• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں سینے پر ہاتھ اور اصول احناف

شمولیت
جنوری 03، 2014
پیغامات
20
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
59
محترم اشماریہ بھائی نے فرمایا:
مجھے یہ قول مذکورہ صفحے پر نہیں ملا۔ صرف ثقۃ بریء من التدلیس ملا ہے۔ کیا آپ مراجعت فرمائیں گے؟
محترم عرض ہے کہ آپ نے ثقۃ بر من التدلیس تو دیکھ لیا ہے لیکن اس سے پہلے(۱/۱۵)بھی لکھا ہوا ہے۔ یعنی پہلے طبقے میں پندڑوے راوی،یہ ترقیم شیخ مسفر الدمینی کی ہے نہ کہ طبقات المدلسیں کی اگر آپ اس ہی کتاب کو دیکھیں تو (۱/۱۵) پر امام ابو عبد اللہ بن الحرمی،ابو قلابۃ رحمہ اللہ کا ذکر ہے۔محترم میں نے مراجعت فرمالی ہے آپ بھی فرمالیں

محترم اشماریہ بھائی نے فرمایا:
سليمان ابن موسى الأموي مولاهم الدمشقي الأشدق صدوق فقيه في حديثه بعض لين وخولط قبل موته بقليل
تقریب التہذیب 1۔255 دار الرشید


قال دحيم: هو ثقة.
وقال عثمان الدارمي: قلت ليحيى بن معين: سليمان بن موسى ما حاله في الزهري؟ قال: ثقة.
وقال أبو حاتم: محله الصدق، وفي حديثه بعض الاضطراب،ولا أعلم أحدا من أصحاب مكحول أفقه منه، ولا أثبت منه.
وقال البخاري: عنده مناكير.
وقال النسائي: هو أحد الفقهاء، وليس بالقوي في الحديث.
وقال مرة: في حديثه شيء.

وقال ابن عدي:هو فقيه، راو، حدث عنه الثقات، وهو أحد العلماء.
روى أحاديث ينفرد بها، لا يرويها غيره،وهو عندي ثبت، صدوق.

سیر اعلام النبلاء


و ذكر العقيلى ، عن ابن المدينى : كان من كبار أصحاب مكحول،و كان خولط قبل موته بيسير .
تہذیب الکمال، تہذیب التہذیب
اصول:
مولانا سرفراز خان صفدرلکھتے ہیں: ہم نے راویوں کی توثیق اور جرح میں جمہور محدیثین کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ (احسن الکلام)
اسی طرح مولانا محمد ادریس کاندھلوی دیوبندی لکھتے ہیں:"جب کسی راوی میں توثیق اور تضعیف جمع ہو جائیں تو محدثین کے نزدیک اکثر کے قول کا اعتبار ہے فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ جب کسی راوی مین جرح وتعدیل جمع ہو جائیں تو جرھح مبہم کے مقابکہ میں تعدیل کو ترجیح ہو گی۔(سیرت المصطفٰی ج1ص79بحث"واقدی")
محترم شاید آپ نے میری پہلی پوسٹ کو غور سے نہیں دیکھا۔میں نے دبے الفاظ میں اس اعترض کا جواب دی دیا تھا۔
4۔ سلیمان بن موسٰی بن الموی الدمشقی الاشدق۔
امام ذہبی نے فرمایا: الامام الکبیر مفتی دمشق ۔ (سیراعلام النبلاء 5/433)
حافظ ابن حجر نے فرمایا: صدوق فقیہ فی حدیثہ بعض لین و خولط قبل موتھ بقلیل (تقریب التہذیب رقم 2616)
جمہور محدیث نے اس کی توثیق کی ہے۔
لیکن اس کے باوجود آپ کے پیش کردہ کلام کے مطابق 5 محدیثیں نے سلیمان بن موسٰی کی توثیق و تعریف کی ہے اور امام ذہبی کا قول (جو ہم دونوں نے کوٹ کیا ہے)یہ ملا کہ 6ہوگے۔(امان ابن مدینی کا قول باسند و حوالہ دستیاب نہیں ہو سکا اس لیے اس میں موجود كان من كبار أصحاب مكحول،و كان خولط قبل موته بيسير کی تعریفی کلمات کو گنتی میں نہیں لائے۔ اگر آپ کو یہ قول باسند و حوالہ مہیا ہے تو ہمیں بھی دے دیں نوازش ہو گی۔اور ابن حجر رحمہ اللہ کاوخولط قبل موته بقليل بھی اسی قول کی بنیاد پر ہے۔جبکہ وقول ثابت نہیں تو یہ بات بھی مردود ہوئی)کہ جبکہ آپ کے مطابق 4 مدحدثیں نےجرح کی ہے۔ اوراس میں بھی ابہام ہے مثال کے طور پر امام بو حاتم رحمہ اللہ کی جرح:
وفي حديثه بعض الاضطراب
  • وہ بعض احادیث کون سی ہیں۔؟
  • کیا ان مضطرب احادیث میں یہ روایت شامل ہے۔؟
محترم اشماریہ بھائی نے فرمایا:
دوسری بات میں نے یہ دیکھی کہ اس حدیث کے نسخوں میں ثم یشد بہما میں فرق ہے۔ بعض میں یشد بہما ہے اور بعض میں یشبک بہما جس پر کسی کا عمل نہیں ہے۔
کتاب المراسیل ص139 مکتبہ الصمیعی میں محقق زہرانی لکھتے ہیں یہ لفظ واضح نہیں ہے۔
ط رسالہ کے نسخے میں ارنؤوط نے اسے یشد بہما نکالا ہے لیکن سلیمان بن موسی پر اعتراض کیا ہے۔ ارنؤوط نے اس کی تحقیق میں ایک نسخے پر اکتفاء کیا ہے۔
دار القلم کے نسخے میں یشبک بہما کی تخریج ہے اور اس کی تحقیق محقق السیروان نے تین نسخوں سے کی ہے۔
محترم عرض یہ ہے کہ "شد" کے معنی مضبوطی یا کسائی کے ہیں (القاموس الوحیدص849)
اور شبک کے معنی جوڑنا یا ملانا کے بھی ہیں (القاموس الوحیدص838)
تو اس لحاظ سے "یشد بہما" کے معنی "وہ مضبوطی کے ساتھ" اور "یشبک بہما" کے معنی "وہ جوڑتے یا ملاتے " کے بنتے ہیں۔
یشد بہما ہو،یشبک بہما یا يشد بينهماہو سب کا معنی و مفہوم ایک ہے۔ اس طرح کی مثالیں کتب احادیث کے نسخوں میں عام ہوتی ہیں۔ اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ روایات غیر محفوظ ہیں۔
اور یہ بھی یاد رہے میں نے اس حدیث کی تخریج میں دو کتب کے حوالے دیے تھے۔
(سنن ابی داود ح789،مراسیل ابی داود ح32)
یعنی یہ روایت سنن ابی داود میں بھی موجود ہے۔ اس لیے یہ روایت محفوظ ہے۔حدیث کے الفاظ میں فرق مضر نہیں تب جب مفہوم ایک ہو۔ اور یہاں مفہوم ایک ہے۔

محترم اشماریہ بھائی نے فرمایا:
سوال یہ ہے کہ کیا ایسی حدیث بھی احناف کے نزدیک حجت بن جائے گی؟
جی ہاں احناف خاص طور پر دیوبندیوں کے نزدیک بھی حجت ہے۔
مولانا محمد عالم اوکاڑوی لکھتے ہیں :"محدثین کا اس پر اجماع ہے کہ عجمی ماہر حدہث اگر اپنی زبان میں قرآن و حدیث کا ترجمہ کرے تو جائز ہے جب الفاظ حدیث کی تبدیلی غیر زبان کے الفاظ میں جائز ہوتی ہے تو عربی الفاظ میں بطریق اولٰی جائز ہونی چاہیے۔(فطرات العطر شرح تخبتہ الفکر ص230 بحث روایت بلمعنی)[/QUOTE]
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم اشماریہ بھائی نے فرمایا:
محترم عرض ہے کہ آپ نے ثقۃ بر من التدلیس تو دیکھ لیا ہے لیکن اس سے پہلے(۱/۱۵)بھی لکھا ہوا ہے۔ یعنی پہلے طبقے میں پندڑوے راوی،یہ ترقیم شیخ مسفر الدمینی کی ہے نہ کہ طبقات المدلسیں کی اگر آپ اس ہی کتاب کو دیکھیں تو (۱/۱۵) پر امام ابو عبد اللہ بن الحرمی،ابو قلابۃ رحمہ اللہ کا ذکر ہے۔محترم میں نے مراجعت فرمالی ہے آپ بھی فرمالیں
بهائی جان میری بات ملاحظه فرمائیں:۔
ثور بن يزيد بن زياد الكلاعي، أبو خالد الحمصي / خ 4.
قال أبو داود في سننه في باب كيف المسح (1 / 64 من عون المعبود، الطبعة الهندية) : حدثنا موسى بن مروان ومحمود بن خالد الدمشقي المعنى قال ثنا الوليد قال محمود انا ثور بن يزيد عن رجاء بن حيوة عن كاتب المغيرة بن شعبة قال: وضأت النبي صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك فمسح على الخفين واسفلهما *، قال أبو داود: وبلغني انه لم يسمع هذا الحديث من رجاء.
تعريف اهل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس 1۔60 مکتبۃ المنار

یہ فصل شاید محقق کی طرف سے اضافہ شدہ ہے۔

مكتبۃ المنار كی اس كتاب كے محقق د۔ عاصم بن عبد الله القریوتی ہیں۔ انہی کی تحقیق شدہ کتاب پر زبیر علی زئی نے تحقیق کی ہے جیسا کہ اپنے مقدمہ میں فرماتے ہیں۔
اور دکتور عاصم نے 1۔15 نہیں فرمایا۔ میں نہیں جانتا کہ شیخ مسفر الدمینی کے ان اضافہ جات کو زبیر علی زئی نے کہاں سے لیا ہے اور یہاں دکتور عاصم کے بجائے ان کا ذکر کیوں کیا ہے۔
بہر حال اگر ہم حافظ رح کے اصول کے مطابق دیکھیں تو بھی یہ طبقہ اولیٰ میں ہی ہونے چاہئیں۔ واللہ اعلم

اصول:
مولانا سرفراز خان صفدرلکھتے ہیں: ہم نے راویوں کی توثیق اور جرح میں جمہور محدیثین کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ (احسن الکلام)
اسی طرح مولانا محمد ادریس کاندھلوی دیوبندی لکھتے ہیں:"جب کسی راوی میں توثیق اور تضعیف جمع ہو جائیں تو محدثین کے نزدیک اکثر کے قول کا اعتبار ہے فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ جب کسی راوی مین جرح وتعدیل جمع ہو جائیں تو جرھح مبہم کے مقابکہ میں تعدیل کو ترجیح ہو گی۔(سیرت المصطفٰی ج1ص79بحث"واقدی")
محترم بھائی شاید آپ نے میری پہلی پوسٹ کو غور سے نہیں دیکھا۔میں نے دبے الفاظ میں اس اعترض کا جواب دی دیا تھا۔

یہ اصول محدثین کا ہے۔ ممکن ہے فقہاء کا بھی ہو۔ اور یہ بھی محدثین کا اصول ہے کہ جرح مفسر اگر آجائے تو اسے تعدیل مفسر پر بھی ترجیح ہوتی ہے۔ الرفع و التکمیل فی الجرح و التعدیل دیکھیے یا نیٹ پر عربی میں سرچ کر لیجیے تو بہت سے متخصصین کی ابحاث اس پر آجائیں گی۔
مضطرب الحدیث جرح مفسر ہے۔ لنک
(میں چوں کہ جرح و تعدیل میں نو آموز ہوں اس لیے دوسروں کے مقالات و ابحاث سے مدد حاصل کرنے پر مجبور ہوں۔)


وفي حديثه بعض الاضطراب
وہ بعض احادیث کون سی ہیں۔؟
کیا ان مضطرب احادیث میں یہ روایت شامل ہے۔؟


محترم بھائی یہاں فی بعض حدیثہ اضطراب نہیں ہے بلکہ فی حدیثہ بعض اضطراب ہے۔
اول الذکر کا مطلب ہے "اس کی کچھ (یا کسی) حدیث میں اضطراب ہے" اور اس پر آپ کے سوالات درست ہیں۔
جبکہ ثانی الذکر کا مطلب ہے "اس کی حدیث میں کچھ اضطراب ہے" اور یہ "مضطرب الحدیث" کی مثل ہے۔ اور یہ جرح مفسر ہے۔
اسی کو امام نسائی سے یوں کہا ہے هو أحد الفقهاء، وليس بالقوي في الحديث.
وقال مرة: في حديثه شيء.

یعنی وہ اپنی ذات میں صدوق اور فقیہ ہیں محدثین کے نزدیک لیکن حدیث کے معاملے میں مضطرب اور غیر قوی ہیں اور ان کی حدیث میں کچھ (کمزوری) ہے۔
اسی نتیجہ کو حافظ رح پہنچے ہیں اور فرمایا ہے صدوق فقيه في حديثه بعض لين۔

میں نے محققین کو دیکھا ہے کہ وہ اس طرح اصل کتابوں سے اقوال کو بوقت جرح نہیں دیکھتے۔ بلکہ اگر ذہبی نے عقیلی کے واسطے سے ابن مدینی سے ایک قول نقل کیا ہے تو اس کو من و عن قبول کرتے ہیں۔ اس کی کیا تفصیل ہے؟ کیا آپ میری رہنمائی فرمائیں گے؟
(براہ کرم امین صفدر اوکاڑوی یا زبیر علی زئی کا حوالہ نہیں دیجیے گا بلکہ ائمہ جرح و تعدیل سے ذکر کیجیے گا۔
رضا میاں بھائی)

محترم عرض یہ ہے کہ "شد" کے معنی مضبوطی یا کسائی کے ہیں (القاموس الوحیدص849)
اور شبک کے معنی جوڑنا یا ملانا کے بھی ہیں (القاموس الوحیدص838)
تو اس لحاظ سے "یشد بہما" کے معنی "وہ مضبوطی کے ساتھ" اور "یشبک بہما" کے معنی "وہ جوڑتے یا ملاتے " کے بنتے ہیں۔


محترم ناصر سلفی بھائی جوابا عرض یہ ہے کہ لغت میں اس طرح قیاس نہیں چلتا۔
تشبیک الاصابع کا مطلب ہے انگلیوں کو انگلیوں میں ڈالنا۔ تشبیک کا اصل مطلب ایک دوسرے میں گھسانا ہے۔

وأصل الشبك هو الخلط والتداخل، ومنه تشبيك الأصابع، وهو إدخال الأصابع بعضها في بعض، وقد نهي عنه في الصلاة كما نهي عن عقص الشعر واشتمال الصماء والاحتباء
تاج العروس 27۔217 دار الہدایہ
معجم الوسیط و اللفظ لتاج العروس

دونوں روایات میں چاہے وہ سنن میں ہو یا مراسیل میں رواۃ ایک ہیں تو اس معنی کے مطابق یہ حدیث مضطرب ہوتی ہے۔
اگر زیادتی کی بات ہوتی تو ہم اس پر بحث کرتے۔

جی ہاں احناف خاص طور پر دیوبندیوں کے نزدیک بھی حجت ہے۔
مولانا محمد عالم اوکاڑوی لکھتے ہیں :"محدثین کا اس پر اجماع ہے کہ عجمی ماہر حدہث اگر اپنی زبان میں قرآن و حدیث کا ترجمہ کرے تو جائز ہے جب الفاظ حدیث کی تبدیلی غیر زبان کے الفاظ میں جائز ہوتی ہے تو عربی الفاظ میں بطریق اولٰی جائز ہونی چاہیے۔(فطرات العطر شرح تخبتہ الفکر ص230 بحث روایت بلمعنی)

یہ الفاظ غالبا کسی عربی شرح میں بھی میں پڑھ چکا ہوں لیکن یہ اس وقت ہے جب روایت بالمعنی صحیح معنی کے ساتھ ہو۔ اور یہاں تو روایت بالمعنی ثابت ہی نہیں ہے بلکہ اصل الفاظ میں ہی اختلاف ہے۔
میں نے اوپر جو نسخہ جات کی تحقیق ذکر کی تھی اس میں ایک محقق نے "یشد" کے بارے میں کہا تھا کہ یہ واضح نہیں ہے اور دسرے نے یشبک کو ترجیح دی تھی۔
واللہ اعلم
 
Top