• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز نبوی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کے ساتھ اہلِ بیت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بھی درود و سلام ہو، جو نیکوکار اورپرہیزگار تھے۔ جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات، نماز، اقوال اور افعال کو نقل کرکے اُمت تک پہنچایا اور صرف آپ کے اقوال، افعال اور تقریرات کو دین اور قابلِ اطاعت قرار دیا، نیز ان نیک انسانوں پر بھی درود و سلام ہو جو ان کے نقشِ قدم پر چلتے رہے اور چلتے رہیں گے۔
اما بعد، اسلام میں نماز کا اہم مرتبہ ہے اور جو شخص اسے قائم کرتا ہے اور اس کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرتا وہ اجروثواب اور فضیلت و اکرام کا مستحق ہوتا ہے۔ پھر اجروثواب میں کمی بیشی کا معیار یہ ہے کہ جس قدر کسی انسان کی نماز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے زیادہ قریب ہوگی وہ اسی قدر زیادہ اجروثواب کا حقدار ہوگا اور جس قدر اس کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے مختلف ہوگی اسی قدر کم اجروثواب حاصل کرے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اِنَّ العَبْدَ لَینْصرِفُ وَمَا کُتِبَ لہ الا عشرصلاتہ تسعھا ثمنھا سبعھا سدسھا خمسھا ربعھا ثلثھا نصفھا"
"بے شک بندہ نماز ادا کرتا ہے لیکن اس کے نامہ اعمال میں اس"نماز" کا دسواں، نواں، آٹھواں، ساتواں ، چھٹا، پانچواں، چوتھا، تیسرا یا نصف حصہ لکھا جاتا ہے۔"
{[حسن] سنن ابی داود، الصلاۃ، باب ماجاء فی نقصان الصلاۃ، حدیث:796، بعد الحدیث:789}

شیخ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ہمارے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مانند نماز ادا کرنا اس وقت ممکن ہے جب ہمیں تفصیل کے ساتھ آپ کی نماز کی کیفیت معلوم ہو اور ہمیں نماز کے واجبات، آداب، ہیئات اور ادعیہ و اذکار کا علم ہو، پھر اس کے مطابق نماز ادا کرنے کی کوشش بھی کریں تو ہم اُمید رکھ سکتے ہیں کہ پھر ہماری نماز بھی اسی نوعیت کی ہوگی جو بے حیائی اور منکر باتوں سے روکتی ہے اور ہمارے نامہ اعمال میں وہ اجروثواب لکھا جائے گا جس کا وعدہ کیا گیا ہے"
{صفۃ صلاۃ النبی، ص:36 مطبوعۃ مکتبۃ المعارف۔}
تنبیہ: عرض ہے کہ واجبات و آداب وغیرہ کا علم ہونا ضروری نہیں بلکہ صرف یہی کافی ہے کہ خود تحقیق کرکے یا کسی مستند اور صحیح العقیدہ عالم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا علم حاصل کیا جائے اور پھر سنت کے مطابق نماز پڑھی جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
یہاں یہ ذکر کرنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ توحید تمام اعمال کی اصل ہے۔ اگر توحید نہیں تو تمام اعمال بے کار، لغو اور بے سود ہیں۔ توحید نہیں تو ایمان نہیں۔ توحید اور شرک ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ توحید کے بغیر نجات نہیں اور شرک کی موجودگی میں نجات نا ممکن ہے۔
اللہ تعالٰی فرماتا ہے:
"انَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا ﴿٤٨﴾"
"بے شک اللہ شرک نہیں بخشے گا اور اس کے علاوہ جس گناہ کو جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا۔ اور جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے"
نیز فرمایا:
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَۧ [٦:٨٢]
"جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم (شرک) سے ملوث نہیں کیا تو ایسے ہی لوگوں کے لئے امن ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں‘‘۔
آیت بالا میں ظلم سے مراد شرک ہے۔
(صحیح بخاری، التفسیر، سورۃ الانعام باب: ولم یلبسوا ایمانھم بظلم) الانعام: ۶:۸۲) حدیث ۴۶۲۹، ۲۷۷۶، والایمان، باب ظلم دون ظلم، حدیث:۳۲، و صحیح مسلم، الایمان، باب صدق الایمان و اخلاصہ، حدیث ۱۲۴)۔
اس سے ثابت ہوا کہ بعض لوگ ایمان لانے کے بعد بھی شرک کرتے ہیں جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا:
وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُہُمْ بِاللہِ اِلَّا وَہُمْ مُّشْرِكُوْنَ[١٢:١٠٦]
"اور بہت سے لوگ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود مشرک ہوتے ہیں‘‘۔
لہٰذا نماز کی قبولیت کے لئے شرط اول یہ ہے کہ اللہ تعالی کو اس کی ذات و صفات میں یکتا مانا جائے اور تسلیم کیا جائے کہ اللہ کی نہ بیوی ہے اور نہ ہی اولاد۔ کوئی اللہ کے نور کا ٹکڑا ’’نور من نور اللہ‘‘ نہیں۔ اللہ کا کسی انسان میں اتر آنے کا عقیدہ، حلول، وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کھلا شرک ہے۔ یہ بھی مانا جائے کہ کائنات کے تمام اُمور صرف اللہ تعالی کے قبضہ و اختیار میں ہیں۔ عزت و ذلت اسی کے پاس ہے۔ ہر نیک و بد کا وہی مشکل کشا اور حاجت روا ہے۔

نفع و نقصان کا مالک بھی وہی ہے اور اللہ کے مقابلے میں کسی کو ذرا سا بھی اختیار نہیں۔ ہر چیز پر اسی کی حکومت ہے اور کوئی اللہ کے مقابلے میں کسی کو پناہ نہیں دے سکتا۔ صرف اللہ تعالی ہی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس کے علاوہ ہر چیز کو فنا ہے۔ یہ بھی صرف اللہ تعالی کا حق ہے کہ وہ لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی گزارنے کا طریقہ، یعنی دین نازل کرے کیونکہ حلال و حرام کا تعین کرنا اور دین سازی اسی کا حق ہے اور حقیقی اطاعت صرف الہ کے لئے ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ دین، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ہمارے پاس بھیجا، لہٰذا آج اللہ تعالی کی اطاعت کا واحد ذریعہ وہ احکام ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے ذریعے سے پوری اُمت تک پہنچائے۔ اور آئمہ حدیث (رحمہم اللہ) نے کتب احادیث میں اس طریقے کو جمع کر دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
کتاب و سنت کی بجائے کسی مرشد، پیر یا امام کے نام پر فرقہ بندی کی اسلام میں کوئی اجازت نہیں ہے اور کسی پارلیمنٹ کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ مسلمانوں کی زندگی اور موت کے تمام معاملات پر مشتمل ایسے تعزیراتی، مالیاتی، سیاسی، اقتصادی، سماجی اور بین الاقوامی قوانین بنائے جو اللہ کے نازل کردہ احکام کے خلاف ہوں۔ نماز کی ادائیگی سے قبل مذکورہ تمام عقائد پر ایمان لانا ضروری ہے۔
(کیونکہ اللہ کی بارگاہ میں کسی عمل کی قبولیت کا انحصار بالترتیب تین چیزوں پر ہے: ۱۔ عقیدے کی درستی۔ ۲۔ نیت کی رستی۔ ۳۔ عمل کی درستی۔ ان میں سے کسی ایک میں خلل واقع ہونے سے سارا عمل مردود ہو جاتا ہے۔ اور یاد رہے کہ کتاب اللہ، سنت ثابتہ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مجموعی طرز عمل اور اجماع اُمت ہی وہ کسوٹی ہے جس پر کسی عقیدے یا عمل کی صحت کو پرکھا جا سکتا ہے۔)"ع، ر"
الحمد للہ اس کتاب کی ترتیب میں کوشش کی گئی ہے کہ احادیث صحیحہ سے مدد لی جائے۔ اس سلسلے میں ’’القول المقبول فی تخریج صلاۃ الرسول‘‘ سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔
(القول المقبول فی تخریج صلاۃ الرسول کتاب مولانا عبدالرؤف سندھو حفظہ اللہفاضل مدینہ یونیورسٹی) کی تالیف ہے اور مولانا حکیم محمد صادق سیالکوٹی کی کتاب صلاۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مذکور احادیث و اثار کی تحقیق و تخریج پر مشتمل ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ اس کتاب کو شرف قبولیت عطا فرمائے اور جن دوستوں نے اس کتاب کی ترتیب و تزئین میں تعاون کیا ہے ان تمام معاونین کی اُخروی نجات کا ذریعہ بنائے۔ خصوصاً مولانا عبدالرشید صاحب ـ(ناظم ادارہ علوم اسلامیہ، سمن آباد، جھنگ) کو اللہ تعالی جزائے خیر دے جنہوں نے اپنے قیمتی اوقات میں سے وقت نکال کر پوری کتاب کا مطالعہ کیا اور بعض مقامات پر اصلاح فرمائی۔ آمین!
میں دارالسلام پبلشرز کے ذمہ داران خصوصاً برادرم حافظ عبدالعظیم اسد مینجنگ ڈائیریکٹر لاہور کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے خصوصی دلچسپی لے کر اس کتاب کی تصحیح و تنقیح میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا اور نہایت محبت سے اس کتاب کی شایانِ شان اشاعت کا اہتمام کیا۔

سید شفیق الرحمن​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مقدمۃ التحقیق

(جدید ایڈیشن)​

قارئین کرام!
نماز، دین کا انتہائی اہم رکن ہے۔ اس کی فرضیت قرآن مجید اور متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ تمام مسلمانوں کا نماز کے فرض عین ہونے پر اجماع ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو فرمایا:
فاعلمھم ان اللہ افترض علیہم خمس صلوات فی کل یوم و لیلۃ
"پھر انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالی نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں‘‘۔
صحیح البخاری، الزکاۃ، باب وجوب الزکاۃ، حدیث ۱۳۹۵
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھنے کا طریقہ سکھایا اور انہیں حکم دیا:
صلوا کما رایتمونی اصلی
"تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہو‘‘۔
صحیح البخاری، الاذان، باب الاذان للمسافرین، حدیث: ۶۳۱۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
نماز کی اسی اہمیت کے پیش نظر بہت سے ائمہ مسلمین نے نماز کے موضوع پر متعدد کتابیں لکھی ہیں، مثلاً:
ابونعیم فضل بن دکین رحمہ اللہ (متوفی ۲۱۸ھ) کی ’’کتاب الصلاۃ‘‘ وغیرہ۔
علاوہ ازین عصر حاضر میں بھی اردو اور علاقائی زبانوں میں متعدد کتابیں شائع ہوئی ہیں۔
لیکن ان میں اکثر کتابیں اکاذیب، موضوع احادیث، ضعیف و مردود روایات، تضادات اور علمی مغالطوں پر مشتمل ہیں، مثلاً:

*الدلائل السنیۃ فی اثبات الصلاۃ السنیۃ"تصنیف: محمد امان اللہ ابوبکر محمد کریم اللہ"
*رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز"۔ تصنیف: مفتی جمیل احمد نذیری"
*دپیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم مونح"(پشتو) تصنیف: ابویوسف محمد ولی درویش"
*نماز مدلل" تصنیف: فیض احمد ککروی ملتانی"
*نماز پیغمبر" تصنیف: محمد الیاس فیصل"
*نماز مسنون کلاں" تصنیف: صوفی عبدالحمید سواتی"
*نبوی نماز مدلل" پہلا حصہ (سندھی) تصنیف: علی محمد حقانی"
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
گو یہ مختصر مقدمہ تفصیلی بحث کا متحمل نہیں ہے، تاہم بطور نمونہ مذکورہ بالا نقائص کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں:
اکاذیب:
"الدلائل السنیۃ" میں ہے:
عن ابن عباس رضی اللہ عنہما عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال: اعتموا تزدادوا حلما
(رواہ ابوداود، و البیھقی و البزار، و الطبرانی (ص:۶۴، ۶۵)۔
"ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘عمامہ باندھا کرو (اس سے) حلم بڑھے گا‘‘
(ابوداود، بیھقی، بزار، طبرانی) الدلائل السنیہ اردو نسخہ، ص:۴۵)
حالانکہ اس روایت کا سنن ابوداود میں کوئی وجود نہیں ہے بلکہ صحاح ستہ کی کسی کتاب میں بھی یہ روایت نہیں ہے۔ غیر صحاح ستہ میں بھی یہ سخت ضعیف سندوں سے مروی ہے۔
*اسی طرح صاحب کتاب نے ایک اور موضوع روایت کو ترمذی اور ابوداود کی طرف منسوب کر کے اس کی تحسین امام ترمذی سے اور تصحیح امام ابن حزم سے نقل کی ہے۔ (دیکھئے الدلائل السنیۃ (عربی)، ص: ۱۳۱، ۱۳۲، اردو، ص:۷۴)۔
حالانکہ یہ روایت بھی جامع ترمذی اور سنن ابوداود میں موجود نہیں ہے اور اسے امام ترمذی نے حسن کیا ہے نہ ابن حزم نے صحیح، البتہ یہ روایت امام ابن جوزی کی کتاب "الموضوعات"(جھوٹی حدیثوں کا مجموعہ) میں ضرور پائی جاتی ہے۔ (دیکھئے: الموضوعات: ۲/۹۶)۔

*اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں (رات کو) گیارہ رکعات پڑھتے تھے، پہلے چار پڑھتے، پھر تین پڑھتے ……۔ الخ۔
(صحیح البخاری، صلاۃ التراویح، باب فضل من قام رمضان، حدیث: ۲۰۱۳)۔

اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے مفتی جمیل احمد نذیری صاحب فرماتے ہیں:
"اس حدیث میں ایک سلام سے چار چار رکعتیں پڑھنے کا ذکر ہے جبکہ تراویح ایک سلام سے دو دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں۔"
(رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز، ص:۲۹۶)

حالانکہ صحیح بخاری کی اس حدیث میں ’’ایک سلام سے‘‘ کے الفاظ قطعاً نہیں ہیں۔ بلکہ صحیح مسلم میں اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت درج ذیل الفاظ کے ساتھ مروی ہے:
"یسلم بین کل رکعتین و یوتر بواحدۃ"
"آپ ہر دو رکعتوں پر سلام پھیرتے اور ایک وتر پڑھتے تھے۔"
(صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ اللیل و عدد رکعات النبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیث:۷۳۶)

*شرح معانی الآثار: (۱/۱۲۹۔ ایک نسخے کے مطابق، ص:۱۵۱، ایک اور نسخے کے مطابق، ص:۲۱۹) اور نصب الرایہ (۲/۱۲) میں ابن عمر، زید بن ثابت اور جابر رضی اللہ عنہم سے ایک حدیث مروی ہے کہ جبکہ جناب فیض احمد ککروی صاحب اسے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ (نماز مدلل، ص:۹۱)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
موضوع احادث (من گھڑت روایتیں)
جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ میں فائد بن عبدالرحمن ابو الورقائ عن عبداللہ بن ابی اوفی کی سند سے (صلاۃ الحاجۃ) والی حدیث مروی ہے۔ (جامع الترمذی، الوتر، باب ما جائ فی صلاۃ الحاجۃ، حدیث:۴۷۹، و سنن ابن ماجہ، اقامۃ الصلوات باب ما جائ فی صلاۃ الحاجۃ، حدیث۱۳۸۴)

اسے ابوالقاسم رفیق دلاوری نے ‘‘عماد الدین’’ (ص:۴۳۹، ۴۴۰بحوالہ جامع ترمذی و قال: حدیث غریب) میں نقل کیا گیا ہے۔ حالانکہ فائدہ مذکور کے بارے میں امام ابوحاتم رازی (متوفی۲۷۷ھ) فرماتے ہیں:
و احادیثہ عن ابن ابی اوفی بواطیل
’’اور اس کی سیدنا ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ احادیث باطل ہیں۔"
(تھذیب التھذیب: ۸/۲۳۹، ۲۳۰، کتاب الجرح و التعدیل: ۷/۸۴۔)

حاکم نیشاپوری فرماتے ہیں:
"یروی عن ابن ابی اوفی احادیث موضوعۃ"
"وہ سیدنا ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ (کے حوالے) سے موضوع روایات بیان کرتا تھا‘‘۔
(المدخل الی الصحیح ص:۱۸۴۔ ۵۵، و تھذیب التھذیب:۸/۲۳۰)۔

محمد زکریا صاحب کے ’’تبلیغی نصاب‘‘ میں بھی فائدہ مذکور کو ’’متروک‘‘ لکھا گیا ہے۔
(تبلیغی نصاب، ص:۵۹۹، و فضائل ذکر، ص:۱۲۱، حدیث:۳۵)۔

محدث ابن جوزی نے فائد کی یہ روایت اپنی کتاب ‘‘الموضوعات‘‘ :۲/۱۴۰میں ذکر کی ہے۔

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منسوب ایک موضوع روایت کا تذکرہ ص:۱۰پر گزر چکا ہے۔ متعدد مصنفین نے یہ روایت بطور استدلال ذکر کی ہے، مثلا: ابویوسف درویش نے "دپیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم مونح" (پشتو، ص:۲۹۳) میں فیض احمد ککروی نے ’’نماز مدلل‘‘ (ص:۱۳۱) میں اور صوفی عبدالحمید سواتی نے ’’نماز مسنون کلاں‘‘ (ص:۳۴۳) میں۔

درویش صاحب نے اس روایت کے مرکزی راوی محمد بن جابر کا دفاع کرنے کی کوشش کی ہے اور خود اپنی اسی کتاب میں ص:۵۲پر لکھا ہے: (یہ ھغہ حدیث کبنں محمد بن جابر روای دے، او دھ تہ دوئی بتول ضعیف وائی)۔
اس حدیث میں مرکزی راوی محمد بن جابر ہے اور اسے یہ سب ضعیف کہتے ہیں۔

مسعود احمد بی ایس سی نے اپنی کتاب ’’صلاۃ المسلمین‘‘ کے بارے میں یہ بلند و بالا دعویٰ کر رکھا ہے کہ ‘‘اس کتاب میں کوئی ضعیف حدیث نہیں لی گئی’’ة

حالانکہ اسی کتاب کے صفحہ: ۳۰۵تا صفحہ:۳۰۷پر مصنف عبدالرزاق:۳/۱۱۶سے "معمر عن عمرو عن الحسن‘‘ کی سند سے مراد، ابن عبید ہے۔ (دیکھیے مصنف عبدالرزاق:۱۱/۸۳، حدیث ۱۹۹۸۵)۔ تہذیب الکمال وغیرہ میں یہ صراحت ہے کہ امام حسن بصری کا شاگرد، عمرو بن عبید معتزلی تھا۔ اس شخص کے بارے میں امام ایوب سختیانی وغیرہ نے کہا: ’’یکذب‘‘ یعنی ‘‘جھوٹ بولتا تھا‘‘۔ امام حمید الطویل نے کہا: کان یکذب علی الحسن ’’وہ حسن (بصری) پر جھوٹ بولتا تھا۔ بلکہ امام یحییٰ بن معین نے گواہی دی:
کان عمرو بن عبید رجل سوء من الدھر بہ
"عمرو بن عبید گندا آدمی تھا (اور) دہریوں میں سے تھا-"
(تھذیب الکمال:۱۴/۲۷۶)۔
ایسے دہریہ کذاب کی روایت کو "سندہ صحیح" کہنا بہت بڑی جرات اور حوصلے کی بات ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

مستدرک حاکم: 563, 562/2 میں صحیح مسلم کے ایک راوی )اسماعیل بن عبدالرحمٰن بن ابی کریمہ السیدی ( کی ایک روایت ہے جسے امام حاکم اور حافظ ذہبی دونوں صحیح مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیتے ہیں۔ مستدرک کی اسی جلد میں )ص: 260-258 ( پر السدی کے ساتھ اسماعیل بن عبدالرحمٰن ) اس کے نام ( کی صراحت ہے۔ مسعود صاحب اس کے بارے میں لکھتے ہیں:
" سند میں السدی کذاب ہے"
{تاریخِ اسلام و المسلمین معلول: 95/1 ، حاشیہ:8 ، طبع دوم۔}

حالانکہ اسماعیل بن عبدالرحمٰن السدی صحیح مسلم کا راوی اور "حسن الحدیث" ہے۔
{الکاشف للذہبی:79/1}

اس پر امام ابو حاتم وغیرہ کی معمولی جرح مردود ہے۔

اسے کسی محدث نے کذاب نہیں کہا، البتہ جوزجانی (ناصبی)نے محمد بن مروان السدی کو "کذاب شتام" لکھا ہے۔ جو غلطی سے اسماعیل مذکور کی طرف منسوب ہوگیا ہے۔ ابن عدی ( جو مختلف راویوں کی بابت جوزجانی کے اقوال بھی نقل کرتے ہیں) نے اسماعیل مذکور کے ترجمہ میں جوزجانی کا یہ قوال ذکر نہیں کیا۔ یہ ہے مسعود صاحب کا مبلغِ علم کہ وہ موضوع کو صحیح اور صحیح کو موضوع گردانتے ہیں۔ اور پھر وہ اپنی زندگی میں عام مسلمانوں کی تکفیر پر بھی کمر بستہ رہے۔۔۔۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ضعیف روایات
ان کتب میں بے شمار ایسی روایات موجود ہیں جن کے ضعیف و مردود ہونے پر اتفاق ہے، مثلا: یزید بن ابی زیاد کی ترک رفع یدین والی روایت۔ دیکھیے" نبوی نماز( سندھی )ص:355 " " د پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم مونح، ص:294 " اور " نماز مدلل" ص: 131،130 وغیرہ۔

ان کے علاوہ درج ذیل کتابوں میں بھی ضعیف روایات موجود ہیں: "صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ص:135 "
( دیکھیے القول المقبول فی تخریج صلاۃ الرسول، ص:440 ، حدیث: 382 )
(صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم" از خالد گرجا کھی، ص: 342، 343 )
اور
(صلاۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم، ص: 214 )
دیکھیے القول المقبول، حدیث: 310 ، وغیرہ۔
 
Top