن عبدالرحمن نے، ان سے منبعث کے غلام یزید نے، اور ان سے زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہ کے بارے میں پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ۔ پھر اس کے بندھن اور برتن کی بناوٹ کو ذہن میں یاد رکھ۔ اور اسے اپنی ضروریات میں خرچ کر۔ اس کا مالک اگراس کے بعد آئے تو اسے واپس کردے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ ! راستہ بھولی ہوئی بکری کا کیا کیا جائے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے پکڑ لو، کیوں کہ وہ یا تمہاری ہوگی یا تمہارے بھائی کی ہوگی یا پھر بھیڑیئے کی ہوگی۔ صحابہ نے پوچھا، یا رسول اللہ ! راستہ بھولے ہوئے اونٹ کا کیا کیا جائے؟ آپ اس پر غصہ ہو گئے اور چہرہ ¿ مبارک سرخ ہو گیا ( یا راوی نے وجنتاہ کے بجائے ) احمر وجہہ کہا۔ پھر آپ نے فرمایا، تمہیں اس سے کیا مطلب؟ اس کے ساتھ خود اس کے کھر اور اس کا مشکیزہ ہے۔ اسی طرح اسے اس کا اصل مالک مل جائے گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب اللقطۃ
باب : پڑی ہوئی چیز کا اٹھا لینا بہتر ہے ایسا نہ ہو وہ خراب ہو جائے یا کوئی غیر مستحق اس کو لے بھاگے

مال کی حفاظت کے پیش نظر ایسا کرنا ضروری ہے ورنہ کوئی نااہل اٹھا لے جائے گا، اور وہ اسے ہضم کر بیٹھے گا۔ مضمون حدیث سے باب کا مطلب ظاہر ہے کہ تھیلی کے اٹھا لینے والے شخص پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اظہار خفگی نہیں فرمایا بلکہ یہ ہدایت ہوئی کہ اس کا سال بھر اعلان کرتے رہو اگر وہ چیز کوئی زیادہ قیمتی نہیں ہے تو ا سکے متعلق احمد و ابوداؤد میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے قال رخص لنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی العصاءو الحبل واشباہہ یلتقطہ الرجل ینتفع بہ رواہ احمد وابوداود یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو لکڑی ڈنڈے اور رسی اور اس قسم کی معمولی چیز کے بارے میں رخصت عطا فرمائی جن کو انسان پڑا ہوا پائے۔ ان سے نفع اٹھائے۔ اس پر امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں فیہ دلیل علی جواز الانتفاع بما یوجد فی الطرقات من المحقرات و لا یحتاج الی التعریف و قیل انہ یجب التعریف بہا ثلاثۃ ایام لما اخرجہ احمد و الطبرانی و البیہقی و الجوزجانی ( نیل الاوطار ) یعنی اس میں دلیل ہے کہ حقیر چیزیں جو راستے میں پڑی ہوئی ملیں ان سے نفع اٹھانا جائز ہے۔ ان کے لیے اعلان کی ضرورت نہیں، اور یہ بھی کہا گیا کہ تین دن تک اعلان کرنا واجب ہے۔ احمد اور طبرانی اور بیہقی اور جوزجانی میں ایسا منقول ہے۔

