• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نحوی قواعد کا قرآن سے انحرف اور اس کے اَسباب

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نحوی قواعد کا قرآن سے انحرف اور اس کے اَسباب

ساجد علی سبحانی​
دنیائے علم و اَدب میں عربی گرائمر ایک ایسی منفرد گرائمر ہے جس کے مصادر ومنابع کے طور پر سرفہرست قرآن کریم جیسی عظیم آسمانی کتب کا نام لیا جاتا ہے۔ (السیوطي ، عبد الرحمن بن أبي بکر: الاقتراح في علم أصول النحو، تحقیق وتعلیق أحمد محمد القاسم: ۴۸)
جو خالق کائنات کی جانب سے بنی نوع اِنسان کے واسطے ایک اَبدی پیغام ہدایت ہونے کے ساتھ فصاحت وبلاغت زبان سے لبریزایک ایسا زندہ معجزہ ہے کہ عربی زبان کے نابغہ روزگار اَدباء کو بھی اس کے بے مثل اور خدا کا کلام ہونے کا اعتراف کرنا پڑا یہاں تک کہ جب لبید بن ربیعہ ( جن کا شمار معلقات سبعہ کے شعراء میں ہوتا ہے) سے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے شعر سنانے کے لیے کہا تو انہوں نے سورۃ البقرۃ کی تلاوت کی اورکہا کہ اللہ تعالی کی جانب سے سورۃ بقرۃ اور سورۃ آل عمران نازل ہونے کے بعد مجھے شعر کہنا پسند نہیں رہا۔(ابن قتیبہ، عبد اﷲ بن مسلم: الشعر والشعراء: ۱۴۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہ ٹھیک ہے کہ نزول قرآن کے زمانے میں عربی گرائمر کے قواعد ومدوّن نہیں کئے گئے تھے اور نہ ہی اس کی ضرورت تھی، کیونکہ اہل زبان کو قواعد جاننے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ مگر یہ تو یقینی ہے کہ عربوں کا کلام عربی زبان کے طبعی قواعد کے مطابق ہوتاتھا لہٰذا ان کا فصاحت وبلاغتِ قرآن کا اعتراف اس بات کی بیّن دلیل ہے کہ ان کی نگاہ میں کلام الٰہی کاکوئی حصہ قواعد عربیہ کے خلاف نہ تھا ورنہ وہ اس اعتبار سے اسے ضرور تنقید کا نشانہ بناتے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ عرب قرآن کریم کو زبان کی صحت وسقم کے لحاظ سے Authority سمجھتے تھے اسی وجہ سے نحاۃ Grammarians نے بھی قواعد عربیہ کی تاسیس میں قرآن کریم اور اس کی قراء ا ت کو بہت اَہمیت دی ہے اور مختلف مقامات پر ان سے اِستدلال کیا ہے۔ لیکن قرآن کریم کو اس قدر اَہمیت دینے کے باوجود کچھ ایسے عربی قواعد بھی تدوین کئے گئے ہیں جن میں قرآن کریم اور اس کی قراء ات سے اِنحراف Deviation پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر نحوی قاعدے کے مطابق جب فعل کا فاعل اسم ظاہر ہو توصیغۂ فعل کو مفردلانا ضرور ی ہے چاہے فاعل مفرد ہو یا تثنیہ وجمع ۔(السیوطي، ہمع الہوامع: ۱۴۰۵ ھ، ۱؍۱۲۰)
لہٰذا قام الزیدون کہناصحیح ہے اور قاموا الزیدون کہنا غلط ہے یعنی فعل کے ساتھ علامت جمع (واو) کاالحاق صحیح نہیں ہے۔ جبکہ قرآنی اسلوب کے مطابق یہ الحاق صحیح ہے جیسا کہ آیت کریمہ :’’وَأَسَرُّو النَّجْوَیژگ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ژگ ہَلْ ہٰذَآ إِلاَّ بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ ‘‘ (سورۃ الانبیاء:۳)
