٦٠ ھجری سے حضرت ابو ہریرہ نے پناہ مانگی ہے- فتح الباری شرع میں ہے کہ وہ یزید تھا-بھائی! اگر آپ کوئی کام کی بات پیش کرنا چاہتے ہیں تو دلائل کے ساتھ اور نرمی سے کیجئے!
صرف الزامات لگانے کیلئے فورم کو استعمال نہ کریں! شکریہ!
٦٠ ھجری سے حضرت ابو ہریرہ نے پناہ مانگی ہے- فتح الباری شرع میں ہے کہ وہ یزید تھا-بھائی! اگر آپ کوئی کام کی بات پیش کرنا چاہتے ہیں تو دلائل کے ساتھ اور نرمی سے کیجئے!
صرف الزامات لگانے کیلئے فورم کو استعمال نہ کریں! شکریہ!
پچھلے دنوں اسی موضوع کی ایک بحث میں ایک صاحب نے صلاح الدین یوسف کی اس عبارت پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔یہ بالکل بجا ہے کہ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) اور یزید کے شرف و فضل کا کوئی تقابل نہیں ہے۔ مگر بات یہاں شرف و فضل کی نہیں ہے بلکہ اس "موقف" کی ہے جو
- ایک معاملے میں حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کے قاتلین کے لئے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے اپنایا
- اور ایک معاملے میں حضرت حسین (رضی اللہ عنہ) کے قاتل یا قاتلین کے خلاف یزید نے اپنایا
اگر حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کی کوئی مجبوری تھی تو یزید کی بھی کوئی مجبوری رہی ہوگی۔ جبکہ دونوں صحابہ (حضرت عثمان اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم) شرف و فضل میں اعلیٰ تھے۔
مگر کیا یہ جانبداری نہیں کہ ایک جیسا موقف جب صحابی اپنائے تو اس کے لیے کوئی اصطلاح استعمال نہ ہو لیکن کوئی تابعی اپنائے تو اس کے حوالے سے "یزیدیت" والی اصطلاح کا پروپگنڈہ شروع کر دیا جائے؟
اس کا جواب تو میرے پاس نہیں ہے ۔۔۔ اگر کسی بھائی کے پاس ہو تو ضرور دیجئے۔ انتظار رہے گا۔صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کی یہ بات مجھے کبھی بھی ایک الزامی جواب سے بڑھ کر کچھ نہیں لگی۔ علی رضی اللہ عنہ کی مجبوری سب کے سامنے عیاں ہے اور کتب تاریخ نے محفوظ کر رکھا ہے کہ ان کے پاس کبھی بھی اتنے اختیارات اور وسائل مہیا نہیں ہو سکے تھے جس کے ذریعے وہ قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچاتے۔دوسری جانب جب حسین رضی اللہ عنہ شہید کیے گئے تو بنو امیہ کی حکومت مضبوطی کے ساتھ قائم تھی، ان کی اپنی زبردست فوج تھی، چند افراد کو چھوڑ کر باقی سب مطیع تھے، پھرکون سی مجبوری مانع تھی؟
میں نے یذيد بن معاویہ کے بارہ میں سنا ہے کہ وہ کسی زمانے میں مسلمانوں کا خلیفہ رہا ہے ، اوروہ بہت نشئ اوربے کار شخص اورحقیقی مسلمان نہيں تھا ، توکیا یہ صحیح ہے ؟Islam Question and Answer - یزید بن معاویہ کے بارہ میں ہماراموقف
آپ سے گزارش ہے کہ آپ مجھے تاریخی حوالہ سے بتائيں ۔
الحمد للہ
نام ونسب :
اس کا نام یزید بن معاویہ بن ابوسفیان بن حرب بن امیہ الاموی الدمشقی تھا ۔
امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ :
یزید قسطنطنیہ پرحملہ کرنے والے لشکر کا امیر تھا جس میں ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ جیسے صحابی شامل تھے ، اس کے والد امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے ولی عھد بنایا اور اپنے والد کی وفات کے بعد تیس برس کی عمر کے میں رجب ساٹھ ھجری 60 ھ میں زمام اقدار ہاتھ میں لی اورتقریبا چالیس برس سے کم حکومت کی ۔
اوریزید ایسے لوگوں میں سے ہے جنہیں نہ توہم برا کہتے اورنہ ہی اس سے محبت کرتےہیں ، اس طرح کے کئ ایک خلیفہ اموی اورعباسی دورحکومت میں پاۓ گۓ ہيں ، اور اسی طرح ارد گرد کے بادشاہ بھی بلکہ کچھ تو ایسے بھی تھے جو يزید سے بد تر تھے ۔
اس کی شان و شوکت عظیم اس لیے ہوگئ کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے انچاس 49 برس بعد حکمران بنا جو کہ عھد قریب ہے اورصحابہ کرام موجود تھے مثلا عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی عنہ جو کہ اس سے اوراس کے باب دادا سے بھی زیادہ اس معاملہ کے مستحق تھے ۔