حدیث نمبر : 2437
حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا شعبة، عن سلمة بن كهيل، قال سمعت سويد بن غفلة، قال كنت مع سلمان بن ربيعة، وزيد بن صوحان في غزاة، فوجدت سوطا‏.‏ فقال لي ألقه‏.‏ قلت لا، ولكن إن وجدت صاحبه، وإلا استمتعت به‏.‏ فلما رجعنا حججنا فمررت بالمدينة، فسألت أبى بن كعب ـ رضى الله عنه ـ فقال وجدت صرة على عهد النبي صلى الله عليه وسلم فيها مائة دينار، فأتيت بها النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏عرفها حولا‏"‏‏. ‏ فعرفتها حولا ثم أتيت، فقال ‏"‏عرفها حولا‏"‏‏. ‏ فعرفتها حولا ثم أتيته، فقال ‏"‏عرفها حولا‏"‏‏. ‏ فعرفتها حولا ثم أتيته الرابعة فقال ‏"‏اعرف عدتها ووكاءها ووعاءها، فإن جاء صاحبها وإلا استمتع بها‏"‏‏. حدثنا عبدان قال: أخبرني أبي، عن شعبة، عن سلمة: بهذا، قال: فلقيته بعد بمكة، فقال: لا أدري أثلاثة أحوال، أو حولا واحدا.‏
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن کہیل نے بیان کیا کہ میں نے سوید بن غفلہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں سلمان بن ربیعہ اور زید بن صوحان کے ساتھ ایک جہاد میں شریک تھا۔ میں نے ایک کوڑا پایا ( اور اس کو اٹھا لیا ) دونوں میں سے ایک نے مجھ سے کہا کہ اسے پھینک دے۔ میں نے کہا کہ ممکن ہے مجھے اس کا مالک مل جائے۔ ( تو اس کو دے دوں گا ) ورنہ خود اس سے نفع اٹھاؤں گا۔ جہاد سے واپس ہونے کے بعد ہم نے حج کیا۔ جب میں مدینے گیا تو میں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے اس کے بارے میں پوچھا، انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مجھ کو ایک تھیلی مل گئی تھی۔ جس میں سو دینار تھے۔ میں اسے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گیا۔ آپ نے فرمایا کہ ایک سال تک ا س کا اعلان کرتا رہ، میں نے ایک سال تک اس کا اعلان کیا اور پھر حاضر ہوا۔ ( کہ مالک ابھی تک نہیں ملا ) آپ نے فرمایا کہ ایک سال تک اور اعلان کر، میں نے ایک سال تک اس کا پھر اعلان کیا، اورحاضر خدمت ہوا۔ اس مرتبہ بھی آپ نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا پھر اعلان کر، میں نے پھر ایک سال تک اعلان کیا اور جب چوتھی مرتبہ حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ رقم کے عدد، تھیلی کا بندھن، اور اس کی ساخت کو خیال میں رکھ، اگر اس کا مالک مل جائے تو اسے دے دے ورنہ اسے اپنی ضروریات میں خرچ کر۔ ہم سے عبدان نے بیان کیا کہا کہ مجھے میرے باپ نے خبر دی شعبہ سے اور انہیں سلمہ نے یہی حدیث، شعبہ نے بیان کیا کہ پھر اس کے بعد مکہ میں سلمہ سے ملا، تو انہوں نے کہا کہ مجھے خیال نہیں ( اس حدیث میں سوید نے ) تین سال تک بتلانے کا ذکر کیا تھا یا ایک سال کا۔

معلوم ہوا کہ نیک نیتی کے ساتھ کسی پڑی ہوئی چیز کو اٹھا لینا ہی ضروری ہے تاکہ وہ کسی غلط آدمی کے حوالہ نہ پڑ جائے۔ اٹھا لینے کے بعدحدیث مذکورہ کی روشنی میں عمل در آمد ضروری ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب اللقطۃ
باب : لقطہ کو بتلانا لیکن حاکم کے سپرد نہ کرنا

اس باب میں امام اوزاعی کے قول کا رد منظور ہے۔ انہوں نے کہا اگر لقطہ بیش قیمت ہو تو بیت المال میں داخل کر دے۔