میں فعل ( أسروا) کے ساتھ واؤ ملحق ہے حالانکہ اس کا فاعل اسم ظاہر (الذین ) ہے۔
سوال یہ ہے کہ وہ کون سے اَسباب ہیں جن کی وجہ سے بعض نحوی قواعد میں قرآن کریم سے اِنحراف کا مسئلہ پیش آتا ہے؟ قرآن کریم اور عربی گرائمر کا مطالعہ اس مسئلے کے درج ذیل چار اَسباب کی نشاندہی کرتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) نحوی تعصب
عربی گرائمر کا ایک امتیاز یہ ہے کہ اس میں مختلف مکاتب فکر Schools of thought پائے جاتے ہیں۔ اور ان میں بصری، کوفی ، بغدادی، اُندلسی اور مصری مکاتب فکر کو شہرت حاصل ہے۔ ہر مکتب فکر مخصوص طرز تفکر کا حامل ہے۔ ان میں سب سے پہلے بصری مکتب معرض وجودمیں آیا اور عربی گرائمر کی تدوین کاسہراپنے سر لیا۔ اس کے تقریباً ایک صدی بعد کوفی مکتب فکر سامنے آیا۔ ( نشأۃ النحو وتاریخ أشہر النحاۃ: ۴، ۱۹۵۴م: ۲۶)
بصرہ اور کوفہ عراق کے دو اَہم شہر شمار ہوتے ہیں۔ یہ دو شہر شروع ہی سے تعصب کا شکار رہے ۔ خاندانی اور مدنی تعصب توزمانہ ٔ تاسیس سے موجود تھا۔( فتوح البلدان: ۱، ۴۱۲۰، ۱۶۷، ۱۶۸، ۲۰۹، ۲۱۰)
جبکہ جنگ جمل نے مذہبی تعصب میں بھی اِضافہ کر دیا۔ دیگر شعبہ ہائے حیات کے ساتھ علوم وفنون بھی تعصب کی زد میں آگئے ۔چنانچہ قرآنی قراء ت، شاعری اورعربی گرائمر بھی اس سے متاثر ہوئی۔(تاریخ العرب قبل الإسلام : ۲۱۳، ۲۳۰)
مختلف نحوی قواعد میں بصری اور کوفی نحاۃ کے درمیان اختلاف کا اِنکار نہیں کیا جاسکتا ۔ ابن الانباری نے اپنی کتاب میں ایک سو اکیس (۱۲۱) اَیسے نحوی قواعد جمع کیے ہیں جن میں ان کے درمیان اختلاف پائے جاتے ہیں۔ ( الإنصاف في مسائل الخلاف، أدب الحوزۃ، : ۸۳۸، ۸۵۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس کے علاوہ ان کے مناظرے اور ایک دوسرے پر فخر ومباہات کی مجالس بھی اس تعصب کی نشاندہی کرتی ہیں۔
اسی طرح ملاحظہ کیجئے کہ کسائی کے بعد کوفی مکتب فکر کے بڑے علمدار ابو زکریا فراء ، بصری نحو کے امام سیبویہ کے خلاف کتنا تعصب رکھتے تھے۔ اَرباب تاریخ نے لکھا ہے کہ مرتے وقت ان کے سرہانے کے نیچے سیبویہ کی نحوی تصنیف ’الکتاب‘ رکھی ہوئی تھی۔ اور زندگی میں بھی ہمیشہ ان کے پاس رہتی تھی، کیونکہ وہ ان کی نحوی غلطیاں تلاش کرنے میں اس حد تک سرگرم رہتے تھے کہ ہر نحوی قاعدے میں ان کی مخالفت کو ’کار ثواب‘ سمجھتے تھے۔( مراتب النحویین: ۱۳۹)
یہ حقیقت ہے کہ بصری اور کوفی نحاۃ کے درمیان اختلاف کے کئی اسباب ہیں البتہ مکتبی تعصب کا اِنکار بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس نحوی تعصب کی وجہ سے عربی گرائمر میں ایسے قواعد شامل ہوئے جن میں قرآن کریم اور اس کی قراء ت سے عدول پایا جاتا ہے۔ ( النحو القرآني، مطابع أبو الفتح: ۲۷)