اس نے اپنی حکومت کا آغاز حسین رضي اللہ تعالی عنہ کی شھادت سے اوراس کی حکومت کا اختتام واقعہ حرہ سے ہوا ، تولوگ اسے ناپسند کرنے لگے اس کی عمرمیں برکت نہیں پڑی ، اورحسین رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد کئ ایک لوگوں نے اس کے خلاف اللہ تعالی کے لیے خروج کیا مثلا اھل مدینہ اور ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ ۔ دیکھیں : سیراعلام النبلاء ( 4 / 38 ) ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے یزيد بن معاویہ کے بارہ میں موقف بیان کرتے ہوۓ کہا ہے :
یزيد بن معاویہ بن ابی سفیان کے بارہ میں لوگوں کے تین گروہ ہيں : ایک توحد سے بڑھا ہوا اوردوسرے بالکل ہی نیچے گرا ہوا اورایک گروہ درمیان میں ہے ۔
جولوگ توافراط اورتفریط سے کام لینے والے دو گروہ ہیں ان میں سے ایک تو کہتا ہے کہ یزید بن معاویہ کافر اورمنافق ہے ، اس نے نواسہ رسول حسین رضي اللہ تعالی عنہ کو قتل کرکے اپنے بڑوں عتبہ اورشیبہ اور ولید بن عتبہ وغیرہ جنہیں جنگ بدر میں علی بن ابی طالب اور دوسرے صحابہ نے قتل کیا تھا ان کا انتقام اور بدلہ لیا ہے ۔
تواس طرح کی باتیں اوریہ قول رافضیوں اورشیعہ کی ہیں جو ابوبکر و عمر اور عثمان رضي اللہ تعالی عنہم کو کافر کہتے ہیں توان کے ہاں یزید کو کافرقرار دینا تواس سے بھی زيادہ اسان کام ہے ۔
اور اس کے مقابلہ میں دوسرا گروہ یہ خیال کرتا ہے کہ وہ ایک نیک اورصالح شخص اورعادل حکمران تھا ، اور وہ ان صحابہ کرام میں سے تھا جونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں پیدا ہوۓ اوراسے اپنے ھاتھوں میں اٹھایااور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کےلیے برکت کی دعا فرمائ ، اوربعض اوقات تووہ اسے ابوبکر ، عمر رضي اللہ تعالی عنہما سے سے افضل قرار دیتے ہیں ، اورہو سکتا کہ بعض تو اسے نبی ہی بنا ڈاليں ۔
تو یہ دونوں گروہ اور ان کےقول صحیح نہیں اورہراس شخص کے لیے اس کا باطل ہونا نظرآتا ہے جسے تھوڑی سی بھی عقل ہے اور وہ تھوڑ ابہت تاريخ کو جانتا ہے وہ اسے باطل ہی کہے گا ، تواسی لیے معروف اہل علم جو کہ سنت پرعمل کرنے والے ہیں کسی سے بھی یہ قول مروی نہیں اور نہ ہی کسی کی طرف منسوب ہی کیا جاتا ہے ، اوراسی طرح عقل وشعور رکھنے والوں کی طرف بھی یہ قول منسوب نہيں ۔
اورتیسرا قول یا گروہ یہ ہے کہ :
یزید مسلمان حکمرانوں میں سے ایک حکمران تھا اس کی برائیاں اور اچھایاں دونوں ہيں ، اور اس کی ولادت بھی عثمان رضي اللہ تعالی عنہ کی خلافت میں ہوئ ہے ، اور وہ کافر نہيں ، لیکن اسباب کی بنا پر حسین رضي اللہ تعالی عنہ کے ساتھ جوکچھ ہوا اوروہ شھید ہوۓ ، اس نے اہل حرہ کے ساتھ جو کیا سو کیا ، اوروہ نہ توصحابی تھا اور نہ ہی اللہ تعالی کا ولی ، یہ قول ہی عام اہل علم و عقل اوراھل سنت والجماعت کا ہے ۔
لوگ تین فرقوں میں بٹے گۓ ہیں ایک گروہ تواس پرسب وشتم اور لعنت کرتا اور دوسرا اس سے محبت کا اظہار کرتا ہے اورتیسرا نہ تواس سے محبت اورنہ ہی اس پر سب وشتم کرتا ہے ، امام احمد رحمہ اللہ تعالی اوراس کے اصحاب وغیرہ سے یہی منقول ہے ۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی کے بیٹے صالح بن احمد کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے کہا کہ : کچھ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ ہم یزید سے محبت کرتے ہیں ، توانہوں نے جواب دیا کہ اے بیٹے کیا یزید کسی سے بھی جو اللہ تعالی اوریوم آخرت پرایمان لایا ہو سے محبت کرتا ہے !!
تو میں نے کہا تو پھر آپ اس پر لعنت کیوں نہیں کرتے ؟ توانہوں نےجواب دیا بیٹے تونےاپنے باپ کو کب دیکھا کہ وہ کسی پرلعنت کرتا ہو ۔
اورابومحمد المقدسی سے جب یزيد کے متعلق پوچھا گیا توکچھ مجھ تک پہنچا ہے کہ نہ تواسے سب وشتم کیا جاۓ اور نہ ہی اس سے محبت کی جاۓ ، اورکہنے لگے : مجھے یہ بھی پہنچا ہے کہ کہ ہمارے دادا ابوعبداللہ بن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی سے یزيد کےبارہ میں سوال کیا گیا توانہوں نے جواب دیا :
ہم نہ تواس میں کچھ کمی کرتےہیں اورنہ ہی زيادتی ،۔
اقوال میں سب سے زيادہ عدل والا اوراچھا و بہتر قول یہی ہے ۔ ا ھـ
مجموع الفتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ ( 4 / 481 - 484 ) ۔
واللہ تعالی اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد