• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میں حنفی مسلک کا پیروکار تھا، لیکن ؟؟؟؟ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
دین کو آپ حضرات نے ایسا چوں چوں کا مربہ بنا دیا ہے کہ شائد ہی کسی شے کو غلط کہا جا سکے۔ العیاذ باللہ!

ایک مسئلہ چاہے وہ کتاب وسنت میں کتنا ہی واضح کیوں نہ ہو اس کے مخالف عقیدہ رکھنے والے بھی اپنے آپ کو الٹے سیدھے دلائل سے مطمئن کر لیتے ہیں۔ بریلوی وشیعہ حضرات بھی بہت سارے مسائل میں کتاب وسنت کے صریح خلاف موقف کو بھی اپنے تئیں عجیب وغریب قرآن وحدیث کے دلائل سے مزین کر لیتے ہیں۔ اشماریہ صاحب کے نزدیک گویا وہ عین حق پر ہیں۔ ایسے بھی ’مسلمان‘ موجود ہیں جو شراب، جوا، سود اور موسیقی وغیرہ کو اپنے تئیں ’دلائل وبراہین‘ کی بنا پر جائز کیے بیٹھے ہیں۔ وہ سب اشماریہ صاحب کے نزدیک صحیح ہیں؟

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں پچھلی قوموں کی جو خرابیاں بیان کی ہیں، اشماریہ صاحب کے نزدیک کیا ان میں سے کوئی خرابی بھی آج کسی مسلمان میں پائی جاتی ہے یا وہ تمام خرابیاں صرف غیر مسلموں کیلئے ہی ہیں۔ تو گویا قرآن کریم غیر مسلموں کیلئے اُترا ہے اور انہیں ہی اس سے اپنی اصلاح کرنا چاہئے۔ مسلمان تو دھلے دھلائے ہیں (یہودیوں عیسائیوں کی طرح) اللہ کے محبوب ہیں اور مرنے کے بعد جنت ہی تو ان کا انتظار کر رہی ہے، اگر اپنے گناہوں کی بناء پر جہنم میں گئے بھی تو چند دن!!! العیاذ باللہ!

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
بھائی جان! اس طرح تو میرا خیال ہے فقہی اختلاف کی بنیاد پر بھی یہی ہوگا کہ امام احمد، مالک، ابو حنیفہ، ثوری، شافعی وغیرہ حرام کام کرنے کی وجہ سے جہنم میں جا رہے ہوں گے کیوں کہ وہ دوسرے کے نزدیک حرام تھا، ان کے نزدیک تو جائز تھا۔ اور دوسرے کی بات درست تھی۔ انہوں نے تو اپنے آپ کو دلائل سے مطمئن کر لیا تھا۔
بلکہ شد رحال اور طلاق ثلاثہ میں ابن تیمیہؒ اور سبکیؒ میں سے ایک تو ضرور رخ کرے گا وہاں کا۔ (ابتسامہ)
مہربانی فرما کر ذرا سا سوچ بھی لیا کریں۔

میرا خیال ہے کہ یہ تحقیق و تاویل ایسا معاملہ ہے کہ بندہ کا دل یہ فیصلہ کر دیتا ہے کہ میں اس میں ڈنڈی مار رہا ہوں یا نہیں۔ شیعہ بھی اپنے بعض عقائد کے لیے قرآن کا سہارا لیتے ہیں لیکن وہ کس قدر درست ہوتے ہیں وہ خود جانتے ہیں۔


سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کو بعض مسائل میں اپنی تحقیق میں اپنے باپ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اختلاف تھا۔ اور بھی دیگر مسائل میں بعض صغار صحابہ کو تحقیق میں کبار صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے اختلاف تھا لیکن کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ راجح تو میرے نزدیک یہ ہے لیکن میں تحقیق میں فلاں پر اعتماد کرتا ہوں اور ان کی تحقیق کو مضبوط مانتے ہوئے ان کے مسئلے پر عمل کرتا ہوں۔
پوسٹ دوبارہ پڑھیے۔
یہ کہنے کا مطلب کہ "فلاں کا موقف راجح ہے لیکن ہم فلاں کے مقلد ہیں اور ہم پر انہی کی تقلید واجب ہے" یہ ہوتا ہے کہ راجح میری نظر میں ہے لیکن جب ہم تحقیق کے سلسلے میں فلاں پر اعتماد کرتے ہیں اور ان کی تحقیق کو مضبوط مانتے ہیں تو انہی کے مسئلے پر عمل کریں گے۔ یعنی اپنی تحقیق راجح ہونے کے باوجود اس پر دل کو ذرا سا شک ہوتا ہے۔
یہ ہر جگہ اور ہر تحقیق میں نہیں ہوتا۔ خیر میں نے عرض کیا تھا۔
میرا خیال ہے اس سے زیادہ واضح انداز میں میں نہیں سمجھا سکتا۔ اگر تعصب سے ہٹ کر اسے پڑھیں تو امید ہے کافی ہوگا۔ ورنہ فی امان اللہ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
دین کو آپ حضرات نے ایسا چوں چوں کا مربہ بنا دیا ہے کہ شائد ہی کسی شے کو غلط کہا جا سکے۔ العیاذ باللہ!
ایک مسئلہ چاہے وہ کتاب وسنت میں کتنا ہی واضح کیوں نہ ہو اس کے مخالف عقیدہ رکھنے والے بھی اپنے آپ کو الٹے سیدھے دلائل سے مطمئن کر لیتے ہیں۔ بریلوی وشیعہ حضرات بھی بہت سارے مسائل میں کتاب وسنت کے صریح خلاف موقف کو بھی اپنے تئیں عجیب وغریب قرآن وحدیث کے دلائل سے مزین کر لیتے ہیں۔ اشماریہ صاحب کے نزدیک گویا وہ عین حق پر ہیں۔ ایسے بھی ’مسلمان‘ موجود ہیں جو شراب، جوا، سود اور موسیقی وغیرہ کو اپنے تئیں ’دلائل وبراہین‘ کی بنا پر جائز کیے بیٹھے ہیں۔ وہ سب اشماریہ صاحب کے نزدیک صحیح ہیں؟
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں پچھلی قوموں کی جو خرابیاں بیان کی ہیں، اشماریہ صاحب کے نزدیک کیا ان میں سے کوئی خرابی بھی آج کسی مسلمان میں پائی جاتی ہے یا وہ تمام خرابیاں صرف غیر مسلموں کیلئے ہی ہیں۔ تو گویا قرآن کریم غیر مسلموں کیلئے اُترا ہے اور انہیں ہی اس سے اپنی اصلاح کرنا چاہئے۔ مسلمان تو دھلے دھلائے ہیں (یہودیوں عیسائیوں کی طرح) اللہ کے محبوب ہیں اور مرنے کے بعد جنت ہی تو ان کا انتظار کر رہی ہے، اگر اپنے گناہوں کی بناء پر جہنم میں گئے بھی تو چند دن!!! العیاذ باللہ!
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
بھائی جان! اس طرح تو میرا خیال ہے فقہی اختلاف کی بنیاد پر بھی یہی ہوگا کہ امام احمد، مالک، ابو حنیفہ، ثوری، شافعی وغیرہ حرام کام کرنے کی وجہ سے جہنم میں جا رہے ہوں گے کیوں کہ وہ دوسرے کے نزدیک حرام تھا، ان کے نزدیک تو جائز تھا۔ اور دوسرے کی بات درست تھی۔ انہوں نے تو اپنے آپ کو دلائل سے مطمئن کر لیا تھا۔
بلکہ شد رحال اور طلاق ثلاثہ میں ابن تیمیہؒ اور سبکیؒ میں سے ایک تو ضرور رخ کرے گا وہاں کا۔ (ابتسامہ)
مہربانی فرما کر ذرا سا سوچ بھی لیا کریں۔
کہاں کی بات کہاں جوڑی ہے آپ نے۔ میں جہلاء کی بات کر رہا ہوں اور آپ اسے امام ابو حنیفہ، امام مالک، شافعی واحمد رحمۃ اللہ علیہم اجمعین جیسے کبار علماء پر منطبق کر رہے ہیں۔ شتان ما بينهما کیا آپ کے نزدیک ہمارے یہ بزرگ ائمہ ایسے گئے گزرے تھے؟! انا للہ وانا الیہ راجعون!

میں نے اسی لئے آپ کے سامنے شیعہ حضرات کی بات کی تھی۔ آپ مجھے بتائیے کہ آپ کے اصول کی روشنی میں وہ کیسے غلط ٹھہرتے ہیں؟؟؟! آپ کے اصول کے مطابق تو وہ عین حق پر ہیں۔

ان ائمہ کرام کے اختلاف میں یہ بات موجود نہیں۔ دونوں اطراف کے پاس معتد بہ دلیل موجود ہوتی ہے۔ دونوں مجتہد ہوتے ہیں۔ اگرچہ ان میں ایک مصیب ہوتا ہے اور دوسرا غلطی پر۔ کسی کی دلیل قوی ہوتی ہے اور کسی کی کمزور۔ لیکن خطا والا بھی اپنے اخلاص اور اجتہاد کی محنت وکوشش کی بناء پر ایک اجر کا حق دار ہوتا ہے۔

یہاں تو ایک طرف مجتہد ہے اور دوسری طرف متصلب وجامد مقلد۔ مقلد مجتہد کی کتاب وسنت پر مبنی بات کو صرف اس لئے رد کرتا ہے وہ دوسرے مجتہد کا مقلد ہے۔
کہ
اس مسئلے میں امام شافعی حق پر ہیں لیکن میں مقلد ہوں امام ابوحنیفہ کا لہٰذا مجھ پر ان کی تقلید واجب ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون! العیاذ باللہ!

اللہ تعالیٰ نے حق کی پیروی کو واجب قرار دیا ہے نہ کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کو۔ اور یہی بات امام صاحب نے بھی فرمائی ہے لیکن آپ لوگ نہ اللہ کی بات کو مانتے ہیں نہ امام صاحب کی بات کو، بلکہ ان کی جامد تقلید کرتے ہوئے غلط موقف کی بھی تاویلات پر کمر کسی ہوئی ہے۔

ان آیات کریمہ کو دردِ دل کے ساتھ پڑھیے:
وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَكِنْ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آَتَاكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ (48) وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُصِيبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ (49) أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ (50)

جہاں تک دل کی بات ہے تو آپ نے تو اللہ کی وحی کی بجائے دل کو حاکم بنا دیا ہے۔ شائد آپ کے ذہن میں حدیث مبارکہ الإثم ما حاك في صدرك ہے۔ علمائے کرام نے صراحت کی ہے کہ اس حدیث کا مصداق علمائے کرام وقلبِ سلیم رکھنے والے لوگ ہیں۔ نہ کہ کوئی بھی کافر یا فاسق وفاجر شخص!

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے حج تمتع کے متعلق سوال ہوا۔ انہوں نے اسے صحیح قرار دیا۔ سائل کہنے لگا کہ آپ کے باپ (عمر رضی اللہ عنہ) تو اس سے منع کرتے ہیں۔ فرمانے لگے کہ تمہارا خیال کیا ہے اگر میرا باپ اس سے منع کرتا ہو اور رسولِ کریمﷺ نے اس پر عمل کیا ہو، کیا میرے باپ کی بات مانی جائے گی یا رسول اللہﷺ کی؟؟؟ اس شخص نے کہا کہ رسول کریمﷺ کی۔ تو فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے حج تمتع کیا ہے۔ (ترمذی)

اشماریہ صاحب کے نزدیک درج بالا واقعہ اور اس جیسے دیگر واقعات اور مقلّد احناف کے واقعات (جن میں وہ صراحت کرتے ہیں کہ حق تو امام شافعی کے ساتھ ہے لیکن ہم مقلد ہونے کی وجہ سے حق پر عمل نہیں کر سکتے ہم پر تو تقلید واجب ہے۔) میں فرق یہ ہے کہ مقلد احناف کو حق واضح ہونے کے باوجود دل میں شک تھا۔

یہ سراسر تاویل ہے۔ بات کو اُلجھانا مقصود ہے۔

میرا سوال یہ ہے کہ اشماریہ صاحب کو کیسے معلوم ہوا کہ ان کے دل میں شک تھا؟ انہوں نے تو ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ وہ تو صراحت سے کہہ رہے ہیں کہ دلیل کے مطابق امام شافعی رحمہ اللہ کی بات درست ہے۔ پھر کیا اشماریہ صاحب کو وحی ہوئی ہے کہ اس کے باوجود ان کو شک تھا؟! اور کیا مسئلہ واضح ہونے کے بعد کسی کو شک بھی ہو سکتا ہے؟؟!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے حج تمتع کے متعلق سوال ہوا۔ انہوں نے اسے صحیح قرار دیا۔ سائل کہنے لگا کہ آپ کے باپ (عمر رضی اللہ عنہ) تو اس سے منع کرتے ہیں۔ فرمانے لگے کہ تمہارا خیال کیا ہے اگر میرا باپ اس سے منع کرتا ہو اور رسولِ کریمﷺ نے اس پر عمل کیا ہو، کیا میرے باپ کی بات مانی جائے گی یا رسول اللہﷺ کی؟؟؟ اس شخص نے کہا کہ رسول کریمﷺ کی۔ تو فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے حج تمتع کیا ہے۔ (ترمذی)

اشماریہ صاحب کے نزدیک درج بالا واقعہ اور اس جیسے دیگر واقعات اور مقلّد احناف کے واقعات (جن میں وہ صراحت کرتے ہیں کہ حق تو امام شافعی کے ساتھ ہے لیکن ہم مقلد ہونے کی وجہ سے حق پر عمل نہیں کر سکتے ہم پر تو تقلید واجب ہے۔) میں فرق یہ ہے کہ مقلد احناف کو حق واضح ہونے کے باوجود دل میں شک تھا۔

یہ سراسر تاویل ہے۔ بات کو اُلجھانا مقصود ہے۔

میرا سوال یہ ہے کہ اشماریہ صاحب کو کیسے معلوم ہوا کہ ان کے دل میں شک تھا؟ انہوں نے تو ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ وہ تو صراحت سے کہہ رہے ہیں کہ دلیل کے مطابق امام شافعی رحمہ اللہ کی بات درست ہے۔ پھر کیا اشماریہ صاحب کو وحی ہوئی ہے کہ اس کے باوجود ان کو شک تھا؟! اور کیا مسئلہ واضح ہونے کے بعد کسی کو شک بھی ہو سکتا ہے؟؟!
انس بھائی! دونوں باتوں میں واضح فرق ہے۔

ابن عمر رض نے بلا واسطہ نبی ﷺ کے عمل کو دیکھا ہے۔ یا کسی ایک صحابی کے واسطہ سے سنا ہے۔ اگر بلا واسطہ ہے تو ان کے نزدیک یہ انتہائی قطعی ہے۔ اور انہیں اس پر اطمینان ہونا ظاہری اور یقینی ہے۔

جب کہ اس کے مقابلے میں بارہ تیرہ سو سال بعد کے عالم کے سامنے دونوں جانب کے دلائل ہیں۔ دونوں فریق اپنے اپنے انداز سے دلیل پر بحث کرتے ہیں اور فریق مخالف کی دلیل کی تاویل کرتے ہیں۔ اسے طرز استدلال کہہ لیں، اجتہاد کہہ لیں یا استنباط۔ فریق اول کی بات بھی درست ہو سکتی ہے اور فریق ثانی کی بھی۔ وہ عالم اپنی رائے کی بنیاد پر ایک فریق کے اجتہاد کو راجح قرار دے رہا ہے لیکن چوں کہ وہ دوسرے فریق پر مکمل اعتماد کرتا ہے تمام مسائل میں تو اس کے مرجوح اجتہاد پر بھی عمل لازم سمجھ رہا ہے ورنہ اس کے لیے مسلک تبدیل کرنا کوئی مشکل نہیں تھا۔ وہ شیخ الہند تھا۔
ابن تیمیہؒ تو مرجوح قول پر عمل کے سلسلے میں پسند نا پسند اور مقتدیوں کی پسند کو بھی قبول کرتے ہیں۔

فهذه الأمور وإن كان أحدها أرجح من الآخر، فمن فعل المرجوح فقد فعل جائزا. وقد يكون فعل المرجوح أرجح للمصلحة الراجحة، كما يكون ترك الراجح أرجح أحيانا لمصلحة راجحة. وهذا واقع في عامة الأعمال، فإن العمل الذي هو في جنسه أفضل، قد يكون في مواطن غيره أفضل منه، كما أن جنس الصلاة أفضل من جنس القراءة، وجنس القراءة أفضل من جنس الذكر، وجنس الذكر أفضل من جنس الدعاء. ثم الصلاة بعد الفجر والعصر منهي عنها، والقراءة والذكر والدعاء أفضل منها في تلك الأوقات وكذلك القراءة في الركوع والسجود منهي عنها، والذكر هناك أفضل منها، والدعاء في آخر الصلاة بعد التشهد أفضل من الذكر،
وقد يكون العمل المفضول أفضل بحسب حال الشخص المعين؛ لكونه عاجزا عن الأفضل، أو لكون محبته ورغبته واهتمامه وانتفاعه بالمفضول أكثر، فيكون أفضل في حقه لما يقترن به من مزيد عمله وحبه وإرادته وانتفاعه كما أن المريض ينتفع بالدواء الذي يشتهيه ما لا ينتفع بما لا يشتهيه، وإن كان جنس ذلك أفضل.
الفتاوی الکبری 2۔358 دار الکتب العلمیۃ


ایک کام ابن تیمیہ کہیں تو ٹھیک ہے۔ اس پر عمل کوئی اور کر لے تو غلط ہے۔ کیا مطلب ہوا اس کا؟
 

میرب فاطمہ

مشہور رکن
شمولیت
جون 06، 2012
پیغامات
195
ری ایکشن اسکور
218
پوائنٹ
107
مفتی صاحب کا جواب، سوال کے مطابق نہیں ہے۔ سوال میں حنفی ہوتے ہوئےصحیح بخاری وصحیح مسلم پر عمل کرنے کا حکم پوچھا گیا تھا اور مفتی صاحب نے اسے مسلک کی تبدیلی کا نام دے دیا۔
وہ دراصل مفتی صاحب کو معلوم ھو گیا تھا کہ اگر اس نے بخاری و مسلم پڑھنی شروع کر دی تو اس کا مسلک خود بخود بدل جائے گا۔۔
 

میرب فاطمہ

مشہور رکن
شمولیت
جون 06، 2012
پیغامات
195
ری ایکشن اسکور
218
پوائنٹ
107
تکفیر کتنے مزے سے کی جاتی ہے۔ ابتسامہ
میں تو اس سے نالاں تھا کہ مولوی دوسروں کی تکفیر کتنی آسانی سے کرتے ہیں اور یہاں تو عوام بھی۔
تکفیر نہیں کی۔ ایمان کی سلامتی نہ ھونے کے بارے میں کہا ھے۔۔ اور ظاہر ہے امام کے قول کو جو رسول صل اللہ علیہ وسلم کے قول سے زیادہ اھمیت دے۔ اسکا ایمان کس درجے کا ہوگا۔ جب تک رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کو اپنی ذات سے زیادہ عزیز نہ رکھنے پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ایمان کامل نہ ھوا تو امام کو عزیز رکھنے والے کا ایمان کیسے کامل ہو گیا۔۔
 

میرب فاطمہ

مشہور رکن
شمولیت
جون 06، 2012
پیغامات
195
ری ایکشن اسکور
218
پوائنٹ
107
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
مفتیان کرام کی سختی کے کیا کہنے۔ ابھی پچھلے دنوں کسی اخبار میں ایک فتویٰ شائع ہوا تھا جو کسی حنفی عالم نے پوچھا تھا کہ میں شوافع کی امامت کرواتا ہوں اور صلوۃ الوتر حنفی طریقہ پر پڑھاتا ہوں تو میرے شوافع مقتدی مجھے کہتے ہیں کہ نہیں تم وتر ہمارے طریقے کے مطابق پڑھاؤ تو کیا میں امام شافعی کے طریقے کے مطابق وتر پڑھا سکتا ہوں؟ تو مفتی صاحب نے فتویٰ دیا کہ ہرگز نہیں اگر وہ لوگ حنفی طریقے کے مطابق آپ کے پیچھے وتر پڑھ لیں تو ٹھیک ورنہ تم وتروں کا امام کسی اور کو بنا دو اور خود ان کے پیچھے وتر نہ پڑھو بلکہ الگ حنفی طریقے کے مطابق ہی پڑھو۔
انا للہ و انا الیہ راجعون
ابھی امام شافعی رحمہ اللہ کو بھی یہ حق پر مانتے ہیں۔ پتہ نہیں پھر ان کر ماننے والوں کو حق پر کیوں نہیں مانتے۔۔۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
انس بھائی! دونوں باتوں میں واضح فرق ہے۔

ابن عمر رض نے بلا واسطہ نبی ﷺ کے عمل کو دیکھا ہے۔ یا کسی ایک صحابی کے واسطہ سے سنا ہے۔ اگر بلا واسطہ ہے تو ان کے نزدیک یہ انتہائی قطعی ہے۔ اور انہیں اس پر اطمینان ہونا ظاہری اور یقینی ہے۔
گویا جس صحابی نے نبی کریمﷺ کے عمل کو بذات خود دیکھا ہے بس وہی بات قطعی ہے۔ اس کے بعد قیامت تک کوئی بات (خواہ وہ قرآن میں ہو یا صحیح احادیث مبارکہ میں) قطعی نہیں ہو سکتی۔ حد تو یہ کہ کوئی صحابی بھی واسطہ کے ساتھ اگر کوئی مسنون عمل بیان فرمائیں تو اشماریہ صاحب کے نزدیک وہ قطعی نہیں!!! اور جو بھی اس آیت کریمہ یا حدیث مبارکہ کی مخالفت کرے، نہ اس کی مخالفت کرنی چاہئے نہ اس پر کسی قسم کی کوئی تنقید۔

بھائی! آپ کی باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں!!!

آپ کے اگلے اقتباس کے متعلق پہلے ہی کافی کچھ عرض کر چکا ہوں۔
 
Top