او رجب نحاۃ نے ملاحظہ کیا کہ ان کے وضع کردہ بعض نحوی قواعد اورقرآن کریم میں تضاد پایا جاتا ہے تو ان میں سے بعض نحاۃ قواعد کی مرکزیت کے قائل ہوئے اور مخالف آیات و قراء ات کی یا تو تاویل کی اور یا انہیں کسی نہ کسی طرح تنقید کانشانہ بنایا۔ ( البحث اللغوی عند العرب :۳۰)
اور اس روش سے کوئی نحوی مکتب فکرمستثنیٰ نہیں ہے۔ اگر چہ اس کی بنیاد بصری نحاۃ نے رکھی ہے ۔ اور پھر ان کی پیروی دیگر ماہرین نحو ولغت اور اَرباب تفسیر وقراء ات نے کی ہے۔(دراسات لأسلوب القرآن الکریم : ۱؍۱۹)
تعصب کی یہ حالت تقریباً ایک صدی تک بر قرار رہی یہاں تک کہ دونوں فریق بغداد میں جمع ہوئے او رعربی گرائمر میں ایک تیسیر مکتب فکر ’بغدادی‘ منظر عام پر آیا ۔ جس کے نتیجے میں بصری اور کوفی نحاۃ کے درمیان تعصب میں قدرے کمی واقع ہوئی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) عربی گرائمر کے مصادر میں بنیادی اِختلاف
عربی گرائمر کو دوسری زبانوں کی گرائمر سے ایک امتیاز اس لحاظ سے حاصل ہے کہ اس کے مصادر یعنی قرآن کریم، حدیث شریف، شاعری اور نثر میں بنیادی اختلاف پایا جاتا ہے۔ شاعری شاعر کے وجدان اور باطن کی ترجمانی کرتی ہے اس کا اُسلوب جذبات واِحساسات پر قائم ہوتا ہے تخیل (Imagination) اس کی شناخت ہے۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ شاعری فکر وسوچ سے بالکل خالی ہوتی ہے بلکہ مقصدیہ ہے کہ اگر شاعر اپنے افکار کو شاعری کے قالب میں ڈھالنا چاہے تو بھی شاعری خصوصیات اس پر غالب ہوتی ہیں ۔چنانچہ جذبات سے امتزاج ، شعور اور ذاتی تجربات اس کے افکار پر چھائے رہتے ہیں۔
شاعری کی لینگوئج وزن اور قافیہ کی پابند ہوتی ہے جس سے اس میں شعری موسیقی (Poetic Music)بھی شامل ہوتی ہے۔ لیکن نثر (Prose) شاعری سے بالکل مختلف ہے۔ صحیح فکر وسوچ ، آزاد کلام ، الفاظ وجملات کی خاص ترکیب ، مناسب طریقے سے اِبتداء اورخاتمہ نثر کی خصوصیات میں سے شمار ہوتے ہیں۔ یہ خصوصیات ایک ادیب کی پہچان ہیں اور انہی سے کسی کے ادبی مقام کاتعین کیا جاتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جہاں تک قرآن کریم کا تعلق ہے تو اسکی Language عربی شاعری اورنثر سے یکسر مختلف ہے۔ نہ تو وہ شاعری کی طرح وزن قافیہ کی پابند ہے اور نہ نثر کی طرح بالکل آزاد کلام بلکہ وہ ایک ایسا یگانہ روزگار کلام ہے جو نہ شعر ہے اور نہ نثر۔ وہ بیک وقت کلام عرب کے تمام اَسالیب حسنہ کی جامع ہے۔ قرآن کریم شاعری اور نثر سے بالکل مختلف ہے وہ آیات کا ایسا مجموعہ ہے جس کی ہر آیت کی انتہاء ایسے مقطع پر ہوتی ہے جس کے بارے میں ذوق سلیم گواہی دیتا ہے کہ وہی کلام کلام کا نکتۂ اختتام ہے۔(ابن خلدون، عبدالرحمن بن محمد، المقدمۃ: ۲؍۲۷)
نتیجہ کلام یہ کہ جس طرح شاعری اور نثر میں مذکور اختلاف کو مد نظر رکھ کر قواعد عربیہ کی تأسیس کے مر حلے میں ان دونوں میں فرق کرنا ضروری ہے ۔
[A. Shapitlar: Arabic in Linquistica Scmetica present c. Futuro ,Roma. 1961. Vol:2 ,p.126]
اسی طرح اس مقام پر ان دونوں اور قرآن کریم میں بھی فرق کرنا لازم ہے لہٰذا جو قواعد شعر اور عام نثر کی بنیاد پر بنائے گئے ہوں ان کو قرآن کریم پر لاگو کرنا صحیح نہیں ہے۔ان میں بھی فرق کرنا لازم ہے کیونکہ قرآن کریم عربی زبان کا صرف اَدبی شاہکار نہیں بلکہ ایسا معجزانہ کلام ہے جو عربی شاعر اور نثر کے اسالیب واغراض میں بھی تبدیلی کا باعث بنا۔ اور اسی نے عربی زبان کو ایک living language کے طور پر باقی رکھا ہے۔(الفصحی لغۃ القرآن : ۳۳،۳۵)
نحاۃ نے شعر اور نثر سے قرآن کریم کے اس فرق کو مدِ نظر نہیں رکھا اور ایسے قواعد بنا ڈالے جن میں قرآن کریم سے عدول وانحراف پایا جاتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) شاعری کو قرآن کریم پر مقدم کرنا
ہر زبان کا اَدب دوحصوں شاعری اور نثر پر مشتمل ہوتا ہے اور شاعری ہر زبان کے ادب میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ قرآن کریم جو معجزۂ الٰہیہ ہونے کے ساتھ عربی ادب کا بے مثل شاہکار بھی ہے اس کے فہم میں بھی عربی زبان کے شعری ادب کی اہمیت سے اِنکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آیات کریمہ کی تفسیرمیں دورِ جاہلیت سے بھی مدد لیتے تھے۔ چنانچہ عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے قرآنی آیات کے معانی وتفسیر پوچھی جاتی تو وہ زمانۂ جاہلیت کی شاعری سے اِستشہاد کرتے ہوئے تفسیر کرتے تھے۔ جیسا کہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ان سے پوچھے گئے وہ دو سو پچاس (۲۵۰) سوالات نقل کئے ہیں جن میں نافع بن اَزر ق نے ان سے متعدد آیات کریمہ کے معانی کے بارے میں استفسار کیا اور انہوں نے جاہلی شعراء کی شاعری کی روشنی میں جوابات دیئے ۔( الإتقان في علوم القرآ ن :۳۰۱، ۳۳۷)
قرآن فہمی میں عربی شاعری کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے جناب ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’ جب تم مجھ سے قرآن کے غریب الفاظ (غیر واضح) کی تفسیر پوچھنا چاہو تو اسے شعر میں تلاش کرو، کیونکہ شاعری عرب کا دیوان ہے ۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی طرح حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے قرآن فہمی میں عربی شاعری کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا:
’’ اے لوگو! تم پر زمانہ جاہلیت کی شاعری کی طرف رجوع لازم ہے کیونکہ اس میں تمہاری کتاب(قرآن) اور تمہارے کلام کے معانی کی تفسیر ہے۔‘‘ (نفس المرجع)
تابعین اور تبع تابعین کا بھی قرآن فہمی کے سلسلے میں یہی طریقہ رہا او رمفسرین کرام نے بھی اپنی تفاسیر میں اس روش پر چلتے ہوئے بہت سی آیات کریمہ کی وضاحت میں عربی شاعری سے مدد لی۔ اسی اہمیت کے پیش نظر نحاۃ نے بھی قواعد کی تأسیس میں عرب شعراء کے کلام سے بہت زیادہ اِستدلال کیا ہے بلکہ اس سلسلہ میں انہوں نے بعض اَسباب کی وجہ سے شاعری کو قرآن کریم پر مقدم گرداناہے۔ چنانچہ امام النحو سیبویہ کی ’الکتاب‘ کو ملاحظہ کیجیے اس میں ذکر شدہ آیات کریمہ کی تعداد تقریباً تین سو تہتر (۳۷۳) ہے۔ جبکہ اشعار کی تعداد تقریباً ایک ہزار ساٹھ (۱۰۶۰) ہے۔ (سیبویہ، عمرو بن عثمان بن قنبر، الکتاب، تعلیق وتحقیق، أمیل بدیع یعقوب:۵،۲۶،۳۰،۷۳)
صرف یہ نہیں بلکہ قواعد میں لفظ ’شاہد‘ کا استعمال نحاۃ کے ہاں شعر سے مختص ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’شواہد‘ کی کتب میں صرف اشعار کو ذکر کیا جاتا ہے۔ اور اس کے علاوہ دیگر ادبی اَقسام کا تذکرہ نہیں کیا جاتا۔
شاعری کو باقی ادبی اقسام پرمقدم کرنے میں کوفی نحاۃکا طریقہ کار اس حد تک مبالغہ آمیز رہا کہ اگر وہ نحوی اصول کے خلاف شعر کا ایک بیت بھی سنتے تو اسی کو اصل قرار دیتے اور اسی کے مطابق قاعدہ بناتے۔ ( نشاۃ النحو: ۸۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نحوی قواعد میں شاعری کو نثر پر مقدم کرنے کے اَسباب
شاعری کو نثر پر مقدم کرنے کے کئی اَسباب ہیں:
(١) اس کی تدوین بہت پہلے ’معلقات سبعہ‘ کی شکل میں ہوئی ہے۔
(٢) شاعری عربوں کی خالص فطری زبان کی ترجمان ہے۔
(٣) اس میں ’ضرورت‘ کا باب کھلا ہے او ر وزن و قافیہ کی خاطر از باب ضرورت قواعد کی مخالفت کو جائز سمجھتا جاتا ہے۔
(٤) فطری طور پر عربوں کو شاعری سے بہت لگاؤ ہے اس لیے کہاگیا ہے ’ الشعر دیوان العرب‘ شاعری عرب کا دیوان ہے، ان کے کارناموں کی کتاب ہے۔ چنانچہ شاعری ان کی ثقافت کی ترجمان ہے۔ ان کے عقائد ، افکار و خیالات اور رہن سہن کے طور طریقے اسی سے معلوم کئے جا سکتے ہیں۔
(٥) نحاۃ ایک مسلمان کی طرح قرآن کریم او رحدیث شریف کا غیر معمولی احترام کرتے ہیں جیسا کہ اصمعی زیادہ دیندار ہونے کی وجہ سے قرآن وحدیث میں سے جواب نہیں دیتے تھے اور اگر لغت کا کوئی لفظ قرآن کریم میں ہوتا تو اس کی لغوی تفسیر کرنے سے گریز کرتے تھے۔ (مراتب النحویین: ۸۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٦) شعر میں وزن او رقافیہ ہونے کی وجہ سے اِعراب کی تمام صورتیں ممکن ہو جاتی ہیں۔
مذکورہ بالا اَسباب دنیائے ادب میں شعر کی اہمیت کو تو ضرور اجاگر کرتے ہیں لیکن یہ ثابت نہیں کرتے کہ قواعد کی تأسیس میں شاعری کو اولیت اور قرآن کریم کو ثانوی حیثیت حاصل ہے، کیونکہ قرآن سے بڑھ کر عربی زبان میں کوئی باوثوق نص Reliable text نہیں ہے۔
 
Top