حدیث نمبر : 2438
حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن ربيعة، عن يزيد، مولى المنبعث عن زيد بن خالد ـ رضى الله عنه ـ أن أعرابيا، سأل النبي صلى الله عليه وسلم عن اللقطة قال ‏"‏عرفها سنة، فإن جاء أحد يخبرك بعفاصها ووكائها، وإلا فاستنفق بها‏"‏‏. ‏ وسأله عن ضالة الإبل فتمعر وجهه، قال ‏"‏ما لك ولها معها سقاؤها وحذاؤها، ترد الماء وتأكل الشجر، دعها حتى يجدها ربها‏"‏‏. ‏ وسأله عن ضالة الغنم‏.‏ فقال ‏"‏هي لك أو لأخيك، أو للذئب‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ربیعہ سے، ان سے منبعث کے غلام یزید نے، اور ان سے زید بن خالد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہ کے متعلق پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ، اگر کوئی ایسا شخص آجائے جو اس کی بناوٹ اور بندھن کے بارے میں صحیح صحیح بتائے ( تو اسے دے دے ) ورنہ اپنی ضروریات میں اسے خرچ کر۔ انہوں نے جب ایسے اونٹ کے متعلق بھی پوچھا جو راستہ بھول گیا ہو۔ تو آپ کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا اور آپ نے فرمایا کہ تمہیں اس سے کیا مطلب؟ اس کے ساتھ اس کا مشکیزہ اور اس کے کھر موجود ہیں۔ وہ خود پانی تک پہنچ سکتا ہے۔ اور درخت کے پتے کھا سکتاہے اور اس طرح وہ اپنے مالک تک پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے راستہ بھولی ہوئی بکری کے متعلق بھی پوچھا، تو آپ نے فرمایا کہ یا وہ تمہاری ہوگی یا تمہارے بھائی ( اصل مالک ) کو مل جائے گی۔ ورنہ اسے بھیڑیا اٹھا لے جائے گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب اللقطۃ
باب :۔۔۔

تشریح : اس باب میں کوئی ترجمہ نہیں ہے گویا پہلے باب ہی سے متعلق ہے، اس حدیث کی مناسبت باب اللقطہ سے یہ ہے کہ جنگل میں اس دودھ کا پینے والا کوئی نہ تھا، تو وہ بھی پڑی ہوئی چیز کے مثل ہوا اور چرواہا گو موجود تھا، مگر یہ دودھ اس کی ضرورت سے زائد تھا۔

بعض نے کہا کہ مناسبت یہ ہے کہ اگر لقطہ میں کوئی کم قیمت کھانے پینے کی چیز ملے تو اس کا کھا پی لینا درست ہے جیسے اوپر کھجور کی حدیث گزری ہے۔ اور یہ دودھ بھی۔ جب اس کا مالک وہاں موجود نہ تھا لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کو لےا اور استعمال کیا۔ اسے کھجور پر قیاس کیا گیا ہے۔ گو چرواہا موجود تھا۔ مگر وہ دودھ کا مالک نہ تھا۔ اس وجہ سے گویا اس کا وجود اور عدم برابر ہوا۔ اور دودھ مثل لقطہ ٹھہرا، واللہ اعلم ( وحیدی )

ابن ماجہ میں صحیح سند کے ساتھ ابوسعید سے مرفوعاً مروی ہے۔ اذا اتیت علی راع فنادہ ثلاث مرات فان اجابک و الا فاشرب من غیر ان تفسد و اذا اتیت علی حائط بستان فنادہ ثلاث مرات فان اجابک و الا فکل من غیر ان تفسد یعنی تم کسی ریوڑ پر آؤ تو اس کے چرواہے کو تین دفعہ پکارو، وہ کچھ بھی جواب نہ دے تو اس کا دودھ پی سکتے ہو۔ مگرنقصان پہنچانے کا خیال نہ ہو۔ اسی طرح باغ کا حکم ہے۔ طحاوی نے کہا کہ ان احادیث کا تعلق اس عہد سے ہے جب کہ مسافروں کی ضیافت کا حکم بطور وجوب تھا۔ جب وجوب منسوخ ہوا تو ان احادیث کے احکام بھی منسوخ ہو گئے۔

حدیث نمبر : 2439
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا النضر، أخبرنا إسرائيل، عن أبي إسحاق، قال أخبرني البراء، عن أبي بكر ـ رضى الله عنهما ـ‏.‏ حدثنا عبد الله بن رجاء، حدثنا إسرائيل، عن أبي إسحاق، عن البراء، عن أبي بكر ـ رضى الله عنهما ـ قال انطلقت، فإذا أنا براعي غنم يسوق غنمه فقلت لمن أنت قال لرجل من قريش‏.‏ فسماه فعرفته‏.‏ فقلت هل في غنمك من لبن فقال نعم‏.‏ فقلت هل أنت حالب لي قال نعم‏.‏ فأمرته فاعتقل شاة من غنمه، ثم أمرته أن ينفض ضرعها من الغبار، ثم أمرته أن ينفض كفيه، فقال هكذا ـ ضرب إحدى كفيه بالأخرى ـ فحلب كثبة من لبن وقد جعلت لرسول الله صلى الله عليه وسلم إداوة على فمها خرقة، فصببت على اللبن، حتى برد أسفله، فانتهيت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقلت اشرب يا رسول الله‏.‏ فشرب حتى رضيت‏.
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو نضر نے خبر دی، کہا کہ ہم کو اسرائیل نے خبر دی ابواسحاق سے کہ مجھے براءبن عازب رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے خبر دی ( دوسری سند ) ہم سے عبداللہ بن رجاءنے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسرائیل نے بیان کیا ابواسحاق سے، اورانہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہ ( ہجرت کرکے مدینہ جاتے وقت ) میں نے تلاش کیا تو مجھے ایک چرواہا ملا جو اپنی بکریاں چرا رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم کس کے چرواہے ہو؟ اس نے کہا کہ قریش کے ایک شخص کا۔ اس نے قریشی کا نام بھی بتایا، جسے میں جانتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کیا تمہارے ریوڑ کی بکریوں میں دودھ بھی ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں ! میں نے اس سے کہا کیا تم میرے لیے دودھ دوہ لو گے؟ اس نے کہا، ہاں ضرور ! چنانچہ میں نے اس سے دوہنے کے لیے کہا۔ وہ اپنے ریوڑ سے ایک بکری پکڑ لایا۔ پھر میں نے اس سے بکری کا تھن گرد وغبار سے صاف کرنے کے لیے کہا۔ پھر میں نے اس سے اپنا ہاتھ صاف کرنے کے لیے کہا۔ اس نے ویسا ہی کیا۔ ایک ہاتھ کو دوسرے پر مار کر صاف کر لیا۔ اور ایک پیالہ دودھ دوہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے میں نے ایک برتن ساتھ لیا تھا۔ جس کے منہ پر کپڑا بندھا ہوا تھا۔ میں نے پانی دودھ پر بہایا۔ جس سے اس کا نچلا حصہ ٹھنڈا ہو گیا پھر دودھ لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور عرض کیا کہ دودھ حاضر ہے۔ یا رسول اللہ ! پی لیجئے، آپ نے اسے پیا، یہاں تک کہ میں خوش ہو گیا۔

تشریح : اس باب کے لانے سے غرض یہ ہے کہ اس مسئلہ میں لوگوں کا اختلاف ہے۔ بعض نے یہ کہا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی باغ پر سے گزرے یا جانوروں کے گلے پر سے تو باغ کا پھل یا جانور کا دودھ کھا پی سکتا ہے۔ گو مالک سے اجازت نہ لے، مگر جمہور علماءاس کے خلاف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بے ضرورت ایسا کرنا جائز نہیں۔ اور ضرورت کے وقت اگرکر گزرے تو مالک کو تاوان دے۔ امام احمد نے کہا اگر باغ پر حصار نہ ہو تو تر میوہ کھا سکتا ہے۔ گو ضرورت نہ ہو۔ ایک روایت یہ ہے کہ جب اس کی ضرورت اور احتیاج ہو، لیکن دونوں حالتوں میں اس پر تاوان نہ ہوگا۔ اور دلیل ان کی امام بیہقی کی حدیث ہے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً جب تم میں سے کوئی کسی باغ پر سے گزرے تو کھا لے۔ لیکن جمع کرکے نہ لے جائے۔

خلاصہ یہ ہے کہ آج کل کے حالات میں بغیر اجازت کسی بھی باغ کا پھل کھانا خواہ حاجت ہو یا نہ ہو مناسب نہیں ہے۔ اسی طرح کسی جانور کا دودھ نکال کر از خود پی لینا اور مالک سے اجازت نہ لینا، یہ بھی اس دور میں ٹھیک نہیں ہے۔ کسی شخص کی اضطراری حالت ہو، وہ پیاس اور بھوک سے قریب المرگ ہو اور اس حالت میں وہ کسی باغ پر سے گزرے یا کسی ریوڑ پر سے، تو اس کے لیے ایسی مجبوری میں اجازت دی گئی ہے۔ یہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ بعد میں مالک اگر تاوان طلب کرے تو اسے دینا چاہئے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب المظالم والغصب


صحیح بخاری -> کتاب المظالم والغصب
(کتاب لوگوں پر ظلم کرنے اور مال غصب کرنے کے بیان میں)
بسم اللہ الرحمن الرحیم


تشریح : لفظ مظالم ظلم کی جمع ہے جس کے معنی ہیں لوگوں پر ناحق زیادتی کرنا، اور یہ بھی کہ ناحق کسی کا مال مار لینا اور غصب کے معنی کسی کا مال ناحق طور پر ہضم کرجانے کے ہیں۔
حضرت مجتہد مطلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے اسلوب کے مطابق مظالم اور غصب کی برائی میں آیات قرآن کو نقل فرمایا، جن کا مضمون ظاہر ہے کہ ظالموں کا انجام دنیا و آخرت میں بہت برا ہونے والا ہے۔ آیت شریفہ کا حصہ و ان کان مکرہم لتزول منہ الجبال ( اور اللہ کے پاس ان ظالم کافروں کا مکر لکھا ہوا ہے، اس کے سامنے کچھ نہیں چلے گی ) گو ان کے مکر سے دنیا میں پہاڑ سرک جائیں۔ بعض نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے ”مکر سے کہیں پہاڑ بھی سرک سکتے ہیں۔ “ یعنی اللہ کی شریعت پہاڑ کی طرح جمی ہوئی اور مضبوط ہے۔ ان کے مکر و فریب سے وہ اکھڑ نہیں سکتی۔ اس آیت کو لا کر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ثابت فرمایا کہ پرایا مال چھین لینا اور ڈکار جانا ظلم اور غصب ہے جو عند اللہ بہت بڑا گناہ ہے کیوں کہ اس کا تعلق حقوق العباد کے ساتھ ہے۔

باب : ۔۔۔
وقول الله تعالى: {ولا تحسبن الله غافلا عما يعمل الظالمون إنما يؤخرهم ليوم تشخص فيه الأبصار. مهطعين مقنعي رؤوسهم}: رافعي، المقنع والمقمح واحد. وقال مجاهد ‏{‏مهطعين‏}‏ مديمي النظر‏.‏ ويقال مسرعين ‏{‏لا يرتد إليهم طرفهم وأفئدتهم هواء‏}‏ يعني جوفا لا عقول لهم ‏{‏وأنذر الناس يوم يأتيهم العذاب فيقول الذين ظلموا ربنا أخرنا إلى أجل قريب نجب دعوتك ونتبع الرسل أولم تكونوا أقسمتم من قبل ما لكم من زوال * وسكنتم في مساكن الذين ظلموا أنفسهم وتبين لكم كيف فعلنا بهم وضربنا لكم الأمثال * وقد مكروا مكرهم وعند الله مكرهم وإن كان مكرهم لتزول منه الجبال * فلا تحسبن الله مخلف وعده رسله إن الله عزيز ذو انتقام‏}‏ ‏.‏

اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ ابراہیم میں فرمایا ” اور ظالموں کے کاموں سے اللہ تعالیٰ کو غافل نہ سمجھنا۔ اور اللہ تعالیٰ تو انہیں صرف ایک ایسے دن کے لیے مہلت دے رہا ہے جس میں آنکھیں پتھرا جائیں گی۔ اور وہ سر اوپر کو اٹھائے بھاگے جارہے ہوں گے۔ مقنع اور مقمح دونوں کے معنے ایک ہی ہیں۔ مجاہد نے فرمایا کہ مھطعین کے معنے برابر نظر ڈالنے والے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مھطعین کے معنی جلدی بھاگنے والا، ان کی نگاہ خود ان کی طرف نہ لوٹے گی۔ اور دلوں کے چھکے چھوٹ جائیں گے کہ عقل بالکل نہیں رہے گی اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ اے محمد ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) لوگوں کو اس دن سے ڈراؤ جس دن ان پر عذاب آ اترے گا، جو لوگ ظلم کر چکے ہیں۔ وہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ! ( عذاب کو ) کچھ دنوں کے لیے ہم سے اور موخر کردے، تو اب کی بار ہم تیرا حکم سن لیں گے اور تیرے انبیاءکی تابعداری کریں گے۔ جواب ملے گا کیا تم نے پہلے یہ قسم نہیں کھائی تھی کہ تم پر کبھی ادبا رنہیں آئے گا؟ اور تم ان قوموں کی بستیوں میں رہ چکے ہو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا اور تم پر یہ بھی ظاہر ہو چکا تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا۔ ہم نے تمہارے لیے مثالیں بھی بیان کر دی ہیں۔ انہوں نے برے مکر اختیا رکیے اور اللہ کے یہاں ان کے یہ بدترین مکر لکھ لئے گئے۔ اگرچہ ان کے مکر ایسے تھے کہ ان سے پہاڑ بھی ہل جاتے ( مگر وہ سب بیکار ثابت ہوئے ) پس اللہ کے متعلق ہرگز یہ خیال نہ کرنا کہ وہ اپنے انبیاءسے کئے ہوئے وعدوں کے خلا ف کرے گا۔ بلاشبہ اللہ غالب اور بدلہ لینے والا ہے۔

تشریح : ظالموں کے بارے میں ان آیات میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ محتاج وضاحت نہیں ہے۔ انسانی تاریخ میں کتنے ہی ظالم بادشاہوں، امیروں، حاکموں کے نام آتے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے وقتوں میں مخلوق خدا پر مظالم کے پہاڑ توڑے۔ اپنی خواہشات کے لیے انہوں نے زیر دستوں کو بری طرح ستایا۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسا پکڑا کہ وہ مع اپنے جاہ و حشم کے دنیا سے حرف غلط کی طرح مٹ گئے اور ان کی کہانیاں باقی رہ گئیں۔ دنیا میں اللہ سے بغاوت کرنے کے بعد سب سے بڑا گناہ ظلم کرنا ہے یہ وہ گناہ ہے جس کے لیے خدا کے یہاں کبھی بھی معافی نہیں۔ جب تک خود مظلوم ہی نہ معاف کردے۔

مظالم کی چکی آج بھی برابر چل رہی ہے۔ آج مظالم ڈھانے والے اکثریت کے گھمنڈ میں اقلیتوں پر ظلم ڈھا رہے ہیں۔ نسلی غرور، مذہبی تعصب، جغرافیائی نفرت، ان بیماریوں نے آج کے کتنے ہی فراعنہ اور نماردہ کو ظلم پر کمربستہ کر رکھا ہے۔ الٰہی قانون ان کو بھی پکار کر کہہ رہا ہے کہ ظالمو ! وقت آرہا ہے کہ تم سے ظلموں کا بدلہ لیا جائے گا۔ تم دنیا سے حرف غلط کی طرف مٹا دیئے جاؤ گے۔ آنے والی نسلیں تمہارے ظلم کی تفصیلات سن سن کر تمہارے ناموں پر تھوتھو کر کے تمہارے اوپر لعنت بھیجیں گی۔ آیت شریفہ فلا تحسبن اللہ مخلف وعدہ رسلہ ان اللہ عزیز ذو انتقام ( ابراہیم : 47 ) کا یہی مطلب ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المظالم والغصب
باب : ظلموں کا بدلہ کس کس طور پر لیا جائے گا

اس طرح کہ مظلوم کو ظالم کی نیکیاں مل جائیں گی۔ اگر ظالم کے پا س نیکیاں نہ ہوں گی تو مظلوم کی برائیاں اس پر ڈالی جائیں گی یا مظلوم کو حکم دیا جائے گا کہ ظالم کو انتی ہی سزا دے لے جو اس نے مظلوم کو دنیا میں دی تھی۔ اور جس بندے کو اللہ بچانا چاہے گا اس کے مظلوم کو اس سے راضی کر دے گا۔

حدیث نمبر : 2440
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا معاذ بن هشام، حدثني أبي، عن قتادة، عن أبي المتوكل الناجي، عن أبي سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏إذا خلص المؤمنون من النار حبسوا بقنطرة بين الجنة والنار، فيتقاصون مظالم كانت بينهم في الدنيا، حتى إذا نقوا وهذبوا أذن لهم بدخول الجنة، فوالذي نفس محمد صلى الله عليه وسلم بيده لأحدهم بمسكنه في الجنة أدل بمنزله كان في الدنيا‏"‏‏. ‏ وقال يونس بن محمد حدثنا شيبان عن قتادة حدثنا أبو المتوكل‏.‏
ہم سے اسحق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو معاذ بن ہشام نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم سے ان کے باپ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے ابوالمتوکل ناجی نے اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب مومنوں کو دوزخ سے نجات مل جائے گی تو انہیں ایک پل پر جو جنت اور دوزخ کے درمیان ہوگا روک لیا جائے گا اور وہیں ان کے مظالم کا بدلہ دے دیا جائے گا۔ جو وہ دنیا میں باہم کرتے تھے۔ پھر جب پاک صاف ہو جائیں گے تو انہیں جنت میں داخلہ کی اجازت دی جائے گی۔ اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، ان میں سے ہر شخص اپنے جنت کے گھر کو اپنے دنیا کے گھر سے بھی بہتر طور پر پہچانے گا۔ یونس بن محمد نے بیان کیا کہ ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے ابوالمتوکل نے بیان کیا۔

اس سند کے بیان کرنے سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ قتادہ کا سماع ابوالمتوکل سے معلوم ہو جائے۔
( یا اللہ ! اپنے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ان پاکیزہ ارشادات کی قدر کرنے والوں کو فردوس بریں عطا فرمائیو۔ آمین )
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المظالم والغصب
باب : اللہ تعالیٰ کا سورہ ہود میں یہ فرمانا کہ ” سن لو ! ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہے۔ “

حدیث نمبر : 2441
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا همام، قال أخبرني قتادة، عن صفوان بن محرز المازني، قال بينما أنا أمشي، مع ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ آخذ بيده إذ عرض رجل، فقال كيف سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم في النجوى فقال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏إن الله يدني المؤمن فيضع عليه كنفه، ويستره فيقول أتعرف ذنب كذا أتعرف ذنب كذا فيقول نعم أى رب‏.‏ حتى إذا قرره بذنوبه ورأى في نفسه أنه هلك قال سترتها عليك في الدنيا، وأنا أغفرها لك اليوم‏.‏ فيعطى كتاب حسناته، وأما الكافر والمنافقون فيقول الأشهاد هؤلاء الذين كذبوا على ربهم، ألا لعنة الله على الظالمين‏"‏‏. ‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمام نے بیان کیا، کہا کہ مجھے قتادہ نے خبر دی، ان سے صفوان بن محرزمازنی نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ہاتھ میں ہاتھ دیئے جارہا تھا۔ کہ ایک شخص سامنے آیا اور پوچھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے ( قیامت میں اللہ اور بندے کے درمیان ہونے والی ) سرگوشی کے بارے میں کیا سنا ہے؟ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ مومن کو اپنے نزدیک بلا لے گا اور اس پر اپنا پردہ ڈال دے گا اور اسے چھپا لے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کیا تجھ کو فلاں گناہ یاد ہے؟ کیا فلاں گناہ تجھ کو یاد ہے؟ وہ مومن کہے گا ہاں، اے میرے پروردگار۔ آخر جب وہ اپنے گناہوں کا اقرار کر لے گا اور اسے یقین آجائے گا کہ اب وہ ہلاک ہوا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے دنیا میں تیرے گناہوں پر پردہ ڈالا۔ اور آج بھی میں تیری مغفرت کرتا ہوں، چنانچہ اسے اس کی نیکیوں کی کتاب دے دی جائے گی، لیکن کافر اور منافق کے متعلق ان پر گواہ ( ملائیکہ، انبیاء، اور تمام جن و انس سب ) کہیں گے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ باندھا تھا۔ خبر دار ہو جاؤ ! ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہو گی۔

اس حدیث کو کتاب الغصب میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ا س لیے لائے کہ آیت میں جو یہ وارد ہے کہ ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہے تو ظالموں سے کافر مراد ہیں اور مسلمان اگر ظلم کرے تو وہ اس آیت میں داخل نہیں ہے۔ اس سے ظلم کا بدلہ گو ضرور لیا جائے گا، پر وہ ملعون نہیں ہو سکتا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المظالم والغصب
باب : کوئی مسلمان کسی مسلمان پر ظلم نہ کرے او رنہ کسی ظالم کو اس پر ظلم کرنے دے

حدیث نمبر : 2442
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، أن سالما، أخبره أن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏المسلم أخو المسلم، لا يظلمه ولا يسلمه، ومن كان في حاجة أخيه كان الله في حاجته، ومن فرج عن مسلم كربة فرج الله عنه كربة من كربات يوم القيامة، ومن ستر مسلما ستره الله يوم القيامة‏"‏‏. ‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں سالم نے خبر دی، اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، پس اس پر ظلم نہ کرے اور نہ ظلم ہونے دے۔ جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرے، اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کی ایک مصیبت کو دور کرے، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مصیبتوں میں سے ایک بڑی مصیبت کو دور فرمائے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کے عیب کو چھپائے اللہ تعالیٰ قیامت میں اسے کے عیب چھپائے گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المظالم والغصب
باب : ہر حال میں مسلمان بھائی کی مدد کرنا وہ ظالم ہو یا مظلوم

اس کی تفسیر خود آگے کی حدیث میں آتی ہے اگر مسلمان بھائی کسی پر ظلم کر رہا ہو تو اس کی مدد یوں کرے کہ اس کو سمجھا کر باز رکھے کیوں کہ ظلم کا انجام برا ہے ایسا نہ ہو وہ مسلمان ظلم کی وجہ سے کسی بڑی آفت میں پڑ جائے۔

حدیث نمبر : 2443
حدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا هشيم، أخبرنا عبيد الله بن أبي بكر بن أنس، وحميد الطويل، سمعا أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏انصر أخاك ظالما أو مظلوما‏"‏‏. ‏
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشیم نے بیان کیا، انہیں عبید اللہ بن ابی بکیر بن انس اور حمید طویل نے خبر دی، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اپنے بھائی کی مدد کرو وہ ظالم ہو یا مظلوم۔

حدیث نمبر : 2444
حدثنا مسدد، حدثنا معتمر، عن حميد، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏انصر أخاك ظالما أو مظلوما‏"‏‏. ‏ قالوا يا رسول الله هذا ننصره مظلوما، فكيف ننصره ظالما قال ‏"‏تأخذ فوق يديه‏"‏‏.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر نے بیان کیا، ان سے حمید نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! ہم مظلوم کی تو مدد کرسکتے ہیں۔ لیکن ظالم کی مدد کس طرح کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ظلم سے اس کا ہاتھ پکڑ لو۔ ( یہی اس کی مدد ہے
 
Top